YOUR INFO

Thursday, 7 March 2013

بابائے تبلیغ مولانامحمد عبداللہ گورداسپوری

0 comments


بابائے تبلیغ مولانامحمد عبداللہ گورداسپوری

بابائے تبلیغ حضرت مولانا محمد عبداللہ گورداس پوری﷫ برصغیر پاک و ہند کے نامور عالم دین تھے۔ اُنہوں نے دعوت و تبلیغ کے میدان میں اپنی واعظانہ صلاحیتوں، بلند آہنگ خطابت اور حکیمانہ اسلوب تبلیغ سے لوگوں کو توحید و سنت کا عامل بنایا اور انہیں'صراط مستقیم' دکھا کر نیک نام ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے مولانا محمدعبداللہ صاحب کو علم و عمل کا حظ ِوافر عطا کیا اور بے پناہ اوصاف و کمالات سے نوازا تھا۔ آپ اہل اسلام بالخصوص جماعت اہلحدیث کے لیے عظیم سرمایہ تھے۔ گذشتہ صدی کی جماعتی تاریخ انہیں نہ صرف یہ کہ اَزبر تھی بلکہ بہت سے واقعات کے آپ عینی شاہد بھی تھے۔ جب زبان کو حرکت دیتے تو اکابر کے واقعات بیان کرتے چلے جاتے۔
شیخ الاسلام فاتح قادیان مولانا ثناء اللہ اَمرتسری﷫ کے تربیت یافتہ اور ان سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔اسی پر بس نہیں بلکہ ان سے متعلق نادر معلومات اور واقعات بھی فراہم کرتے۔ بلاشبہ ہمارے یہ بزرگ معلومات کا بحرذخار اور ہماری جماعتی تاریخ کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ بڑے ہی شگفتہ مزاج، لطیف گو، مرنجا مرنج اور باغ و بہار طبیعت کے انسان تھے۔ عبوست و یبوست سے کوسوں دور رہتے، ان کی بذلہ سنجی اور خوش طبعی کے قصے زبان زد عام ہیں۔
آپ نہایت بااخلاق، بلند کردار، نیک طینت، شریف النفس ، خوش گفتار، مہمان نواز اور منکسر مزاج عالم دین تھے۔ وہ میرے بہت ہی پیارے اور محترم بزرگ دوست تھے۔ ان سے عقیدت و محبت کا ناطہ ربع صدی تک قائم رہا۔ میں نے پہلی بار انہیں 1988ء کے ماہ ستمبر کے وسط میں دیکھا تھا۔ وہ مولانا بشیر احمد صدیقی﷫ کی تعزیت کے سلسلے میں منعقدہ کانفرنس میں تشریف لائے تھے۔ یہ تعزیتی جلسہ سمن آباد فیصل آباد کے بلال پارک (کوئلے والی گراونڈ) کے مشرقی کونے پر مولانا بشیر صدیقی کے گھر کے قریب منعقد ہوا تھا۔ میں سٹیج کے قریب بیٹھا ہوا تھا کہ مولانا عبداللہ صاحب مائیک پر آئے۔ میانہ قد، متناسب جسم، سفید داڑھی، نظر کے چشمے کے پیچھے ذہانت کی غماز چمکتی آنکھیں، سر پر کلّے کے اوپر سفید طرے دار پگڑی، سفید شلوار اور قمیص، اوپر سے واسکٹ زیب تن ،پاؤں میں کھسّہ۔ انہوں نے اپنی کڑک دار آواز میں السلام علیکم کہا ۔ کچھ دیر بعد ان کا وعظ شروع ہوا۔ خطبہ مسنونہ پڑھ کر انہوں نے علم اور عالم دین کی عظمت بیان کرتے ہوئے مولانا بشیر صدیقی مرحوم کو خراجِ تحسین پیش کیا اور ان کی دینی خدمات کو سراہا۔ پھر گویا ہوئے کہ لوگو! اپنے بچوں کو دین پڑھاؤ اسی میں تمہاری نجات ہے۔ اثنائے گفتگو انہوں نے اپنی دینی تعلیم کے متعلق بتایا کہ وہ نویں کلاس میں پڑھتے تھے کہ مولانا ثناء اللہ امر تسری﷫ اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری﷫ کی تقاریر سے متاثر ہو کر دینی تعلیم کی طرف آئے اور آج اللہ نے یہ مقام دیا ہے۔ مولانا عبداللہ صاحب کا یہ وعظ کوئی گھنٹہ بھر جاری رہا، لوگ اَز حد متاثر ہوئے اور انہوں نے بھی دوران تقریر اپنی شیرینی گفتار سے سامعین کو خوب محظوظ کیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے ان کا وعظ سنا اور ان سے متاثر ہوا۔
وہ فیصل آباد تشریف لاتے تو ٹیلی فون سے اپنی آمد کی اطلاع دیتے۔ اور مکتبہ رحمانیہ پر تشریف لا کر ملاقات کا شرف بھی بخشتے۔ نومبر 2001ء میں وہ فیصل آباد تشریف لائے۔ کلیہ دارالقرآن والحدیث جناح کالونی میں تقریبِ بخاری کے موقع پر رات کو ان کی تقریر تھی۔ میں بھی سامعین میں تھا۔ مولانا دورانِ تقریر تاریخی واقعات سنا رہے تھے کہ کہنے لگے:'' رمضان سلفی یہاں ہے؟'' میں نے ہاتھ بلند کر کے اپنی موجودگی کو ظاہر کیا، مولانا فرمانے لگے :''سلفی سٹیج پر آ کر بیٹھو، یہ سلفیوں کا اسٹیج ہے۔
1950ء کی دہائی میں ایک بار جماعت غرباء اہل حدیث کے امام مولانا حافظ عبدالستار محدث دہلوی﷫ اپنے ارادت مندوں سے ملنے بورے والا تشریف لائے۔ مولانا عبداللہ صاحب کو اُن کی آمد کا معلوم ہوا تو وہ بنفس نفیس امام صاحب کی خدمت میں پہنچے اور اصرار کر کے ان کو اپنی مسجد میں لے آئے اور کئی دن تک اُنہیں نہایت عزت اور احترام سے اپنے ہاں رکھا۔ مرحوم کے صاحبزادے محترم ڈاکٹر محمد سلیمان اظہر (المعروف ڈاکٹر بہاؤ الدین ﷾) نے راقم کو بتایا کہ ان دنوں مجھے امام عبدالستار ﷫ کی خدمت کا موقع ملا تھا۔بلا شبہ وہ اَسلاف کی یاد گار تھے ۔ میرے دوستانہ مراسم ان سے بھی تھے، ان کے بیٹے ڈاکٹربہاؤ الدین سے بھی ہیں اور ان کے پوتے سہیل اَظہر سے بھی۔اب آئیے ان کے حالات و واقعات کی طرف ۔ یہ وہ معلومات ہیں جو ہمیں یا تو مولانا عبداللہ صاحب سے بالمشافہ ملاقاتوں سے حاصل ہوئی ہیں اور کچھ باتیں ہم نے اپنے مرشد عالی قدر مولانا محمد اسحٰق بھٹی﷾ کی'بزمِ ارجمنداں' سے مستعارلی ہیں:
اِبتدائی حالات
مولانا عبداللہ صاحب 1916ء میں ضلع گورداس پور (بھارت) کے ایک مقام'وڑائچ' میں پیدا ہوئے۔ والد کا اِسم گرامی حکیم امام الدین تھا۔ جو علماے کرام اور واعظین عظام کی عزت وتوقیر میں اس نواح میں خاص شہرت رکھتے تھے۔ نیک اور صالح تھے۔ ان کا یہ بچہ کچھ بڑا ہوا تو اُنہوں نے اسے سرکاری سکول میں داخل کرا دیا۔ جہاں بچے نے مڈل کا امتحان امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔بعد اَزاں خالصہ ہائی اسکول بھاگووال میں داخل کرا دیا گیا۔ مولانا عبداللہ صاحب نویں جماعت کے طالب علم تھے کہ اُن کے علاقے میں ایک بہت بڑا تبلیغی جلسہ ہوا۔ وہ اس میں شریک ہوئے اور اُنہوں نے شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امر تسری اور سیدعطاء اللہ شاہ بخاری کی تقریریں سنیں۔ اُنہوں نے اس قدر تاثر لیا کہ سکول کی تعلیم چھوڑ کر دینی تعلیم کی طرف راغب ہو گئے۔ اُنہیں بٹالہ میں قائم مدرسہ دارالسلام میں داخل کرا دیا گیا۔
یہ مدرسہ وہاں کی انجمن خادم المسلمین کے زیر انتظام تھا اور اس میں حضرت مولانا عطاء اللہ شہید﷫ جو اس علاقے کے جید عالم دین تھے، فریضہ تدریس اَدا کرتے تھے۔ ان نیک اور متقی عالم دین کو اگست 1947ء میں سکھوں نے شہید کر دیا تھا۔ یہ بزرگ عالم دین تفسیر،حدیث، منطق، صرف ونحو اور دیگر اسلامی علوم میں کامل درک رکھتے تھے۔ ان سے کئی طلبا نے اکتسابِ علم کیا اور پھر وہ نامور ہونے کے ساتھ نیک نام بھی ہوئے۔ مولانا عطاء اللہ شہیدؒ کے شاگردوں میں مولانا عبدالعزیز سعیدی، مولانا اسماعیل ذبیح، مولانا عبدالعظیم انصاری، حافظ عبدالحق صدیقی اور مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف جیسے علما کے نام ملتے ہیں۔
ہمارے ممدوح حضرت مولانا محمدعبداللہ صاحب بھی اسی یگانۂ روزگار عالم دین کے نہایت لائق اور چہیتے شاگردِ رشیدتھے۔ اُنہوں نے درسِ نظامی کی مکمل تعلیم مولانا عطاء اللہ شہید سے حاصل کی۔ ذہین طباع طالب علم تھے، ذہن رساپایا تھا جوپڑھتے ازبر ہو جاتا۔ نیک طینت اُستاد کو اپنے اس شاگرد پر ناز تھا اور وہ اسے اپنے گھر کا فرد سمجھتے تھے۔ مولانا عطاء اللہ شہید﷫ کے صاحبزادے حافظ محمد سلیمان میرے نہایت پیارے بزرگ دوست تھے۔ وہ میرے قریبی محلہ میں ہی اقامت پذیر تھے، ان سے اکثر ملاقات رہتی، وہ تصنیف و تالیف کا بڑا اچھا ذوق رکھتے تھے۔ عرصہ دراز تک محکمہ تعلیم میں آفیسر رہے۔ انہوں نے 29؍اگست 2008ء کو فیصل آباد میں وفات پائی۔ اُنہوں نے تین کتابیں: درود و سلام، توحید پر ایمان، شرک سے بیزاری، اور سیرت النبیﷺ پر ایک کتاب تصنیف کی۔ ان کا بیان ہے کہ ''مولانا عبداللہ صاحب میرے والد مولانا عطاء اللہ صاحب کے لاڈلے شاگرد تھے اور اُنہیں ہمارے گھر کا فرد ہی سمجھا جاتا تھا۔ مدرسہ میں دوسرے طلبا سے ان کو ذہانت و فطانت اور علمی استعداد کے باعث امتیازی حیثیت حاصل تھی اور یہ اپنی ہنس مکھ طبیعت سے رونق لگائے رکھتے تھے۔''
مو لا نا محمد عبد ا للہ آخر میں حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ﷫ کی خدمتِ عالیہ میں حاضر ہوئے اور اُن کے دورہ تفسیر میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کی۔ تحصیل علم کے بعد وہ دعوتِ و تبلیغ کے میدان میں جت گئے اور جو علم اُنہوں نے حاصل کیا تھا اسے لوگوں تک پہنچانا اپنے اوپر فرض کر لیا۔
1937ء میں انہوں نے ولن مل دھاریوال سے اپنی خطابت کا آغاز کیا۔ اور 1947تک دس سال آپ ولن مل دھاریوال کی مسجد کے امام و خطیب رہے۔ 14؍اگست 2002ء کو میں بورے والا مولانا عبداللہ صاحب کی خدمت میں ان کے صاحبزادے حافظ لقمان سلفی مرحوم کی تعزیت کے لئے حاضر ہوا۔ نمازِ ظہر پڑھ کر ان کی خدمت میں سلام عرض کیا، خیر و عافیت کے تبادلے کے بعد وہ پرانے واقعات سنانے لگے۔ ان کی بہت بڑی خوبی تھی کہ انہیں سینکڑوںواقعات من و عن یاد تھے اور 60،70 سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود وہ واقعات ان کے ذہن پر نقش تھے۔
ہجرت اور توحیدکی اشاعت
مولانا محمدعبداللہ صاحب 1937 ء سے 1947ء تک ولن مل دھاریوال کی مسجد میں فریضہ خطابت اَدا کرتے رہے۔ اگست 1947ء میں مشرقی پنجاب کے سکھوں نے مسلمانوں کو قتل و غارت کا نشانہ بنایا تو وہ اپنے خاندان کے ہمراہ براستہ ڈیرہ بابا نانک پاکستان میں داخل ہوئے۔ مختلف شہروں سے ہوتے ہوئے رائے ونڈ آئے۔ یہاں ان کے برادرِ نسبتی قیام پذیر تھے۔
مولانا محمد اسحٰق بھٹی صاحب'بزمِ ارجمنداں' میں لکھتے ہیں:
''مولانا کاقافلہ پچاس ساٹھ اَفراد پر مشتمل تھا۔ ایک بہت بڑی حویلی ان کے برادر ِنسبتی کے قبضے میں تھی۔ مولانا عبداللہ اور ان کے ساتھیوں نے اسی حویلی میں پڑاؤکیا۔ اس وقت عیدالاضحیٰ میں چار دن باقی تھے۔ مولانا نے چالیس روپے میں قربانی کے لئے گائے خریدی۔ رائے ونڈ میں اس وقت ایک ہی مسجد تھی،جس کی رجسٹری حاجی محمد عاشق کے نام تھی اور وہ اہلحدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ مولانا عید کی نماز پڑھنے مسجد میں گئے تو ایک کونے میں جا کر بیٹھ گئے۔ حاجی محمد عاشق کو کسی نے کہہ دیا کہ یہ عالم دین ہیں۔ حاجی صاحب اُن کے پاس آئے اور عید پڑھانے اور خطبہ اِرشاد فرمانے کی درخواست کی۔ چنانچہ انہوں نے نماز عید پڑھائی اور خطبہ دیا۔ خطبے کا موضوع حضرت ابراہیم کا واقعہ ہجرت اور ان کا جذبہ قربانی تھا۔ سامعین میں اکثریت مشرقی پنجاب سے آنے والے لوگوں کی تھی اور ترکِ وطن کے زخم ابھی تازہ تھے۔ تقریر کے اَلفاظ و انداز کی اَثر پذیری سے ہر آنکھ پرنم تھی اور ہر دل تڑپ رہا تھا۔ نمازِ عید کے بعد مولانا اپنی رہائش گاہ پر تشریف لائے اور گائے کی قربانی میں مصروف ہو گئے ۔ تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو دیکھا کہ حاجی محمد عاشق ریڑھی لئے کھڑے ہیں، جس پر ایک بوری آٹے کی اور ایک بوری چاولوں کی ہے۔ کہا:یہ حقیر سی خدمت قبول فرمائیے۔ ساتھ ہی پانچ سو روپے نقد عنایت کئے۔ یہ بہت بڑی مدد تھی جو اس وقت اُنہوں نے فرمائی اور لٹے پٹے قافلے کو سہارا دیا۔''1
مولانا محمدعبداللہ صاحب کچھ عرصہ رائے ونڈ میں قیام پذیر رہے اور کچھ عرصہ جامع مسجد فریدیہ اہل حدیث قصور میں خطابت کے فرائض سراَنجام دیئے۔ 1949ء میں آپ جماعت اہل حدیث بورے والا کے اِصرار پر بورے والا تشریف لے آئے۔ اُنہوں نے بورے والا کی جامع مسجد اہل حدیث میں جو پہلا خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا، اس میں سورۃ العصر کی تفسیر بیان کی جسے سامعین نے بہت پسند کیا۔ ان دنوں یہ مسجد بہت چھوٹی تھی، مولانامحمد عبداللہ صاحب کی کوششوں سے اب بہت وسیع ہو گئی ہے۔ اور اسے چند سال پہلے اَز سر نو خوب صورت تعمیر کیا گیا ہے۔ نیز بورے والا اور اس کے گر دو نوا ح میں اہل حدیث کی ایک در جن سے زا ئد مسا جد تعمیر ہو چکی ہیں۔
مولانا محمدعبداللہ صاحب بلند آہنگ خطیب تھے۔ ان کے وعظ کی اثر آفرینی سے ہزاروں لوگ راہِ راست پر آ چکے ہیں۔ وہ عام فہم انداز میں بڑی پیاری گفتگو کرتے اور علم و حکمت کے موتی بکھیرتے چلے جاتے۔ عالم پیری میں بھی ان کی خطابت کی بڑی دھوم تھی۔ لوگ ان کا وعظ سننے دور دور سے دیوانہ وار چلے آتے۔
قرآنی خدمات
اللہ تعالیٰ نے مولانا محمدعبداللہ صاحب کو علم و عمل کے ساتھ تفقہ فی الدین اور قرآن فہمی سے بھی خوب نوازا تھا۔ آپ نے نماز ِفجر کے بعد چار بار درسِ قرآن میں قرآن مجید کی مکمل تفسیر بیان کی۔ آپ صبح کے درسِ قرآن کے لئے باقاعدہ تیاری کر کے آتے تھے۔ مولانامحمد عبداللہ صاحب کا بیان ہے کہ
''بندہ نومبر1949ء کو رائے ونڈ سے بورے والا آ گیا۔ زادِ سفر ایک تفسیر ابن کبیر مصری کی جلد اول تھی۔ ان دنوں بورے والا میں صرف جھگی نما ایک چھوٹی کچی مسجد تھی۔ بجلی وغیرہ بھی یہاں نہیں تھی، دیسی سرسوں کے تیل کے دیے کی روشنی میں بعد نماز فجر قرآن پاک کا درس شروع کیا گیا۔ بلاناغہ درس کے باوجود 10سال میں درسِ قرآن اللہ کی توفیق سے ختم ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے اس اِحسان کے شکریہ کے طور پر حاضرین کی دعوت کی گئی۔ اور دودھ ، چائے اور مٹھائی سے تواضع کی گئی۔ الحمد للہ''
دوسری بار 1959ء میں درسِ قرآن کا آغاز کیا گیا۔ اب کتابوں کی فراہمی بھی کچھ آسان ہو گئی تھی۔ مالی طور پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کی برکت سے خوش حالی عطا کر دی۔ تفسیر خازن، تفسیر کبیر، تفسیر ابن جریر، فتح القدیر،جلالین، جامع البیان اور دیگر مکاتب فکر کے علما کے تراجم بھی مہیا ہو گئے تھے۔ اَب تفسیر ابن کثیر اوردیگر تفاسیر و تراجم کی معاونت سے بارہ سال میں1971ء میں دوسری بار درسِ قرآن میں قرآن پاک کو مکمل کیا۔
تیسری بار 1972ء میں ابتدا سے درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا گیا جو تبلیغی پروگراموں میں مصروفیت کے باوجود 1985ء میں تکمیل کو پہنچا۔
چوتھی بار 1985ء میں ترتیب سے درسِ قرآن کا آغاز ہوا۔ اَب مولانا محمدعبداللہ صاحب کی بینائی بھی کم زور ہو چکی تھی۔ اُنہوں نے آنکھوں کا آپریشن کروایا اور نظر کا چشمہ لگا کر درسِ قرآن ارشاد فرماتے رہے اور 1997ء میں درس قرآن میں مکمل قرآن مجید ختم کیا۔
مولانا محمدعبداللہ صاحب عالم پیری میں نظر کی کمزوری، بڑھاپے، نقاہت اور دیگر کچھ عوارض کے باوجود عزمِ جواں رکھتے تھے۔ قرآن کریم سے محبت ان کے رگ و پے میں سرایت کئے ہوئے تھی ۔اُنہوں نے پانچویں بار ترتیب سے درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا جو آخر عمر تک جاری رہا۔ ان کا یہ درسِ قرآن اب نماز فجر کے بعد کی بجائے نماز عصر کے بعد ہوتا تھا۔ بلاشبہ یہ بہت بڑی خدمتِ قرآن ہے جو مولانا عبداللہ صاحب نے انجام دی ہے۔ تقسیم ملک سے پہلے کے سات سال اور ایک سال رائے ونڈ ضلع قصور کے درسِ قرآن کو بھی شامل کیا جائے تو یہ مدت 72سال بنتی ہے اور خادم قرآن کی حیثیت سے یہ عظیم خدمتِ قرآن ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔آمین!
مولانامحمد عبداللہ صاحب کو تحریر ونگارش سے بھی خاص شغف تھا۔ اُنہوں نے کوئی کتاب تو مرتب نہیں کی البتہ ان کے علمائے اہل حدیث کے بارے مضامین جماعتی رسائل میں اشاعت پذیر ہو کر ہمارے مطالعے میں آتے۔ وہ خوب صورتی سے اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرتے اور پیارے اسلوب میں اکابرین جماعت کا تذکرہ کرتے تھے۔ چند سال پہلے انہوں نے شیخ الاسلام، فاتح قادیان، مولانا ثناء اللہ امر تسری﷫ کے بارے ہفت روزہ اہل حدیث لاہور میں متعدد مضامین لکھے تھے اور ان میں حضرت شیخ الاسلام کی زندگی کے بعض گوشوں کو اجاگر کیا تھا۔ ضرورت ہے کہ مولانا عبداللہ صاحب کے تمام مضامین کو یکجا کر کے شائع کر دیا جائے۔ اس سے جماعتی تاریخ کے بہت سے واقعات محفوظ ہو جائیں گے۔
تحریکی خدمات
مولانا محمدعبداللہ صاحب نے سیاست میں تو زیادہ حصہ نہیں لیا، البتہ مذہبی تحریکوں میں سرگرم عمل رہے۔ فتنہ مرزائیت کے خلاف اُنہوں نے قیام پاکستان سے پہلے بھی خوب کام کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی وہ قادیانیوں کے خلاف پیش پیش رہے۔ اس راہ میں اُنہیں مصائب و آلام سے بھی دو چار ہونا پڑا اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ وہ ہر موقع پر ثابت قدم رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی اور انہوں نے دھڑلے سے قادیانی نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمد قادیانی کے ڈھول کا پول کھولا۔ مولانا عبداللہ صاحب نے 1935ء میں جب وہ مولانا عطاء اللہ شہید رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں زیر تعلیم تھے توقادیانیت کے خلاف پہلا خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا تھا ۔پون صدی کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی مولانامحمد عبداللہ سال میں ایک بار اس خطبے کی تجدید کرتے تھے۔
مولانا محمدعبداللہ صاحب پہلی بار 1939ء میں جیل گئے تھے۔ اُنہوں نے بٹالہ سے چھ میل دور دیال گڑھ کے قریبی گاؤں 'ہرسیاں'میں مرزائیوں کے خلاف تقریر کی تھی۔ اس کی پاداش میں اُنہیں گرفتار کر لیا گیا اور ایک ہفتے بعد ان کی ضمانت ہوئی۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں بھی مولانا محمدعبداللہ صاحب سرگرم عمل رہے اور انہیں کراچی جیل میں ایک ماہ گزار نا پڑا۔ 1955ء میں اُنہوں نے خانیوال میں تقریر کی اور ختم نبوت کے مسئلے کو اجاگر کیا۔ اس ضمن میں قادیانی مذہب بھی زیر بحث لائے۔ اس جرم میں اُنہیں جیل بھیج دیا گیا اور ایک ماہ دس دن بعد ضمانت ہوئی۔ مولانامحمد عبداللہ اس دور کے واقعات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''بٹالہ اور امر تسر قریب قریب ہونے کی وجہ سے اکثر فاتح قادیان کی زیارت و ملاقات ہوتی رہی اور ان کے بیانات اور مناظرات دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ تقریباً زندگی کا گیارہ سالہ بہترین دور اُن کی رفاقت اور قرب میں بسر کرنے کا موقع ملا۔ الحمد للہ!''
برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے پہلے دس سالہ دورِ خطابت ، توحید و سنت، اصلاح معاشرہ اور سیرتِ مصطفی ﷺ کی تبلیغ اور ردّ قادیانیت میں بسر کرنے کا موقع ملا، اس دوران کئی مرزائیوں سے مناظرےبھی ہوئے۔ برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے بعد 1953ء کی تحریک ختم نبوت میں بھی حصہ لینے کا موقع ملا، بوریوالا ضلع ملتان(حال ضلع وہاڑی) ختم نبوت کے پروانوں کا جو پہلا قافلہ کراچی روانہ ہوا، اس میں بحیثیت ِقائد قافلہ جانے کا موقع ملا۔ کراچی جیل میں ایک ماہ تک قیام پذیر ہو کر اللہ تعالیٰ نے سنتِ انبیا کی اتباع کا موقع فراہم کیا۔کیونکہ دین کی خاطر جیل میں جانا بھی انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔
پھر اس کے بعد 1995ء میں ردّ قادیانیت کے سلسلہ میں خانیوال ضلع ملتان (اب خانیوال خود ایک ضلع ہے) ایک تقریر کی وجہ سے ملتان جیل میں جانا پڑا، جب مجھے خانیوال کی پولیس گرفتار کر کے اور ہتھکڑی لگا کر ملتان لے کر گئی تو ایک سب انسپکٹر اور دو کانسٹیبل ساتھ تھے۔ پھر وہ مجھے جیل کے دفتر میں لے گئے ۔یہاں سے اُنہوں نے مجھے کسی بارک میں بھیجنا تھا میں وہاں کلرک کے پاس کھڑا ہو گیا اور وہ اپنے رجسٹر کھول کر دیکھنے لگا اور اسی دوران اس کے میز پر پڑے ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ اس نے فون اٹھایا اور فون پر کسی سے بات کرنے لگا، بات کرتے کرتے کہنے لگا کہ مولوی صاحب! آپ کے لیے فون آیا ہے، فون پکڑیں اور بات سنیں، میں نے جب ٹیلیفون کان سے لگایا تو وہ سپرنٹنڈنٹ جیل کا فون تھا۔ اس نے کہا :مولوی صاحب السلام علیکم۔ میں نے جواب میں وعلیکم السلام کہا، کہنے لگا میں سپرنٹنڈنٹ جیل بول رہا ہوں۔ میں نے کہا: حکم کریں، کہنے لگا حکم نہیں گذارش ہے کہ ہمارے خطیب صاحب جو جیل میں خطبہ جمعہ دینے آیا کرتے، ان کی آج درخواست آ گئی ہے کہ وہ بیمار ہیں اس لیے جمعہ کی خطابت کا انتظام کر لیں۔اس دن چونکہ جمعہ تھا اور سپرنٹنڈنٹ صاحب نے مجھے اپنے دفتر میں بیٹھے ہوئے شیشے کی کھڑکی میں سے دیکھ لیا تھا، اس لیے مجھے ایک عالم دین سمجھ کر ٹیلیفون کیا۔ دفتر میں کلرک کے پاس میں ابھی پہنچا تھا۔ کہنے لگا:مولوی صاحب آج آپ خطبہ جمعہ ارشاد فرما دیں۔ میں نے ان سے انکار کیا اور کہاکہ جون کا مہینہ گرم ترین مہینہ ہے میں کئی دن حوالات میں رہا ہوں، میرے کپڑے بھی پسینے سے خراب ہیں اور جسم بھی گندا ہے اس لئے میں جمعہ نہیں پڑھا سکتا۔ اس نے کہا: مولوی صاحب ! گذارش قبول فرمائیں، میں کپڑے بھی نئے بھیجتا ہوں، اور پانی بھی غسل کرنے کے لئے اور آپ کے لئے ناشتہ وغیرہ بھی بھیجتا ہوں آپ میری گذارش قبول کریں اور خطبہ جمعہ ارشاد فرمائیں، کلرک مجھے آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا کہ صاحب کی بات مان جائیں، میں نے کہا: آپ مجبور کرتے ہیں تو آپ کے کہنے پر خطبہ جمعہ دے دیتا ہوں۔ میں ابھی وہاں ہی بیٹھا تھا ایک قیدی اپنے سر پر پانی کا ٹین رکھ کر لا رہا تھا اور صابن دھنیا کا تیل بھی ساتھ تھا، اس کے بعد ایک قیدی کپڑوں کا نیا جوڑا اور اس کے ساتھ 376کی ململ کی پگڑی، کرتا، بنیان، ملتانی لاچہ ، جرابیں وغیرہ لے کر آ گیا۔ پھر اس کے بعد ایک اور قیدی آ گیا اور اس کے ہاتھ میں ایک بڑی ٹرے تھی جس میں دو پراٹھے، تین انڈے ، دہی، مکھن اور چائے تھی۔ کہنے لگا کہ یہ آپ کا ناشتہ ہے۔ میں نے کلرک سے کہا کہ دیکھو جب میں جیل میں داخل ہونے لگا تو آپ کے پولیس والوں نے میری مکمل تلاشی لی اور پان بھی نکال لیا، لیکن وہ میرے سینے سے قرآن نہ نکال سکے ، اور یہ سب قرآن کی برکت سے ہے۔
میں نے غسل کیا، نئے کپڑے پہنے، پھر ناشتہ کیا تو جمعہ کی اذان ہو گئی، میری عمر اس وقت تقریباً چالیس سال تھی، جیل کے تمام قیدی اور افسران بڑی تعداد سے جمعہ کی نمازپڑھنے کے لئے آئے۔میں نے حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری﷫ سے سنا تھا کہ سورہ یوسف جیل میں پڑھنے کا بڑا مزا آتا ہے۔ میں نے خطبہ جمعہ میں ﴿رب السجن أحب إلی مما یدعوننی إليه﴾ کی تشریح کی، اللہ تعالیٰ نے اس قدر توفیق بخشی کے پونے دو گھنٹے خطبہ جمعہ دیا جو اتنا مؤثر ثابت ہوا کہ قیدی نعرے مار رہے تھے اور سورہ یوسف کا ترجمہ اور تفسیر سن کر رو رہے تھے، جیل کی فضا نعرہ تکبیر سے گونج رہی تھی۔ اب جیل کے افسران پریشان تھے کہ قیدی کہیں بغاوت نہ کر دیں لیکن اللہ تعالیٰ نے عزت عطا کر دی، اور یہ سب کچھ قرآن کی برکت ہے۔جب نماز جمعۃ المبارک ادا کی تو میرے پیچھے ملتان کے دو نوجوان رئیس زادے بھی نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تھے اور وہ کسی کے قتل کے جرم میں قید تھے اور انہوں نے اپنا کھانا گھر سے منظور کروایا ہوا تھا۔ وہ بڑے احترام سے ملے اور پوچھا مولانا کہاں سے آئے ہیں؟ اور کس سلسلہ میں جیل میں آ گئے؟
میں نے کہا کہ میں بورے والا کی مرکزی جامع مسجد اہلحدیث کا خطیب ہوں اور خانیوال میں ختم نبوت کے موضوع پر ایک تقریر کی اور جس میں کھل کر مرزائیت کی تردید کی ہے۔ وہاں کا تھانیدار مرزائی تھا اور رپورٹر بھی مرزائی۔ انہوں نے رات ہی کو میرے وارنٹ گرفتاری جاری کروا کر مجھے گرفتار کروا لیا، اگلے دن انتظامیہ جلسہ نے ضمانت کی درخواست دی، لیکن اس وقت پتہ چلا کہ ملتان کا سیشن جج بھی مرزائی ہے اور اُس نے میری ضمانت کی درخواست مسترد کر دی جس کی وجہ سے پولیس مجھے آج ہی جیل لائی ہے او ریہ میری اور آپ کی ملاقات کا سبب بنا ہے۔ وہ دونوں نوجوان حضرت مولانا محمد علی جالندھری کے مقتدی تھے۔ وہ کہنے لگے مولوی صاحب آپ کھانا ہمارے ساتھ کھایا کریں ۔ہمارا کھانا گھر سے آتا ہے میں نے انکار کیا، لیکن ان کا اصرار غالب آ گیا میں نے ان کی دعوت قبول کر لی، ان میں سے ایک پھر کہنے لگا کہ مولوی صاحب آپ تو پان بھی کھاتے معلوم ہوتے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ ہاں پان کھاتا ہوں، لیکن جب پولیس والوں نے تلاشی لیتے وقت میرا پان نکال لیا تو میں نے اپنے نفس سے کہا تھا کہ دیکھو یہاں کتنی پابندی ہے، اب پان مت مانگنا، کہنے لگے ان سے مانگیں کیوں؟ ہمارے دونوں بھائیوں کے سولہ پان روزانہ گھرسے آتے ہیں۔ اب آج سے آٹھ پان آپ کے بھی آیا کریں گے ۔ میں ایک ماہ اور تین دن ملتان ڈسٹرکٹ جیل میں رہا اور ان نوجوانوں کا صبح کا ناشتہ ، دوپہر کو کھانا، بعد نماز عصر چائے، رات کا کھانا آتا اور بہت پُرتکلّف کھانا ہوتا۔ جیل میں میرے ساتھ ملاقات کرنے جو بھی آتا، میں کہتا کہ ابھی دو چار ماہ میری ضمانت نہ کروانا، کیونکہ یہاں بہت آرام ہے۔ لیکن آخر کار حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی﷫ نے میاں محمود علی صاحب قصوری﷫ کو کہہ کر میری لاہور ہائیکورٹ سے ضمانت کروا دی۔ اسی طرح پوری زندگی اسی انداز سے گزری ہے،یہ ایک مختصر سا تعارف ہے۔''2
یاد رہے کہ تحریک ختم نبوت کی اب پندرہ جلدیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ الحمد للہ
کسی دور میں نصرت ٹرانسپورٹ کمپنی کی بسیں لاہور سے فیصل آباد چلتی تھیں۔ فیصل آباد میں اس کمپنی کا بس اڈا کارخانہ بازار کے باہر ہوا کرتا تھا اور یہ بس کمپنی مرزائیوں کی تھی ۔ ایک بار مولانامحمد عبداللہ صاحب لاہور سے نصرت ٹرانسپورٹ کی بس کے ذریعے لائل پور آئے۔ رات کو اُنہو ں نے دورانِ تقریر تذکرہ کیا کہ میں لاہور سے نصرت بس پر بیٹھ کر ساڑھے تین گھنٹہ میں لائل پور پہنچا ہوں۔ قادیانیوں نے اس بات پر ان کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔ مولانا عبداللہ صاحب پیشی پر عدالت میں حاضر ہوئے اور اپنا بیان دیا۔ عدالتی کارروائی کے بعد اُنہوں نے کہا کہ آئندہ پیشی پر میں یہ بھی بتاوں گاکہ نصرت بس کمپنی پر بیٹھ کر مجھے کتنا لطف آیا اور سفر کتنا آرام دہ رہا، ان کی یہ بات بھی مرزائیوں کو چبھ گئی۔ اب ان کو کسی نے مشورہ دیا کہ اس مولوی سے جان چھڑا لو، ورنہ یہ آئندہ تمہیں عدالت میں بڑا رسوا کرے گا۔ لہٰذا مرزائیوں نے اپنا مقدمہ واپس لے لیا۔
1974ء کی تحریک ختم نبوت میں بھی بھرپور کردار ادا کیا اور بورے والا کی مذہبی قیادت میں ان کا کام اور نام نمایاں تھا۔ 1977ء کی تحریک نظام مصطفیٰ ﷺ میں بھی مولانا محمدعبداللہ صاحب کی خدمات قابل قدر ہیں۔ جس طرح ان کی عمر طویل تھی اسی طرح ان کی خدمات کا دائرہ بھی وسعت پذیرتھا۔ مولانا محمدعبداللہ صاحب بڑے وضع دار اور پُروقار عالم دین تھے۔ ہمیشہ اپنی عزت و وقار کا خیال رکھتے۔ ایک بار انہوں نے قصور کی جامع مسجد فریدیہ اہل حدیث میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ رات کو ان کا قیام بھی قصور میں ہی تھا۔ مشہور مغنیہ ملکہ ترنم نور جہاں کا تعلق بھی قصور سے ہے اور اس کا آبائی گھر بھی وہیں ہے۔ ان دنوں نور جہاں قصور میں تھی، اس کو مولانامحمد عبداللہ صاحب کی قصور آمد کا پتہ چلا تو اُس نے اپنا خادم بھیجا کہ باباجی !صبح ناشتہ ان کے ہاں کریں۔ مولانامحمد عبداللہ صاحب نے انکار کر دیا۔ بعض لوگ کہنے لگے آپ اس کی دعوت قبول کر لیتے اس میں حرج ہی کیا تھا؟ لیکن مولانا محمدعبداللہ صاحب فرمانے لگے میں نہیں جاوں گا۔ اور مولانا محمدعبداللہ صاحب نور جہاں کے لاکھ اصرار پر ان کے ہاں ناشتہ کرنے نہیں گئے اور ایک عالم دین ہونے کی حیثیت سے اپنے مقام و مرتبے کو بلند رکھا۔
مولانا محمدعبداللہ صاحب کا اِمتحان لینے کے لئے بسا اَوقات انہیں مختلف طریقوں سے آزمایا گیا۔ مولانا بتایا کرتے :''ایک بار منڈی بہاؤالدین سے خط آیا کہ فلاں تاریخ کو آپ تشریف لائیں اور اپنے خطاب سے سامعین کو مستفید فرمائیں۔ خط پڑھ کر میں منڈی بہاؤالدین گیا، رات کو تقریر کی اور واپس آ گیا ، انہوں نے واپسی پر پوچھا تک نہیں۔ تھوڑے دن گزرے ان کی طرف سے پھر خط آیا کہ تشریف لائیں اور تقر یر کریں۔ مولانا بیان کرتے ہیں کہ خط پڑھ کر میں نے خود سے کہا :''مولوی! یہ تیری آزمائش ہے۔ کہیں پھسل نہ جانا۔ وہ آزمانا چاہتے ہیں کہ کیا مولوی کرایہ کے بغیر بھی آ سکتے ہیں۔'' چنانچہ میں وقت مقررہ پر منڈی بہاؤ الدین پہنچا اور تقریر کی۔ جن لوگوں نے مجھے بلایا تھا، ان کا صابن کا کارخانہ تھا۔ وہ صبح اپنی گاڑی میں مجھے بتی چوک لاہور چھوڑ گئے اور جاتے ہوئے ایک پیٹی صابن کی اور گیارہ سو روپے میری واسکٹ کی جیب میں ڈال گئے، یہ سستے زمانے کی بات ہے۔''
اس واقعہ سے مولانامحمد عبداللہ صاحب کی تبلیغی مساعی میں خلوص کو دیکھا جا سکتا ہے۔ لالچ، طمع و حرص سے کوسوں دور رہ کر انہوں نے خدمت دین کا فریضہ اَدا کیا اور اپنی عزت اور علما کی عظمت و وقار کو ہمیشہ قائم و دائم رکھا۔ اصل میں مولانا محمدعبداللہ صاحب نے جن لائق اَساتذہ کرام اور عالی قدر بزرگان دین کے زیر سایہ رہ کر تعلیم و تربیت کی منزلیں طے کیں،یہ اسی کا اثر ہے۔ مولانا محمدعبداللہ صاحب، شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امر تسری﷫ کے خاص ارادت مند اور شاگردوں میں شمار ہوتے تھے۔
بلا شبہ مولانامحمد عبداللہ صاحب پرانے دور کی یاد گار تھے۔ اُنہوں نے نیک لوگوں کا ساتھ پایا۔ وہ جس دور میں پلے بڑھے اور جس ماحول میں تعلیم و تربیت کی منزلیں طے کیں، اسے سنہری دور سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس دور میں مختلف تحریکیں اور جماعتیں میدان کارِ زار میں سرگرمِ عمل تھیں۔ ہندو سکھ عیسائی اور مسلمان اپنے اپنے مذہب کی اِشاعت میں لگے ہوئے تھے۔ اور اس سلسلے میں وہ ایک دوسرے سے مناظرے اور مباحثے بھی کرتے تھے اور دوسری طرف مل کر انگریزسے آزادی کے لئے کام بھی کر رہے تھے۔
مولانا محمدعبداللہ صاحب نے ان حالات کا بغور جائزہ لیا اورپھر ان کا علاقہ بٹالہ بھی قادیانی فتنہ کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ ان حالات میں مولانا عبداللہ صاحب نے اِسلام کی نشر و اشاعت کے لئے اہل حدیث اسٹیج سے کام کرنا شروع کیا۔ قادیانی مذہب کے خلاف انہوں نے تقریر و تحریر سے کام کیا اور دیگر مذاہبِ باطلہ کے خلاف بھی انہوں نے زبان و بیان سے جہاد کیا۔ تقسیم ملک سے پہلے آپ 'آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس' سے منسلک رہے جس کے ناظم اعلیٰ مولانا ثناء اللہ اَمر تسری﷫ تھے۔ قیام پاکستان کے بعد جب 24؍جولائی 1948ء کو 'مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان'کا قیام عمل میں آیا تو آپ اس سے منسلک ہو گئے اور تاحیات 'مرکزی جمعیت اہل حدیث' کے ساتھ ہی رہے۔ شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ اَمر تسری، مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی، مولانا سید محمد داؤد غزنوی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی﷭ ان پر بہت اعتماد کیا کرتے تھے اور ان اَکابرین جماعت کے ساتھ مل کر مولانامحمد عبداللہ صاحب نے جماعت کی تعمیر و ترقی کے لئے دن رات کام کیا۔
مولانا محمد عبداللہ گورداس پوری دوستوں کے دوست اور یاروں کے یار تھے۔ جن حضرات کے ساتھ ان کا ذرا سا بھی تعلق رہا ،انہیں یاد رکھتے۔ اپنے اَساتذہ کرام کا ذکر خیر عقیدت سے کرتے ، چھوٹوں پر شفقت فرماتے۔فیصل آباد تشریف لاتے تو ان کی کوشش ہوتی کہ دوستوں سے ضرور ملاقات کی جائے۔ ان کی خواہش پر کئی بار ہم ان کے اُستاد زادے حافظ سلیمان مرحوم کو ان کے گھر سمن آباد جا کر ملے۔ اس موقع پر ہمارے مرحوم دوست علی اَرشد چودھری اپنی گاڑی سمیت ہمراہ تھے۔
مولانامحمد عبداللہ صاحب بذلہ سنج اور باغ و بہار طبیعت کے انسان تھے۔ وہ اپنی گفتگو اور شرینی گفتار سے خوب محظوظ کرتے۔ ایک بار فیصل آباد تشریف لائے اور مجھے ٹیلی فون کیا۔ حال اَحوال پوچھ کر کہنے لگے :''اَرشد مرشد کہاں ہیں؟'' میں نے عرض کیا:اس وقت تو وہ گھر پر سو رہے ہوں گے، نمازِ ظہر کے بعد ہی شہر آئیں گے۔ پھر پوچھنے لگے:'' حکیم عبدالستار کے بیٹے حافظ حبیب الرحمٰن کہاں ہوں گے؟ ''میں نے بتایا کہ حافظ صاحب نمازِ فجر کے بعد سو جاتے ہیں نماز ظہر میں ہی مسجد میں آئیں گے۔ بابا جی میرا یہ جواب سن کر برجستہ کہنے لگے:'' یہ سارے اَصحابِ کہف ہی ہیں جو سوئے ہوئے ہیں۔'' ان کی اس برجستہ گوئی نے بڑا لطف دیا۔
1957ء میں مولانا محمدعبداللہ صاحب نے مرکزی جامع مسجد اہل حدیث بورے والا میں'مدرسہ محمدیہ' کی بنیاد رکھی۔ بطل حدیث حضرت مولاناسید محمد داؤد غزنوی﷫ نے اس کا افتتاح فرمایا تھا۔مولانا محمد عبداللہ صاحب اس مدرسہ میں عرصہ دراز تک طلبہ اور طالبات کو ترجمۃ القرآن اور ناظرہ قرآن پڑھاتے رہے۔ شعبہ حفظ القرآن کے لئے بھی استاد تھا۔ اس مدرسہ سے حافظ عبدالستار شیخ الحدیث کوٹ ادو (وفات 19؍جنوری 2009ء)،قاری محمد رمضان سینئر مدرّس جامعہ سلفیہ فیصل آباد ، پروفیسر عبدالرحمٰن لدھیانوی اور حافظ محمد لقمان سلفی(وفات 10جون 2002) جیسے نامور علما نے تعلیم حاصل کی۔
اولادِخانہ
اللہ تعالیٰ نے ان کو چار بیٹوں اور چھ بیٹیوں سے نوازا، بیٹوں کے نام یہ ہیں:
1.  ڈاکٹر محمد سلیمان اظہر : دینی و دنیوی تعلیم سے آراستہ ہیں۔ لکھنے پڑھنے کا ذوق اچھا ہے۔ 1970ء کے عشرے میں جامعہ سلفیہ میں اَنگریزی کے اُستاد رہے۔ جامعہ اِسلامیہ بہاولپور اور بعض دوسرے سرکاری کالجز میں پروفیسر رہے۔ 1987ء سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ 'تحریک ختم نبوت، اور 'تاریخ اہل حدیث' ان کی شاہکار تصانیف ہیں جو پاک و ہند سے شائع ہو کر اہل علم سے داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے تفصیلی حالات میں نے ان کی' تحریک ختم نبوت' کی جلد نمبر 9کے شروع میں تفصیل سے لکھے ہیں۔
2.  حافظ محمد لقمان غضنفر سلفی: جید عالم دین تھے۔ جامعہ سلفیہ فیصل آباد اور جامعہ اِسلامیہ مدینہ منورہ سے اِکتساب علم کیا۔ 18،17سال میاں چنو ں کی جامع مسجد اہل حدیث میں خطیب رہے۔ 10؍جون 2002ء کو اُنہوں نے میاں چنوں میں ہی وفات پائی۔ بڑے خلیق، ملنسار اور خوش طبع عالم دین تھے۔ ان کے تفصیلی حالات جاننے کے لئے راقم کا مضمون ہفت روزہ اہل حدیث لاہور کے 14؍اَپریل 2003ء کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیے۔
3. ریاض قدیر: بورے والا میں رہتے اور اپنا کاروبار کرتے ہیں، نیک اور صالح اِنسان ہیں۔
4.  زبیر احمد: مستندعالم دین ہیں، بورے والا کے ایک سرکاری سکول میں پڑھاتے ہیں اور مسجد میں خطیب بھی ہیں۔
بابائے تبلیغ مولانا عبداللہ صاحب سے متعلق یادوں اور ملاقاتوں کے یہ چند ناقابل فراموش نقوش ہیں جو میں نے قارئین کے رُوبرو پیش کئے ہیں۔ مجھ سے کہیں زیادہ بابا جی سے متعلق واقعات ان لوگوں کے دل و دماغ میں محفوظ ہوں گے جن کو راقم سے زیادہ مولانا کی محفل میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ تاہم میرے دل کا تقاضا اور روح کی پکار تھی کہ بابا جی سے متعلق یادوں کو کاغذ کے سینے پر ثبت کیا جائے۔
شا عر اہل حد یث جناب علیم نا صری مر حو م نے مو لا نامحمد عبد اللہ گورداسپوری کے بارے میں ایک نظم ان کی زند گی میں لکھی تھی جو قریباً ایک عشرہ قبل ہفت روزہ ا لاعتصا م لا ہور میں شائع ہو ئی تھی، موقع کی مناسبت سے اسے بھی نذرِ قا رئین کیا جا تا ہے ۔ جنا ب علیم نا صری فرماتے ہیں:
نام ہے لب پر مر ے اک مردِ حق آ گاہ کا        یارِ خیر اندیش ، مو لا نا ئے عبد اللہ کا
وہ مرے مسلک ، مرے نطق و نوا کا ہم صفیر     ہم خیال و ہم زبا ن و دل ر با و دل پذ یر
ہم نوا ئے ہمنوا یا ن ، ہم نشینِ ہم دما ں         دوست دارِ دوستداراں، خیر خواہِ ہم رہا ں
نر م خو و گر م جو، شا ئستہ خو ، شا ئستہ رو       حق پرستو ں کا مصا حب ، اہل با طل کا عدو
خوش کلام و خوش خرا م و خوش بیان و خوش زبا ن       پاک پوش و پا ک نوش و پا ک چشم و پا ک جا ن
عالمِ نکتہ شنا س و فا ضلِ ر مز آ شنا                   اک ادیب علم پر ور ، اک خطیب خوش نوا
محفلو ں میں زعفرا نی ر نگ بھر دیتا ہے وہ        خشک جا نو ں کو بھی لا لہ زار کر دیتا ہے
غم ز دو ں کی دور کر دیتا ہے وہ افسر د گی         فصل گل بنتی ہے اس کو د یکھ کر پژمر د گی
اس کی تقریریں شگفتہ، بزم آ را ، دل نشیں        چٹکلو ں میں بھی سبق آ موز، معنی آ فر ین
منبر و محرا ب میں رو حا نیت کی آ بشار        بز م یا را ں میں شگو فو ں کی بہار اندر بہار
چھو ٹتی ہے بورے وا لا سے جو اس کی پھلجھڑی       بنتی ہے لا ہور کے وہ گل کدو ں کی پنکھڑی
آ ج بھی با نکا ہے میرا سا ل خوردہ دوستدار         شا ہ با لا ئے مسیحا کا بھی ہے امید وار
اس کا فر زندِ گرا می دا نش و بینش مآ ب         ملکِ عر فا ن کا سلیما ن صا حبِ کلک و کتا ب
میرے بھا ئی کی ہو سب او لاد یا ر ب شا د ما ن       ان پہ بر سا ر حمتی اے ما لک کو ن و مکا ن
دین اور دنیا رہے اس کی متین و تا بدار         وہ رہے اپنے عزا ئم میں ہمیشہ کا مگار
مولانا محمدعبداللہ صاحب کی زندگی دعوت و تبلیغ سے عبارت تھی اور اُنہوں نے اس مشن میں عمر گزار دی۔ ایک عرصے سے وہ شوگر اور دل کے عارضے میں مبتلا تھے ،لیکن عوارض سے زیادہ بڑھاپا اُن پر غالب تھا۔ کمزوری، نقاہت اور بڑھاپے کے باوجودوہ تبلیغی پروگراموں میں شوق و عزم سے شریک ہوتے اور اپنی خطابت کی تمام تر رعنائیوں سے سامعین کو محظوظ کرتے۔ 16؍اور 17؍مارچ کو مامو ں کانجن میں آل پاکستان اہل حدیث کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کی صدارت مولانا محمدعبداللہ صاحب نے فرمائی اور سترہ مارچ کی رات اُنہوں نے اپنا خطبہ صدارت ارشاد فرمایا جو ان کے مخصوص طرزِ فکر کا آئینہ دار تھا۔ اسی روز دن کے وقت ان کا قیام فیصل آباد میں تھا اور انہوں نے فون کے ذریعے راقم کی خیریت دریافت کی تھی اور اپنی صحت کے بارے بتایا تھا۔ اس کے بعدبھی ان سے گاہے بگاہے رابطہ رہا۔
مئی کے اِبتدائی دنوں برادر محمد سہیل اَظہر چودھری نے بابا جی کی بیماری کے متعلق بتایا اور کچھ تشویش کا اِظہار کیا۔ ان کا علاج جاری تھا کہ 7؍مئی کو دوپہر ایک بج کر چالیس منٹ پر نہایت افسردہ لہجے میں سہیل صاحب نے اپنے پیارے بابا کی موت کی اِطلاع دی۔ جسے سن کر نہایت صدمہ ہوا۔ تھوڑی دیر بعد ہفت روزہ 'الاعتصام' لاہور کے دفتر سے مولانا محمد سلیم چنیوٹی نے بھی یہی خبر سنائی۔
مولانامحمد عبداللہ صاحب کی شدید خواہش تھی کہ وہ بورے والا میں ہی فوت ہوں اور اسی شہر میں انہیں دفن کیا جائے جہاں وہ 63؍سال سے مرکزی جامع مسجد اہل حدیث میں خطابت و امامت کا فریضہ اَدا کر رہے تھے۔مولانا محمدعبداللہ صاحب کی وفات کی خبر منٹوں میں پورے ملک اور بیرون ملک پہنچ گئی۔ اور لوگ نماز جنازہ میں شرکت کے لئے بورے والا پہنچنا شروع ہو گئے۔ 8؍مئی کو صبح پونے گیارہ بجے مولانا اِرشادالحق اَثری﷾ کی اِقتدا میں نمازِ جنازہ اَدا کی گئی اس میں ہزاروں علما اور عوام بلا تفریق مسلک شریک ہوئے۔ اور بورے والا میں ہی تدفین عمل میں آئی۔ بورے والا کی تاریخ میں مولانا محمدعبداللہ صاحب کا جنازہ مثالی تھا۔ ان کی وفات کے سوگ میں انجمن تاجران نے مارکیٹیں اور بازار بند رکھے جبکہ سرکاری و نیم سرکاری دفاتر اور سکول و کالج بھی بند رہے۔ اس علاقے کے ایم پی اے خالد محمود بھٹی نے سیکورٹی اور دیگر انتظامات میں بھرپور تعاون کیا۔ دیگر یہ کہ مقامی جماعت نے بھی آنے والوں کے لئے ٹھنڈے پانی اور کھانے کا خاطر خواہ انتظام کر رکھا تھا۔ بلا شبہ مولانامحمد عبداللہ صاحب اپنے دور کے رفیع المرتبت عالم دین تھے۔ جو اپنے پیچھے بہت سی خوشگوار یادیں چھوڑ گئے۔اللہ تعالیٰ ان کی حسنات کو قبول فرما کر جنت الفردوس میں ان کے درجات بلند فرمائے۔آمین!

حوالہ جات

1. 'بزم ارجمنداں' از مولانا محمد اسحٰق بھٹی: 608

2. ماہنامہ ضیائے حدیث لاہور ختم نبوت نمبر بنام 'قندیل' اپریل مئی 2009ء

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔