امام بخاریؒ کے حالاتِ زندگی
جمع و ترتیب ذیشان اکرم رانا
سلسلۂ نسب
امام بخاری کا سلسلۂ نسب یہ ہے :
ابو عبداﷲ محمد (امام بخاری ؒ) بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ بن بردزبہ البخاری الجعفی۔ امام بخاری ؒ کے والد حضرت اسماعیل ؒ کو جلیل القدر علمااور امام مالک رحمتہ اﷲ علیہ کی شاگردی کا بھی شرف حاصل تھا۔
پیدائش:
امام بخاریؒ 13 شوال 194ھ (20 جولائی 810ئ) کو بعد نمازِ جمعہ بخارا میں پیدا ہوئے۔ امام بخاری ؒ ابھی کم سن ہی تھے کہ شفیق باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور تعلیم و تربیت کیلئے صرف والدہ کاہی سہارا باقی رہ گیا۔ شفیق باپ کے ا ٹھ جانے کے بعد ماں نے امام بخاری ؒ کی پرورش شروع کی اور تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔ امام بخاری ؒ نے ابھی اچھی طرح آنکھیں کھولی بھی نہ تھیں کہ بینائی جاتی رہی۔ اس المناک سانحہ سے والدہ کو شدید صدمہ ہوا۔
انہوں نے بارگاہِ الہٰی میں آہ زاری کی، عجز و نیاز کا دامن پھیلا کر اپنے لاثانی بیٹے کی بینائی کیلئے دعائیں مانگیں۔ ایک مضطرب ، بے قرار اور بے سہارا ماں کی دعائیں قبول ہوئیں۔ انہوں نے ایک رات حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کو خواب میں دیکھا فرما رہےتھے: ’’جا اے نیک خو ! تیری دعائیں قبول ہوئیں۔تمہارے نورِ نظر اور لختِ جگر کو اﷲ تعالیٰ نے پھر نورِ چشم سے نواز دیا ہے ‘‘ صبح اٹھ کر د یکھتی ہیں کہ بیٹے کی آنکھوں کا نور لوٹ آیا ہے ۔
سبحان اﷲ حضرت احمد بن حفص ؒ نے کہا کہ میں حضرت اسمٰعیل ؒ کے پاس ’’ ان کی موت کے وقت‘‘ گیا جو امام بخاری ؒکے والد تھے ا نہوں نے کہا میں نہیں سمجھتا میرے مال میں کوئی روپیہ حرام یا شبہہ کا ہو (یعنی آپؒ کی پرورش حلال مال سے ہوئی) حضرت وراقہ ؒ فرماتے ہیں کہ
امام بخاری ؒ کو اپنے باپ کے ترکہ میں سے بہت مال ملا تھا۔ غنجار نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ امام بخاری ؒ کے پاس کچھ مالِ تجارت آیا۔ تاجروں نے پانچ ہزار کے نفع سے اسے مانگا۔ پھر دو سرے دن کچھ اور تاجروں نے دس ہزار کے نفع کی پیش کش کی تو امام صاحب ؒنے فرمایا: ’’میں نے پہلے تاجروں کو دینے کی نیت کر لی تھی‘‘۔ آخر اُنہی کو دے دیا اور مزید پانچ ہزار کا نفع چھوڑ دیا۔
امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کو اپنے والد کی میراث سے کافی دولت ملی تھی۔ آپؒ اس سے تجارت کیا کرتے تھے۔ اس آسودہ حالی سے آپؒ نے کبھی اپنے عیش و عشرت کا اہتمام نہیں کیا جو کچھ آمدنی ہوتی طلب علم کیلئے صرف کرتے۔ غریب اور نادار طلبا کی امداد کرتے، غریبوں اور مسکینوں کی مشکلات میں ہاتھ بٹاتے۔ ہر قسم کے معاملات میں آپ رحمہ اللہ علیہ بے حد احتیاط برتتے تھے۔
حضرت عبداﷲ بن محمد صیارفی رحمتہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ میں امام بخاری ؒکے ساتھ ان کے مکان میں بیٹھا تھا اتنے میں ان کی لونڈی آئی اور اندرجانے لگی۔سامنے ایک دوات (انک کی بوتل) رکھی تھی اس کو ٹھوکر لگی۔ امام بخاری ؒنے کہا تم کیسے چلتی ہو وہ بولی جب راستہ نہ ہو تو کیسے چلوں؟ یہ سن کر امام بخاری ؒنے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دیئے اور کہا: ’’جا میں نے تجھ کو آزاد کر دیا ‘‘ لوگوں نے کہا اے ابو عبداﷲ! اس لونڈی نے تو آپ ؒ کو غصّہ دلایا ہے۔ انہوں نے کہا میں نے اس کام سے اپنے نفس کو ر ا ضی کر لیا ہے۔
’’وضاحت: آپ بھی جب کسی پر ناراض ہوں یا اس کی غیبت کریں یا نقصان پہنچائیں یا دل دکھائیں تو اس پر کوئی نہ کوئی احسان ضرور کریں۔ یا اس سے معافی مانگیں۔ کم از کم اس کے لئےدعائِ مغفرت کریں تاکہ آخرت کے عذاب سے آپ بچ جائیں۔‘‘
حضرت وراقہ ؒ فرماتے ہیں کہ امام بخاری ؒبہت کم خوراک لیتے تھے، طالب علموں کے ساتھ بہت احسان کرتے اور نہایت سخی تھے۔ ایک دفعہ امام بخاری ؒبیمار ہوئے۔ ان کا قارورہ (پیشاب کی رپورٹ) طبیبوں کو چیک کرایا گیا تو ا نہوں نے کہا یہ قارورہ تو اس شخص کا ہے جس نے کبھی سالن نہ کھایا ہو۔ پھر امام بخاری ؒ نے ان کی تصدیق کی اور کہا کہ چالیس سال سے میں نے سالن نہیں کھایا (یعنی روکھی روٹی پر قناعت کی) طبیبوں نے کہا اب آپؒ کی بیماری کا علاج یہ ہے کہ سالن کھایا کریں۔ امام بخاری ؒ نے قبول نہ فرمایا۔ بڑے اصرار سے یہ قبول کیا کہ روٹی کے ساتھ کچھ کھجور کھا لیا کریں گے۔ محمد بن منصور فرماتے ہیں ہم ابو عبداﷲ بخاری ؒ کی مجلس میں تھے۔ ایک شخص نے آپؒ کی داڑھی میں سے کچھ کچرا نکالا اور زمین پر ڈال دیا۔ امام بخاری ؒنے لوگوں کو جب غافل پایا تو اس کو اٹھا کر اپنی جیب میں رکھ لیا۔ جب مسجد سے باہر نکلے تو اس کو پھینک دیا (گویا مسجد کا اتنا احترام کیا)
امام بخاری ؒ کا حافظہ:
امام بخاری ؒ کو اﷲ تعالیٰ نے غیر معمولی حافظہ اور ذہن عطا کیا تھا۔ ایک مرتبہ بغداد آئے، محدثین جمع ہوئے اور آپؒ کا امتحان لینا چاہا، امتحان کی ترتیب یہ رکھی کہ دس آدمیوں نے دس دس حدیثیں لے کر ان کے سامنے پیش کیں، ان احادیث کے متن (عبارت) اور سندوں کو بدلا گیا، متن ایک حدیث کا اور سند دوسری حدیث کی لگا دی گئی۔ امام بخاری ؒ حدیث سنتے اور کہتے، مجھے اس حدیث کے بارے میں علم نہیں جب سارے محدثین اپنی دس دس حدیثیں سنا چکے اور ہر ایک کے جواب میں امام بخاری ؒ نے کہا کہ مجھے اس کا علم نہیں، تو سارے لوگ ان سے بدظن ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ کیسے امام ہیں کہ 100 احادیث میں سے چند حدیثیں بھی نہیں جانتے۔
امام بخاری ؒ پہلے شخص سے مخاطب ہو کر کہنے لگے تم نے پہلی حدیث یوں سنائی تھی اور پھر صحیح حدیث سنائی دو سری حدیث کے بارے میں فرمایا کہ تم نے یہ حدیث اس طرح سنائی تھی جب کہ صحیح یہ ہے اور پھر صحیح حدیث سنائی، مختصر یہ کہ امام بخاری ؒ نے دس کے دس آدمیوں کی مکمل حدیثیں پہلے ان کے ردّو بدل کے ساتھ سنائیں اور پھر صحیح اسناد کے ساتھ حدیثیں سنائیں۔
اس مجلس میں امام صاحب کی اس طرح حدیثوں کی صحت، پر سارا مجمع حیران اور خاموش تھا، علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ یہ واقعہ لکھنے کے بعد فرماتے ہیں، یہاں امام بخاری ؒ کی امامت تسلیم کرنی پڑتی ہے۔ تعجب یہ نہیں کہ امام بخاری ؒ نے غلط احادیث کی تصحیح کی اسلئے کہ وہ تو تھے ہی حافظ حدیث، تعجب تو اس کرشمہ پر ہے کہ امام بخاری ؒ نے ایک ہی دفعہ میں ان کی بیان کردہ ترتیب کے مطابق وہ تمام تبدیل شدہ حدیثیں بھی یاد کر لیں۔ (فتح الباری ، شرح صحیح بخاری)
آپؒ کی سب سے بلند پایہ تصنیف صحیح بخاری ہے۔ آپ ؒ نے بخاری کی ترتیب و تالیف میں صرف علمیت، زکاوت اور حفظ ہی کا زور خرچ نہیں کیا بلکہ خلوص، دیانت، تقویٰ اور طہارت کے بھی آخری مرحلے ختم کر ڈالے اور اس شان سے ترتیب و تدوین کا آغاز کیا کہ جب ایک حدیث لکھنے کا ارادہ کرتے تو پہلے غسل کرتے، دو رکعت نماز استخارہ پڑھتے بارگاہِ ربّ العزت میں سجدہ ریز ہوتے ا ور اس کے بعد ایک حدیث تحریر فرماتے۔ اس سخت ترین محنت اور دیدہ ریزی کے بعد سولہ سال کی طویل مدت میں یہ کتاب زیورِ تکمیل سے آراستہ ہوئی
اور ایک ایسی تصنیف عالمِ وجود میں آگئی جس کا یہ لقب قرار پایا:
’’ ا صح ا لکتب بعد کتا ب ا للہ‘‘ یعنی اﷲ تعالیٰ کی کتاب (قرآن مجید) کے بعد سب سے زیادہ صحیح کتاب ہے‘‘
۔ اُمّت کے ہزاروں محدثین نے سخت سے سخت کسوٹی پر کسا، پرکھا اور جانچا مگر جو لقب اس مقدس تصنیف کیلئے من جانب اﷲ مقدر ہو چکا تھا وہ پتھر کی کبھی نہ مٹنے والی لکیریں بن گیا۔
امام بخاری ؒ کی شرط کا بیان:
آپ ؒ وہی حدیث بیان کرتے تھے جس کو ثقہ نے ثقہ سے مشہور صحابی تک روایت کی ہو اور معتبر ثقات اس حدیث میں اختلاف نہ کرتے ہوں اور سلسلۂ اسناد متصل ہو۔ اگر صحابی سے دو شخص راوی ہوں تو بہتر ورنہ ایک معتبر راوی بھی کافی ہے۔امام مسلم ؒ نے امام بخاری ؒسے علم حدیث حاصل کیا اور فائدہ اٹھایا لیکن وہ امام بخاریؒ کے اکثر اساتذہ کے بھی شاگرد ہیں (یعنی دونوں نے ایک ہی ا ستادوں سے علم حا صل کیا) اور ان دونوں کی کتابیں قرآن مجید کے بعد تمام کتابوں سے زیادہ صحیح ہیں۔ علما کااس امر پر اتفاق ہے کہ صحیح بخاری صحت میں صحیح مسلم سے افضل ہے۔ بخاری شریف کے علاوہ بھی امام صاحب کی 22 اہم اور بلند پایہ تصانیف ہیں۔ آپ کی مجالسِ درس زیادہ تر بصرہ، بغداد اور بخارا میں رہیں، لیکن دنیا کا غالباً کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں امام بخاری ؒکے شاگرد سلسلہ بسلسلہ نہ پہنچے ہوں۔
طالب حق کو دنیا میں دو کتابیں ہی کافی ہیں !
ایک اﷲ تعالیٰ کی کتاب قرآنِ کریم جو سب کے نزدیک مشہور اور متواتر ہے، اور دو سری رسول اکرم ﷺ کی احادیث کی کتاب صحیح بخاری ہے اگرچہ احادیث رسول اﷲﷺ پر کتابیں اور بھی ہیں لیکن کوئی بھی ان میں سے صحیح بخاری کے ہم پلہ نہیں۔
اسی لئے علما نے صحیح بخاری کو ا صح الکتب بعد کتا ب ا للہ کہا ہے۔ لہٰذا طالب حق کو یہی دو کتابیں کافی ہیں۔ ’’ یعنی قرآن مجید اور صحیح بخاری‘‘
تدوینِ حدیث
تدوینِ حدیث (احادیث کوجمع کرنا) کی ابتدا خلفائے راشدین ہی سے ہوئی ہے۔ حضرت عمر فاروق ؓ کو اگر ذرا بھی شبہ ہو جاتا تو دلیل اور گواہ طلب کر لیتے تھے۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ کے بارے میں محدثین لکھتے ہیں کہ روایت میں انتہائی سختی برتتے تھے اور اگر کوئی شاگرد الفاظِ حدیث یاد کرنے میں کوتاہی کرتا تو ڈانٹتے تھے۔ تحقیق و تنقید کی بنیاد حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ نے ڈالی۔ تابعین ؒ نے اس کے اصول و ضوابط مرتب کئے اور تبع تابعین ؒ نے مستقل اور باضابطہ فن کی حیثیت دی ۔
بخاری شریف کو اگر اسلامی علوم کا ’’ انسا ئیکلوپیڈیا ‘‘ کہا جائے تو بالکل صحیح ہو گا۔
مستجاب الدعوات:
امام بخاری رحمتہ اﷲ علیہ مستجاب الدعوات تھے۔ انہوں نے اپنی کتاب کے قاری کیلئے بھی دعا کی ہے اور صدہا مشائخ نے اس کا تجربہ کیا ہے کہ ختم بخاری ہر نیک مطلب اور مقصد کیلئے مفید ہے۔
’’ اسلئے تکمیل بخاری کی مجالس میں شریک ہو کر اﷲ ربّ ا لعزّت سے دعائیں مانگنی چاہئیں ‘‘
وفات :
محمد بن ابی حاتم وراق ؒفرماتے ہیں میں نے غالب بن جبریل ؒسے سنا کہ امام بخاری ؒخرتنگ میں انہیں کے پاس تشریف فرما تھے۔ امام بخاری ؒچند روز وہاں رہے پھر بیمار ہوگئے۔ اس وقت ایک ایلچی آیا اور کہنے لگا کہ سمرقند کے لوگوں نے آپ ؒ کوبلایا ہے۔ امام بخاری ؒنے قبول فرمایا۔ موزے پہنے، عمامہ باندھا۔ بیس قدم گئے ہوں گے۔ کہ ا نہوں نے کہا مجھ کو چھوڑ دو ، مجھے ضعف ہو گیا ہے۔ ہم نے چھوڑ دیا۔ امام بخاریؒ نے کئی دعائیں پڑھیں پھر لیٹ گئے۔ آپؒ کے بدن سے بہت پسینہ نکلا۔ دس شوال 256ھ بعد نماز عشاء آپؒ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ اگلے روز جب آپؒ کے انتقال کی خبر سمرقند اور ا طراف میں مشہور ہوئی تو کہرام مچ گیا۔ پورا شہر ماتم کدہ بن گیا۔ جنازہ اٹھا تو شہر کا ہر شخص جنازہ کے ساتھ تھا۔ نماز ظہر کے بعد اس علم و عمل اور زہد و تقویٰ کے پیکر کو سپردِ خاک کر دیا گیا۔ جب قبر میں رکھا تو آپؒ کی قبر سے مشک کی طرح خوشبو پھوٹی اور بہت دنوں تک یہ خوشبو باقی رہی۔ (ابن ابی حاتم
ا نا للہ وا نا ا لیہ راجعون
’’ ہم تو خود اللہ تعالی کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں (2:156)
کل من علیھا فا ن ۔ و یبقیٰ و جہ ربک ذ و ا لجلا ل و ا لا کرام ۔
’’زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں۔ صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت و عزت والی ہے باقی رہ جائے گی ‘‘
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔