YOUR INFO

Thursday 28 February 2013

سیدنا مغیرہ بن شعبہ کا قبولِ اسلام

0 comments

سیدنا مغیرہ بن شعبہ کا قبولِ اسلام
عمرفاروق سعیدی

مغیرہ بن شعبہ بن ابی عامر بن مسعود بن معتب بن مالک ثقفی آپ کا نامِ نامی تھا۔ طائف میں قبیلۂ بنی ثقیف کے جلیل القدر فرزند تھے اور غزوۂ خندق کے بعد مشرف بہ اسلام ہوئے۔ بڑے دانا، زیرک، معاملہ فہم، ذہین اور ہوشیار طبیعت کے مالک تھے۔ مسلمان ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اور آپؐ کے قرب سے بہت فیض پایا۔ صلح حدیبیہ اور بیعت ِرضوان میں شریک تھے۔طائف کا بت گرانے کے لیے بھیجی جانے والی جماعت میں آپ بھی شامل تھے۔ جنگ ِیمامہ، یرموک اور قادسیہ میں شریک ہوئے اور بڑے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔ فارسیوں کے قائد رستم سے گفتگو کے لئے حضرت سعد بن وقاصؓ نے ان ہی کو منتخب فرمایا تھا۔ ان کی زندگی کے حالات بڑے دلچسپ ہیں اور ان کے اسلام لانے کا واقعہ بھی بڑا عجیب ہے۔ امام ذہبی رحمة اللہ علیہ نے علامہ واقدی کے حوالے سے لکھا ہے کہ

مغیرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ اپنے دین کفر پر ڈٹے ہوئے تھے۔ ہمارے لوگ لات بُت کے مجاور تھے۔ اسلام اور مسلمان دھیرے دھیرے اپنا دائرہ وسیع کررہے تھے مگر میں اسلام کے لئے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتا تھا۔ بلکہ میرا عزم تھا کہ اگر میری قوم مسلمان ہوبھی گئی تو میں کسی طرح مسلمان نہیں ہوں گا۔ ان حالات میں ہمارے قریبی خاندان بنو مالک کے چند لوگوں نے خیرسگالی کے طور پر مصر کے بادشاہ مقوقس کے ہاں جانے کا پروگرام بنایا۔ میں نے بھی ان کے ساتھ جانے کا عزم کرلیا۔ بادشاہ کے لئے عمدہ عمدہ تحائف جمع کئے گئے۔ میں نے اپنے چچا عروہ بن مسعود سے مشورہ کیا تو اُس نے میری تائید نہیں کی اور کہا کہ اس وفد میں تمہارے گھرانے کا کوئی فرد شریک نہیں ہے، اس لئے تمہارا جانابھی مناسب نہیں ہے۔ مگر میں نے اس کا یہ مشورہ قبول نہ کیا اور سفر کی تیاری کرلی۔ اس وفد میں میرے علاوہ ہمارے قبیلے کی شاخ بنومالک کے لوگ بھی تھے۔ [خیال رہے کہ یہ عروہ بن مسعود وہی ہے جو صلح حدیبیہ میں اہل مکہ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نمائندہ بن کر آیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کی تھی ۔

کہتے ہیں کہ الغرض ہمارا یہ وفد روانہ ہوگیا اور اسکندریہ جاپہنچا اور اتفاق سے شاہِ مصر مقوقس بھی اس موقع پر ساحلِ سمندر پر اپنی ایک مجلس برپا کئے ہوئے تھا۔ میں ایک کشتی پر سوار ہوکر ان لوگوں کے سامنے جاپہنچا۔ مقوقس نے مجھے دیکھا اور اجنبی محسوس کیا تو معلوم کروایا کہ یہ کون شخص ہے؟ میں نے اپنا تعارف اور اپنی آمد کا مقصد بتایا تو اُس نے حکم دیا کہ ان لوگوں کو گرجاگھر میں ٹھہرایا جائے اور خاطر تواضع کی جائے۔

پھر ہمیں باریابی کا موقعہ دیا اور ملاقات کے لئے بلایا گیا۔ ہمارے وفد کا سردار بنومالک میں سے تھا۔ بادشاہ نے سردار کو اپنے پاس بٹھایا اور ہمارے متعلق بھی معلومات حاصل کیں ، کہ آیا یہ لوگ تمہارے قبیلہ بنی مالک ہی سے ہیں ؟ اس نے کہا کہ ہاں میرے ہی قبیلے کے ہیں سوائے اس مغیرہ بن شعبہ کے۔ چنانچہ مجھے اس موقع پر کوئی اہمیت نہ ملی۔ بادشاہ اپنے تحائف پاکربہت خوش ہوا اور پھر اس نے بھی بدلے میں ان لوگوں کو انعام و اکرام سے نوازا، مگر مجھے بہت معمولی تحفہ دیا گیا۔ ہم دربار سے نکلے تو سب لوگ بہت خوش تھے اور پھر وہ اس علاقے سے اپنے اہل و عیال کے لئے تحفے تحائف خریدنے لگے اور ان میں سے کسی نے میری کوئی دل داری نہ کی اور مجھے کچھ نہ دیا۔

بالآخر ہماری واپسی شروع ہوئی۔ ان لوگوں نے اپنے مال میں شراب بھی خریدی تھی جو وہ راستے میں پیتے پلاتے رہے۔ مگر میں اپنے دل میں بڑے پیچ و تاب کھاتا تھا، اور آنے والی صورتِ حال سے کسی طرح بھی مطمئن نہ تھا کہ یہ لوگ قبیلے میں جاکر اپنی بڑائی کا اظہار کریں گے کہ ہمارا اس طرح اِکرام ہوا اور یہ یہ انعام و اعزاز ملا اور ان کے مقابلے میں میری ناقدری ہوگی۔چنانچہ میں نے اپنے دل میں یہ ٹھان لی کہ ان کا کام ہی تمام کردوں گا۔ پھر ایک منزل پر پڑاؤ ہوا، سب لوگ کھانے پینے کے بعد شراب پینے کی تیاری کرنے لگے تو میں نے ظاہر کیا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں اور بیمار ہوں ۔ سر میں درد کا بہانہ بنا کر میں نے اپنے سر پر سخت کرکے کپڑا لپیٹ لیا اور کہا کہ میں شراب نہیں پیئوں گا، البتہ تمہیں پلاتا ہوں ۔ پھر میں اُنہیں شراب پلانے لگا اور اس میں کوئی پانی وغیرہ نہ ملایا بلکہ خالص شراب پلائی۔ میں پیالے پر پیالہ اُنڈیلنے لگا۔ وہ پیتے جاتے اور بے سدھ سوتے جاتے تھے۔ اُنہیں جب کوئی ہوش نہ رہی تو میں اُٹھا اور ان سب کو قتل کردیا اور جو اُن کے پاس تھا، سب سمیٹ لیا۔

پھر اپنے وطن جانے کی بجائے مدینہ منورہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ میں نے دیکھاکہ آپؐ مسجد میں ہیں اور میرا لباس مسافرانہ تھا۔ میں نے آپ کو اسلام کا سلام پیش کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے مجھے پہچان لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تعریف اس اللہ کی جس نے تجھے راہِ ہدایت سجھائی۔ ابوبکرؓ نے پوچھا: کیا تم مصر سے آرہے ہو؟ میں نے کہا: ہاں ۔ اُنہوں نے پوچھا: تمہارے ساتھی بنی مالک والوں کا کیا ہوا؟(i)میں نے بتایا کہ میں نے ان سب کو قتل کردیا ہے، اور ان کا مالِ متاع لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا ہوں تاکہ آپ اس میں سے خُمس لے لیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''تیرا اسلام ہم قبول کرتے ہیں ، مگر ان کے مالوں میں سے میں کچھ نہ لوں گا، یہ سراسر دھوکہ ہے اور دھوکے میں کوئی خیر نہیں ہوسکتی۔''

مغیرہؓ کہتے ہیں کہ اس بات سے مجھے قریب و دور کے ہر طرح کے غم و افسوس نے آلیا۔ تب میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے اُنہیں اس حالت میں قتل کیا ہے جب کہ میں اپنی قوم کے دینِ کفر پر تھا، اس کے بعد ہی میں اسلام لایا ہوں اور ابھی آپؐ کے پاس حاضر ہورہا ہوں ۔ تو آپؐ نے فرمایا:
فإن الإسلام یہدم ما کان قبلہ
''بلا شبہ اسلام، جو کچھ پہلے ہوچکا ہو اسے ختم کردیتا ہے۔'' 1

یہ لوگ جنہیں اس نے قتل کیا، تعداد میں تیرہ افراد تھے۔ پھر ان کی خبر اہل طائف میں ان کی قوم کو بھی پہنچ گئی۔ مقتولین کے ورثا مغیرہؓ کے قبیلے پر چڑھ دوڑے، قتل و قتال ہونے کو تھا کہ ان کے چچا عروہ بن مسعود نے ان کی دیت اپنے ذمے لے لی، اس طرح یہ جنگ ٹلی اور صلح ہوسکی۔

یہی وہ واقعہ ہے کہ حدیبیہ کے موقع پر صلح کی گفتگو میں جب عروہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کررہا تھا، اور اس دوران آپ کو ملائمت پر آمادہ کرنے کے لئے دستورِعرب کے مطابق آپ علیہ السلام کی داڑھی کی طرف ہاتھ بڑھاتا تھا تو مغیرہؓ جو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر خود پہنے مسلح کھڑے تھے، اور چہرہ ڈھانپا ہوا تھا تو مغیرہ نے اس سے کہا تھا: پرے کر اپنا یہ ہاتھ، کہیں یہ تیری طرف واپس ہی نہ جائے۔ اور اپنی تلوار کے دستے کا اسے ٹھوکا بھی لگایا۔ تو عروہ نے پوچھا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کون ہے؟ بڑا بدخلق اور سخت مزاج ہے۔ آپؐ نے فرمایا: یہ تیرا چچا زاد ہی تو ہے، مغیرہ بن شعبہ۔ تب اس نے کہا:
''أي غُدر! ألستُ أسعٰی في غدرتک'' 2
''اے دھوکے باز! کیا میں اب تک تیرے دھوکے کے سلسلے میں کوشش نہیں کرتا رہا ہوں ۔''
اور مسنداحمد کے الفاظ ہیں : ''أي عدو اﷲ! ما غسلتُ عني سوء تک إلا بالأمس'' ''اے اللہ کے دشمن! تیری گندگی میں نے اپنے آپ سے کل ہی دھوئی ہے۔'' 3

اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے فیصلے بڑے عجیب ہیں کہ یہ مغیرہ حالت ِکفر میں اتنے ہٹ دھرم کہ کسی طرح اسلام قبول کرنے کے لئے راضی ہی نہیں ہورہے تھے۔ مگر مزاج کی انفرادیت اور حالات نے اُنہیں دربار رسالت میں پہنچا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے 'رضی اللہ عنہم و رضواعنہ' کی خلعتِ فاخرہ سے بہرہ ور فرما دیا۔

  •  یہی وہ جلیل القدر صحابی ہیں جو اس حدیث کے راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے سلام پھیرنے کے بعد لا إلہ الا اﷲ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وھو علیٰ کل شئ قدیر، اللھم لا مانع لما أعطیت ولا معطي لما منعت ولا ینفع ذا الجد منک الجد پڑھا کرتے تھے۔
  •  جرابوں پر مسح کرنے کی حدیث کے بھی یہی راوی ہیں ۔
  •  فتح قادسیہ میں ایرانیوں کے سپہ سالار رستم سے گفتگو کرنے کے لئے اُنہیں ہی بھیجا گیا تھا اور پھر اُنہوں نے بڑی جرأت مندانہ گفتگو کی تھی۔
  •  اور یہی وہ صحابی ہیں جن کی مونچھیں قدرے بڑھی ہوئی تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کے ساتھ برابر کرکے زائد کاٹ دی تھیں ۔
  •  مسند احمد میں ان سے تقریباً ۱۱۸؍احادیث روایت کی گئی ہیں ۔


 حوالہ جات
1. صحیح مسلم:۱۲۱
2. صحیح بخاری:۲۷۳۴
3. تاریخ الاسلام ازامام ذہبی: جلد۴؍ ص ۱۱۸ و مابعد




i. معلوم ہوا کہ مسلمان اردگرد کی خبروں اور حالات سے بخوبی آگاہ اور چوکنے رہتے تھے۔

حضرت مصعبؓ بن عمیر

0 comments
حضرت مصعبؓ بن عمیر

حضرت مصعبؓ بن عمیر مکے کے ایسے حسین و جمیل اور خوشرو نوجوان تھے کہ آنحضرت ﷺ بھی ان کا تذکرت کرتے تو فرماتے کہ:۔

''مکے میں مصعبؓ سے زیادہ کوئی حسین و خوش پوشاک اور پروردۂ نعمت نہیں ہے۔''

ان کے والدین کو ان سے شدید محبت تھی، خصوصاً ان کی والدہ خناس بنت مالک نے مالدار ہونے کی وجہ سے اپنے جگر گوشے کو نہایت ناز و نعم سے پالا تھا۔ وہ اپنے زمانہ کے لحاظ سے عمدہ سے عمدہ پوشاک پہنتے اور لطیف سے لطیف خوشبو استعمال کرتے تھے۔ حضرمی جوتا جو اس زمانے میں صرف امرائ کے لئے مخصوص تھا وہ ان کے روزمرہ کے کام آتا تھا اور ان کے وقت کا اکثر حصہ آرائش و زیبائش میں بسر ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں انہیں انتی نعمتوں سے نوازا تھا وہاں ان کے آئینۂ دل کو بھی نہایت صاف و شفاف بنایا تھا جس پر صرف ایک عکس کی دیر تھی۔ چنانچہ مکے میں توحید کی صدا بلند ہوئی اور آنحضرت ﷺ نے لوگوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی دعوت دی تو یہ بھی شرک و بت پرستی سے متنفر ہو گئے۔ اور آستانۂ نبوت پر حاضر ہو کر اسلام کے جانبازوں میں داخل ہو گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ آنحضرت ﷺ ارقم بن ابی ارقم کے مکان میں قیام پذیر تھے اور مکے کی سرزمین مسلمانوں پر تنگ ہو رہی تھی۔ حضرت مصعبؓ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ان کی ماں اور ان کے اہلِ خاندان آنحضرت ﷺ اور آپ کے پیغام کے اس قدر دشمن ہیں کہ اس کو ایک لحظہ کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتے لیکن نیکی رغبت او بدی سے نفرت نے انہیں ہر چیز سے بے نیاز کر دیا اور وہ زندگی کے حقیقی مقصد کو جان کر اس کے حصول میں لگے گئے۔

حضرت مصعبؓ بن عمیر ''بہترین امت'' میں داخل تو ہو گئے لیکن کفر و شرک کی بے پناہ یلغار کے باعث ایک عرصے تک انہیں اپنے اسلام کو پوشیدہ رکھنا پڑا اور وہ چھپ چھپ کر آنحضرت ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوتے اور اسلامی تعلیمات حاصل کرتے رہے۔ ایک روز کا واقعہ ہے کہ عثمان بن طلحہ نے جو اس وقت تک مشرف باسلام نہیں ہوئے تھے، انہیں کہیں نماز پڑھتے دیکھ لیا اور جا کر ان کی ماں اور ان کے اہلِ خاندان کو خبر کر دی۔ بس پھر کیا تھا ماں اور خاندان والوں کی ساری محبت نفرت میں بدل گئی، سارے ناز و نعم ختم ہو گئے اور ''مجرم توحید'' کو قیدِ تنہائی کے مصائب و آلام کے حوالے کر دیا گیا۔ حضرت مصعبؓ ایک عرصے تک تمام اذیتیں برداشت کرتے رہے، نرم و نازک لباس میں ان کے لئے کوئی جاذبیت نہ رہی۔ انواع و اقسام کے کھانے ان کی نظروں میں ہیچ ہو گئے، نشاط افزا عطریات کا شوق ختم ہو گیا اور دنیاوی عیش و تنعم اور مادی اسباب و وسائل سے یکسر بے نیاز ہو گئے۔ اب ان کے سامنے صرف ایک ہی مقصد تھا۔ یہ وہ مقصد تھا جسے جلوۂ توحید نے ان کے دل میں روشن کیا اور تمام فانی ساز و سامان سے بے پرواکر دیا تھا۔

حضرت مصعبؓ اب زندانِ تنہائی سے تنگ آگئے، اشاعت اسلام کا جذبہ ان کے دل میں ابھرتا اور وہ اپنی اس تلخ زندگی پر سخت متاسف ہوتے ادھر کچھ دوسرے دلدادگانِ جلوۂ توید بھی کفار کی سختیاں سہتے سہتے عاجز آگئے تھے اور کسی ایسی جائے پناہ کی تلاش میں تھے جہاں انہیں کچھ اطمینان و سکون میسر ہو۔

آنحضرت ﷺ نے انہیں مشورہ دیا کہ تم لوگ فی الحال حبشہ کو ہجرت کر جاؤ، وہاں کا بادشاہ رحمدل اور منصف مزاج ہے وہ تم کو آرام سے رکھے گا۔ یہ حکم پاتے ہی مصیبت زدہ مسلمانوں کا ایک کثیر التعداد قافلہ ہجرت کے لئے آمادہ ہو گیا جس کے رئیس حضرت عثمان بن منطعون تھے۔ حضرت عثمانؓ بن عفان اور ان کی اہلیہ محترمہ حضرت رقیہؓ بنت رسول اللہ ﷺ بھی اس قافلے میں تھے۔ حضرت مصعبؓ بن عمیر نے بھی ان متلاشیانِ امن و سکون کے ساتھ سرزمینِ حبشہ کی راہ لی اور آاپنے آپ کو غریب الوطنی کے مصائب و آلام کے حوالے کر دیا۔

ابھی یہ لوگ کچھ ہی دن حبش میں رہے تھے کہ ان کو اہل مکہ کے اسلام کی خبر ملی اور فطرۃً وطن لوٹنے کا شوق پیدا ہوا۔ لہٰذا یہ لوگ مکہ روانہ ہو گئے۔ مگر مکے کے قریب پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط تھی۔ بہرحال یہ سب کسی نہ کسی کی امان میں داخل ہو گئے اور حضرت عبد اللہ بن مسعود کے علاوہ تمام حضرات مکے ہی میں ٹھہر گئے۔ ہجرت کے مصائب نے حضرت مصعبؓ بن عمیر کی ظاہری حالت میں نمایاں فرق پیدا کر دیا تھا۔ اب نہ وہ رنگ باقی رہا تھا اور نہ وہ روپ چہرے پر دکھائی دیتا تھا۔ یہاں تک کہ خود ان کی ماں کو اپنے نورِ نظر کی پریشاں حالی پر رحم آگیا اور وہ مظالم کے اعادہ سے باز آگئی۔

اس اثنا میں آفتابِ اسلام کی شعاعیں یثرب کی وادی میں پہنچ چکی تھیں اور مدینہ منورہ کا ایک معزز طبقہ مشرف باسلام ہو گیا تھا۔ مدینے کے حق پرستوں نے دربارِ نبوت میں درخواست بھیجی کہ ہماری تعلیم و تلقین پر کسی کو مامور فرمایا جائے۔ سرورِ کائنات ﷺ نے اس درخواست کو شرفِ قبولیت بخشا۔ آپ کی نگاہ جوہر شناس نے اس خدمت کے لئے مصعبؓ کو منتخب کیا اور چند زریں نصائح کے بعد انہیں مدینہ منورہ کی طرف بھیج دیا۔

حضرت مصعبؓ بن عمیر نے اس منصبِ جلیلہ پر فائز ہو کر تعلیمِ قرآن اور اشاعتِ اسلام کے سلسلے میں جو بیش بہا خدمت انجام دیں اور جس حسن و خوبی کے ساتھ عقائد و محاسنِ اسلام بیان کر کے مدینے کی فضا کو اسلام کے لئے ہموار کیا وہ اسلامی تاریخ کا ایک پورا باب ہے اور اسلامی دعوت کی آئندہ مرکزی عمارت کے سنگل میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

ان کی شبانہ روز کوششوں اور انتھک محنت سے جب مدینہ منورہ میں فداکارانِ اسلام کی ایک معتد بہ جماعت پیدا ہو گئی تو انہوں نے دربارِ نبوت سے اجازت حاصل کر کے حضرت سعدؓ بن خثیمہ کے مکان میں جماعت کے ساتھ نمازِ جمعہ کی بنا ڈالی۔ پہلے کھڑے ہو کر ایک نہایت مؤثر خطہ دیا۔ پھر خشوع و خضوع کے ساتھ نماز پڑھائی اور نماز کے بعد حاضرین کی ضیافت کے لئے ایک بکری ذبح کی گئی۔ اس طرح وہ شعار اسلامی جو روزانہ عبادتِ الٰہی کے علاوہ ہفتہ میں ایک دفعہ برادرانِ اسلام کو ایک جگہ جمع ہو کر باہم بغل گیر ہونے کا موقع دیتا ہے، خاص حضرت مصعبؓ بن عمیر کی تحریک سے قائم کیا گیا تھا اور سب سے پہلے وہی اس کے امام تھے۔

عقبہ کی پہلی بیعت میں صرف بارہ انصار شریک تھے لیکن حضرت مصعبؓ نے ایک ہی سال میں تمام اہلِ یثرب کو فدائی اسلام بنا دیا اور تحریکِ اسلامی کو ایک نئے موڑ پر لے آئے۔ چنانچہ عقبہ ثانیہ کی بیعت میں تہتر اکابر و اعیانِ مدینہ کی پرعظمت جماعت اپنی قوم کی طرف سے تجدیدِ بیت اور رسول اللہ ﷺ کو مدینہ میں مدعو کرنے کے لئے روانہ ہوئی۔ ان کے معلمِ دین حضرت مصعبؓ بھی ساتھ تھے۔ انہوں نے مکہ پہنچتے ہی سب سے پہلے آستانۂ نبوت پر حاضری دی اور اپنی حیرت انگیز کامیابی کی مفصل داستان غرض کی۔ آنحضرت ﷺ نے نہایت توہ اور دل چسپی کے ساتھ تمام واقعات سنے اور ان کی محنت، جاں فشانی سے حد درجہ محظوظ ہوئے۔

حضرت مصعبؓ ایک عرصہ کے بعد مکہ تشریف لائے تھے لیکن ابھی تک ماں سے ان کی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ ماں نے بیٹے کے آنے کی خبر سنی تو کہلا بھیجا:۔

''اے نافرمان فرزند! کیا تو ایسے شہر میں آئے گا جس میں مَیں موجود ہوں اور تو پہلے مجھ سے ملنے نہ آئے۔''

انہوں نے نہایت بے نیازی سے جواب دیا کہ:۔

''میں رسول اللہ ﷺ سے پہلے کسی سے ملنے نہیں جاؤں گا۔''

اس کے بعد حضرت مصعبؓ جب حضورِ اکرم ﷺ سے شرف ملازمت حاصل کر چکے تو اپنی ماں کے پاس آئے اور طویل گفتگو کے بعد واپس آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں چلے گئے۔ یہ ذی الحجہ کا مہینہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے تین مہینے (ذی الحجہ، محرم، صفر) آنحضرت ﷺ ہی کی خدمت میں بسر کیے اور پہلی ربیع الاوّل کو آپ سے بارہ دن قبل مستقل طور پر ہجرت کر کے مدینہ کی راہ لی۔

۲ ؁ھ سے حق و باطل، کفر و اسلام اور نور و ظلمت میں خونریز معرکوں کا سلسلہ شروع ہوا اور کفار کے فساد و بدامنی، طمع و ہوس، بغض و عدات اور تعصب و تنگ نظری کی آگ کو فرد کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ:

﴿أُذِنَ لِلَّذينَ يُقـٰتَلونَ بِأَنَّهُم ظُلِموا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلىٰ نَصرِ‌هِم لَقَديرٌ‌ ٣٩﴾... سورة الحج

تو حضرت مصعبؓ بن عمیر بھی عرصۂ دغا میں نکلے اور اس شان سے نکلے کہ غزوۂ بدر میں مہاجرین کی جماعت کا سب سے بڑا پرچم ان کے ہات میں تھا۔ انہوں نے میدانِ فصاحت کی طرح یہاں بھی اپنے نمایاں جوہر کا اظہار کیا۔ چنانچہ اس کے بعد غزوۂ احد پیش آیا تو اس میں بھی علمبر داری کا تمغائے شرف ان ہی کو ملا۔

شہادت:

اس جنگ میں ایک اتفاقی غلطی نے جب فتح و شکست کا پانسہ پلٹ دیا اور فاتح مسلمان ناگہاں طور سے مغلوب ہو کر منتشر ہو گئے تو یہ علمبردار اسلام اس وقت بھی یکہ و تنہازغۂ اعدئ میں ثابت قدم اور ہمت آزما رہا کیونکہ پرچم توحید کو پیچھے کی طرف جنبش دینا اس فدائی ملت کے لئے سخت عار تھا۔ غرض اسی حالت میں مشرکین کے ایک شہسوار ابن قمیۂ نے بڑ کر تلوار کا وار کیا جس سے داہنا ہاتھ شہید ہو گیالیکن بائیں ہاتھ نے فوراً علم کو پکڑ لیا۔ اس وقت ان کی زبان پر یہ آیت جاری تھی۔

﴿وَما مُحَمَّدٌ إِلّا رَ‌سولٌ قَد خَلَت مِن قَبلِهِ الرُّ‌سُلُ...١٤٤﴾... سورة آل عمران

ابن قمیۂ نے دوسرا وار کیا تو بایاں ہاتھ بھی قلم تھا لیکن اس مرتبہ دونوں بازوؤں نے حلقہ کر کے علم کو سینے سے چمٹا لیا۔ دشمن نے جھنجھلا کر تلوار پھینک دی اور اس زور سے تاک کر نیزہ مارا کہ اس کی انی ٹوٹ کر سپنے میں رہ گئی اور اسلام کا سچا جانباز اسی آیت کا اعادہ کرتے ہوئے فرش خاک پر دائمی راحت اور ابدی سکون کی نیند سو رہا تھا۔ یہ صورت دیکھ کر ان کے بھائی ابو الدومؓ بن عمیر آگے بڑھے اور لوائے توید کو سنبھالا دے کر پہلے کی طرح بلند رکھا اور آخر وقت تک شجاعانہ مدافعت کرتے رہے۔

تجہیز و تکفین:

جنگ ختم ہو گئی اور لشکر کفار اپنی موہوم فتح کے غرور باطل میں بدمست ہو کر واپس چلا گیا تو آنحضرت ﷺ حضرت مصعبؓ کی لاش کے قریب تشریف لائے۔ آپ نے کھڑے ہوئے پہلے یہ آیت تلاوت فرمائی:۔

﴿مِنَ المُؤمِنينَ رِ‌جالٌ صَدَقوا ما عـٰهَدُوا اللَّهَ عَلَيهِ...٢٣﴾... سورة الاحزاب

(اہل ایمان میں سے چند آدمی ایسے ہیں جنہوں نے خدا سے جو عہد کیا تھا اس کو سچا کر دکھایا) پھر لاش سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ:۔

''میں نے تم کو مکہ میں دیکھا تھا جہاں تمہارے جیسا حسین و خوش پوشاک کوئی نہ تھا۔ لیکن آج دیکھتا ہوں کہ تمہار بال الجھے ہوئے ہیں اور جسم پر صرف ایک چادر ہے۔ بے شک خدا کا رسول گواہی دیتا ہے کہ تم لوگ قیامت کے دن بارگاہِ خداوندی میں حاضر رہو گے۔''

اس کے بعد نمازیانِ دینِ متین کو حکم ہوا کہ:۔

''کشتانِ راہِ خدا کی آخری زیارت کر کے سلام بھیجیں۔''

اور فرمایا کہ:۔

''قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ روزِ قیامت تک جو کوئی ان پر سلام بھیجے گا وہ اس کا جواب دیں گے۔''(اللھم صلّ وسلِّم علیھم)

یہ وہ زمانہ تھا کہ مسلمان نہایت عسرت و تنگ دستی کی زندگی گزار رہا تھا اور غربت و افلاس کے باعث شہیدانِ ملت کے لئے کفن تک میسر نہ تھا۔ حضرت مصعبؓ کی لاش پر صرف ایک چادر تھی، جس سے سر چھپایا جاتا تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور پاؤں چھپائے جاتے تو سر کھل جاتا تھا۔ بالآخر چادر سے چہرہ چھپایا گیا کہ حورانِ بہشتی کا شوقِ دیدار فزوں سے فزوں تر ہو جائے اور ان کے بھائی حضرت ابو الدوامؓ نے تین اور حضرات کی مدد سے سپرِ خاک کیا۔ ؎
بنا کر وند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

اللہ اکبر! یہ وہی مصعبؓ بن عمیر تھے جن کو ابھی ہم مکے میں قبولِ اسلام سے پہلے بھی دیکھ چکے اور زبانِ صداقت و لسانِ وحی سے ان کے حسن و جمال اور ناز و نعم پروری کا حال سن چکے ہیں۔ ان کو مادی اسباب کی کیا پروا تھی؟ دنیاوی آسائش و راحت کی کون سی چیز انہیں حاصل نہیں تھی؟ وہ کونسا انسانی تکلف تھا جس کی ان سے آشنائی نہ ہو لیکن نیکو کاری کی رغبت اور خدا و رسول کی محبت نے انہیں اس مقام پر پہنچا دیا کہ آنحضرت ﷺ اس سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ دیا اور اہلِ دنیا کی حالت پر رحم آگیا۔

ایک روز کا واقعہ ہے کہ حضرت مصعبؓ بن عمیر دربار نبوت میں حاضر ہوئے۔ حالت یہ تھی کہ جسم پر ستر پوشی کے لئے صرف کھال کا ایک ٹکڑا تھا۔ جس میں جا بجا پیوند لگے ہوئے تھے۔ صحابہ کرامؓ نے دیکھا تو عبرت سے گردنیں جھکا لیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ:۔

''الحمد للہ! اب دنیا کی تمام اہلِ دنیا کی حالت بدل جانا چاہئے۔ یہ وہ نوجوان ہے جس سے زیادہ مکے میں کوئی ناز پروردہ نہ تھا۔ لیکن نیکو کاری کی رغبت اور خداو رسول کی محبت نے اس کو تمام چیزوں سے بے نیاز کر دیا ہے۔''

٭٭٭٭٭

Wednesday 27 February 2013

نبی رحمت صلَّى الله عليه وسلَّم اور بچے

0 comments
نبی رحمت صلَّى الله عليه وسلَّم اور بچے
جمع و ترتیب ذیشان اکرم رانا
نبی کریم صلی اللہ علی وسلم تعلیمی نظریے کے اسلوب کے مطابق بچوں کے ساتھ کامیاب معاملات کی حقیقت سے بخوبی آشنا تھے،آپ کا اسلوب  تربیت علم، تجربہ،کشادہ دلی، صبر اور برداشت پر مشتمل تھا، بچپن کے مرحلے کی اہمیت کے پیش نظر آپ صلی اللہ علی وسلم نے  بچوں کے ساتھ  ایسا تربیتی اور تعلیمی تعامل  کا اسلوب اختیار کیا، جس کے نتیجے میں کامیاب شخصیات، بے نظیر قائدین،  اورجینیس  اور نابغۂ روزگار افراد پیدا  ہوئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علی وسلم کا بچوں کے ساتھ برتاؤ کیسا تھا؟ اس موضوع پر روشنی ڈال رہے ہیں:
بچوں سے لطف ومحبت:
بچے  ہر وقت اس شخص سے محبت کرتے ہیں ، جو ان کے ساتھ محبت و سادگی سے پیش آئے، اور ان کے ساتھ اس طرح رہے گویا کہ وہ خود بھی بچہ ہی ہے۔بچے ایسے شخص سے نفرت کرتےہیں جو غصہ والا،ترش رو اور بےصبرا ہو۔ نیزبچے محترم اورسنجیدہ انسان کو پسند کرتے ہیں،نبی کریم صلی اللہ علی وسلم بچپن کی عمر کی فطرت سے بخوبی واقف تھے،لہٰذا آپ صلی اللہ علی وسلم بچوں کے ساتھ ویسا ہی معاملہ فرماتے تھے جیسی ان کی پسند ہوتی تھی، لیکن آپ صلی اللہ علی وسلم انکے ساتھ اپنی سادگی،ان سے مذاق دل لگی،اور ان کی شفقت کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق اوران کی شخصیت سنوارنے اورانہیں کامیاب انسان بنانے کی کوشش بھی کرتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں:  «كنَّا نصلي مع رسول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- العشاء، فإذا سجد وثب الحسن والحسين على ظهره، وإذا رفع رأسه أخذهما بيده من خلفه أخذًا رفيقًا، فوضعهما وضعًا رفيقًا، فإذا عاد؛ عادا، فلما صلذَى وضعهما على فخذيه» ([1]).
 (ہم نبی کریم صلَّى الله عليه وسلَّم کے ہمراہ عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ نے سجدہ فرمایا تو حسن اور حسین آپ کی پیٹ مبارک پر چڑ گئے، جب آپ نے اپنے سر کو اٹھایا توان دونوں کو آہستہ سے پیچھے سے پکڑا اور محبت سے اتار دیا، جب آپ نے نماز ختم فرمائی تو ان دونوں کو اپنے گود میں لے لیا )۔
بچہ، واجبات، حقوق، اصول ومبادی اور اخلاق ومعانی کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے، یہ باتیں اسے اس کی زندگی کے کئی سالوں میں قدم قدم پر حاصل ہوتی ہے، وہ شخص غلطی پر ہے جو بچوں کے ساتھ بڑوں جیسا سلوک کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ بچہ اصول وضوابط کو جانے، لیکن بہت سے لوگوں کو بچوں کے ساتھ اسی طرح کا براسلوک کرتے ہوئے دیکھا گیا، ایسے لوگوں کا بچوں سے مطالبہ ہے کہ وہ پرسکون، وقار وچین کے ساتھ اور خاموش رہے، حالانکہ ان باتوں پر بچے عمل نہیں کرسکتے۔
اُم خالد جو خالد بن سعید کی بیٹی تھی وہ کہتی تھی میں رسول اللہ صلَّى الله عليه وسلَّم کے پاس اپنے باپ کے ساتھ آئی میں ایک زرد قمیض پہنی تھی ، رسول اللہ صلَّى الله عليه وسلَّم نے مجھ کو دیکھ کر فر مایا واہ واہ کیا کہنا ''سنہ سنہ'' یہ حبشی زبان کا لفظ ہے ام خالد کہتی ہے (میں کم سن بچی تو تھی ہی )میں جاکر رسول اللہ صلَّى الله عليه وسلَّم کی پشت پر مہر نبوّت سے کھیلنے لگی میرے باپ نے مجھ کو جھڑکایا،  رسول اللہ صلَّى الله عليه وسلَّم نے فر مایا اس کو کھیلنے دے پھر آپ صلَّى الله عليه وسلَّم نے مجھ کو یوں دُعا دی یہ کپڑ ا پرا نا کر پھاڑ، پرانا کر پھاڑ تین بار یہی فر مایا۔ عبد اللہ کہتے ہیں وہ کرتہ تبرک کے طور پررکھارہا یہاں تک کہ کالا پڑگیا ۔([2])
یہ ایک عبرت آموز واقعہ ہے کہ ایک باپ اپنی بیٹی کو نبی کریم صلَّى الله عليه وسلَّم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتا ہے، جسے یہ بھی پتا ہے کہ نبی کریم صلَّى الله عليه وسلَّم بچوں سے بہت محبت فرماتے اور آپ بچوں  سےملنے میں اکتاتے نہیں ہے بلکہ خوشی محسوس کرتے ہیں، اور باپ کے سامنے بچی آپ صلَّى الله عليه وسلَّم کے سامنے جرات کرتی ہیں اور آپ کے پشت مبارک سے لٹکتی اور کھیلتی ہیں اور آپ ہنستے ہیں اور اسے اپنے ساتھ کھیلنے کے لئے بلاتے ہیں۔
کبھی ایسا بھی ہوا کہ چھوٹے بچے کو آپ نے گود میں لیا، اور اس نے آپ کے کپڑوں پر پیشاب کردیا، تو آپ نے پانی منگوایا اور اپنے کپڑوں پر چھڑک دیا، اور دھویا نہیں، آپ کی بچوں کے ساتھ کثرت محبت اور انہیں لینےکے سبب آپ صلَّى الله عليه وسلَّم کے کپڑوں اور آپ کے حجروں میں چھوٹے بچوں کے پیشاب کرنے کے کثرت سے واقعات ہوئے ہیں، آپ صلَّى الله عليه وسلَّم نے نہ صرف لڑکوں کو ہی اپنے گود میں نہیں اٹھایا بلکہ لڑکیوں کو بھی آپ پیار سے گودمیں لیتے تھے۔
حضرت ابوموسی اشعری ؓ فرماتے ہیں: «وُلد لي غلامٌ، فأتيت به النّبيّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- فسمّاه إبراهيم، فحنكه بتمرةٍ، ودعا له بالبركة» ([3]).
(مجھے بیٹا ہوا، تو میں نے اسے نبی کریم صلَّى الله عليه وسلَّم کے پاس لایا، تو آپ نے اس کا نام ابراھیم رکھا، پھر کھجورچباکراسے چٹایا اور اس کے لئے برکت کی دعا فرمائی)
آپ صلَّى الله عليه وسلَّم بچوں کے ساتھ راستے میں بھی کھیلا کرتے تھے، یعلی بن مرہ کہتے ہیں: میں نبی کریم صلَّى الله عليه وسلَّم کے ساتھ کھانے پر نکلا، تو حسین بن علی راستے میں کھیل رہے تھے، نبی صلَّى الله عليه وسلَّم لوگوں کے درمیان سے جلدی آگے بڑھے، پھر اپنے ہاتھوں کو بڑھایا، تاکہ حسین کو لیں، لیکن حسین ادھر ادھر بھاگنے لگے،آپ صلَّى الله عليه وسلَّم ان کا پیچھا کرتے اور انہیں ہنساتے، آپ نے اسامہ بن زید اور حسن بن علی کو لیا اور اپنے گود میں دونوں کو بٹھایا، پھر ان کو گلے سے لگاتے ہوئے ارشاد فرمایا : «اللهمّ ارحمهما فإني أرحمهما» ([4]).
 (اے اللہ ان دونوں پر رحم فرما کیونکہ میں ان پر شفقت کرتا ہوں)
اور ایک حدیث میں ہے: آپ صلَّى الله عليه وسلَّم باہر تشریف لائے اور آپ کے کاندھوں پر امامہ بنت 
ابوالعاص تھیں، پھر آپ نے نماز پڑھی، جب رکوع کیا تو امامہ کو نیچے اتاردیا، پھر جب رکوع سے اٹھے تو امامہ کو اٹھالیا۔
محمود بن ربیع کہتے ہیں: مجھے ابھی تک نبی کریم صلَّى الله عليه وسلَّم کی وہ کُلی یاد ہے جو آپ صلَّى الله عليه وسلَّم نے ایک ڈول سے لے کر میرے منہ پر کی تھی اس وقت میں پانچ سال کا تھا۔
جب آپ صلَّى الله عليه وسلَّم نماز کے دوران کسی بچے کے رونے کی آواز سنتے تو اپنی نماز کو ہلکی کردیتے تھے، تاکہ بچے کی ماں اپنی نماز ختم کرے اور بچے کو لے، یا اس کے رونے کو خاموش کرے اور بچے کی ضرورت کو پوری کرے، آپ صلَّى الله عليه وسلَّم کا ارشادہے: «إني لأقوم إلى الصّلاة، وأنا أريد أن أطول فيها، فأسمع بكاء الصّبيّ، فأتجوز في صلاتي، كراهية أن أشقَّ على أمّه»([7]).
(میں نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ نماز کو طویل کروں، (لیکن جب) بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز کو مختصر کردیتا ہوں، اس کراہت سے کہ بچے کی ماں کو مشقت میں نہ ڈالوں۔)
آپ صلَّى الله عليه وسلَّم بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے اور ان کے خصوصی معاملات کے سلسلے میں ان سے گفتگو فرمایا کرتے تھے، اگرچہ کے بچوں کے معاملات معمولی ہوتے تھے، حضرت انس بیان کرتے ہیں : «كان النّبيّ -صلَّى الله عليه وسلم أحسن النّاس خلقًا، وكان لي أخٌ يقال له أبو عمير -قال: أحسبه- فطيم، وكان إذا جاء قال: يا أبا عمير، ما فعل النُّغَيْر؟» ([8]).
(نبی کریم صلَّى الله عليه وسلَّم لوگوں میں سے سب سے زیادہ اچھے اخلاق کے مالک تھےِ میرا  ایک بھائی تھا، جسے ابوعمیر کہا جاتا تھا، (راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے اس کا دودھ چھٹ چکا تھا ) جب وہ آتا تو آپ فرماتے تھے: اے ابوعمیر تمہاری نغیر تو بخیر ہے۔(نغیرایک چڑیا تھی جس سے ابوعمیر کھیلا کرتے تھے)۔
بچوں کا احترام اور ان کی قدر کرنا:
نبی کریم صلَّى الله عليه وسلَّم نے بچوں کے ساتھ لطیفانہ معاملات میں ان کے درمیان اپنے احترام کو باقی رکھتے ہوئے انہیں آسان اور ٹھوس وسائل کے ذریعے افضل ترین مفاہیم کو سمجھانے کی کوشش کی، آپ بچوں کے ساتھ سختی سے پیش نہیں آتے تھے، نبوی دور کا ایک بچہ عبداللہ بن عامر نبی کریم صلَّى الله عليه وسلَّم کے اس موقف کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: میری والدہ نے مجھے ایک دن بلایا اور نبی کریم صلَّى الله عليه وسلَّم ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے، وہ کہنے لگی: آؤ میں تمہیں کچھ دیتی ہوں، تو نبی کریم صلَّى الله عليه وسلَّم نے میری والدہ سے کہا: آپ انہیں کیا دیں گی؟ فرمانے لگی: میں انہیں کھجور دینا چاہتی ہوں، تو آپ صلَّى الله عليه وسلَّم نے فرمایا: اگر آپ انہیں کوئی چیز نہ دیتی تو آپ پر ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا۔ ( رواه أبو داود (4991) وحسنه الألباني.)
آپ صلَّى الله عليه وسلَّم نے مذکورہ واقعہ میں جھوٹ بول کر بچوں کے احساسات سے کھیلنے سے خبردار فرمایا۔
جب آپ صلَّى الله عليه وسلَّم بچوں کو دیکھتے تو ان کے ساتھ نرمی سے پیش آتے اور ڈانٹ دپٹ نہیں فرماتے، عمر بن ابو سلمہ کہتے ہیں: «كنت غلامًا في حِجْر رسول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم-، وكانت يدي تطيش في الصّحفة، فقال لي رسول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم-: يا غلام، سم الله، وكل بيمينك، وكل ممّا يليك» ([10]).
(میں نبی کریم صلَّى الله عليه وسلَّم کے گود میں ایک بچہ تھا، اور میرے ہاتھ برتن میں بے جگہ پڑتے تھے، تو نبی کریم صلَّى الله عليه وسلَّم نے مجھے سے کہا: اے بچے: اللہ کا نام لو اور اپنے سیدھے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ )۔
آپ صلَّى الله عليه وسلَّم نے بچوں کی ان کے بچپن ہی سے رجولت اوربہادری کے مفاہیم کی بنیادوں پر اپنے اخلاق کریمانہ اور اپنی تعلیمات کے ذریعے تربیت فرمائی، آپ صلَّى الله عليه وسلَّم مختلف طریقوں 
سے بچوں کو اعلی معانی ومفاہیم کے تدریجی گھونٹ پلاتے تھے۔آپ صلَّى الله عليه وسلَّم کبھی کبھی بعض بچوں کو جیسے عبداللہ بن عباس اور عبداللہ بن عمر کو اپنی مجلس میں اپنے صحابہ کے ساتھ بٹھاتے تھے تاکہ وہ سیکھے اور ان میں پختگی آئے۔ عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں: كنا عند النّبيّ -صلَّى الله عليه وعلى آله وسلَّم- فأُتِي بجُمَّار، فقال: إن من الشّجر شجرةً مثلها كمثل المسلم، فأردت أن أقول هي النّخلة، فإذا أنا أصغر القوم فسكتُّ، قال النّبيّ -صلَّى الله عليه وعلى آله وسلَّم-: «هي النّخلة» ([11]).
(ایک مرتبہ کا ذکر ہے ہم نبی صلَّى الله عليه وسلَّم کے پاس بیٹھے تھے آپ صلَّى الله عليه وسلَّم کے سامنے کجھور کا ایک گچھا لایا گیا، (جسے دیکھ کر) آپ صلَّى الله عليه وسلَّم نے پوچھا درختوں میں ایک ایسا درخت ہے جس کی مثال مسلمان کی سی ہے بتاؤ! وہ کون سا درخت ہے؟ میرے دل میں آیا کہ میں کہہ دوں وہ کھجور کا درخت ہے لیکن کم سنی کی وجہ سے شرما گیا اور خاموش رہا، آخر نبی صلَّى الله عليه وسلَّم نے فرمایا وہ کجھور کا درخت ہے۔)
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس صغیرالسن تھے، اوروہ آپ کے ساتھ سواری پر آپ کے پیچھے سوار تھے، تو آپ نے انہیں سادہ مفہوم پر مشتمل لیکن پراثر چند کلمات کی تعلیم دی، آپ نے فرمایا: «يا غلام، إنّي أعلمك كلماتٍ: احفظ الله يحفظك...» إلى آخر الحديث  ([12]).
(اے بچے: میں تمہیں چند کلمات کی تعلیم دیتا ہوں: اللہ کو یاد رکھو، وہ تمہاری حفاظت کرے گا۔۔۔۔ )

آپ صلَّى الله عليه وسلَّم بچوں کے احترام اور ان کی قدر کے سلسلے میں اس قدر اہتمام فرماتے تھے کہ کبھی بڑوں کی مجلس میں بچے شامل ہوتے تو آپ صلَّى الله عليه وسلَّم بڑوں کے مقابلے بچوں کو ترجیح دیتے: حضرت سہل بن سعد الساعدی کہتے ہیں: إن رسول الله -صلَّى الله عليه وعلى آله وسلَّم- أُتِي بشرابٍ فشرب منه، وعن يمينه غلام وعن يساره الأشياخ، فقال للغلام: «أتأذن لي أن أعطي هؤلاء؟ فقال الغلام: لا. والله! لا أوثر بنصيبي منك أحدًا» ([13]).
(رسول اللہ صلَّى الله عليه وسلَّم کے پاس دودھ پینے کے لئے لایا گیا آپؐ نے پیا آپؐ کی داہنی طرف ایک لڑکا تھا (ابن عباسؓ) اور بائیں طرف عمر والے لوگ۔آپؐ نے لڑکے سے پوچھا میاں لڑکے تم اس کی اجازت دیتے ہو کہ پہلے میں یہ پیالہ بوڑھوں کو دوں اس نے کہا نہیں قسم خدا کی یا رسولؐ اللہ میں تو اپنا حصہ جو آپؐ کا جھوٹا ملے کسی کو دینے والا نہیں آخر آپؐ نے وہ پیالہ اسی کے ہاتھ میں دے دیا۔)

آپ صلَّى الله عليه وسلَّم نے ایک ساتھ دو امر کا خیال رکھا، آپ نے بچے کے حق  کاخیال رکھا اور اس سے اجازت طلب کی، نیز آپ صلَّى الله عليه وسلَّم نے بڑوں کے حق کا بھی خیال رکھا اور بچے سے مطالبہ فرمایا کہ وہ بڑوں کے لئے اپنے حق سے بری ہوجائے، جب بچہ اپنے موقف پر ڈٹا رہا تو آپ صلَّى الله عليه وسلَّم نے بچے کو نہ ڈانٹا اور نہ اس کے ساتھ سختی فرمائی بلکہ اسے اس کا حق دیدیا۔
بچوں کے خاندانی اور اجتماعی حقوق کی حفاظت:
نبی کریم صلَّى الله عليه وسلَّم نے نومولود کے نسب،اور زواج صحیح سے اس کی پیدائش، نیز شرعی تعلقات کے بغیر بچوں کی عدم پیدائش جیسے حقوق کی حفاظت کا اہتمام فرمایا، اس طرح آپ نے بچوں کے مستقبل کی حفاظت فرمائی نیز آپ نے معاشرے کی پاکیزگی کو رذائل، فساد اور اختلاط انساب سے محفوظ فرمادیا۔
آپ نے بچوں کے حقوق کے سلسلے میں ہدایت دی کہ بچہ کا باب بچے کے لئے اخلاق حمیدہ کی حامل ماں کا انتخاب کرے، اسی طرح باب اس کا ایسا اچھا نام رکھے جس میں کسی قسم کا نقص نہ ہو،اسی طرح آپ صلَّى الله عليه وسلَّم نے بچے کے فطری رضاعت اور بہترین ایمانی ماحول میں اسکی تربیت کا حکم دیا نیز آپ صلَّى الله عليه وسلَّم نے بچوں کے حقوق کے سلسلے میں یہ بتایا کہ والدین اسے جنسی اور بے دینی کے ماحول  سےمحفوظ رکھے۔
اسی طرح نبی کریم صلَّى الله عليه وسلَّم کے پیغام کے مطابق بچہ میراث اور وصیت کا حقدارہے،نیز شریعت محمدی نے یتیم بچے کی کفالت اور اس کی مکمل تربیت کی خوب تاکید کی ہے،اور یتیم بچے کے مال کی حفاظت پر زور دیا ہے نیز یتیم بچوں کی مدد کی ترغیب دی گئی۔
                                                                                                                                     ترجمہ: مبصرالرحمن قاسمی

([1]) حسنه الألباني 3325 في السّلسلة الصّحيحة.

([2]) رواه البخاري (3071).

([3])متفقٌ عليه.

([4])رواه البخاري (6003).

([5]) متفقٌ عليه.

([6])متفقٌ عليه.

([7])رواه البخاري (868).

([8])متفقٌ عليه.

([9])رواه أبو داود (4991) وحسنه الألباني.

([10])متفقٌ عليه.

([11])متفقٌ عليه.

([12])رواه التّرمذي (2516) وصححه الألباني.

([13])متفق عليه.

امام حرم مکی شیخ فیصل بن جمیل الغزاوی

0 comments
امام حرم مکی شیخ فیصل بن جمیل الغزاوی
جمع و ترتیب ذیشان اکرم رانا

امام حرم مدنی شیخ ایوب

0 comments

امام حرم مدنی شیخ ایوب
جمع و ترتیب ذیشان اکرم رانا

امام حرم مکی شیخ خالد بن علی الغامدی

0 comments

امام حرم مکی شیخ خالد بن علی الغامدی
جمع و ترتیب ذیشان اکرم رانا

امام حرم مکی شیخ صالح بن محمد ابراہیم آل طالب

0 comments
 امام حرم مکی شیخ صالح بن محمد ابراہیم آل طالب
جمع و ترتیب ذیشان اکرم رانا

امام حرم فیصل بن جمیل بن حسن الغزاوی

0 comments

امام حرم فیصل بن جمیل بن حسن الغزاوی
جمع و ترتیب ذیشان اکرم رانا


فیصل بن جمیل بن حسن الغزاوی حرمی مکی میں امام ہیں، آپ کی پیدائش 1385 ھ میں مکہ مکرمہ میں ہوئی، ابتدائیہ، متوسطہ اور ثانویہ کی تعلیم مکہ مکرمہ ہی میں مکمل کی، شیخ فیصل کو علم قراءات سے بے پناہ لگاؤہے ، یہی وجہ ہے کہ آپ نے اعلی تعلیم میں علم قراءات کو اپنا مقصد بنایا اور ثانویہ کی تعلیم کے بعد 1409ھ میں ام القری یونیورسٹی سے قراءات قرآن میں بی اے کیا، اور 1417ھ میں کتاب وسنت میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، آپ نے ایم اے میں ابن ملقن کی توضیح شرح جامع الصحیح کے ایک حصہ پر تحقیقی مقالہ تحریر کیا،سال 1423ھ میں ” امام ابن عطیہ کا قراءات قرآن میں طریقہ کار اور ان کی تفسیرمیں اس کے اثرات” کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا، آپ نے ماسٹر اور ڈاکٹریٹ ام القری یونیورسٹی سے مکمل کیا اور1432ھ میں پروفیسر بنے۔
علمی اور دعوتی سرگرمیاں:شیخ فیصل نے 1404ھ سے مکہ مکرمہ کی متعدد مساجد میں امامت کے فرائض انجام دیئے، حرم مکی میں امامت کے منصب پر فائز ہونے سے قبل شیخ فیصل جامع الھدی رصیفیہ میں 1411ھ سے 1428ھ تک امام وخطیب رہے۔ آپ نے سال 1424سے دو سال کے عرصے میں دعوت اور اصول دین کالج میں مختلف ثقافتی سرگرمیوں کی سرپرستی کی،اسی طرح 1419ھ سے 1428ھ تک رصیفیہ دعوت وارشاد کے مندوبین کے سربراہ رہے،چار برس تک مساجد اور ائمہ مساجد کمیٹی کے سربراہ رہے، سال 1426ھ سے قراءات ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ،1431ھ میں دعوہ کالج میں طلباءکے امور کے انڈرسیکریٹری منتخب ہوئے، اسی طرح 1432 ھ میں دعوہ کالج برائے اعلی تعلیم کے انڈرسیکریٹری کے عہدے پر فائز ہوئے۔
مسجد حرام میں امامت:شیخ فیصل الغزاوی 25 ذی القعدہ 1428 ھ کو شاہی فرمان کی رو سے مسجد حرام میں امامت کے عہدے پر فائز ہوئے۔

امام حرم المکی شیخ خالد بن علی

0 comments
امام حرم المکی شیخ خالد بن علی بن عبدان الابلجی الغامدی
جمع و ترتیب ذیشان اکرم رانا

شیخ خالد بن علی بن عبدان الابلجی الغامدی حفظہ اللہ تعالی 
حرم مکی میں امام ہیں ۔
شیخ حرم مکی کے علاوہ ایام حج میں منی میں واقع مسجد خیف میں بھی امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں،آپ حرم مکی میں امامت سے قبل مکہ مکرمہ کے الخالدیہ علاقے میں واقع مسجد امیرہ شیخہ میں امام وخطیب تھے۔
 آپ کا تعلق سعودی عرب کے مغرب میں سرات نامی پہاڑی سلسلے کے غامد علاقے میں واقع قبیلة بنی خیثم کے الحبشی قصبے سے ہے۔
شیخ خالد الغامدی کی پیدائش سن 1388 ہجری میں مکہ مکرمہ میں ہوئی، ابتدائی تعلیم مکہ مکرمہ میں حاصل کی، سال 1406 ہجری میں ام القری یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور اس یونیورسٹی کے دعوت واصول دین کالج کے شعبہ  کتاب وسنت سے امتیازی درجے سے گریجویشن کیا اور 1416ہجری میں ام القری یونیورسٹی کے قرآن کریم کالج کے شعبہ  قرآت سے ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی، سن 1421 ہجری میں شیخ خالد الغامدی نے ام القری یونیورسٹی کے مذکورہ کالج سے قرآتِ قرآن کریم اور قرآنی علوم پرڈاکٹریٹ کی، ڈاکٹریٹ کے لیے آپ نے تفسیرثعلبی پر تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔
عملی زندگی کا آغاز
شیخ خالد الغامدی کی غیرمعمولی صلاحیتوں اور گریجویشن کے امتحانات میں امتیازی درجات سے کامیابی پر ام القری یونیورسٹی کے ذمہ داران نے آپ کو دوران تعلیم ہی  ام القری یونیورسٹی کے دعوت اور اصول دین کالج کے شعبہ  قرآت میں لیکچرار کی حیثیت سے مقرر کردیا تھا۔
 تاہم آپ کا رسمی طور پرتقرر سن 1422 ہجری میں عمل آیا، اسی سال شیخ خالد شعبہ  قرآت میں ہیڈ آف دی ڈپارٹمینٹ کے عہدے پرفائز ہوئے اور اس شعبے میں دو برس تک خدمات سرانجام دیں۔
1423 ہجری میں وزیراسلامی امور اوردعوت وارشاد کے حکم پر شیخ خالد کو منی کی مسجد خیف میں رسمی طور پر امام مقرر کیا گیا، جبکہ سن 1426 سے آپ دعوت اور اصول دین کالج میں انڈرسیکریٹری کے منصب پر فائز ہیں۔
25 ذی قعدہ 1428 ہجری کا دن شیخ خالد الغامدی کی زندگی کا وہ موڑ ہے، جہاں سے انھیں دنیا بھر کے مسلمانوں کی امامت اور انھیں خطاب کرنے اور حرم مکی میں اپنی مسحور کن اور رقت آمیز آوازمیں تلاوت کلام پاک سے مستفید کرنے کا موقع ملا، اسی تاریخ کو خادم حرمین شریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود نے شیخ خالد بن علی الغامدی اور شیخ فیصل جمیل حسن غزاوی کے حرم مکی میں امام نامزد کیے جانے کا فرمان جاری کیا۔ اور شیخ خالد الغامدی نے 1429 ہجری کے آغاز سے حرم مکی میں باضابطہ امامت کے فرائض انجام دینا شروع کردیئے۔
شیخ خالد الغامدی حرم مکی میں امام وخطیب اور ام القری یونیورسٹی کے زیر انصرام کالج کے انڈرسیکریٹری کے عہدے پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف تحقیقی، تدریسی اصلاحی، ادارتی کمیٹیوں کے رکن بھی ہیں۔ اسی طرح شیخ موصوف ام القری یونیورسٹی میں ماسٹرس اور ڈاکٹریٹ کے مقالات کے لیے گائڈ کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔
تصنیفی وتحقیقی خدمات
شیخ خالد الغامدی ماہرعلم قراءات ہیں،چونکہ قرآن کریم صحیح حدیث کے مطابق سات طریقوں یا سات لہجوں میں نازل ہوا، شیخ خالد نے قرآن کریم کی قرا ت اور قرآنی علوم کو اپنی تحقیق کا میدان بنایا ہے۔ انھوں نے اب تک علم قرا ت اور علوم قرآنی پر نو سے زائد تحقیقی کتابیں تحریر کیں جن سے شیخ خالد الغامدی کی علم قرا ت اور قرآنی علوم سے شیفتگی اور بے پناہ ذوق کا پتا چلتا ہے۔

امام حرم مکی شیخ عبداللہ بن عواد بن فہد الجہنی

0 comments

امام حرم المکی شیخ عبداللہ بن عواد بن فہد الجہنی
جمع و ترتیب ذیشان اکرم رانا


آپ کا پورا نام عبداللہ بن عواد بن فہد بن معیوف بن عبداللہ بن محمد بن کدیوان الہمیمی الذبیانی الجہنی ہیں ،شیخ موصوف مسجد حرام میں امام ہیں۔ شیخ عبداللہ کی پیدائش بروز منگل11 شوال 1396 ہجری مطابق 13 جنوری 1976 کو مدینہ منورہ میں ہوئی،شیخ عبداللہ نے بچپن ہی میں اپنے والد کی نگرانی میں حفظ قرآن مکمل کرلیا تھا، اور 16 برس کی عمر میں مکہ مکرمہ میں منعقدہ عالمی مسابقہ حفظ قرآن کریم میں اول درجہ سے کامیاب ہوئے تھے۔

شیخ موصوف نے ثانویہ کی تعلیم کے بعد جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے قرآن فیکلٹی سے بی اے کی تعلیم حاصل کی، تعلیم سے فراغت کے بعد مدینہ منورہ کے ٹیچر کالج میں معید کی حیثیت سے مقرر ہوئے، اس کے بعد شیخ عبداللہ نے مکہ مکرمہ میں ام القری یونیورسٹی سے ایم اے کی تکمیل کی، اور حال میں ام القری یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔
شیخ عبداللہ نے 21 برس کی عمر میںمسجد قبلتین سے امامت کا آغاز کیا،مسجد قبلتین کے بعد مسجد نبوی میں دو برس منصب امامت پر فائز رہے۔اس کے بعدچار برس تک مسجد قبا میں امامت کے فرائض انجام دیئے،ماہ رمضان 1426ھ میں شیخ عبداللہ کے نام مسجد حرام میں نماز تراویح کی امامت کا شاہی فرمان جاری ہوا۔
شیخ عبداللہ کو عالمی سطح پر مشہور قرائے کرام سے اجازت حاصل ہے، جن میں شیخ زیات، مسجد نبوی میں شیخ القراءشیخ ابراہیم الاخضر، امام مسجد نبوی ڈاکٹر علی الحذیفی شامل ہیں۔
شیخ عبداللہ کو مسجد حرام، مسجدی نبوی، مسجد قبا سمیت مسجد قبلتین یعنی چار اہم مساجد میں امامت کے فرائض انجام دینے کا شرف حاصل ہے۔

امام حرم مکی شیخ محمد السبیل

0 comments
امام حرم مکی شیخ محمد السبیل
جمع و ترتیب ذیشان اکرم رانا
شیخ محمد بن عبداللہ بن محمد بن عبدالعزیز آل عثمان نجد میں رہائش پذیر قبیلے بنی زید سے تعلق رکھتے ہیں، بنی زید عرب کے مشہور قبیلے قحطان کی ایک شاخ ہے۔ شیخ محمد ”السبَیل” کے لقب سے مشہور ہیں۔
 پیدائش اور تعلیم وتربیت:
شیخ کی پیدائش سال 1345 ھ میں سعودی عرب کے علاقے قصیم کے شہر بکیریہ میں ہوئی، حفظ قرآن کی تکمیل اپنے والد محترم اور شیخ عبدالرحمن الکردیدیس کے پاس کی، نیز مکہ مکرمہ میں رابطہ عالم اسلامی کے رکن شیخ سعدی یاسین لبنانی سے بھی قرآن کریم کی تعلیم حاصل کی۔
شیخ نے علوم شرعیہ اور علوم عربیہ کی تعلیم روایتی طریقے کے مطابق اپنے شہر کے علماءکے پاس مساجد میں جاکر حاصل کی، شیخ سبیل کے شیوخ اور اساتذہ میں شہر بکیریہ کے قاضی شیخ محمد بن مقبل، اور شیخ کے حقیقی بھائی مسجد حرام کے مدرس شیخ عبدالعزیز بن سبیل وغیرہ شامل ہیں۔شیخ سبیل نے ابتدائی شرعی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے مملکت سعودی عرب کے علاقے بریدہ کا سفر کیا ، اورعلاقہ قصیم کی عدالتوں کے سربراہ شیخ عبداللہ بن محمد بن حمید سے علم دین حاصل کیا، اسی طرح شیخ سبیل نے مکہ مکرمہ میں اپنے زمانے کے مشہور محدثین شیخ عبدالحق ہاشمی اور شیخ ابو سعید عبداللہ ہندی سے اجازت حدیث حاصل کی۔
میدان عمل میں :
شیخ نے وزارة المعارف اور دیگر تعلیمی اداروں میں تقریبا 20 برس تک دریسی خدمات سر انجام دیں ، سال 1385 ھ میں شیخ سبیل حرم مکی میں امام وخطیب اور صدرالمدرسین مقرر ہوئے،اور سال 1390 ہجری میں حرم مکی میں مذہبی امور سے متعلق کمیٹی کے نائب سربراہ مقرر ہوئے، اور پھر سال 1411ھ میں حرمین شریفین میں عمومی امور سے متعلق کمیٹی کے سربراہ بنائے گئے۔ شیخ سبیل رابطہ عالم اسلامی میں فقہ اکیڈمی کے روز اول سے رکن ، اسی طرح مملکت سعودی عرب میں کبار علماءکمیٹی کے رکن ہیں۔شیخ، حرم مکی میں علوم شرعیہ اور علوم عربیہ کی تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔
 اسفار:
شیخ سبیل نے اسلامی دنیا کے اکثر ممالک میں دعوتی دورے کئے، اندرون سعودی عرب سمیت بیرونی ممالک میں منعقدہ متعدد دینی کانفرنسوں میں شرکت کی۔
تالیفات:
شیخ سبیل کے حرم مکی میں دیئے گئے خطبات کتابی شکل میں متعدد جلدوں میں منظر عام پر آئے ہیں، اسی طرح آپ نے مختلف موضوعات پر رسالے لکھے ہیں جن میں چوری کی حد، راعی اور رعایا اور قادیانیت شامل ہیں، شیخ سبیل شعروشاعری سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں،آپ کا ایک شعری دیوان بھی منظر عام پر آیا ہے۔

امام حرم مکی شیخ ماہرحمدمُعَیقِل المُعَیقلِی

0 comments
امام حرم مکی شیخ ماہرحمدمُعَیقِل المُعَیقلِی

جمع و ترتیب ذیشان اکرم رانا

شیخ ماہرحمدمُعَیقِل المُعَیقلِی حرم مکی میں امام وخطیب ہیں، فضیلة الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبدالعزیز السدیس اور فضیلة الشیخ ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم کے بعد عالمی سطح پر اپنی دلسوز تلاوت پاک سے مسلمانانِ عالم میں مشہور ہیں، خلیجی ملکوں میں حفظِ قرآن کررہے زیادہ ترطلباء تلاوت پاک میں آپ کی نقل کرنا پسند کرتے ہیں، شیخ ماہر کی آواز میں سوز ، شیرینی اور خوفِ الہی کا اثر جھلکتا ہے۔ آپ کی شیریں اور سوز سے بھری تلاوتِ قرآن کی آواز سے سامعین میں رقتِ قلب اور خوفِ الہی پیدا ہوتا ہے اور دل چاہتا ہے کہ صاف وشفاف بہتے چشمے کی طرح رواں اس آواز کو بلاتوقف سنتے رہیں۔
پیدائش اور ابتدائی حالات وتعلیم
شیخ ماہر حمد 18شوال 1388ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے،اور اللہ کے محبوب کے محبوب شہر میں پرورش پائی ، آپ کے والد بزرگوار کا نام شیخ حمد بن معیقل ہے اور’ ابو محمد‘ کنیت ہے جنکا تعلق مملکت سعودی عرب کے ینبع النخل علاقے میں واقع سویقہ نامی ایک قصبے سے ہے، شیخ ماہر نے حفظ ِقرآن کی تکمیل کا مرحلہ مدینةالرسول میں طے کیا۔
 حفظِ قر آن کریم کے بعد مدینہ منورہ کے ایک اسکول سے ثانویہ کی تعلیم حاصل کی،ثانویہ کے بعد کلیة المعلمین میں داخل ہوئے اور وہاں سے ریاضی کے مضمون میں تدریس کی تربیت حاصل کی۔
عملی زندگی کا آغاز
شیخ ماہر تعلیمی سلسلہ مکمل ہونے کے بعد عملی زندگی اور کسبِ معاش کی جانب متوجہ ہوئے، سب سے پہلے آپ کسب معاش کے لیے مکہ مکرمہ پہنچے اور مکہ مکرمہ میں مدرسہ بلاط الشہداءمیں درس وتدریس کے پیشے سے منسلک ہوگئے،مدرسہ بلاط الشہداء میں تدریسی خدمات شروع کیے، زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ شیخ موصوف کومتوسطہ امیرعبدالمجید اسکول میں خصوصی نگراں منتخب کرلیا گیا؛اسی اثناء میں شیخ موصوف نے اپنا اعلی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور ام القری یونیورسٹی میں شریعہ میں ماسٹرس کی اسٹڈی کرتے رہے اور سال 1425 ہجری میں ماسٹرس ڈگری حاصل کرلی۔ آپ کے ماسٹرس کے مقالے کا موضوع فقہ حنبلی تھا۔ اس کے بعد آپ نے علم تفسیر کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ تحریر کیا اور اس طرح شریعہ میں پی ایچ ڈی بھی مکمل کرلی۔فی الحال شیخ ماہر حمد ام القری یونیورسٹی کے شریعہ اوردراسات اسلامیہ فیکلٹی کے شعبہ قضاءمیں لیکچرار کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
حرمین شریفین میں امامت کا شرف
شیخ ماہرحمدپہلے ہی سے امامت وخطابت کے میدان سے وابستہ تھے اور مکہ مکرمہ کے علاقے العولی میں واقع مسجد جامع السعدی میں امام وخطیب تھے۔ یہ وہ مسجد ہے جہاں آپ ماہ رمضان کے علاوہ ایام میں آج بھی امامت وخطابت کے فرائض انجام دیتے ہیں۔آپ سن 1426ھ میں مسجدنبوی میں امام مقرر ہوئے، اسی طرح آپ پر اللہ تعالی کا مزید کرم احسان ہوا اور آپ کو حرم مکی میں امامت کے لیے شاہی فرمان کے ذریعے مقرر کرلیا گیا۔

امام حرم مکی شیخ سعود بن ابراہیم بن محمد الشریم

0 comments

امام حرم مکی شیخ سعود بن ابراہیم بن محمد الشریم
جمع و ترتیب ذیشان اکرم رانا
 


شیخ سعود بن ابراہیم بن محمد الشریم مسجد حرام میں امام وخطیب اور مکہ مکرمہ کی عدالت کے سابق جج ہیں، آپ کا تعلق نجد کے شہر شقراءکے مشہور قبیلے بنی زید سے ہے۔
شیخ سعود کے دادا محمد بن ابراہیم الشریم 1322 ھ سے 1325 ھ تک شقراءمیں امیر کے منصب پر فائز رہے ، عربی کے مشہور شاعر سلیمان بن شریم بھی آپ ہی کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔
شیخ سعود سن 1386ھجری میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم عرین اسکول میں حاصل کی، اس کے بعد نموذجیہ سے مڈل اسکول پاس کیا۔ اور سن 1404 ھ میں سیکنڈری کی تعلیم سے فارغ ہوئے۔
آپ نے 1409ھ میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں واقع امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی سے عقیدہ اور معاصرمذاہب میں بیچلرس کی ڈگری حاصل کی۔
 سن 1410ھ میں ہائیرانسٹی ٹیوٹ آف جسٹس میں داخلہ لیا اور وہاں سے 1413ھ میں امتیازی درجات سے ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی۔
اس کے بعد آپ نے سن 1416ھ میں ام القری یونیورسٹی سے اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی۔
 پی ایچ ڈی میں آپ کے مقالے کا عنوان (المسالک فی المناسک ) تھا۔ آپ نے پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ مملکت سعودی عرب کے مفتی عام شیخ عبدالعزیز آل الشیخ کے زیر نگرانی لکھا جو بعد میں کتابی شکل میں منظر عام پر آیا۔
امام شیخ سعود بن ابراہیم الشریم کو اپنے زمانے کے ماہرینِ فن اساتذہ سے براہ راست استفادے کا شرف حاصل ہے، ان کے اساتذہ میں شیخ عبداللہ بن جبرین رحمه الله ، شیخ عبدالعزیز بن باز رحمه الله،شیخ عبداللہ الغدیان رحمه الله، شیخ فہدالحمین، شیخ عبدالعزیز الراجحی، شیخ عبدالرحمن البراک ، شیخ عبدالعزیز بن عقیل اور شیخ صالح ابن فوزان الفوزان شامل ہیں۔
شیخ سعود نے تدریسی میدان سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا، سن 1410ھ میں آپ نے ہائیرانسٹی ٹیوٹ آف جسٹس میں اپنی تعلیمی لیاقت میں اضافے کے ساتھ ساتھ تدریسی خدمات بھی انجام دیں۔ آپ کو اس انسٹی ٹیوٹ میں مدرس مقرر کیا گیا۔
سن 1412ھ میں حرم مکی میں امامت وخطابت کے لیے آپ کے تقرر کے سلسلے میں خادم حرمین شریفین مرحوم شاہ عبدالملک فہد بن عبدالعزیز آل سعود نے فرمان جاری کیا۔ اور اس کے بعد سے اب تک آپ اس مقدس منصب پر فائز ہیں۔ حرم مکی میں منصب امامت پر فائز ہونے سے قبل شیخ سعود دارالحکومت ریاض کی ایک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ تاہم ریاض بھر کے ائمہ کرام میں شیخ سعود اپنی مسحور کن اور رقت آمیز تلاوت کے سبب انفرادی پہچان رکھتے تھے۔
حرم مکی میں منصب امامت پر فائز ہونے کے ایک برس بعد سن 1413ہجری میں ایک اورشاہی فرمان جاری ہوا جس کی رو سے شیخ سعود نے مسجد حرام میں مسند درس وتدریس کو زینت بخشی۔
حال میں شیخ سعود بن ابراہیم حرم مکی میں امامت وخطابت کے فرائض کے ساتھ ام القری یونیورسٹی کے شریعہ فیکلٹی میں استاد فقہ کی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
 قرآن کریم سے آپ کا لگاو
 شیخ سعود کا عالم اسلام کے مایہ ناز قراءمیں شمار ہوتا ہے، آپ کی آواز میں درد وسوز ہے ، آپ قرآن کریم کو حفص کی روایت کے مطابق پڑھتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ تمام اکابرین امت اسلام کی تعلیمات پرنہایت مضبوطی سے عمل پیرا ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ وقت کے ضیاع سے بچنے کی ہمیشہ تلقین کرتے ہیں تاکہ امت اسلامیہ کی نسلیں اپنے وقت کو صحیح اور اسلامی خطوط پر گزارکر دنیا میں اسلام کے پرچم کو بلندکرسکیں۔ شیخ شریم بھی ہمارے ان ہی اکابرین امت میں سے ہیں جنہوں نے وقت کی قدر کی ویسے ہی جیسے اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔
شیخ اپنے بارے میں خود کہتے ہیں کہ آپ نے نوجوانی کی عمر میں وقت ضائع نہیں کیا۔ آپ کے بقول ‘آپ نے راستے میں ٹریفک سگنل کے وقفوں پر گزرنے والے ان مختصر اوقات کو بھی آپ نے قرآن پاک کے حفظ میں استعمال کیا، آپ کے مطابق آپ نے ٹریفک سگنل کے ان اوقات میں سورہ نساءحفظ کی ہے۔
تصنیفی وتالیفی خدمات
آپ کے قلم سے دینی موضوعات پر 13 سے زائد قابل قدر کتابیں نکلی ہیں، حرم مکی میں دیئے گئے دروس پرمشتمل 5 مجموعوں کے علاوہ حرم مکی کے منبرومحراب سے پیش کئے گئے آپ کے خطبات کے متعدد مجموعے منظرعام پر آئے جو قرآن وحدیث کی نورانی ہدایتوں پر مشتمل ہیں۔
 www.shuraym.com

امام کعبہ کا مرکزی جمعیت اہل حدیث کے کنونشن سے خطاب

0 comments
امام کعبہ کا مرکزی جمعیت اہل حدیث کے کنونشن سے خطاب
۳۱
 مئی
 کو ۱۲ بجے امام کعبہ شیخ عبد الرحمن سدیس الحمرا ہال نمبر ۱ میں علما سے مخاطب ہوئے۔ یوں تو شیخ کے تمام خطابات اپنی مثال آپ ہیں لیکن آپ کا جو خطاب سب سے زیادہ نشر کیا گیا اور مستقبل میں بھی اس کوایک یادگار حیثیت حاصل رہے گی، وہ یہی خطاب ہے۔ اس خطاب کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اب تک اس خطاب کے پانچ تراجم بمعہ عربی متن شائع ہوکر لاکھوں کی تعداد میں تقسیم ہوچکے ہیں۔ اس خطا ب کے دوران شیخ سدیس کی فرحت و مسرت دیدنی تھی جس کا اظہار اُنہوں نے اپنے خطاب کے آغاز میں ان الفاظ سے فرمایا:

 فیَعلم اﷲ الذي لا إلہ غیرہ أن ہذہ المناسبة من أعَزِّ المناسبات وأحَبِّہا إلی نفسي

''میرا ربّ جانتا ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ آج کی یہ تقریب میرے لئے تمام تقریبات سے عزیز ترین اور محبوب ترین ہے۔''



آگے چل کر پھر ان الفاظ میں اظہارِ مسرت فرماتے ہیں:

سعادتي لا تُوصف وابتہاجي لا تَحُدُّہ حدودُ باکستانَ بل إنہا لا تَتَسامٰی عن ذلک فِي الأرض کلِّہا، أن اَلْتَقِيْ بأَحَبِّ النَّاسِ وَأَعَزِّ النَّاسِ وَأَصْدَقِ النَّاسِ، أحسِبُہم کذلک ولا أزَکّي علی اﷲ أحدًا

''میری خوش نصیبی بیان سے باہر ہے اور میری مسرت پاکستان کی سرحدوں سے متجاوز ہے بلکہ روے زمین پر اس سے بڑھ کر کوئی سعادت ہونہیںسکتی کہ میں تمام لوگوں سے محبوب ترین، اپنے ہاں سب سے زیادہ معزز اور سب سے مخلص لوگوں سے ملاقات کررہا ہوں۔ میری رائے اِن حضرات کے بارے میں تو یہی ہے ، البتہ میں اللہ سے زیادہ باخبر ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا۔''


یہ واحد پروگرام تھا جس میں شریک ہونے والے قائدین کوحکومت کے ناقدین میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ یہ پروگرام امامِ کعبہ کے باضابطہ شیڈول میں موجود نہیں تھا لیکن امام موصوف کی ذاتی دلچسپی اس پروگرام کے انعقاد کا سبب و محرک ٹھہری، البتہ چوہدری پرویز الٰہی اس میں شریک نہ ہوئے۔ اس پروگرام میں جماعت ِاسلامی کے امیر قاضی حسین احمد، جماعة الدعوة کے امیر حافظ محمد سعید اور دیگر نامور قائدین نے بھی شرکت فرمائی جبکہ مرکزی جمعیت اہل حدیث تو خود کنونشن کی داعی تھی، اس لئے اس کے امیر و ناظم اعلیٰ سے لے کر اکثر وبیشتر ملکی عہدیداران اس موقعہ پر موجود تھے۔ پروگرام میں گوناگوں قائدین کو موجود پا کر امامِ کعبہ نے حیرت واستعجاب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا :

فإن جمعیة أہل الحدیث الیومَ تُمثِّل وحدةَ المسلمین حینما دَعَتْ رؤساء الجمعیات الأخرٰی لِنَکُون جمیعًا أہل حدیث ولنکون جمیعًا جماعة إسلامیة ولنکون جمیعا جماعة دعوةٍ

''آج جمعیت اہل حدیث نے مسلمانوں میں اتحاد ویگانگت کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔ او روہ یوں کہ اُنہوں نے دیگر تحریکوں ؍تنظیموں کے سربراہان کو بھی یہاں شرکت کی دعوت دی ہے تاکہ آج ہم سب اہل حدیث بن جائیں اور ہم سب جماعت اسلامی بن جائیں اور ہم سب جماعت الدعوة بن جائیں۔''


جمعیت اہل حدیث کی اس اتحاد ویگانگت کی کوشش کو سراہتے ہوئے انہوں نے فرمایا:

وأحسب أن جمعیة أہل الحدیث من الجمعیات الرائدة في تحقیق وحدة المسلمین وجمع کلمتہ، بورکت جہودہا وسددت في أعمالہا وأثاب اﷲ القائمین علیہا لأنہم یدعون إلی توحید اﷲ، یدعون حیث دعا رسل اﷲ

میں سمجھتا ہوں کہ جمعیت اہل حدیث کا اُمت ِمسلمہ کو متحد ومتفق کرنے اور ان کے کلمہ کو مجتمع کرنے میں ایک نمایاں کردار ہے، اللہ ان کی کوشش کو بابرکت بنائے، ان کے کاموں کو راہِ راست پر مستقیم فرمائے۔ اللہ تعالیٰ اس کے کارپردازان کو سلامت رکھے کیونکہ یہ لوگ توحید کے داعی ہیں، یہ اس دعوت کے حامل ہیں جس کی طرف اللہ کے رسولوں نے انسانیت کو بلایا۔


چونکہ یہ کنونشن ایک معروف دینی تحریک کی طرف سے منعقد کیا جارہا تھا، ا س لئے یہاں امامِ کعبہ کے خطاب کا موضوع بھی 'عقیدہ ومنہج' تھا۔ چنانچہ اُنہوں نے دین کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بیان فرماتے ہوئے کہا کہ اسلام کی دعوت صرف توحید کی اساس پر، اور سنت ِنبویؐ کی پیروی پر مستقیم رہ سکتی ہے۔ اُنہوں نے دورِ حاضر کے چیلنجز سے عہدہ برا ہونے کے لئے اسلام او راُمت ِاسلامیہ کے اتحاد کو ازبس لازمی قرار دیتے ہوئے فرمایا:

لکن علی ماذا تکون أُسُسُ الوحدة؟ تکون علی منہج الکتاب والسنة

''لیکن اس وحدت واتحاد کی بنیادیں کیا ہوں؟ یہ بنیاد کتاب وسنت کی اتباع ہی ہوسکتی ہے۔''


انہوں نے کہا کہ اس دعوت میں اہل علم کے فضل ومرتبہ کا اہتمام والتزام کرنا اشد ضروری ہے ، اس دعوت کی بنیادیں علم حقیقی (قرآن وسنت) میں پیوست ہیں۔ فرمایا:

فلا ینبغي أن نتساہل بشأن العلم فینبغي أن نُعْنٰی بالعلم بکتاب اﷲ والعلم بسنة رسولہ ﷺ والعلم باللغة العربیة التي ہي لغة القرآن الکریم والسنة النبویة

''علم کے حصول میں کوتاہی کسی طرح بھی درست رویہ نہیں ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم قرآن مجید اور سنت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم کو سیکھیں اور عربی زبان کی تعلیم حاصل کریں جو قرآنِ کریم اور سنت ِنبویہؐ کی زبان ہے۔''


علما کی عظمت وشان کے حوالے سے آپ نے ان الفاظ میں توجہ دلائی کہ علماے شریعت کی شان ومرتبہ میں کسی قسم کی کمی بیشی کرنے سے احتراز واجتناب لازمی ہے۔علما پر کوئی الزام عائد کرنے سے پہلے ان کو اجتہادی خطا پر (بشریت کے تقاضوں کے پیش نظر) معذور سمجھا جائے:

لا ینبغي التعجُّل في الوقیعة بالعلماء بل لا بد من التماس العُذر لہم!

اسلام پر عمل پیرا ہونے کے سلسلے میں منہج سلیم کی نشاندہی کرتے ہوئے آپ نے کہا :
''فإنہا دَعوة، دعوة إلی الاعتصام بالکتاب والسنَّة بعیدًا عن المُسمَّیات والشِّعَارات،فنَحن ندعو إلی کتاب اﷲ وسنَّة رسولہ ونحبُّ من کان حریصًا مُتَّبِعا لکتاب اﷲ وسنة رسولہ ﷺ بمنہج السلف الصالح''
''یہ اسلام کی دعوت دراصل کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھام لینے کی دعوت ہے جو مختلف ناموں اور علامتوں سے کہیں بالاتر ہے۔ ہماری دعوت کتاب اللہ اور سنت ِرسولؐ کی دعوت ہے۔ ہمیں اس شخص سے دلی محبت ہے جو کتاب وسنت کی اتباع کا شائق و حریص ہو، جس ڈھنگ پر اس اُمت کے سلف صالحین کاربند رہے ہیں۔''



دین کے مفہوم اوراس کی دعوت کے حوالے سے اپنے مذکورہ بالا خیالات پیش کرتے ہوئے آپ نے اس تصور کا حامل 'اہل حدیث' کو قرار دیا اور یہ عربی اَشعار پڑھے :

أھل الحـــدیث ہمــو آل النبـي وإن لم یصحبوا نفسہ أنفاسہ صحبوا

سلامي علی أہل الحدیث فإنـني نشأت علی حبِّ الأحادیث من مَّہد
ہمو نشروا في الکون سنة أحمدا بـلا صــد منــہـــم فیہــا ولا وِرد
''اہل حدیث تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آل وعیال ہیں، جو ذاتِ نبویؐ کی صحبت سے مشرف تو نہیں ہوئے، البتہ ان کے سانس ضرور اس سے عطر بیز رہتے ہیں۔ اہل حدیث کو میرا سلام ہو کیونکہ بچپن سے میں بھی احادیث کی محبت میں ہی پروان چڑھا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کائنات میں سنت ِاحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نشرواشاعت کی اور اس میں اُنہوںنے کوئی کمی بیشی نہیں کی۔''



اس شعر میں اہل حدیث کو آل النبیؐ (نبی کے روحانی وارث) قرار دینے کی وجہ پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یوں تو یہ صحابیت کے شرف سے محروم ہیں، لیکن فرامینِ نبویؐ کے ہروقت تذکرے سے گویاان کی مشامِ جان ہردم صحبت ِ نبویؐ سے عطر بیز رہتے ہیں۔یعنی صحابیت کے حقیقی وصف کی بجائے اس مبارک فعل کی بنا پر اُنہیں اس کا معنوی وصف 'کلامِ نبوی کو سننا سنوانا' ضرور حاصل ہوا ہے۔ پھر امامِ کعبہ نے نجات یافتہ گروہ کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کا مشہور مقولہ ذکر فرمایا:

إن لم یکونوا أہل الحدیث فلا أدري من ہم؟

''اگر اہل حدیث فرقہ ناجیہ نہیں ہیں تو پھر میں نہیں جانتا کہ وہ اور کون ہیں؟''



انتہائی فرحت ومسرت کے عالم میں ہونے والا امام کعبہ کا یہ خطاب نہ صرف دیگر خطابات کی نسبت کافی طویل ہے بلکہ جا بجا قیمتی ارشادات اور علمی نکات سے بھرا ہوا ہے۔ اپنے خطاب میں دنیا بھر میں اہل حدیث کے شاندار کردار کا تذکرہ کرتے ہوئے اُنہوں نے فرمایا:

أیہا الإخوة! إن جمعیة أہل الحدیث المرکزیة من الجمعیات الرَّائدة، لیس في مستوٰی باکستان فقط وإنما في العالم الإسلامي کلِّہ بل في العالمِ أجمع۔ زُرتُ أمریکا وزرتُ بریطانیا وزُرت أماکنَ شتّٰی في العالم فوجدتُّ لأہل الحدیث دعوةً ووَجدتُّ لہٗ مساجد ووجدت لہم نشاطًا یُشْکرون علیہ، لیس ہذا تعصُّبًا ولا تحیُّزا

''میرے بھائیو! مرکزی جمعیت اہل حدیث نہ صرف پاکستان،پورے عالم اسلام بلکہ دنیا بھر میں ایک اُبھرتی ہوئی نمایاں جمعیتہے۔ مجھے امریکہ، برطانیہ اور دنیا کے دیگر علاقوں میں جانے کا موقع ملا ہے، وہاں بھی اہل حدیث کی دعوت موجود ہے، ان کی ہرجگہ مساجد ہیں اور ان کے کاموں میں کافی حرکت و نشاط پائی جاتی ہے جس پر ان کی قدر افزائی ہونی چاہئے۔ واضح رہے کہ میں یہ باتیں کسی تعصب اورہم نوائی کی بنا پر نہیں کہہ رہا ہوں۔''


امام کعبہ نے منہج وعقیدہ کی اس راست روی اور دیگر گوناگوں خوبیوںکی بنا پر اُمت ِمسلمہ کو بھی منہج سلف صالحین اختیا رکرنے کی دعوت دی:

فکلُّ مُسلِم ینبغي أن یکون أہل حدیث وکل مسلم ینبغي أن یکون أہل توحید وأہل سنة وأہل رعایة لمنہج سلف ہذہ الأمة رحمہم اﷲ

''ہرمسلمان کو اہل حدیث ہونا چاہئے، ہرمسلمان کو اہل توحید اور اہل سنت ہونا چاہئے اور اس اُمت کے ائمہ اسلاف کے منہج کی رعایت رکھنے والا ہونا چاہئے۔''


شُکرًا لجمعیة أہل الحدیث وسلامي علی أہل الحدیث ودعائي لأہل الحدیث جمیعًا وجمیع إخواننا المسلمین في باکستان وجمیع جمعیات الإسلامیة الداعیة للإسلام فجزا اﷲ الجمیع خیرًا

'' میں جمعیت اہل حدیث کا شکرگزار ہوں، اہل حدیث حضرات کو میرا سلام ہو، میری دعائیں تما م اہل حدیث حضرات او رپاکستان کے تمام مسلمان بھائیوں کے لئے ہیں۔ اور ان تمام اسلامی جمعیتوں کے لئے بھی جو اسلام کی طرف بلانے والی ہیں، اللہ تمام کو بہترین جزا عطا فرمائے۔''



اپنے خطاب کے آخر میں اُنہوں نے تحریک ِاہل حدیث کو سعودی عرب اور حرمین شریفین کے علما کے افکار ودعوت کا تسلسل اور ان سے ہم آہنگ قرار دیتے ہوئے فرمایا:

وندعو لکم دائمًا في رحاب الحرم الشریف وأنتم امتداد لما علیہ علماء المملکة العربیة السعودیة وأہل الحرمین الشریفین وأئمة الحرمین الشریفین وعلماء مکة والمدینة وجمیع بلاد إخوانکم في المملکة العربیة السعودیة فجزاکم اﷲ خیرًا وبارک في جہودکم، شکرًا لکم

ہم حرم شریف میں ہمیشہ آپ کے لئے دعاگو رہتے ہیں کیونکہ آپ اس (دعوت) کا تسلسل ہیں جس پر مملکت ِسعودی عرب کے علما، حرمین شریفین کے باشندے، حرمین شریفین کے ائمہ کرام، مکہ اور مدینہ کے علماے عظام اور مملکت ِسعودی عرب میں آپ کے تمام بھائی کاربند ہیں۔ اللہ آپ کو جزاے خیرعطا فرمائے، آپ کی کاوشوں کو بابرکت بنائے، ہم آپ کے شکرگزار ہیں۔''


ایک شبہ اور اس کا ازالہ

اس خطاب میں تحریک ِاہل حدیث کے بارے میں جن مخلصانہ جذبات کا اظہار کیا گیا ہے اور جس طرح دوٹوک الفاظ میں ان کی حمایت وتائید کے ساتھ اُنہیں حرمین شریفین کا تسلسل قرار دیا گیا ہے، سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام موصوف کو اس کی ضرورت کیوں پیش آئی...؟



غالباً اس کی ضرورت یہ ہے کہ برصغیر پاک وہند میں تحریک ِاہل حدیث کے حوالے سے عوامُ الناس میں مختلف شبہات پیدا کئے جاتے ہیں اور اس کا تعارف جادئہ حق سے منحرف ایک تحریک کے طور پر کرایا جاتا ہے۔ اس تعارف کے پس پردہ انگریز استعمار اور مغربی سامراج کی سلفیت یا اپنے خود ساختہ تصورِ 'وہابیت' کے خلاف بڑی شدومد سے پھیلائی جانے والی نفرت بھی شامل ہے۔ امام کعبہ نے اپنے اس خطاب کے ذریعے گویا اس تصور کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ بالخصوص جمعیت ِاہل حدیث اور کنونشن میں موجود اہل حدیث علماکو مخاطب۷ کرکے ان کی ملکی وبین الاقوامی خدمات کی جو تحسین وتائید اُنہوں نے فرمائی ہے، اس سے اُن کامقصود بالکل واضح اور ظاہر وباہرہے۔



لیکن یہاں اس امرکی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ شیخ عبدالرحمن سدیس اس بیت اللہ العظیم کے امام ہیں جوتمام مسلمانوں کا قبلہ وکعبہ ہے، چنانچہ اُنہوں نے اپنے خطاب میں بھی اس جامعیت کو ملحوظ رکھا ہے، نہ کہ اُنہوں نے اس طرح کسی تعصب کی حوصلہ افزائی کی ہے بلکہ اُنہوں نے اہل حدیث کے اس تصور کو مجلس میں موجود افراد کے ساتھ متعین کرنے کے علاوہ اس میں ان لوگوں کو بھی شامل کیا ہے جو کتاب وسنت کی غیرمشروط اتباع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اِن الفاظ کے ذریعے اُنہوں نے دوسروں کوبھی اسی دعوت کی ترغیب دی ہے:

وحینما أقول أہل الحدیث أؤکد أنني أرید العموم، أرید أن نَّکون کلُّنا کذلک،کلنا ذلک الرجل۔ ومَن مِّنا لا یحبُّ حدیث رسول اﷲ؟ ومن منا لایحرص علی منہج سلف ہذہ الأمة رضي اﷲ عنہم۔

''جب میں اہل حدیث کا لفظ بولتا ہوں تو بالتاکید اس لفظ سے میری مراد عام ہے، میں چاہتا ہوں کہ ہم سب اسی طرح ہوجائیں۔ کیونکہ ہم میں سے کون ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے محبت نہ ہو، اور کون ہے جو اس اُمت کے اسلاف کے منہج کا خواہاں نہ ہو۔''


امامِ کعبہ کے اس طرزِ فکر پر ان کے پورے خطاب کا اُسلوب شاہد ہے کہ اُنہوں نے اُمت مسلمہ میں اتحاد ووحدت اور یگانگت پر کئی بار زور دیا۔ وحدت کی بنیاد کتاب وسنت کو بتاتے ہوئے اُنہوں نے علما کے احترام، فرقہ واریت سے نفرت، اور فروعی مسائل کی بنا پر فرقہ بند ہوجانے کے رویہ کی مذمت کی اور آپس میں خیرخواہی اور ایک دوسرے کے لئے محبت ومؤدت کے جذبات پر کاربند رہنے کی تلقین فرمائی۔


امامِ کعبہ جیسی معتبر ومحترم ہستی کی یہی شان ہے کہ وہ اُمت کو اسلام کی حقیقی بنیادوں پر یکجا ہونے کی دعوت دیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کا صحیح اور کامل شعور عطا فرما کر خلوص دل سے اس پر عمل کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین!