صحابہ کے مراتب و درجات
انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد فضیلت و مراتب کے لحاظ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم ہی کا درجہ و مرتبہ ہے۔
اور تمام اہل السنۃ و الجماعۃ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) عادل ہیں یعنی "الصحابہ کلھم عدول" !
صفتِ عدالت میں یکساں ہونے کے باوجود صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے مابین فرقِ مراتب ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اس کی پوری تفصیل عقائد اور علم الکلام کی کتابوں میں دلائل کے ساتھ موجود ہے۔
عام مسلمانوں کو مختصراً اتنا ضرور علم ہونا چاہئے کہ ۔۔۔
امتِ مسلمہ میں صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کا درجہ و مرتبہ اس قدر اعلیٰ و ارفع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردار فرمایا ہے کہ تم میں سے کسی اعلیٰ ترین فرد کی بڑی سے بڑی نیکی صحابی کی ادنیٰ ترین نیکی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
صحیح مسلم میں بیان ہوا ہے کہ ۔۔۔
حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) اور عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) میں کچھ جھگڑا ہوا تو خالد بن ولید نے عبدالرحمٰن بن عوف کو کچھ برا کہا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تب فرمایا :
صحیح مسلم ، آن لان ربط
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی صحابی ہیں۔ اور ان کا درجہ بھی ایسا اعلیٰ درجہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا تھا :
صحیح بخاری ، آن لان ربط
"اللہ کی تلوار" جیسا عظیم الشان لقب ، سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زبانِ اقدس سے حضرت خالد (رضی اللہ عنہ) کو ملا ہے۔ اس کے باوجود ۔۔۔ اپنی تمام تر خدمات کے باوصف حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) ، عشرہ مبشرہ میں شامل صحابی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) کے مقام و مرتبہ کو نہیں پہنچ سکے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) کو سخت سست کہنے سے خبردار فرمایا۔
تو سوچا جانا چاہئے کہ کسی غیر صحابی کا صحابی کو سب و شتم کرنا یا ان کے بارے میں ناگفتنی باتیں کرنا کیونکر روا ہو سکتا ہے؟ اور نازیبا باتیں کرنے والے کو صحابی کے درجہ و مرتبہ تک کیوں کر رسائی حاصل ہو سکتی ہے؟؟
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔۔۔
ابن ماجہ : آن لائن ربط
اسی طرح حضرت سعید بن زید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔۔۔
اور تمام اہل السنۃ و الجماعۃ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) عادل ہیں یعنی "الصحابہ کلھم عدول" !
صفتِ عدالت میں یکساں ہونے کے باوجود صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے مابین فرقِ مراتب ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اس کی پوری تفصیل عقائد اور علم الکلام کی کتابوں میں دلائل کے ساتھ موجود ہے۔
عام مسلمانوں کو مختصراً اتنا ضرور علم ہونا چاہئے کہ ۔۔۔
- فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہونے والے فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والوں سے افضل ہیں
- فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہونے والوں میں وہ صحابہ افضل ہیں جو صلح حدیبیہ میں شریک ہوئے
- صلح حدیبیہ کے شرکاء میں سے وہ صحابہ افضل ہیں جو غزوہ بدر میں شریک ہوئے
- غزوہ بدر والوں میں سے افضل حضراتِ عشرہ مبشرہ ہیں
- اور عشرہ مبشرہ میں سے خلفائے راشدین افضل ہیں
- اور خلفائے راشدین میں سے افضل شخصیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ہے۔
امتِ مسلمہ میں صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کا درجہ و مرتبہ اس قدر اعلیٰ و ارفع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردار فرمایا ہے کہ تم میں سے کسی اعلیٰ ترین فرد کی بڑی سے بڑی نیکی صحابی کی ادنیٰ ترین نیکی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
صحیح مسلم میں بیان ہوا ہے کہ ۔۔۔
حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) اور عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) میں کچھ جھگڑا ہوا تو خالد بن ولید نے عبدالرحمٰن بن عوف کو کچھ برا کہا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تب فرمایا :
لَا تَسُبُّوا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِي ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَوْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ
میرے اصحاب میں سے کسی کو برا مت کہو ، اس لیے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا صرف کرے تو ان کے (خرچ کردہ) ایک مد یا آدھے مد کے برابر نہیں ہو سکتا۔صحیح مسلم ، آن لان ربط
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی صحابی ہیں۔ اور ان کا درجہ بھی ایسا اعلیٰ درجہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا تھا :
سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ
اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہےصحیح بخاری ، آن لان ربط
"اللہ کی تلوار" جیسا عظیم الشان لقب ، سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زبانِ اقدس سے حضرت خالد (رضی اللہ عنہ) کو ملا ہے۔ اس کے باوجود ۔۔۔ اپنی تمام تر خدمات کے باوصف حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) ، عشرہ مبشرہ میں شامل صحابی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) کے مقام و مرتبہ کو نہیں پہنچ سکے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) کو سخت سست کہنے سے خبردار فرمایا۔
تو سوچا جانا چاہئے کہ کسی غیر صحابی کا صحابی کو سب و شتم کرنا یا ان کے بارے میں ناگفتنی باتیں کرنا کیونکر روا ہو سکتا ہے؟ اور نازیبا باتیں کرنے والے کو صحابی کے درجہ و مرتبہ تک کیوں کر رسائی حاصل ہو سکتی ہے؟؟
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔۔۔
لَا تَسُبُّوا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمُقَامُ أَحَدِهِمْ سَاعَةً خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمْرَهُ
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو برا نہ کہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی ایک گھڑی تمہاری زندگی بھر کے اعمال سے بہتر ہے۔ابن ماجہ : آن لائن ربط
اسی طرح حضرت سعید بن زید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔۔۔
لَمَشْهَدُ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْبَرُّ فِيهِ وَجْهُهُ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمُرَهُ وَلَوْ عُمِّرَ عُمُرَ نُوحٍ .
کسی صحابی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کرنا ، جس میں اس کا چہرہ خاک آلود ہو گیا ہو ، تمہاری زندگی بھر کے اعمال سے افضل ہے اگرچہ عمرِ نوح بھی دے دی جائے۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔