YOUR INFO

Monday 25 March 2013

خواتینِ جنت کی سردار صحابیہ

0 comments

 سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ
خواتینِ جنت کی سردار صحابیہ
سرورِ کائینات صلی اللہ علیہ وسلم کی چوتھی اور سب سے چھوٹی صاحبزادی کا نام تھا۔ آپ کی والدہ ماجدہ ام المومنین خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا تھیں۔ آپ (رضی اللہ عنہا) کی ولادت سے متعلق مختلف روایات کچھ یوں ہیں کہ : 
بعثتِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے پانچ سال قبل ، بعثتِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ایک سال پہلے ، بعثتِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ایک سال بعد۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عطا کردہ لقب کے مطابق ، آپ رضی اللہ عنہا ، خواتینِ جنت کی سردار ہیں ، یعنی :
فَاطِمَةُ سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ
صحیح بخاری : آن لائن لنک

اہل البت رضی اللہ عنہم میں سے آپ کو ایک خاص مقام حاصل تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ (رضی اللہ عنہا) سے بےانتہا محبت کرتے تھے۔ اپنی اس لاڈلی بیٹی کو دی جانے والی کسی بھی تکلیف کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قطعاً پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بی بی فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کو رنجیدہ دیکھ کر فرمایا :
فَاطِمَةُ بِضْعَةٌ مِنِّي فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي
فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ جس نے اسے ناحق ناراض کیا اس نے مجھ کو ناراض کیا۔
صحیح بخاری : آن لائن لنک

فَإِنَّمَا ابْنَتِي بَضْعَةٌ مِنِّي يَرِيبُنِي مَا رَابَهَا ، وَيُؤْذِينِي مَا آذَاهَا
جس بات سے اسے کوئی رنج پہنچتا ہے ، وہ مجھے رنجیدہ کر دیتی ہے۔ جو چیز اسے اذیت دیتی ہے ، وہ میرے لیے بھی باعثِ اذیت ہے۔
صحیح مسلم : آن لائن لنک

ماہِ رمضان سن 2 ھجری میں آپ (رضی اللہ عنہا) کا نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عم زاد علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) سے کیا۔ 
اکثر مورخین نے یہ شادی غزوہ بدر کے بعد ہی بیان کی ہے۔ شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ لکھتے ہیں :
تزوجها علي رضي الله عنه بعد بدر في السنة الثانية
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے شادی 2 ھجری میں غزوہ بدر کے بعد کی ہے۔
فتح الباری : آن لائن لنک

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دختر نیکِ اختر کو مخاطب کر کے فرمایا :
واﷲِ مَا أَلَوْتُ أَنْ زَوَّجْتُکِ خَيْرَ أَهْلِيْ
اے فاطمہ ! میں نے تمہاری شادی اپنے خاندان میں سے بہترین شخص کے ساتھ کی ہے۔
بحوالہ : طبقات ابن سعد ، 8/24

حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا ، رفتار و گفتار اور عادات و خصائل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بہترین نمونہ تھیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ :
كن أزواج النبي صلى الله عليه وسلم عنده ، لم يغادر منهن واحدة ، فأقبلت فاطمة تمشي ما تخطئ مشيتها من مشية رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا
ہم ازواج النبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر تھیں کہ سیدہ فاطمہ آئیں۔ ان کی چال رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چال سے مشابہ تھی۔
صحیح مسلم : آن لائن لنک

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مزید روایت کرتی ہیں :
فاطمہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل و صورت ، صفات عالیہ اور آپ کے حسنِ اخلاق سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی تھیں۔ اور ان کا اندازِ گفتگو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندازِ گفتگو سے بہت ملتا جلتا تھا۔ اور جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتی تھیں تو آپ ان کی طرف چل کر جاتے اور ان کا استقبال کرتے ، پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر اس کا بوسہ لیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جب ان کے پاس جاتے تو وہ بھی ان کی طرف چل کر جاتیں اور ان کا استقبال کرتیں ، پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کا بوسہ لیتیں اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔
ابو داؤد ، کتاب الادب : آن لائن لنک

سیدہ فاطمہ (رضی اللہ عنہا) نہایت متقی ، صابر و قانع اور دیندار خاتون تھیں۔ گھر کا تمام کام کاج خود کرتی تھیں۔ چکی پیستے پیستے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے ، گھر میں جھاڑو دینے اور چولہا پھونکنے سے کپڑے میلے ہو جاتے ، لیکن ان کے ماتھے پر بل نہیں آتا تھا۔ گھر کے کاموں کے علاوہ عبادات بھی کثرت سے کرتی تھیں۔
ایک دن حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) اور آپ کے شوہر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) آٹھ پہر سے بھوکے تھے۔ حضرت علی کو کہیں سے مزدوری میں ایک درہم مل گیا تو وہ جَو خرید کر گھر پہنچے۔ بی بی فاطمہ نے جَو چکی میں پیسے ، روٹی پکائی اور اپنے خاوند کے سامنے رکھ دی۔ جب وہ کھا چکے تو خود کھانے بیٹھیں۔ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ :
مجھے اس وقت سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد آیا کہ فاطمہ دنیا کی بہترین عورت ہے !

ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ (رضی اللہ عنہا) سے پوچھا :
جانِ پدر ! (مسلمان) عورت کے اوصاف کیا ہیں؟
انہوں نے عرض کیا : اباجان ! عورت کو چاہئے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرے ، اولاد پر شفقت کرے ، اپنی نگاہ نیچی رکھے ، اپنی زینت کو چھپائے ، نہ خود غیر کو دیکھے اور نہ غیر اس کو دیکھ پائے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ جواب سن کر بہت خوش ہوئے۔

سرورِ کائینات صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) پر غم و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ تمام کتبِ سیر اس بات پر متفق ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی وفات کے بعد کسی نے سیدہ فاطمہ کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔
سیدہ رضی اللہ عنہا کو 6 اولادیں ہوئیں :
حسن ، حسین ، محسن ، امّ کلثوم ، رقیہ اور زینب رضی اللہ عنہم
محسن اور رقیہ نے بچپن ہی میں انتقال کیا۔ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی سے باقی رہی۔

کتبِ احادیث میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے 18 حدیثیں مروی ہیں۔ ان کے رواۃ میں علی ، حسن ، حسین ، عائشہ صدیقہ اور ام سلمہ (رضی اللہ عنہم) جیسی جلیل القدر ہستیاں شامل ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ ماہ بعد ہی ، 28 سال کی عمر میں سیدہ فاطمہ نے انتقال فرمایا۔ رضی اللہ عنہما و ارضاہا۔

Saturday 23 March 2013

حضرت حسن رضی اللہ عنہ

0 comments

حضرت حسن رضی اللہ عنہ

سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو محمد تھی۔
آپ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے نواسے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے ہیں۔

سیدنا حسن (رضی اللہ عنہ) کی پیدائش اکثر مورخین کے نزدیک ماہِ رمضان سن 3 ھجری ہے۔ 
فتح الباری میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : كان مولد الحسن في رمضان سنة ثلاث من الهجرة عند الأكثر
بحوالہ : فتح الباری : آن لائن ربط

سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اہل بیت کے عظیم فرد ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بےپناہ محبت تھی۔
حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر سوار دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا مانگی :
" اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ " .
اے اللہ ! میں اس سے محبت کرتا ہوں ، تو بھی اس سے محبت فرما۔
صحیح بخاری : آن لائن ربط

اور مزید ایک فرمانِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) یوں ہے :
اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ ، فَأَحِبَّهُ وَأَحْبِبْ مَنْ يُحِبُّهُ
اے ہمارے پروردگار ! بلاشبہ میں اسے محبوب رکھتا ہوں تو بھی اسے محبوب رکھ، اور جو لوگ اس سے محبت کریں تو بھی ان سے محبت فرما۔
صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ : آن لائن ربط

عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ سیدنا حسن (رضی اللہ عنہ) کو اٹھائے ہوئے ہیں اور فرما رہے ہیں :
بِأَبِي شَبِيهٌ بِالنَّبِيِّ , لَيْسَ شَبِيهٌ بِعَلِيٍّ
یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ ہیں ، علی سے نہیں۔
اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ یہ سن کر مسکرا رہے تھے۔
صحیح بخاری : آن لائن ربط

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
لَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَشْبَهَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ
سیدنا حسن بن علی سے زیادہ اور کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ نہیں تھا۔
صحیح بخاری : آن لائن ربط

حضرت حسن رضی اللہ عنہ اپنے مزاج و افتاد طبع کے اعتبار سے نہایت صلح جو تھے لڑائی جھگڑوں کو طول دینے کے بجائے صلح و مفاہمت کی راہ اختیار کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اسی سبب جنگِ جمل کو ہونے سے روکنے کی انہوں نے کافی کوششیں کیں۔ مگر جب جنگ شروع ہو گئی اور مسلمان ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل ہونے لگے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اسی صلح جو صاحبزادے سے کہا :
يا بني ليت اباك مات قبل هذا اليوم بعشرين عاماً‏
بیٹے ! کاش تیرا باپ اس دن سے 20 سال قبل مر گیا ہوتا۔
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے جواب دیا :
يا ابت قد كنت انهاك عن هذا‏
اباجان ! میں تو آپ کو اس سے منع ہی کرتا رہا۔
بحوالہ : البدائیہ و النہائیہ : آن لائن ربط

حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر جلوۂ افروز تھے اور سیدنا حسن بن علی ان کے پہلو میں ہیں۔ کبھی آپ لوگوں کی طرف رخ فرماتے اور کبھی سیدنا حسن کی طرف۔ اور آپ نے فرمایا :
إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ
میرا یہ بیٹا سردار ہے۔ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا۔
صحیح بخاری ، کتاب الصلح : آن لائن ربط

چنانچہ تاریخ اسلام کے مستند واقعات سے ثابت ہے کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہا نے عین میدانِ جنگ میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے اپنے عظیم نانا (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عظیم پیشین گوئی کو سچ ثابت کر دکھایا۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی عظمت کا یہ منہ بولتا ثبوت ہے جو کہ وہ بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی خلافت سے دست بردار ہو گئے۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہا۔

آپ نے سن 50 ھجری میں انتقال فرمایا۔

Friday 22 March 2013

Awaam ki adalat on Geo news - Prof. Sajid Mir - 21st October 20

0 comments

حضرت علی رضی اللہ عنہ

0 comments

حضرت علی رضی اللہ عنہ



علی بن ابی طالب بن ہاشم بن عبدمناف
آپ کی کنیت ابوالحسن اور ابوتراب ہے۔ اور آپ کا لقب حیدر ہے۔
آپ کی پیدائش بعثتِ نبوی سے دس سال قبل کی ہے۔
اہل سنت و الجماعت اس بات پر متفق ہیں کہ ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے بعد صحابہ کرام میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سب سے افضل صحابی ہیں۔ آپ خلفائے راشدین میں سے چوتھے خلیفہ ہیں۔ آپ (رضی اللہ عنہ) کی خلافت کی مدت چار سال نو ماہ اور کچھ دن ہے۔ آپ نے بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچازاد بھائی اور داماد تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اپنی لاڈلی دختر کا نکاح علی بن طالب (رضی اللہ عنہ) سے کرنا ہی اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ بلند ترین اوصاف حمیدہ سے متصف تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک علی بن طالب رضی اللہ عنہ اس قدر اہم شخص تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایک دفعہ فرمایا :
لِعَلِيٍّ أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي
تم میرے نزدیک وہی مقام رکھتے ہو جو مقام موسیٰ (علیہ السلام) کے نزدیک ہارون (علیہ السلام) کا تھا۔ مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ : آن لائن ربط

مومنین کے لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت دین و ایمان کا تقاضا ہے۔ کیونکہ اُن سے محبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی دلیل ہے۔ کوئی شخص مومن کہلانے کا اُس وقت تک حقدار نہیں ہے جب تک کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہ رکھے۔
خود حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمانِ پاک یوں پیش فرماتے ہیں :
وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ ، إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، إِلَيَّ أَنْ " لَا يُحِبَّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ ، وَلَا يُبْغِضَنِي إِلَّا مُنَافِق " .
اس ذات کی قسم ! جس نے دانے کے پھاڑا اور ہر جاندار چیز کو پیدا فرمایا کہ نبی اُمی نے مجھ سے تاکیداً کہا تھا کہ مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور منافق کے سوا اور کوئی مجھ سے بغض نہیں رکھے گا۔
صحیح مسلم ، کتاب الایمان : آن لائن ربط

سیدنا علی بن ابی طالب کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک عظیم مقام ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت بااعتماد رفیق ہیں۔ اسی لیے فرامینِ نبوی میں درج ہے :
إِنَّ عَلِيًّا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ , وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِي
علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کا دوست ہے۔
ترمذی ، کتاب المناقب : آن لائن ربط
مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ
جس شخص کے ساتھ میں دوستی رکھتا ہوں ، اس سے علی بھی دوستی رکھتا ہے۔
ترمذی ، کتاب المناقب : آن لائن ربط

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کشادہ دل اور کشادہ ذہن تھے۔ آپ نے کھلے دل سے اپنے ساتھیوں کی فضیلت بیان کی ہے۔ جب آپ کو پتا چلا کہ کچھ لوگ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہم کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کر رہے ہیں تو آپ منبر پر چڑھے اور فرمایا:
والذي فلق الحبة وبرأ النسمة‏!‏ لا يحبهما إلا مؤمن فاضل، ولا يبغضهما ولا يخالفهما إلا شقي مارق، فحبهما قربة وبغضهما مروق، ما بال أقوام يذكرون أخوي رسول الله صلى الله عليه وسلم ووزيريه وصاحبيه وسيدي قريش وأبوي المسلمين‏؟‏ فأنا بريء ممن يذكرهما بسوء وعليه معاقب‏.‏
اس ذات کی قسم جس نے دانے اور گٹھلی کو پھاڑا اور روح کو پیدا کیا ! ان دونوں سے وہی محبت کرے گا جو فاضل مومن ہوگا ، اور ان دونوں سے وہی بغض و عداوت رکھے گا جو بدبخت اور مارق (بدمذہب) ہوگا ، کیونکہ ان دونوں کی محبت تقرب الٰہی کا سبب ہے اور ان سے بغض و نفرت رکھنا دین سے خارج ہونے کی علامت ہے۔ ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بھائیوں ، اور دو وزیروں ، اور دو ساتھیوں اور قریش کے دو سرداروں اور مسلمانوں کے دو باپوں کو نازیبا الفاظ سے یاد کرتے ہیں؟ میں ان لوگوں سے لاتعلق ہوں جو ان دونوں کو برے الفاظ سے یاد کرتے ہیں ، اور اس پر انہیں سزا دوں گا۔
کنزالعمال : آن لائن ربط

ونیز ۔۔۔
حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے عراق والوں سے کہا تھا :
اقْضُوا كَمَا كُنْتُمْ تَقْضُونَ فَإِنِّي أَكْرَهُ الِاخْتِلَافَ حَتَّى يَكُونَ لِلنَّاسِ جَمَاعَةٌ أَوْ أَمُوتَ كَمَا مَاتَ أَصْحَابِي
جس طرح تم پہلے فیصلہ کیا کرتے تھے ، اب بھی کیا کرو ، کیونکہ میں اختلاف کو برا جانتا ہوں۔ اسی وقت تک کہ سب لوگ جمع ہو جائیں یا میں بھی اپنے ساتھیوں (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم) کی طرح دنیا سے چلا جاؤں۔
ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ کہا کرتے تھے کہ :
يَرَى أَنَّ عَامَّةَ مَا يُرْوَى عَنْ عَلِيٍّ الْكَذِبُ
عام لوگ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایات (شیخین کی مخالفت میں) بیان کرتے ہیں وہ قطعاً جھوٹی ہیں۔
صحیح بخاری ، فضائل اصحاب النبی : آن لائن ربط

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ذات اوصافِ حمیدہ کا مجموعہ تھی۔ آپ کے اندر ساری اچھی خوبیاں مثلاً امانت و دیانت ، زہد و تقویٰ وغیرہ موجود تھیں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو لسانِ نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے شہید کا درجہ بھی عطا کیا گیا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کے ساتھ حراء کی ایک چٹان پر تھے کہ چٹان نے حرکت کی ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اسْكُنْ حِرَاءُ ، فَمَا عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ ، أَوْ صِدِّيقٌ ، أَوْ شَهِيدٌ
آرام سے رہو ، کیونکہ تم پر نبی ، صدیق اور شہید کے علاوہ کوئی نہیں۔
صحيح مسلم ، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ : آن لائن ربط

سیدنا علی المرتضیٰ 17 رمضان المبارک سن 40 ھجری کو صبح کے اوقات میں بدبخت ابن ملجم کے ہاتھوں شہید ہوئے۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ

0 comments

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ

عثمان بن عفان بن ابی العاص ابن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف
ابو عبداللہ اور ابوعمر کنیت
والد ماجد کا نام عفان اور والدہ ماجدہ کا نام ارویٰ
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا سلسلہ پانچویں پشت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی نانی بیضاء ام الحکیم عبداللہ بن عبدالمطلب کی سگی بہن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں۔ اس لیے حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) ماں کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی قریبی رشتہ دار ہیں۔
بحوالہ : فتح الباری ، کتاب المناقب : آن لائن ربط

امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ امت نے حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کو متفق علیہ طور پر اپنا امام اور پیشوا بنایا تھا۔ آپ خلافتِ راشدہ کے تیسرے خلیفہ ہیں۔ آپ (رضی اللہ عنہ) کی خلافت کی مدت 12 سال ہے۔ مستند تاریخی واقعات سے ثابت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ممالک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں فتح کئے گئے۔ دنیائے اسلام میں سیدنا عثمان (رضی اللہ عنہ) سے بڑا حکمران پیدا ہی نہیں ہوا۔

یہ ایک عظیم شخصیت ہیں کہ جن کی بعض امتیازی فضیلتوں اور حیثیتوں میں کائینات کا کوئی دوسرا فرد شریک نہیں ہے !
اور وہ امتیازی خصوصیت اور فضیلت یہ ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو بیٹیاں ان کے نکاح میں دی ہیں۔ یہ اتنا بڑا شرف ہے کہ اس شرف میں کائینات کا کوئی دوسرا فرد و بشر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ہمسر نہیں ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں ان سے عظیم کوئی نہ تھا اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیٹی کے فوت ہو جانے کے بعد دوسری بیٹی کا رشتہ بھی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ہی دیا ہے جو ان کے عظیم سے عظیم تر ہونے کی دلیل ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں سے نکاح کے سبب ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ذو النورین (دو نوروں والا) کا لقب حاصل ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جنتی ہونے کی بشارت دی گئی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک باغ میں تھے اور باغ کے دروازے پر حضرت ابوموسیٰ موجود تھے تب وہاں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم آئے جنہیں نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جنتی ہونے کی بشارت دی۔
پھر راوی ابوموسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ ۔۔۔
پھر دروازے پر ایک اور شخص آیا اور اس نے بھی اندر داخل ہونے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
افْتَحْ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى تَكُونُ
اجازت دے دو اور اسے جنت کی بشارت بھی سنا دو ، اور اسے آگاہ کرو کہ اس پر ایک مصیبت نازل ہوگی۔
راوی ابوموسیٰ اشعری آگے کہتے ہیں کہ ۔۔۔ میں نے دیکھا تو وہ عثمان تھے !
صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ : آن لائن ربط

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے آپ رضی اللہ عنہ کو "شہید" قرار دیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ احد پہاڑ پر چڑھے تو وہ کانپنے لگا، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنا پاؤں اس پر مارتے ہوئے فرمایا :
اثْبُتْ أُحُدُ فَمَا عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيدَانِ
احد ٹھہر جاؤ ! کیونکہ تجھ پر ایک پیغمبر ، ایک صدیق اور دو شہید ہیں !!
صحيح البخاري ، كِتَاب الْمَنَاقِبِ : آن لائن ربط

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خصوصیات میں ایک یہ بھی تھی کہ وہ اس قدر باحیا تھے کہ فرشتے بھی ان سے حیا کرتے تھے۔
نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے آپ (رضی اللہ عنہ) ہی کے متعلق ارشاد فرمایا تھا :
أَلَا أَسْتَحِي مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحِي مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ
کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ؟
صحيح مسلم ، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ : آن لائن ربط

مشرکینِ مکہ کے غیض و غضب سے لاچار ہو کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اشارہ پر اور حق و صداقت کی محبت میں وطن اور اہلِ وطن کو چھوڑ کر حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) اپنی اہلیہ محترمہ سیدہ رقیہ (رضی اللہ عنہا) کے ساتھ جلا وطن ہوئے۔ اس جلاوطنی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا :
ان عثمان اول
میری امت میں عثمان پہلا شخص ہے جو اپنے اہل و عیال کو لے کر جلا وطن ہوا۔
بحوالہ : الاصابہ : آن لائن ربط

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق مشہور ہے کہ آپ احد اور بدر کی جنگوں میں اور بیعتِ رضوان میں بھی حاضر نہیں تھے۔ اہلِ حق جب اس کی وجوہات جاننے کی جستجو کرتے ہیں تو صحیح بخاری میں درج حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی وضاحت سامنے نظر آتی ہے۔

ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔۔۔
قریب آؤ ، اب میں تمہیں ان واقعات کی تفصیل سمجھاؤں گا۔
احد کی لڑائی والی لغزش کے متعلق میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا ہے (بحوالہ : سورہ آل عمران ، آیت:155)
بدر کی لڑائی میں غیر حاضری کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صاحبزادی رقیہ (رضی اللہ عنہا) ان کے نکاح میں تھیں اور وہ سخت بیمار تھیں۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان (رضی اللہ عنہ) سے فرمایا تھا:
ان لک اجر
تمہیں جنگِ بدر میں ایک شریک کے برابر ثواب اور مالِ غنیمت سے حصہ ملے گا۔
اور جہاں تک بیعتِ رضوان سے ان کے غیر حاضر ہونے کا تعلق ہے تو اگر مکہ میں عثمان (رضی اللہ عنہ) سے زیادہ کوئی اثر و رسوخ والا ہوتا تو (قریش سے گفتگو کے لیے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کو بھیجتے۔ پس رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عثمان (رضی اللہ عنہ) کو بھیجا۔ اور بیعتِ رضوان ان کے مکہ جانے کے بعد ہوئی۔ اس موقع پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے داہنے ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا تھا :
هَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ (یہ عثمان کا ہاتھ ہے)
اور پھر اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا :
هَذِهِ لِعُثْمَانَ (یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے !)
صحيح البخاري ، كِتَاب الْمَنَاقِبِ : آن لائن ربط

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کا ذکر کیا۔ اس دوران ایک آدمی سر پر کپڑا ڈالے ہوئے گزرا تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا :
ھذا
یہ شخص فتنہ کے دنوں میں ہدایت پر ہوگا۔
حدیث کے راوی نے جب اس شخص کو سامنے سے دیکھا تو وہ عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ راوی نے حضرت عثمان کا چہرہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جانب پھیرتے ہوئے پوچھا :
ان کے بارے میں ہی آپ یہ فرما رہے ہیں؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً کہا : ہاں !
مسند احمد : آن لائن ربط

تقریباً یہی روایت طبرانی اوسط میں بھی ان زائد الفاظ کے ساتھ موجود ہے ۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اتبعوا
اس شخص اور اس کے ساتھیوں کا ساتھ دینا۔
راوی حضرت مرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : میں اس شخص کی طرف ہو لیا۔ وہ عثمان (رضی اللہ عنہ) تھے۔ میں نے انہیں پکڑا اور ان کا چہرہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف کرتے ہوئے عرض کیا :
اے
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اسی شخص کے بارے میں آپ نے فرمایا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : ہاں !
طبرانی : آن لائن ربط

گویا فتنہ کے دَور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حق بجانب قرار دیا بلکہ ان کا ہمنوا بننے اور ان کی تابعداری کا بھی حکم دیا تھا !!

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ماہ ذی الحجہ سن 35 ھجری میں جمعہ کے دن شہید کیا گیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
تُقْتَلُ وَأَنْتَ مَظْلُومٌ ، وَتَقْطُرُ قَطْرَةٌ مِنْ دَمِكَ عَلَى فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ سورة البقرة آية 137
سیدنا عثمان مظلوم قتل ہوئے ، تلاوت کے دوران جب انہیں شہید کیا گیا تو آپ کے خون کے قطرے اس آیت مبارکہ پر ٹپکے :
فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ
اسد الغابہ : آن لائن ربط

عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ

0 comments

 عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ

عمر بن الخطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن رباح بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوئی
عمر نام ، ابوحفص کنیت ، فاروق لقب
والد ماجد کا نام خطاب اور والدہ ماجدہ کا نام ختمہ
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا سلسلہ آٹھویں پشت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔

تمام اہل سنت و الجماعت اس بات پر متفق ہیں کہ ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے بعد عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) سب سے افضل صحابی ہیں اور وہی ان کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ تھے۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ، ہجرتِ نبوی سے 40 برس پہلے پیدا ہوئے۔ زمانۂ جاہلیت میں جو لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے ، ان میں سے ایک سیدنا عمر (رضی اللہ عنہ) بھی تھے۔
بحوالہ : الاستيعاب في معرفة الأصحاب ، تذکرہ عمر رضی اللہ عنہ

کتبِ سیرت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک مشہور واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی ہمشیرہ پر ظلم کیا اور پھر انہی کی طرف سے قرآن سننے کے بعد اسلام لے آئے۔ اس ضمن میں ایک روایت خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بھی زبانی ہے کہ ۔۔۔ 

انہوں نے مسجد حرام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے دوران سورۃ الحاقہ کی تلاوت کرتے ہوئے سنا اور وہ قرآن کریم کے نظم و اسلوب سے حیرت زدہ ہو گئے۔ مکمل سورت کی تلاوت سن کر بالآخر انہیں محسوس ہوا کہ اسلام ان کے دل میں پوری طرح گھر کر گیا ہے۔
بحوالہ : الوسيط في تفسير القرآن المجيد ، سُورَةِ الْفَاتِحَةِ : آن لائن ربط

مورخین اسلام کی رائے کے مطابق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبوت کے ساتویں سال میں ایمان لے آئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی تھی کہ ۔۔۔
اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ : بِأَبِي جَهْلٍ , أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ
اے اللہ ! ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے جو آپ کو زیادہ محبوب ہو اس کے ذریعے اسلام کو غلبہ عطا فرما۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ یہ روایت بیان کر کے آگے کہتے ہیں کہ :
وَكَانَ أَحَبَّهُمَا إِلَيْهِ عُمَرُ .
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں میں سے عمر (رضی اللہ عنہ) زیادہ محبوب تھے۔
سنن ترمذی ، کتاب الدعوات ، باب المناقب : آن لائن ربط

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ۔۔۔
مَا زِلْنَا أَعِزَّةً مُنْذُ أَسْلَمَ عُمَرُ
عمر (رضی اللہ عنہ) نے جب سے اسلام قبول کیا تب سے ہماری طاقت و قوت میں اضافہ ہوتا گیا۔
صحیح بخاری ، کتاب المناقب : آن لائن ربط

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ دین میں اس قدر پختہ تھے کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان بھی ان کے مقابلے میں آنے سے کتراتا تھا۔
اسی حقیقت کے متعلق نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی ہے کہ ۔۔۔

إِيهًا يَا ابْنَ الْخَطَّابِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ سَالِكًا فَجًّا قَطُّ إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ
اے ابن خطاب ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جب کبھی شیطان کا سرِ راہ تم سے سامنا ہوتا ہے تو وہ تمہارا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے پر چل دیتا ہے۔
صحیح بخاری ، کتاب فضائل الصحاب النبی : آن لائن ربط

یہ بات بھی بہت مشہور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جو موقف اختیار کرتے تھے تو اس کی تائید میں قرآن مجید نازل ہو جاتا تھا۔
جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ ۔۔۔
مقام ابراہیم کو مستقل جائے نماز بنانے کی رائے
امہات المومنین کو حجاب کا حکم دینے کی رائے
بدر کے قیدیوں سے متعلق رائے
کے ذریعے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے رب سے موافقت کی تھی۔
صحيح مسلم ، كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ : آن لائن ربط

اسی موضوع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔۔۔

إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ
بےشک اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور ان کے دل پر حق رکھ دیا ہے۔
جامع الترمذي ، كِتَاب الدَّعَوَاتِ ، أبوابُ الْمَنَاقِبِ : آن لائن ربط

اور ۔۔۔
لَقَدْ كَانَ فِيمَا قَبْلَكُمْ مِنَ الْأُمَمِ مُحَدَّثُونَ فَإِنْ يَكُ فِي أُمَّتِي أَحَدٌ فَإِنَّهُ عُمَرُ
تم لوگوں سے پہلی امتوں میں محدثون (الہامی) لوگ ہوا کرتے تھے۔ اگر میری امت میں کوئی ایسا ہے تو وہ عمر ہے۔
صحيح البخاري ، كِتَاب الْمَنَاقِبِ : آن لائن ربط

اسی طرح ۔۔۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرزند ارجمند ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی کچھ ایسی ہی گواہی دیتے ہوئے کہتے ہیں ۔۔۔
جب بھی لوگوں کو کوئی مسئلہ پیش آتا جس میں آراء مختلف ہوتیں اور عمر (رضی اللہ عنہ) کوئی اور رائے پیش کرتے تو قرآن کریم انہی کی رائے کی تائید میں نازل ہو جاتا۔
مسند احمد : آن لائن ربط

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صاف اشارہ ایک حدیث سے یوں ملتا ہے ۔۔۔
دوران خواب میں نے اپنے آپ کو ایسے کنویں پر پایا جس کی منڈیر نہیں تھی ، اس میں ایک ڈول تھا۔ میں نے اس کنویں سے جتنے اللہ تعالیٰ نے چاہے ڈول کھینچے پھر اس ڈول کو ابن قحافہ (ابوبکر) نے تھام لیا۔ انہوں نے اس کنویں سے ایک یا دو ڈول کھینچے ، ان کے کھینچنے کی کمزوری کو اللہ معاف فرمائے ، اس کے بعد ڈول بڑے ڈول میں تبدیل ہو گیا اور اس کو ابن الخطاب نے پکڑ لیا۔ میں نے انسانوں میں کوئی مضبوط طاقتور شخص نہیں دیکھا جو عمر کی طرح ڈول کھینچتا ہو۔ اس نے اتنے ڈول کھینچے کہ سب لوگ جانوروں اور زمین سمیت سیراب ہو گئے۔
صحيح البخاري ، كِتَاب الْمَنَاقِبِ : آن لائن ربط

یہ حدیث سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت کی واضح دلیل ہے کہ ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کے بعد وہی خلیفہ راشد قرار پائیں گے۔

سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ خود بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مداح تھے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں کھڑا تھا جو عمر (رضی اللہ عنہ) کیلئے اُس وقت دعا کر رہے تھے جب آپ کو چارپائی پر لٹایا گیا تھا۔ اچانک میرے پیچھے سے ایک شخص نے اپنی کہنی میرے کندھوں پر رکھی اور یوں دعا کی :
{اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے ، مجھے اللہ تعالیٰ سے امید تھی کہ وہ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی جمع کر دے گا، کیونکہ میں اکثر و بیشتر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ سنا کرتا تھا کہ ۔۔۔۔ "میں ، ابوبکر اور عمر تھے، میں ابوبکر اور عمر نے یوں کیا، میں ابوبکر اور عمر گئے" ۔۔۔ تو اسی لیے مجھے (پہلے سے) امید تھی کہ آپ کو اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھیوں کے ساتھ ہی اکٹھا کر دے گا۔}
ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ علی (رضی اللہ عنہ) تھے جو یہ دعا کر رہے تھے۔
صحيح البخاري ، كِتَاب الْمَنَاقِبِ : آن لائن ربط

دس سالہ خلافت کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک بدبخت فیروز ابولولو کے ہاتھوں شہید ہوئے اور یکم محرم سن 24ھ کو اپنا رخت سفر باندھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں ہمیشہ کی نیند سو گئے۔

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ

0 comments
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ

عبداللہ بن عثمان بن عامر وبن کعب بن سعد

عبداللہ نام ، ابوبکر کنیت ، صدیق اور عتیق لقب
والد ماجد کا نام عثمان ابوقحافہ اور والدہ ماجدہ کا نام سلمٰی ام الخیر
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سلسلہ چھٹی پشت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔

امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے اسلام کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں اور جان و مال سے شجرِ اسلام کی حفاظت کی ہے۔ بالغ مَردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی شخصیت آپ ہی کی تھی۔ ہجرت کے سفر میں بھی آپ اکیلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے۔

ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بچپن ہی سے خاص انس اور خلوص تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقۂ احباب میں داخل تھے۔ تجارت کے اکثر سفروں میں بھی انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی کا شرف حاصل ہوتا تھا۔
بحوالہ : کنز العمال

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی لسانِ مبارک سے سیدنا ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے احسانات کا اعتراف فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں :

" أَبْرَأُ إِلَى كُلِّ خَلِيلٍ مِنْ خِلِّهِ وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ خَلِيلًا ، وَإِنَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلُ اللَّهِ " .

اللہ تعالیٰ نے تمہارے رفیق کو (اپنا) خلیل بنایا ہے۔ جتنا فائدہ مجھے ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے اتنا فائدہ کبھی کسی کے مال نے نہیں پہنچایا اور اگر میں کسی کو خلیل بنانا چاہتا تو ابوبکر کو بناتا۔ خبردار تمہارا صاحب اللہ کا خلیل ہے۔
ترمذی ، کتاب المناقب : آن لائن ربط

ابوسعید خدری (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

" إِنَّ مِنْ أَمَنِّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي صُحْبَتِهِ وَمَالِهِ أَبَا بَكْرٍ وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا غَيْرَ رَبِّي لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ وَلَكِنْ أُخُوَّةُ الْإِسْلَامِ وَمَوَدَّتُهُ لَا يَبْقَيَنَّ فِي الْمَسْجِدِ بَابٌ إِلَّا سُدَّ إِلَّا بَابَ أَبِي بَكْرٍ " .

میرا ساتھ نبھانے اور مال خرچ کرنے میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان ابوبکر کا ہے ، اور اگر میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو خلیل بنانے والا ہوتا تو ابوبکر کو بناتا ، لیکن اسلامی بھائی چارہ اور اس کی محبت ہی کافی ہے۔ مسجد کے تمام دروازوں کو بند رکھا جائے سوائے بابِ ابوبکر کے۔
صحیح بخاری ، کتاب فضائل الصحابہ : آن لائن ربط

تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا اس بات پر اتفاق تھا کہ سیدنا ابوبکر (رضی اللہ عنہ) ان سب سے افضل ہیں۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔۔۔

" كُنَّا نُخَيِّرُ بَيْنَ النَّاسِ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَنُخَيِّرُ أَبَا بَكْرٍ ، ثُمَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، ثُمَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ " .

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے سب سے بہترین انسان سیدنا ابوبکر ، پھر عمر اور پھر عثمان رضی اللہ عنہم ہیں۔
صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی : آن لائن ربط

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا ۔۔۔
أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ  أَبُو بَكْرٍ  : قُلْتُ : ثُمَّ مَنْ ، قَالَ : ثُمَّ  عُمَرُ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے سب سے بہترین شخص ابوبکر اور پھر ان کے بعد عمر ہیں۔
صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی : آن لائن ربط

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو بشارت دی تھی کہ :

وَقَالَ : هَلْ يُدْعَى مِنْهَا كُلِّهَا أَحَدٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ : " نَعَمْ وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ يَا أَبَا بَكْرٍ " .

آپ کو جنت کے ہر دروازے سے پکارا جائے گا کہ آپ جنت میں آ جائیں۔
صحیح بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی : آن لائن ربط

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ۔۔۔
ادْعِي لِي أَبَا بَكْرٍ أَبَاكِ ، وَأَخَاكِ ، حَتَّى أَكْتُبَ كِتَابًا ، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَمَنَّى مُتَمَنٍّ ، وَيَقُولُ قَائِلٌ أَنَا أَوْلَى ، وَيَأْبَى اللَّهُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَّا أَبَا بَكْرٍ
مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرضِ وفات میں فرمایا کہ اپنے باپ ابوبکر اور اپنے بھائی عبدالرحمٰن کو میرے پاس بلاؤ ، تاکہ میں انہیں تحریر لکھوا دوں ، کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ (خلافت کی) تمنا کرنے والے تمنا کریں گے اور کہنے والا کہے گا کہ میرے سوا اور کوئی نہیں۔ جبکہ اللہ اور تمام مومنین ابوبکر کے علاوہ سب کا انکار کرتے ہیں۔
صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ : آن لائن ربط

علم و یقین اور ایمان و تقویٰ کی یہ عظیم شخصیت خلافتِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے عظیم منصب پر سوا دو سال تک براجمان رہی اور اسلام کے لیے آپ رضی اللہ عنہ نے وہ کارہائے نمایاں سرانجام دئے کہ جو کبھی فراموش نہ کئے جا سکیں گے۔
63 برس کی عمر میں جمادی الاول سن 13 ھجری کے اواخر میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وفات پائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں مدفون ہو کر دائمی رفاقت کے لیے جنت میں پہنچ گئے۔

Sunday 17 March 2013

ام المومنین خدیجہ بنت خویلد

0 comments

(ام المومنین) خدیجہ بنت خویلد بن اسد القرشیۃ

مردوں اور عورتوں میں سب سے پہلے مسلمان ہونے والی خاتون ہیں۔



آپ رضی اللہ عنہا 40 سال کی عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 25 برس تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس سے پہلے اور ان (رضی اللہ عنہا) کی زندگی میں کسی بھی دوسری عورت سے شادی نہیں کی۔ سوائے ابراہیم (رضی اللہ عنہ) کے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہی تھی۔



اسلام کے لیے آپ رضی اللہ عنہا نے بڑی قربانیاں دی ہیں ، اپنے مال کی تجوریاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھول دیں اور مشکل ترین حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ ہمیشہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہمت افزائی کرتی تھیں۔ اسلیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اکثر و بیشتر یاد رکھا کرتے تھے۔ ان کی تعریفیں کیا کرتے تھے ، یہاں تک کہ سیدہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں کا بھی خیال کیا کرتے تھے کہ یہ میری بیوی کی سہیلیاں ہیں۔
چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :

مَا غِرْتُ عَلَى أَحَدٍ مِنْ نِسَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ , وَمَا رَأَيْتُهَا وَلَكِنْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ ذِكْرَهَا , وَرُبَّمَا ذَبَحَ الشَّاةَ ثُمَّ يُقَطِّعُهَا أَعْضَاءً , ثُمَّ يَبْعَثُهَا فِي صَدَائِقِ خَدِيجَةَ فَرُبَّمَا ، قُلْتُ : لَهُ كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ فِي الدُّنْيَا امْرَأَةٌ إِلَّا خَدِيجَةُ ، فَيَقُولُ : " إِنَّهَا كَانَتْ وَكَانَتْ وَكَانَ لِي مِنْهَا وَلَدٌ " .

مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے کسی بیوی پر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ رشک نہیں آیا۔ حالانکہ میں نے انہیں دیکھا نہیں تھا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ان کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے۔ بعض دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بکری ذبح کر کے اس کا گوشت بنا کر سیدہ کی سہیلیوں کو ہدیہ بھیجتے۔ بعض دفعہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرتی "گویا دنیا میں خدیجہ کے علاوہ کوئی عورت ہی نہیں" ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے : وہ ایسی تھیں اور ایسی تھیں (یعنی ان کے اوصاف اور وفاؤں کا تذکرہ فرماتے) اور فرماتے کہ میری اس سے اولاد ہے۔
صحیح بخاری ، کتاب المناقب : آن لائن ربط



سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کتنی افضل ہیں ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور سیدنا جبرائیل علیہ السلام ، سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو سلام پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :

أَتَى جِبْرِيلُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : " يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ خَدِيجَةُ قَدْ أَتَتْ مَعَهَا إِنَاءٌ فِيهِ إِدَامٌ أَوْ طَعَامٌ أَوْ شَرَابٌ , فَإِذَا هِيَ أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنْ رَبِّهَا وَمِنِّي , وَبَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لَا صَخَبَ فِيهِ وَلَا نَصَبَ " .

ایک دفعہ سیدنا جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! سیدہ خدیجہ () تشریف لا رہی ہیں ، ان کے پاس ایک برتن ہے جس میں سالن یا کھانا یا پینے کی کوئی چیز ہے ، جب وہ آپ کے پاس پہنچیں تو انہیں ان کے رب اور میری طرف سے سلام کہئے اور انہیں جنت میں ایسے گھر کی بشارت دیجئے جس میں کوئی شور شرابہ ہوگا اور نہ وہاں مشقت اٹھانی پڑے گی۔
صحیح بخاری ، کتاب المناقب : آن لائن ربط



سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ :

" خَيْرُ نِسَائِهَا مَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ ، وَخَيْرُ نِسَائِهَا خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ "

سیدہ مریم بنت عمران (علیہ السلام) اپنے زمانے کی سب عورتوں سے بہتر تھیں اور سیدہ خدیجہ بنت خویلد (رضی اللہ عنہا) اپنے دور کی عورتوں میں سب سے بہتر ہیں۔
صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابۃ : آن لائن ربط



سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا جنت کی افضل ترین عورتوں میں سے ایک ہیں جو یقیناً ان کی قربانیوں کا ان کو صلہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :

" أَفْضَلُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ ، وَآسِيَةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ ، وَمَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَان "

خواتین اہل جنت میں سب سے افضل خدیجہ بنت خویلد ، فاطمہ بنت محمد ، فرعون کی بیوی آسیہ بن مزاحم اور مریم بن عمران ہیں۔
مسند احمد ، بروایت عبداللہ بن عباس : آن لائن ربط



آپ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ 25 سال گزارے اور 65 سال کی عمر میں ہجرت سے تین سال قبل مکہ میں فوت ہوئیں۔
اللہ تعالیٰ سیدہ (رضی اللہ عنہا) کے درجات کو اور بلند کرے۔

صحابہ کے مراتب و درجات

0 comments

صحابہ کے مراتب و درجات

انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد فضیلت و مراتب کے لحاظ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم ہی کا درجہ و مرتبہ ہے۔
اور تمام اہل السنۃ و الجماعۃ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) عادل ہیں یعنی "الصحابہ کلھم عدول" !
صفتِ عدالت میں یکساں ہونے کے باوجود صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کے مابین فرقِ مراتب ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اس کی پوری تفصیل عقائد اور علم الکلام کی کتابوں میں دلائل کے ساتھ موجود ہے۔

عام مسلمانوں کو مختصراً اتنا ضرور علم ہونا چاہئے کہ ۔۔۔
  • فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہونے والے فتح مکہ کے بعد مسلمان ہونے والوں سے افضل ہیں
  • فتح مکہ سے پہلے مسلمان ہونے والوں میں وہ صحابہ افضل ہیں جو صلح حدیبیہ میں شریک ہوئے
  • صلح حدیبیہ کے شرکاء میں سے وہ صحابہ افضل ہیں جو غزوہ بدر میں شریک ہوئے
  • غزوہ بدر والوں میں سے افضل حضراتِ عشرہ مبشرہ ہیں
  • اور عشرہ مبشرہ میں سے خلفائے راشدین افضل ہیں
  • اور خلفائے راشدین میں سے افضل شخصیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ہے۔

امتِ مسلمہ میں صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کا درجہ و مرتبہ اس قدر اعلیٰ و ارفع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردار فرمایا ہے کہ تم میں سے کسی اعلیٰ ترین فرد کی بڑی سے بڑی نیکی صحابی کی ادنیٰ ترین نیکی کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
صحیح مسلم میں بیان ہوا ہے کہ ۔۔۔
حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) اور عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) میں کچھ جھگڑا ہوا تو خالد بن ولید نے عبدالرحمٰن بن عوف کو کچھ برا کہا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تب فرمایا :
لَا تَسُبُّوا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِي ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَوْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ
میرے اصحاب میں سے کسی کو برا مت کہو ، اس لیے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا صرف کرے تو ان کے (خرچ کردہ) ایک مد یا آدھے مد کے برابر نہیں ہو سکتا۔
صحیح مسلم ، آن لان ربط

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی صحابی ہیں۔ اور ان کا درجہ بھی ایسا اعلیٰ درجہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا تھا :
سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ
اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے
صحیح بخاری ، آن لان ربط

"اللہ کی تلوار" جیسا عظیم الشان لقب ، سرکار دو عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی زبانِ اقدس سے حضرت خالد (رضی اللہ عنہ) کو ملا ہے۔ اس کے باوجود ۔۔۔ اپنی تمام تر خدمات کے باوصف حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) ، عشرہ مبشرہ میں شامل صحابی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) کے مقام و مرتبہ کو نہیں پہنچ سکے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) کو سخت سست کہنے سے خبردار فرمایا۔

تو سوچا جانا چاہئے کہ کسی غیر صحابی کا صحابی کو سب و شتم کرنا یا ان کے بارے میں ناگفتنی باتیں کرنا کیونکر روا ہو سکتا ہے؟ اور نازیبا باتیں کرنے والے کو صحابی کے درجہ و مرتبہ تک کیوں کر رسائی حاصل ہو سکتی ہے؟؟

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ۔۔۔
لَا تَسُبُّوا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمُقَامُ أَحَدِهِمْ سَاعَةً خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمْرَهُ
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو برا نہ کہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی ایک گھڑی تمہاری زندگی بھر کے اعمال سے بہتر ہے۔
ابن ماجہ : آن لائن ربط

اسی طرح حضرت سعید بن زید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔۔۔
لَمَشْهَدُ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْبَرُّ فِيهِ وَجْهُهُ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِكُمْ عُمُرَهُ وَلَوْ عُمِّرَ عُمُرَ نُوحٍ .
کسی صحابی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر جہاد کرنا ، جس میں اس کا چہرہ خاک آلود ہو گیا ہو ، تمہاری زندگی بھر کے اعمال سے افضل ہے اگرچہ عمرِ نوح بھی دے دی جائے۔

Thursday 14 March 2013

مملک سعودی عرب

0 comments

مملک سعودی عرب


سعودی عرب کو اسکے 81 ویں یوم الوطنی پر مبارکباد 
مملکت سعودی عرب کا باقائدہ قیام 1932 بمطابق 1351 ہجری کو ہؤا





تاریخ
مملکت سعودی عرب جزیرہ نمائے عرب میں سب سے بڑا ملک ہے ۔ شمال مغرب میں اس کی سرحد اردن، شمال میں عراق اور شمال مشرق میں کویت، قطر اور بحرین اور مشرق میں متحدہ عرب امارات، جنوب مشرق میں اومان، جنوب میں یمن سے ملی ہوئی ہے جبکہ خلیج فارس اس کے شمال مشرق اور بحیرہ قلزم اس کے مغرب میں واقع ہے ۔ یہ حرمین شریفین کی سرزمین کہلاتی ہے کیونکہ یہاں اسلام کے دو مقدس ترین مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں موجود ہیں۔

سعودی ریاست کا ظہور تقریباً 1750ء میں عرب کے وسط سے شروع ہوا جب ایک مقامی رہنما محمد بن سعود معروف اسلامی شخصیت اور مجدد محمد بن عبدالوہاب کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھرے ۔

نجد کا سعودی خاندان انیسویں صدی کے آغاز میں جزیرہ نمائے عرب کے بہت بڑے حصے پر قابض ہو گیا تھا لیکن مصری حکمران محمد علی پاشا نے آل سعود کی ان حکومت کو 1818ء میں ختم کردیا تھا۔ سعودی خاندان کے افراد اس کے بعد تقریباً 80 سال پریشان پھرتے رہے یہاں تک کہ 20 ویں صدی کے اوائل میں اسی خاندان میں ایک اور زبردست شخصیت پیدا ہوئی جس کا نام عبدالعزیز ابن سعود تھا جو عام طور پر سلطان ابن سعود کے نام سے مشہور ہیں۔



ابن سعود انیسویں صدی کے آخر میں اپنے باپ کے ساتھ عرب کے ایک ساحلی شہر کویت میں جلا وطنی کی زندگی گذار رہے تھے۔ وہ بڑے با حوصلہ انسان تھے اور اس دھن میں رہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے آبا و اجداد کی کھوئی ہوئی حکومت دوبارہ حاصل کرلیں۔ آخر کار 1902ء میں جبکہ ان کی عمر تیس سال تھی، انہوں نے صرف 25 ساتھیوں کی مدد سے نجد کے صدر مقام ریاض پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد انہوں نے باقی نجد بھی فتح کرلیا۔ 1913ء میں ابن سعود نے خلیج فارس کے ساحلی صوبے الحساء پر جو عثمانی ترکوں کے زیر اثر تھا، قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد یورپ میں پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی جس کے دوران ابن سعود نے برطانیہ سے دوستانہ تعلقات تو قائم رکھے لیکن ترکوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد شریف حسین نے خلیفہ بننے کا اعلان کردیا تو ابن سعود نے حجاز پر بھرپور حملة کردیا اور چار ماہ کے اندر پورے حجاز پر قبضہ کرلیا اور 8 جنوری 1926ء کو ابن سعود نے حجاز کا بادشاہ بننے کا اعلان کرد


اگلے ڈیڑھ سو سال میں آل سعود کی قسمت کا ستارہ طلوع و غروب ہوتا رہا جس کے دوران جزیرہ نما عرب پر تسلط کے لئے ان کے مصر، سلطنت عثمانیہ اور دیگر عرب خاندانوں سے تصادم ہوئے ۔ بعد ازاں سعودی ریاست کا باقاعدہ قیام شاہ عبدالعزیز السعود کے ہاتھوں عمل میں آیا۔


1902ء میں عبدالعزیز نے حریف آل رشید سے ریاض شہرلیا اور اسے آل سعود کا دارالحکومت قرار دیا۔ اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے انہوں نے 1913ء سے 1926ء کے دوران الاحساء، قطیف، نجد کے باقی علاقوں اور حجاز (جس میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے شہر شامل تھے) کو بھی فتح کرلیا۔ 8 جنوری 1926ء کو عبدالعزیز ابن سعود حجاز کے بادشاہ قرار پائے ۔ 29 جنوری 1927ء کو انہوں نے شاہ نجد کا خطاب حاصل کیا۔ 20 مئی 1927ء کو معاہدہ جدہ کے مطابق برطانیہ نے تمام مقبوضہ علاقوں جو اس وقت مملکت حجاز و نجد کہلاتے تھے پر عبدالعزیز ابن سعودکی حکومت کو تسلیم کرلیا۔ 1932ء میں برطانیہ کی رضامندی حاصل ہونے پر مملکت حجاز و نجد کا نام تبدیل کر کے مملکت سعودی عرب رکھ دیا گیا۔

مارچ 1938 میں تیل کی دریافت نے ملک کو معاشی طور پر زبردست استحکام بخشا اور مملکت میں خوشحالی کا دور دورہ ہوگیا۔سعودی عرب کی حکومت کا بنیادی ادارہ آل سعود کی بادشاہت ہے

1992ء میں اختیار کئے گئے بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر پہلے بادشاہ عبدالعزیز ابن سعود کی اولاد حکمرانی کرے گی اور قرآن ملک کا آئین اور شریعت حکومت کی بنیاد ہے


جغفرایہ
ویسے تو سعودی عرب کو پانچ منطقے میں تقسیم کیا جاتا ہے
1- منطقہ شرقیہ
2- منطقہ غربیہ
3- منطقہ وسطیٰ
4- منطقہ جنوبی
5- منطقہ شمالی 


لیکن سعودی عرب کو انتظامی لحاظ سے تیرہ علاقوں یا صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جنکو عربی زبان میں مناطق (عربی واحد: منطقہ) کہتے ہیں

1 الباحہ
2 الحدود الشماليہ
3 الجوف
4 المدينہ
5 القصيم
6 الرياض
7 الشرقيہ
8 عسير
9 حائل
10 جيزان
11 الحجاز
12 نجران
13 تبوک

This image has been resized. Click this bar to view the full image. The original image is sized 1024x788.
---------------------------------
سعودے عرب : بادشاہوں کی فرہست

پہلے :‌ 
بانی سعودی عرب
عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن آل سعود

مدت بادشاہت : 22 ستمبر 1932 سے 9 نومبر 1953


دوسرے : 
ابن سعود کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے سعود بن عبدالعزیز تخت نشین ہوئے۔

شاہ سعود بن عبدالعزیز 
مدت بادشاہت :1953-1964 

تیسرے :
شاہ سعود کے بعد انکے بھائی شاہ فیصل تخت نشین ہوئے۔
شاہ فیصل بن عبدالعزیز السعود 
مدت بادشاہت : 1964-1975 
25 مارچ 1975ء کو ان کے بھتیجے نے شاہی دربار میں گولی مار کر انہیں شہید کردیا۔


چوتھے :
شاہ فیصل کے بعد ان کے بھائی خالد بن عبدالعزیز تخت پر بیٹھے۔
شاہ خالد بن عبدالعزیز السعود
مدت بادشاہت : 1975-1982 


پانچویں :
شاہ فہد اپنے بھائی شاہ خالد کی وفات کے بعد سعودی کے بادشاہ مقرر ہوئے
شاہ فہد بن عبدالعزیز السعود
مدت بادشاہت : 1982-2005


چھٹے (تاحال) :
یکم اگست 2005ء کو شاہ عبداللہ نے اپنے رضاعی بھا ئی شاہ فہد کی وفات کے بعد تخت سنبھالا.
شاہ بداللہ بن عبدالعزیز السعود 
مدت بادشاہت : 2005 تاحال


سعودی عرب کا قومی ترانہ

سعودی قومی ترانے کے الفاظ ابراہیم خفجی نے لکھے تھے اور اس کو 1984ء میں ترانہ کے طور پر اپنایا گیا۔اس کی موسیقی مصری موسیقار عبدالرحمن نے ترتیب دی تھی۔


سارعي للمجد و العلياء 
مجدي لخالق السماء
وارفعي الخفاق الاخضر
يحمل النور المسطر
رددي الله أكبر
يا موطني
موطني عشت فخر المسلمين
عاش الملك
للعلم والوطن


اردو ترجمہ :
شتابی کے وقار اور تفویق
خالق جنت کی خوبصورتی
سبز پرچم کو اٹھاو
روشنی کی صورت میں
دہرائیں. اللہ سب سے بڑا ہے
اے میرے وطن
میرے وطن جیو، مسلمانوں کا افتخار بن کر
اے بادشاہ لمبی عمر پاو
پرچم اور وطن کے لیے


انگریزی ترجمہ :
Hasten to glory and supremacy,
Glorify the Creator of the heavens!
And raise the green flag
Carrying the emblem of Light
Repeating: Allah is the greatest
O my country
My country, Live as the glory of Muslims
Long live the King
for the flag and the country


پرچم
سعودی عرب کا پرچم (جھنڈا) 15 مارچ 1973 سے استعمال کیا گیا 
This image has been resized. Click this bar to view the full image. The original image is sized 750x500.




قومی شعار (نشان)
قومی نشان کو سعودی 1950 میں اپنایا گیا



آبادی
2010 کی مردم شماری کے مطابق سعودی عرب کی کل آبادی 25,731,776 ہے
جن میں سے غیر سعودی 5,576,076 ہیں
31 فیصد خارجیوں (غیر سعودی) ہیں جن میں سب سے بڑی تعداد بھارتیوں کی ہے (1.3 میلین)