حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
عثمان بن عفان بن ابی العاص ابن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف
ابو عبداللہ اور ابوعمر کنیت
والد ماجد کا نام عفان اور والدہ ماجدہ کا نام ارویٰ
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا سلسلہ پانچویں پشت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی نانی بیضاء ام الحکیم عبداللہ بن عبدالمطلب کی سگی بہن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔ اس لیے حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) ماں کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی قریبی رشتہ دار ہیں۔
بحوالہ : فتح الباری ، کتاب المناقب : آن لائن ربط
امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ امت نے حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کو متفق علیہ طور پر اپنا امام اور پیشوا بنایا تھا۔ آپ خلافتِ راشدہ کے تیسرے خلیفہ ہیں۔ آپ (رضی اللہ عنہ) کی خلافت کی مدت 12 سال ہے۔ مستند تاریخی واقعات سے ثابت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ممالک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں فتح کئے گئے۔ دنیائے اسلام میں سیدنا عثمان (رضی اللہ عنہ) سے بڑا حکمران پیدا ہی نہیں ہوا۔
یہ ایک عظیم شخصیت ہیں کہ جن کی بعض امتیازی فضیلتوں اور حیثیتوں میں کائینات کا کوئی دوسرا فرد شریک نہیں ہے !
اور وہ امتیازی خصوصیت اور فضیلت یہ ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو بیٹیاں ان کے نکاح میں دی ہیں۔ یہ اتنا بڑا شرف ہے کہ اس شرف میں کائینات کا کوئی دوسرا فرد و بشر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ہمسر نہیں ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں ان سے عظیم کوئی نہ تھا اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیٹی کے فوت ہو جانے کے بعد دوسری بیٹی کا رشتہ بھی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ہی دیا ہے جو ان کے عظیم سے عظیم تر ہونے کی دلیل ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کے سبب ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ذو النورین (دو نوروں والا) کا لقب حاصل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جنتی ہونے کی بشارت دی گئی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک باغ میں تھے اور باغ کے دروازے پر حضرت ابوموسیٰ موجود تھے تب وہاں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم آئے جنہیں نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جنتی ہونے کی بشارت دی۔
پھر راوی ابوموسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ ۔۔۔
پھر دروازے پر ایک اور شخص آیا اور اس نے بھی اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
راوی ابوموسیٰ اشعری آگے کہتے ہیں کہ ۔۔۔ میں نے دیکھا تو وہ عثمان تھے !
صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ : آن لائن ربط
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے آپ رضی اللہ عنہ کو "شہید" قرار دیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ احد پہاڑ پر چڑھے تو وہ کانپنے لگا، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنا پاؤں اس پر مارتے ہوئے فرمایا :
صحيح البخاري ، كِتَاب الْمَنَاقِبِ : آن لائن ربط
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خصوصیات میں ایک یہ بھی تھی کہ وہ اس قدر باحیا تھے کہ فرشتے بھی ان سے حیا کرتے تھے۔
نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے آپ (رضی اللہ عنہ) ہی کے متعلق ارشاد فرمایا تھا :
أَلَا أَسْتَحِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ
کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ؟
صحيح مسلم ، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ : آن لائن ربط
مشرکینِ مکہ کے غیض و غضب سے لاچار ہو کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اشارہ پر اور حق و صداقت کی محبت میں وطن اور اہلِ وطن کو چھوڑ کر حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) اپنی اہلیہ محترمہ سیدہ رقیہ (رضی اللہ عنہا) کے ساتھ جلا وطن ہوئے۔ اس جلاوطنی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا :
ان عثمان اول
میری امت میں عثمان پہلا شخص ہے جو اپنے اہل و عیال کو لے کر جلا وطن ہوا۔
بحوالہ : الاصابہ : آن لائن ربط
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق مشہور ہے کہ آپ احد اور بدر کی جنگوں میں اور بیعتِ رضوان میں بھی حاضر نہیں تھے۔ اہلِ حق جب اس کی وجوہات جاننے کی جستجو کرتے ہیں تو صحیح بخاری میں درج حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی وضاحت سامنے نظر آتی ہے۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔۔۔
قریب آؤ ، اب میں تمہیں ان واقعات کی تفصیل سمجھاؤں گا۔
احد کی لڑائی والی لغزش کے متعلق میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا ہے (بحوالہ : سورہ آل عمران ، آیت:155)
بدر کی لڑائی میں غیر حاضری کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صاحبزادی رقیہ (رضی اللہ عنہا) ان کے نکاح میں تھیں اور وہ سخت بیمار تھیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان (رضی اللہ عنہ) سے فرمایا تھا:
ان لک اجر
تمہیں جنگِ بدر میں ایک شریک کے برابر ثواب اور مالِ غنیمت سے حصہ ملے گا۔
اور جہاں تک بیعتِ رضوان سے ان کے غیر حاضر ہونے کا تعلق ہے تو اگر مکہ میں عثمان (رضی اللہ عنہ) سے زیادہ کوئی اثر و رسوخ والا ہوتا تو (قریش سے گفتگو کے لیے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کو بھیجتے۔ پس رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عثمان (رضی اللہ عنہ) کو بھیجا۔ اور بیعتِ رضوان ان کے مکہ جانے کے بعد ہوئی۔ اس موقع پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے داہنے ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا تھا :
هَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ (یہ عثمان کا ہاتھ ہے)
اور پھر اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا :
هَذِهِ لِعُثْمَانَ (یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے !)
صحيح البخاري ، كِتَاب الْمَنَاقِبِ : آن لائن ربط
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کا ذکر کیا۔ اس دوران ایک آدمی سر پر کپڑا ڈالے ہوئے گزرا تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا :
ھذا
یہ شخص فتنہ کے دنوں میں ہدایت پر ہوگا۔
حدیث کے راوی نے جب اس شخص کو سامنے سے دیکھا تو وہ عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ راوی نے حضرت عثمان کا چہرہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جانب پھیرتے ہوئے پوچھا :
ان کے بارے میں ہی آپ یہ فرما رہے ہیں؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً کہا : ہاں !
مسند احمد : آن لائن ربط
تقریباً یہی روایت طبرانی اوسط میں بھی ان زائد الفاظ کے ساتھ موجود ہے ۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اتبعوا
اس شخص اور اس کے ساتھیوں کا ساتھ دینا۔
راوی حضرت مرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : میں اس شخص کی طرف ہو لیا۔ وہ عثمان (رضی اللہ عنہ) تھے۔ میں نے انہیں پکڑا اور ان کا چہرہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف کرتے ہوئے عرض کیا :
اے
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اسی شخص کے بارے میں آپ نے فرمایا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : ہاں !
طبرانی : آن لائن ربط
گویا فتنہ کے دَور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حق بجانب قرار دیا بلکہ ان کا ہمنوا بننے اور ان کی تابعداری کا بھی حکم دیا تھا !!
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ماہ ذی الحجہ سن 35 ھجری میں جمعہ کے دن شہید کیا گیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ابو عبداللہ اور ابوعمر کنیت
والد ماجد کا نام عفان اور والدہ ماجدہ کا نام ارویٰ
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا سلسلہ پانچویں پشت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی نانی بیضاء ام الحکیم عبداللہ بن عبدالمطلب کی سگی بہن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔ اس لیے حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) ماں کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی قریبی رشتہ دار ہیں۔
بحوالہ : فتح الباری ، کتاب المناقب : آن لائن ربط
امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ امت نے حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کو متفق علیہ طور پر اپنا امام اور پیشوا بنایا تھا۔ آپ خلافتِ راشدہ کے تیسرے خلیفہ ہیں۔ آپ (رضی اللہ عنہ) کی خلافت کی مدت 12 سال ہے۔ مستند تاریخی واقعات سے ثابت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ممالک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں فتح کئے گئے۔ دنیائے اسلام میں سیدنا عثمان (رضی اللہ عنہ) سے بڑا حکمران پیدا ہی نہیں ہوا۔
یہ ایک عظیم شخصیت ہیں کہ جن کی بعض امتیازی فضیلتوں اور حیثیتوں میں کائینات کا کوئی دوسرا فرد شریک نہیں ہے !
اور وہ امتیازی خصوصیت اور فضیلت یہ ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو بیٹیاں ان کے نکاح میں دی ہیں۔ یہ اتنا بڑا شرف ہے کہ اس شرف میں کائینات کا کوئی دوسرا فرد و بشر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ہمسر نہیں ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں ان سے عظیم کوئی نہ تھا اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیٹی کے فوت ہو جانے کے بعد دوسری بیٹی کا رشتہ بھی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ہی دیا ہے جو ان کے عظیم سے عظیم تر ہونے کی دلیل ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کے سبب ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ذو النورین (دو نوروں والا) کا لقب حاصل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جنتی ہونے کی بشارت دی گئی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک باغ میں تھے اور باغ کے دروازے پر حضرت ابوموسیٰ موجود تھے تب وہاں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم آئے جنہیں نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جنتی ہونے کی بشارت دی۔
پھر راوی ابوموسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ ۔۔۔
پھر دروازے پر ایک اور شخص آیا اور اس نے بھی اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
افْتَحْ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تَكُونُ
اجازت دے دو اور اسے جنت کی بشارت بھی سنا دو ، اور اسے آگاہ کرو کہ اس پر ایک مصیبت نازل ہوگی۔راوی ابوموسیٰ اشعری آگے کہتے ہیں کہ ۔۔۔ میں نے دیکھا تو وہ عثمان تھے !
صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ : آن لائن ربط
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے آپ رضی اللہ عنہ کو "شہید" قرار دیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ احد پہاڑ پر چڑھے تو وہ کانپنے لگا، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنا پاؤں اس پر مارتے ہوئے فرمایا :
اثْبُتْ أُحُدُ فَمَا عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدَانِ
احد ٹھہر جاؤ ! کیونکہ تجھ پر ایک پیغمبر ، ایک صدیق اور دو شہید ہیں !!صحيح البخاري ، كِتَاب الْمَنَاقِبِ : آن لائن ربط
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خصوصیات میں ایک یہ بھی تھی کہ وہ اس قدر باحیا تھے کہ فرشتے بھی ان سے حیا کرتے تھے۔
نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے آپ (رضی اللہ عنہ) ہی کے متعلق ارشاد فرمایا تھا :
أَلَا أَسْتَحِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ
کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ؟
صحيح مسلم ، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ : آن لائن ربط
مشرکینِ مکہ کے غیض و غضب سے لاچار ہو کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اشارہ پر اور حق و صداقت کی محبت میں وطن اور اہلِ وطن کو چھوڑ کر حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) اپنی اہلیہ محترمہ سیدہ رقیہ (رضی اللہ عنہا) کے ساتھ جلا وطن ہوئے۔ اس جلاوطنی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا :
ان عثمان اول
میری امت میں عثمان پہلا شخص ہے جو اپنے اہل و عیال کو لے کر جلا وطن ہوا۔
بحوالہ : الاصابہ : آن لائن ربط
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق مشہور ہے کہ آپ احد اور بدر کی جنگوں میں اور بیعتِ رضوان میں بھی حاضر نہیں تھے۔ اہلِ حق جب اس کی وجوہات جاننے کی جستجو کرتے ہیں تو صحیح بخاری میں درج حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی وضاحت سامنے نظر آتی ہے۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔۔۔
قریب آؤ ، اب میں تمہیں ان واقعات کی تفصیل سمجھاؤں گا۔
احد کی لڑائی والی لغزش کے متعلق میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا ہے (بحوالہ : سورہ آل عمران ، آیت:155)
بدر کی لڑائی میں غیر حاضری کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صاحبزادی رقیہ (رضی اللہ عنہا) ان کے نکاح میں تھیں اور وہ سخت بیمار تھیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان (رضی اللہ عنہ) سے فرمایا تھا:
ان لک اجر
تمہیں جنگِ بدر میں ایک شریک کے برابر ثواب اور مالِ غنیمت سے حصہ ملے گا۔
اور جہاں تک بیعتِ رضوان سے ان کے غیر حاضر ہونے کا تعلق ہے تو اگر مکہ میں عثمان (رضی اللہ عنہ) سے زیادہ کوئی اثر و رسوخ والا ہوتا تو (قریش سے گفتگو کے لیے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کو بھیجتے۔ پس رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عثمان (رضی اللہ عنہ) کو بھیجا۔ اور بیعتِ رضوان ان کے مکہ جانے کے بعد ہوئی۔ اس موقع پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے داہنے ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا تھا :
هَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ (یہ عثمان کا ہاتھ ہے)
اور پھر اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا :
هَذِهِ لِعُثْمَانَ (یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے !)
صحيح البخاري ، كِتَاب الْمَنَاقِبِ : آن لائن ربط
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کا ذکر کیا۔ اس دوران ایک آدمی سر پر کپڑا ڈالے ہوئے گزرا تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا :
ھذا
یہ شخص فتنہ کے دنوں میں ہدایت پر ہوگا۔
حدیث کے راوی نے جب اس شخص کو سامنے سے دیکھا تو وہ عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ راوی نے حضرت عثمان کا چہرہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جانب پھیرتے ہوئے پوچھا :
ان کے بارے میں ہی آپ یہ فرما رہے ہیں؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً کہا : ہاں !
مسند احمد : آن لائن ربط
تقریباً یہی روایت طبرانی اوسط میں بھی ان زائد الفاظ کے ساتھ موجود ہے ۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اتبعوا
اس شخص اور اس کے ساتھیوں کا ساتھ دینا۔
راوی حضرت مرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : میں اس شخص کی طرف ہو لیا۔ وہ عثمان (رضی اللہ عنہ) تھے۔ میں نے انہیں پکڑا اور ان کا چہرہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف کرتے ہوئے عرض کیا :
اے
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اسی شخص کے بارے میں آپ نے فرمایا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : ہاں !
طبرانی : آن لائن ربط
گویا فتنہ کے دَور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حق بجانب قرار دیا بلکہ ان کا ہمنوا بننے اور ان کی تابعداری کا بھی حکم دیا تھا !!
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ماہ ذی الحجہ سن 35 ھجری میں جمعہ کے دن شہید کیا گیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
تُقْتَلُ وَأَنْتَ مَظْلُومٌ ، وَتَقْطُرُ قَطْرَةٌ مِنْ دَمِكَ عَلَى فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ سورة البقرة آية 137
سیدنا عثمان مظلوم قتل ہوئے ، تلاوت کے دوران جب انہیں شہید کیا گیا تو آپ کے خون کے قطرے اس آیت مبارکہ پر ٹپکے :
فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ
اسد الغابہ : آن لائن ربط
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔