YOUR INFO

Friday 8 March 2013

نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم

0 comments
نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم
الحمد للہ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علی رسولہ الامین ، أما بعد:
متواتر حدیث میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنے دائیں ہاتھ پر رکھتے تھے۔ دیکھئے نظم المتناثر (ص ۹۸ حدیث:۶۸)
اس کے سراسربرعکس مالکیوں کی غیر مستند کتاب "المدونہ" میں لکھا ہوا ہے:
      "وقال مالک فی وضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلوٰۃ قال: لا اعرف ذلک فی الفریضۃ وکان یکرھہ ولکن فی النوافل اذا طال القیام فلاباس بذلک یعین بہ نفسہ"
(امام) مالک نے نماز میں ہاتھ باندھنے کے بارے میں کہا: "مجھے فرض نماز میں اس کا ثبوت معلوم نہیں" وہ اسے مکروہ سمجھتے تھے، اگر نوافل میں قیام لمبا ہوتو ہاتھ باندھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس طرح وہ اپنے آپ کو مدد دے سکتا ہے۔ (المدونہ ۷۶/۱)
تنبیہ: مدونہ ایک مشکوک اور غیر مستند کتاب ہے۔دیکھئے القول المتین فی الجہر بالتامین(ص ۷۳)
اس غیر ثابت قول کے مقابلے میں موطا امام مالک میں باب باندھا ہوا ہے:
"باب وضع الیدین احداھما علی الاخری فی الصلوٰۃ" (۱۵۸/۱)
اس باب میں امام مالک سیدنا سہل بن سعد t والی حدیث لائے ہیں:
"کان الناس یؤمرون أن یضع الرجل الیدالیمنیٰ علی ذراعہ الیسریٰ فی الصلوٰۃ"
لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع پر رکھے۔
(۱۵۹/۱ح ۳۷۷والتمہید  ۹۶/۲۱،  والاستذکار: ۳۴۷ والزرقانی: ۳۷۷)
ابن عبدالبر نے کہا:
"وروی ابن نافع وعبدالمالک ومطرف عن مالک أنہ قال: توضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلوٰۃ فی الفریضۃ والنافلۃ ، قال : لا باس بذلک ، قال ابو عمر: وھو قول المدنیین من اصحابہ"
ابن نافع، عبدالمالک اور مطرف نے (امام ) مالک سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا: "فرض اور نفل (دونوں نمازوں) میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنا چاہیے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔" ابو عمر (ابن عبدالبر) نے کہا: اور ان (امام مالک) کے مدنی شاگردوں کا یہی قول ہے۔"   (الاستذکار: ۲۹۱/۲)
"مدونہ" کی تقلید کرنے والے مالکی حضرات ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں، اگر کسی مقلد مالکی سے ہاتھ چھوڑنے کی دلیل پوچھی جائے تو وہ کہتا ہے کہ :
" میں امام مالک کا مقلد ہوں، دلیل ان سے جاکر پوچھو،مجھے دلائل معلوم ہوتے تو میں تقلید کیوں کرتا؟"     (تقریر ترمذی ص ۳۹۹)
شیعہ اور مقلد مالکیوں کے مقابلے میں اہل حدیث کا مسلک یہ ہے کہ ہر نماز میں حالت ِ قیام میں ہاتھ باندھنے چاہئیں۔اور دایاں ہاتھ بائیں ذراع پر رکھنا چاہیے۔
ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے ، اہل حدیث کے نزدیک نماز میں ناف سے اوپر سینے پر ہاتھ باندھنے چاہییں۔
سیدنا ہلب الطائی t فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ (نماز میں) یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے۔ (مسند احمد ۲۲۶/۵، وسندہ حسن)
امام بیہقی لکھتے ہیں: "باب وضع الیدین علی الصدر فی الصلوٰۃ من السنۃ"
باب : نماز میں سینے پر ہاتھ رکھنا سنت ہے۔   (السنن الکبری للبیہقی ۳۰/۲)
اس کے برعکس حنفی وبریلوی و دیوبندی حضرات یہ کہتے ہیں کہ
"نماز میں ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے چاہییں۔"
حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں:
وقال الثوری وأبو حنیفۃ واسحاق : أسفل السرۃ، ورویٰ ذلک عی علی وابی ھریرۃ والنخعی ولا یثبت ذلک عنھم وھو قول أبی مجلز۔"
ثوری، ابو حنیفہ اور اسحاق (بن راہویہ) کہتے ہیں کہ ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے چاہییں(!) اور یہ بات علی (t)اور ابو ہریرہ (t)اور (ابراہیم )نخعی سے مروی ہے مگر ان سے ثابت نہیں ہے اور ابو مجلز کا یہی قول ہے۔    (التمہید ۷۵/۶۰)
سعودی عرب کے مشہور شیخ عبداللہ بن عبدالرحمٰن الجبرین کی تقدیم و مراجعت سے چھپی ہوئی کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ : "الصواب: السنۃ وضع الید الیمنیٰ علی الیسریٰ علی الصدر" صحیح یہ ہے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ، سینے پر رکھنا سنت ہے۔
(القول المتین فی معرفۃ ما یہم المصلین ص ۴۹)
امام اسحاق بن راہویہ اپنے دونوں ہاتھ ، اپنی چھاتیوں پر یا چھاتیوں سے نیچے (سینے پر) رکھتے تھے۔          (مسائل الامام احمد واسحاق ص ۲۲۲ وصفۃ صلوٰۃ النبی ﷺ ص ۶۱)
اس کے برعکس دیوبندی وبریلوی حضرات یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ
"غیر مقلدین کہتے ہیں کہ ہاتھ سینے پر باندھنے چاہییں۔"         (حدیث اور اہل حدیث ص۲۷۹)
دیوبندیوں وبریلویوں کا یہ دعویٰ ہے کہ "مردتو ناف سے نیچے ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینہ پر ہاتھ باندھیں " حالانکہ اس دعویٰ کی کوئی صریح دلیل ان کے پاس نہیں ہے۔
آخر میں عرض ہے کہ بریلویوں ودیوبندیوں کے ساتھ اہل حدیث کا اصل اختلاف عقائد اور اصول میں ہے ۔ دیکھئے القول المتین فی الجہر بالتامین ص ۸ تا ۱۸
      جو شخص کلمہ پڑھ کر دین اسلام میں داخل ہوتا ہے اس پر نماز کی ادائیگی فرض ہوجاتی ہے۔
دیکھئے سورۃ النساء آیت نمبر ۱۳۰، نیز ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
]قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ Oالَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ O [
یقینا فلاح پائی اہل ایمان نے جو اپنی نمازوں میں خشوع کرتے ہیں۔      (المؤمنون: ۱،۲)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ (چیزوں) پر رکھی گئی ہے:
۱۔   اشھد ان لا الہ الا اللہ اور اشھد ان محمدارسول اللہ۔
۲۔   نماز قائم کرنا                  ۳۔   زکوٰۃ ادا کرنا
۴۔   حج کرنا                  ۵۔   اور رمضان کے روزے رکھنا
(ھذا حدیث صحیح متفق علی صحتہ، شرح السنۃ للبغوی ج ۱ ص۱۷، ۱۸ ح۶، البخاری:۸، مسلم: ۱۶)          
قیامت کے دن انسان سے پہلا سوال نماز کے بارے میں ہوگا۔    (سنن ابن ماجہ: ۱۴۲۶ وسندہ صحیح وصححہ الحاکم علیٰ شرط مسلم  ۲۶۲/۱، ۲۶۳ ووافقہ الذہبی ولہ شاہد عنداحمد ۶۵/۴، ۱۰۳،۳۷۷/۵)
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ((صلوا کما رایتمونی اصلی))
      نماز اسی طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔       (صحیح بخاری ۸۹/۲ ح۶۳۱)
نماز میں ایک اہم مسئلہ ہاتھ باندھنے کا ہے ، ایک گروہ کہتا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنا رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔
دلیل نمبر ۱:
سہل بن سعد tنے فرمایا: لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع پر رکھیں [یہ حدیث مرفوع ہے] (مؤطا امام مالک ۱۵۹/۱ ح۳۷۷، صحیح بخاری مع فتح الباری ۱۷۸/۲ح ۷۲۰)
دلیل نمبر۲:
نمازمیں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے کی احادیث متعددصحابہ سے صحیح یا حسن اسانید کے ساتھ مروی ہیں، مثلاً:
۱۔   وائل بن حجر t  (مسلم: ۴۰۱ وابوداؤد: ۷۲۷)
۲۔   جابر t           (احمد ۳۸۱/۳ح ۱۵۱۵۶ وسندہ حسن)
۳۔   ابن عباس r  (صحیح ابن حبان ، الموارد: ۸۸۵ وسندہ صحیح)
۴۔   عبداللہ بن جابر البیاضی t
      (معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم الاصبہانی ۱۶۱۰/۳ ح۴۰۵۴وسندہ حسن واوردہ الضیاء فی المختارۃ ۱۳۰/۹ح۱۱۴)
۵۔   غضیف بن الحارث t       (مسند احمد ۱۰۵/۴، ۲۹۰/۵ وسندہ حسن)
۶۔   عبداللہ بن مسعود t         (ابوداؤد: ۷۵۵ وابن ماجہ: ۸۱۱ وسندہ حسن)
۷۔  عبداللہ بن زبیر t           (ابوداؤد: ۷۵۴ واسنادہ حسن واوردہ الضیاء المقدسی فی المختارۃ ۳۰۱/۹ح ۲۵۷)
یہ حدیث متواتر ہے۔     (نظم المتناثر من الحدیث المتواتر ص۹۸ ح ۶۸)
دوسرا گروہ کہتا ہے نما ز میں ارسال کرنا چاہیے (ہاتھ نہ باندھے جائیں)
اس گروہ کی دلیل
      المعجم الکبیرللطبرانی میں معاذ بن جبل t سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں ارسال یدین کرتے تھے اور کبھی کبھار دائیں ہاتھ کو بائیں پر رکھتے تھے۔    (مجمع الزوائد۱۰۲/۲)
اس دلیل کا جائزہ
اس رویات کی سند کا ایک راوی خصیف بن جحدر ہے۔       (المعجم الکبیر للطبرانی ۷۴/۲۰، ح۱۳۹)

امام بکاری ، ابن الجارود، الساجی شعبہ ، القطان اور ابن معین وغیرہ نے کہا: کذاب (جھوٹا) ہے۔           (دیکھئے لسان المیزان ۴۸۶/۲)
حافظ ہیثمی نے کہا: کذاب ہے۔       (مجمع الزوائد ۱۰۲/۲)
معلوم ہوا کہ یہ سند موضوع (من گھڑت) ہے لہٰذا اس کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے۔
تقلید پرستی کا ایک عبرتناک واقعہ
حسین احمد مدنی ٹانڈوی دیوبندی فرماتے ہیں:
      "ایک واقعہ پیش آیا کہ ایک مرتبہ تین عالم (حنفی ، شافعی اور حنبلی) مل کر ایک مالکی کے گھر گئے اور پوچھا کہ تم ارسال کیوں کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ : میں امام مالک کا مقلد ہوں دلیل ان سے جاکر پوچھو، مجھے دلائل معلوم ہوتے تو تقلید کیوں کرتا ، تو وہ لوگ ساکت ہوگئے۔"   (تقریر ترمذی ص۳۹۹ مطبوعہ کتب خانہ مجیدیہ ملتان)
معلوم ہوا کہ تقلید کرنے والا دلیل کی طرف دیکھتا ہی نہیں اور نہ دلیل سنتا ہے ، یاد رہے کہ امام مالک سے ارسال یدین قطعاًٍ ثابت نہین ہے۔ مالکیوں کی غیر مستند کتاب "مدونہ" کا حوالہ مؤطا امام مالک کے مقابلے میں مردود ہے۔
  اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ نماز میں ہاتھ باندھنا ہی سنت ہے۔ اور نمازمیں ہاتھ نہ باندھنا خلاف سنت ہے

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔