YOUR INFO

Monday 29 July 2013

نماز استخارہ

0 comments

نماز استخارہ
ميں نماز استخارہ كے متعلق مزيد معلومات حاصل كرنا چاہتا ہوں، مثلا اس ميں تلاوت كيا كروں، اور كونسى دعاء كروں، ركعات كى تعداد كتنى ہے اور اس كا اجروثواب كيا ہے؟
اور كيا حنبلى، اور شافعى اور حنفى مسلك ميں نماز كا يہى طريقہ ہے ؟


الحمد للہ :
اگر كوئى شخص كوئى كام كرنا چاہے اور وہ اس ميں متردد ہو تو اس كے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز استخارہ مشروع كى ہے اور يہ سنت ہے، نماز استخارہ كے متعلق ان سطور ميں درج ذيل آٹھ نقاط ميں بحث كى جائے گى:
1 - نماز استخارہ كى تعريف.
2 - نماز استخارہ كا حكم
3 - اس كى مشروعيت كى حكمت كيا ہے.
4 - نماز استخارہ كا سبب كيا ہے.
5 - استخارہ كب كيا جائے گا.
6 - استخارہ كرنے سے قبل مشورہ كرنا.
7 - نماز استخارہ ميں كيا پڑھا جائے گا.
8 - استخارہ كى دعاء كب كى جائے گى.
نماز استخارہ كى تعريف:
استخارہ كى لغوى تعريف: كسى چيز ميں سے بہتر كو طلب كرنا، كہا جاتا ہے: استخر اللہ يخر لك، اللہ تعالى سے استخارہ كرو وہ تمہارے ليے بہتر اختيار كر دے گا.
استخارہ كى اصطلاحى تعريف:
اختيار طلب كرنا. يعنى نماز يا نماز استخارہ ميں وارد شدہ دعاء كے ساتھ اللہ تعالى كے ہاں جو بہتر اور اولى و افضل ہے اس كى طرف پھرنے اور وہ كام كرنا طلب كرنا.
نماز استخارہ كا حكم:
نماز استخارہ كے سنت ہونے ميں علماء كرام كا اجماع ہے، اور اس كى مشروعيت كى دليل بخارى شريف كى مندرجہ ذيل حديث ہے:
جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے ہميں سارے معاملات ميں استخارہ كرنے كى تعليم اس طرح ديا كرتے تھے جس طرح ہميں قرآن مجيد كى سورۃ كى تعليم ديتے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرماتے:
" جب تم ميں سے كوئى ايك شخص كام كرنا چاہے تو وہ فرض كے علاوہ دو ركعت ادا كر كے يہ دعاء پڑھے:
" اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلامُ الْغُيُوبِ اللَّهُمَّ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ هَذَا الأَمْرَ ثُمَّ تُسَمِّيهِ بِعَيْنِهِ خَيْرًا لِي فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ قَالَ أَوْ فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ اللَّهُمَّ وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفْنِي عَنْهُ [ واصرفه عني ] وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ رَضِّنِي بِهِ "
اے اللہ ميں ميں تيرے علم كى مدد سے خير مانگتا ہوں اور تجھ سے ہى تيرى قدرت كے ذريعہ قدرت طلب كرتا ہوں، اور ميں تجھ سے تيرا فضل عظيم مانگتا ہوں، يقينا تو ہر چيز پر قادر ہے، اور ميں ( كسى چيز پر ) قادر نہيں، تو جانتا ہے، اور ميں نہيں جانتا، اور تو تمام غيبوں كا علم ركھنے والا ہے، الہى اگر تو جانتا ہے كہ يہ كام ( جس كا ميں ارادہ ركھتا ہوں ) ميرے ليے ميرے دين اور ميرى زندگى اور ميرے انجام كار كے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے ميرے مقدر ميں كر اور آسان كر دے، پھر اس ميں ميرے ليے بركت عطا فرما، اور اگر تيرے علم ميں يہ كام ميرے ليے اور ميرے دين اور ميرى زندگى اور ميرے انجام كار كے لحاظ سے برا ہے تو اس كام كو مجھ سے اور مجھے اس سے پھير دے اور ميرے ليے بھلائى مہيا كر جہاں بھى ہو، پھر مجھے اس كے ساتھ راضى كردے.
اور وہ اپنى ضرورت اور حاجت يعنى كام كا نام لے.
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1166 ) يہ حديث كئى ايك جگہ ميں امام بخارى رحمہ اللہ نے ذكر كي ہے.
نماز استخارہ كى مشروعيت كى حكمت:
استخارہ كى مشروعيت ميں حكمت يہ ہے كہ اللہ تعالى كے حكم كے سامنے سر خم تسليم كيا جائے، اور طاقت و قدرت سے نكل كر اللہ تعالى كى طرف التجاء كى جائے، تا كہ وہ دنيا و آخرت كى خير و بھلائى جمع كر دے، اور اس كے ليے اس مالك الملك سبحانہ وتعالى كا دروازہ كھٹكھٹانے كى ضرورت ہے، اور اس كے ليے نماز اور دعاء سے بڑھ كر كوئى چيز بہتر اور كامياب نہيں كيونكہ اس ميں اللہ تعالى كى تعظيم اور اس كى ثناء اور اس كى طرف قولى اور حالى طور پر محتاجگى ہے، اور پھر استخارہ كرنے كے بعد اس كے ذہن ميں جو آئے وہ اس كام كو سرانجام دے.
استخارہ كا سبب:
( جن ميں استخارہ كيا جاتا ہے ) اس كا سبب يہ ہے كہ: مذاہب اربعہ اس پر متفق ہيں كہ استخارہ ان امور ميں ہوگا جن ميں بندے كو درست چيز كا علم نہ ہو، ليكن جو چيزيں خير اور شر ميں معروف ہيں اور ان كے اچھے اور برے ہونے كا علم ہے مثلا عبادات، اور نيكى كے كام اور برائى اور منكرات والے كام تو ان كاموں كے ليے استخارہ كرنے كى كوئى ضرورت نہيں.
ليكن اگر وہ خصوصا وقت كے متعلق مثلا دشمن يا فتنہ كے احتمال كى صورت ميں اس سال حج پر جائے يا نہ اور حج ميں كس كى رفاقت اختيار كرے تو اس كے ليے استخارہ ہو سكتا ہے.
تو اس بنا پر كسى واجب، يا حرام يا مكروہ كام ميں استخارہ نہيں كيا جائے گا، بلكہ استخارہ تو مندوب اور جائز اور مباح كاموں ميں كيا جائے گا اور پھر مندوب كام كے اصل كے ليے استخارہ نہيں كيونكہ وہ كام تو اصل ميں مندوب ہے بلكہ استخارہ اس وقت ہو گا جب تعارض ہو، يعنى جب اس كے پاس دو كاموں ميں تعارض پيدا ہو جائے كہ وہ كونسے كام سے ابتداء كرے يا دونوں ميں سے پہلے كام كونسا كرے؟ ليكن مباح كام كے اصل ميں بھى استخارہ كيا جاسكتا ہے.
استخارہ كب كيا جائے؟
استخارہ اس وقت كيا جائے جب استخارہ كرنےوالا شخص خالى الذہن ہو اور كسى معين كام كو سرانجام دينے كا عزم نہ ركھے، كيونكہ حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:
" جب اسے كوئى كام درپيش ہو " اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ استخارہ اس وقت ہو گا جب ابھى اس كے دل ميں كوئى كام آيا ہو، تو پھر نماز اور دعاء استخارہ كى بركت سے اس كے ليے اس كام كى بہترى ظاہر ہو گى.
بخلاف اس كے كہ جب اس كے نزديك كوئى كام كرنا ممكن ہو اور وہ اسے سرانجام دينے پر پختہ عزم اور ارادہ كر چكا ہو، تو پھر وہ اپنے ميلان اور محبت كى طرف ہى جائے گا، تو اس سے خدشہ ہے كہ اس كے ميلان اور پرعزم كے غلبہ كى بنا پر اس سے بہترى كى راہنمائى مخفى رہے.
اور يہ بھى احتمال ہے كہ حديث ميں ھم يعنى درپيش سے مراد عزم ہو كيونكہ ذہن ثابت اور ايك پر نہيں ٹھرتا، تو وہ ايسا ہى نہيں رہے گا الا يہ كہ جب اسے سرانجام دينے كا عزم ركھنے والا شخص بغير كسى ميلان كے سرانجام دے، وگرنہ اگر وہ ہر حالت اور ذہن ميں استخارہ كرے گا تو پھر وہ ايسے كاموں ميں بھى استخارہ كرتا پھرے گا جس كا كوئى فائدہ نہيں تو اس طرح وہ وقت كے ضياع كا باعث ہو گا.
استخارہ كرنے سے قبل مشورہ كرنا:
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
استخارہ كرنے سے قبل كسى ناصح اور شقفت اور تجربہ كار اور دينى اور معلوماتى طور پر بااعتماد شخص سے اس كام ميں مشورہ كرنا مستحب ہے.
فرمان بارى تعالى ہے:
﴿اور معاملے ميں ان سے مشورہ كرو﴾.
اور مشورہ كرنے كے بعد جب اسے يہ ظاہر ہو كہ اس كام ميں مصلحت ہے تو پھر وہ اس كام ميں اللہ تعالى سے استخارہ كرے.
ابن حجر الھيتمى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
حتى كہ تعارض كے وقت بھى ( يعنى پہلے مشورہ كرے ) كيونكہ مشورہ دينے والے كے قول پر اطمنان نفس سے زيادہ قوى ہے، كيونكہ نفس پر نصيب غالب ہوتے اور ذہن بكھرا ہوتا ہے، ليكن اگر اس كا نفس مطمئن اور سچا ارادہ ركھتا ہو اور خالى الذہن ہو تو پھر استخارہ كو مقدم كرے.
نماز استخارہ ميں كيا پڑھا جائے گا:
- نماز استخارہ ميں قرآت كے متعلق تين قسم كى آراء ہيں:
ا ـ احناف، مالكى اور شافعى حضرات كہتے ہيں كہ سورۃ فاتحہ كے بعد پہلى ركعت ميں " قل يا ايہا الكافرون" اور دوسرى ركعت ميں " قل ھو اللہ احد " پڑھى جائے.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے اس پر تعليق ذكر كرتے ہوئے كہا ہے:
ان دونوں سورتوں كو پڑھنا اس ليے مناسب ہے كہ يہ نماز ايسى ہے جس سے رغبت ميں اخلاص اور صدق اور اللہ تعالى كے سپرد اور اپنى عاجزى كا اظہار ہے، اور انہوں اس كى بھى اجازت دى ہے كہ: ان سورتوں كے بعد قرآن مجيد كى وہ آيات بھى پڑھ لى جائيں جن ميں خيرو بھلائى اور بہترى كا ذكر ہے.
ب ـ بعض سلف حضرات نے مستحسن قرار ديتے ہوئے كہا ہے كہ نماز استخارہ كى پہلى ركعت ميں سورۃ الفاتحہ كے بعد مندرجہ ذيل آيات تلاوت كى جائيں:
﴿ وَرَبُّك يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ﴾ .
اور تيرا رب جو چاہتا ہے پيدا كرتا اور اختيار كرتا ہے.
﴿ مَا كَانَ لَهُمْ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ .
ان كے ليے كوئى اختار نہيں اللہ تعالى پاك اور بلند و بالا ہے اس چيز سے جو وہ شرك كرتے ہيں.
﴿وَرَبُّك يَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَمَا يُعْلِنُونَ﴾ .
اور تيرا رب جانتا ہے جسے ان كے سينے چھپاتے ہيں اور جو ظاہر كرتے ہيں.
﴿ وَهُوَ اللَّهُ لا إلَهَ إلا هُوَ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأُولَى وَالْآخِرَةِ وَلَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ﴾ "
اور وہ ہى اللہ ہے، اس كے علاوہ كوئى اور معبود برحق نہيں، پہلے اور آخر ميں اسى كى تعريفات ہيں، اور اسى كے ليے حكم ہے اور اسى كى طرف لوٹائے جائيں گے.
اور دوسرى ركعت ميں يہ آيات پڑھے:
﴿ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمْ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالا مُبِينًا﴾
جب اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كسى امر ميں فيصلہ كر ديں كو كسى مومن مرد اور مومن عورت كو اپنے معاملہ ميں كوئى اختيار باقى نہيں رہتا، اور جو كوئى اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى نافرمان كرے گا وہ واضح گمراہى ميں جا پڑا.
ج ـ ليكن حنابلہ اور بعض دوسرے فقھاء نے نماز استخارہ ميں معين قرآت كرنے كا نہيں كہا.
دعاء استخارہ پڑھنے كى جگہ:
احناف، مالكى ، شافعى اور حنابلہ حضرات كا كہنا ہے كہ:
استخارہ كى دعاء دو ركعت كے بعد پڑھى جائيگى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ حديث كى نص كے موافق بھى يہى ہے.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 3 / 241 ).
شيخ الاسلام ابن تيميہ كا كہنا ہے:
دعائے استخارہ كے متعلق مسئلہ:
كيا دعاء نماز ميں مانگى جائيگى يا كہ نماز سے سلام پھيرنے كے بعد؟
جواب:
نماز استخارہ اور دوسرى نماز ميں سلام سے قبل دعاء كرنى جائز ہے، اور سلام كے بعد بھى، اور سلام پھيرنے سے قبل دعاء كرنى افضل ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ كى اكثر دعائيں سلام پھيرنے سے قبل ہوا كرتى تھيں اور سلام سے قبل نمازى نماز سے فارغ نہيں ہوتا تو يہ بہتر ہے.
ديكھيں: فتاوى الكبرى ( 2 / 265 ).
واللہ اعلم .
الاسلام سوال وجواب

استخارہ كيا ليكن كچھ بھى محسوس نہيں ہوا

0 comments

استخارہ كيا ليكن كچھ بھى محسوس نہيں ہوا
آپ شادى كرنے والے مرد و عورت كو كيا نصيحت كرتے ہيں، ان دونوں نے استخارہ كيا اور صرف عورت كو خواب نظر آيا ہے مرد كو نہيں، عورت نے ديكھا كہ وہ اور اس كا خاوند سعادت كى زندگى بسر كر رہے ہيں، اور اللہ تعالى كہتا ہے كہ دونوں كے ليے يہى صحيح اختيار ہے، ليكن مرد نے كوئى بھى علامت يا احساس يا خواب نہيں ديكھى اسے كيا كرنا ہو گا؟
ان دونوں كيا كرنا چاہيے، اور استخارہ كے ليے كتنى مدت مقرر ہے ؟ بعض كہتے ہيں كہ تين دن اور بعض سات دن تك استخارہ كرنے كا كہتے ہيں، آپ كو اللہ تعالى جزائے خير دے.


الحمد للہ :
استخارہ كرنے كى دليل مندرجہ ذيل بخارى وغيرہ كى حديث جو جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے ميں پائى جاتى ہے، اس حديث كى شرح اور حديث كے فوائد آپ سوال نمبر ( 2217 ) اور ( 410 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.
اور بعض لوگوں كا يہ كہنا كہ: " پھر اسے وہ كام كرنا چاہيے جس پر اس كا دل راضى اور شرح صدر ہو"
ابن سنى كى روايت كردہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب آپ كو كوئى كام درپيش ہو تو سات بار اپنے رب سے استخارہ كرو پھر اسے ديكھو جو تمہارے دل ميں آئے كيونكہ اسى ميں خير ہے"
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اس كى سند غريب ہے، اس ميں ايسے راوي ہيں جنہيں ميں نہيں جانتا. اھـ
ديكھيں: الاذكار للنووى صفحہ نمبر ( 132 ).
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اگر يہ ثابت ہو جائے تو پھر قابل اعتماد يہى ہے، ليكن اس كى سند بہت ہى كمزور ہے. اھـ
ديكھيں: فتح البارى ( 11 / 223 ).
حافظ عراقى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اس ميں ايسا راوى ہے جو شديد ضعف سے معروف ہے، اور وہ ابراہيم بن البراء ہے..
تو اس بنا پر يہ حديث بہت ہى ضعيف ہے. اھـ
ديكھيں: الفتوحات الربانيۃ ( 3 / 357 ).
اور صحيح اور درست يہ ہے كہ:
معاملے ميں آسانى ـ تقدير اور دعاء كى قبوليت كے بعد ـ اللہ تعالى كى جانب سے ہے، جو كہ كام كرنے كى بہترى كى علامت ہے، اور اس كام كے موانع كا پايا جانا اور معاملے ميں آسانى پيدا نہ ہونا اس بات كى دليل ہے كہ اللہ تعالى نے اپنے بندے سے اس كام كو دور كر ديا ہے.
اور جب ہم جابر رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث استخارہ ميں غور اور تدبر كرينگے تو يہى معنى بالكل واضح ہو گا:
حديث ميں ہے:
فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ هَذَا الأَمْرَ ثُمَّ تُسَمِّيهِ بِعَيْنِهِ خَيْرًا لِي فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ قَالَ أَوْ فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ اللَّهُمَّ وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفْنِي عَنْهُ [ واصرفه عني ] وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ رَضِّنِي بِهِ "
الہى اگر تو جانتا ہے كہ يہ كام اس كام كا نام لے ( جس كا ميں ارادہ ركھتا ہوں ) ميرے ليے ميرے دين اور ميرى زندگى اور ميرے انجام كار كے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے ميرے مقدر ميں كر اور آسان كر دے، پھر اس ميں ميرے ليے بركت عطا فرما، اور اگر تيرے علم ميں يہ كام ميرے ليے اور ميرے دين اور ميرى زندگى اور ميرے انجام كار كے لحاظ سے برا ہے تو اس كام كو مجھ سے اور مجھے اس سے پھير دے اور ميرے ليے بھلائى مہيا كر جہاں بھى ہو، پھر مجھے اس كے ساتھ راضى كردے.
ابن علان ـ انس رضى اللہ تعالى عنہ والى حديث كا ضعف بيان كرنے كے بعد ـ كہتے ہيں:
اور اس بنا پر يہ كہا جا سكتا ہے كہ: بہتر يہ ہے كہ اس نے جو ارادہ كيا ہے وہ استخارہ كرنے كے بعد اسے سرانجام دے ( يعنى: اگر وہ اس ميں شرح صدر محسوس نہ بھى كرے ) كيونكہ اس ( يعنى نماز استخارہ ) كے بعد واقع ہونے والا ہى بہتر ہے. .
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
حافظ زين الدين عراقى كا ( استخارہ كرنے كے بعد كام كرنے ميں ) كہنا ہے: " اس نے جو بھى كيا اسى ميں خير و بھلائى ہے، اس كى تائييد دوسرى حديث جو عبد اللہ بن مسعود سے مروى ہے ميں موجود الفاظ" ثم يعزم " پھر وہ عزم كرے كے الفاظ سے ہوتى ہے. اھـ عراقى كى كلام ختم ہوئى.
ميں كہتا ہوں: ( يعنى حافظ ابن حجر ) پيچھے جو كچھ ميں نے بيان كيا ہے كہ اس ( يعنى ثم يعزم ) كے الفاظ بيان كرنے والا راوى ضعيف ہے، ليكن يہ اس حديث كے راوى ( يعنى پھر جو تمہارے دل ميں آئے اسے ديكھو ) والى حديث كے رواى سے كچھ بہتر حالت ميں ہے. اھـ ابن حجر كى كلام ختم ہوئى.
ديكھيں: الفتوحات الربانيۃ ( 3 / 355 ).
اور لوگوں ميں منتشر خرافات ميں استخارہ كے بعد سونا بھى شامل ہے كہ خواب ميں جو خير اور شرح صدر ديكھيں اس كا معنى ہے كہ آپ كا يہ كام بہتر ہے اور اگر نہ ديكھيں تو اس ميں بہترى نہيں ( اور سائل كا اس قول" اسے پيغام ملا " سے بھى يہى مراد ہے، ہمارے علم كے مطابق تو اس كى كوئى صحيح دليل نہيں ہے.
اوپر جو كچھ بيان ہوا اس كا معنى يہ نہيں كہ شرح صدر علامات ميں شامل نہيں، ليكن اسے كسى كام كى بہترى كے ليے قطعى اور اكيلى يہى علامت ہى نہيں بنا لينا چاہيے، كيونكہ انسان بہت سے ايسے معاملات ميں استخارہ كرتا ہے جو اسے پسند ہوتے ہيں اور اس پر اس كا شرح صدر بھى ہوتا ہے.
شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالى شرح صدر كے مسئلہ ميں كہتے ہيں:
جب وہ اللہ سے استخارہ كرے تو اس كے ليے جو شرح صدر ہو اور امور ميں سے جو ميسر ہو تو وہى اللہ تعالى نے اس كے اختيار كيا ہے. اھـ
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 10 / 539 ).
تو اس طرح فرق يہ ہے كہ: اكيلے شرح صدر علامت ہونا، اور يہ بھى ايك علامت ہے.
اور استخارہ كے ليے كوئى مدت مقرر نہيں، ايك بار سے زيادہ بار بھى استخارہ كرنا جائز ہے، اور اس كى تعداد بھى مكرر نہيں، نماز كے ليے سلام پھيرنے سے قبل بھى دعاء كرنا جائز ہے، اور سلام كے بعد بھى.
واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد

كيا اجبارى معاملات ميں مسلمان استخارہ كرے ؟

0 comments

كيا اجبارى معاملات ميں مسلمان استخارہ كرے ؟
مجھ سے ايك بھائى نے كسى بھى پراجيكٹ يا كام كے ليے استخارہ كے جواز كے متعلق دريافت كيا، ہميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ كى مندرجہ ذيل حديث كا علم تو ہے:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہميں سب امور ميں استخارہ كى تعليم ديتے تھے .... " يہ حديث بخارى شريف ميں ہے.
ليكن اگر كوئى شخص الزامى كام كے ليے استخارہ كرے تو پھر ! كيونكہ ميں حديث ميں وارد لفظ كلہا يعنى سب امور كو نہيں سمجھ سكا، آيا سب امور كو شامل ہے يا كہ بطور اغلبيت ذكر ہوا ہے، كيونكہ ميرى سمجھ كے مطابق عربى لغت ميں كل سے مراد اغلبيت ہے.
تو كيا جناب فضيلۃ الشيخ آپ حديث ميں وارد كلمہ " كلہا " كى كچھ وضاحت فرمائيں گے؟ اور كيا اجبارى معاملات ميں بھى استخارہ كيا جا سكتا ہے ؟


الحمد للہ :
واجبات سرانجام دينے ميں كوئى اختيار نہيں ہے، كيونكہ اللہ تعالى نے يہ ہم پر لازم كيے ہيں، اور اسى طرح حرام اشياء اور كاموں كو ترك كرنے ميں بھى كوئى اختيار نہيں، لھذا ايسا عمل جسے كيے بغير كوئى چارہ نہ ہو اس ميں استخارہ كا كوئى معنى نہيں، اور اس ميں استخارہ مشروع نہيں ہے.
بلكہ استخارہ تو مباح كاموں ميں سے ايك كى ترجيح كے ليے ہے، اور اسى طرح كئى ايك مستحبات ميں سے ايك مستحب كى تعيين كے ليے استخارہ كيا جاتا ہے، مثلا يہ كہ وہ كونسے ملك اور شہر ميں علم حاصل كرنے كے ليے جائے، يا پھر كس استاد اور شيخ سے علم حاصل كرے، يا كونسے درس ميں بيٹھے، تو اس ميں مشورہ كرے اور پھر جو اسے راجح لگے اس ميں استخارہ كر لے.
اور اسى طرح كسى خاص اور معين عورت سے شادى كرنے كے ليے استخارہ كر سكتا ہے، يا پھر اس برس يا اس كے بعد نفلى حج كرنے ميں استخارہ كر سكتا ہے، اور اسى طرح ہر اس چيز ميں جس ميں اسے تردد ہو، تو يہ اس قول " نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہميں سب امور ميں استخارہ كرنے كى تعليم ديتے تھے" ميں داخل ہو گا.
واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد

Monday 22 July 2013

کیا عورت جماعت کروا سکتی ہے

0 comments


کیا عورت جماعت کروا سکتی ہے اور اس کے متعلق کوئی صحیح حدیث موجود ہے؟


عورت جماعت کروا سکتی ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ ام ورقہ بنت عبداللہ بن الحارث رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے:

(( وَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَزُوْرُہَا فِیْ بَیْتِہَا وَ جَعَلَ لَہَا مُؤَذِّنًا یُؤَذِّنُ لَہَا وَاَمَرَہَا أَنْ تَؤُمَّ اَہْلَ دَارِہَا قَالَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ فَأَنَا رَأَیْتُ مُؤَذِّنَہَا شَیْخًا کَبِیْرًا ))
[أبوداوٗد، باب إمامۃ النساء (۵۹۲)، قال الألبانی حسن]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر میں زیارت کے لیے جاتے تھے اور آپ نے اس کے لیے ایک مؤذن مقرر کر دیا جو اس کے لیے اذان کہتا اور آپ نے ام ورقہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کرائے۔ عبدالرحمن بن خلاد انصاری کہتے ہیں میں نے اس کے مؤذن کو دیکھا وہ بوڑھا آدمی تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (۳/۸۹، ح : ۱۶۷۶) اور امام ابن الجارود (۳۳۳) نے صحیح قرار دیا ہے اور علامہ نیموی حنفی نے آثار السنن (۵۱۳) میں اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے۔
بعض لوگوں نے اس کی سند پر اعتراض کرتے ہوئے عبدالرحمن بن خلاد کو مجہول قرار دیا ہے، لیکن ابن خزیمہ اور ابن الجارود نے اس کی حدیث کی تصحیح کر کے توثیق کردی ہے، اسی طرح ابن حبان نے بھی اس کی توثیق کی ہے، لہٰذا اس کی جہالت ختم ہو جاتی ہے اور لیلیٰ بنت مالک نے اس کی متابعت بھی کر رکھی ہے۔
عورت کی امامت کے حوالے سے یہ بھی یاد رہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا گھر کی خواتین کو ان کے درمیان کھڑے ہو کر فرض نماز کی امامت کرواتی تھیں۔
[عبد الرزاق (۵۰۸۶)، بیھقی (۳/۱۳۱، ح : ۵۳۵۵)، آثار السنن (۵۱۴)، ابن أبی شیبۃ (۲/۸۹)]
ظفر احمد تھانوی نے اعلاء السنن (۴/۲۴۳) میں اس کی سند کو صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے صف کے درمیان میں کھڑے ہو کر عصر کی نماز عورتوں کو پڑھائی تھی۔ [عبدالرزاق (۵۰۸۲)، الأوسط لابن المنذر (۴/۲۲۷) ابن أبی شیبۃ (۲/۸۸)، بیھقی (۳/۱۳۱، ح : ۵۳۵۷)]
بعض لوگ عورتوں کی امامت کے قائل نہیں ہیں اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی یہ روایت پیش کرتے ہیں:
(( لَا خَیْرَ فیْ جَمَاعَۃِ النِّسَائِ اِلَّا فِیْ مَسْجِدٍ اَوْ فِیْ جَنَازَۃِ قَتِیْلٍ )) [طبرانی أوسط (۹۳۰۵)، مسند أحمد (۶/۶۶، ح : ۲۴۸۸۰)]
’’مسجد اور کسی شہید کے جنازہ کے علاوہ عورتوں کی جماعت میں خیر نہیں ہے۔‘‘
اس کی سند میں عبداللہ بن لہیعہ مختلط و مدلس ہے اور اس کے قدیم شاگردوں نے اس سے یہ روایت بیان نہیں کی۔ یہ روایت الوازع بن نافع کی سند سے طبرانی اوسط (۸/۶۴،ح : ۷۱۲۶) اور طبرانی کبیر (۱۲/۳۱۷) میںبھی موجود ہے لیکن الوازع بن نافع متروک راوی ہے۔ لہٰذا عورت کی جماعت کی ممانعت پر کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے۔ 
عورت اگر عورتوں کی جماعت کروانا چاہے تو درمیان میں کھڑی ہو کر نماز پڑھا سکتی ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

Tuesday 16 July 2013

نماز استخارہ

0 comments

نماز استخارہ
ميں نماز استخارہ كے متعلق مزيد معلومات حاصل كرنا چاہتا ہوں، مثلا اس ميں تلاوت كيا كروں، اور كونسى دعاء كروں، ركعات كى تعداد كتنى ہے اور اس كا اجروثواب كيا ہےاور كيا حنبلى، اور شافعى اور حنفى مسلك ميں نماز كا يہى طريقہ ہے ؟


الحمد للہ :
اگر كوئى شخص كوئى كام كرنا چاہے اور وہ اس ميں متردد ہو تو اس كے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز استخارہ مشروع كى ہے اور يہ سنت ہے، نماز استخارہ كے متعلق ان سطور ميں درج ذيل آٹھ نقاط ميں بحث كى جائے گى:
1 - نماز استخارہ كى تعريف.
2 - نماز استخارہ كا حكم
3 - اس كى مشروعيت كى حكمت كيا ہے.
4 - نماز استخارہ كا سبب كيا ہے.
5 - استخارہ كب كيا جائے گا.
6 - استخارہ كرنے سے قبل مشورہ كرنا.
7 - نماز استخارہ ميں كيا پڑھا جائے گا.
8 - استخارہ كى دعاء كب كى جائے گى.
نماز استخارہ كى تعريف:
استخارہ كى لغوى تعريف: كسى چيز ميں سے بہتر كو طلب كرنا، كہا جاتا ہے: استخر اللہ يخر لك، اللہ تعالى سے استخارہ كرو وہ تمہارے ليے بہتر اختيار كر دے گا.
استخارہ كى اصطلاحى تعريف:
اختيار طلب كرنا. يعنى نماز يا نماز استخارہ ميں وارد شدہ دعاء كے ساتھ اللہ تعالى كے ہاں جو بہتر اور اولى و افضل ہے اس كى طرف پھرنے اور وہ كام كرنا طلب كرنا.
نماز استخارہ كا حكم:
نماز استخارہ كے سنت ہونے ميں علماء كرام كا اجماع ہے، اور اس كى مشروعيت كى دليل بخارى شريف كى مندرجہ ذيل حديث ہے:
جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے ہميں سارے معاملات ميں استخارہ كرنے كى تعليم اس طرح ديا كرتے تھے جس طرح ہميں قرآن مجيد كى سورۃ كى تعليم ديتے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرماتے:
" جب تم ميں سے كوئى ايك شخص كام كرنا چاہے تو وہ فرض كے علاوہ دو ركعت ادا كر كے يہ دعاء پڑھے:
" اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلامُ الْغُيُوبِ اللَّهُمَّ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ هَذَا الأَمْرَ ثُمَّ تُسَمِّيهِ بِعَيْنِهِ خَيْرًا لِي فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ قَالَ أَوْ فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ اللَّهُمَّ وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفْنِي عَنْهُ [ واصرفه عني ] وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ رَضِّنِي بِهِ "
اے اللہ ميں ميں تيرے علم كى مدد سے خير مانگتا ہوں اور تجھ سے ہى تيرى قدرت كے ذريعہ قدرت طلب كرتا ہوں، اور ميں تجھ سے تيرا فضل عظيم مانگتا ہوں، يقينا تو ہر چيز پر قادر ہے، اور ميں ( كسى چيز پر ) قادر نہيں، تو جانتا ہے، اور ميں نہيں جانتا، اور تو تمام غيبوں كا علم ركھنے والا ہے، الہى اگر تو جانتا ہے كہ يہ كام ( جس كا ميں ارادہ ركھتا ہوں ) ميرے ليے ميرے دين اور ميرى زندگى اور ميرے انجام كار كے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے ميرے مقدر ميں كر اور آسان كر دے، پھر اس ميں ميرے ليے بركت عطا فرما، اور اگر تيرے علم ميں يہ كام ميرے ليے اور ميرے دين اور ميرى زندگى اور ميرے انجام كار كے لحاظ سے برا ہے تو اس كام كو مجھ سے اور مجھے اس سے پھير دے اور ميرے ليے بھلائى مہيا كر جہاں بھى ہو، پھر مجھے اس كے ساتھ راضى كردے.
اور وہ اپنى ضرورت اور حاجت يعنى كام كا نام لے.
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1166 ) يہ حديث كئى ايك جگہ ميں امام بخارى رحمہ اللہ نے ذكر كي ہے.
نماز استخارہ كى مشروعيت كى حكمت:
استخارہ كى مشروعيت ميں حكمت يہ ہے كہ اللہ تعالى كے حكم كے سامنے سر خم تسليم كيا جائے، اور طاقت و قدرت سے نكل كر اللہ تعالى كى طرف التجاء كى جائے، تا كہ وہ دنيا و آخرت كى خير و بھلائى جمع كر دے، اور اس كے ليے اس مالك الملك سبحانہ وتعالى كا دروازہ كھٹكھٹانے كى ضرورت ہے، اور اس كے ليے نماز اور دعاء سے بڑھ كر كوئى چيز بہتر اور كامياب نہيں كيونكہ اس ميں اللہ تعالى كى تعظيم اور اس كى ثناء اور اس كى طرف قولى اور حالى طور پر محتاجگى ہے، اور پھر استخارہ كرنے كے بعد اس كے ذہن ميں جو آئے وہ اس كام كو سرانجام دے.
استخارہ كا سبب:
( جن ميں استخارہ كيا جاتا ہے ) اس كا سبب يہ ہے كہ: مذاہب اربعہ اس پر متفق ہيں كہ استخارہ ان امور ميں ہوگا جن ميں بندے كو درست چيز كا علم نہ ہو، ليكن جو چيزيں خير اور شر ميں معروف ہيں اور ان كے اچھے اور برے ہونے كا علم ہے مثلا عبادات، اور نيكى كے كام اور برائى اور منكرات والے كام تو ان كاموں كے ليے استخارہ كرنے كى كوئى ضرورت نہيں.
ليكن اگر وہ خصوصا وقت كے متعلق مثلا دشمن يا فتنہ كے احتمال كى صورت ميں اس سال حج پر جائے يا نہ اور حج ميں كس كى رفاقت اختيار كرے تو اس كے ليے استخارہ ہو سكتا ہے.
تو اس بنا پر كسى واجب، يا حرام يا مكروہ كام ميں استخارہ نہيں كيا جائے گا، بلكہ استخارہ تو مندوب اور جائز اور مباح كاموں ميں كيا جائے گا اور پھر مندوب كام كے اصل كے ليے استخارہ نہيں كيونكہ وہ كام تو اصل ميں مندوب ہے بلكہ استخارہ اس وقت ہو گا جب تعارض ہو، يعنى جب اس كے پاس دو كاموں ميں تعارض پيدا ہو جائے كہ وہ كونسے كام سے ابتداء كرے يا دونوں ميں سے پہلے كام كونسا كرے؟ ليكن مباح كام كے اصل ميں بھى استخارہ كيا جاسكتا ہے.
استخارہ كب كيا جائے؟
استخارہ اس وقت كيا جائے جب استخارہ كرنےوالا شخص خالى الذہن ہو اور كسى معين كام كو سرانجام دينے كا عزم نہ ركھے، كيونكہ حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:
" جب اسے كوئى كام درپيش ہو " اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ استخارہ اس وقت ہو گا جب ابھى اس كے دل ميں كوئى كام آيا ہو، تو پھر نماز اور دعاء استخارہ كى بركت سے اس كے ليے اس كام كى بہترى ظاہر ہو گى.
بخلاف اس كے كہ جب اس كے نزديك كوئى كام كرنا ممكن ہو اور وہ اسے سرانجام دينے پر پختہ عزم اور ارادہ كر چكا ہو، تو پھر وہ اپنے ميلان اور محبت كى طرف ہى جائے گا، تو اس سے خدشہ ہے كہ اس كے ميلان اور پرعزم كے غلبہ كى بنا پر اس سے بہترى كى راہنمائى مخفى رہے.
اور يہ بھى احتمال ہے كہ حديث ميں ھم يعنى درپيش سے مراد عزم ہو كيونكہ ذہن ثابت اور ايك پر نہيں ٹھرتا، تو وہ ايسا ہى نہيں رہے گا الا يہ كہ جب اسے سرانجام دينے كا عزم ركھنے والا شخص بغير كسى ميلان كے سرانجام دے، وگرنہ اگر وہ ہر حالت اور ذہن ميں استخارہ كرے گا تو پھر وہ ايسے كاموں ميں بھى استخارہ كرتا پھرے گا جس كا كوئى فائدہ نہيں تو اس طرح وہ وقت كے ضياع كا باعث ہو گا.
استخارہ كرنے سے قبل مشورہ كرنا:
امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
استخارہ كرنے سے قبل كسى ناصح اور شقفت اور تجربہ كار اور دينى اور معلوماتى طور پر بااعتماد شخص سے اس كام ميں مشورہ كرنا مستحب ہے.
فرمان بارى تعالى ہے:
﴿اور معاملے ميں ان سے مشورہ كرو﴾.
اور مشورہ كرنے كے بعد جب اسے يہ ظاہر ہو كہ اس كام ميں مصلحت ہے تو پھر وہ اس كام ميں اللہ تعالى سے استخارہ كرے.
ابن حجر الھيتمى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
حتى كہ تعارض كے وقت بھى ( يعنى پہلے مشورہ كرے ) كيونكہ مشورہ دينے والے كے قول پر اطمنان نفس سے زيادہ قوى ہے، كيونكہ نفس پر نصيب غالب ہوتے اور ذہن بكھرا ہوتا ہے، ليكن اگر اس كا نفس مطمئن اور سچا ارادہ ركھتا ہو اور خالى الذہن ہو تو پھر استخارہ كو مقدم كرے.
نماز استخارہ ميں كيا پڑھا جائے گا:
- نماز استخارہ ميں قرآت كے متعلق تين قسم كى آراء ہيں:
ا ـ احناف، مالكى اور شافعى حضرات كہتے ہيں كہ سورۃ فاتحہ كے بعد پہلى ركعت ميں " قل يا ايہا الكافرون" اور دوسرى ركعت ميں " قل ھو اللہ احد " پڑھى جائے.
امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے اس پر تعليق ذكر كرتے ہوئے كہا ہے:
ان دونوں سورتوں كو پڑھنا اس ليے مناسب ہے كہ يہ نماز ايسى ہے جس سے رغبت ميں اخلاص اور صدق اور اللہ تعالى كے سپرد اور اپنى عاجزى كا اظہار ہے، اور انہوں اس كى بھى اجازت دى ہے كہ: ان سورتوں كے بعد قرآن مجيد كى وہ آيات بھى پڑھ لى جائيں جن ميں خيرو بھلائى اور بہترى كا ذكر ہے.
ب ـ بعض سلف حضرات نے مستحسن قرار ديتے ہوئے كہا ہے كہ نماز استخارہ كى پہلى ركعت ميں سورۃ الفاتحہ كے بعد مندرجہ ذيل آيات تلاوت كى جائيں:
﴿ وَرَبُّك يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ﴾ .
اور تيرا رب جو چاہتا ہے پيدا كرتا اور اختيار كرتا ہے.
﴿ مَا كَانَ لَهُمْ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ .
ان كے ليے كوئى اختار نہيں اللہ تعالى پاك اور بلند و بالا ہے اس چيز سے جو وہ شرك كرتے ہيں.
﴿وَرَبُّك يَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَمَا يُعْلِنُونَ﴾ .
اور تيرا رب جانتا ہے جسے ان كے سينے چھپاتے ہيں اور جو ظاہر كرتے ہيں.
﴿ وَهُوَ اللَّهُ لا إلَهَ إلا هُوَ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأُولَى وَالْآخِرَةِ وَلَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ﴾ "
اور وہ ہى اللہ ہے، اس كے علاوہ كوئى اور معبود برحق نہيں، پہلے اور آخر ميں اسى كى تعريفات ہيں، اور اسى كے ليے حكم ہے اور اسى كى طرف لوٹائے جائيں گے.
اور دوسرى ركعت ميں يہ آيات پڑھے:
﴿ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمْ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالا مُبِينًا﴾
جب اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كسى امر ميں فيصلہ كر ديں كو كسى مومن مرد اور مومن عورت كو اپنے معاملہ ميں كوئى اختيار باقى نہيں رہتا، اور جو كوئى اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى نافرمان كرے گا وہ واضح گمراہى ميں جا پڑا.
ج ـ ليكن حنابلہ اور بعض دوسرے فقھاء نے نماز استخارہ ميں معين قرآت كرنے كا نہيں كہا.
دعاء استخارہ پڑھنے كى جگہ:
احناف، مالكى ، شافعى اور حنابلہ حضرات كا كہنا ہے كہ:
استخارہ كى دعاء دو ركعت كے بعد پڑھى جائيگى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ حديث كى نص كے موافق بھى يہى ہے.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 3 / 241 ).
شيخ الاسلام ابن تيميہ كا كہنا ہے:
دعائے استخارہ كے متعلق مسئلہ:
كيا دعاء نماز ميں مانگى جائيگى يا كہ نماز سے سلام پھيرنے كے بعد؟
جواب:
نماز استخارہ اور دوسرى نماز ميں سلام سے قبل دعاء كرنى جائز ہے، اور سلام كے بعد بھى، اور سلام پھيرنے سے قبل دعاء كرنى افضل ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ كى اكثر دعائيں سلام پھيرنے سے قبل ہوا كرتى تھيں اور سلام سے قبل نمازى نماز سے فارغ نہيں ہوتا تو يہ بہتر ہے.
ديكھيں: فتاوى الكبرى ( 2 / 265 ).
واللہ اعلم .

نماز استخارہ كى كيفيت اور دعاء استخارہ كى شرح

0 comments

نماز استخارہ كى كيفيت اور دعاء استخارہ كى شرح
نماز استخارہ كس طرح ادا كى جائے گى ؟ 
اور اس ميں كونسى دعاء پڑھى جائيگى ؟


الحمد للہ :
نماز استخارہ كا طريقہ جابر بن عبد اللہ تعالى عنہما كى مندرجہ ذيل حديث ميں بيان كيا گيا ہے:
جابر بن عبد اللہ السلمى رضي اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے صحابہ كرام كو سارے معاملات ميں استخارہ كرنے كى تعليم اس طرح ديا كرتے تھے جس طرح انہيں قرآن مجيد كى سورۃ كى تعليم ديتے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرماتے:
" جب تم ميں سے كوئى ايك شخص كام كرنا چاہے تو وہ فرض كے علاوہ دو ركعت ادا كر كے يہ دعاء پڑھے:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلا أَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلامُ الْغُيُوبِ اللَّهُمَّ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ هَذَا الأَمْرَ ثُمَّ تُسَمِّيهِ بِعَيْنِهِ خَيْرًا لِي فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ قَالَ أَوْ فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي فَاقْدُرْهُ لِي وَيَسِّرْهُ لِي ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ اللَّهُمَّ وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّهُ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فَاصْرِفْنِي عَنْهُ [ واصرفه عني ] وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ رَضِّنِي بِهِ "
اے اللہ ميں ميں تيرے علم كى مدد سے خير مانگتا ہوں اور تجھ سے ہى تيرى قدرت كے ذريعہ قدرت طلب كرتا ہوں، اور ميں تجھ سے تيرا فضل عظيم مانگتا ہوں، يقينا تو ہر چيز پر قادر ہے، اور ميں ( كسى چيز پر ) قادر نہيں، تو جانتا ہے، اور ميں نہيں جانتا، اور تو تمام غيبوں كا علم ركھنے والا ہے، الہى اگر تو جانتا ہے كہ يہ كام ( جس كا ميں ارادہ ركھتا ہوں ) ميرے ليے ميرے دين اور ميرى زندگى اور ميرے انجام كار كے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے ميرے مقدر ميں كر اور آسان كر دے، پھر اس ميں ميرے ليے بركت عطا فرما، اور اگر تيرے علم ميں يہ كام ميرے ليے اور ميرے دين اور ميرى زندگى اور ميرے انجام كار كے لحاظ سے برا ہے تو اس كام كو مجھ سے اور مجھے اس سے پھير دے اور ميرے ليے بھلائى مہيا كر جہاں بھى ہو، پھر مجھے اس كے ساتھ راضى كردے.
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6841 ) ترمذى اور نسائى اور ابو داود اور ابن ماجہ اور مسند احمد ميں اور بھى احاديث ہيں.
ابن حجر رحمہ اللہ تعالى اس حديث كى شرح كرتے ہوئے كہتے ہيں:
الاستخارۃ: اسم ہے، اور استخاراللہ كا معنى يہ ہے كہ اللہ تعالى سے اس نے بہتر چيز اور خير طلب كى، اس سے مراد يہ ہے كہ ضرورت كے وقت دو كاموں ميں سے بہتر اور اچھا كام طلب كرنا.
قولہ: " ہميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سب معاملات ميں استخارہ كرنا سكھاتے تھے "
ابن ابى جمرہ كہتے ہيں: عام كہہ كر خاص مراد ليا گيا ہے، كيونكہ كسى واجب اور مستحب كام كرنے كے ليے استخارہ نہيں كيا جائےگا اور نہ ہى كسى حرام اور مكروہ كام كو ترك كرنے كے ليے استخارہ ہو گا، بلكہ جب كوئى مباح اور مستحب كام ميں سے دو معاملے ايك دوسرے كے معارض ہوں كہ اسے كونسے عمل سے ابتدا كرنى چاہيے اور كس كام پر اقتصار كرنے كے ليے استخارہ ہو گا.
ميں كہتا ہوں: يہ عموم ہر حقير اور عظيم كام كو شامل ہے، ہو سكتا ہے كسى حقير اور چھوٹے سے كام كرنے كے نتيجہ ميں امر عظيم حاصل ہو جائے.
قولہ: " اذا ھم " جب اسے كوئى كام درپيش ہو.
ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كى روايت ميں يہ الفاظ ہيں: " جب تم ميں كوئى كام كرنا چاہے تو وہ يہ كہے"
قولہ: " تو وہ فرض كے علاوہ دو ركعت ادا كرے"
اس ميں نماز فجر سے احتراز كيا گيا ہے، امام نووى رحمہ اللہ تعالى " الاذكار " ميں كہتے ہيں: مثلا اگر كسى نے نماز ظہر كے فرضوں يا دوسرى سنت مؤكدہ كے بعد دعاء استخارہ كہى، ... اور ظاہر يہ ہوتا ہے ايسا كہا جائے:
اگر اس نے بعينہ اس نماز اور نماز استخارہ كى نيت كى تو يہ كافى ہو گى، ليكن اگر نيت نہ كى تو پھر نہيں.
اور ابن ابى جمرہ كہتے ہيں: نماز كو دعاء سے مقدم كرنے ميں حكمت يہ ہے كہ: استخارہ سے مراد دنيا اور آخرت كى خيروبھلائى جمع كرنا ہے، اس ليے مالك الملك كا دروازہ كھٹكھٹانے كى ضرورت ہے، اور اس كے ليے نماز سے بہتر اور افضل اور نفع مند چيز كوئى نہيں، اس ميں اللہ تعالى كى تعظيم اور اس كى حمد و تعريف اور ثناء، اور مالى اور حال كے اعتبار سے اللہ تعالى كى طرف محتاجگى ہے.
قولہ: " ثم ليقل" پھر يہ كہے" ظاہر يہ ہے كہ يہ دعاء دو ركعت نماز سے فارغ ہونے كے بعد پڑھى جائيگى، اور يہ بھى احتمال ہے كہ اس ميں نماز كے اذكار اور دعاء كى ترتيب ہو تو اس طرح فراغت كے بعد اور سلام پھيرنے سے قبل دعاء پڑھے.
قولہ: " اللہم انى استخيرك" يہاں باء تعليل كے ليے ہے، يعنى اس ليے كہ اے اللہ تو زيادہ علم والا ہے.
اور اسى طرح " بقدرتك" ميں بھى باء تعليل كے ليے ہے، اور يہ بھى احتمال ہے كہ باء استغاثہ كى ہو.
قولہ: " استقدرك" اس كا معنى يہ ہے: ميں تجھ سے طلب كرتا ہوں كہ مطلوبہ عمل اور كام پر مجھے قدرت عطا كر، اور يہ بھى احتمال ہے كہ اس كا معنى يہ ہو: ميں تجھ سے اس كام ميں آسانى اور سہولت كا طلبگار ہوں، يعنى ميرى قدرت ميں كردے.
قولہ: " و اسئلك من فضلك " يہ اس كى طرف اشارہ ہے كہ رب كى جانب سے عطاء اس كى جانب سے فضل ہے، اور كسى ايك كو بھى اس كى نعمتوں ميں اس پر حق حاصل نہيں، جيسا كہ اہل سنت كا عقيدہ ہے.
قولہ: " فانك تقدر و لا اقدر، و تعلم و لا اعلم" تو قدرت اور طاقت ركھتا ہے اور ميں طاقت نہيں ركھتا، تو علم والا ہے اور مجھے علم نہيں.
يہ اس طرف اشارہ ہے كہ يقينا علم اور قدرت صرف اللہ وحدہ كے ليے ہى ہے، اور اس ميں سے بندے كے ليے وہى ہے جو اللہ تعالى نے اس كے مقدر ميں ركھا ہے.
قولہ: " اللہم ان كنت تعلم ان ھذا الامر" اے اللہ اگر تجھے علم ہے كہ يہ كام.
اور ايك دوسرى روايت ميں ہے: " پھر اس كام كا بعينہ نام لے" اس كا ظاہر سياق يہى ہے كہ اسے زبان سے ادا كرے، اور يہ بھى احتمال ہے كہ وہ دعاء كرتے وقت اس كام كو اپنے ذہن ميں ركھے.
قولہ: " فاقدرہ لى " يعنى اسے ميرے ليے پورا كر دے، اور يہ بھى كہا گيا ہے كہ اس كا معنى ہے: ميرے ليے اس كام كو آسان كر دے.
قولہ: " فاصرفہ عنى و اصرفنى عنہ " اسے مجھ سے اور مجھے اس سے دور كر دے.
يعنى اس كام كو چاہنے كے باوجود اس كام كو نہ كر سكنے كى حالت ميں اس كے دل ميں كچھ باقى نہ رہے.
قولہ: " و رضنى " يعنى مجھے اس پر راضى كر دے، تا كہ ميں اسے طلب كرنے اور نہ ہى اسے كرنے پر نادم نہ رہوں، كيونكہ مجھے اس كے انجام كى خبر نہيں، اگرچہ ميں اس كام كو كرنے كى خواہش كے وقت اس پر راضى تھا.
اس ميں راز يہ ہے كہ اس كا دل اس كام كے ساتھ معلق نہ رہے اور وہ كبيدہ خاطر نہ ہو، بلكہ اس كا دل مطمئن ہو جائے، اور فيصلہ اور قضاء پر راضى اور سكون نفس حاصل ہو سكے.
حافظ ابن حجر رحمہ تعالى كى شرح كى تلخيص ختم ہوئى، ديكھيں: كتاب الدعوات و كتاب التوحيد صحيح البخارى.
واللہ اعلم .

برادرى كا رشتہ نہ ہونے كى بنا پر والد نے دينى رشتہ ٹھكرا ديا

0 comments

برادرى كا رشتہ نہ ہونے كى بنا پر والد نے دينى رشتہ ٹھكرا ديا
ميں انيس برس كى ہوں، ميرے ليے ايك دينى اور صوم و صلاۃ كے پابند نوجوان كا رشتہ آيا، ميں نے استخارہ بھى كيا اور ميرا دل اس رشتہ پر مطمئن اور موافق ہے، ليكن ميرے والد صاحب نے صرف اس بنا پر يہ رشتہ ٹھكرا ديا كہ يہ ہمارى برادرى سے تعلق نہيں ركھتا.
ميں نے اس سلسلہ ميں والد صاحب سے بات كى كہ اللہ كے ہاں كسى عربى اور عجمى كا فرق نہيں صرف تقوى كا فرق ہے، اور ميں عفت و عصمت كى محتاج ہوں، تو والد صاحب نے مجھے بےشرم اور بےحياء قرار ديا كہ ميں كنوارى ہو كر بھى اس رشتہ پر موافقت طلب كر رہى ہوں.
حالانكہ مجھے علم ہے كہ اس طرح كے دينى مسائل ميں وضاحت كرنى چاہيے شرمانا نہيں چاہيے، ليكن والد صاحب نے مجھے بہت شديد زدكوب كيا تو ميں نے انہيں كہا: اللہ تعالى اس ظلم پر راضى نہيں، موافقت اور رضامندى ميرا حق ہے، تو والد صاحب نے جواب ديا كہ شريعت اسلاميہ غير برادرى ميں شادى كرنے كى اجازت نہيں ديتى تا كہ مشكلات پيدا نہ ہوں.
حالانكہ ميں اپنى برادرى ميں بالكل شادى نہيں كرنا چاہتى كيونكہ ان ميں اكثر مشكلات رہتى ہيں، اور ان ميں افہام و تفہيم جيسى كوئى چيز نہيں ہے، ميں نے والد صاحب سے كہا كہ وہ علماء كرام سے دريافت كريں اگر حق ان كے ساتھ ہے تو ميں ان كى رائے كے مطابق شادى كر لونگى، ليكن اگر مجھے اختيار كا حق ہے تو پھر ميں اسى نوجوان سے شادى كرونگى...
ميرے والد صاحب دين پر عمل كرنے والے ہيں وہ صرف برادرى كوراضى كرنے كے ليے انكار كر رہے ہيں، كہ مجھے راضى كر كے سارى برادرى اور خاندان كو ناراض نہيں كر سكتے، برائے مہربانى مجھے اس سلسلہ ميں فتوى عنائت فرمائيں جسے والد صاحب بھى ديكھيں گے، اور كوئى نصيحت بھى فرمائيں. اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.


الحمد للہ:

اول:
جمہور فقھا كرام نكاح ميں كفاءۃ يعنى برابرى كى شرط ركھتے ہيں، ليكن ان كا اس ميں اختلاف پايا جاتا ہے كہ اس ميں معتبر صفات كيا ہونگى، كچھ فقھاء نسب كا اعتبار كرتے ہيں كہ نسب ايك جيسا ہو، اور كچھ صنعت و حرفت كى برابرى كى شرط لگاتے ہيں، اور كچھ نے مالدارى و آسانى كى شرط ركھى ہے.
ليكن اس ميں راجح يہى ہے كہ دينى برابرى ہونى چاہيے اس ليے كوئى كافر شخص كسى مسلمان عورت سے شادى نہيں كر سكتا، اور نہ ہى فاسق و فاجر شخص كسى عفت و عصمت ركھنے والى عورت سے.
اس مذہب كے دلائل بيان كرتے ہوئے ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نكاح ميں برابرى و كفاءۃ كے حكم كے متعلق فصل "
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اے لوگو ہم نے تمہيں مرد و عورت سے پيدا كيا ہے، اور تمہارے كنبے قبيلے اور برادرياں اس ليے بنائى ہے تا كہ تم ايك دوسرے كى پہچان كر سكو، يقينا تم ميں سے اللہ تعالى كے ہاں سب سے زيادہ عزت والا وہى ہے جو تم ميں سب سے زيادہ تقوى و پرہيزگارى والا ہے }الحجرات ( 13 ).
اور ايك مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:
{ يقينا سب مومن ايك دوسرے كے بھائى ہيں }الحجرات ( 10 ).
اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد ربانى ہے:
{ مومن مرد اور مومنہ عورتيں ايك دوسرے كے دوست و ولى ہيں }التوبۃ ( 71 ).
اور ايك جگہ ارشاد بارى تعالى اس طرح ہے:
{ چنانچہ اللہ رب العزت نے ان كى دعا قبول كر لى كہ ميں كسى بھى عمل كرنے والے كے عمل ضائع نہيں كرونگا، چاہے وہ عمل كرنے والا مرد ہو يا عورت، تم ايك دوسرے ميں سے ہو }آل عمران ( 195 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" كسى عربى كو كسى عجمى پر كوئى فضيلت نہيں، اور نہ ہى كسى عجمى كو كسى عربى پر فضيلت ہے، اور نہ ہى كسى سفيد كو كالے پر اور نہ كسى كالے كو سفيد پر فضيلت حاصل ہے، مگر تقوى و پرہيزگارى كے ساتھ، سب لوگ آدم كى اولاد ہيں، اور آدم عليہ السلام مٹى سے پيدا ہوئے ہيں "
اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" بنو فلاں ميرے اولياء و دوست نہيں، بلكہ ميرے اولياء و دوست تو متقى و پرہيزگارى ہيں وہ جہاں بھى ہوں اور جيسے بھى ہوں "
اور ترمذى ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اگر تمہارے پاس كوئى ايسا شخص آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو تم اس سے ( اپنى ولايت ميں موجود لڑكى كى ) شادى كر دو، اگر ايسا نہيں كروگے تو پھر زمين ميں بہت لمبا چوڑا فتنہ و فساد بپا ہو جائيگا.
صحابہ كرام نےعرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: اگر اس ميں كچھ ہو تو ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تين بار فرمايا:
" اگر تمہارے پاس ايسا شخص آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو اس كا نكاح كر دو "
اور بنى بياضہ كو رسول كو كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ابو ہند كا نكاح كر دو، اور اسے نكاح ميں اپنى بيٹى دو، حالانكہ وہ حجام تھا "
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے زينب بنت جحش جو كہ قريشى خاندان سے تعلق ركھتى تھى كى شادى اپنے مولا اور غلام زيد بن حارثہ رضى اللہ تعالى عنہ سے كى، اور بنو فہر جو كہ قريش خاندان كا ايك قبيلہ ہے كى عورت فاطمہ بنت قيس كى شادى اسامہ بن زيد رضى اللہ تعالى عنہ سے كى.
اور اسى طرح بلال بن رباح رضى اللہ تعالى عنہ كى شادى عبد الرحمن بن عوف رضى اللہ تعالى عنہ كى بہن سے كى.
اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اور طيب و پاكيزہ عورتيں طيب و پاكيزہ مردوں كے ليے ہيں اور طيب و پاكيزہ مرد طيب و پاكيزہ عورتوں كے ليے ہيں }النور ( 26 ).
{ اور اگر تمہيں ڈر ہو كہ يتيم لڑكيوں سے نكاح كر كے تم انصاف نہ كر سكو گے تو اور عورتوں ميں سے جو بھى تمہيں اچھى لگيں تم ان سے نكاح كر لو }النساء ( 3 ).
اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم اس كا متقاضى ہے كہ برابرى ميں اصلا اور كمالا دونوں لحاظ سے دين كى برابرى كا لحاظ ركھا جائيگا، اس ليے كوئى مسلمان عورت كسى كافر مرد سےشادى نہيں كريگى، اور نہ ہى كوئى عفت و عصمت كى مالك عورت كسى فاسق و فاجر شخص سے شادى كريگى.
كتاب و سنت نے برابرى ميں اس كے علاوہ كوئى اور چيز معتبر نہيں ركھى، كيونكہ كتاب و سنت ميں كسى مسلمان عورت كا كسى زانى شخص سے نكاح كرنا حرام قرار ديا گيا ہے اور حسب و نسب اور صنعت و حرفت كا اعتبار نہيں كيا، اور نہ ہى مالدار اور آزاد كا اعتبار كيا ہے.
اس ليے كسى غلام شخص كا كسى حسب و نسب ركھنے والى آزاد عورت سے نكاح جائز ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ عفت و عصمت ركھنے والا ہو، اسى طرح كتاب و سنت نے غير قريشى شخص كے ليے قريشى خاندان كى عورتوں سے شادى كرنا جائز قرار ديا ہے، اور غير ہاشمى خاندان كے اشخاص كى شادى ہاشمى خاندان كى عورتوں سے جائز ہے، اور اسى طرح فقراء و مساكين مردوں كى شادى مالدار عورتوں سے كرنا جائز كيا ہے. انتہى
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 144 ).
كفاءۃ اور برابرى ميں صرف دين كا اعتبار كيا جائيگا يہى قول عمر اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم اور محمد بن سيرين اور عمر بن عبد العزيز رحمہم اللہ سے مروى ہے، اور امام مالك رحمہ اللہ نے بالجزم يہى كہا ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ سے بھى يہى روايت ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ابن قيم رحمہ اللہ نے بھى اسے ہى اختيار كيا ہے.
ديكھيں: المغنى ( 7 / 27 ) الموسوعۃ الفقھيۃ ( 34 / 271 ) حاشيۃ الدسوقى ( 2 / 249 ) اور الفتاوى الھنديۃ ( 1 / 290 ) تحفۃ المحتاج ( 7 / 280 ) كشاف القناع ( 5 / 67 ).
اس اگر عورت كے ليے ايسا رشتہ آئے جس كا دين اور اخلاق پسند اور صحيح ہو تو يہ رشتہ رد نہيں كيا جائيگا؛ جيسا كہ حديث ميں وارد ہے، چاہے وہ برادرى سے تعلق ركھتا ہو يا غير برادرى يعنى كسى دوسرى برادرى اور قبيلہ سے تعلق ركھے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس ميں وہ بھى شامل ہے جو آج كل لوگوں ميں رواج پا چكا اور رسم بن چكى ہے كہ اب قبيلہ سے تعلق ركھنے والى عورت كسى خضيرى شخص سے شادى نہيں كرتى، اور خضيرى شخص كسى قبيلہ سے تعلق ركھنے والى عورت سے شادى نہيں كرتا.
خضيرى اس شخص كو كہتے ہيں جو كسى عرب قبيلہ كى طرف منسوب نہيں ہوتا، اور اس كى اصل موالى ميں شامل ہوتى ہے، يہ موالى قبائل ميں داخل ہو كر ان كے ساتھ مل گئے، ليكن جب ا نكى اصل قبيلہ سے تعلق نہ ركھتى تھى اس ليے انہيں خضيرى كہا جانے لگا اور دوسروں كو قبيلى، يہ برى اور باطل عادات و رسم و رواج ميں شامل ہوتا ہے كہ قبيلى شخص كسى خضيرى عورت سے اور خضيرى شخص كى قبيلى عورت سے شادى نہيں كرتا.
رہا اول كہ كوئى قبيلى شخص كسى خضيرى عورت سے شادى نہيں كرتا، ميرے علم كے مطابق تو كسى عالم دين نے بھى مطلقا ايسا نہيں كہا؛ كيونكہ يہاں خاوند تو بيوى كے زيادہ اچھے شرف و نسب والا ہے، يعنى خاوند قبيلى ہے جو عرب كے كسى معروف قبيلہ كى طرف منسوب ہے، ليكن بيوى غير قبيلى ہے.
يہ تو مجھے علم نہيں كہ كسى عالم دين نے كہا ہو كہ كوئى قبيلى شخص كسى خضيرى عورت سے شادى مت كرے ليكن بعض علماء كرام يہ كہتے ہيں كہ: اگر كچھ اولياء مخالفت كرتے ہوں تو پھر كوئى قبيلى شخص كسى خضيرى عورت سے شادى نہ كرے، اگرچہ يہ قول بھى مرجوح ہے صحيح نہيں، ليكن يہ قول كہا ضرور گيا ہے، ليكن ہمارے علم كے مطابق تو پہلا كسى نے كہا بھى نہيں كہ كوئى خضيرى عورت كسى قبيلى شخص سے شادى نہ كرے.
يہ ايك برى اور غلط عادت ہے جو لوگوں كى سوچ سے محو كرنى چاہيے، اور اسے ان كے ذہن سے نكال باہر كرنے كى كوشش كى جائے، يہ كہا جائيگا كہ: كيا يہ خضيرى عورت يا يہ خضيرى مرد آزاد نہيں ہيں ؟
يہ صحيح ہے كہ مملوكہ لونڈى سے كوئى آزاد شخص شروط كے بغير نكاح نہيں كر سكتا جيسا كہ قرآن مجيد كى درج ذيل آيت ميں آيا ہے:
{ اور جو كوئى تم ميں سے آزاد عفيف عورت سے شادى كرنے كى استطاعت نہيں ركھتا تو پھر مومن لونڈيوں سے شادى كر لو }النساء ( 25 ).
ليكن آزاد عورت كے بارہ ميں ہم يہ كہيں گے كہ كس دين ميں آيا ہے كہ كوئى آزاد شخص آزاد عورت سے شادى نہ كرے؟
اس ليے كچھ علماء كرام كا كہنا ہے كہ قبيلى عورت كسى خضيرى مرد سے اس وقت شادى مت كرے جب اس كے كچھ اولياء اس كى مخالفت كرتے ہوں، بلكہ بعض علماء كرام نے تو غلو كرتے ہوئے يہاں تك كہا ہے كہ: اصل ميں يہ نكاح صحيح ہى نہيں ہوگا.
يہ سب قول كمزور اور ضعيف ہيں اور قابل التفات نہيں كيونكہ مومن ايك دوسرے كے كفو ہيں، اور مسلمانوں كا خون اور ان كے احوال برابر ہيں، ان ميں تفريق كى كوئى دليل نہيں پائى جاتى " انتہى
ماخوذ از: اللقاء الشہرى نمبر ( 20 ).
دوم:
جب يہ واضح ہو گيا ہے تو ہم باپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ بيٹى كے رشتہ كے ليے آنے والے نوجوان كے بارہ ميں تحقيق كرے اگر تو وہ نيك و صالح اور راہ مستقيم پر چل رہا ہے تو اپنى بيٹى كى اس سے شادى كر دے، كيونكہ صاحب دين اور نيك و صالح شخص ہى اس كى بيٹى كى حفاظت اور ديكھ بھال كريگا، اگر وہ اس سے محبت كريگا تو اس كى عزت كريگا، اور اگر اسے ناپسند بھى كرے تو اس پر ظلم بھى نہيں كريگا.
اگر لڑكى آنے والے رشتہ كے بارہ ميں اپنى رائے كا اظہار كرتى ہے يہ قابل ملامت نہيں، كہ اس نے آنے والے رشتہ كو قبول كرنے كى رغاگر لڑكى آنے والے رشتہ كے بارہ ميں اپنى رائے كا اظہار كرتى ہے يہ قابل ملامت نہيں، كہ اس نے آنے والے رشتہ كو قبول كرنے كى رغبت كا اظہار كيا ہے كيونكہ وہ اسے كفو اور مناسب سمجھتى ہے، قابل ملامت اس ليے نہيں كہ وہ لڑكى تو حلال كے حصول كى كوشش و سعى ميں ہے اور عفت و عصمت چاہتى ہے.
جب نسب اور برادرى ميں تشدد اور سختى كرنا كہ برادرى سے باہر رشتہ نہ كرنا ايك غلط اور برى عادت ہے جو لوگوں كى فكر اور سوچ سے محو كرنا ضرورى ہے، جيسا كہ شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں، تو پھر باپ كو اپنے خاندان كے كچھ افراد كے اعتراض كى طرف ملتفت نہيں ہونا چاہيے.
بلكہ اس كا غير قبيلى اور غير برادرى شخص كا رشتہ قبول كرنا اور اس سے اپنى بيٹى كى شادى كر دينا اس برى عادت كو محو كرنے ميں ممد و معاون ثابت ہوگا.
اس عادت كى بنا پر معاشرے ميں كتنى خرابياں پيدا ہوئى ہے، اور كتنى ہى لڑكياں شادى كى عمر كى حد سے تجاوز كر چكى ہيں، اور غير شادى شدہ لڑكيوں كى كثرت ہو چكى ہے اور اسى طرح طلاق كى كثرت ہو گئى ہے؛ كيونكہ يہاں قبيلہ اور برادرى كو ديكھا جا رہا ہے، اور اس كى مانى جا رہى ہے، اور آدمى كے دين اور اس كى استقامت كو نہيں ديكھا جا رہا.
بعض اوقات ہوتا ہے آدمى كسى ايسى عورت سے شادى كر لے جس كى اسے رغبت ہى نہيں، اور اسى طرح كوئى برادرى اور قبيلہ كى بنا پر كوئى عورت كسى ايسے مرد سے شادى كر ليتى ہے جس ميں اس كى رغبت ہى نہيں ہوتى، تو اس كا نتيجہ ظاہر ہے مشكلات و پريشانيوں كى صورت ميں ہى نكلےگا، اور پھر انجام عليحدگى اور طلاق ہوگا.
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں اور آپ كو رشد و ہدايت اور صحيح راہ كى توفيق نصيب فرمائے، ہميں اور آپ كو اپنى اطاعت اور اپنى رضامندى و خوشنودى والے اعمال كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .

Sunday 14 July 2013

ركوع سے اٹھنے كے بعد ہاتھ كہاں ركھے جائيں

0 comments

ركوع سے اٹھنے كے بعد ہاتھ كہاں ركھے جائيں ؟

ركوع سے اٹھ كر ہاتھ كہاں ركھے جائيں گے ؟ ميں نے بعض لوگوں كو سينہ پر ہاتھ ركھے ہوئے اور بعض كو ہاتھ چھوڑے ہوئے ديكھا ہے.


الحمد للہ:

ركوع سے اٹھ كر ہاتھ ركھنے كى كيفيت ميں صحيح يہ ہے كہ داياں ہاتھ بائيں بازو پر ركھا جائے، اور ہاتھ نہ چھوڑے جائيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" ظاہر يہ ہوتا ہے كہ سنت يہ ہے داياں ہاتھ بائيں بازو پر ركھا جائے، كيونكہ سھل بن سعد الثابت رضى اللہ تعالى عنہ كى بخارى شريف ميں عمومى حديث ہے جس ميں بيان ہوا ہے كہ:

" لوگوں كو حكم ديا جاتا تھا كہ وہ نماز ميں اپنا داياں ہاتھ بائيں بازو پر ركھيں "

چنانچہ اگر آپ اس حديث كے عموم كو ديكھيں كہ " نماز ميں " يہاں يہ بيان ہوا ہے نماز ميں اور يہ نہيں كہا گيا كہ " قيام ميں " تو آپ كے ليے يہ واضح ہو گا ركوع كے بعد اٹھ كر بھى ہاتھ باندھنے مشروع ہيں؛ اس ليے كہ نماز ميں ركوع كى حالت ميں دونوں ہاتھ گھٹنوں پر اور سجدہ كى حالت ميں زمين پر، اور بيٹھنے كى حالت ميں دونوں رانوں پر، اور قيام كى حالت ميں ـ يہ ركوع سے قبل اور ركوع كے بعد دونوں كو شامل ہے ـ انسان اپنا داياں ہاتھ بائيں بازو پر ركھے.

صحيح يہى ہے.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 3 / 146 ).

واللہ اعلم .

Saturday 13 July 2013

بیس رکعات تراویح میں مکہ کو دلیل بنانے

0 comments
بیس رکعات تراویح میں مکہ کو دلیل بنانے والے کیا مکہ کو حجت سمجھتے ہیں؟؟؟

۱۔ مکہ میں رکوع سے پہلے اور بعد میں رفع الیدین کیا جاتا ہے۔

۲۔ مکہ میں اذان سے قبل و بعد مروجّہ درود نہیں پڑھا جاتا۔

۳۔ مکہ میں تکبیرا کہری کہی جاتی ہے ۔

۴۔ مکہ میں ہر نماز کے بعد اجتماعی دعا نہیں کی جاتی۔

۵۔مکہ میں نمازیں اوّل وقت میں ادا کی جاتی ہیں لیکن احناف اس کی مخالفت کرتے ہیں۔

۶۔ مکہ میں خانہ کعبہ میں نمازِ جنازہ پڑھے جاتے ہیں جبکہ ۲۰ پڑھنے والے اس کے منکر ہیں۔

۷۔ مکہ میں نمازِ جنازہ میں ثناء نہیں پڑھی جاتی لیکن احناف نمازِ جنازہ میں ثناء پڑھتے ہیں۔

۸۔ مکہ میں نمازِ جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرا جاتا ہے لیکن احناف ا س کے منکر ہیں۔

۹ ۔ مکہ میں جو نمازِ جنازہ پڑھی جاتی اس میں سورۃ فاتحہ پڑھی جاتی ہے لیکن احناف نمازِ جنازہ میں اس کی مخالفت کرتے ہوئے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتے۔

۱۰۔ مکہ میں نمازِ فجر سے قبل بھی ایک اذان کہی جاتی ہے بیس پڑھنے والے یہ اذان کیوں نہیں دیتے؟

۱۱۔مکہ میں نمازِ فجر اندھیرے میں ادا کی جاتی ہے جبکہ احناف اجالے میں فجر پڑھتے ہیں۔

۱۲۔ مکہ والے ایک رکعت وتر کے قائل ہیں جبکہ احناف اس کے منکر ہیں۔

۱۳ ۔مکہ میں عورتوں کو مساجد میں آنے کی اجازت ہے جبکہ احناف اپنی عورتوں کو اس سے منع کرتے ہیں۔

۱۴۔ مکہ میں نمازِ عید کےخطبہ سے قبل کوئی وعظ و نصیحت نہیں کی جاتی لیکن احناف اس کی مخالفت کرتے ہوئے خطبہ عید سے قبل وعظ و نصیحت کرتے ہیں۔

۱۵۔ مکہ میں نماز عید میں کل بارہ تکبیرات کہی جاتی ہیں لیکن مکہ کی بیس رکعت کو دلیل بنانے والے نماز عید میں صرف چھ تکبیرات پڑھتے ہیں۔

۱۶۔ مکہ میں عیدین میں مرد و عورت جماعت کے ساتھ عیدین پڑھتے ہیں لیکن احناف عورتوں کو جماعت میں حاضر آنے کی جازت نہیں دیتے۔

۱۷۔ مکہ میں روزہ کی نیّت زبان سے نہیں کی جاتی جبکہ احناف جو مکہ کو بیس رکعت میں دلیل بناتے ہیں وہ وبصوم غد نويت من شهر رمضان کی خود ساختہ نیّت کرتے ہیں۔

۱۸۔ کہ میں افطار صحیح وقت پر کیا جاتا ہے لیکن احناف اس کی مخالفت کرتے ہوئے احتیاطً کچھ منٹ دیر سے افطار کرتے ہیں۔



تراویح میں مخالفت:

۱۹۔ مکہ مین تراویح کے ساتھ تہجد الگ سے نہیں پڑھی جاتی جبکہ احناف کے نزدیک تراویح اور تہجد الگ الگ پڑھنی چاہیئے۔

۲۰۔ مکہ کی بیس تراویح میں پاوؤں سے پاؤں اور کندھے سے جندھا ملا کر ممقتدی کھڑے ہوتے ہیں۔

۲۱۔ مکہ کی بیس تراویح میں امام ہاتھ سینے پر یا کم از کم ناف سے اوپر بانھتے ہیں ناف کے نیچھ نہیں۔

۲۲۔ مکہ کی بیس تراویح میں امام کے پیھے فاتحہ پڑھی جاتی ہے احناف اس کے منکر ہیں۔

۲۳۔کہ کی بیس رکعت تراویح میں امام اور مقتدی دونوں بلند آواز سے آمین کہتے ہیں۔

۲۴۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں رفع الیدین کیا جاتا ہے۔

۲۵۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں وتر فصل کر کے پڑھا جاتا ہے یعنی دو رکعت پڑھ کر امام سلام پھیر دیتا ہے اس کے بعد ایک وتر الگ سے پڑھا جاتا ہے احناف اس کے منکر ہیں۔

۲۶۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں وترمیں قنوت سے قبل رفع الیدین نہیں کیا جاتا جبکہ احناف کا اس پر عمل ہے۔

۲۷۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں قنوت رکوع کے بعد پڑھی جاتی ہے جبکہ احناف رکوع سے پہلے پڑھتے ہیں۔

۲۸۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں قنوت میں ہاتھ اٹھا کر دعا کی جاتی ہے جبکہ احناف کا اس پر عمل نہیں۔

۲۸۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں قنوتِ نازلہ پڑھی جاتی ہے جبکہ احناف کا اس پر عمل نہیں۔

۳۰۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں ایک رات میں قرآن ختم نہیں کیا جاتا جبکہ احناف شبینہ میں ایک رات میں قرآن ختم کرتے ہیں۔

مکہ کی بیس رکعت تراویح کو حجت سمجھنے والے ان ۳۰ مسائل میں بھی مکہ کی پیروی کیوں نہیں کرتے ؟؟

یاد رہے ہم نے یہاں صرف ۳ہ مسائل نماز سے متعلق نقل کیئے ہیں جن میں احناف اہل مکہ کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ سینکڑوں مسائل موجود ہیں جن میں احناف کا اہل مکہ سے اختلاف ہے ،ہم نے اختصار کے پیشِ نظر ان کا تذکرہ نہیں کیا۔

Wednesday 10 July 2013

عورت کے لیے با جماعت نماز ادا کرنے کا حکم

0 comments


عورت کے لیے با جماعت نماز ادا کرنے کا حکم
جمع و تدوین ذیشان اکرم رانا
ہمارے ہاں عورت کا مسجد میں جاکر نماز باجماعت اداکرنے کے بارے میں مختلف لوگوں میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں لہذا ان تمام آراء کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ان کے دلائل کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئے غیرجانبدرانہ موقف کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے لہذا درخواست یہ ہے کہ اس کوشش کو تقلیدی ذہن یا تعصب کی وجہ سے رد کرنے کی بجائے سوچ وبچار کی اگر زحمت کی جائے گی تو ان شاء اللہ فائدہ ہو گا۔

عورتوں کے لیے با جماعت نمازکی ادائیگی کے حوالے سے دو مسئلے سامنے آتے ہیں :
1- عورتوں کا مسجد میں با جماعت نماز کی ادائیگی کا حکم
2- عورتوں کا گھرمیں نمازکی ادائیگی کے لیے جماعت کا حکم
عورتوں کا مسجد میں با جماعت نماز کی ادائیگی کا حکم
عورتوں کاجامع مسجد میں با جماعت نماز کی ادائیگی کے لیے گھروں سے نکلنے کےبارے میں جائز ناجائزکاحکم لگانے سے پہلےفقہائے کرام کی رائے اور ان کے نقطۂِ نظر کا اجمالی خاکہ پیش خدمت ہے:
فقہائے کرام کی ایک جماعت عورت کی عمر کو مد نظر رکھتے ہوے یہ تفریق کرتی ہے کہ عورت بوڑھی عمر رسیدہ ہے یا جواں سال اور اگر بوڑھی ہےتوفقہاء کی ایک جماعت اسے با جماعت نمازکی ادائیگی کے لیے مسجد جانے کی اجازت دیتی ہے۔ اور اگر جوان ہے تو اسے جانے کی اجازت نہیں۔ بلکہ بعض فقہاء نے تو بوڑھی عورت کو بھی مسجد جانے کی اجازت نہیں دیتے۔اور فقہائے کرام کی ایک جماعت عورتوں کو مسجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کی حجاب اور آداب شریعت کو مد نظر رکھ کر نکلنے سے مشروط اجازت دیتے ہیں ۔
در اصل اس اختلاف کے پیچھے عورت کے گھر سے نکلنے سے پیدا ہونے والے مفاسد کا انسداداور کسی فتنہ کے جنم لینے سے پہلے حفظ ماتقدم کا جذبہ کارفرماہے۔
فقہائے کرام کے نقطۂِ نظرکے اجمال کی تفصیل درج ذیل ہے:
پہلاقول: فقہائے احناف جوان عورت کوکلی طور پرمسجد جانے سےبالاتفاق منع کرتے ہیں ۔لیکن اگرعورت بوڑھی ہے تو صاحبین کے نزدیک تمام نمازیں اور امام ابو حنیفہ ﷫کے نزدیک صرف نماز ظہر ،عصر اور جمعہ مسجدمیں ادا کرسکتی ہے ۔( )
دوسرا قول: فقہائے مالکیہ کہتے ہیں کہ بڑی عمرکی عورت جس میں مردوں کے لیےدلچسپی اور آرزو نہیں رہی وہ مسجد جا سکتی ہے، اگر مردوں کے لیے اس میں کوئی آرزو اور دلچسپی باقی ہے تو وہ وقتا فوقتا جاسکتی معمول نہیں بنا سکتی اور جوان عورت اگر زیب و زینت کا اظہارنہیں کرتی تو مسجد جاسکتی ہے لیکن اس کے لیے اولی یہ ہے کہ وہ گھر میں نماز پڑھے اور اگروہ زیب و زینت کا اظہار کرتی تو اس کے لیےمسجد جانا جائزنہیں۔( )
تيسرا قول: فقہائے شوافع کہتے ہیں کہ عورتوں پر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا فرض ہے نہ فرض کفایہ لیکن بوڑھی عورتوں کے لیے مردوں کی جماعت کے ساتھ مسجدمیں نماز ادا کرنا مستحب ہے اور نوجوان عورتوں کے لیے مکروہ ہے اور مزید اس کی تفصیل یوں بیان کرتے ہیں کہ عمررسیدہ اور ایسی عورتوں کے لیےمسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے جن کی شخصیت پر کشش نہ ہو کہ وہ مردوں کےلیےکسی میلان کا باعث بنیں ،لیکن اگر وہ کسی توجہ کا مرکز بنتی ہیں تو پھر ان کانماز کر لیے گھروں سے نکلنااور اس کو معمول بنا لینا مکروہ ہے ۔ ( )
بعض فقہاء عیدین کی نمازوں کے علاوہ بقیہ تمام نمازوں کے لیے نوجوان عورت کامسجد جانا مکروہ جانتے ہیں۔ ( )
چوتھا قول: اور فقہائے حنابلہ کے مشہور مذہب کے مطابق نوجوان عورت کے لیے مسجد میں با جماعت نماز پڑھنا مکروہ اور بوڑھی عورت کے لیے جائز ہے، ایک روایت کے مطابق بغیر کسی امتیاز اور تقسیم کے تمام عورتوں کے لیےمساجد میں با جماعت نماز پڑھنا مباح ہے ۔( )
عورتوں کا مسجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کے بارے میں فقہاء کا درجہ بالا نقظۂِ نظرسے ایک چیز قدرے مشترک ہے کہ اگر عورت بوڑھی ہے تو اس کے لیے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد جانا جائز ہے اور اگر وہ جوان ہے تو اس کے لیے مسجد جانا مکروہ ہے۔فقہاء نے جن اپنے مذکورہ موقف کو جن دلائل سے استدلال کیا ہے،درج ذیل ہیں:

1- عن ابن عُمَرَ رضي الله عنهما عن النبي صلي الله عليه وسلم قال إذا اسْتَأْذَنَكُمْ نِسَاؤُكُمْ بِاللَّيْلِ إلى الْمَسْجِدِ فَأْذَنُوا لَهُنَّ. ( )
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رسو ل اللہ ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا : جب تم سے تمہاری عورتیں رات کے وقت مسجد جانے کی اجازت مانگیں تو انھیں اجازت دے دو۔‘‘
2- عن أبي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ الله صلي الله عليه وسلم قال لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ الله مَسَاجِدَ الله وَلَكِنْ لِيَخْرُجْنَ وَهُنَّ تَفِلَاتٌ( )
’’حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺے فرمایا: اللہ کی لونڈیوں کو مسجدوں سے نہ روکو لیکن انہیں چاہیے کہ وہ خوشبو کے بغیر نکلیں۔‘‘
3- عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَتْ قَالَ لَنَا رَسُولُ الله -صلى الله عليه وسلم- « إِذَا شَهِدَتْ إِحْدَاكُنَّ الْمَسْجِدَ فَلاَ تَمَسَّ طِيبًا ( )
’’حضرت زینب زوجہ عبداللہ روایت کرتی ہیں کہ رسو ل اللہﷺنے ہم سےفرمایا: جب تم میں سے کوئی مسجدآنے کا ارادہ کرے تو وہ خوشبو نہ لگائے ۔‘‘
4- عن أبي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَصَابَتْ بَخُورًا فلا تَشْهَدْ مَعَنَا الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ ( )
’’حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺنے فرمایا کہ جو عورت خوشبو لگائے وہ ہمارے ساتھ عشاء کی نماز میں حاضر نہ ہو۔‘‘
5- عن بن عُمَرَ رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لَا تَمْنَعُوا نِسَاءَكُمْ الْمَسَاجِدَ وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ. ( )
’’حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺنے فرمایا : اپنی عورتوں کو مسجدوں میں سے نہ روکو اور ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں۔‘‘
6- عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ رضي الله عنها زَوْجَ النَّبِىِّ تَقُولُ لَوْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم رَأَى مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ الْمَسْجِدَ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِى إِسْرَائِيلَ.قَالَ فَقُلْتُ لِعَمْرَةَ أَنِسَاءُ بَنِى إِسْرَائِيلَ مُنِعْنَ الْمَسْجِدَ قَالَتْ نَعَمْ. ( )
’’عمرہ بنت عبد الرحمن سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت عائشہ سے سنا آپ فرماتی تھیں اگر رسو ل اللہ ﷺدیکھ لیتے جو عورتوں نے (زیب وزینت خوشبو اور زرق برق کپڑے )ایجاد کر لیے ہیں تو وہ ضرور ان کو مسجدوں سے منع کر دیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ راوی کہتے ہیں ۔میں نے عمرہ سے کہا کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو مسجدوں سے روک دیا گیا تھاتو انھوں کہا: ہاں۔‘‘
7- عن عَائِشَةَ رضي الله عنها عَنِ النبي صلي الله عليه وسلم قال لا تَمْنَعُوا إِمَاءَ الله مَسَاجِدَ الله وَلْيَخْرُجْنَ تَفِلاَتٍ قالت عَائِشَةُ : وَلَوْ رَأَى حَالَهُنَّ الْيَوْمَ مَنَعَهُنَّ( )
’’ام المومنین عائشہ نبی کریم ﷺسے بیان کرتی ہیں کہ آپؐ نے فرمایا : اللہ تعالی کی بندیوں کو مسجدوں میں جانے سے نہ روکو، اور انہیں بھی چاہیے کہ وہ بغیر خوشبو کے (گھروں سے) نکلیں، حضرت عائشہ فرماتی ہیں: اگر رسول اللہ ﷺآج ان کا حال دیکھتے تو انہیں (مسجدوں میں جانے سے) منع فرماتے۔‘‘
8- عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صلي الله عليه وسلم « لاَ تَمْنَعُوا النِّسَاءَ مِنَ الْخُرُوجِ إِلَى الْمَسَاجِدِ بِاللَّيْلِ ». فَقَالَ ابْنٌ لِعَبْدِ الله بْنِ عُمَرَ لاَ نَدَعُهُنَّ يَخْرُجْنَ فَيَتَّخِذْنَهُ دَغَلاً. قَالَ فَزَبَرَهُ ابْنُ عُمَرَ وَقَالَ أَقُولُ قَالَ رَسُولُ الله صلي الله عليه وسلم وَتَقُولُ لاَ نَدَعُهُنَّ. ( )
’’حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا : عورتوں کو رات کے وقت مسجدمیں جانے سے نہ روکو ۔ عبداللہ بن عمر کے بیٹے نے کہا کہ ہم ان کو نہیں چھوڑیں گے کہ وہ نکلیں اور کو فتنہ فساد پیدا کریں۔راوی کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمر نے ان کو ڈانٹ پلائی اور کہا کہ میں کہتا ہوں کہ رسو ل اللہ ﷺنے کہا اور تو کہتا ہے کہ ہم انھیں ضرور روکیں گے۔ ‘‘
درجہ بالا احاديث كو جمع اور تطبیق دی جائے تو مندرجہ ذیل نکات سامنے آتی ہیں
1- عورتوں کے اولیاء اور ذمہ دران کو حکما کہا گیاہے کہ جب خواتین سےکسی قسم کی خوشبو کی مہک محسوس نہ ہورہی تم انہیں مسجد جانے سے نہ روکویہاں تک کہ اگر وہ نمازعشاء کی ادائیگی کے لیے بھی جانا چاہیں تو تم انہیں منع نہ کرو۔
2- جہاں رسول اللہ ﷺنے خواتین کے ذمہ دران کو انہیں مسجد جانے سے منع کرنے سے روکا ہے وہاں خواتین کو بھی یہ ارشادکر دیا ہے (وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ)کہ ان کا گھروں میں نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے ۔
اسی طرح اگر ایک طرف خواتین کے ذمہ دران کو انہیں مسجد جانے سے منع کرنے سے روکا ہے تو دوسری طرف خواتین کو بھی مسجد جانے کے آداب کی ہدایت اورتعلیمات دےدی ہیں کہ اگروہ مسجد جانا چاہیں تو خوشبواستعمال نہ کریں،اور اگر وہ خوشبو سےمعطر ہیں تو مسجد جانے سے گریزکریں ،لیکن اگر خوشبو استعمال کر چکی ہوں اور مسجد بھی جانا چاہتی ہوں تو ان پر واجب ہے کہ وہ غسل جنابت کی طرح کا غسل کرکے مسجد جائیں ۔
رسول اللہ ﷺکی رحلت کے کچھ عرصہ بعد جب مختلف فتنوں نے جنم لیا تو ام المؤمنین عائشہ فرماتی ہیں کہ اگر آج رسول اللہﷺ ہوتے تو جن اسباب(زیب وزینت ، خوشبو کا استعمال اور کپڑوں کی نمائش وغیرہ) کی وجہ سے بنی اسرائیل کی عورتوں کو مساجد جانے سے منع کیا گیا تھا ان کی بنا پر ہماری عورتوں کو بھی مسجد جانے سےمنع فرما دیتے ۔اور شاید اسی وجہ سے حضرت بلال کا اپنے باپ حضرت عبد اللہ بن عمر سے تکرار ہو گیا، حضرت عبد اللہ بن عمر نے چونکہ رسول اللہﷺ سے براہ راست کسب فیض کیا تھا ، رسول اللہ ﷺنے اگر کوئی عورت مسجد جاناچاہے تو اسے روکنے سےمنع فرمایا لیکن کچھ عرصہ بعدجب مختلف فتنوں نے سر اٹھایا تو حضرت بلال بن عبد اللہ نے حلفا کہا کہ ہم انہیں ضرور روکیں گے۔
اور جہاں تک فتنہ و فساد کی علت کو بنیاد بناکر عورتوں کو مسجد جانے سے روکا جاتا ہے ، لیکن اس اصول کو حضرت علقمہ بن وائل کندی کی روایت (کہ جس میں ایک عورت نماز فجر ادا کرنے لیے مسجد نبوی جا رہی تھی کہ راستے میں ایک نے اس کے ساتھ زنا بالجبر کا ارتکاب کیا ) ( )یا اس کے علاوہ ذخیرہ حدیث میں سے کوئی ایسی روایت نہیں ملتی کہ آپؐ نے زنا بالجبر ہونے والی عورت یا اس کے علاوہ کسی دوسری عورت کو مسجدمیں نماز پڑھنے سے منع کیا ہو۔ جہاں آپؐ سے عورتوں کے گھر میں نماز پڑھنے کی فضلیت ثابت ہے وہاں صحابیات کا رسول اللہﷺ کے پیچھے نماز پڑھنا بھی ثابت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آپؐ نے عورتوں کو مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے آنے جانے کے آداب کی تعلیم بھی ثابت ہے اور صحابہ کو ان کے مسجد آنے سے منع کرنے سے بھی روکا ہے۔
فقہائے کرام کا نقطۂِ نظر جاننے کے بعد جو چیز بطور خاص عیاں ہوتی ہے وہ فقہ اسلامی کا اصولی اور بنیادی قاعدہ ہے :
درء المفاسد أولی من جلب المصالح .مفاسد کا دفع کرنا مصلحت کے حصول سے اولی ہے۔
لہذا اگر کسی قسم کے فتنے کا ڈر ہو تو ان کا گھروں میں نماز پڑھنا افضل ہے ۔ بصورت دیگر اگر وہ عام حالات میں مسجدجانا چاہیں تو انہیں روکا نہ جائے او ر انہیں بھی چاہیے کہ وہ زرق برق کپڑوں کی نمائش ، زیب و زینت کے اظہارخوشبواورزیورات یا اس کے علاوہ کوئی ایسی آواز جس کی وجہ سے ان کا راہ چلتے لوگوں کی توجہ کامرکز بننے کا اندیشہ ہو تو ان کا گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے ۔ اور اگر وہ مکمل شرعی آداب کا لحاظ رکھتے ہوے مسجد جاتی ہیں تو اجازت ہے۔
نوٹ:جہاں تک حضرت عائشہ کے بارے میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اس حکم کو منسوخ کر دیا تھا تو اس کا سادہ سے جواب یہ ہے کہ شریعت میں نسخ کا اختیار نبی کے پاس بھی نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالی کی طرف سےآتا ہے تو جب نبی اپنی طرف سےنسخ یا تبدیلی احکام نہیں کر سکتا تو نعوذ باللہ بعد میں کس کے پاس اختیار ہے کہ وہ شرعی احکام میں تبدیلی یا نسخ کا حکم جاری کر سکے۔اس لیے یہ سراسر حضرت عائشہ پر بہتان ہے کہ انہوں نے منسوخ کر دیا تھا اور جس نے بھی اس قول کا اظہار کیا ہے وہ بالکل شرعی علوم سے ناواقف معلوم ہوتا ہے ورنہ ایسی بات نہ کی جاتی۔
اللہ تعالی حق کو قبول کرنے توفیق دے اور پھر اس پر عمل کی بھی توفیق عنایت فرمائیں۔آمین

ِِِِ۔


( ) مختصر اختلاف العلماء ، الطحاوي 1/231، البحر الرائق 1/380، حاشية ابن العابدين 1/566
( ) شرح مختصر خليل 2/35، التمهيد 23/402، الاستذكار 2/469
( ) المجموع4 / 170،171، روضة 1 / 340.
( ) المجموع 4 /405 ،روضة 1لطالبین 1/ 340 ،مغنی المحتاج 1 / 230 ،الوسیط2 / 226.
( ) الإنصاف 2/212،
( ) صحيح بخاري كتاب الصلاة ‘ باب خُرُوجِ النِّسَاءِ إلى الْمَسَاجِدِ بِاللَّيْلِ وَالْغَلَسِ، حديث: (865)، صحيح مسلم، كتاب الصلاة، بَاب خُرُوجِ النِّسَاءِ إلى الْمَسَاجِدِ إذا لم يَتَرَتَّبْ عليه فِتْنَةٌ وَأَنَّهَا لَا تَخْرُجْ مُطَيَّبَةً، حديث (442)
( ) سنن ابی داؤد کتاب الصلاة بَاب ما جاء في خُرُوجِ النِّسَاءِ إلى الْمَسْجِدِ (565)، مسند احمد 2 / 438 (9643)
( ) صحيح مسلم‘كتاب الصلاة ‘بَاب خُرُوجِ النِّسَاءِ إلى الْمَسَاجِدِ إذا لم يَتَرَتَّبْ عليه فِتْنَةٌ وَأَنَّهَا لَا تَخْرُجْ مُطَيَّبَةً (444)،سنن النسائي : (5129) ، صحيح ابن حبان : (2215)
( ) صحيح مسلم‘كتاب الصلاة ‘بَاب خُرُوجِ النِّسَاءِ إلى الْمَسَاجِدِ إذا لم يَتَرَتَّبْ عليه فِتْنَةٌ وَأَنَّهَا لَا تَخْرُجْ مُطَيَّبَةً (444)،سنن ابي داؤد (4175).
( ) سنن ابو داؤد ، كتاب الصلاة ، باب ما جاء فى خروج النساء إلى المسجد ، (567)،مسند احمد 2 / 76 ، 77 (5471) ، المستدرك على الصحيحين ، 1 / 327 (755)
( ) متفق عليه صحيح بخاري كتاب الأذان ، باب انتظار الناس قيام الإمام العالم ، (869)،مسلم كتاب باب خروج النساء إلى المساجد إذا لم يترتب عليه فتنة وأنها لا تخرج مطيبة .(445)
( ) مسند احمد 6 / 69،70 (24910)
( ) متفق عليه صحيح بخاری کتاب الأذان ،باب خروج النساء إلی المساجد بالليل و الغلس ، (865)،مسلم کتاب الصلاة باب خروج النساء إلى المساجد إذا لم يترتب عليه فتنة وأنها لا تخرج مطيبة(442)
( ) جامع الترمذي، كتاب الحدود، بَاب ما جاء في الْمَرْأَةِ إذا اسْتُكْرِهَتْ على الزنى، حديث: (1454).سنن أبي داود، كتاب الحدود، بَاب في صَاحِبِ الْحَدِّ يَجِيءُ فَيُقِرُّ، حديث:(4379).