YOUR INFO

Sunday 3 March 2013

اطاعتِ والدین قرآن کی رو سے فرض ہے

0 comments
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
جمع و ترتیب ذیشان اکرم رانا
اطاعتِ والدین قرآن کی رو سے فرض ہے

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَوَصَّيْنَا الإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا وَإِن جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلاَ تُطِعْهُمَا
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اور اگر تیرے والدین اس بات کے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ شرک کرے جس کی حقیقت کا تجھے علم نہیں تو پھر ان کی اطاعت نہ کر۔
( العنكبوت:29 - آيت:8 )

اور سورہ لقمان میں فرمایا:
وَوَصَّيْنَا الإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِير
وَإِن جَاهَدَاكَ عَلى أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلاَ تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا

اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں تاکیدی حکم دیا ہے۔ اس کی ماں نے اسے تکلیف پر تکلیف سہہ کر پیٹ میں اٹھایا اور دو سال تک دودھ پلایا۔ یہ کہ تو میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرے (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے اور اگر والدین اس بات کے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ شرک کرے جس کا تجھے علم نہیں تو پھر ان کی اطاعت نہ کرنا۔ تاہم دنیوی امور میں ان کا اچھی طرح ساتھ دے۔
( لقمان:31 - آيات:14-15 )

ان آیات سے مندرجہ ذیل امور سامنے آتے ہیں :
1۔ ماں باپ سے حسنِ سلوک ہر حالت میں فرض ہے۔ خواہ والدین مشرک ہوں یا کافر ، جوان ہوں یا بوڑھے۔
2۔ اگر والدین اولاد کو شرک (یا اللہ کی معصیت کے دوسرے کاموں) پر مجبور کریں تو یہی ایک صورت ہے کہ ان کی پیروی نہ کی جائے۔ باقی سب حالتوں میں ان کی اطاعت لازم ہے۔ اس طرح اولاد اپنے والدین پر کوئی احسان نہیں کرتی بلکہ اپنا فرض ادا کرتی ہے۔
3۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے شکر کے بعد ساتھ ہی والدین کے شکر کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے لہذا اس کا شکر واجب ہوا اور والدین اولاد کے لیے واسطہ تربیت ہیں۔ لہذا اللہ کے بعد دوسرے نمبر پر ان کا شکر بھی واجب ٹھہرایا۔ یہ ہے مقامِ والدین !
کیا اطاعت کے بغیر والدین سے حسنِ سلوک ممکن ہے؟

اب ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بےشمار مقامات پر والدین سے حسنِ سلوک یا نیکی کے برتاؤ کی جو تاکید فرمائی ہے تو کیا یہ "اطاعتِ والدین" کے بغیر ممکن بھی ہے یا نہیں؟
اس بارے میں درج ذیل آیات ملاحظہ فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :
وَبَرًّا بِوَالِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّارًا عَصِيًّا
اور وہ (یعنی حضرت یحییٰ) اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے والے تھے اور ان پر دباؤ ڈالنے والے یا نافرمان نہ تھے۔
( مريم:19 - آيت:14 )

معلوم ہوا کہ جو شخص اپنے والدین کا ، خواہ وہ کسی عمر میں ہوں ، سرکش اور نافرمان ہو ، وہ والدین کے ساتھ "نیک سلوک کرنے والا" نہیں ہو سکتا۔ گویا حسنِ سلوک کے لیے دو باتیں ضروری ہیں :
1۔ نرمی
2۔ فرماں برداری
بڑھاپے میں بھی اطاعتِ والدین ضروری ہے

حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے اسماعیل سے فرماتے ہیں:
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَى قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ
تو جب حضرت اسماعیل اپنے باپ حضرت ابراہیم کے کاموں میں حصہ لینے کی عمر کو پہنچے تو حضرت ابراہیم نے کہا:
اے میرے پیارے بیٹے ! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ اب تم دیکھو کہ اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟
حضرت اسماعیل نے کہا : اے میرے والد ، جو آپ کو حکم ہوا وہی کچھ کیجئے۔
( الصافات:37 - آيت:102 )

1۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام اس وقت پیدا ہوئے جب حضرت ابراہیم بوڑھے ہو چکے تھے۔
2۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب حضرت اسماعیل عاقل و بالغ ہو چکے تھے۔ ان میں کم از کم اتنا عقل وشعور آ چکا تھا کہ ان سے رائے لی جا سکے۔
3۔ اللہ کا حکم حضرت ابراہیم کو ہوا تھا ، حضرت اسماعیل کو نہیں ہوا تھا۔

ان سب باتوں کے باوجود حضرت اسماعیل نے والد کی اطاعت کی وہ مثال قائم کی جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی، نہ اس واقعہ سے پہلے اور نہ اس کے بعد۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنی جان کی قربانی پیش کرنے سے بھی انکار نہیں کیا۔
اور یہ نہیں سوچا کہ ۔۔۔
یہ تو خواب کی بات ہے
یا
یہ کہ (نعوذباللہ) اب باپ بوڑھا ہو گیا ہے جو اس طرح بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہے
یا
یہ کہ باپ تو محض میری رائے پوچھ رہا ہے کوئی حکم تو نہیں دے رہا
یا
یہ کہ اگر خواب میں حکم ہوا ہے تو میرے باپ کو ہوا ہے مجھے تو نہیں ہوا ۔۔۔۔۔
بلکہ آپ علیہ السلام نے اپنے باپ کی منشاء کے آگے سرتسلیم خم کر دیا۔
اور ۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے فَلَمَّا أَسْلَمَا کہہ کر اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ :
حضرت اسماعیل کی اپنے باپ کی منشاء کی "اطاعت" بھی عین "اللہ کی اطاعت" تھی !!

کیا اس سے بڑھ کر بھی (بوڑھے) والدین کی اطاعت کے سلسلہ میں قرآن سے کوئی ثبوت درکار ہے؟

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی

نتائج

تصریحاتِ بالا سے درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں:

1۔ بلوغت سے پہلے انسان ویسے ہی کافی حد تک والدین کی اطاعت پر مجبور ہوتا ہے۔ لہذا "اطاعتِ والدین" کا سوال خارج از بحث ہے کیونکہ اس عمر میں انسان شرعی احکام کا مکلف نہیں ہوتا۔
2۔ بلوغت سے لے کر 40 سال کی عمر تک (یعنی پختگی عقل یا اصابت رائے کی عمر تک) جو چالیس سال کی عمر کے لگ بھگ ہوتی ہے ، انسان کو والدین کی اطاعت ضرور کرنی چاہئے۔ کیونکہ اس عمر میں جوانی کا جوش اور جذبات میں شدت انسان کی عقل پر غالب ہوتے ہیں۔ لہذا وہ اپنا نفع نقصان بھی درست طور پر سوچنے کے قابل نہیں ہوتا اور اس کی اپنی عافیت بھی اسی بات میں ہوتی ہے کہ وہ بڑوں کی اطاعت کرے۔
3۔ چالیس سال کی عمر کے بعد اس کی عقل پختہ ہو جاتی ہے لیکن والدین کہولت کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں۔ والدین خود ہی اولاد کے محتاج ہونے کی وجہ سے اپنا کوئی حکم اپنی اولاد کے سر تھوپ نہیں سکتے۔ تاہم اس عمر میں بھی اولاد اگر اپنے والدین کی مرضی کو مقدم رکھے تو یہ بہت بڑی سعادت ہے۔ اگر کہیں اختلاف واقع ہو جائے ، پھر بھی اولاد کو یہ حق نہیں کہ وہ ان سے بحث و جدال کرے یا ان کو دبائے۔ بلکہ حکم یہ ہے ایسی حالت میں بھی ان کو اُف تک نہ کہے ، اپنی بات نرمی سے پیش کر کے والدین کو بدلائل قائل کرنے کی کوشش کرے اور دنیوی امور میں یعنی ان کے قیام و طعام کے سلسلہ میں ان کی خدمت دل و جان سے کرے۔
4۔ اگر والدین اللہ سے شرک کرنے یا معصیت کے کاموں پر اولاد کو مجبور کریں یعنی اللہ کے مقابلے میں کوئی حکم دیں تو ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی، خواہ یہ ان کی عمر کا کوئی دور ہو۔


بحوالہ :
آئینۂ پرویزیت
حصہ سوم : باب - اطاعتِ والدین
ص: 361-363

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔