بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اصول السنۃ
امام اہلسنت والجماعت احمد بن حنبل (رحمۃ اللہ علیہ)
عبدوس بن مالک العطار (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں میں نے سنا کہ:
[امام اہلسنت والجماعت] ابو عبداللہ احمد بن محمد بن حنبل (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں:[1]
ہمارے نزدیک اصول السنۃ (سنت کے اصول) یہ ہیں:
1- جس چیز پر رسول اللہ (ﷺ) کے صحابہ کرام(رضی اللہ عنہم) تھے اس سے تمسک اختیار کرنا۔[2]
2- ان کی اقتداء کرنا۔
3- بدعات کو ترک کردینا۔
4- ہر بدعت گمراہی ہے۔
5- اصحاب اہوا (خواہش نفس کی پیروی کرنے والوں یا بدعتی لوگوں) سے بحث مباحثہ ترک کرنا۔
6- اور ان(بدعتیوں) کے ساتھ بیٹھنا بھی ترک کردینا۔
7- دین میں جھگڑنا، جدال کرنا اور (بےجا) بحث مباحثے (مناظروں)کو ترک کرنا۔
8- سنت ہمارے نزدیک رسول اللہ (ﷺ) کے آثار ہیں۔
9- سنت قرآن کریم کی تفسیر کرتی ہے اور یہ (سنتیں) قرآن کریم کے دلائل ہیں۔
10- سنت میں قیاس نہیں، اور اس کے لئے مثالیں بھی بیان نہیں کرنا، اور اسے عقل یا خواہشات سے نہیں پایا جاسکتا بلکہ یہ (سنت) تو محض اتباع اور خواہش نفس کو ترک کرنے کا نام ہے۔
11- ان لازمی سنتوں میں سے جن میں سے کسی ایک خصلت کو بھی کوئی اس طور پر ترک کرے کہ نہ تو اسے قبول کرے[3] اور نہ ہی اس پر ایمان رکھے تو وہ ان (اہلسنت والجماعت) میں سے نہیں:
12- اچھی بری تقدیر پر ایمان لانا اور اس بارے میں آئی احادیث کی تصدیق کرنااور ان پر ایمان لانا۔ یہ نہیں کہنا کہ (کیوں؟) اور (کیسے؟)، بلکہ محض اس کی تصدیق کرنا اور ایمان لانا ہے۔ جو کسی حدیث کی تفسیر نہیں جانتا ہومگر اس کی عقل اسے سمجھ جائے، تو یہی (محض اس کا معنی سمجھ جانا ہی) اس کے لئے کافی ہے اور وہ اس کے حق میں محکم کے حکم میں ہے۔ اسے چاہیے کہ اس پرایمان لائے اور اسے مکمل طور پر تسلیم کرلے۔جیسا کہ "الصادق المصدوق"[4] والی حدیث، اور اس جیسی دوسری تمام احادیث جو تقدیراور(بروز قیامت)روئیت باری تعالی کے بارے میں ہیں، اگرچہ وہ سننے میں عجیب لگیں اور سننے والا ان سے حیران ہوجائے، اس پر بس ایمان لانا واجب ہے، اور ان میں سے کسی ایک حرف[5] کا یا احادیث کا جو ثقہ راویوں سے ماثور چلی آرہی ہیں انکار نہ کرے۔
13- اور نہ کسی سے جھگڑے اور نہ ہی مناظرہ کرے، اور نہ ہی جدال کرنا سیکھے، کیونکہ تقدیر، روئیت باری تعالی اور قرآن کریم وغیرہ کے بارے میں کلام کرنا مکروہ وممنوعہ طریقوں میں سے ہے، ایسا کرنے والا اگرچہ اپنے کلام سے سنت کو پابھی لے اہلسنت میں سے نہیں یہاں تک کہ جدال کو ترک کرکے آثار کو تسلیم کرے اور ان پر ایمان لائے۔
14- قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے مخلوق نہیں اور یہ کہنے میں کوئی جھجک محسوس نہ کرو کہ: (اللہ کا کلام) مخلوق نہیں اور کہا کہ کلام اللہ(اللہ تعالی کا کلام) اس (اللہ)سے الگ نہیں اور جو اس (اللہ تعالی)سےہے(الگ نہیں)وہ مخلوق نہیں۔ تمہیں ان لوگوں سے مناظرہ کرنے سے بچنا چاہیے جنہوں نے اس میں نئی باتیں ایجاد کیں، اور جو "اللفظ" وغیرہ کہے۔ جو اس میں توقف کرے اور کہے کہ یہ اللہ تعالی کاکلام توہے مگرمجھے نہیں معلوم کہ مخلوق ہے یا غیرمخلوق تو ایسا شخص اسی طرح بدعتی ہے جسطرح جو کہے کہ وہ (قرآن مجید)مخلوق ہے۔ بلکہ (صحیح بات یہ ہے کہ)یہ اللہ تعالی کا کلام ہی ہے جو ہرگز مخلوق نہیں۔
15- بروز قیامت روئیت باری تعالی پر ایمان لانا جیسا کہ نبی کریم (ﷺ) سے صحیح احادیث میں روایت کیا جاتا ہے۔
16- بیشک نبی کریم (ﷺ) نے اپنے رب کا دیدار فرمایا تھا، اور وہ آپ (ﷺ)سے صحیح طور سے ماثور (مروی)ہے۔قتادہ نے روایت فرمائی عکرمہ سے انہو ں نے ابن عباس (رضی اللہ عنہما) سے ، اور الحکم بن ابان نے روایت فرمائی عکرمہ سے انہوں نے روایت کی ابن عباس (رضی اللہ عنہما) سے، اور اسی طرح علی بن زید نے یوسف بن مہران سے انہوں نے ابن عباس (رضی اللہ عنہما) سےروایت فرمائی۔ ہمارے نزدیک یہ حدیث اپنے اسی ظاہری معنی میں ہی سمجھی جائے گی جیسا کہ نبی اکرم (ﷺ) سے مروی ہے۔ اس بارے میں کلام کرنا بدعت ہے، لیکن ہم صرف جو اس کا ظاہر معنی بیان ہوا ہے اس پر ایمان لاتے ہیں ، اور اس بارے میں کسی سے مناظرہ بھی نہیں کرتے۔
17- ہم یوم قیامت کے(قائم ہونے والے) میزان پر ایمان لاتے ہیں، جیسا کہ (حدیث میں) آیا ہے "يوزن العبد يوم القيامة فلا يزن جناح بعوضة"[6] (ایک بندہ بروز قیامت تولا جائے گا تو اس کا وزن ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہ ہوگا)، اور بندوں کے اعمال بھی تولے جائیں گے جیسا کہ اثر میں آیا ہے، ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اسکی تصدیق کرتے ہیں، اور ان سے اعراض برتتے ہیں جو اس کاانکار کرے، اور اس سے مجادلہ(جھگڑا، بحث ومباحثہ) بھی نہیں کرتے۔
18- اللہ تعالی یوم قیامت اپنے بندوں سے اس طرح ہم کلام ہوگاکہ ان کے اور اس کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہوگا، اس پر ایمان لانا اور اس کی تصدیق کرنا۔
19- حوض پر ایمان لانا، اور رسول اللہ (ﷺ) کا یوم قیامت حوض ہوگا جس پر ان کی امت حاضر ہوگی، اس کا عرض اس کے طول کے مساوی ہے جو ایک مہینے کی مسافت ہے۔ اس کے پیالے آسمان کے ستاروں کی تعداد کی طرح ہیں، اس بارے میں خبر ایک سے ذیادہ طریقوں سے صحیح طور پر ثابت ہیں۔
20- عذاب قبر پر ایمان لانا۔
21- اس امت کی آزمائش ان کی قبروں میں کی جاتی ہے، اور ان سے ایمان، اسلام اور اس کا رب کون ہے؟ اور ان کا نبی کون ہے؟ سوالات پوچھے جاتے ہیں، اور ان کے پاس منکر ونکیر آتے ہیں جسطرح اللہ تعالی چاہتے ہیں، اور ارادہ فرماتے ہیں، اس پر ایمان لانا اور تصدیق کرنا ہے۔
22- نبی اکرم (ﷺ) کی شفاعت پر ایمان لانا، اور اس قوم پر جو آگ جہنم سے جل جل کر کوئلہ ہوچکے ہوں گےپھر اس سے باہر نکلے گیں۔ پس انہیں ایک نہر کی جانب جانے کا حکم دیا جائے گا جو جنت کے دروازے پر ہے جیسا کہ اثر (حدیث)سے یہ ثابت ہے، جیسے اور جسطرح اللہ تعالی چاہے، ہمیں تو صرف ایمان لانا اور اس کی تصدیق کرنا ہے۔
23- مسیح دجال کے نکلنے پر ایمان لانا، اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوگا، اور اس بارے میں وارد احادیث پر ایمان لانا، اور یہ ایمان لانا کہ ایساضرور ہونا ہے۔
24- بیشک عیسی (علیہ الصلاۃ والسلام) نازل ہوں گے اور اس (دجال) کو بابِ لد کے پاس قتل فرمائیں گے۔
25- ایمان قول وعمل کا نام ہے، جو بڑھتا اور گھٹتا ہے، جیسا کہ خبر[7] (حدیث) میں آیا: "أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً"[8] (ایمان کے اعتبار کے سے اکمل ترین مومن وہ ہے جس کے اخلاق سب سے بہتر ہیں)
26- جس نے نماز کو چھوڑا اس نے کفر کیا، اور اعمال میں سے کوئی چیز ایسی نہیں جس کا چھوڑنا کفر ہو سوائے نماز کے، جس نے اسے ترک کیا وہ کافر ہے، اور اللہ تعالی نے اس کا قتل حلال ٹھہرایا ہے۔
27- اس امت میں اس کے نبی (ﷺ) کے بعد سب سے افضل ابو بکر صدیق ہیں، پھر عمر بن خطاب، پھر عثمان بن عفان (رضی اللہ عنہم)ہیں۔ ہم ان تینوں کو مقدم کرتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ (ﷺ) نے انہیں مقدم فرمایا، اس میں کوئی اختلاف نہیں کرتے۔ پھر ان تینوں کے بعدپانچ اصحابِ شوری ہیں: علی بن ابی طالب، طلحہ،زبیر، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہم) یہ سب خلافت کے لئے اہل تھے، اور یہ سب اما م تھے۔ اس بارے میں ہم حدیث ابن عمر (رضی اللہ عنہما)پر چلتے ہیں: "كنا نعد – ورسول الله (ﷺ) حي وأصحابه متوافرون: أبو بكر، ثم عمر، ثم عثمان، ثم نسكت"[9] (رسول اللہ (ﷺ) کی زندگی میں جب آپ (ﷺ) کے صحابہ (رضی اللہ عنہم)وافر مقدار میں موجود تھے ہم کہا کرتے تھے (بلحاظِ فضیلت ومرتبہ)ابوبکر، پھر عمر، پھر عثمان پھر خاموش ہوجاتے تھے)۔ ان اصحاب شوری کے بعد اصحاب رسول اللہ (ﷺ) میں سے مہاجرین میں سے اہل بدر پھر انصار میں سے اہل بدر اور پھر جو ہجرت وایمان لانے میں سبقت کرنے میں اول تھے پس وہ (مرتبے میں بھی)اول ہیں۔
28- ان اصحاب رسول اللہ (ﷺ) کے بعد افضل ترین لوگ اس دورونسل کے ہیں جس میں رسول اللہ (ﷺ) مبعوث ہوئے۔ جس کسی نے بھی رسول اللہ (ﷺ) کی صحبت اختیار کی خواہ ایک سال ہو، ایک مہینہ، ایک دن، ایک گھنٹہ یا صرف دیکھا بھی ہو تو وہ آپ (ﷺ) کے صحابہ میں سے ہے۔ اس کا صحابیت میں سے اتنا ہی حصہ ہے جتنی اس کی رسول اللہ (ﷺ)سے صحبت رہی، ان کے ساتھ سبقت کی، ان سے کچھ سنا، اور آپ (ﷺ) کی ایک جھلک بھی دیکھی ہو۔ پس ان میں سے جو ادنی ترین صحبت کا بھی حامل ہو وہ اس دورونسل سے بہتر ہے جس نے انہیں نہ دیکھا ہو چاہے وہ (بعد میں آنے والے) اللہ تعالی سے تمام اعمال خیر کے ساتھ ملاقات کریں۔ جنہوں نے نبی کریم (ﷺ) کی صحبت اختیار فرمائی اور ان کا دیدار فرمایا اور ان سے سماعت فرمایا، جنہوں نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ان پر ایمان لائے اگرچہ ایک ساعت کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔ اپنی صحبت کے اعتبار سے تابعین سے افضل ہے چاہے وہ (تابعین) تمام اعمال خیر ہی کیوں نہ بجالائیں۔
29- امیر المؤمنین جو خلافت پر والی ومتمکن ہوجائے اور لوگ اس پر مجتمع ہوکر راضی ہوجائیں، یاپھر جو تلوار کے زور پر غالب ہوجائے یہاں تک کہ (اپنے آپ) خلیفہ بن بیٹھے، اور امیر المؤمنین (مسلمانوں کا حکام) کہلایا جانے لگےتو اس کا حکم سننا اور اطاعت کرنا ہے خواہ نیک ہو یا بد۔
30- امراء(حکام)خواہ نیک ہویابدکےساتھ مل کر(ان کی سربراہی میں)تاقیام قیامت غزوہ (جہاد)باقی رہے گا، اسے چھوڑا نہیں جائے گا۔
31- اسی طرح مال فئ کی تقسیم اور اقامتِ حدود ان آئمہ (حکام) کے ساتھ باقی رہے گی۔ کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ ان پر طعن کرے یا ان سے (حکومت کے معاملے میں) تنازع برتے۔ انہیں صدقات (زکوۃ) ادا کرنا جائز ونافذ رہے گا۔ جو اس (زکوۃ)کو ان (حکام)کو ادا کردے تو یہ اس کے لئے کافی ہے۔ (یہ تمام باتیں ان حکام کے حق میں باقی رہیں گی)خواہ نیک ہو یا بد۔
32- ان (حکام) کے پیچھے اور جنہیں یہ امام مقرر کریں ان کے پیچھے نماز جمعہ جائز ہےاورباقی ہے مکمل دو رکعتیں۔ جس نے اپنی نماز کو (ان کے پیچھے پڑھنے کے بعد)لوٹایا تو وہ بدعتی، آثار کو ترک کرنے والا اور سنت کی مخالفت کرنے والا ہے۔ اگر وہ نیک وبد آئمہ کے پیچھے نماز کو جائز نہیں سمجھتا تو اس کے لئے جمعہ کی فضیلت میں سے کچھ بھی حصہ نہیں۔ سنت یہ ہےکہ ان کے ساتھ دو رکعتیں پڑھو، اور یہ یقین رکھو کہ یہ مکمل ادا ہوگئی ہے، اور تمہارے دل میں اس بارے میں کوئی شک بھی نہ ہو۔
33- جو آئمہِ مسلمین(مسلمانوں کے حکام) پر خروج کریں جبکہ لوگ اس پر مجتمع ہوچکے ہوں اور اس کی خلافت (حکومت) کا اقرار کرتے ہوں کسی بھی طور پر چاہے رضامندی سے ہو یا (جبراً) غلبہ حاصل کرکے (تو ایسے حکام پر بھی خروج کرنے والا) مسلمانوں کی حکومت واتحاد کو پارہ پارہ کرنے والا ہے، اور رسول اللہ (ﷺ) سے ثابت شدہ آثار (احادیث) کی مخالفت کرنے والا ہے۔ اگر وہ اسی خروج کی حالت میں موت پاتا ہے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔
34- سلطان (حاکم) سے قتال کرنا (تختہ الٹنا)جائز نہیں، اور نہ ہی کسی انسان کے لئے ان پر خروج جائز ہے۔ جس نے ایسا کیا تو وہ بدعتی ہے نبی کریم (ﷺ)کی سنت اور ان کےطریقے پر نہیں۔
35- چوروں (ڈاکوؤں) اور خوارج سے قتال کرنا جائز ہے اگرو ہ کسی شخص کی جان ومال کے درپے ہوں تو اسے چاہیے کہ اپنی جان ومال کی حفاظت کے لئے ان سے لڑے اور ان کا دفاع کرے جس قدر بھی اس کی طاقت ہو۔ مگر اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ اگر وہ اسے چھوڑ کر بھاگ جائیں تو انہیں طلب کرے یا ان کا پیچھا کرےیہ حق سوائے مسلمانوں کےحکمرانوں کے اور کسی کا نہیں۔ اسے بس چاہیے کہ وہ اپنے جگہ پر اپنا دفاع کرے اور اپنی اس کوشش کے بارے میں یہ نیت رکھے کہ کسی کو قتل نہیں کرنا، لیکن اگر اس کے ہاتھوں اپنا دفاع کرتے ہوئے لڑائی میں کوئی قتل ہوجائےتو اللہ تعالی نے اس مقتول (چور وغیرہ) کو رفع دفع کردیا، اور اگر یہ دفاع کرنے والا اس حالت میں کہ وہ اپنی جان ومال کا دفاع کررہا تھا قتل ہوجائے تو اس کی شہادت کی امید کی جاتی ہے۔ اس بارے میں جو احادیث اور تمام آثار آئے ہیں ان میں صرف اس سے (موقع پر) لڑنے کا حکم ہے، اس کے (لازمی) قتل کرنے یا اس کا پیچھا کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، اور نہ ہی اس پر خود حملہ آور ہونے کا اگر وہ گر جائے یا زخمی ہوجائے، یاپھر اسے بطور قیدی قید کرلے تو اس کے لئے جائز نہیں کہ اسے قتل کردے، اور نہ ہی اس پر حد قائم کرے، بلکہ اس کا معاملہ اس حاکم تک لے جائے جسے اللہ تعالی نے اس کا ذمہ دار بنایا ہے، اور وہی اس کے بارے میں فیصلہ کرے گا۔
36- (امام احمد نے)فرمایا کہ ہم اہلِ قبلہ میں سے کسی کے بارے میں اس کے عمل کی بناء پر جو وہ کرتا ہے (قطعی طور پر) جنت یا جہنم کی گواہی نہیں دیتے، (بلکہ) نیکوکار کے لئے (جنت کی) امید رکھتے ہیں اور گنہگار کے لئے (جہنم) کا خدشہ رکھتے ہیں، اور (ساتھ ہی)اس کے لئے اللہ تعالی کی رحمت کی امید بھی رکھتے ہیں۔
37- جس نے ایسا گناہ کیا جس سے جہنم واجب ہوتی ہےمگر اس پر اصرار نہ کرتے ہوئے تائب ہوگیا اور اس حال میں اللہ تعالی سے ملاقات کی تو اللہ تعالی اس کی توبہ کو قبول فرماتے ہیں۔ وہی اپنے بندوں کی توبہ کو قبول فرماتے اور گناہوں سے درگزر فرماتے ہیں۔
38- جس نے کوئی ایسا گناہ کیا جس کی حد اس پر دنیا میں قائم ہوچکی ہو اور اس حال میں اللہ تعالی سے ملاقات کی تو وہ اس کے لئے کفارہ ہوگا، جیسا کہ رسول اللہ (ﷺ) سےمروی خبر(حدیث) میں وارد ہوا۔
39- (لیکن) جس نے ایسا گناہ کیا جس پر عقوبت وسزا مقرر ہے اور وہ اس پر اصرار کرتا ہےاور توبہ نہیں کرتااور اسی حال میں اللہ تعالی سے ملاقات کی تو اس کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے چاہے تو اسے عذاب فرمائے اور چاہے تو اسے بخش دے۔
40- (مگر) جو اس حال میں اللہ تعالی سے ملاقات کرے کہ وہ کافر ہو تو اللہ تعالی اسے عذاب فرمائیں گے اور مغفرت نہیں فرمائیں گے۔
41- رجم (سنگسار ) کرنا برحق ہے اس شخص کو جو شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرے، جب وہ اعتراف کرے یا اس پر دلیل وگواہی قائم ہوجائے۔
42- رسول اللہ (ﷺ) نے بھی رجم فرمایا۔
43- اور آئمہ (خلفائے) راشدین نے بھی۔
44- جس نے کسی ایک بھی صحابئ رسول اللہ (ﷺ) کی شان میں تنقیص کی یا ان سے کسی واقعے کی بناء پر جو ان سے صادر ہوا بغض کیا یا پھر ان کی برائیاں بیان کیں، تو وہ اس وقت تک بدعتی رہےگا جب تک کہ تمام (صحابہ) پر رحم نہ فرمائے اور اس کا دل ان کے بارےمیں (کسی بھی قسم کے کینے سے)صاف وسلیم نہ ہوجائے۔
45- نفاق کفر ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کا کفر کرے اور غیر کی عبادت کرے، (لیکن) ظاہر میں اسلام کا اظہار کرے، جیسا کہ رسول اللہ (ﷺ) کے دور میں منافقین تھے۔
46- رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان ہے: "ثلاث من كُنَّ فيه فهو منافق" (تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں پائی جائیں تو وہ منافق ہے) یہ تغلیظ وسختی کے پیش نظر فرمایا گیا جسے ہم بلا تفسیرکےاسی طرح مروی کردیتے ہیں جیسی یہ بیان ہوئی ہے۔
47- اور رسول اللہ (ﷺ) کا یہ فرمان کہ: "لا ترجعوا بعدي كفارا ضلالا يضرب بعضكم رقاب بعض"[10] (میرے بعد کافر و گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے (قتل کرنے) لگ جانا) یا جیسے فرمایا: "إذا التقى المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار"(اگر دو مسلمان تلوار سونتے آمنے سامنے مد مقابل ہوں تو قاتل ومقتول دونوں آگ میں ہیں) یا جیسے فرمایا: "سباب المسلم فسوق وقتاله كفر"[12] (مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کا قتل کرنا کفر ہے) یا جیسے فرمایا: "من قال لأخيه يا كافر فقد باء بها أحدهما"[13] (جس کسی نے اپنے (مسلمان) بھائی کو کہا اے کافر! تو یہ (تکفیر) ان میں سے ایک پر لوٹ آئے گی) یا جیسے فرمایا: "كفر بالله تبرؤ من نسب وإن دق"[14] (اپنے نسب سے خواہ اس کا نسب کتنا ہی کمتر کیوں نہ ہو برئ الذمہ ہونا اللہ تعالی کے ساتھ کفر کرنا ہے)
48- اور اس جیسی دیگراحادیث جو صحیح ومحفوظ ہیں ہم انہیں تسلیم کرتے ہیں اگرچہ ہم اس کی تفسیر نہ بھی جانتے ہوں، اس کے خلاف کلام یا جدال نہیں کرتے، اور ان کی تفسیر نہیں کرتے مگر اسی طرح جیسے یہ بیان ہوئی ہیں اور اسے اس کے سب سے برحق[15] مفہوم کی طرف پھیرتے ہیں۔
49- جنت اور جہنم اللہ تعالی کی دو مخلوق ہیں جو پیدا کردی گئی ہیں، جیسا کہ رسول اللہ (ﷺ) سے روایت آئی ہے: "دخلت الجنة فرأيت قصراً"[16](میں جنت میں داخل ہوا اور ایک محل دیکھا)اور فرمایا: "رأيت الكوثر" (اور نہر کوثر دیکھی)، "اطلعت في الجنة فرأيت أكثر أهلها. . . . . . كذا"(میں جنت پر مطلع ہوا تو میں نے ان کی اکثریت کو۔۔۔ایسا ایسا پایا) اور "اطلعت في النار فرأيت. . . . . . كذاوكذا" (میں جہنم پر مطلع ہوا اور ۔۔ایسا ایسا دیکھا)، جو یہ گمان کرتا ہے کہ یہ دونوں (جنت وجہنم) ابھی تخلیق نہیں کی گئی ہیں، تو وہ قرآن مجید اور احادیث رسول (ﷺ) کو جھٹلانے والا ہے، میں اسے جنت وجہنم پر ایمان رکھنے والا شمار نہیں کرتا۔
50- جو کوئی اہل قبلہ میں سے توحید پر وفات پائے اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور اس کے لئے مغفرت کی دعاء کی جائے گی، اس سے استغفار چھپی ہوئی نہیں۔ اس کے گناہ کے سبب چاہے صغیرہ ہویا کبیرہ ہم اس پر نماز جنازہ کو ترک نہیں کرتے ، اور اس کا (آخری) معاملہ تو اللہ تعالی ہی کے حوالے ہے۔
والحمدللہ وحدہ وصلواتہ علی محمد وآلہ وسلم تسلیما
-----------------------------
حاشیہ
[1] تینوں نسخوں کی روایت کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
امام اللالکائی کی روایت: امام لالکائی اصول اعتقاد اہل سنت والجماعت بتحقیق احمد بن حمدان (1/156) میں فرماتے ہیں: ہمیں خبردی عبداللہ بن السکری نے فرمایا: ہمیں بیان کیا عثمان بن احمد بن عبداللہ بن برید الدقیقی نے فرمایا: ہمیں بیان کیا ابو محمد الحسن بن عبدالوہااب ابو العنبر نے انہوں نے ان کی کتاب میں سے ربیع الاول کے مہینے میں سن 293ھ میں قرات کی، فرمایا: ہمیں ابو جعفر محمد بن سلیمان المنقری نے تنیس میں بیان فرمایا، فرمایا: ہمیں عبدوس نے بیان فرمایا۔۔۔
طبقات الحنابلہ کی روایت: فرمایا محمد بن ابی یعلی نے طبقات الحنابلہ بتحقیق عبدالرحمن العثیمین (2/166) میں فرمایا: میں نے المبارک پر پڑھا اور ان سے کہا: آپ کو خبر دی عبدالعزیزالازجی نے، ہمیں خبر دی علی بن بشران نے، ہمیں خبر دی عثمان جو ابن سماک کے نام سے معروف ہے نے، ہمیں بیان کیا حسن بن عبدالوہاب نے، ہمیں بیان کیا محمد بن سلیمان المنقری نے، وہ فرماتے ہیں: مجھ سے بیان کیا عبدوس نے۔۔۔
شیخ البانی کا تحقیق شدہ نسخہ: (یہ وہ نسخہ ہے جس پر ولید بن سیف النصر بھائی نے اعتماد کیا اور اس کی تقدیم شیخ عید عباسی نے فرمائی): شیخ امام ابو المظفر عبدالملک بن علی بن محمد الہمدانی نے فرمایا: ہمیں بیان کیا شیخ ابو عبداللہ یحیی بن ابی الحسن بن البنا نے، فرمایا: ہمیں خبر دی میرے والد ابو علی الحسن بن احمد بن البنا نے، فرمایا: ہمیں خبردی ابو الحسین علی بن محمد بن عبداللہ بن بشران المعدل نے، فرمایا: ہمیں خبردی عثمان بن احمد بن السماک نے، فرمایا: ہمیں خبردی ابو محمد الحسن بن عبدالوہاب بن ابی العنبر نے کہ ان پر ان کی کتاب میں سےقرات کی گئی ربیع الاول کے مہینے سن 293ھ میں، فرمایا: ہمیں بیان کیا ابو جعفر محمد بن سلیمان المنقری البصری نے نے تنیس میں، فرمایا: مجھ سے بیان فرمایا عبدوس نے۔۔۔
[2] یہ نمبر وار ترتیب اصل متن میں نہیں سہولت کی خاطر انٹرنیٹ پر موجود ایک نسخے سے لی گئی ہے۔ (مترجم)
[3] لالکائى کے نسخے میں (یقلھا) نہ کہے ہے۔
[4] عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) سے مروی قضاء وقدر سے متعلق مشہور حدیث، مکمل حدیث یہ ہے کہ: ہمیں خبر دی رسول اللہ (ﷺ) نے جو صادق و مصدوق ہیں کہ: "تم میں سے ہرایک کی خلقت یہ ہے کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس (40) روز نطفہ بن کر رہتا ہے، پھر وہ خون کا لوتھڑا ہوتا ہے، پھر وہ گوشت کا لوتھڑا ہوتا ہے، پھر اس کی طرف ایک فرشتے کو بھیجا جاتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے، اور اسے چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے: کہ وہ اس کا رزق، موت، عمل، نیک بخت وبدبخت ہونا لکھے۔ پس اللہ تعالی کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں تم میں سے کوئی جنتیوں والے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک بالشت بھر فاصلہ رہ جاتا ہے، تو اس کی لکھت اس پر غالب آتی ہے اور وہ جہنمیوں والے عمل کرنے لگتا ہے اور آخرکار اس میں داخل ہوجاتا ہے، اور تم میں سے کوئی جہنمیوں والے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان بالشت بھر فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی لکھت اس پر غالب آتی ہے اور وہ جنتیوں والے عمل کرنے لگتا ہے، اور آخرکار اس میں داخل ہوجاتا ہے " (متفق علیہ)
[5] لالکائی نے حرف کے بجائے جزاء (ایک جزء) نقل فرمایا ہے۔
[6] البخاري: كتاب التفسير, باب (أُولَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ) [الكهف: 105]، حدیث رقم (4729)۔ مسلم: کتاب صفة القيامة والجنة والنار، حدیث رقم (2785)
[7] طبقات الحنابلۃ میں "اثر" کا لفظ ہے۔
[8] سنن أبي داؤد: كتاب السنة، باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ، حدیث رقم (4682)۔ سنن ترمذی: کتاب الرضاع، باب ماجاء فی حق المراۃ علی زوجھا، حدیث رقم (1162)۔ شیخ البانی نے اس کو صحیح فرمایا۔
[9] مسند احمد (تحقیق احمد شاکر): مسند عبداللہ بن عمر، حدیث رقم (4626) اور احمد شاکر نے فرمایا: اس کی سند صحیح ہے۔ بخاری: کتاب فضائل الصحابہ، باب فضل ابی بکر بعدالنبی (ﷺ)، حدیث رقم (3655) اس میں [ثم نسکت] کے الفاظ نہیں اور حافظ ابن حجر نے اس کی شرح کے وقت اس کی اسانید کی طرف اشارہ فرمایا ہے، کتاب فضائل الصحابہ، باب مناقب عثمان بن عفان ابی عمرو القرشی (رضی اللہ عنہ)، حدیث رقم (3697) اس میں بھی [ثم نسکت] کے الفاظ نہیں ہے مگر یہ اضافہ ہے [ثم نترک اصحاب النبی (ﷺ) لا نفاضل بینھم] (پھر ہم رسول اللہ (ﷺ) کے صحابہ کوچھوڑ دیتے تھے اور ان کے درمیان کوئی امتیاز نہیں برتتے تھے)۔ سنن ترمذی: کتاب المناقب، باب فی مناقب عثمان بن عفان (رضی اللہ عنہ)، حدیث رقم (3707)، اور اس میں بھی [ثم نسکت] کے الفاظ نہیں، اور امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح غریب ہےاور اس طور سے یہ حدیث عبیداللہ بن عمرکی حدیث سے عجیب ہے، اور یہ حدیث ابن عمر (رضی اللہ عنہما) کی حدیث سے مختلف طریقے سے بھی مروی ہوئی ہے۔ شیخ البانی نے اسے صحیح فرمایا۔
[10] مسند احمد (تحقیق احمد شاکر وحمزہ الزین)، حدیث رقم (16644)۔اور جو "ضلالا" (گمراہ نہ ہوجانا) کے لفظ کےبغیر روایت ہوئی وہ بخاری: کتاب العلم، باب الفتن، باب قول النبی (ﷺ): "لاترجعوا۔۔"،حدیث رقم(7077)۔ مسلم: کتاب الایمان، باب معنی فول النبی (ﷺ): "لاترجعوا بعدی کفارا۔۔"، حدیث رقم (65)۔
[11] بخاری: کتاب الایمان، باب "وان طائفتان من المؤمنین اقتتلو فاصلحوا بینھما" فسماھم المؤمنین، حدیث رقم (31)۔ مسلم: کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب اذا تواجہ المسلمان بسیفیھما، حدیث رقم (2888)۔
[12] بخاری: الایمان، باب خوف المؤمن من ان یحبط عملہ وھو لایشعر، حدیث رقم (48)۔ مسلم: کتاب الایمان، باب بیان قول النبی (ﷺ): "سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر"، حدیث رقم (64)۔
[13] بخاری: کتاب الادب، باب من اکفر بغیر تاویل فھو کما قال، حدیث رقم (6103، 6104)۔ مسلم: کتاب الایمان، باب بیان حال ایمان من قال لاخیہ یاکافر، حدیث رقم (60)۔
[14] اسے ابن تیمیہ (رحمہ اللہ) نے اپنی کتاب الایمان میں ذکر کیا، اور شیخ البانی نے اسے حسن قرار دیا۔
[15] لالکائی میں "بالحق" ہے اور طبقات الحنابلہ میں "باجود" (سب سے بہتر) کے الفاظ ہیں۔
[16] بخاری: کتاب بدء الخلق، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وانھا مخلوقۃ، حدیث رقم (3242)۔ مسلم: کتاب فضائل الصحابہ، باب من فضائل عمر (رضی اللہ عنہ)، حدیث رقم (2394، 2395)
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔