YOUR INFO

Friday, 8 March 2013

رفع الیدین کے مواقع

0 comments

رفع الیدین کے مواقع
تکبیر تحریمہ ، رکوع جاتے ہوئے ، رکوع سے اُٹھتے ہوئے دوسری رکعت سے اُٹھ کر، تکبیرات جنازہ وعیدین پر رفع الیدین کرنا رسول اللہﷺ سے مأثور ومنقول ہے اور اس کے علاوہ اورکسی موقع پر رفع الیدین کرنا خلاف سنت ہے۔ جس کے دلائل درج ذیل ہیں۔
تکبیر تحریمہ ، عند الرکوع وبعدا لرکوع رفع الیدین:۔
۱۔       عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ:
"كان إذا دخل في الصلاة كبر ورفع يديه ، وإذا ركع رفع يديه ، وإذا قال : سمع الله لمن حمده ، رفع يديه ، وإذا قام من الركعتين رفع يديه "
[صحيح البخاري، كتاب الأذان، باب رفع اليدين إذا قام من الركعتين، حديث:‏739]
"جب نماز کا آغاز فرماتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین فرماتے، اور جب رکوع کرتے تو اپنے ہاتھوں کو اُٹھاتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو رفع الیدین کرتے، اور جب دو رکعتوں سے اُٹھتے تو پھر بھی رفع الیدین فرماتے۔"
۲۔       عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے دیکھا :
"إذا قام في الصلاة رفع يديه حتى يكونا حذو منكبيه ، وكان يفعل ذلك حين يكبر للركوع ، ويفعل ذلك إذا رفع رأسه من الركوع ، ويقول : سمع الله لمن حمده ، ولا يفعل ذلك في السجود "
[صحيح البخاري، كتاب الأذان، باب رفع اليدين إذا كبر وإذا ركع وإذا رفع، حديث:‏736]
"جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے حتی کہ وہ دونوں کندھوں کے برابر ہوجاتے اور یہی کام آپ اس وقت بھی فرماتے جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اور جب  اپنا سر رکوع سے اُٹھاتے اور سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو بھی اسی طرح کرتے اور یہ کام سجدوں میں نہ فرماتے۔"
          عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت تو تمام لوگ ہی رفع الیدین کرتے ہیں لیکن رکوع جاتے ہوئے، رکوع سے اُٹھتے ہوئے اور دوسری رکعت سے اُٹھ کر عموماً رفع الیدین کرنے کا خیال نہیں رکھا جاتا اور ان لوگوں کے دو گروہ ہیں ۔ ایک تو وہ جو سرے سے ہی مذکورہ رفع الیدین کے منکر ہیں ۔ ان کے دلائل اور ان کا محاکمہ ہم بعد میں ذکر کریں گے (ان شاء اللہ) اور دوسرے کچھ ایسے ہیں جو سنی سنائی پر یقین کرکے اور دیکھا دیکھی ان مواقع پر رفع الیدین کرنے میں کوتاہی برتتے ہیں۔ عام طور پر جب وہ تمام تر رکعات امام کے ساتھ پالیتے ہیں یا منفرداً نماز ادا کرتے ہیں تو ان مواقع پر رفع الیدین کرتے ہیں لیکن جب ان کی ایک رکعت رہ جائے تو پھراس رفع الیدین کے احکام سے ناآشنائی کی وجہ سے تقصیر کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور بعض ان میں سے ایسے ہیں جو امام کی اقتداء والی احادیث سے دلیل پکڑتے ہوئے ان مواقع پر رفع الیدین ترک کردیتے ہیں جبکہ وہ انھی احادیث غور نہیں کرتے ۔
مثلاً:۔    رسول اللہ ﷺ کا فرمان : " إذا أتى أحدكم الصلاة والإمام على حال فليصنع كما يصنع الإمام "
[جامع الترمذي  ،أبواب الجمعة،باب ما ذكر في الرجل يدرك الإمام وهو ساجد كيف يصنع،  حديث:‏591]
"جب تم میں سے کوئی شخص نماز کے لیے آئے اور امام جس حلات میں بھی ہو وہ ویسے ہی کرے جس طرح سے امام کررہا ہے۔"
اس حدیث کے ذریعہ رکوع جاتتے ہوئے رفع الیدین کو ترک کردیتے ہیں جب امام کو رکوع کی حلات میں پاتے ہیں جبکہ تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین کرتے ہیں اور تکبیر بھی کہتے ہیں۔ یا للعجب!!!
کیونکہ اگر " فليصنع كما يصنع الإمام "سے رکوع جانے کی تکبیر اور رفع الیدین کی نفی مانی جائے تو تکبیر تحریمہ اور اس کے رفع الیدین کی نفی بھی ماننا پڑے گی اور وہ مقتدی جو اس وقت آیا جب امام رکوع کی حالت میں تھا اس کو " فليصنع كما يصنع الإمام " کے تحت بغیر تکبیر تحریمہ و تکبیر رکوع کہے اور رفع الیدین کیے سیدھا رکوع میں چلے جانا چاہیے تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوتا بلکہ وہ تکبیر تحریمہ کہتا اور رفع الیدین کرتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ جب بھی نماز کا آغاز فرماتے تو تکبیر تحریمہ کہتے اور رفع الیدین فرماتے، اس طریقہ کار کو اپنائے بغیر وہ نماز میں شامل نہیں ہوسکتا ، بعینہ رسول اللہ ﷺ جب بھی رکوع میں جاتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین فرماتے ۔ لہٰذا وہ شخص جو اس وقت نماز میں شامل ہوا جب امام رکوع کی حالت میں تھا اس کو " فليصنع كما يصنع الإمام " کے حکم کے تحت فوراً رکوع میں ہی جانا چاہیے لیکن رکوع میں پہنچنے کے لیے طریقہ اپنی طرف سے نہ گھڑے بلکہ وہ طریقہ اپنائے جو رسول اللہ ﷺ نے دیا ہے ، یعنی پہلےتکبیر تحریمہ کہے اور رفع الیدین کرے اور پھر فوراً دوبارہ تکبیر رکوع کہے اور رفع الیدین کرے اور پھر رکوع میں جائے۔
کیونکہ تکبیر تحریمہ و رفع الیدین کے بغیر نماز کاآغاز کرنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہ ہے اور تکبیر ورفع الیدین کے بغیر رکوع میں جانا بھی سید الأنبیاء ﷺ سے ثابت نہ ہے۔
یاد رہے کہ وہ تکبیر تحریمہ کے بعد ہاتھ نہیں باندھے گا بلکہ فوراً دوسری تکبیر، تکبیر رکوع اور رفع الیدین برائے رکوع کرے گا کیونکہ رسول اللہﷺ ہاتھ قیام میں باندھا کرتے تھے۔
نیز یہ بھی کہ جب کوئی شخص اس وقت پہنچا جب امام رکوع سے سر کو اُٹھا کر سمع اللہ لمن حمدہ کہہ چکا ہو تو وہ تکبیر تحریمہ ورفع الیدین کےبعد " فليصنع كما يصنع الإمام " والے اصول کے تحت دونوں ہاتھوں کو چھوڑ کر کھڑا ہوجائے گا اور ربنا لک الحمد کہتے ہوئے امام کے ساتھ ملے گا کیونکہ سمع اللہ لمن حمدہ کہنا اور اس کے ساتھ رفع الیدین کرنا صرف اس شخص کے لیے ہے جو رکوع سے اُٹھے اس نے نہ تو رکوع کیا ہے اور نہ ہی یہ رکوع سے اُٹھ رہا ہے لہٰذا اس کے لیے تسمیع کہنا یا رفع الیدین کرنا مشروع نہیں ہے۔ اسی طرح جو شخص امام کو سجدہ کی حالت میں پائےوہ تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے چلا جائے لیکن سجدہ میں جاتے ہوئے تکبیر کہنا نہ بھولے کیونکہ رسول اللہ ﷺ جب بھی سجدہ میں جاتے تو تکبیر  کہتے یعنی یہ شخص پہلے تکبیر تحریمہ کہے گا اور رفع الیدین کر ے گا اور اس کے فوراً بعد دوبارہ سجدے کے لیے تکبیر کہتے ہوئے سجدہ میں چلا جائے گا۔ (اس موضوع کی مزید تفصیل "اقتداء کے مسائل" میں بیان کی جائے گی۔ ان شاء اللہ )
دوسری رکعت سے اُٹھ کر رفع الیدین:۔
اسی طرح وہ رفع الیدین جو دورکعات کو مکمل کرکے تیسری رکعت کےلیے کھڑے ہو کر رسول اللہﷺ فرمایا کرتے تھے ، عموماً لوگوں نے اس کو تشہد کے ساتھ جوڑ دیا ہے کہ جب بھی تشہد سے اُٹھتے ہیں تو اگلی رکعت کے لیے رفع الیدین کر لیتے ہیں جبکہ ایسا کرنا خلاف سنت ہے کیونکہ رسول اللہﷺ جب بھی تشہد سے اُٹھتے تو رفع الیدین فرماتے ، جیسا کہ آغاز میں ذکر کردہ حدیث کے الفاظ سے واضح ہے۔
اس غلط فہمی کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ مسبوق جس کی ایک رکعت رہ گئی جب امام تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور رفع الیدین کرتا ہے تو یہ بھی امام کے ساتھ ہی رفع الیدین کر لیتا ہے جبکہ اس کی ابھی ایک رکعت ہوئی ہوتی ہے۔ (امام کی اقتدا ء کن چیزوں میں اور کن چیزوں میں نہیں ، یہ بات دلائل سمیت "اقتداء کے مسائل" میں بیان ہوگی)جبکہ رفع الیدین کرنے میں امام کی اقتداء کرنا ثابت نہ ہے اور پھر جب اس کی دو رکعتیں مکمل ہوتی ہیں یعنی جب امام چوتھی رکعت اور یہ مسبوق تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو یہ موقع اس کے رفع الیدین کرنے کا ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ جب بھی دو رکعتوں سے اُٹھتے تو رفع الیدین فرماتے ، لیکن اس موقع پر یہ رفع الیدین نہیں کرتا اور جب امام اپنی چاروں رکعات مکمل کرکے سلام پھیر دیتا ہے اور یہ مسبوق اپنی چوتھی رکعت کے لیے تین رکعتیں مکمل کرکے اُٹھتا ہے تو پھر رفع الیدین کردیا ہے، جبکہ تیسری رکعت سے اُٹھ کر رفع الیدین کرنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں۔
اسی طرح جب عموماً تین وتر ایک سلام سے اکٹھے پڑھے جاتے ہیں تو بھی ننانوے فیصد لوگ دوسری رکعت سے اُٹھتے ہوئے رفع الیدین نہیں کرتے کیونکہ ذہن یہ بن چکا ہے کہ جب تشہد سے اُٹھ کر اگلی رکعت شروع کریں گے تو رفع الیدین کرنا ہے ۔ جبکہ یہ ایسا نظریہ ہے کا " ما أنزل اللہ بھا من سلطان" اور دوسری رکعت سے اُٹھنے پرصحیح بخاری کی حدیث سے دلیل پیش کی جاچکی ہے۔
لہٰذا جب بھی نمازی دوسری رکعت سے اُٹھے اور تیسری رکعت کا آغاز کرے تو وہ سنت نبوی ﷺ کے مطابق رفع الیدین کرے ، خواہ دوسری رکعت کے آخر میں تشہد ہو خواہ نہ ہو۔ اور پہلی ، تیسری ، چوتھی، پانچویں، چھٹی، ساتویں اور آٹھویں رکعت سے اُٹھتے ہوئے رفع الیدین نہ کیا جائے کیونکہ اس موقع پر رفع الیدین کرنا امام الأنبیاء سے ثابت نہیں ہے۔
تکبیرات عیدین:۔
اسی طرح کچھ لوگ تکبیرات عیدین اور تکبیرات جنازہ پر رفع الیدین نہیں کرتے حالانکہ ان مواقع پر رفع الیدین کرنا رسول اللہﷺ سے ثابت ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے رفع الیدین کے مواقع بیان فرماتے ہوئے کہتے ہیں: "ويرفعهما في كل تكبيرة يكبرها قبل الركوع حتى تنقضي صلاته "
[سنن أبي داود، كتاب الصلاة، باب رفع اليدين في الصلاة، حديث:‏722، سنن الکبری للبيهقی 2/83 (2374)، 3/292 (5983)]
"اور (رسول اللہ ﷺ) ان دونوں (ہاتھوں) کو ہر اس تکبیر میں اُٹھاتے تھے جو تکبیر آپﷺ رکوع سے قبل کہتے تھے۔"
اور یہ حدیث نماز عیدین کے سوا اور کسی جگہ پر صادق نہیں آتی کیونکہ نماز عیدین کے علاوہ رکوع سے قبل تکبیر تحریمہ کے علاوہ اور کوئی تکبیر ثابت ہی نہیں۔ لہٰذا تکبیرات عیدین پر رفع الیدین کرنا سنت مصطفوی ﷺ ہے اور اس کے تارکین مخالفین سنت ہیں۔
تکبیرات جنازہ پر رفع الیدین:۔
                   اور اسی طرح تکبیرات جنازہ پر رفع الیدین کرنے کےبارہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: "أن النبی  صلى الله عليه وسلم کان إذا صلی علی جنازة رفع يديه فی کل تکبيرة وإذا انصرف سلم"
[علل دارقطني13/22 (2908)]
"یقیناً رسول اللہ ﷺ جب نماز جنازہ پڑھتے تو ہر تکبیر پر رفع الیدین فرماتے اور جب مکمل کرلیتے تو سلام پھیرتے ۔"
مذکورہ بالاحدیث تکبیرات جنازہ پر رفع الیدین کے سنت ہونے کی واضح ترین دلیل ہے۔ لہٰذا اس سنت کو ترک کرکے استخفاف ِسنت کے فتنے میں داخل نہ ہوا جائے بلکہ اس پر عمل کرکے سنت سے سچی محبت کا ثبوت دیاجائے۔
رفع الیدین عند السجود:۔
اسی طرح کچھ لوگ سجدہ میں جاتے ہوئے اور اُٹھتے ہوئے رفع الیدین کے قائل ہیں کہ کبھی کبھی کرلینی چاہیے ۔ اور کبھی کبھی کر لینے کی بات انھوں نے ان احادیث کو صحیح سمجھتے ہوئے بطور تطبیق کہی ہے جن میں عندالسجود رفع الیدین کا ذکر ہے۔ جبکہ حقیقت ِحال اس کے برعکس ہے یعنی جن روایات میں رفع الیدین عندالسجود کا ذکر ہے ان میں سے کوئی بھی پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ ان تمام روایات میں سے سب سے زیادہ جس روایت کو پیش کیا جاتا ہے وہ مالک بن الحویرث والی روایت ہے جس کو امام نسائی نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے: " رأى النبي صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته ، وإذا ركع ، وإذا رفع رأسه من الركوع ، وإذا سجد ، وإذا رفع رأسه من السجود حتى يحاذي بهما فروع أذنيه"
[سنن نسائى  ،  كتاب التطبيق،  باب رفع اليدين للسجود ، حديث:‏108۵‏]
مالک بن الحویرث فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے اپنی نماز کے آغاز میں، رکوع جاتے ہوئے، رکوع سے اُٹھتے ہوئے، سجدہ میں جاتے ہوئے اور سجدے سے اُٹھتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کوکانوں کی لو تک اُٹھایا۔
اور حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ نے اس حدیث کو یہ کہتے ہوئے ذکر کیا ہے " وأصح ما وقفت علیہ من الأحادیث فی الرفع فی السجود مارواہ النسائی من روایۃ سعید بن ابی عروبۃ عن قتادۃ۔۔۔ الخ"
[فتح الباری 2/223]
"رفع الیدین عندالسجود والی روایات میں جس صحیح ترین حدیث پر میں مطلع ہوا ہوں وہ روایت ہے جس کو امام نسائی نے سعید بن ابی عروبۃ عن قتادہ کی سند سے بیان کیا ہے ۔۔۔ الخ
          حافظ ابن حجر علیہ الرحمۃ کی اس عبارت کو بطور ددلیل وہ لوگ پیش کرتے ہیں کہ دیکھو حافظ صاحب نے بھی اس حدیث کو صحیح ترین کہہ دیا ہے ،جبکہ ان علم کے دشمنوں کو بات کی سمجھ ہیں نہی آئی ۔ حافظ صاحب تو اس جملہ میں اس موضوع سے متعلق تمام تر روایات کو ضعیف ترین کہہ گئے ہیں، کیونکہ اس کی سند میں سعید بن ابی عروبہ مختلط ومدلس راوی ہے اور اسی طرح قتادہ بھی مدلس راوی ہے جبکہ دونوں بیان بھی صیغۂ عن سے کررہے ہیں۔ یعنی یہ روایت تدلیس سعید، اختلاط سعید او ر تدلیس قتادہ کی وجہ سے ضعیف ہے اور باقی روایات اضعف ہیں۔
یاد رہے کہ کسی ضعیف حدیث کو کسی محدث کا اصح شیئ فی ھذالباب کہنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس موضوع کی تمام تر روایات ضعیف ہیں۔ لیکن ان روایات میں سے یہ روایت سب سےکم ضعف والی ہے۔ نہ کہ روایت صحیح، (کما زعمہ بعضھم) تو جس روایت کو حافظ صاحب اصح کہہ رہے ہیں جب اس روایت کا یہ حال ہی اتنا پتلا ہے تو باقی مرویات کے بارہ میں خود سمجھ لیں کہ ان کے ضعف کا عالم کیا ہوگا۔
ذیل میں چند روایات کا بطور نمونہ ذکر کیے دیتے ہیں۔
۱۔       ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ: "کان یرفع یدیہ حذو منکبیہ حین یکبر ویفتتح الصلاۃ وحین یرکع وحین یسجد۔"
[مسند احمد (6128)]
اس روایت کو اسماعیل بن عیاش الحمصی نے عبدالرحمن بن ھرمز الاعرج المدنی سے روایت کیا ہے اور اہل علم کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ اسماعیل بن عیاش کی غیر شامیین سے روایت ضعیف ہوتی ہے۔
۲۔      عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ "کان یرفع یدیہ عند التکبیر للرکوع وعند التکبیر حین یھوی ساجداً"
[معجم الاوسط للطبرانی 1/10(16)]
اس روایت کا سُقم اتنا ہی کافی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں "ولا یفعل ذلک فی السجود" کےا لفاظ منقول ہیں۔
۳۔      عبداللہ بن زبیر کے بارہ میں میمون مکی کہتے ہیں وہ ان کو نماز پڑھاتے اور "یشیر بکفیہ حین یقوم وحین یرکع وحین یسجد وحین ینھض للقیام۔۔۔ الحدیث
[مسند احمد(2308)، (3622)، سنن ابی داؤد (739)]
اس کی سند میں ابن لھیعہ مختلط راوی ہے اور میمون مکی (ابن زبیر سےبیان کرنے والا) مجہول ہے۔
۴۔      انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ "کان یرفع یدیہ فی الرکوع والسجود۔
[مسند ابی یعلی 6/399، مصنف ابنی ابی شیبہ 1/235(3752)]
اس سند میں حمید الطویل مدلس ہے اور صیغہ  "عن" سے روایت کر رہا ہے۔ لہٰذا یہ روایت تدلیس حمید کی وجہ سے غعیف ہے۔ نیز عبدالوہاب الثقفی مختلط ہے۔
یہ چند روایات بطور مثال ذکر کی ہیں اور باقیوں کا حال بھی اسی طرح ہے۔
جبکہ سجدوں میں رفع الیدین نہ کرنے کی صراحت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی صحیح بخاری والی روایت سے ہم پہلے بیان کرچکے ہیں، جس سے وضاحت ہوتی ہے کہ سجدوں میں رفع الیدین کرنا رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں ہے۔
ھذا ماعندی واللہ تعالیٰ اعلم وردالعلم الیہ اسلم وعلمہ اکمل واتم والدعاء لمن بنہ وارشد وقوم
الراجی الی عفو ربہ الظاہر
ابوعبدالرحمن محمد رفیق الطاہر
مدرس جامعہ دارالحدیث المحمدیہ
عام خاص باغ ملتان

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔