YOUR INFO

Monday 4 November 2013

ماہ محرم الحرام حرمت والا مہینہ

0 comments

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
محرم الحرام حرمت والا مہینہ ہے

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
''اِنَّ عِدَّةَ الشُّہُورِ عِندَ اللّہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْراً فِیْ کِتَابِ اللّہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ مِنْہَا أَرْبَعَة حُرُم ذَلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ''
ترجمہ:''مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے ۔اسی دن سے کہ آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ان میں سے چار (خصوصی) حرمت و ادب والے ہیں ،یہی درست دین ہے''(سورۃ التوبۃ آیت ٣٦)۔

حجۃ الوداع کے خطبہ میں اللہ کے رسول ۖ نے ارشاد فرمایا تھا،دیکھو زمانہ پھر اپنی پہلی اسی ہیئت پر آگیا جس پر اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا ۔سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں ۔تین تو لگاتار یعنی ذالقعدہ،ذی الحجہ اور محرم الحرام جبکہ چوتھا رجب مضر ہے جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان کے درمیان میں آتا ہے۔(صحیح بخاری مترجم،حدیث ٤٦٦٢)

امام ابن کثیر مندرجہ بالا آیت کے تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:
پس ان کل مہینوں میں گناہوں سے بچو خصوصاً ان چار مہینوں میں کہ یہ حرمت والے ہیں ۔ان کی بڑی عزت ہے ،ان گناہ سزا کے اعتبار سے اور نیکیاں اجرو ثواب کے اعتبار سے بڑھ جاتی ہیں ۔

سیدنا قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ان حرمت والے مہینوںکی سزا اور بوجھ بڑھ جاتا ہے ،گو ظلم ہر حال میں بری چیز ہے ،لیکن اللہ تعالیٰ اپنے جس امر کو چاہے بڑھا دے، دیکھئے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے بھی (کسی کو) پسند فرمایا لیا ہے،فرشتوں میں سے ،انسانوں میں سے رسول چن لئے ،اسی طرح کلام میں سے اپنے ذکر کو پسند فرمالیا ،اور زمین میں سے مسجد کو پسند فرمالیا اور مہینوں میں سے رمضان شریف کو اور ان چاروں مہینوں کو پسند فرمالیا اور دنوں میں سے جمعۃ المبارک کو اور راتوں میں سے لیلۃ القدر کو پسند فرمالیاہے۔

پس تمہیں ان چیزوں کی عظمت کا لحاظ رکھنا چاہیئے جنہیں اللہ نے عظمت دی ہے۔امور کی تعظیم عقل مند اور فہیم لوگوں کے نزدیک اتنی ضروری ہے جتنی ان کی تعظیم اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے۔ ان کی حرمت کا ادب نہ کرنا حرام ہے ان میں جو کام حرام ہیں ان کو حلال نہ کر لو ۔جو حلال ہیں انہیں حرام نہ بنالو جیسے کہ اہل شرک کرتے ہیں یہ ان کے کفر میں زیادتی کی بات تھی۔(تفسیر ابن کثیر جلد٢،صفحہ ٥٥٨،مکتبہ قدوسیہ)

٭شیخ علم الدین سخاوی نے اپنی کتاب ''المشہور فی اسماء الایام والشہور'' میں لکھا ہے کہ محرم کے مہینے کو محرم اس کی تعظیم کی وجہ سے کہتے ہیں ۔(تفسیر ابن کثیر مترجم مکتبہ قدوسیہ)

سن ہجری کا آغاز ماہ محرم الحرام سے ہوا
ماہ محرم الحرام سن ہجری کا پہلا مہینہ ہے جس کی بنیاد تو نبی مکرم ۖ کے واقعہ ہجرت پر ہے لیکن اس اسلامی سال کا تقرر اور آغاز استعمال 17ہجری میں سیدنا عمر فاروق کے عہد خلافت سے ہوا۔بیان کیا جاتا ہے کہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن کے گورنر تھے اور خطوط فارقی وغیرہ آپ کے پاس آتے تھے مگر ان پر تاریخ وغیرہ درج نہ ہوتی تھی تو سیدنا ابو موسیٰ اشعری کے توجہ دلانے پر سیدنا عمر فاروق نے تمام صحابہ کو اس مسئلے کے حوالے سے جمع کیا اور پھر باہم مشورے سے یہ طے کر لیا کہ دن اسلامی تاریخ کی بنیاد واقعہ ہجرت پر رکھی جائے اور اس کی ابتداہ ماہ محرم سے کی جائے ۔(دیکھئے فتح الباری ،جلد ٧،صفحہ ٣٤١،مکتبہ قدوسیہ)

ماہ محرم میں مسنون عمل
ماہ محرم میں خصوصی مسنون عمل (بطور نفل کے)روزہ رکھنا ہے۔صحیح حدیث میں رمضان المبارک کے بعد (نفلی روزوں میں )سب سے افضل روزے ماہ محرم الحرام کے قرار دیئے گئے ہیں ۔نبی مکرم ۖ نے فرمایا:

''افضل الصیام بعد رمضان شہر اللہ المحرم''
ترجمہ:رمضان المبارک کے بعد شہر اللہ محرالحرام کے روزے رکھنا سب سے افضل ہے۔(صحیح مسلم مترجم،حدیث ٢٧٥٥)

عاشوراء کے روزے کی فضیلت
نبی مکرم ۖ کے فرا مین کی روشنی میں اگرچہ یہ نفلی روزہ ہے ،استحبابی عمل ہے مگر ساتھ ہی گناہوں کو اس سے ملا کر بیان کیا گیا ہے ۔

رسول اللہ ۖ سے یوم عاشورہ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ ۖ نے فرمایا ''یکفر السنۃ الماخیۃ''یعنی یہ (روزہ )کزرے ہوئے پورے ایک سال کا کفارہ ہے ۔(گناہوں کی معافی ہے)(صحیح مسلم ،کتاب الصیام)

ابھی یہ بات گزری ہے کہ رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل روزے محرم الحرام کے ہیں لہٰذا ہمیں اس مہینے میں کثرت سے روزے رکھنے چاہیئں،خصوصاً عاشورہ کا روزہ تاکہ یہ عمل صالح ہمارے گناہوں کا کفارہ بن جائے ۔

ایک مسلمان تو ہر وقت اللہ اور اس کے رسول ۖ کے حکم کا پابند ہوتا ہے وہ اپنی مرضی اور کسی غیر نبی کی رائے سے نہ تو کوئی عقیدہ اختیار کرتا ہے اور نہ ہی خوشی و غمی کے انداز ۔دور فتن میں جب اختلاف دکھائی دے تو پھر رجوع الی السنة واجب ہے کہ نجات کی سبیل یہی ہے ۔

نبی علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے :
''علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء راشدین المھدیین----------''
ترجمہ:(اختلاف سے نجات کی راہ یہ ہے کہ)تم میری سنت کو اور خلفائے راشدین کی سنت کو تھام لو، داڑھ کی مضبوطی سے پکڑ لو اور (دیکھنا) دین میں نئے کام ایجاد کرنے سے بچنا کیونکہ ہر نیا کام بدعت ہے اور بدعت باعث گمراہی ہے۔(ابو دائودو ترمذی وغیرہ)

اگرآج مسلمان سارے متحد و متفق ہو کر ہر ہر مہینے میں اور ہر ہر عقیدہ و عمل کے امور میں نبی ۖ اور آپ کے خلفاء کی سنت کو تلاش کر کے اسی پر عمل پیرا ہوں تو یقینا یہ بدعت و خرافات جو ہر مہینے میں نئے نئے انداز سے جنم لیتی ہیں ختم ہو جائیں گی اور مسلمان مجتمع ہو کر صراط مستقیم پر گامزن ہو جائیں گے۔ واللہ ولی التو فیق


یوم عاشوراء اور صوم عاشوراء کی وضاحت
اہل علم کا اس بات میں اختلاف ہے کہ یوم عاشورہ کون سا دن ہے ؟٩محرم الحرام یا ١٠محرم الحرام نیز یہ بھی اختلاف ہے کہ آیا روزہ ٩ محرم الحرام کا رکھا جائے گا یا صرف ١٠ محرم الحرام کا یا پھر ٩ اور ١٠ دونودنوں کا رکھا جائے گا۔

راجح قول یہی ہے کہ ''یوم عاشورائ''١٠محرم الحرام کا دن ہے اور اسی دن روزہ رکھا جائے گا ۔البتہ یہودیوں کی مخالفت شرع میں مطلوب ہے اس لئے ١٠محرم الحرام کے ساتھ یا ٩ محرم کا روزہ رکھ لیا جائے یا پھر دس کے ساتھ ١١محرم الحرام کو ملا لیا جائے اور ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ٩،١٠،اور ١١ محرم الحرام یعنی تینوں دنوں کا روزہ رکھ لیا جائے ۔واللہ اعلم۔

ذیل میں اس علم کے اقوال نقل کئے جاتے ہیں:
٭امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح مسلم میں لکھتے ہیں کہ مشاہیر علمائے سلف و خلف کا مذہب یہی ہے کہ عاشورہ دسویں تاریخ ہے اور یہی قول ہے سعید بن مسیب ،حسن بصری ،امام مالک،امام احمد اور امام اسحاق کارحمہم اللہ علیہم اجمعین۔نیز ظاہر احادیث اور مقتضائے لفظ یہی ہے اس لئے عاشوراء عشر سے مشتق ہے اور عشر دس کو کہتے ہیں ۔امام شافعی اور ان کے اصحاب ،امام احمد اور امام اسحاق و دیگر علماء کا قول ہے کہ نویں اور دسویں دونوں کا روزہ رکھنا مستحب ہے اس لئے کہ آپ ۖ نے دسویں کا روزہ رکھا تھا اور نویں تاریخ کی نیت کی تھی اتنے میں وفات ہوگئی۔ اور حدیث مسلم میں گزرا ہے کہ افضل روزے رمضان کے بعد شہر اللہ محرم کے ہیں ۔علماء نے کہا ہے کہ نویں تاریخ کا روزہ ملا لینے سے غرض یہ تھی کہ اکیلے دسویں کے روزے میں یہود کی مشابہت تھی۔(مترجم صحیح مسلم مع الشرح ،صفحہ ١٣٨،جلد٣ طبع نعمانی کتب خانہ)

٭ امام شوکانی نے زین بن منیر سے نقل کیا ہے کہ اکثریت کے نزدیک عاشوراء سے مراد دسواں دن ہی ہے اور مقتضائے اشتقاق و وجہ تسمیہ بھی یہی ہے ۔

امام شوکانی مزید رکھتے ہیں کہ نبی ۖ کا یہ فرمانا ''ضما الیوم التاسع''ہم نویں د ن کا روزہ رکھیں گے''۔احتمال رکھتا ہے کہ شاید آپ ۖ دسویں کے ساتھ نویں کو ملانا چاہتے تھے احتیاطاً اور یا پھر یہود و نصاریٰ کی مخالفت میں ۔اور اس قول میں یہ بھی احتمال ہے کہ آپ ۖشاید صرف نویں دن کا روزہ رکھتے اور اسی پر اقتصار کرتے لیکن ان لفظون میں اس احتمال کی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ پہلا احتمال (یعنی دسویں اور نویں دن کا روزہ رکھنا )مئوید ہے اس حدیث سے کہ جس میں دسویں کے ساتھ ایک دن قبل اور ایک دن بعد کے روزے کو ملانے کا حکم ہے۔اور یہ حدیث امام بیہقی نے بھی نقل کی ہے اور حافظ ابن حجر نے اسے تلخیص میں ذکر کر کے اس پر سکوت اختیار کیا ہے ۔بعض اہل علم نے (نبی ۖ کے وفات کے بعد)دو دن کے روزوں کو احتیاط سے تعبیر کیا ہے۔

امام شوکانی پھر لکھتے ہیں کہ بہتر اور اولی بات یہ ہے کہ تین دن کے روزے رکھ لئے جائیں ٩،١٠،اور ١١ محرم الحرام ۔اور پھر آگے چل کر امام نووی کی وہی بات نقل کی ہے جو پیچھے ہم لکھ چکے ہیں۔(تفصیل کے لئے دیکھئے نیل الاوطار ،جلد ٤،طبع دارلجلیل)۔

٭ شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری نے بھی ''یوم عاشورائ'' کی وضاحت ''الیوم العاشر من المحرم'' سے کی ہے یعنی محرم کا دسواں دن۔ مزید لکھتے ہیں کہ اس لفظ کا اشتقاق اس کا متقاضی ہے اور یہ جمہور علماء کا مذہب ہے جن میں صحابہ و اتباع صحابہ اور ان کے بعد کے لوگ شامل ہیں۔شیخ حافظ ابن حجر سے بھی نقل کرتے ہیں کہ اکثریت کا قول یہی ہے کہ دسواں دن ہے ۔نیز ابن قیم کی کتاب ''الھدیٰ''سے نقل کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس نے نویں دن کو عاشوراء قرار نہیں دیا تھا۔

شیخ مزید لکھتے ہیں کہ صرف ٩ کا روزہ رکھنا در حقیقت الفاظ حدیث کو نہ سمجھنے اور اس کے الفاظ و طرق کا تتبع نہ کر نی کی وجہ سے ہے جبکہ اس سوء فہم پر لغت و شرع دال نہیں ہیں ۔

٭ امام ابن تیمیہ نے بھی ١٠ کے ساتھ ٩ کا روزہ بھی رکھنے کو مستحب قرار دیا ہے (مجموع الفتاویٰ ،جلد ٢٥۔مرعاۃ المفاتیح ،جلد ٧)۔

٭ امام حافظ ابن قیم نے بھی اسی طر ح لکھا ہے ۔(دیکھئے زادالمعاد،جلد١)

٭ شیخ عطا اللہ حنیف بھوجیانی نے بھی لکھا ہے کہ (علماء کی) اکثریت عاشوراء سے ''الیوم العاشر''یعنی دسواں دن مراد لیتی ہے اور یہی جمہور علماء سلف و خلف کا موقف ہے یہی ظاہر الحدیث ہے اور مقتضی اللفظ و اشتقاق ہے ۔اور پھر شیخ نے حافظ ابن حجر و ابن قیم کے کلام ک نقل کیا ہے کہ یا تو ٩ ۔١٠۔١١تینوں روزے رکھیں یا پھر نو اور دس کا روزہ رکھیں اور یا پھر دس اور گیارہ کا روزہ رکھیں ۔(دیکھئے ردع الانام عن محد ثات عاشرالمحرم الحرام از شیخ محمد عطا اللہ حنیف )۔

٭ شیخ عبدالسلام بستوی نے بھی مذکورہ موقف کی تائید کی ہے۔(اسلامی خطبات ،جلد٩)

٭ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس موقف کا اظہار کیا ہے ۔(دیکھئے رسومات محرم اور سانحہ کربلااز صلاح الدین یوسف)

خلاصہ بحث یہ ہوا کہ عاشوراء سے مراد محرم الحرام کا دسواں دن ہے اور اسی دن روزہ رکھنا چاہیئے جبکہ مخالفت یہودو نصاریٰ میں دسویں دن کے روزے کے ساتھ نویں دن کا یا گیارہویں دن کا روزہ رکھ لینا چاہیئے ۔واللہ اعلم۔

واقعہ کربلا کے تناظر میں ماہ محرم کو سوگ کا مہینہ قرار دینا
یہ بات ہر عاقل و بالغ مسلمان جانتا ہے کہ ماہ محرم الحرام کی حرمت و عظمت تو اس دن سے ہے جس دن سے یہ زمین و آسمان وجود میں آئے ہیں اس میں سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی شہادت کا کوئی عمل دخل نہیں اور نہ ہی اس مظلومانہ شہادت کی آڑ لے کر اس مہینے کو سوگ اور غم کا مہینہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ کوئی خوشی بھی نہ منا سکے ۔
لیکن آج جو کچھ ہمارے سامنے ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے کہ اس مہینے میں زیب و زینت پر پابندی لگا دی جاتی ہے ،عورتیں اپنی آرائش و زیبائش ترک کر دیتی ہیں ،لوگ گو شت نہیں کھاتے خوشی کی دعوتیں نہیں کرتے ۔اس مہینے میں عقد نکاح بھی نہیں باندھا جاتا ،جن میاں بیوی کی شادی ہوئے صرف دو مہینے ہوئے ہوں انہیں باہم ملنے سے روکتے ہیں ،کثرت سے نوحہ کیا جاتا ہے ،کپڑوں کو پھاڑا جاتا ہے ،سینہ کوبی کی جاتی ہے ،چہروں پر طمانچے مارے جاتے ہیں ،سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بہت سے عام صحابہ کرام پر شب و ستم کیا جاتا ہے ۔غیراللہ کے نام کی سبیل لگا کر پانی پلایا جاتا ہے ڈھول ڈھماکے ،طبلہ و سارنگی بجائی جاتی ہے ،جھنڈے اور تعرزیئے کھڑے کئے جاتے ہیں ۔
یقینا یہ سب خرافات و بدعات ہیں ایک مسلمان کو تو بس انہیں باتوں پر عمل کرنا چاہیئے جو قرآن و سنت میں اس کے لئے بیان کر دی گئی ہیں ۔

اسلامی تعلیمات میں غم و حزن کے سلسلے میں رہنمائی اس انداز سے کی گئی ہے کہ وہ عورت جس کا شوہر فوت ہو جائے تو وہ چار مہینے دس دن عدت کے گزارے اس کے علاوہ کسی کے لئے بھی تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں ہے۔

شریعت اسلامیہ میں صبر کی تلقین کی گئی ہے ،اور ساتھ ہی بشارت بھی دی گئی ہے کہ صابرین کو بے حد وحساب اجر دیا جائے گا اور صبر صدمے کے وقت بھی اختصار کرنا چاہیئے ۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
''وبشر الصابرین الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالوا انا للّٰہ وانا الیہ راجعون''
ان صبر گزاروں کو خوشخبری دیجئے کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو ان کی زبان پر ''انا للہ وانا الیہ راجعون''جاری ہو جاتا ہے۔

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو آج صدیاں بیت چکی ہیں اس کے باوجود جس طرح عشرہ محرم میں آہ و بکا ہوتا ہے وہ نہ صرف غیر شرعی ہے بلکہ سمجھ میں نہ آنیوالا ہے شہادت تو ایک عظیم مرتبہ ہے جو سیدنا حسین و سیدنا علی اور سیدنا عمر ول عثمان رضی اللہ عنہم حاصل کر چکے اور اگر شہیدپر بھی رویا جاتا ہے تو پھر یہ بڑی بڑی شہادتیں بھی ہوئی مگر سیدنا حمزہ ،سیدنا عمر ،سیدنا عثمان رضی اللہ عنہم پر رونے والا کوئی کیوں نہیں ؟

واللہ اعلم بالثواب۔
والسلام۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔