YOUR INFO

Friday, 22 March 2013

عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ

0 comments

 عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ

عمر بن الخطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن رباح بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوئی
عمر نام ، ابوحفص کنیت ، فاروق لقب
والد ماجد کا نام خطاب اور والدہ ماجدہ کا نام ختمہ
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا سلسلہ آٹھویں پشت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔

تمام اہل سنت و الجماعت اس بات پر متفق ہیں کہ ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے بعد عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) سب سے افضل صحابی ہیں اور وہی ان کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ تھے۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ، ہجرتِ نبوی سے 40 برس پہلے پیدا ہوئے۔ زمانۂ جاہلیت میں جو لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے ، ان میں سے ایک سیدنا عمر (رضی اللہ عنہ) بھی تھے۔
بحوالہ : الاستيعاب في معرفة الأصحاب ، تذکرہ عمر رضی اللہ عنہ

کتبِ سیرت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک مشہور واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی ہمشیرہ پر ظلم کیا اور پھر انہی کی طرف سے قرآن سننے کے بعد اسلام لے آئے۔ اس ضمن میں ایک روایت خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بھی زبانی ہے کہ ۔۔۔ 

انہوں نے مسجد حرام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے دوران سورۃ الحاقہ کی تلاوت کرتے ہوئے سنا اور وہ قرآن کریم کے نظم و اسلوب سے حیرت زدہ ہو گئے۔ مکمل سورت کی تلاوت سن کر بالآخر انہیں محسوس ہوا کہ اسلام ان کے دل میں پوری طرح گھر کر گیا ہے۔
بحوالہ : الوسيط في تفسير القرآن المجيد ، سُورَةِ الْفَاتِحَةِ : آن لائن ربط

مورخین اسلام کی رائے کے مطابق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبوت کے ساتویں سال میں ایمان لے آئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی تھی کہ ۔۔۔
اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ : بِأَبِي جَهْلٍ , أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ
اے اللہ ! ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے جو آپ کو زیادہ محبوب ہو اس کے ذریعے اسلام کو غلبہ عطا فرما۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ یہ روایت بیان کر کے آگے کہتے ہیں کہ :
وَكَانَ أَحَبَّهُمَا إِلَيْهِ عُمَرُ .
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں میں سے عمر (رضی اللہ عنہ) زیادہ محبوب تھے۔
سنن ترمذی ، کتاب الدعوات ، باب المناقب : آن لائن ربط

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ۔۔۔
مَا زِلْنَا أَعِزَّةً مُنْذُ أَسْلَمَ عُمَرُ
عمر (رضی اللہ عنہ) نے جب سے اسلام قبول کیا تب سے ہماری طاقت و قوت میں اضافہ ہوتا گیا۔
صحیح بخاری ، کتاب المناقب : آن لائن ربط

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دین میں اس قدر پختہ تھے کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان بھی ان کے مقابلے میں آنے سے کتراتا تھا۔
اسی حقیقت کے متعلق نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی ہے کہ ۔۔۔

إِيهًا يَا ابْنَ الْخَطَّابِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ سَالِكًا فَجًّا قَطُّ إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ
اے ابن خطاب ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جب کبھی شیطان کا سرِ راہ تم سے سامنا ہوتا ہے تو وہ تمہارا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے پر چل دیتا ہے۔
صحیح بخاری ، کتاب فضائل الصحاب النبی : آن لائن ربط

یہ بات بھی بہت مشہور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو موقف اختیار کرتے تھے تو اس کی تائید میں قرآن مجید نازل ہو جاتا تھا۔
جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ ۔۔۔
مقام ابراہیم کو مستقل جائے نماز بنانے کی رائے
امہات المومنین کو حجاب کا حکم دینے کی رائے
بدر کے قیدیوں سے متعلق رائے
کے ذریعے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے رب سے موافقت کی تھی۔
صحيح مسلم ، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ : آن لائن ربط

اسی موضوع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔۔۔

إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ
بےشک اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور ان کے دل پر حق رکھ دیا ہے۔
جامع الترمذي ، كِتَاب الدَّعَوَاتِ ، أبوابُ الْمَنَاقِبِ : آن لائن ربط

اور ۔۔۔
لَقَدْ كَانَ فِيمَا قَبْلَكُمْ مِنَ الْأُمَمِ مُحَدَّثُونَ فَإِنْ يَكُ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ فَإِنَّهُ عُمَرُ
تم لوگوں سے پہلی امتوں میں محدثون (الہامی) لوگ ہوا کرتے تھے۔ اگر میری امت میں کوئی ایسا ہے تو وہ عمر ہے۔
صحيح البخاري ، كِتَاب الْمَنَاقِبِ : آن لائن ربط

اسی طرح ۔۔۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرزند ارجمند ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی کچھ ایسی ہی گواہی دیتے ہوئے کہتے ہیں ۔۔۔
جب بھی لوگوں کو کوئی مسئلہ پیش آتا جس میں آراء مختلف ہوتیں اور عمر (رضی اللہ عنہ) کوئی اور رائے پیش کرتے تو قرآن کریم انہی کی رائے کی تائید میں نازل ہو جاتا۔
مسند احمد : آن لائن ربط

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صاف اشارہ ایک حدیث سے یوں ملتا ہے ۔۔۔
دوران خواب میں نے اپنے آپ کو ایسے کنویں پر پایا جس کی منڈیر نہیں تھی ، اس میں ایک ڈول تھا۔ میں نے اس کنویں سے جتنے اللہ تعالیٰ نے چاہے ڈول کھینچے پھر اس ڈول کو ابن قحافہ (ابوبکر) نے تھام لیا۔ انہوں نے اس کنویں سے ایک یا دو ڈول کھینچے ، ان کے کھینچنے کی کمزوری کو اللہ معاف فرمائے ، اس کے بعد ڈول بڑے ڈول میں تبدیل ہو گیا اور اس کو ابن الخطاب نے پکڑ لیا۔ میں نے انسانوں میں کوئی مضبوط طاقتور شخص نہیں دیکھا جو عمر کی طرح ڈول کھینچتا ہو۔ اس نے اتنے ڈول کھینچے کہ سب لوگ جانوروں اور زمین سمیت سیراب ہو گئے۔
صحيح البخاري ، كِتَاب الْمَنَاقِبِ : آن لائن ربط

یہ حدیث سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت کی واضح دلیل ہے کہ ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے بعد وہی خلیفہ راشد قرار پائیں گے۔

سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ خود بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مداح تھے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں کھڑا تھا جو عمر (رضی اللہ عنہ) کیلئے اُس وقت دعا کر رہے تھے جب آپ کو چارپائی پر لٹایا گیا تھا۔ اچانک میرے پیچھے سے ایک شخص نے اپنی کہنی میرے کندھوں پر رکھی اور یوں دعا کی :
{اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے ، مجھے اللہ تعالیٰ سے امید تھی کہ وہ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی جمع کر دے گا، کیونکہ میں اکثر و بیشتر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ سنا کرتا تھا کہ ۔۔۔۔ "میں ، ابوبکر اور عمر تھے، میں ابوبکر اور عمر نے یوں کیا، میں ابوبکر اور عمر گئے" ۔۔۔ تو اسی لیے مجھے (پہلے سے) امید تھی کہ آپ کو اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھیوں کے ساتھ ہی اکٹھا کر دے گا۔}
ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ علی (رضی اللہ عنہ) تھے جو یہ دعا کر رہے تھے۔
صحيح البخاري ، كِتَاب الْمَنَاقِبِ : آن لائن ربط

دس سالہ خلافت کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک بدبخت فیروز ابولولو کے ہاتھوں شہید ہوئے اور یکم محرم سن 24ھ کو اپنا رخت سفر باندھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں ہمیشہ کی نیند سو گئے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔