بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
دنیا کا ہر مذہب اور تہذیب اس بات پر متفق ہے کہ والدین کے ساتھ حُسن سلوک کرنا چاہئے ان کا ادب واحترام ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے اس بارے میں اللہ رب العزت نے ہمیں اپنی آخری کتاب میں اس بات کی تعلیم اس ڈھنگ سے بیان فرمائی ہے جو اہم ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ایک انفرادی اسلوب کی حامل ہے مثال کے طور پر جب کبھی اللہ رب العزت نے اپنی اطاعت وبرمانبرداری کی طرف توجہ دلانا چاہا ہے تو اُس کے فورا بعد والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری کی تعلیم دی ہے۔۔۔ جیسا کہ اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے کہ۔۔۔
وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ
اور ہم نے انسان کو جسے اُس کی ماں تکلیف پر تکلیف سہہ کر پیٹ میں اُٹھائے رکھتی ہے (پھر اس کو دودھ پلاتی ہے) اور( آخرکار) دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہوتا ہے (اپنے نیز) اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے کہ میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی (کہ تم کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے (لقمان ـ١٤)ــــ
یار رکھیئے کہ جس طرح سے اللہ کے حقوق ہم پر فرض ہیں بالکل اسی طرح انسانوں کے حقوق بھی ہم پر فرض ہیں اور اتنے ہی اہم ہیں انسانوں میں والدین کے حقوق سب سے بڑھ کر ہیں
وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَنَتَجاوَزُ عَن سَيِّئَاتِهِمْ فِي أَصْحَابِ الْجَنَّةِ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا۔ اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے پیٹ میں رکھا اور تکلیف ہی سے جنا۔ اور اس کا پیٹ میں رہنا اور دودھ چھوڑنا ڈھائی برس میں ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جب خوب جوان ہوتا ہے اور چالیس برس کو پہنچ جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار مجھے توفیق دے کہ تو نے جو احسان مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کئے ہیں ان کا شکر گزار ہوں اور یہ کہ نیک عمل کروں جن کو تو پسند کرے۔ اور میرے لئے میری اولاد میں صلاح (وتقویٰ) دے۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں فرمانبرداروں میں ہوں یہی لوگ ہیں جن کے اعمال نیک ہم قبول کریں گے اور ان کے گناہوں سے درگزر فرمائیں گے اور (یہی) اہل جنت میں (ہوں گے)۔ (یہ) سچا وعدہ (ہے) جو ان سے کیا جاتا ہے (الاحقاف١٥ـ١٦)ـــ
والدین سے نافرمانی کرنے والوں کیلئے گھاٹا ہی گھاٹا ہےـــ ارشاد ربانی ہے کہ!ـ
وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَّكُمَا أَتَعِدَانِنِي أَنْ أُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتْ الْقُرُونُ مِن قَبْلِي وَهُمَا يَسْتَغِيثَانِ اللَّهَ وَيْلَكَ آمِنْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَيَقُولُ مَا هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ
اور جس شخص نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ اُف اُف! تم مجھے یہ بتاتے ہو کہ میں (زمین سے) نکالا جاؤں گا حالانکہ بہت سے لوگ مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں۔ اور وہ دونوں اللہ کی جناب میں فریاد کرتے (ہوئے کہتے) تھے کہ کم بخت ایمان لا۔ اللہ کا وعدہ تو سچا ہے۔ تو کہنے لگا یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں جنوں اور انسانوں کی (دوسری) اُمتوں میں سے جو ان سے پہلے گزر چکیں عذاب کا وعدہ متحقق ہوگیا۔ بےشک وہ نقصان اٹھانے والے تھے (الاحقاف ١٧ـ١٨)ـــ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کہا کہ!ـ
صل امک ثم امك ثم امك ثم اباك ثم ادناك فادناك
تم اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو تم اپنی ماں کے ساتھ نیک سلوک کرو تم اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو پھر تم اپنے باپ کے ساتھ صلہ رحمی کرو، پھر تم اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو پھر اسکے بعد دور کے رشتداروں کے ساتھ کرو (مظہری)ـ
ماں کے ساتھ اس طرح کے خاص سلوک اور صلہ رحمی کا حکم اللہ تعالٰی نے کئی وجوہات کی بناء پردیا ہےـ
١ـ بچے کو اپنے پیٹ میں رکھنے کی تکلف اور پیدائش کے وقت کی تکلیف سہنے کی وجہ سےـ
٢ـ بچہ پیدا ہونے سے پہلے اور بچہ ہونے کے بعد بچے کی پرورش اور نشونما کے لئے اسکے بدن سے بچے کو غذا دی جاتی ہےـ
٣ـ ہر وقت بچے کو اپنے کاندھوں پر لادے رہنا اور دن رات اسکی ضرورتوں کے پیچھے لگے رہناـ
٤ـ ماں بچوں کو سکھاتی ہے اور انہیں تربیت دیتی ہے نفسیات کے ماہرین کاکہنا ہے کہ بچیں کی تعلیم وتربیت کا اثر بچے کی آگے کی زندگی پر پڑتا ہے دنیا کی تمام عظیم شخصیتیں اپنی عظیم ماوں کی وجہ سے عظیم کہلائیں ـــ
واضح ہے کہ ماں کے احسانات بہت زیادہ ہیں اسی لئے اللہ تعالٰی نے اسکے حقوق کو اتنی اہمیت دی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ کئی مائیں اللہ تعالٰی کی دی ہوئی فوقیت اور اہمیت کا غلط استعمال کرتی ہیں بہت ساری مائیں بچوں کو اپنے قبضے میں لے لیتی ہیں اور باپ کو بچوں کے معاملات میں اپاہج بنا دیتی ہیں یہاں تک کہ ایسی مائیں بچوں کو گھریلو معاملات میں باپ کا مخالفت بنادیتی ہیں جس کی بناء پر اس گھر کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے ایسی مائیں اللہ کی دیگر ہدایات کو بھول کر ایسا کرئی ہیں ـــ اللہ وحدہ لاشریک کا بیان ہے ـــ
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّهُ
مرد عورتوں پر مسلط وحاکم ہیں اس لئے کہ اللہ نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے اللہ کی حفاظت میں (مال وآبرو کی) خبرداری کرتی ہیں (النساء ٣٤)۔۔۔
اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں گھریلو زندگی کے متعلق سب سے زیادہ مفصل ہدایتیں دی ہیں اتنی ہدایتیں زندگی کے دوسرے شعبے کے متعلق نہیں ملتیں کیونکہ گھریلو سکون کی اہمیت اور بقا اللہ تعالٰی کی نظر میں بہت اہم ہے ایسی ماؤں کا اس طرح کا غیر اسلامی سلوک ان کے شوہروں کو انتہائی تکلیف میں مبتلا کردیتا ہے اور بہت مسائل پیدا کردیتا ہے اللہ تعالٰی کی نظر میں ایسی ماؤں کا اجر کم ہوجاتا ہے کیونکہ وہ خاوند کو اسکے مقام سے گرا کر اولاد کی مدد سے گھریلو سکون کو تباہ وبرباد کرتی ہیں کئی پیدا کئے ہوئے مسائل میں گھِر کر پریشان ہوجاتی ہیں لیکن پھر اس وقت نقصان کی تلافی انتہائی مشکل ہوجاتی ہے۔۔۔
حقیقت میں اگر میری چال کا نتیجہ اس چال کے چلنے والے پر ہی وارد ہوجاتا ہے۔۔۔ اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے کہ!۔
وَلاَ يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلاَّ بِأَهْلِهِ
اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے ہی پر پڑتا ہے (الفاطر ٤٣)۔۔۔
اسی طرح والدین کے ادب و احترام میں اللہ وحدہ لاشریک نے مزید ارشاد فرمایا کہ!۔
وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ إِن تَكُونُواْ صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلأَوَّابِينَ غَفُورًا
اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا اور عجزو نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں (شفقت سے) پرورش کیا ہے تو بھی اُن (کے حال) پر رحمت فرما جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تمہارا پروردگار اس سے بخوبی واقف ہے۔ اگر تم نیک ہوگے تو وہ رجوع لانے والوں کو بخش دینے والا ہے (الاسرء ٢٣۔٢٥)۔۔۔
ان آیات میں اللہ تعالٰی نے اپنی اطاعت کے بعد دوبارہ والدین کے ادب واحترام کی بات کی ہے ان آیات میں اللہ تعالٰی نے ہمیں سمجھا دیا ہے کہ ہم بچپن میں کس طرح بےیار ومددگار تھے اور والدین نے ہمیں پالا پوسہ اور پروان چڑھایا، ہمارے والدین ہماری ہر خواہش پوری کرتے تھے مکمل خلوص اور محبت کے ساتھ، اسی لئے اولاد پر فرض ہے کہ وہ والدین کا احترام کرے اور ان سے اچھا سلوک کرے۔۔۔
اگرچہ عمر کے تمام حصوں میں والدین کا ادب واحترام کرنا چاہئے لیکن ان کی طرف زیادہ تر توجہ اس وقت ہونی چاہئے جب وہ بوڑھے ہوجائیں کیونکہ وہ بھی اسی طرح بےیارو مددگار ہوجاتے ہیں جیسے ہم بچپن میں تھے اللہ تعالٰی نے ان آیات میں مندرجہ ذیل ہدایت ہمیں دی ہیں۔۔۔
١۔ ان کے سامنے آواز کو بلند کرنے سے اجتناب برتیں۔۔۔
٢۔ والدین کو ان کی بے عزتی کے طور پر چھوتے سے چھوٹا لفظ بھی زبان سے ادا نہیں کرنا چاہئے۔۔۔
٣۔ انتہائی محبت بھرے لہجے اور ہمدردی کے انداز میں اپنے والدین سے مخاطب ہونا چاہئے۔۔۔
٤۔ والدین کے ساتھ ہر معاملہ انتہائی فرمانبرداری اور نرمی سے کرنا چاہئے انکے ساتھ رحمدلی کا معاملہ ہونا چاہئے اور دل کی گہرائیوں سے یہ سب کچھ ہونا چاہئے محض دکھانے کے لئے یا روایتی انداز میں نہیں ہونا چاہئے۔۔۔
٥۔ ہمیں والدین کے لئے دُعا کرنا چاہئے اے اللہ تعالی میرے والدین پر رحم کر بالکل اسی طرح جس طرح وہ لوگ بچین میں مجھ پر رحم کرتے رہے تھے یہ دُعا ان کی موت کے بعد بھی کرتے رہنا چاہئے ہمیں اس دُعا کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالٰی نے خود یہ دُعا ہمیں سکھائی ہے اور اسکی تلقین بھی فرمائی ہے۔۔۔
٦۔ اللہ تعالٰی نے یہ بات بھی ہمارے دلاسے کے طور پر بیان کردی ہے کہ اگر کسی سے بھول چوک یا غلطی سے والدین کے متعلق کوئی نازیبا کلمات نکل جائیں جو لاپراوہی کی وجہ سے نہیں بلکہ سخت محنت کرتے ہوئے انجانے میں ہوجائے تو اس پر اللہ تعالٰی ہمیں سزا نہ دے گا بشرطیکہ ہم خلوص دل سے توبہ کر لیں اور معافی مانگ لیں اللہ تعالٰی ہمارے دلوں کی گہرائیوں سے بھی اچھی طرح واقف ہے۔۔۔
اسی طرح والدین کے احترام کے بارے میں بہت ساری احادیث بھی موجود ہیں۔۔۔
ایک مرتبہ ایک آدمی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا وہ کونسا عمل ہے جو اللہ تعالٰی کو سب سے زیادہ پسند ہیں جوابا آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوابا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔ وقت مقررہ پر عبادت کرنا پوچھنے والے نے پوچھا اسکے بعد کونسا عمل؟؟؟۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا والدین کے ساتھ حُسن سلوک (بخاری)۔۔۔
ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ!۔
’’ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی انسان اپنے والدین پر لعنت بھیجے ۔ آپ سے عرض کیا گیا والدین پر کوئی کیسے لعنت کر سکتا ہے آپ نے فرمایا وہ اس طرح کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کے باپ کو گالی دیتا ہے وہ اس کے جواب میں اس کے باب کو گالی دیتا ہے ایک شخص کسی کی ماں کو گالی دیتا ہے نیتیجاً وہ اس کی ماں کو گالی دے گا ‘‘ (رواہ البخاری )
مکافات عمل کا دستور مسلمہ حقیقت ہے اور بدلہ لینے کا رجحان بھی غالب ہوتا ہے بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو برائی سن کر بھلائی کریں ہر کوئی بدلہ لینے کی کوشش کرتا ہے اسی اصول کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ انسان اپنے والدین کو گالی دے یا ان پر لعنت کرے ۔ صحابہ کرام نے یہ سن کر تعجب کیا کہ ایسا کون سا بد نصیب ہے جو اپنی ماں یا باپ کو گالی دے یا ان پر لعنت کرے آج کے دور میں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے اس لئے کہ لوگ والدین کے مقام کو پچانتے نہیں جائیداد یا کسی معمولی سی بات پر اپنے والدین کو برا بھلا کہتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو قتل بھی کردیتے ہیں مگر اس دور میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ کوئی انسان اپنے والدین پر لعنت کرے گا اسی تعجب کی بنا پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان اپنے والدین کو گالی دے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ ایک انسان کسی سے ناراض ہو کر اسے اور اس کے والدین کو گالی دیتا ہے وہ اس غلیظ گفتگو کو سن کر اس کے بدلے میں اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اسی طرح کسی نے کسی کی ماں کو گالی دی جس کے عوض وہ اس کی ماں کو گالیاں دیتا ہے اس طرح وہ کسی کے والدین کو گالی دے کر اپنے والدین کو گالیاں نکالنے کا سبب بنتا ہے گویا کہ اس نے خود اپنے والدین کو گالی دی ہے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے بڑا گناہ قرار دیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ جو کام کسی گناہ کا سبب بنے اس سے بھی بچنے کی کوشش کی جائے ۔ تاکہ کوئی انسان ناکردہ گناہوں کی پاداش میں سزا کا حق دار نہ بنے۔
عزیز دوستوں!۔
شیخ قرطبی نے ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے جو حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ۔۔۔
ایک آدمی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور شکایت کی کہ میرے والد نے میری ساری جائیداد لے لی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا جاؤ اپنے والد کو لیکر آؤ اسی وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جب اس شخص کے والد صاحب آئیں تو آپ ان سے اُن کے کلمات کے بارے میں پوچھنا جو انہوں نے اپنے دل ہی دل میں کہے تھے یہاں تک کہ اسکی آواز خود اُنکے کان میں بھی نہ جاسکی تھی جب وہ لڑکا اپنے باپ کو لیکر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا تمہارا بیٹا کیوں تمہاری شکایت لیکر آیا ہے کہ تم نے اس کا مال پڑپ کر لیا ہے باپ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ خود میرے بیٹے سے ہی پوچھئے کہ میں تو یہ پیسہ صرف صرف اپنے اوپر خرچ کرتا ہوں یا اسکی چاچی پر حضرت محمد صلی اللہ علییہ وسلم نے کہا ٹھیک ہے میں سب کچھ سمجھ گیا اب تم مجھے یہ بتاؤ کہ وہ کونسے الفاظ تھے جو تم نے اتنے دھیرے کہے تھے کہ خود تمہارے کان تک نہ سُن سکے تھے؟؟؟۔۔۔ وہ آدمی یہ سنتے ہی حیرت میں ڈوب گیا اور کہنے لگا یہ تو ایک معجزہ ہے آخر آپ نے یہ کیسے جانا حقیقت میں، میں نے وہ الفاظ دل ہی دل میں کہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا وہ جملے سناؤ اس آدمی نے مندرجہ ذیل عربی کے اشعار سنائے اسکا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔۔۔
میں نے تجھے بچپن میں پالا پوسا تمہارے کھانے پینے کا انتظام کیا تمہاری ہر طرح سے مدد کی یہاں تک کہ تم جوان ہوگئے اس وقت تک تمام قسم کے خرچ میرے کاندھو پر تھے۔۔۔ میں رات بھر جاگتا اور بیتاب ہوجاتا کہ جب کھبی تو بیمار پڑتا مجھے ایسا لگتا کہ تیری بیماری میری بیماری ہے رات بھر یہی سوچ کر روتا رہتا۔۔۔
ہر وقت تیری موت کا ڈر میرے ذہنوں پر چھایا رہتا جب کہ میں جانتا ہوں کہ موت اپنے وقت پر آتی ہے نہ آگے ہوتی ہے نہ پیچھے۔۔۔جب تو اس جوانی کی عمر میں پہنچ گیا جسکی میں ہمیشہ خواہش کرتا تھا تو مجھ سے اکڑ کر باتیں کرتا ہے اور مجھے دُکھ دیتا ہے اور تمہارا رویہ ایسا ہے گویا تم مجھ پر احسان کر رہے ہو۔۔۔
افسوس اگر تو میرے حقوق ادا نہیں کر سکتا مجھے باپ کی طرح نہیں دیکھ سکتا تو پڑوسی کی طرح تو سلوک کر یا کم ازکم میں نے تجھ پر جو خرچ کیا ہے اُتنا ہی مجھ پر خرچ کر اور بخیلی سے کام نہ لے۔۔۔
عزیز دوستوں!۔
دل کو دہلادینے والی یہ نظم سُن کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جوان کی گردن پکڑی اور کہا تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔۔۔
انت ومالک لابیک
تو اور تیرا مال دونوں تیرے باپ کی ملکیت ہے۔۔۔
آخر میں اپنی بات کو اس دُعا کے ساتھ انجام تک پہنچاتا ہوں کہ۔۔۔
اللہ ہمارے دلوں میں ہمارے والدین کے متعلق حقیقی محبت پیدا کردے اور ان دونوں پر اپنی رحمتیں انڈیل دے جیسا کہ انہوں نے بچپن میں ہم پر رحم کیا (آمین یارب العالمین)۔۔۔
والسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔