YOUR INFO

Sunday 3 March 2013

والدین کے ساتھ حسن سلوک

0 comments
والدین کے ساتھ حسن سلوک


کیا ہم آپنے ماں باپ کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں جس کا دین ہمیں حکوم دیتا ہے ؟
کیا ہم ان کی فرمابرداری ایسے کرتے ہیں جن کہ وہ مستحق ہیں ؟
کیا ہم ان کو وہ خوشیاں دیتے جو انہوں نے ہمیں دی جس میں خلوص اور محبت تھی؟

آپ کا جواب آپ بخوب جانتے ہیں

ذرا دیکھیں ہمارا رب ہمیں کیا حکم دیتا ہے

{ وَقَضَى رَبُّكَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا . وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا . رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ إِن تَكُونُواْ صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلأَوَّابِينَ غَفُورًا } الإسراء/23-25
 


ترجمہ



اگر وہ (یعنی ماں باپ )تیرے سامنے بڑاپے کو پہنچ جا يں چاہے ایک ان میں سے پہنچے یا دونوں تب بھی ان سے کبھی 'ہوں ' بھی مت کرنا اور نہ ان سے جھڑک کر بولنا ان سے خوب ادب سے بات کرنا ۔ اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے ہمارے پروردگار تو ان پر رحمت کر جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پلا ہے ۔ تمہارا رب تمہارے دل کی بات خوب جانتا ہے اگر تم سعادتمند ہو تو وہ توبہ کرنیوالوں کی خطا یں بڑی کثرت سے معاف کرنیوالا ہے ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر بے ادبی میں اف کہنے سے کوی ادنی درجہ ہوتا تو اللہ جل شانہ اس کو بھی حرام فرمادیتے ۔

حضرت عایشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوے ان کے ساتھ ایک بڑے میاں بھی تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا کہ یہ میرے والد ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان سے آگے نہ چلنا ان سے پہلے نہ بیٹھنا ان کا نام لے کر نہ پکارنا اور ان کو برا نہ کہنا ۔


اگر وہ کوی بات تیری ناگواری کی کہیں تو ترچھی نگاہ سے ان کو مت دیکھ کہ آدمی کی ناگواری اول اسکی آنکھ سے ہی پہچانی جاتی ہے ۔




حضرت عایشہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتی ہیں کہ جس نے اپنے باپ کی طرف تیز نگاہ کرکے دیکھا وہ فرمابردار نہیں ہے ۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل کیا ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کا اپنے وقت پر پڑھنا ۔ میں نے عرض کیا اسکے بعد کونسا عمل ہے ؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ۔ میں نے عرض کیا اسکے بعد؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہاد۔

ایک اور حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ کی رضا والد کی رضا میں ہے اور اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے ۔



ماں باپ کے حقوق میں ہے کہ ایسی تواضع اور تملق کرے اور اداے خدمت کرے کہ وہ راضی ہوجایں جائز کاموں میں ان کی اطاعت کرے بےادبی نہ کرے تکبر سے پیش نہ اے۔
ان کی اطاعت حرام میں تو ناجا‎‎ئز ہے لیکن مشتبہ امور میں واجب ہے
اس لئے کہ مشتبہ امور سے احتیاط تقوی اور ان کی رضا جوئ واجب ہے ۔ اگر ان کا مال مشتبہ ہو اور وہ علیحدہ کھانے سے مکدر ہوں تو ان کے ساتھ کھانا چاہیے



حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کوی مسلمان ایسا نہیں جس کے والدین حیات ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہو اس کے لئے جنت کے دروازے نہ کھل جاتے ہوں اور اگر ان کو ناراض کردے تو اللہ جل شانہ اس وقت تک راضی نہیں ہوتے جب تک ان کو راضی نہ کرلے کسی نہ عرض کیا اگر وہ ظلم کرتے ہوں ابن عباس نے فرمایا اگرچہ وہ ظلم کرتے ہوں۔


حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوے اور جہاد میں شرکت کی درخواست کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری والدہ زندہ ہیں انہوں نے عرض کیا زندہ ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کی خدمت کو مضبوط پکڑلو جنت ان کے پا‎ؤں کے نیچے ہے ۔


حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میرا جہاد کو بہت دل چاہتا ہے لیکن مجھ میں قدرت نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا تمہارے والدین میں سے کوی زندہ ہے انہوں نے عرض کیا والدہ زندہ ہیں ۔ رسول اللہ نے فرمایا ان کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو جب تم ایسا کرو گے تو تم حج کرنے والے بھی ہو ، عمرہ کرنے والے بھی ہو جہاد کرنے والے بھی ہو ، یعنی جتنا ثواب ان چیزوں میں ملتا اتنا ہی تمہیں ملے گا ۔


حضرت عایشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ رسلم سے دریافت کیا کہ عورت پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خاوند کا ۔ میں نے پھر پوچھا کہ مرد پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے ؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ماں کا ۔

ایک حدیث میں رسول اللہ نے فرمایا کہ تم لوگوں کی عورتوں کے ساتھ عفیف رہو تمہاری عورتیں بھی عفیف رہیں گی ، تم اپنے والدین کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرو تمہاری اولاد تمہارے ساتھ نیکی کا برتا‎ؤ کرے گی۔


حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے دریافت کیا کہ میرے بہترین تعلقات کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ رسول اللہ نے فرمایا تمہاری ماں پھر دوبارہ سہ بارہ ماں ہی کو بتایا ۔ پھر فرمایا کہ باپ ، پھر دوسرے رشتہ دار الاقارب فالاقارب( جو جتنا قریب ہو اتنا مقدم ہے )


اس حدیث سے بعض علماء نے استنباط کیا ہے کہ حسن سلوک اور احسان میں ماں کا حق تین حصہ ہے اور باپ کا ایک حصہ اسلئے کہ رسول اللہ نے تین مرتبہ ماں کو بتا کر چوتھی مرتبہ باپ کو بتایا ،


اس کی وجہ علما بتاتے ہیں کہ اولاد کے لئے ماں تین مشقتیں برداشت کرتی ہے

1 حمل کی ،
2 جننے کی ،
3 دودھ پلانے کی ۔


اسی وجہ سے فقہاء نے اس کی تصریح کی ہے کہ احسان اور سلوک میں ماں کا حق باپ پر مقدم ہے اگر کوی شخص ایسا ہو کہ وہ اپنی ناداری کی وجہ سے دونوں کے ساتھ سلوک نہیں کرسکتا تو ماں کے ساتھ سلوک کرنا مقدم ہے البتہ اعزاز اور ادب تعظیم میں باپ کا حق ماں پر مقدم ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ عورت ہونے کی وجہ سے ماں احسان کی زیادہ محتاج ہوتی ہے اور ان دونوں کے بعد دوسرے رشتہ دار ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کی ابتداء کرو اسکے بعد باپ کے ساتھ ،پھر بہن کے ساتھ پھر بھای کے ساتھ الاقارب فالاقارب اور اپنے پڑوسیوں اور حاجتمندوں کو نہ بھولنا ۔

اللہ ہم سب کو اپنے والدین کی انکھوں کی ٹھنڈک بنا 

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔