YOUR INFO

Thursday 14 March 2013

خاتون جنّت حضرت فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا

0 comments


خاتون جنّت حضرت فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا


فاطمہ نام۔ سرور کائنات کی چوتھی اور سب سے چھوٹی صاحبزادی تھیں۔ والدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا تھیں۔ سیّدۃ النساء العالمین، سیّدۃ النساء اہل الجنّۃ، زہرا، بتول، طاہرہ، مطہرہ، راضیہ، مرضیۃ اور زاکیہ ان کے مشہور القاب ہیں۔ 

حضرت فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا کے زمانہ ولادت کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں۔ ایک روایت کے مطابق ان کی ولادت بعثت نبوی سے پانچ سال قبل ہوئی جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 35 برس تھی۔ ایک اور روایت کے مطابق ان کی پیدائش بعثت سے ایک سال پہلے ہوئی۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ وہ سنہ 1 بعثت میں پیدا ہوئیں۔
بچپن ہی سے نہایت متین اور تنہائی پسند تھیں۔ نہ کبھی کسی کھیل کود میں حصہ لیا اور نہ گھر سے قدم باہر نکالا۔ ہمیشہ والدہ ماجدہ کے پاس بیٹھی رہتیں۔ ان سے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ایسے سوالات پوچھتیں جن سے انکی ذہانت کا ثبوت ملتا۔ دنیا کی نمودو نمائش سے سخت نفرت تھی۔ ایک دفعہ حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے کسی عزیز کی شادی تھی۔ انہوں نے حضرت فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا کیلئے عمدہ کپڑے اور زیورات بنوائے۔ جب گھر سے چلنے کا وقت آیا تو سیدۃ نے یہ قیمتی کپڑے اور زیور پہننے سے صاف انکار کر دیا اور سادہ حالت ہی میں محفل میں شرکت کی۔ گویا بچپن ہی سے ان کی حرکات و سکنات سے خدا دوستی اور استغنا کا اظہار ہوتا تھا۔ 
حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا، حضرت فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دیتی تھیں۔ ایک دفعہ جب وہ ان کو تعلیم دے رہی تھیں تو حضرت فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا نے پوچھا۔‘‘ اماں جان اللہ تعالیٰ کی قدرتیں تو ہم ہر وقت دیکھتے رہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ خود نظر نہیں آ سکتے؟‘‘
حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’ میری بچی اگر ہم دنیا میں اچھے کام کرینگے اور اللہ کے احکامات پر عمل کرینگے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے مستحق ہونگے اور یہی اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا۔‘‘
سنہ 10 بعثت میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی تو سیّدۃ پر کوہ غم ٹوٹ پڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدۃ کی تربیت اور نگہداشت کے خیال سے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک یکسر تبلیغ حق کیلئے وقف تھی لیکن جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرصت ملتی آپ حضرت فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لاتے اور انہیں دلاسا دیتے اور نہایت قیمتی پندونصائح سے نوازتے۔
تبلیغ حق کے جرم میں مشرکین، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی تکلیفیں پہنچاتے۔ کبھی سر اقدس میں خاک ڈال دیتے کبھی راستے میں کانٹے بچھا دیتے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لاتے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا انہیں تسلی دیا کرتیں۔ کبھی وہ خود بھی اپنے جلیل القدر باپ کی مصیبتوں پر اشکبار ہو جایا کرتیں، اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو تسلی دیتے اور فرماتے: ’’ میری بچی گھبراؤ نہیں اللہ تمہارے باپ کو تنہا نہ چھوڑے گا۔‘‘

ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں نماز ادا کر رہے تھے۔ کفّار کو شرارت سوجھی انہوں نے اونٹ کی اوجھڑی لا کر سجدہ کی حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک پر ڈال دی۔ اس شریر گروہ کا سرغنہ عقبہ بن ابی معیط تھا۔ کسی نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو آ کر بتایا کہ تمہارے باپ کے ساتھ شرہروں نے یہ حرکت کی ہے۔ بے چین ہو گئیں اور دوڑتی ہوئی کعبہ پہنچیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن سے اوجھڑی ہٹائی۔ کفّار ارد گرد کھڑے ہنستے اور تالیاں بجاتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی نے ایک نگاہ خشم آلود ان پر ڈالی اور فرمایا: ’’ شریرو، احکم الحاکمین تمہیں ان شرارتوں کی ضرور سزا دے گا۔‘‘ اللہ کی قدرت، چند سال بعد یہ سب جنگ بدر میں ذلت کے ساتھ مارے گئے۔
جب کفار مکہ کی شر انگیزی اور ایذارسانی حد سے بڑھ گئی تو بارگاہ الٰہی سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کا حکم ہوا۔ سنہ 13 بعد بعثت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات حضرت علی ابن طالب رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر مبارک پر سلا کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی معیت میں عازم مدینہ ہوئے۔
مدینہ پہنچنے کے کچھ دن بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل و عیال کو لانے کیلئے غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو مکہ بھیجا۔ ان دونوں حضرات کے ہمراہ حضرت حضرت فاطمہ، حضرت امّ کلثوم، حضرت سودہ بنت زمعہ، حضرت امّ یمن اور حضرت اسامہ بن زید نے مدینہ کی جانب ہجرت فرمائی۔ مدینہ پہنچ کر حضرت سودہ رضی اللہ عنہا اور بنات طاہرات رضی اللہ عنہما حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے نئے گھر میں قیام پذیر ہوئیں۔
ہجرت مدینہ کے وقت حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا سن بلوغت کو پہنچ چکی تھیں۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کیلئے پیغام بھیجا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے یا بعض روایتوں کے مطابق فرمایا:۔ ’’ جو اللہ کا حکم ہوگا۔‘‘ پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کیلئے پیغام بھیجا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی یہی جواب دیا۔ چند دن بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی نسبت شیر خدا حضرت علی ابن طالب رضی اللہ عنہ سے کردی۔ یہ نسبت کیسے قرار پائی اسکے متعلق تین مختلف روایات ہیں۔
پہلی روایت یہ ہے کہ ایک دن حضرات ابو بکر صدیق، عمر فاروق اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم نے باہم مشورہ کیا کہ فاطمہ الزہراء کیلئے کئی پیغام حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچے ہیں لیکن آپ نے کوئی بھی منظور نہیں فرمایا اب حضرت علی رضی اللہ عنہ باقی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار اور محبوب بھی ہیں اور عم زاد بھائی بھی، معلوم ہوتا ہے فقرو تنگدستی کی وجہ سے وہ فاطمہ کیلئے پیغام نہیں بھیجتے، کیوں نہ انہیں پیغام بھیجنے کی ترغیب دی جائے اور ضرورت ہو تو ان کی مدد بھی کی جائے۔ تینوں حضرات یہ مشورہ کر کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ڈھونڈنے نکلے وہ جنگل میں اپنا اونٹ چرا رہے تھے۔ انہوں نے پورے خلوص کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کیلئے پیغام بھیجنے کی ترغیب دی۔ انہیں اپنی بے سروسامانی کی وجہ سے پیغام بھیجنے میں تامّل ہوا مگر ان حضرات کے مجبور کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ اس سے پہلے دلی خواہش تو ان کی بھی یہی تھی لیکن فطری حیا پیغام بھیجنے میں مانع تھی۔ اب جراءت کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیج دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی استدعا فوراً قبول کرلی۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے اس کا ذکر کیا۔ انہوں نے بھی بزبان خاموشی اپنی رضامندی کا اظہار کر دیا۔ 
دوسری روایت یہ ہے کہ انصار کی ایک جماعت نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کیلئے پیغام بھیجنے کی ترغیب دی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حرف مدّعا زبان پر لائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً فرمایا ’’ اھلاً وَ مَرحَبَا‘‘ اور پھر خاموش ہو گئے۔ انصار کی جماعت باہر منتظر تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب سنایا تو انہوں نے حضرت علی کو مبارکباد دی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا پیغام قبول فرمالیا۔
تیسری روایت یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہا کی ایک آزادکردہ لونڈی نے ایک دن ان سے پوچھا: ’’ کیا فاطمہ کا پیغام کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا؟‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’ مجھے معلوم نہیں۔‘‘
اس نے کہا: ’’ آپ کیوں پیغام نہیں بھیجتے؟‘‘
حضرت علی مرتضیٰ نے فرمایا: ’’میرے پاس کیا چیز ہے کہ میں عقد کروں۔‘‘
اس نیک بخت نے مجبور کرکے جناب علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا کچھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جلالت اور کچھ فطری حیا کہ زبان سے کچھ کہہ نہ سکے اور سر جھکا کر خاموش بیٹھے رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی توجہ فرمائی اور پوچھا: ’’علی آج خلاف معمول بالکل ہی چپ چاپ ہو ، کیا فاطمہ سے نکاح کی درخواست لے کر آئے ہو؟‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: ’’ بیشک یا رسول اللہ!‘‘
حضور نے پوچھا: ’’تمہارے پاس مہر ادا کرنے کیلئے بھی کچھ ہے؟‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نفی میں جواب دیا۔
پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میں نے تمہیں جو زرہ دی تھی وہی مہر میں دے دو۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سر تسلیم خم کردیا۔
اسکے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ زرہ فروخت کر نے کیلئے بازار کی طرف روانہ ہوئے راستے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مل گئے۔ انہوں نے چار سو اسی درہم میں یہ زرہ خرید لی اور پھر یہی زرہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بطور ہدیہ واپس کردی۔ زرہ کی قیمت فروخت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ دو تہائی خوشبو وغیرہ پر خرچ کردو اور ایک تہائی سامان شادی اور دیگر اشیائے خانہ داری پر خرچ کرو۔
پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ جاؤ ابوبکر، عمر، عبدالرحمٰن بن عوف اور دیگر مہاجرین و انصار کو بلا لاؤ۔ جب سب دربار رسالت میں جمع ہو گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا: 
’’اے گروہ مہاجرین اور انصار ابھی جبرائیل علیہ السلام میرے پاس یہ اطلاع لے کر تشریف لائے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے بیت المعمور میں فاطمہ بنت محمّد کا نکاح اپنے بندہ خاص علی بن ابن طالب سے کردیا اور مجھے حکم ہوا ہے کہ عقد نکاح کی تجدید کرکے گواہان کے روبرو ایجاب و قبول کرواؤں۔‘‘
پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ نکاح پڑھا اور علی مرتضیٰ سے متبسّم ہو کر فرمایا: 
میں نے چارسو مثقال چاندی مہر پر فاطمہ کو تیرے نکاح میں دیا۔ کیا تجھے منظور ہے۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: ’’ بسروچشم‘‘
پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بدیں الفاظ دعا کی۔

’’جَمَعَ اللہُ شَمْلَکُمَا وَاَسْعَدَ جِدَّکُمَا وَبَارِکْ عَلَیْکُمَا وَاَخْرَجَ مِنْکُمَا ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً‘‘

( اللہ تم دونوں کی پراگندگی کو جمع کرے، تمہاری کوششوں کو سعید بنائے تم پر برکت نازل کرے اور تمہیں پاک اولاد دے)۔

پھر سب نے دعائے خیروبرکت مانگی اور حضور صلی للہ علیہ وسلم نے ایک طبق چھوارے حاضرین میں تقسیم فرمائے۔
زمانہ نکاح کے متعلق روایتوں میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک یہ مبارک نکاح صفر سنہ ۲ ہجری اور بعض کے نزدیک محرّم یا رجب سنہ ۲ ہجری میں ہوا۔ ایک اور روایت کے مطابق یہ نکاح شوّال سنہ ۳ ہجری میں ہوا۔ بعض مؤرّخین کا قول ہے کہ یہ نکاح جنگ اُحد کے بعد اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی کے ساڑھے چار ماہ بعد ہوا۔ بہرحال نکاح کے وقت اکثر اہل سیئر کے نزدیک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عمر تقریباً پندرہ برس کی تھی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عمر تقریباً ۲۱ برس کی تھی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سرور کائنات کے مکان سے کچھ فاصلے پر ایک مکان کرایہ پر لے لیا تھا۔ سیّدۃ النساء رضی اللہ عنہا رخصت ہو کر اس مکان کی ملکہ بنیں۔ رخصتی سے قبل حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا ، اپنے سینہ مبارک پر ان کا سر رکھا اور پیشانی پر بوسہ دیا پھر اپنی لخت جگر کا ہاتھ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دے کر فرمایا:
’’ اے علی! پیغمبر کی بیٹی تجھے مبارک ہو۔‘‘ اس کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے مخاطب ہو کر فرمایا:
’’اے فاطمہ تیرا شوہر بہت اچھا ہے۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں میاں بیوی کو فرائض و حقوق بتائے اور خود دروازے تک وداع کرنے آئے۔ دروازے پر علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے دونوں بازو پکڑ کر انہیں دعائے خیروبرکت دی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا دونوں اونٹ پر سوار ہوئے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اونٹ کی نکیل پکڑی۔ حضرت اسماء بنت عُمیس اور بعض روایتوں کے مطابق حضرت سلمیٰ امّ رافع یا امّ یمن ان کے ہمراہ گئیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر کو جو سامان جہیز میں دیا، اسکی تفصیل یہ ہے:
۱۔ ایک بستر مصری کپڑے کا جس میں اون بھری ہوئی تھی۔
۲۔ ایک نقشی پلنگ یا تخت
۳۔ ایک چمڑے کا تکیہ، جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔
۴۔ ایک مشکیزہ
۵۔ دو مٹی کے برتن (یا گھڑے) پانی کیلئے۔
۶۔ ایک چکّی
۷۔ ایک پیالہ
۸۔ دو چادریں
۹۔ دو بازو بند نقرئی
۱۰۔ ایک جائے نماز
شادی کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا کہ دعوت ولیمہ بھی ہونی چاہیئے، مہر ادا کرنے کے بعد جو رقم بچ گئی تھی حضرت علی رضی اللہ عنہا نے اسی سے ولیمہ کا انتطام کیا۔ دسترخوان پر پنیر، کھجور، نانِِ جو اور گوشت تھا۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ یہ اس زمانے کا بہترین ولیمہ تھا۔
جب حضرت فاطمۃ الزّہراء رضی اللہ عنہا اپنے نئے گھر چلی گئیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے۔ دروازے پر کھڑے ہو کر اجازت مانگی، پھر اندر داخل ہوئے۔ ایک برتن میں پانی منگوایا، انے دست مبارک اس میں ڈالے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سینے اور بازوؤں پر پانہ چھڑکا۔ پھرحضرت فاطمۃ الزّہراء رضی اللہ عنہا کو اپنے پاس بلایا، وہ شرم ع حیا سے جھجکتی ہوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئیں آپ نے ان پر بھی پانی چھڑکا اور فرمایا:
’’اے فاطمہ میں نے تمہاری شادی اپنے خاندان میں بہترین شخص سے کی ہے۔‘‘ 

حضرت فاطمۃ الزّہراء رضی اللہ عنہا کا گھر مسکن نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی قدر فاصلے پر تھا، آنے جانے میں تکلیف ہوتی تھی۔ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمۃ الزّہراء رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’ بیٹی مجھے اکثر تمہیں دیکھنے کیلئے آنا پڑتا ہے میں چاہتا ہوں تمہیں اپنے قریب بلا لوں۔‘‘
حضرت فاطمۃ الزّہراء رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: ’’ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب وجوار میں حارثہ بن نعمان کے بہت سے مکانات ہیں آپ ان سے فرمائیے وہ کوئی نہ کوئی مکان خالی کر دینگے۔‘‘
حارثہ بن نعمان ایک متموّل انصاری تھے اور کئی مکانات کے مالک تھے، جب سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینے تشریف لائے تھے وہ اپنے کئی مکانات یکے بعد دیگرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نذر کر چکے تھے۔ جب حضرت فاطمۃ الزّہراء رضی اللہ عنہا نے حارثہ رضی اللہ عنہ کے مکان کیلئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے التماس کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میری لخت جگر! حارثہ سے اب کوئی مکان مانگتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے کیونکہ وہ پہلے ہی اللہ اور اللہ کے رسول کی خوشنودی کیلئے کئی مکانات دے چکے ہیں۔‘‘
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا خاموش ہو گئیں۔
ہوتے ہوتے یہ خبر حضرت حارثہ بن نعمان تک پہنچی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمۃ الزّہراء رضی اللہ عنہا کو اپنے قریب بلانا چاہتے ہیں لیکن مکان نہیں مل رہا۔ وہ فوراً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ’’ یا رسول اللہ! آپ فاطمہ کو کسی قریبی مکان میں لانا چاہتے ہیں، یہ مکان جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متصّل ہے میں خٓلی کیے دیتا ہوں، آپ فاطمہ کو بلا لیجئے۔اے میرے آقا! میری جان و مال حضور پر قربان ہے۔ اللہ کی قسم جو چیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے لے لینگے مجھے اس کا حضور کے پاس رہنا زیادہ محبوب ہوگا بہ نسبت اسکے کہ میرے پاس رہے۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم سچ کہتے ہو اللہ تعالیٰ تمہیں خیروبرکت دے۔‘‘ اسکے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کے مکان میں منتقل کرالیا۔
حضرت فاطمۃ الزّہراء رضی اللہ عنہا رفتاروگفتار، عادات اور فضائل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بہترن نمونہ تھیں۔ وہ نہایت متّقی، صابر، قانع اور دیندار خاتون تھیں۔ گھر کا تمام کام کاج خود کرتی تھیں۔ چکی پیستے پیستے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے تھے لیکن ان کے ماتھے پر بل نہیں آتا تھا۔ گھر کے کاموں کے علاوہ عبادت بھی کثرت سے کرتی تھیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سلطان الفقراء تھے۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے بھی فقروفاقہ میں ان کا پورا پورا ساتھ دیا۔ جلیل القدر والد شہنشاہ عرب بلکہ شہنشاہ دو جہاں تھے لیکن داماد اور بیٹی پر کئی کئی وقت کے فاقے گزر جاتے تھے۔

ایک دن دونوں میاں بیوی آٹھ پہر سے بھوکے تھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کہیں سے مزدوری میں ایک درہم مل گیا۔ رات ہو چکی تھی ایک درہم کے جو کہیں سے خرید کر گھر پہنچے، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ہنسی خوشی اپنے نامدار خاوند کا استقبال کیا۔ جو ان سے لے کر چکی میں پیسے، روٹی پکائی اور علی مرتضی رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھ دی۔ جب وہ کھا چکے تو خود کھانے بیٹھیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس وقت سیّدالبشر کا یہ ارشاد یاد آیا کہ فاطمہ دنیا کی بہترین عورت ہے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب فتوحات اسلام روزبروز وسعت پذیر ہو رہی تھیں۔ مدینہ منوّرہ میں بکثرت مال غنیمت آنا شروع ہو گیا تھا۔ ایک دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ مال غنیمت میں کچھ لونڈیاں آئی ہیں۔ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا : ’’ فاطمہ چکی پیستے پیستے تمہارے ہاتھوں میں آبلے پڑ گئے ہیں اور چولھا پھونکتے پھونکتے تمہارے چہرے کا رنگ متغیّر ہو گیا ہے۔ آج حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مال غنیمت میں بہت سی لونڈیاں آئی ہیں جاؤ سرکار دوعالم سے ایک لونڈی مانگ لاؤ۔‘‘ 
حضرت فاطمۃ الزّہراء رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں لیکن شرم وحیا حرف مدّعا زبان پر لانے میں مانع ہوئی۔ تھوڑی دیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہ کر واپس آ گئیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کنیز مانگنے کا حوصلہ نہیں پڑتا۔ پھر دونوں میاں بیوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی تکالیف بیان کیں اور ایک لونڈی کیلئے درخواست کی۔ سرور کائنات نے فرمایا: ’’ میں تم کو کوئی قیدی خدمت کیلئے نہیں دے سکتا ابھی اصحاب صُفّہ کی خوردونوش کا تسلی بخش انتظام مجھے کرنا ہے، میں ان لوگوں کو کیسے بھول جاؤں جنہوں نے اپنا گھر بار چھوڑ کر اللہ اور اللہ کے رسول کی خوشنودی کی خاطر فقروفاقہ اختیار کیا ہے۔‘‘
دونوں میاں بیوی خاموشی سے گھر تشریف لے گئے۔ ابن سعد رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ رات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لیگئے اور فرمایا کہ تم جس چیز کے خواہش مند تھے اس سے بہتر ایک چیز تم کو بتاتا ہوں۔ ہر نماز کے بعد دس دس بار سبحان اللہ، الحمد للہ اور اللہ اکبر پڑھا کرو اور سوتے وقت سبحان اللہ، الحمدللہ 33 ،33 بار اور اللہ اکبر 34 بار پڑھ لیا کرو۔ یہ عمل تمہارے لئے بہترین خادم ثابت ہوگا۔ 
علامہ شبلی نعمانی نے اس واقعہ کا خوب نقشہ کھینچا ہے۔
افلاس سے تھا سیّدہ پاک کا یہ حال
گھر میں کوئی کنیز نہ کوئی غلام تھا
گھس گھس گئی تھیں ہاتھ کی دونوں ہتھیلیاں
چکّی کے پیسنے کا جو دن رات کام تھا
سینہ پہ مشک بھر کے جو لاتی تھیں بار بار
گو نور سے بھرا تھا مگر نیل فام تھا
اٹ جاتا تھا لباسِ مبارک غبار سے
جھاڑو کا مشغلہ بھی ہر صبح شام تھا
آخر گئیں جناب رسول خدا کے پاس
یہ بھی کچھ اتفاق وہاں اذن عام تھا
محرم نہ تھے جو لوگ تو کچھ کر سکیں نہ عرض
واپس گئیں کہ پاس حیا کا مقام تھا
پھر جب گئیں دوبارہ تو پوچھا حضور نے 
کل کس لئے تم آئیں تھیں کیا خاص کام تھا 
غیرت یہ تھی کہ اب بھی نہ کچھ منہ سے کہہ سکیں
حیدر نے ان کے منہ سے کہا جو پیام تھا

ارشاد یہ ہوا کہ غریبان ِ بے وطن
جن کا کہ صُفّہ نبوی میں قیام تھا
میں ان کے بندوبست سے فارغ نہیں ہنوز
ہر چند اس میں خاص مجھے اہتمام تھا
جو جو مصیبتیں کہ اب ان پر گزرتی ہیں
میں اس کا ذمہ دار ہوں میرا یہ کام تھا
کچھ تم سے بھی زیادہ مقدّم تھا ان کا حق
جن کو کہ بھوک پیاس سے سونا حرام تھا
خاموش ہو کہ سیّدہ پاک رہ گئیں
جرأت نہ کرسکیں کہ ادب کا مقام تھا
یوں کی بسر ہر اہل بیت مطہّر نے زندگی
یہ ماجرائے دخترِ خیر الانام تھا
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمۃ الزّہراء رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ سیّدہ النساء رضی اللہ عنہا اونٹ کی کھال کا لباس پہنے ہوئے ہیں اور اس میں بھی تیرہ پیوند لگے ہوئے ہیں۔ آٹا گوندھ رہی ہیں اور زبان پر کلام اللہ کا ورد جاری ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا: ’’ فاطمہ دنیا کی تکلیف کا صبر سے خاتمہ کر اور آخرت کی دائمی مسرت کا انتظار کر اللہ تمہیں نیک اجر دے گا۔‘‘
حضرت ابو ذر غِفاری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ علی رضی اللہ عنہ کو بلا لاؤ۔ جس وقت میں ان کے گھر گیا تو دیکھا کہ سیّدۃ النساء حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو گود میں لئے چکی پیس رہی ہیں۔ فی الحقیقت سیّدۃ کا اکثر یہ حال ہوتا تھا کہ دودو وقت کے فاقے سے ہوتے تھے اور بچوں کو گود میں لے کر چکی پیسا کرتی تھیں۔

ایک دفعہ حضرت فاطمۃ الزّہراء رضی اللہ عنہا مسجد نبوی میں تشریف لائیں اور روٹی کا ایک ٹکڑا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ’’ یہ کہاں سے آیا ہے؟‘‘ سیدۃ نے جواب دیا : ’’ ابا جان تھوڑے سے جو پیس کر روٹی پکائی تھی جب بچوں کو کھلا رہی تھی، خیال آیا کہ آپ کو بھی تھوڑی سی کھلا دوں۔ اے اللہ کے رسول برحق یہ روٹی تیسرے وقت نصیب ہوئی ہے۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے روٹی تناول فرمائی اور فرمایا: ’’ اے میری بچی چار وقت کے بعد یہ پہلا ٹکڑا ہے جو تیرے باپ کے منہ میں پہنچا ہے۔‘‘

ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے۔ دیکھا کہ دروازے پر ایک رنگین پردہ لٹکایا ہوا ہے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاتھ میں چاندی کے دو کنگن ہیں۔ آپ یہ دیکھ کر واپس لوٹ گئے۔ حضرت سیّدہ بہت دلگیر ہوئیں اور رونے لگیں۔ اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام رافع رضی اللہ عنہ پہنچ گئے۔ رونے کا سبب پوچھا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ماجرا سنایا تو بولے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پردے اور کنگن کو ناپسند فرمایا ہے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دونوں چیزوں کو فوراً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا اور کہلا بھیجا میں نے انہیں راہِ خدا میں دے دیا۔ 
حضور صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے ۔ اپنی بچی کے حق میں دعائے خیروبرکت مانگی اور ان اشیاء کو بیچ کر قیمت اصحابِ صُفّہ کے اخراجات میں صرف کردی۔
ایک دفعہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ گھر تشریف لائے۔ کچھ کھانے کو مانگا تو حضرت فاطمہ نے بتایا کہ آج تیسرا دن ہے، گھر میں جو کا ایک دانہ تک نہیں۔ جناب مرتضیٰ نے فرمایا: ’’اے فاطمہ مجھ سے تم نے ذکر کیوں نہیں کیا؟‘‘

سیّدۃالنساء نے جواب دیا:’’اے میرے سرتاج میرے باپ نے رخصتی کے وقت نصیحت کی تھی کہ میں کبھی سوال کرکے آپ کو شرمندہ نہ کروں۔‘‘
ایک دفعہ دوپہر کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھوکے گھر سے نکلے۔ راستے میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہم ملے، وہ بھی بھوکے تھے۔ تینوں حضرت ایّوب انصاری رضی اللہ عنہ کے کھجوروں کے باغ میں پہنچے۔ انہوں نے فوراً کھجوروں کا ایک خوشہ توڑ کر ان کے سامنے رکھا۔ پھر ایک بکری ذبح کرکے اسکے گوشت کے کباب بنوائے اور سالن بنوایا۔ دسترخوان بچھایا گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روٹی پر تھوڑا سا سالن رکھ کر فرمایا یہ فاطمہ کو بھجوا دو، انہیں کئی دن سے فاقہ ہے۔
ایک دفعہ قبیلہ بنو سُلیم کا ایک ضعیف آدمی مسلمان ہوا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دین کے ضروری احکام و مسائل بتائے اور پھر اس سےپوچھا کہ تیرے پاس کچھ مال بھی ہے؟
اس نے کہا: ’’ خدا کی قسم بنی سُلیم کے تین ہزار آدمیوں میں سے سب سے زیادہ غریب اور فقیر میں ہی ہوں۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کی طرف دیکھا اور فرمایا: ’’ تم میں سے کون اس مسکین کی مدد کرے گا؟‘‘
حضرت سعد بن عبادہ اٹھے اور کہا: ’’ یا رسول اللہ! میرے پاس ایک اونٹنی ہے جو میں اس کو دیتا ہوں۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ’’تم میں سے کون ہے جو اس کا سر ڈھانک دے۔‘‘
سیّدنا علی مرتضیٰ اٹھے اور اپنا عمامہ اتار کر اس اعرابی کے سر پر رکھ دیا۔
پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کون ہے جو اسکی خوراک کا بندوبست کرے۔‘‘
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اعرابی کو ساتھ لیا اور اسکی خوراک کا انتظام کرنے نکلے۔ چند گھروں سے دریافت کیا
لیکن وہاں سے کچھ نہ ملا۔ پھر حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پوچھا کون ہے؟ انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا اور التجا کی کہ اے اللہ کے سچے رسول کی بیٹی اس مسکین کی خوراک کا بندوبست کیجئے۔‘‘
سیّدۃ عالم نے آبدیدہ ہوکر فرمایا: ’’ اے سلمان اللہ کی قسم آج ہم سب کو تیسرا فاقہ ہے۔ دونوں بچے بھوکے سوئے ہیں لیکن سائل کو خالی ہاتھ نہ جانے دونگی۔ جاؤ میری یہ چادر شمعون یہودی کے پاس لے جاؤ اور کہو فاطمہ بنت محمّد کی یہ چادر رکھ لو اور اس غریب انسان کو تھوڑی سی جنس دے دو۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اعرابی کو ساتھ لے کر یہودی کے پاس پہنچے۔ اس سے تمام کیفیت بیان کی۔ وہ حیران رہ گیا اور پھر پکار اٹھا ’’ اے سلمان خدا کی قسم یہ وہی لوگ ہیں جن کی خبر توریت میں دی گئی ہے۔ گواہ رہنا کہ میں فاطمہ کے باپ پر ایمان لایا۔‘‘ اس کے بعد کچھ غلّہ حضرت سلمان کو دیا اور چادر بھی سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو واپس بھیج دی۔ وہ لے کر ان کے پاس پہنچے۔ سیّدہ نے اپنے ہاتھ سے اناج پیسا اور جلدی سے اعرابی کیلئے روٹی پکا کر حضرت سلمان کو دی۔ انہوں نے کہا: ’’ اس میں سے کچھ بچوں کیلئے رکھ لیجئے۔‘‘ جواب دیا: ’’سلمان جو چیز اللہ کی راہ میں دے چکی وہ میرے بچوں کیلئے جائز نہیں۔‘‘
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ روٹی لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ روٹی اعرابی کو دی اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے۔ ان کے سر پر اپنا دست شفقت پھیرا، آسمان کی طرف دیکھا اور دعا کی: 
’’ بارِ الٰہا فاطمہ تیری کنیز ہے، اس سے راضی رہنا۔‘‘
ایک دفعہ کسی نے سیّدہ سے پوچھا، چالیس اونٹوں کی زکوٰۃ کیا ہوگی۔ سیّدہ نے فرمایا ’’تمہارے لئے صرف ایک اونٹ اور اگر میرے پاس چالیس اونٹ ہوں تو میں سارے ہی خدا کی راہ میں دے دوں۔‘‘
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہا نے ساری رات ایک باغ سینچا اور اجرت میں تھوڑے سے جو حاصل کئے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ان کا ایک حصہ لے کر پیسا اور کھانا تیار کیا۔ عین کھانے کے وقت ایک مسکین نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا ’’ میں بھوکا ہوں‘‘۔ حضرت سیّدہ نے وہ سارا کھانا اسے دے دیا۔ پھر باقی اناج کا کچھ حصہ لے کر پیسا اور کھانا پکایا۔ ابھی کھانا پک کر تیار ہی ہوا تھا کہ ایک یتیم نے دروازہ پر آ کر دست سوال دراز کیا۔ وہ سب کھانا اسے دے دیا۔ پھر باقی اناج پیسا اور کھانا تیار کیا اتنے میں ایک مشرک قیدی نے اللہ کی راہ میں کھانا مانگا۔ وہ سب کھانا اس کو دے دیا گیا۔ غرض سب اہل خانہ نے اس دن فاقہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اس سارے گھر کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔

وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا 
ترجمہ: اور وہ اللہ کی راہ میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔ (سورۃ الدھر⁄ سورۃ الانسان: ۸)

غزوہ اُحد میں سرور دوعالم شدید زخمی ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر مشہور ہو گئی۔ مدینہ میں یہ خبر پہنچی تو حضرت فاطمہ الزّہراء رضی اللہ عنہا چند دوسری خواتین کے ہمراہ بادیدہ گریہ میدان اُحد میں پہنچیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ سلامت دیکھ کر جان میں جان آئی لیکن پدر محترم کو اس حالت میں دیکھ کر سخت غمزدہ ہوئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں کو بار بار دھوتی تھیں لیکن پیشانی کے زخم سے خون نہ تھمتا تھا۔ آخر کھجور کی چٹائی جلا کر راکھ زخم میں بھری جس سے خون تھم گیا۔
ایک دفعہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہو گئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک معمّر صحابی حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو ہمراہ لیا اور اپنی لخت جگر کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے۔ دروازے پر پہنچ کر داخلے کی اجازت مانگی۔ سیّدہ نے عرض کی: ’’ تشریف لایئے‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے ساتھ عمران بن حصین بھی ہیں۔‘‘ حضرت بتول رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: ’’ اباجان میرے پاس ایک عبا کے سوا دوسرا کوئی کپڑا نہیں کہ پردہ کر سکوں۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر اندر پھینک کر فرمایا:’’ بیٹی اس سے پردہ کرلو۔‘‘
اسکے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمران رضی اللہ عنہ اندر تشریف لے گئے اور سیّدہ سے ان کا حال پوچھا۔
فاطمہ الزہرا نے عرض کیا: ’’ اباجان شدّت درد سے بےچین ہوں اور بھوک نے نڈھال کر رکھا ہے کیونکہ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے میری بیٹی صبر کر۔ میں بھی آج تین دن سے بھوکا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگتا وہ ضرور مجھے عطا کرتا لیکن میں نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دی۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست شفقت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی پشت پر پھیرا اور فرمایا: ’’ اے لخت جگر دنیا کے مصائب سے دل شکستہ نہ ہو، تم جنّت کی عورتوں کی سردار ہو۔‘
فاطمہ الزہّرا اس فقروغنا کے ساتھ کمال درجہ کی عابدہ تھیں۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنی ماں کو شام سے صبح تک عبادت کرتے اور اللہ کے حضور گریہ وزاری کرتے دیکھا لیکن انہوں نے اپنی دعاؤں میں اپنے لئے کبھی کوئی درخواست نہ کی۔ ایک دفعہ سیّدہ علیل تھیں لیکن علالت میں بھی رات بھر عبادت میں مصروف رہیں۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ صبح کی نماز کیلئے مسجد گئے تو وہ نماز کیلئے کھڑی ہو گئیں۔ نماز سے فارغ ہو کر چکی پیسنے لگیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے واپس آکر انہیں چکی پیستے دیکھا تو فرمایا: ’’اے رسول خدا کی بیٹی اتنی مشقّت نہ اٹھایا کرو، تھوڑی دیر آرام کر لیا کرو کہیں زیادہ بیمار نہ ہو جاؤ۔‘‘

فرمانے لگیں: ’’ خدا کی عبادت اور آپ کی اطاعت مرض کا بہترین علاج ہے اگر ان میں سے کوئی موت کا باعث بن جائے تو اس سے بڑھ کر میری خوش نصیبی کیا ہوگی۔‘‘

ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ سے پوچھا: ’’ جان پدر! (مسلمان) عورت کے اوصاف کیاہیں؟‘‘
انہوں نے عرض کیا:
اباجان عورت کو چاہیئے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرے، اولاد پر شفقت کرے، اپنی نگاہ نیچی رکھے، اپنی زینت کو چھپائے، نہ خود غیر کو دیکھے نہ غیر اس کو دیکھ پائے۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ جواب سن کر بہت خوش ہوئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بے پناہ محبت فرماتے تھے۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے غورا بنت ابی جہل سے نکاح کا ارادہ کیا۔ سیّدہ النساء سخت آرزدہ ہوئیں۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے تو سیّدہ نے عرض کیا: ’’ یا رسول اللہ ! علی مجھ پر سوت (سوکن) لانا چاہتے ہیں۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر سخت چوٹ لگی۔ ادھر غورا کے سرپرست بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نکاح کی اجازت لینے آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور منبر پر چڑھ کر فرمایا: ’’آل ہشام علی سے اپنی لڑکی کا عقد کرنے کیلئے مجھ سے اجازت چاہتے ہیں لیکن میں اجازت نہ دوں گا۔ البتہ علی میری لڑکی کو طلاق دے کر دوسری لڑکی سے شادی کر سکتے ہیں۔ فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے جس نے اس کو اذیت دی، اس نے مجھے اذیت دی، جس نے اس کو دکھ پہنچایا اس نے مجھے دکھ پہنچایا، میں حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن اللہ کی قسم اللہ کے رسول کی بیٹی اور دشمن خدا کی بیٹی دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔‘‘
اس کا یہ اثر ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارادہ نکاح فوراً ترک کر دیا اور سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی تک پھر دوسرے نکاح کا خیال تک دل میں نہ لائے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسی محبت اپنی بیٹی سے تھی ویسے ہی اپنے داماد اور نواسوں سے بھی بےحد پیار تھا۔ ان سے فرمایا کرتے: ’’جن لوگوں سے تم ناراض ہونگے میں بھی ان سے ناخوش ہوں گا، جن سے تمہاری لڑائی ہے ان سے میری بھی لڑائی ہے، جن سے تمہاری صلح ہے ان سے میری بھی صلح ہے۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کرتے:’’اے علی تم دنیا میں اور آخرت میں میرے بھائی ہو۔‘‘
فاطمۃ الزّہرا کے فرزندوں سیّدنا حسن اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے جگر کے ٹکڑے سمجھتے تھے،نہایت محبت سے ان کو بوسے دیتے اور اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتے تھے۔

وصال نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ دن پہلے حضرت فاطمہ الزّہرا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خبرگیری کیلئے حضرت عائشہ صدیقہ کے حجرے میں تشریف لائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت شفقت سے انہیں اپنے پاس بٹھا لیا اور ان کے کان میں کوئی بات آہستہ سے کہی جسے سن کر وہ رونے لگیں، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی اور بات ان کے کان میں کہی جسے سن کر وہ ہنسنے لگیں۔ جب چلنے لگیں تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا ’’اے فاطمہ تیرے رونے اور ہنسنے میں کیا بھید تھا۔‘‘ سیّدۃ نے فرمایا جو بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اخفا رکھی ہے وہ میں ظاہر نہ کرونگی۔‘‘
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد ایک دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور بعض روایتوں کے مطابق حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے اس دن کے واقعہ کی تفصیل پوچھی۔ حضرت فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا نے فرمایا:’’ پہلی دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کے پہلے جبرائیل امین علیہ السلام سال میں ہمیشہ ایک بار قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے، اس سال خلاف معمول دوبار کیا ہے اس سے قیاس ہوتا ہے کہ میری وفات کا وقت قریب آ گیا ہے۔‘‘ اس پر میں رونے لگی۔
پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:’’ تم اہل بیت میں سے سب سے پہلے مجھے ملوگی اور تم جنّت کی عورتوں کی سردار ہوگی۔‘‘ اس بات سے مجھے خوشی ہوئی اور میں ہنسنے لگی۔ 
رحلت سے قبل جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بار بار غشی طاری ہوئی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ فرمایا ’’وَاَکَرْبُ اَبَاہُ‘‘ ہائے میرے باپ کی بے چینی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہارا باپ آج کے بعد بےچین نہیں ہوگا۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے حضرت فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا پر غم و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ انہوں نے بے اختیار ہو کر فرمایا: ’’ پیارے باپ نے دعوت حق کو قبول کیا اور فردوس بریں میں داخل ہوئے۔ آہ جبرائیل کو ان کے انتقال کی خبر کون پہنچا سکتا ہے۔‘‘
پھر دعا مانگی: ’’ بارالٰہا روح فاطمہ کو روح محمّد کے پاس پہنچا دے۔ خدایا مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے مسرور کردے۔ الٰہی بروز محشر شفاعت محمّد سے محروم نہ فرما۔‘‘
بعض روایتوں میں ان سے ایک مرثیہ بھی منسوب ہے جو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر کہا۔ اس مرثیہ میں وہ کہتی ہیں:
’’آسمان غبار آلود ہو گیا۔ آفتاب لپیٹ دیا گیا۔ دنیا میں تاریکی ہو گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زمین نہ صرف غمگین ہے بلکہ فرط الم سے شق ہو گئی ہے۔ ان پر قبیلہ مضر کے لوگ اور تمام اہل یمن روتے ہیں۔ بڑے بڑے پہاڑ اور محلاّت روتے ہیں۔ اے خاتم رسل، خدا آپ پر رحمت نازل فرمائے۔ 

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیزوتکفین کے بعد صحابیات اور صحابہ کرام تعزیت کیلئے ان کے پاس آتے تھے لیکن ان کو کسی پہلو قرار نہ آتا تھا۔ تمام کرب سیئر متفق ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد کسی نے حضرت فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضور کی میراث کا مسئلہ پیش ہوا۔ فَدَک ایک موضع تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض لوگوں کو اس شرط پر دے رکھا تھا کہ جو پیداوار ہو نصف وہ رکھیں اور نصف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج دیا کریں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حصے میں سے کچھ اپنے اہل وعیال کے خرچ کیلئے رکھ لیتے اور باقی مسافروں اور مساکین پر صرف کر دیتے تھے۔ حضرت فاطمہ الزّہرا کو بعض لوگوں نے بتایا کہ فَدَک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی مِلک تھا اور آپ اسکی وارث ہیں چانچہ انہوں نے خیلفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس فَدَک کی وراثت کا دعویٰ کیا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’اے فاطمہ میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزّہ کو اپنے اعزّہ سے زیادہ عزیز رکھتا ہوں لیکن مشکل یہ ہے کہ انبیائے کرام جو متروکہ چھوڑتے ہیں وہ کُل کا کُل کا صدقہ ہوتا ہے اور اس میں وراثت جاری نہیں ہوتی۔ اسلئے میں اس جائداد کو تقسیم نہیں کرسکتا البتہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات اقدس میں اہل بیت اس سے جو استفادہ کرتے تھے وہ اب بھی کر سکتے ہیں۔‘‘
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس جواب سے بہت رنج پہنچا اور وہ حضرت ابوبکر صدیق سے ناراض ہو گئیں اور اپنی وفات تک ان سے نہ بولیں۔
ایک روایت میں ہے کہ وہ بیمار ہوئیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ عیادت کیلئے تشریف لے گئے تو سیّدہ نے انہیں اپنے مکان کے اندر آنے کی اجازت دے دی اور اپنی رنجش دور کردی۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کا سب سے زیادہ صدمہ سیّدہ فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا کو ہوا اور وہ ہر وقت غمگین اور دل گرفتہ رہنے لگیں۔ ان کا دل ٹوٹ چکا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے چھہ ماہ بعد ہی 3 رمضان المبارک سنہ 11 ہجری کو 29 سال کی عمر میں عازم فردوس بریں ہوئیں۔وفات سے پہلے حضرت اسماء بنت عُمیس رضی اللہ عنہا کو بلا کر فرمایا: میرا جنازہ لے جاتے وقت اور تدفین کے وقت پردہ کا پورا لحاظ رکھنا اور سوائے اپنے اور میرے شوہر نامدار کے اور کسی سے میرے غسل میں مدد نہ لینا۔ تدفین کے وقت زیادہ ہجوم نہ ہونے دینا۔‘‘
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: ’’اے بنت رسول! میں نے حبش میں دیکھا ہے کہ جنازے پر درخت کی شاخیں باندھ کر ایک ڈولے کی صورت بنا لیتے ہیں اور اس پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔‘‘
پھر انہوں نے کھجور کی چند شاخیں منگوائیں اور انہیں جوڑ کر اور پھر ان پر کپڑا باندھ کر سیّدہ بتول رضی اللہ عنہا کو دکھایا۔ انہوں نے پسند فرمایا۔ چانچہ وفات کے بعد ان کا جنازہ اسی طرح اسی طریقہ سے اٹھا اور جنازے میں بہت کم لوگوں کو شرکت کا موقع ملا کیونکہ سیّدہ کی وفات رات کے وقت ہوئی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وصیت کے مطابق رات ہی کو دفن کیا۔ نماز جنازہ حضرت عباس رضی اللہ عنہا نے پڑھائی اور حضرت علی ، حضرت عباس اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہم نے قبر میں اتارا۔ دار عقیل کے ایک گوشے میں مدفون ہوئیں۔ 

سیّدۃ النساء فاطمۃ الزّہرا رضی اللہ عنہا کی چھہ اولادیں ہوئیں۔ حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت محسن رضی اللہ عنہم اور حضرت امّ کلثوم، حضرت زینب، اور رقیّہ رضی اللہ عنہما۔ محسن اور رقیّہ نے بچپن ہی میں انتقال کیا۔ حضرت سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ، حضرت سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ، حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور حضرت امّ کلثوم رضی اللہ عنہا تاریخ اسلام کی نامور شخصیات ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل فاطمہ الزّہرا ہی سے باقی رہی۔
اہل سیئر نے حضرت فاطمہ الزّہرا کے بے شمار فضائل و مناقب بیان کیے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔
سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جنّت کی عورتوں کی سردار فرمایا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کرتے ’’اے فاطمہ تم اور تمہارا خاوند اور تمہاری اولاد میرے ساتھ جنّت میں سب ایک جگہ ہونگے۔‘‘
ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’فاطمہ میرا پارہ گوشت ہے جس نے اس کو غصّہ دلایا اور ناراض کیا اس نے مجھے غصّہ دلایا اور ناراض کیا۔‘‘
حضرت فاطمہ الزّہرا، ان کے شوہر نامدار اور فرزندوں کی شان میں اللہ تعالیٰ نے آیت تطہیر نازل کی۔
حضرت فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا سے کُتُب احادیث میں اٹھارہ حدیثیں مروی ہیں۔ ان کے راوی حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت حسن، حضرت حسین رضی اللہ عنہم، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت امّ سلمہ رضی اللہ عنہا جیسی جلیل القدر ہستیاں شامل ہیں۔
علاّمہ اقبال رحمہ اللہ نے حضرت فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔

مزرعِ تسلیم را حاصل بتول
مادراں را اسوہ کامل بتول
بہر محتاجے دِلَش آن گونہ سوخت
با یہودے چادرِ خودرا فروخت
نوری وہم آتشی فرمانبرش
گم رضائش درضائے شوہرش
آں ادب پروردہ صبرورضا
آسیا گردان و لب قرآں سرا
گریہ ہائے اوزِبالیں بے نیاز
گوہر افشاندے بدامانِ نماز

رضی اللہ تعالیٰ عنہا
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حالات زندگی میں بہت ساری ایسی باتیں مجھے قابل توجہ لگیں، جو ہماری روزمرّہ کی زندگی میں واقع ہوتی ہیں لیکن ہم ان کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے یا اگر دیتے بھی ہیں تو بعد میں نظر انداز کر دیتے ہیں حالانکہ اگر ہم ان پر عمل کریں تو زندگی بہت آسان اور پرسکون ہو سکتی ہے۔ میں ان باتوں کو آپ سے شیئر کر رہی ہوں آپ کو بھی جو باتیں اچھی لگیں یہاں شیئر کر سکتی⁄ سکتے ہیں۔

(۱) سب سے پہلے مجھے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی نکاح کےمعاملے میں فطری حیا کا مظاہرہ پسند آیا۔ جس سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے بزرگوں اور قابل احترام ہستیوں کے سامنے حیا کا پاس رکھنا چاہیئے۔ نہ صرف نکاح کے معاملے میں بلکہ ہر بات کے معاملے میں ادب احترام اور حیا کا خیال رکھنا چاہیئے۔ جب مردوں کی حیا کا یہ عالم ہے تو عورتوں میں کتنی حیا ہونی چاہیئے یہ ہمیں خود سوچنا چاہیئے۔

(۲) نکاح کے انتظامات کیلئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زرہ فروخت کی گئی جس سے گھر کا سامان اور دلہن کی تیاری کیلئے خوشبو وغیرہ خریدی گئی۔ حتّیٰ کے ولیمہ کے کھانے کا بھی اسی زرہ کی فروخت سے بچ جانے والی رقم سے انتظام کیا گیا۔
ہمارے ہاں جہیز فاطمی کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کو جہیز دیا تھا اور یہ یہ اشیاء اس میں شامل تھیں، یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ جہیز نام کی تو کوئی چیز ہوتی ہی نہیں۔ سارا انتظام لڑکے کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دولھا لاکھوں روپے سامان اور ولیمہ کے کھانے پر خرچ کردے۔ اگر نکاح اتنا ہی سادہ ہو تو کتنے مسائل حل ہو جائیں۔ انشاء اللہ۔

(۳) کچھ لوگوں کو یہ اعتراض ہوتا ہے کہ بیٹیوں کو شادی کے بعد گھر کے قریب نہیں رہنا چاہئیے اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں ہمیں اسکی مثال ملتی ہے کہ بیٹیاں بھی گھر کے قریب رہ سکتی ہیں۔ لیکن رہنا اسی طرح ہو جیسے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رہتی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی کو اپنے گھر کے قریب بلانے کیلئے کتنے فکرمند تھے۔

(۴) گھر کے حالات اچھے ہوں یا برے، شوہر کی آمدنی کم ہو یا زیادہ، ہر حال میں خوش اور اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہونا چاہیئے۔ دنیا کی مشکلات پر صبر کیا تو آخرت میں اس کا اجر ضرور ملے گا انشاءاللہ۔
(۵) گھر کے کام کاج کو پوری توجہ اور خوش دلی سے انجام دینا چاہیئے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاتھوں میں چکّی پیستے پیستے چھالے پڑ گئے تھے جبکہ ہمارے گھروں میں ہر طرح کی مشینیں ہوتی ہیں اور ملازمائیں بھی، تب بھی ہمارا موڈ اکثر خراب ہوتا ہے اور سستی بھی طاری رہتی ہے۔ ہمیں ہر وقت صحابیات کے طرز زندگی اور انکے روزمرّہ کے معمولات کو ذہن میں رکھنا چاہئیے۔

(۶) گھر کے کام کاج کرتے ہوئے ذکر اللہ کرتے رہنا چاہیئے۔ اللہ کو ہر وقت یاد رکھنا چاہیئے۔

(۷) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس صرف چاندی کے دو کنگن تھے جنہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا، اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں فوراً اللہ کی راہ میں دے دیا۔ ہمارے پاس کئی کئی تولے سونا ہوتا ہے جو ہم نسل در نسل اپنی اولادوں کیلئے سنبھال کر رکھتے ہیں اور کبھی کبھی فخر بھی جتاتے ہیں کہ یہ ہماری نانی دادی کے زمانے کا زیور ہے یا خاندانی زیور ہے۔ کبھی کبھار زکوٰۃ کی ادائیگی بھی ذہن سے محو ہو جاتی ہے۔ پھر ان زیورات کو سنبھالنا، اگر گھر میں ہوں تو انکی حفاطت کی فکر وغیرہ بھی ایک سردرد سے کم نہیں۔ 
ہم اسے اللہ کی راہ میں تو کیا دینگے کبھی یہ بھی نہیں سوچتے کہ اسکا فائدہ کیا ہے اور آخرت میں ہمیں اس کا کیا اجر ملے گا، بس مزید کی حرص ہی رکھتے ہیں۔ 

(۸) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا یہ جواب:

’’ اے میرے سرتاج میرے باپ نے رخصتی کے وقت نصیحت کی تھی کہ میں کبھی سوال کرکے آپ کو شرمندہ نہ کروں۔‘‘

ہم سب اپنے طرز عمل کا جائزہ لیں کہ ہمیں اپنے شوہروں سے کتنی شکایات رہتی ہیں،ان کو ہر وقت کچھ نہ کچھ جلی کٹی سنا کر شرمندہ کرتی ہیں۔ کچھ عورتیں تو اپنے پڑوسیوں، سہیلیوں اور رشتہ دار خواتین سے بھی شوہروں کی شکایت کرتی ہیں اور گھر میں جو چیز موجود نہیں اس کا رونا روتی رہتی ہیں۔ 
اسی طرح اللہ کی عبادت اور شوہر کی اطاعت کا بہترین سبق حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دیا وہ بھی قابل غور ہے۔ کہ اللہ کی عبادت میں اگر موت آجائے تو نور’‘ علیٰ نور۔ لیکن اگر شوہر کی اطاعت میں بھی موت آجائے تو انتہائی خوش نصیبی کی بات ہے۔

(۹) حضرت فاطمہ رضی اللہ نے مسلمان عورت کے جو اوصاف بتائے ہیں وہ ہم سب خواتین کیلئے مشعل راہ ہیں۔ کوشش کرکے یہ پاکیزہ اوصاف ہمیں اپنی زندگی میں شامل کرنے چاہئیں۔ یعنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت، پردہ اور شرم وحیا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی وصیّت تک میں یہی فرمایا کہ میری تدفین کے وقت بھی پردہ کا لحاظ رکھنا اور ہجوم نہ ہونے دینا۔ اور اللہ نے بھی ان کا ساتھ اس طرح دیا کہ انکی وفات رات کے وقت ہوئی اور تدفین بھی رات میں ہوئی جس کی وجہ سے کم لوگوں ہی کو تدفین میں شامل ہونے کا موقع ملا۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے اور ہم سب بہنوں کو صحابیات کے طرز عمل پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں نیک اعمال کرنے کی ہمّت اور صلاحیّت عطا فرمائے۔آمین۔ یا ربّ العالمین۔


0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔