YOUR INFO

Friday 28 June 2013

نماز تراویح کی رکعات

0 comments

نماز تراویح کی رکعات
یں نے اس سے قبل بھی یہ سوال کیا تھا اب پھرمیری گزارش ہے کہ ایسا جواب دیں جس سے مجھے کوئي فائدہ ہو پہلا جواب کچھ اچھا نہیں تھا ۔ 
سوال یہ ہے کہ آیا تروایح گیارہ رکعات ہیں یا بیس ؟ کیونکہ سنت تو گیارہ رکعت ہی ہیں ، اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی بھی اپنی کتاب " القیام والتراویح " میں اسے گیارہ رکعت ہی قرار دیتے ہیں ۔
کچھ لوگ تو ان مساجد میں نماز تراویح ادا کرنے جاتے ہیں جہاں گیارہ رکعت ادا کی جاتی ہیں ، اورکچھ ان مساجد میں جاتے ہیں جہاں بیس رکعت ادا کی جاتی ہیں ، یہاں امریکہ میں یہ مسئلہ حساس بن چکا ہے کیونکہ گیارہ رکعت ادا کرنے والے بیس رکعت والوں کو ملامت کرتے ہیں ، اوراس کےبرعکس بیس رکعت پڑھنےوالے دوسروں کو ملامت کرتے ہیں اورفتنہ کی صورت بن چکی ہے ، اورپھر یہ بھی ہے کہ مسجد حرام میں بھی بیس رکعت ادا کی جاتی ہیں ۔
مسجد حرام اورمسجد نبوی میں نماز سنت کے خلاف کیوں ادا کی جاتی ہے ؟ مسجد حرام اورمسجدنبوی میں بیس رکعت کیوں ادا کی جاتی ہیں ؟
الحمد للہ
ہمارے خیال میں مسلمان کو اجتھادی مسائل میں اس طرح کا معاملہ نہيں کرنا چاہیے کہ وہ اہل علم کے مابین اجتھادی مسائل کو ایک حساس مسئلہ بنا کراسے آپس میں تفرقہ اورمسلمانوں کے مابین فتنہ کا باعث بناتا پھرے ۔
شیخ ابن ‏عثیمین رحمہ اللہ تعالی دس رکعت ادا کرنے کےبعد بیٹھ کروترکا انتظار کرنے اورامام کے ساتھ نماز تراویح مکمل نہ والے شخص کے بارہ میں کہتے ہیں کہ :
ہمیں بہت ہی افسوس ہوتا ہے کہ امت مسلمہ میں لوگ ایسے مسائل میں اختلاف کرنے لگے ہیں جن میں اختلاف جائز ہے ، بلکہ اس اختلاف کو وہ دلوں میں نفرت اوراختلاف کا سبب بنانے لگے ہیں ، حالانکہ امت میں اختلاف تو صحابہ کرام کے دور سے موجود ہے لیکن اس کے باوجود ان کے دلوں میں اختلاف پیدا نہیں ہوا بلکہ ان سب کے دل متفق تھے ۔
اس لیے خاص کرنوجوانوں اورہرملتزم شخص پر واجب ہے کہ وہ یکمشت ہوں اورسب ایک دوسرے کی مدد کریں کیونکہ ان کے دشمن بہت زيادہ ہیں جوان کے خلاف تدبیروں میں مصروف ہیں ۔
دیکھیں : الشرح الممتع ( 4 / 225 ) ۔
اس مسئلہ میں دونوں گروہ ہی غلو کا شکار ہیں ، پہلے گروہ نے گیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے کومنکر اوربدعت قرار دیا ہے اوردوسرا گروہ صرف گیارہ رکعت ادا کرنے والوں کو اجماع کا مخالف قرار دیتے ہیں ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ شيخ الافاضل ابن ‏عثيمین رحمہ اللہ تعالی اس کی کیا توجیہ کرتے ہیں :
ان کا کہنا ہے کہ :
ہم کہیں گے گہ : ہمیں افراط وتفریط اورغلو زيب نہيں دیتا ، کیونکہ بعض لوگ تراویح کی تعداد میں سنت پر التزام کرنے میں غلو سے کام لیتے اورکہتےہیں : سنت میں موجود عدد سے زيادہ پڑھنی جائز نہيں ، اوروہ گیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے والوں کوگنہگار اورنافرمان قرار دیتے اور ان کی سخت مخالفت کرتے ہیں ۔
بلاشک وشبہ یہ غلط ہے ، اسے گنہگار اورنافرمان کیسے قرار دیا جاسکتا ہے حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز کے بارہ میں سوال کيا گيا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( دو دو ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں پر تعداد کی تحدید نہیں کی ، اوریہ معلوم ہونا چاہیے کہ جس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھااسے تعداد کا علم نہیں تھا ، کیونکہ جسے نماز کی کیفیت کا ہی علم نہ ہواس کاعدد سے جاہل ہونا زيادہ اولی ہے ، اورپھر وہ شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں میں سے بھی نہیں تھا کہ ہم یہ کہیں کہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ہونے والے ہرکام کا علم ہو ۔
لھذا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تعداد کی تحدید کیے بغیر نماز کی کیفیت بیان کی ہے تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ اس معاملہ میں وسعت ہے ، اورانسان کے لیے جائزہے کہ وہ سو رکعت پڑھنے کے بعد وتر ادا کرے ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ :
( نمازاس طرح ادا کرو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے ) ۔
یہ حدیث عموم پر محمول نہيں حتی کہ ان کے ہاں بھی یہ عموم پر نہیں ہے ، اسی لیے وہ بھی انسان پر یہ واجب قرار نہیں دیتے کہ وہ کبھی پانچ اورکبھی سات اورکبھی نو وتر ادا کریں ، اگر ہم اس حدیث کے عموم کو لیں تو ہم یہ کہيں گے کہ :
کبھی پانچ کبھی سات اور کبھی نو وتر ادا کرنے واجب ہیں ، لیکن ایسا نہیں بلکہ اس حدیث " نماز اس طرح ادا کرو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے" کا معنی اورمراد یہ ہے کہ نماز کی کیفیت وہی رکھو لیکن تعداد کے بارہ میں نہیں لیکن جہاں پر تعداد کی تحدید بالنص موجود ہو ۔
بہر حال انسان کو چاہیے کہ وہ کسی وسعت والے معاملے میں لوگوں پر تشدد سے کام نہ لے ، حتی کہ ہم نے اس مسئلہ میں تشدد کرنے والے بھائیوں کو دیکھا ہے کہ وہ گیارہ رکعت سے زيادہ آئمہ کو بدعتی قرار دیتے اورمسجد نے نکل جاتے ہیں جس کے باعث وہ اس اجر سے محروم ہوجاتے ہیں جس کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ :
( جو بھی امام کے ساتھ اس کے جانے تک قیام کرے اسے رات بھر قیام کا اجروثواب حاصل ہوتا ہے ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 806 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ترمذی ( 646 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
کچھ لوگ دس رکعت ادا کرنے کے بعد بیٹھ جاتے ہیں جس کی بنا پر صفوں میں خلا پیدا ہوتا اورصفیں ٹوٹ جاتی ہیں ، اوربعض اوقات تو یہ لوگ باتیں بھی کرتے ہیں جس کی بنا پر نمازی تنگ ہوتے ہیں ۔
ہمیں اس میں شک نہيں کہ ہمارے یہ بھائي خیر اوربھلائي ہی چاہتے ہيں اوروہ مجتھد ہیں لیکن ہر مجتھد کا اجتھاد صحیح ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات وہ اجتھاد میں غلطی بھی کربیٹھتا ہے ۔
اوردوسرا گروہ : سنت کا التزام کرنے والوں کے برعکس یہ گروہ گیارہ رکعت ادا کرنے والوں کوغلط قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اجماع کی مخالفت کررہے ہیں ، اوردلیل میں یہ آیت پیش کرتے ہيں :
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ جوشخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے اورتمام مومنوں کی راہ چھوڑکر چلے ، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہوا اوردوزخ میں ڈال دیں گے ، وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے } النساء ( 115 )
آپ سے پہلے جتنے بھی تھے انہيں تئيس رکعت کے علاوہ کسی کا علم نہیں تھا ، اوروہ انہیں بہت زیادہ منکر قرار دیتے ہیں ، لھذا یہ گروہ بھی خطاء اورغلطی پر ہے ۔
دیکھیں الشرح الممتع ( 4 / 73 - 75 ) ۔
نماز تراویح میں آٹھ رکعت سے زيادہ کے عدم جواز کے قائلین کے پاس مندرجہ ذيل حدیث دلیل ہے :
ابوسلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں میں نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ کی رمضان میں نماز کیسی تھی ؟
توعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کہنے لگيں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اورغیررمضان میں گیارہ رکعت سے زيادہ ادا نہيں کرتے تھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاررکعت ادا کرتے تھے آپ ان کی طول اورحسن کےبارہ میں کچھ نہ پوچھیں ، پھر چار رکعت ادا کرتے آپ ان کے حسن اورطول کے متعلق نہ پوچھیں ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت ادا کرتے ، تومیں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ وترادا کرنے سے قبل سوتے ہیں ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن دل نہيں سوتا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1909 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 738 )
ان کا کہنا ہے کہ یہ حدیث رمضان اورغیررمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کی ہمیشگی پر دلالت کرتی ہے ۔
علماء کرام نے اس حدیث کے استدلال کورد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے اور فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا ۔
رات کی نماز کی رکعات کی تعداد مقیدنہ ہونے کے دلائل میں سب سے واضح دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :
ابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارہ میں سوال کیا تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( رات کی نماز دو دو رکعت ہے اورجب تم میں سےکوئي ایک صبح ہونے خدشہ محسوس کرے تو اپنی نماز کے لیے ایک رکعت وتر ادا کرلے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 946 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 749 ) ۔
اس مسئلہ میں علماء کرام کے اقوال پر نظر دوڑانے سے آپ کو یہ علم ہوگا کہ اس میں وسعت ہے اورگیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے میں کوئي حرج نہيں ، ذیل میں ہم معتبرعلماء کرام کے اقوال پیش کرتے ہیں :
آئمہ احناف میں سے امام سرخسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ہمارے ہاں وتر کے علاوہ بیس رکعات ہیں ۔
دیکھیں : المبسوط ( 2 / 145 ) ۔
اورابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ابوعبداللہ ( یعنی امام احمد ) رحمہ اللہ تعالی کے ہاں بیس رکعت ہی مختار ہيں ، امام ثوری ، ابوحنیفہ ، امام شافعی ، کا بھی یہی کہنا ہے ، اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں کہ چھتیس رکعت ہیں ۔
دیکھیں : المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 1 / 457 ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
علماء کرام کے اجماع میں نماز تراویح سنت ہیں ، اورہمارے مذہب میں یہ دس سلام م کے ساتھ دو دو رکعت کرکے بیس رکعات ہیں ، ان کی ادائيگي باجماعت اورانفرادی دونوں صورتوں میں ہی جائز ہیں ۔
دیکھیں : المجموع للنووی ( 4 / 31 ) ۔
نماز تراویح کی رکعات میں مذاہب اربعہ یہی ہے اورسب کا یہی کہنا ہے کہ نماز تراویح گیارہ رکعت سے زيادہ ہے ،اورگيارہ رکعت سے زيادہ کے مندرجہ ذیل اسباب ہوسکتے ہیں :
1 - ان کے خیال میں حدیث عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا اس تعداد کی تحدید کی متقاضی نہيں ہے ۔
2 - بہت سے سلف رحمہ اللہ تعالی سے گیارہ رکعات سے زيادہ ثابت ہیں
دیکھیں : المغنی لابن قدامہ ( 2 / 604 ) اورالمجموع ( 4 / 32 )
3 - نبی صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات ادا کرتے تھے اوریہ رکعات بہت لمبی لمبی ہوتی جو کہ رات کے اکثر حصہ میں پڑھی جاتی تھیں ، بلکہ جن راتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو نماز تراویح کی جماعت کروائي تھی اتنی لمبی کردیں کہ صحابہ کرام طلوع فجر سے صرف اتنا پہلے فارغ ہوئے کہ انہيں خدشہ پیدا ہوگيا کہ ان کی سحری ہی نہ رہ جائے ۔
صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کرنا پسند کرتے تھے اوراسے لمبا نہيں کرتے تھے ، توعلماء کرام نے کا خیال کیا کہ جب امام مقتدیوں کو اس حدتک نماز لمبی پڑھائے تو انہيں مشقت ہوگی ، اورہوسکتا ہے کہ وہ اس سے نفرت ہی کرنے لگیں ، لھذا علماء کرام نے یہ کہا کہ امام کو رکعات زيادہ کرلینی چاہیے اور قرآت کم کرے ۔
حاصل یہ ہوا کہ :
جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہی گیارہ رکعت ادا کی اورسنت پر عمل کیا تو یہ بہتر اوراچھا اورسنت پر عمل ہے ، اورجس نے قرآت ہلکی کرکے رکعات زيادہ کرلیں اس نے بھی اچھا کیا لیکن سنت پر عمل نہيں ہوا ، اس لیے ایک دوسرے پر اعتراض نہيں کرنا چاہیے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اگرکوئي نماز تراویح امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، اورامام احمد رحمہم اللہ کے مسلک کے مطابق بیس رکعت یا امام مالک رحمہ اللہ تعالی کے مسلک کے مطابق چھتیس رکعات ادا کرے یا گیارہ رکعت ادا کرے تو اس نے اچھا کیا ، جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے عدم توقیف کی بنا پر تصریح کی ہے ، تورکعات کی کمی اورزيادتی قیام لمبا یا چھوٹا ہونے کے اعتبار سے ہوگي ۔
دیکھیں : الاختیارات ( 64 ) ۔
امام سیوطی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ان صحیح اورحسن احادیث جن میں رمضان المبارک کے قیام کی ترغیب وارد ہے ان میں تعداد کی تخصیص نہیں ، اورنہ ہی یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح بیس رکعت ادا کی تھیں ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی راتیں بھی نماز تروایح کی جماعت کروائی ان میں رکعات کی تعداد بیان نہیں کی گئي ، اورچوتھی رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز تراویح سے اس لیے پیچھے رہے کہ کہيں یہ فرض نہ ہوجائيں اورلوگ اس کی ادائيگي سے عاجز ہوجائيں ۔
ابن حجر ھیثمی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
یہ صحیح نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےنماز تراویح بیس رکعات ادا کی تھیں ، اورجویہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیس رکعت ادا کیا کرتے تھے "
یہ حدیث شدید قسم کی ضعیف ہے ۔
دیکھیں : الموسوعۃ الفقھیۃ ( 27 / 142 - 145 ) ۔
اس کے بعد ہم سائل سے یہ کہيں گے کہ آپ نماز تراویح کی بیس رکعات سے تعجب نہ کریں ، کیونکہ کئي نسلوں سے آئمہ کرام بھی گزرے وہ بھی ایسا ہی کرتے رہے اور ہر ایک میں خیر وبھلائي ہے ۔سنت وہی ہے جواوپر بیان کیا چکا ہے ۔
واللہ اعلم .

Monday 17 June 2013

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ

0 comments

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ

سوال : تفصیل سے واضح کریں کہ سیّد الانبیاء محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ مبارک تھایا نہیں ؟

جواب : سیّد الانبیاء محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اﷲ کے برگزیدہ نبی اور انسان تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلسلہ انسانیت سے پیدا کیا تھا اور انسان ہونے کے اعتبار سے یہ بات عیاں ہے کہ انسان کا سایہ ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ نے ایک مقام پر فر ما یا ہے کہ :

’’اور جتنی مخلو قا ت آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی اور نا خوشی سے اﷲ تعالیٰ کے آگے سجدہ کر تی ہیں اور اْن کے سائے بھی صْبح و شام سجدہ کرتے ہیں ۔‘‘(رعد :۱۵)

ایک اور مقام پر فرمایا :

’’کیا اْنہوں نے اﷲکی مخلوقات میں سے کسی کو بھی نہیں دیکھا کہ اْس کے سائے دائیں اور بائیں سے لوٹتے ہیں ۔ یعنی اﷲ کے آگے ہو کر سر بسجود ہوتے ہیں۔‘‘(النحل : ۴۸)
اِن ہر دو آیات سے معلوم ہو تا ہے کہ آسمان و زمین میں اﷲ نے جتنی مخلوق پیدا کی ہے اْن کا سایہ بھی ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو اﷲ کی مخلوق ہیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی سا یہ تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سائے کے متعلق کئی احادیث موجود ہیں جیسا کہ :
سیّدنا اَنس رضی اللہ عنہہ فرماتے ہیں کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی اور بالکل نماز کی حالت میں اپنا ہاتھ اچانک آگے بڑھایا مگر پھر جلد ہی پیچھے ہٹالیا ہم نے عرض کیا کہ اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافِ معمول نماز میں نئے عمل کا اضافہ کیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ۔بلکہ بات یہ ہے کہ میرے سامنے ابھی ابھی جنت پیش کی گئی میں نے اِس میں بہترین پھیل دیکھے تو جی میں آیا کہ اِس میں سے کچھ اْچک لوں مگر فوراً حکم ملا کہ پیچھے ہٹ جاؤ میں پیچھے ہٹ گیا پھر مجھ پر جہنم پیش کی گئی۔
((حَتّٰی رَأَیْت ظِلِیّ وَظِلِیّ وَظِلَّلکْمْ)) اِس کی روشنی میں میں نے اپنا اور تمہارا سایہ دیکھا ۔ دیکھتے ہی میں نے تمہاری طرف اشارہ کیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔ (مستدرک حاکم ۴ / ۴۵۶)
امام ذہبی نے تلخیص مستددک میں فرمایا : ھزا حدیث صحیح یہ حدیث صحیح ہے ۔اِسی طرح مسند احمد ۶/۱۳۲‘۶/۳۳۸طبقات الکبریٰ ۸/۱۲۷‘مجمع الزوائد۴/۳۲۳ پر ایک حدیث میں مروی ہے کہ سیدّہ زینب رضی اللہ عنہا اورسیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا ایک سفر میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں‘ صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک اْونٹ تھا اور وہ بیمار ہو گیا جب کہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس دو اونٹ تھے ۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایک زائد اونٹ صفیہ رضی اللہ عنہا کو دے دو تو اْنہوں نے کہا میں اْس یہودیہ کو کیوں دوں ؟ اِس پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوگئے ۔ تقریباً تین ماہ تک زینب رضی اللہ عنہا کے پاس نہ گئے حتیٰ کہ زینب رضی اللہ عنہا نے مایوس ہو کر اپنا سامان باندھ لیا۔
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :
’’اچانک دیکھتی ہوں کہ دوپہر کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ مبارک آرہا ہے ۔‘‘
عقلی طور پر بھی معلوم ہوتا ہے کہ سایہ مرئیہ فقط اْس جسم کا ہوتا جو ٹھوس اور نگر ہو نیز سورج کی شعاعوں کوروک ہی نہیں سکتا تو اِس کا سایہ بلاشبہ نظر نہیں آتا ۔ مثلاً صاف اور شفاف شیشہ اگر دھوپ میں لایا جائے تو اْس اک سایہ دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اِس میں شعاعوں کو روکنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی ۔ بخلاف اِس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر نہایت ٹھوس اور نگر تھا اْس کی ساخت شیشے کی طرح نہیں تھی کہ جس سے سب کچھ ہی گزر جائے۔
لا محالہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ تھا ۔ اگر جسم اطہر کا سایہ مبارک نہ تھا تو کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم لباس پہنتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبلوسات کا بھی سایہ نہ تھا اگر وہ کپڑے اتنے لطیف تھے کہ اْن کا سایہ نہ تھا تو پھر اِن کے پہننے سے ستر وغیرہ کی حفاظت کیسے ممکن ہوگی؟
منکرینِ سایہ یہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نور تھے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا اور یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ اِس لیے نہیں تھا کہ اگر کسی کا اپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ پر قد م آجا تا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہوتی اِس لیے اﷲ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ پیدا ہی نہیں کیا ۔ جہاں تک پہلی بات کا ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نور تھے اور نور کا سایہ نہیں ‘ سراسر غلط ہے۔ نوریوں کا سایہ صحیح حدیث سے ثابت ہے جب سیّد نا جابر رضی اللہ عنہہ کے والد عبداﷲ رضی اللہ عنہہ غزوئہ اْحد میں شہید ہوگئے تو اْن کے اہل و عیال اْن کے گرد جمع ہوکر رونے لگے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کہ جب تک تم انہیں یہاں سے اْٹھا نہیں لیتے اْس وقت سے فرشتے اِس پر اپنے پرّوں کا سایہ کیے رکھیں گے۔‘‘(بخاری کتاب الجنائز ۲ / ۱۵)
اور دوسری بات بھی خلافِ واقع ہے کیونکہ سایہ پاؤں کے نیچے آہی نہیں سکتا جب کبھی کوئی شخص سائے پر پاؤں رکھے گا تو سایہ اْس کے پاؤں کے اْوپر ہوجائے گا نہ کہ نیچے ۔ لہٰذا ان عقلی اور نقلی دلائل کہ خلاف یہ بے عقلی کی اور بے سند باتیں حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتیں۔

Sunday 16 June 2013

غم اور پریشانی کا شرعی علاج

0 comments


غم اور پریشانی کا شرعی علاج
------------------------------------

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ 

(1) کسی پر جو غم ہوتا ہے اس کے ازالے کے لیے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ،اللهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي،وَأخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَ
(مسلم)
========
(2) غمگین انسان کو اپنا غم دور کرنے کے لیے یہ دعا پڑھنی چاہیے 
(ابن مسعودمرفوعا)اللہ اس کے غم کو دور کرئے گا 
اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ وَابْنُ عَبْدِكَ وَأَمَتِكَ، نَاصِيَتِي فِي يَدِكَ مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِي قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ،أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي، وَجِلَاءَ حُزْنِي، وَذَهَابَ هَمِّي،إِلَّا أَذْهَبَ اللَّهُ هَمَّهُ، وَأَبْدَلَهُ مَكَانَ حُزْنِهِ فَرَحًا
(مستدرک حاکم )
==========
(3) دَعَوَاتُ الْمَكْرُوبِ:اللَّهُمَّ رَحْمَتَكَ أَرْجُو،فَلَا تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ،وَأَصْلِحْ لِي شَأْنِي كُلَّهُ،لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ
(صحیح ابن حبان ،سنن ابو داؤد )
===========
(4) مَا كَرَبَنِي أَمْرٌ إِلَّا تَمَثَّلَ لِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، قُلْ: تَوَكَّلْتُ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًا
(مستدرک حاکم)
(5) حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہا کو سکھلایا کہ ایسے کلمات نہ سکھاؤں جو تو تکلیف اور پریشانی وغم کے وقت کہے أَللَّهُ أَللَّهُ رَبِّي لَا أُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا
(ابو داؤد )
=========
(6) حَسْبُنَا اللّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ 
ابراہیم علیہ السلام نے آگ میں پھینکے جاتے وقت پڑھی۔
(بخاری)
============
(7) مشکل کام میں آسانی کے لیے پڑھیں غم نہ کریںاللَّهُمَّ لَا سَهْلَ إِلا مَا جَعَلْتَهُ سَهْلاً وَأَنْتَ تَجْعَلُ الْحَزْنَ إِذَا شِئْتَ سَهْلاً
(ابن حبان)
==========
(8) لَّا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ 
یونس علیہ السلام کی طرح غم دور ہوگا۔(ترمذی )
===========
(9) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہےکہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام گھر والوں کو جمع کیا فرمایا جب تم میں سے کسی کو غم دکھ پہنچے ،نقصان یا صدمے کا سامنا ہو تو یہ کلمات پڑھا کرو 
أَللَّهُ أَللَّهُ رَبِّي لَا أُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا
(ابن حبان )ابو داؤد سات مرتبہ صبح شام پڑھو۔
=========
(10) لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ العَظِيمُ الحَلِيمُ،لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، وَرَبُّ العَرْشِ العَظِيمِ
(بخاری )
=========
غم اور پریشانی کے خاتمہ کے لیے چند عملی اقدامات
(1) صبر ہو، بے صبری اورجلد بازی نہ ہو
(2) امید ہو ،مایوسی نہ ہو
(3) اللہ پر راضی رہو ،ناراضی نہ ہو
(4) حسن ظن ہو،بدگمانی نہ ہو
(5) اللہ کے ہاں فریاد ہو ،غیر اللہ سے اور عاملوں سے فریاد نہ ہو
(6) اعتدال ومیانہ روی ہو،حد سے تجاوز نہ ہو
(7)دشمن کو معاف کردینا ہو ،انتقام نہ ہو 
(8) توکل وبھروسہ ہو، اپنے آپ پر دارومدار نہ ہو

Friday 14 June 2013

ماہ شعبان کی فضیلت او رشب برات کی حقیقت

0 comments

ماہ شعبان کی فضیلت او رشب برات کی حقیقت

ماہِ شعبان کی فضيلت
يہ شعبان کا مہينہ ہے ،مہينوں سے متعلق اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
(( إ ن عدة الشهور عند الله اثنا عشر شهراًفي کتاب الله يوم خلق السموات والارض منها اربعة حرم)) (سورة توبہ 36)
مہينوں کی گنتی اللہ کے نزديک کتاب اللہ ميں بارہ کی ہے ،اسي دن سے جب سے آسمان وزمين کو اس نے پيدا کيا ہے ان ميں سے چار حرمت وادب کے ہيں ،،
ابتداء آفرينش سے ہی اللہ تعالی نے بارہ مہينے مقرر فرمائے ہيں جن ميں چار حرمت والے ہيں اور وہ چار مہينے يہ ہيں :رجب، ذو القعدة ،ذوالحجة اور محرم بعض مہينے کی فضيلت اور اہميت کتاب وسنت سے ثابت ہے جيسے ماہِ رمضان ،ذوالحجة و محرم اور شعبان وغيرہ ،مگر ماہ شعبان کی فضيلتوں کو کچھ لوگوں نے اسقدر بڑھ چڑھ کر بيان کرنا شروع کرديا کہ ان فضيلتوں کے سامنے ماہ رمضان کی فضيلتيں کم نظر آنے لگيں.ماہ شعبان کی فضيلت سے متعلق چند صحيح احاديث ملاحظہ فرمائيے:
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہيں کہ :رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم جب روزہ رکھنے لگتے تھے تو ہم کہتے تھے کہ اب افطار نہيں کريں گے، اور جب روزہ رکھنا چھوڑديتے تھے تو ہم کہتے تھے کہ اب روزہ نہيں رکھيں گے.اور ميں نے نہيں ديکھا کہ رسول اللہ عليہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کسی مہينہ ميں مکمل ايک ماہ روزہ رکھاہو، اور ميں نے نہيں ديکھا کہ آپ صلی اللہ عليہ سلم رمضان کے بعد شعبان مہينہ سے زيادہ کسي مہينہ ميں روزہ رکھتے ہوں،،
(بخاري کتاب الصوم باب:52حديث:736)
انہيں سے مروی ہے وہ فرماتی ہيں کہ ميں نے نبی صلی اللہ عليہ وسلم کو نہيں ديکھاکہ شعبان سے زيادہ(رمضان کے بعد) کسی مہينہ ميں روزہ رکھتے ہوں،چند دن چھوڑ کر پورے ماہ روزہ رکھتے تھے،،
( ترمذی کتاب الصوم باب:37حديث: 736)
انہيں سے مروی ہے کہ نبی کريم صلي  اللہ عليہ وسلم مہينوں ميں سب سے زيادہ شعبان ميں روزہ رکھناپسند کرتے تھے اور ساتھ ہی رمضان کو بھی ملا ليتے ،،    (ابو داؤد کتاب الصوم باب:57حديث:2431)
اسی طرح ام سلمہ رضي اللہ عنہا سے مروی کہ ميں نے نبی صلي اللہ عليہ وسلم کو شعبان اور رمضان کے علاوہ کسی اور دو مہينے ميں مسلسل روزہ رکھتے ہوئے نہيں ديکھا ،،(ترمذی کتاب الصوم باب:37حديث:736)
شب برات کی حقيقت
(( انا انزلننه في ليلة مباركة انا کنا منذرين فيها يفرق کل امر حکيم)) (الدخان : 3,4 )
” تحقيق ہم نے وہ کتاب بابرکت رات ميں اتاری ہے بے شک ہم لوگوں کو ڈرائيں گے  اسي رات ميں تمام باحکمت امور کی تفصيل کی جائے گی “
ليلۃ مبارکہ کی تشريح
اس آيت کی تفسير ميں مفسرين کے دو قول ہيں بعض کے نزديک ليلۃمبارکہ سے مراد ليلۃالقدر ( جو رمضان ميں آتی ہے) اور بعض کے نزديک شب برات ہے
((قيل سميت ليلة البراۃ لان براتين براۃ الاشقياءمن الرحمن وبراۃ الاولياءمن الخذلان))
(غنیۃ الطالبين : 192/1(
شب برات اس لئے نام رکھا گيا کہ اس ميں دو نجاتيں ہيں ايک نجات بدبختوں کی عذاب الہي سے ، دوسری نجات اولياءاللہ کی رسوائي و ذلت سے
(( قال قتادة وابن زيد هي ليلة القدر انزل الله القرآن في ليلة القدر قيل هي ليلة النصف من شعبان)) (معالم خازن : 143/5 )
((وعن بعض هي ليلة النصف من شعبان)) (جامع البيان : 420)
((هي ليلة القدر او ليلة النصف من شعبان نزل فيها من ام الکتاب من السماءالسابعة الي السماءالدنيا والجمهور علي الاول کذا في المدارک)) (جلالين : 410 )
مذکورہ عبارات ميں بعض نے ليلۃ مبارکۃ سے مراد ليلۃ القدر بھی ليا ہے اور بعض نے شب برات ( پندرہ شعبان ) مراد ليا ہے  تفسير صاوی ميں ہے :
((هي ليلة النصف من شعبان هو قول عکرمة وطاتفة وجه بامور منها ان ليلة النصف من شعبان لها اربعة اسماءليلة المباركة وليلة البراة وليلة الرحمة وليلة الصک ومن افضل العبادة فيها))  (حاشيہ جلالين : 410 )
تفسير صاوی ميں ہے کہ ليلۃ سے مراد شب برات ہے  يہ مسلک عکرمہ اور ايک دوسرے گروہ کا ہے  اس کی توجيہ يہ بيان فرمائی ہے کہ ليلۃ مبارکۃ کے چار نام ہيں :
1 ليلة مباركة     2 ليلة الرحمة      3 ليلة البراة     4 ليلة الصك 
اور اس ميں عبادت کی بڑي فضيلت ہے-
امام شوکانی فتح القدير ميں رقمطراز ہيں کہ ليلۃ مبارکہ سے مراد ليلۃ القدر ہے اور اس کے چار نام ہيں :
ليلة مباركة، ليلة البراة ، ليلة  الصک ، ليلة  القدر-
امام شوکانی فرماتے ہيں کہ : جمہور کا مسلک بالکل صحيح ہے -کہ ليلہ مبارکہ سے مراد ليلۃالقدر ہے ، شب براۃ نہيں ہے کيونکہ اللہ تعالی نے اس جگہ اجمال سے بيان فرمايا اور سورۃ القدر ميں بيان فرمايا کہ :
((انا أنزلنه في ليلة القدر ))
يعني قرآن مجيد رمضان المبارک ميں ليلۃ القدر کو نازل کيا گيا ، جس کو اس جگہ ليلۃمبارکۃسے تعبير فرمايا ہے اس وضاحت کے بعد کوئي شبہ باقي نہيں رہا
فتح القدير ميں ہے کہ
: ” حضرت عطيہ ابن اسود رضي اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضي اللہ عنہ سے سوال کيا کہ ميرے دل ميں ان تين آيتوں کے بارے ميں شک ہے کہ اس سے کيا مراد ہے 
1 . رمضان کا وہ مہينہ جس ميں قرآن مجيد نازل کيا گيا 
2 . بے شک ہم نے قرآن کو ليلۃ القدر ميں نازل کيا ہے
3 . بے شک ہم نے قرآن کو ليلۃ مبارکہ ميں نازل کيا ہے 
حضرت عبداللہ بن عباس رضي اللہ عنہ نے جواب ديا کہ قرآن رمضان ميں ليلۃالقدر کو نازل کيا گيا اور اسی کا نام ليلۃمبارکہ ہے  تفسير کبير ميں ہے :
((القائلون بان المراد من الليلة المذکورة في هذه الاية هي ليلة النصف من شعبان فما رأيت لهم دليلا  يقول عليه))
يعني جو لوگ کہتے ہيں کہ ليلۃمبارکۃ سے مراد شب برات ہے  ان کے پاس کوئی دليل نہيں ہے 
تفسير ابن کثير ميں ہے کہ :
((من قال انها ليلة  النصف من شعبان فقد ابعد النجحة فان نص القرآن  إنها في رمضان)) 
جس نے کہا کہ ليلۃ مبارکہ سے مراد شب برات ہے اس نے دور کی بات کہی  کيونکہ نصِ قرآن سے ثابت ہے کہ وہ رمضان ميں ہے ( تفسير ابن کثير137/2 )
تحفۃ الاحوذی ميں ہے کہ تو جان لے بے شک آيت :
((انا انزلنه في ليلة مباركة)) 
ليلۃمبارکہ سے مراد جمہور کے نزديک ليلۃ القدر ہے  بعض اسے شب برات سمجھتے ہيں جمہور کا مسلک صحيح ہے
بعض اسلاف کا خيال ہے کہ ليلۃ مبارکہ سے مراد شب برات ہے  ليکن يہ قول نصوص قرآن کے مخالف ہے  کيونکہ قرآن کا نزول رمضان ميں ليلۃ القدر ميں ہے لہذا ليلۃمبارکہ سے مراد بھی ليلۃ القدر ہے اس طرح آيات ميں کوئی اختلاف نہيں ہے
شبِ برات کی احاديث اور ان کی حيثيت : 
1:حديث عائشہ رضی اللہ عنہا : جامع ترمذي ميں ہے ( ترجمہ بے شک اللہ تعالی شب برات کو آسمان دنيا پر نزول فرماتے ہيں اور بنی کلب کی بکريوں کے بالوں سے زيادہ گناہ گاروں کو معاف فرماتے ہيں
امام ترمذي رحمہ اللہ فرماتے ہيں کہ ميں نے حضرت امام محمد بن اسماعيل بخاری رحمہ اللہ سے سنا وہ اس حديث کو ضعيف قرار ديتے ہيں کيونکہ حجاج سے يحيی اور يحيی سے عروہ کا سماع ثابت نہيں ہے لہذا حديث منقطع ہے
2 :حديث حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ :
((يطلع الله الي جميع خلقه ليلة النصف من شعبان فيغفره لجميع خلقه الا لمشرک او مشاحن))
(طبرانی ، ابن ماجہ ، صحيح ابن حبان فی سندہ عند ابن ماجہ ابن لہيعۃ وھو ضعيف )
” شب برات کو اللہ تعالی اپنی تمام مخلوق کی طرف ديکھتے ہيں ، مشرک و کينہ پرور کے ماسوا ہر ايک کو معاف فرماتے ہيں  اس روايت ميں ابن لہيعۃ راوي ضعيف ہے “
:3حديث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ :
((يطلع الله عزوجل الي عامة ليلة النصف من شعبان فيغفره لعبادہ الا اثنين مشاحن وقاتل النفس ، قال المنذري رواہ احمد باسناده))’’ شب برات کو اللہ تعالی کينہ پرور اور قاتل کے سوا ہر ايک کو معاف فرماتے ہيں ‘‘ علامہ امام منذری رحمہ اللہ نے فرمايا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے اس کو ضعيف سے روايت کيا ہے -
4 :حديث کثير بن مرۃ رضی اللہ عنہ :
” في  ليلة النصف من شعبان يغفر الله عزوجل  لاهل الارض الا مشرک او مشاحن قال المنذري رواہ اليه قي وقال هذا مرسل جيد “ امام منذری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ امام بيہقی نے روايت کر کے فرمايا کہ يہ روايت بہت مرسل ہے
5 :حديث حضرت علی رضی اللہ عنہ : ابن ماجہ
جب شب پندرہ شعبان ( شب برات ) ہوتی ہے تو رات کو قيام کرو اور دن کو روزہ رکھو بے شک اللہ تعالي غروب شمس کے وقت آسمان دنيا پر نزول فرماتا ہے ارشاد ہوتا ہے کہ ہے کوئی بخشش مانگنے والا ، اس کو بخش دوں گا ، کوئی رزق لينے والا ہے اسے ميں رزق دوں گا ، کوئی مصيبت زدہ ہے اس کی مصيبت کو دور کروں گا ، کوئی فلاں فلاں حاجت والا ہے طلوع صبح صادق تک اللہ تعالي يہی ندا ديتے رہتے ہيں
تحفۃ الاحوذي : 53/2 ميں ہے کہ :
حديث علی رضی اللہ عنہ کی سند ميں ابوبکر بن عبداللہ راوی ہے جس پر وضع روايت کا الزام ہے امام بکاری رحمہ اللہ نے اس کو ضعيف قرار ديا ہے اور امام نسائی نے متروک الحديث کہا ہے مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہيں کہ روزہ شبِ برات کے بارہ ميں کوئی حديث صحيح مرفوع ميں نے نہيں پائی باقی حديث حضرت علي رضی اللہ عنہ جس کو ابن ماجہ نے روايت کيا ہے وہ بہت ضعيف ہے امام جوزی رحمہ اللہ نے موضوعات ميں حضرت علی رضي اللہ عنہ سے ايک روايت نقل کی ہے جو کہ پندرہ شعبان کا روزہ رکھے گا اس کے ساٹھ سال گذشتہ اور ساٹھ سال آئندہ کے گناہ معاف کئے جائيں گے- فرماتے ہيں کہ يہ حديث موضوع ہے اور اس کي سند تاريک و سياہ ہے
احاديث مذکورہ بالا ميں چند اخلاقي و اعتقادی گناہ ايسے بھی ہيں جن کا ارتکاب کرنے والے اس رحمت بھری رات ميں بخشش و مغفرت سے محروم رہتے ہيں جيسے مشرک ، کينہ روي ، قتل نفس ، زنا و شراب نوشی، قطع رحمی وغيرہ  اگر کبائر کا مرتکب خلوصِ دل سے توبہ کرے تو اللہ تعالی اس کو معاف کر ديتے ہيں
قرآن ميں ہے :
((ياعبادي الذين اسرفوا علي  انفسهم لا تقنطوا من رحمة الله )) (الزمر : 52 )
فرمايا اے ميرے بندے گناہ کر کے اپنے نفس پر ظلم کيا ہے ميری رحمت سے نااميد نہ ہو جاؤ
حديث ميں ہے :
((التائب من الذنب کمن لا ذنب له ))
جو صد دل سے توبہ کرتا ہے ، گناہ سے پاک ہو جاتا ہے-
6 :حديث مغيرہ بن اخنس رضی اللہ عنہ :
((تقطع الرجال من شعبان الي شعبان حتي ان الرجل ينكح ويولد له وقد اخرج اسمه في الموتي فهو حديث مرسل ، ومثله لاي عاض به النصوص ))(تفسير ابن کثير : 137/4)
اس رات شعبان سے شعبان تک لوگوں کی عمريں لکھی جاتی ہيں ، يہاں تک کہ ايک آدمی نکاح کرے گا اس کے ہاں بچہ پيدا ہو گا اور اس کا نام مردوں ميں لکھا جا چکا ہے ( يہ حديث مرسل ہے اس کا نصوص سے مقابلہ نہيں کيا جاسکتا )
نمازِ شب برات 
1 :قال القاري في المرقاة ان مائة رکعة في نصف شعبان او الصلوۃ الف رکعة الم يات بها خبر ولا اثر .... الخ ( تحفۃالاحوذی : 53/2 )
حضرت ملا علی قاری رحمہ اللہ نے مرقاۃ مشکوۃ ميں بيان کيا ہے کہ شب برات ميں سو رکعت نماز اور ہزار رکعت نماز باجماعت يا انفرادی ، اس کا ثبوت کسی بھی صحيح حديث ميں نہيں ہے جو امام ديلمی اور صاحب احياءوغيرہ نے نقل کيا ہے يہ ضعيف وموضوع ہے
2 :علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ ” آثار مرفوعہ “ ميں فرماتے ہيں -
” ان تمام احاديث قوليہ و فعليہ سے معلوم ہوا کہ اس رات عبادت زيادہ کرنا مستحب ہے ليکن لوگوں کو نماز اور غير نماز ميں فرق رہے جو چاہيں عبادت کريں ليکن اس رات عبادت مخصوصہ کيفيت مخصوصہ کے ساتھ اس کا کوئی ثبوت نہيں- مطلق نماز نفلی شب برات اور اس کے علاوہ راتوں ميں جائز ہے-
اس ميں کوئی اختلاف نہيں - شيخ ابراہيم جلی ” منیۃالمصلی“ کی شرح ” غنیۃالمستملی “ ميں فرماتے ہيں : ” اس سے معلوم ہوا کہ صلوۃالرغائب جو رجب کے پہلے جمعہ کو پڑھی جاتی ہے اور پندرہويں شعبان کی رات اور رمضان کی ستائيسويں رات ( ليلۃ القدر ) کی جو نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے-ان راتوں ميں نماز باجماعت پڑھنا بدعت اور مکروہ ہے-( يہ وعيد نماز تراويح کے علاوہ نفلی نماز باجماعت کے لئے ہے ) يعنی بعض لوگوں کا خيال ہے کہ ضعيف روايت کو فضائل اعمال ميں قبول کرنے پر تمام کا اتفاق ہے -اس کے متعلق علامہ عبدالحئی رحمہ اللہ  فرماتے ہيں :
” فضائل اعمال ميں بھی قبول نہيں کی جائيگی-يعنی فضائل اعمال ميں ضعيف حديث پر عمل کرنے سے متعلق اتفاق کا دعوی باطل ہے- ہاں جمہور کا مذہب ہے بشرطيکہ وہ حديث ضعيف نہ ہو ، زيادہ ضعيف نہ ہو -( آثار مرفوعہ : 73 )
ان دلائل سے واضح ہوا کہ شب برات کا ذکر نہ قرآن مجيد ميں ہے اور نہ احاديث صحيحہ ميں ہے -ان تمام روايات کے پيشِ نظر زيادہ سے زيادہ يہ کہہ سکتے ہيں کہ اگر کوئی شخص انفرادی طور پر اس رات ذکر و عبادت ميں مشغول ہوتا ہے کہ اس کے عقائد کي تطہير اور اخلاقی رفعت کا باعث بنے ، صحيح نہيں ہے -ستم يہ ہے کہ ہم سربسجود ہونے کے بجائے حلوہ ، بارود ، آتشبازی کا مظاہرہ کرتے ہيں- خالق کائنات اہل زمين پر فضل و کرم کی بارش فرماتے ہيں اور ہم آتش بازی سے اس کا استقبال کرتے ہيں -            ببين تفاوت راہ از کجا بہ کجا
علامہ اقبال مرحوم نے خوب فرمايا :
ہم تو مائل بہ کرم ہيں کوئی سائل ہی نہيں        راہ دکھلائيں کسے کوئی راہرو منزل ہی نہيں
شب برات پر فضول رسميں
شب برات پر تين کام بڑی دھوم دھام سے کئے جاتے ہيں :
1-حلوہ پکانا     2 -آتش بازی      3 -مردوں کی روحوں کا حاضر ہونا
بعض لوگوں کا خيال ہے کہ اس رات حلوہ پکانا سنت ہے - اس سے متعلق شيخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ کتاب ما ثبت فی السنۃ : 214 ” بيان فضائل شعبان “ کے ضمن ميں رقطمراز ہيں : ” عوام ميں مشہور ہے کہ اس رات سيدنا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شہيد ہوئے تھے  اور اسی رات کو نبی کريم صلی اللہ عليہ وسلم کے دندان مبارک شہيد ہوئے تھے-تو آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے اس شب حلوہ تناول فرمايا تھا - بالکل لغو اور بے اصل ہے - کيونکہ غزوہ احد تو بالاتفاق مؤرخين شوال 2 ہجری کو واقع ہوا تھا - لہذا يہ عقيدہ رکھنا کہ آج حلوہ ہی واجب اور ضروری ہے - بدعت ہے - البتہ يہ سمجھ کر حلوہ اور مطلقاً ميٹھی چيز نبی کريم صلي اللہ عليہ وسلم کو محبوب تھی حلوہ پکا ليا جائے تو کوئی حرج نہيں -
” کان النبي صلي الله عليه وسلم يحب الحلوۃ والعسل “ 
نبي صلی اللہ عليہ وسلم حلوہ اور شہد پسند فرماتے تھے - اسی طرح بعض لوگ مسور کی دال ، چنے کيی دال پکانے کا اہتمام کرتے ہيں -يہ بھی حلوہ کی طرح بدعت ہوگی - بس صحيح بات يہ ہے کہ حسب معمول کھانا پکانا چاہئيے - شب برات کو تہوار نہيں بنانا چاہئے - کيونکہ اسلامی تہوار دو ہيں :
عيدالفطر ، عيدالاضحی ، علامہ عبدالحئی حنفی لکھنوی نے آثار مرفوعہ : 108, 109 ميں ستائيس رجب المرجب اور پندرہ شعبان ( شب برات ) کو بدعات ميں شامل کيا ہے - کيونکہ يہ اسلامي تہوار نہيں ہيں -
((ومنها صلوۃ ليلة السابع والعشرين من رجب ومنها صلوۃليلة النصف من شعبان)) 
شب برات کے حلوہ سے متعلق مولانا عبدالحئی حنفی کا فتوی ہے کہ اس بارہ ميں کوئی نص اثبات يا نفی کی صورت ميں وارد نہيں  حکم شرعي يہ ہے کہ اگر پابندی رسم ضروری سمجھے گا تو کراہت لازمی ہوگی ورنہ کوئی حرج نہيں -( فتاوی عبدالحئی مترجم : 110 )
آتشبازی
ملت اسلاميہ کا ايک طبقہ اس رات آتش بازی و چراغاں ميں جس اسراف و تبذير کا مظاہرہ کرتا ہے-ايک طرف اس سے قوم کو بار بار جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے دوسری طرف شرعاً يہ افعال مذموم و قبيح ہيں -
محدث شيخ عبدالحق رحمہ اللہ دہلوی ” ما ثبت فی السنۃ “ ميں فرماتے ہيں کہ ہندوستان کيا اکثر شہروں ميں جو اس وقت بلا ضرورت کثرت سے چراغاں کرتے ہيں اور آتش بازی اور ديگر لہو و لعب ميں مشغول ہوتے ہيں-يہ رسم بدسوائے ہندوستان کے اور ملکوں ميں نہيں ہے-اصل ميں يہ رسم بد ان لوگوں کی ہے جو آتش پرست تھے - اسلام لانے کے بعد يہ لوگ اپنی رسوم جاہليت پر قائم رہے - ان کی ديکھا ديکھي دوسرے مسلمان بھي اس بلائے عظيم ميں مبتلا ہوگئے -
تحفۃ الاحوذی ميں ہے سب سے پہلے چراغاں و آتشبازی کا مظاہرہ کرنے والے برامکہ آتش پرست تھے -جب وہ مسلمان ہوئے تو انہوں نے ملمع سازی کر کے ان رسوم کو اسلام ميں داخل کرديا - لوگوں کے ساتھ رکوع و سجود کرتے ليکن مقصود آگ کی پوجا تھا - شريعت ميں ضرورت سے زيادہ کسی جگہ کو بھی روشن کرنا جائز نہيں ہے - قرآن مجيد ميں ہے : ( بنی اسرائيل : 27 )
” اور بے جا خرچ نہ کرو - تحقيق بے جا خرچ کرنے والے شيطان کے بھائی ہيں اور شيطان اپنے رب کا ناشکر گزار ہے - “ اس آيت ميں لفظ ” تبذير “ استعمال فرمايا ہے - تبذير اور اسراف ميں فرق ہے -حلال مقام پر حد اعتدال سے زيادہ خرچ کرنا اسراف ہے اور ناجائز و حرام مقام پر خرچ کرنے کا نام تبذير ہے -اس جگہ پر ايک پيسہ بھی خرچ کرے تو حرام ہو گا اور شيطان کا بھائی ٹھہرے گا -
شب برات کے موقع پر دن کو حلوہ اور رات کو چراغاں و آتش بازی کا مظاہرہ دين حق کے ساتھ مذاق ہے-اسی طرح پہلی قوموں نے اپنے دين کو کھيل تماشا بنايا تو اللہ تعالی کے عذاب ميں مبتلا ہوئيں -ان سے ہميں عبرت حاصل کرنی چاہئے وگرنہ ہم سے بھی اللہ کا عذاب دور نہيں -
ارشاد خداوندی ہے :
(( وذر الذين اتخذوا دينهم لعبا ولهوا وغرتهم الحيوۃ الدنيا)) (الانعام : 70 )
اور چھوڑ دو ( اے محمد صلي اللہ عليہ وسلم ) ان لوگوں کو جنہوں نے اپنے دين کو کھيل تماشا بنا رکھا ہے اور ان کی دنياوی زندگی نے دھوکہ ميں ڈال رکھا ہے -
مردوں کی روحوں کا آنا
بعض لوگوں کا خيال ہے کہ ميت کی روح چاليس دن تک گھر آتی ہيں - مومنين کی روحيں جمعرات اور شب برات کو آتی ہے- حالانکہ مردے برزخی زندگی سے وابستہ ہيں - عالم برزخ کا عالمِ دنيا سے کوئی تعلق نہيں ہے -
ارشاد خداوندي ہے     ((ومن وراءهم برزخ الي يوم يبعثون )) ( مومنون : 100 )
ان ( مردوں ) کے ورے ايک پردہ ہے جو قيامت تک رہے گا-
بعض لوگ روح کے آنے کا مغالطہ آيت تنزل الملائکۃ والروح سے ديتے ہيں - اس روح سے مراد مردوں کی روحوں کا اترنا نہيں ہے بلکہ اس روح سے مراد جبرائيل عليہ السلام ہيں -دوسری آيت ميں بھی جبرئيل عليہ السلام روح سے تعبير کيا گيا ہے -
1 اذ ايدتک بروح القدس ( المائدہ : 110 )
2 قل نزله روح القدس من ربک ( النحل : 102 )
3 نزل به الروح الامين ( الشعراء: 193 )
4 تعرج الملائكة والروح ( المعارج : 4 )
5 يقوم الروح والملائكة صفا ( النباء: 38 )
مندرجہ بالا آيات ميں بھی روح سے مراد جبرائيل عليہ السلام ہيں- مردوں کی روح مراد نہيں ہے - اس سے مردوں کی روح مراد لينا تحريف فی القرآن ہے -
فقہاءکا فتوی
((من قال ارواح المشائخ حاضرة تعليم يكفر)) ( مرقاۃ شرح مشکوۃ، فتاوي قاضي خاں)
جو کہے کہ اولياءو بزرگوں کی روحيں حاضر و ناظر ہيں-وہ کافر ہو جاتا ہے -
نبی کريم صلی اللہ عليہ وسلم کے زمانہ ميں بھی شب برات آئی ، صحابہ رضوان اللہ عليہم اجمعين کا زمانہ بھی گزر گيا-تابعين و ائمہ اربعہ کا زمانہ بھی گزر گيا ، ليکن کسی سے بھی شب برات کا حلوہ ، آتش بازی ، مردوں کی فاتحہ خوانی وغيرہ ثابت نہيں-لہذا مسلمانوں کو بدعات سے اجتناب کرنا چاہئے اور سنت صحيحہ کو مشعل راہ بنانا چاہئے جو راہ نجات ہے اللہ تعالی بدعات سے محفوظ فرمائے- آمين

کیا شعبان کے پورے مہینہ میں روزے رکھنے مستحب ہیں

0 comments
کیا شعبان کے پورے مہینہ میں روزے رکھنے مستحب ہیں
کیا میرے لیے پورے شعبان کے روزے رکھنا سنت ہے ؟
الحمدللہ
شعبان کے مہینہ میں زیادہ سے زيادہ رکھنے روزے رکھنے مستحب ہيں ، حدیث میں بیان کیا گياہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سارے شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے :
ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ :
( میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بھی دو ماہ مسلسل روزے رکھتےہوئے نہيں دیکھا ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کو رمضان کے ساتھ ملایا کرتے تھے ) ۔
مسنداحمد حدیث نمبر ( 26022 ) سنن ابو داود حدیث نمبر ( 2336 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1648 ) ۔
اورابوداود کے الفاظ کچھ اس طرح ہيں :
( نبی صلی اللہ علیہ وسلم پورے سال میں کسی بھی پورے مہینے کے روزے نہيں رکھتے تھے ، لیکن شعبان کو رمضان سے ملاتے ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابوداود ( 2048 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
لھذا اس حدیث کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پورا شعبان روزہ رکھا کرتے تھے ۔
لیکن احادیث میں یہ بھی وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے اکثر ایام کا روزہ رکھا کرتے تھے ۔
ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کے بارہ میں دریافت کیا تووہ کہنے لگیں :
( آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھنے لگتے تو ہم کہتیں کہ آپ تو روزے ہی رکھتے ہیں ، اورجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ چھوڑتے تو ہم کہتے کہ اب نہيں رکھیں گے ، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کے مہینہ سے زيادہ کسی اورمہینہ میں زيادہ روزے رکھتے ہوئے نہيں دیکھا ، آپ سارا شعبان ہی روزہ رکھتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں اکثر ایام روزہ رکھا کرتے تھے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1156 ) ۔
علماء کرام ان دونوں حدیثوں کو جمع کرنے میں اختلاف کرتے ہیں :
کچھ علماء کرام تو کہتے ہيں کہ یہ اوقات کی مختلف ہونے کی وجہ سےتھا ، لھذا کچھ سالوں میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سارا شعبان ہی روزہ رکھا کرتے تھے ، اوربعض سالوں میں شعبان کے اکثر ایام روزہ رکھتے تھے ۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی نے یہی اختیار کیا ہے ۔
دیکھیں مجموع فتاوی الشیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی ( 15 / 416 ) ۔
اورکچھ دوسرے علماء کرام کہنا ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے علاوہ کسی اورمہینہ میں پورے مہینہ کے روزے نہيں رکھتے تھے ، انہوں نے ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا والی حدیث کو اس پر محمول کیا ہے کہ اس سے مراد اکثر شعبان ہے ، اورلغت میں یہ کہنا جائز ہے کہ جب کوئي شخص کسی مہینہ میں اکثر ایام روزے رکھے تو کہا جاتا ہےکہ اس نے مکمل مہینہ کےروزے رکھے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :
عائشہ رضي اللہ تعالی عہنا والی حدیث ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی حدیث کی مراد بیان کرتی ہے حدیث ام سلمہ میں ہے کہ ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے علاوہ کسی اورمکمل مہینے کے روزے نہيں رکھتے تھے آپ شعبان کو رمضان کے ساتھ ملاتے تھے ) ۔
یعنی اس کے اکثرایام کے روزے رکھتے تھے ، امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے ابن مبارک رحمہ اللہ تعالی سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں :
کلام عرب میں یہ جائز ہے کہ جب کوئي مہینہ کے اکثر ایام روزے رکھے تو یہ کہا جائے کہ اس نے پورا مہینہ روزہ رکھے ۔۔
اورطیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
اسے اس پر محمول کیا جاسکتا ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات پورے شعبان کےروزے رکھتے تھے اوربعض اوقات اکثرایام روزے رکھتے تا کہ یہ خیال پیدا نہ ہو کہ شعبان کے روزے بھی رمضان کی طرح واجب ہیں ۔
پھر حافظ ابن حجررحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اورپہلی بات ہی صحیح ہے ۔ ا ھـ
یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پورے شعبان کے روزے نہیں رکھا کرتے تھے ، اورانہوں نے مندرجہ ذیل حدیث سے استدلال کیا ہے :
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ :
( میرے علم میں نہيں کہ اللہ تعالی کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی ایک ہی رات میں پورا قرآن مجید ختم کیا ہو ، اورصبح تک ساری رات ہی نماز پڑھتے رہے ہوں ، اوررمضان کے علاوہ کسی اورمکمل مہینہ کے روزے رکھے ہوں ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 746 ) ۔
اور ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کسی اورمہینہ کےمکمل روزے نہيں رکھے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1971 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1157 ) ۔
امام سندی رحمہ اللہ تعالی ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا کی حدیث کی شرح کرتے ہوئے کہتے ہیں :
( شعبان کو رمضان سے ملاتے تھے ) یعنی دونوں مہینوں کے روزے رکھتے تھے ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پورے شعبان کے روزے رکھتے تھے ، لیکن دوسری احادیث اس کے خلاف دلالت کرتی ہيں ، اس لیے اسے اکثر شعبان پر محمول کیا جائے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں اکثرایام کے روزے رکھتے تھے ، گویہ کہ پورا شعبان ہی روزے رکھے ہوں اورپھر اسے رمضان سے ملاتے تھے ۔ ا ھـ
اگر یہ کہا جائے کہ شعبان میں زيادہ روزے رکھنے میں کیا حکمت ہے ؟
اس کا جواب دیتےہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں:
اس میں اولی تووہی ہے جوامام نسائی اورابوداود نے روایت بیان کی ہے اورابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے کہ :
اسامہ بن زید رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں میں نے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ، اے اللہ تعالی کے رسول آپ جتنے روزے شعبان میں رکھتے ہیں کسی اورمہینہ میں اتنے روزے نہیں رکھتے ؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( یہ ایسا مہینہ ہے جس میں لوگ غفلت کاشکار ہوجاتے ہیں جورجب اوررمضان کے مابین ہے ، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں ، میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں اٹھائے جائیں ) سنن نسائي ، سنن ابوداود ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن نسائي ( 2221 ) میں اسے حسن قراردیا ہے ۔
واللہ اعلم .

کیا یہ شعبان والی رات ہی ہے

0 comments

سورۃ الدخان میں ذکر کی گئي رات سے کیا مقصود ہے ؟ کیا یہ شعبان والی رات ہی ہے ، یا لیلۃ القدر ؟
پندرہ شعبان کی کیا اہمیت ہے ؟ کیا یہی لیلۃ القدر ہے جس میں ہرشخص کے سال بھرکے انجام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ؟
سورۃ الدخان میں ذکر کی گئي رات سے کیا مقصود ہے ؟ کیا یہ شعبان والی رات ہی ہے ، یا لیلۃ القدر ؟
الحمد للہ
نصف شعبان یعنی پندرہ شعبان کی رات میں باقی عام راتوں کی طرح ہی ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کوئي ثبوت نہیں ملتا کہ اس رات لوگوں کے انجام ؛یا تقادیر کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ یقینا ہم نے اسے بابرکت رات میں نازل فرمایا ہے ، بیشک ہم ڈرانے والے ہیں ، اس رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے } الدخان ( 3 - 4 )
ابن جریر طبری رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ : اس میں وارد شدہ رات کے بارہ میں اہل تفسیر نے اختلاف کیا ہے کہ یہ سال کی کونسی رات ہے ، بعض تواسے لیلۃ القدر ہی قرار دیتے ہیں ، اورقتادہ رحمہ اللہ تعالی عنہ سے یہی منقول ہے کہ اس سے مراد لیلۃ القدر ہی ہے ۔
اوردوسرے اہل علم کا کہنا ہے کہ : نصف شعبان کی رات ہے ، لیکن اس میں صحیح قول لیلۃ القدر والا ہی ہے ، یہ ایسے ہی ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : { بے شک ہم ڈرانے والے ہیں } ۔ دیکھیں تفسیر طبری ( 11 / 221 )۔
اوراللہ تعالی کا فرمان :
{ اس میں ہر مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے } حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں کہا ہے کہ :
معنی یہ ہے کہ اس رات میں اس سال کے معاملات کومقدر کیا جاتا ہے ، اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ اس رات میں ہر مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے } امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی کلام ہی اس سے شروع کرتے ہوئے کہا ہے : لیلۃ القدر اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں فرشتے اقدار کولکھتے ہیں ، اس لیے کہ فرمان باری تعالی ہے :
{ اس میں ہرمضبوط کام کافیصلہ کیا جاتا ہے } ۔
عبدالرزاق اوردوسرے مفسرین نے صحیح اسانید کے ساتھ اسے مجاھد ، عکرمہ اورقتادہ وغیرہ سے روایت کیا ہے ۔
توربشتی کا قول ہے ، یہاں القدر دال پر جزم کے ساتھ وارد ہوئي ہے ، اگرچہ القدردال پر زبر کے ساتھ شائع اورمشہور ہے جس کا معنی فیصلے کا قصد وارادہ کرنا ہے تواس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے یہ مراد نہيں بلکہ اس سے توجوفیصلے ہوچکے ہیں اس برس میں ان کا اظہار اورتحدید مراد ہے تا کہ جوکچھ ان کی طرف بھیجا جارہا ہے وہ مقدار کے ساتھ حاصل ہو ۔
اورلیلۃ القدر کی بہت عظيم فضیلت ہے اوراس کے لیے ہے جواس میں عمل کرے اورعبادت کرنے میں بھی کوشش کرے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ یقینا ہم نے اسے قدر والی رات میں نازل کیا ہے ،اور توکیا سمجھے کہ قدر والی رات کیا ہے ؟ قدروالی رات ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، اس میں ہر کام کوسرانجام دینے کو اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور روح جبریل علیہ السلام اترتے ہیں ، یہ رات سرا سر سلامتی کی ہوتی ہے ، اورفجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے } سورۃ القدر ۔
لیلۃ القدر کی فضیلت میں بہت ساری احادیث وارد ہيں جن میں مندرجہ ذیل حدیث بھی شامل ہے :
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جس نے بھی لیلۃ القدر میں ایمان اوراجروثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ، اورجس نے بھی ایمان اوراجروثواب کی نیت سے رمضان المبارک کے روزے رکھے تواس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ) صحیح بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر ( 1768 ) ۔
واللہ اعلم 

نصف شعبان کے بعد قضائے رمضان کے روزے رکھنے میں کوئي حرج نہیں

0 comments

نصف شعبان کے بعد قضائے رمضان کے روزے رکھنے میں کوئي حرج نہیں
حمل اورولادت کی وجہ سے میرے ذمہ گزشتہ رمضان کے بہت سارے روزے تھے ، الحمدللہ میں نے اس کی قضاء میں روزے رکھے اورصرف سات باقی بچے جن میں سے تین تو نصف شعبان کے بعد رکھے ، اوررمضان سے قبل باقی بھی مکمل کرنا چاہتی ہوں ۔
میں نے آپ کی ویب سائٹ پر پڑھا کہ نصف شعبان کے بعد روزے رکھنے جائزنہيں صرف عادتا روزے رکھنے والے کے جائز ہیں مجھے آپ معلومات فراہم کریں اللہ تعالی آپ کو مستفید فرمائے میں معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ کیا میں اپنے باقیماندہ روزے بھی کرلوں کہ نہیں ؟ اوراگرجواب نفی میں ہو تو ان تین ایام کے روزوں کا حکم کیا ہے آیا مجھے اس کی دوبارہ قضاء کرنا ہوگي کہ نہيں؟
الحمدللہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا :
( نصف شعبان کے بعد روزے نہ رکھو ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 3237 ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 738 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1651 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے ۔
اس نہی سے مندرجہ ذيل مستثنی ہیں :
1 - جسے روزے رکھنے کی عادت ہو ، مثلا کوئي شخص پیر اورجمعرات کا روزہ رکھنے کا عادی ہو تووہ نصف شعبان کے بعد بھی روزے رکھے گا ، اس کی دلیل نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مندرجہ ذيل فرمان ہے :
( رمضان سے ایک یا دو یوم قبل روزہ نہ رکھو لیکن جوشخص روزہ رکھتا ہو وہ رکھ لے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1914 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1082 ) ۔
2 - جس نے نصف شعبان سے قبل روزے رکھنے شروع کردیے اورنصف شعبان سے پہلے کو بعدوالے سے ملادیا تویہ نہی میں نہيں آئے گا اس کی دلیل عا‏ئشہ رضي اللہ تعالی عنہا کی حدیث ہے جس میں وہ بیان کرتی ہیں کہ :
( نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تقریبا سارا شعبان ہی روزے رکھتے تھے صرف تھوڑے سے ایام کے علاوہ باقی پورا مہینہ ہی روزے رکھتے تھے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1970 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1156 ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
قولھا : ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم سارا شعبان ہی روزہ رکھتے تھے صرف تھوڑے ايام کے علاوہ باقی سارا مہینہ ہی روزہ رکھتے تھے ) دوسرا جملہ پہلے کی تفسیر ہے اوران کے قول کلہ کا معنی مہینہ کا اکثر ہے ۔ اھـ
تویہ حديث نصف شعبان کے بعد روزے رکھنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے لیکن اس کےلیے جوپہلے نصف کو دوسرے نصف سے ملائے ۔
3 - اس سے رمضان کی قضاء میں روزے رکھنے والا بھی مستثنی ہوگا ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب المجموع میں کہتے ہیں :
ہمارے اصحاب کا کہنا ہے : بلااختلاف رمضان کےیوم الشک کا روزہ رکھنا جائز نہيں ۔۔۔ لیکن اگر اس میں قضاء یا نذر یا کفارہ کا روزہ رکھا جائے توجائز ہوگا، اس لیے کہ جب اس میں نفلی روزہ رکھا جاسکتا ہے تو فرضی روزہ رکھنا بالاولی جائز ہوگا ۔۔۔
اوراس لیے بھی کہ جب اس پرگزشتہ رمضان کے روزہ کی قضاء باقی ہو تواس پریہ روزہ رکھنا تومتعین ہوچکا ہے ، کیونکہ اس کی قضاء کے لیے وقت تنگ ہے ۔ اھـ
دیکھیں : المجموع للنووی ( 6 / 399 ) ۔
یوم الشک وہ ہے جب انتیس شعبان کو مطلع ابرآلود ہونے کی بنا پر چاند نہ دیکھا جاسکتا ہو توتیس شعبان کو یوم الشک قراردیا جائے گا ، اس لیے کہ یہ مشکوک ہے کہ آیا یہ شعبان کا آخری دن ہے یا کہ رمضان کا پہلا دن۔
جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ :
شعبان کے نصف ثانی میں قضاء کے روزے رکھنے میں کوئي حرج نہیں ، اورایسا کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شعبان کے آخر میں روزہ رکھنے والی نہی میں شامل نہیں ہوتا ۔
اس لیے ہم یہ کہیں گے کہ آپ کےتین روزے صحیح ہیں اورآپ باقی روزے بھی رمضان سے قبل ہی مکمل کرلیں ۔
واللہ اعلم .