مساجد کي اہميت :
ارشاد باري تعالي ہے :
إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللّهِ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلاَةَ {التوبہ18}
خدا کي مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہيں جو خدا پر اور روز قيامت پر ايمان لاتے ہيں اور نماز پڑھتے
1 : اللہ کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم مدينہ منورہ آنے کے بعد سب سے پہلئے مسجد کا کام شروع کيا ہے:
قباميں آپ چنددن ٹھرے اور وہاں مسجد کي بنياد رکھي ۔
پھر جب مدينہ منورہ منتقل ہوئے تو اپنے لئے گھر کي تعمير سے قبل مسجد کي بنياد رکھي ۔
اور صحابہ کے ساتھ آپ خود بھي اسکي تعمير ميں شريک رہے ۔
2 : مسجد کو شريعت ميں اللہ تعالي کا گھر کہا گيا اور اسکي نسبت اللہ کي طرف کي گئي :
وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا{الجن18}
اور يہ کہ مسجديں (خاص) خدا کي ہيں تو خدا کے ساتھ کسي اور کي عبادت نہ کرو
ومااجتمع قوم في بيت من بيوت اللہ يتلون کتاب اللہ ۔۔۔۔ الحديث
{ مسلم عن ابي ھريرۃ}
اس حديث ميں مسجد کو اللہ کے گھر سے تعبير کيا گيا ہے ۔
3 : آپ صلي اللہ عليہ وسلم لوگوں کو مساجد بنانے کا حکم ديتے :
امرنا رسول ببناء المساجد في الدور وان تنظف وتطيب
{ احمد ابوداود عن عائشہ}
"ہميں رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے حکم ديا کہ ہم محلات ميں مسجد تعمير کريں اور اسے پاک وصاف اور معطر رکھيں " ۔
آپ کے پاس وفود آتے تو آپ انہيں بھي مساجد کي بناء کا حکم ديتے ۔
حضرت طلق بن علي بيان کرتے ہيں کہ
4 : کسي علاقے ميں مسجد کا نہ ہونا اور وہاں سے آذان کي آواز کا نہ آنا اس بات کي دليل تھي کہ يہ بستي مسلمانوں کي نہيں ہے :
ان النبي صلي اللہ عليہ وسلم اذاغزا بنا قوم لم يکن يغزو بنا حتي يصبح وينظر اليھم فان سمع الآذان کف عنہم وان لم يسمع اغار عليہم الحديث
{ متفق عليہ عن انس}
5 : مساجد کا تاکيدي حکم :
مامن ثلاثۃ في ضربۃ ولاتقام فيہم الصلاۃ الا قد استحوذ عليہم الشيطان فعليکم با لجماعۃ فان الذئب ياکل من الغنم الفاصبۃ
{احمد ابوداود عن ابي الدرداء}
مسجد کي فضيلت :
1- مسجد بنانے کي فضيلت :
من بنا للہ مسجدا يبتغي بہ وجہ اللہ بني اللہ لہ بيتا في الجنۃ
"جس نے اللہ تعالي کي رضا مندي چاہتے ہوئے مسجد کي تعمير کي اللہ تعالي اس کے لئے جنت ميں گھر کي تعمير فرماتا ہے "
{متفق عليہ عن عثمان}
2- مسجد صدقہ جاريہ ہے :
ان مما يلحق المئومن من عملہ وحسناتہ بعد موتہ علما علم ونشرہ او ولد ا صالحا ترکہ اومصحفا ورثہ اومسجدا بناہ اوبيتالابن السبيل بناہ اونہر ا اجراہ اوصدقۃ اخرجہا من مالہ في صحتہ وحياتہ تلحق من بعد موتہ ۔
{ابن ماجہ ۔ ابن خزيمہ عن ابي ھريرۃ}
++ مذکورہ حديث ميں وجہ استشہاد ہے کہ مسجد کي تعمير صدقہ جاريہ ميں سے ہے ۔
3- مسجد کي محبت عظيم نيکي ہے :
کيونکہ مسجد سے محبت اللہ سے محبت کي دليل ہے اور اللہ سے محبت لاالہ الاللہ کے شرائط ميں سے ہے ،
سبعۃ يظلہم اللہ في ظلہ يو م لاظل الاظلہ ، الامام العادل ، وشاب نشا في عبادۃ اللہ عزوجل ،ورجل قلبہ معلق بالمساجد۔۔۔ الحديث
{ البخاري مسلم عن ابي ھريرۃ}
+++ اس حديث سے مطلوب يہ کہ مسجد کي محبت دل ميں بسانے والے کے لئے قيامت والے دن عرش کا سايہ نصيب ہوگا ۔
4- مسجد کي طرف جانا گويا اللہ کي ضيافت ميں جانا ہے :
من غدا الي المسجد اوراح اعد اللہ لہ نزلا من الجنۃ کلماغدا اوراح
" جو کوئي صبح يا شام ميں مسجد کي طرف جاتا ہے تو اللہ تعالي اس کے لئے جنت کي مہماني تيار فرماتا ہے "
{ متفق عليہ عن ابي ھريرۃ}
5- مسجد کا قصد کرنے والوں کي قيامت کے نرالي شان :
بشر المشائين في الظلم الي المساجد بالنور التام يوم القيامۃ
"خوشخبري ہو تاريکي ميں مسجد کي جانب چلنے والوں کے لئے قيامت کے دن مکمل روشني کي "
{ ابوداود، الترمذي عن بريدۃ}
6- مسجد کي طرف جانا گناہ کاکفارہ اور درجات کي بلندي ہے:
صلاۃ الرجل في الجماعۃ تضعف علي صلاتہ في بيتہ وفي سوقہ خمساوعشرون درجۃ وذلک انہ اذا توضا فاحسن الوضوء ، ثم خرج الي المسجد لايخرجہ الا الصلاۃ لم يحط خطوۃ الا رفعت لہ درجۃ وحط عنہ بہا خطيئۃ ۔۔۔۔ الحديث
{البخاري ، مسلم عن ابي ھريرۃ}
++ اس حديث کا وجہ ذکر يہ کہ مسجد کي طرف قدم بڑھانے والے کے گناہ معاف اور درجات بلند ہوتے ہيں ۔
7-مسجد ميں جانے والوں کي ايک اہم فضيلت :
بما تو طن رجل المساجد للصلاۃ والذکر الاتبشبش اللہ تعالي اليہ کمايتبشبش اھل الغائب بغائبہم اذا قدم عليہم ۔
" جو شخص بھي مسجدميں نماز اور ذکر کيلئے کوئي جگہ بناليتا ہے تو اللہ تبارک وتعالي اسکي آمد پر اسي طرح خشي اور استقبال کا اظہار کرتا ہے جس طرح کسي کا عزيز ايک مدت غائب رہنے کے بعد اسکے پاس آئے۔"
{ ابن ماجہ ، ابن خزيمہ عن ابي ھريرۃ}
8- مسجدميں چھاڑو دينے کي فضيلت :
ان امرۃ سوداء ۔۔۔۔۔۔ {متفق عليہ عن عائشہ}
مذکور ہ حديث ميں اس عورت کا ذکر ہے جو غريب اور کالي کلوٹي تھي اور مسجد نبوي کي صفائي کا اہتمام کرتي تھي ، اس کي وفات ہوجاتي ہے اور لوگ اس کي تدفين کا انتظام فرماديتے ہيں اور اس عورت کوغير اہم جانتے ہوئے اس کي اطلاع بھي نبي صلي اللہ عليہ وسلم کو نہيں پہنچاتے ، بعدميں آپ صلي اللہ عليہ وسلم کے استفسار پر اس عورت کي وفات کا علم ہوتا ہے ، آپ افسوس ظاہر کرتے ہوئے عدم اطلاع کي شکايت کرتے ہيں اور قبرستان پہنچ کر اس گمنام عورت کي نماز جنازہ ادا فرماتے ہيں ۔
اس واقعہ سے اس بات کي اہميت کا اندازہ لگايا جاسکتا ہے کہ مسجد نبوي کي صفائي کرنے والي ايک گمنام عورت کو آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے اس قدر اہميت دي اور اہميت کي اہم وجہ يہي تھي کہ وہ عورت مسجدکي صفائي کا خيال رکھتي تھي ۔
++ مذکوہ تمام احاديث سے ا س بات کي وضاحت ہوچکي ہوگي کہ اسلام ميں مساجد کي کيا اہميت ہے اور اس کي فضيلت کتني عظيم ہے ۔
وما علينا الا البلاغ المبين
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔