YOUR INFO

Friday 8 March 2013

کربلا کی کہانی

0 comments

سم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
کربلا کی کہانی
حضرت ابو جعفر محمد باقر رحمہ اللہ کی زبانی

ترجمہ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی
(ماخوز از ہفتہ روزہ ‘‘اسلام‘‘ لاہور)

روایت کے راوی عمار دہنی نے کہا کہ میں نے محمد بن علی بن الحسین رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ مجھ سے واقعہ قتل حسین رضی اللہ عنہ ایسے انداز سے بیان فرمائیں کہ گویا میں خود وہاں موجود تھا اور یہ سامنے ہورہا ہے اس پر حضرت محمد باقر رحمہ اللہ نے فرمایا۔۔۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے وقت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا بھتیجا یزید کا چچیرا بھائی ولید بن عتبہ بن ابی سفیان مدینہ منور کا گورنر تھا ولید نے حسب دسور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا کے ان سے نئے امیر یزید کے لئے بیعت لیں ۔۔۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کے سردست آپ سوچنے کی مہلت دیں اور اس بارے میں نرمی اختیار کریں ولید نے ان کو مہلت دے دی حضرت حسین رضی اللہ عنہ مہلت پاکر مکہ تشریف لے گئے۔۔۔

دریں اثناء جب کوفہ والوں کو اس کا پتہ چلا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ تو مکہ تشریف پہنچ گئے ہیں تو اُنہوں نے اپنے قاصد حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں روانہ کئے اور ان سے درخواست کی کہ آپ رضی اللہ عنہ کوفہ تشریف لے آئیں ہم اب آپ ہی کے ہوگئے ہیں ہم لوگ یزید کی بیعت سے منحرف ہیں ہم نے گورنر کوفہ کے پیچھے جمعہ پڑھنا چھوڑ دیا ہے اس وقت حضرت نعمان بن بشیر انصاری رضی اللہ عنہ یزید کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے جب اہل کوفہ کی طرف سے اس قسم کی درخواستیں آئیں تو حضڑت حسین نے اپنے چیچرے بھائی حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو کوفہ بھیجنے کا پروگرام بنایا تاکہ وہاں جاکر صورت حال کا اچھی طرح جائزہ لیں اگر اہل کوفہ کے بیانات صحیح ہوئے تو خود بھی کوفہ پہنچ جائیں گے۔۔۔

حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کی کوفہ کو روانگی۔۔۔
قرارداد کے مطابق حضرت مسلم رضی اللہ عنہ مکہ سے مدینہ منورہ پہنچے وہاں سے راستہ کی رہنمائی کے لئے دو آدمی ساتھ لئے اور کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے جس راستے سے وہ لے گئے اس میں ایک ایسا لق ودق میدان آگیا جس میں پانی نہ ملنے کے سبب پیاس سے سخت دوچار ہوگئے چنانچہ اسی جگہ ایک رہنما انتقال کرگیا۔۔۔ اس صورت حال کے پیش آنے پر حضرت مسلم رضی اللہ عنہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو ایک خط لکھ کر کوفہ جانے سے معذرت چاہی لیکن حضرت ممدوح رضی اللہ عنہ نے معذرت قبول کرنے سے انکار کردیا اور لکھا کے آپ ضرور کوفہ جائیں بنابریں حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کوفہ کی طرف چل دیئے وہاں پہنچ کر ایک شخص عوسجہ نامی کے گھر قیام فرمایا جب اہل کوفہ میں حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کی تشریف آوری کا چرچا ہوا تو وہ خفیہ طور پر ان کے ہاں آئے اور ان کے ہاتھ پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے لئے بیعت کرنے لگے چنانچہ بارہ ہزار اشخاص نے بیعت کرلی دریں اثناء یزید کے ایک کارند عبداللہ بن مسلم بن شعبہ حضرمی کو اس کا پتہ چلا تو اس نے ساری کاروائی کی اطلاع گورنر کوفہ نعمان بن بشیر کو دے دی اور ساتھ ہی کہا کے یا تو آپ واقعتا کمزور ہیں یا کوفہ والوں نے آپ کو کمزور سمجھ رکھا ہے دیکھتے نہیں کے شہر کی صورتحال مخدوش ہورہی ہے اس پر حضرت نعمان نے فرمایا کے میری ایسی کمزوری جو بر بنائے اطاعت الٰہی ہو وہ مجھے اس طاقت سے زیادہ پسند ہے جو اس کی معصیت میں ہو مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا کہ جس امر پر اللہ تعالٰی نے پردہ ڈالے رکھا ہے خواہ مخواہ اس پردہ کو فاش کروں اس پر عبداللہ مذکور نے یہ سارا ماجرا یزید کو لکھ کر بھیجدیا یزید نے اپنے ایک آزاد غلام سرحون نای سے اس بارے میں مشورہ لیا اس نے کہا اگر آپ کے والد زندہ ہووتے اور آپ کو کوئی مشورہ دیتے تو اُسے قبول کرتے؟؟؟۔۔۔ یزید نے کہا ضرور سرحوان نے کہا تو پھر میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ کوفہ کی گورنری عبیداللہ بن زیادہ کے سپرد کردیں ادھر صورت حال ایسی تھی کے ان دنوں یزید عبداللہ مذکور پر ناراض تھا اور بصرہ کی گورنری سے بھی اُسے معزول کرنا چاہتا تھا مگر سرحون کے مشورے پر اس نے اظہار پسندیدگی کرتے ہوئے بصرہ کے ساتھ کوفہ کی گورنری پر بھی عبیداللہ بن زیاد کو نامزد کردیا۔۔۔ اور لکھ دیا کہ کوفہ پہنچ کر مسلم بن عقیل کو تلاش کرو اگر مل جائے تو اس کو قتل کردو۔۔۔

ابن زیاد کوفہ میں افشائے راز۔۔۔
اس حکم کی بناء پر عبیداللہ بصرہ کے چند سرکردہ لوگوں کے ہمراہ اس حالت میں کوفہ پہنچا کہ اس نے ڈھٹا باندھ رکھا تھا تاکہ اسے کوئی پہچان نہ سکے وہ اہل کوفہ کی جس مجلس سے گزرتا اس پر سلام کرتا اور وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سمجھ کر وعلیک السلام یا ابن رسول اللہ جواب میں کہتے اسی طرح سلام کہتا اور جواب لیتا ہوا وہ قصر امارت پہنچ گیا وہاں پہنچ کر اس نے ایک غلام کو تین ہزار درہم دیئے اور کہا کے تم جاکر اُس شخص کا پتہ لگاؤ جو کوفہ والوں سے بیعت لیتا ہے لیکن دیکھو تم خود کو ‘‘حمص‘‘ کا باشندہ ظاہر کرنا اور یہ کہنا کے میں بیعت کرنے کے لئے آیا ہوں اور یہ رقم بھی پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ وہ اپنے مشن کی تکمیل میں اس کو صرف کریں چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور بہ لطائف الحیل اس تک اس کی رسائی ہوگئی جو بیعت لینے کا اہتمام کرتا تھا اور اس نے اپنے آنے اور امدادی رقم پیش کرنے کی سب بات کہہ ڈالی اس نے کہا کے مجھے یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کے تمہیں ہدایت کا راستہ نصیب ہوا لیکن یہ محسوس کرکے دُکھ بھی ہورہا ہے کہ ہماری اسکیم ابھی پختہ نہیں ہوئی تاہم وہ اس غلام کو حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے ہاں لے گیا حضرت مسلم رضی اللہ عنہ نے اس سے بیعت بھی لے لی اور رقم بھی اس سے قبول کر لی اب وہ یہاں سے نکلا اور عبیداللہ بن زیاد کے پاس پہنچا اور سب کچھ اُس کو بتادیا ادھر عبیداللہ کی کوفہ میں آمد کے بعد حضرت مسلم عوسجہ کا گھر چوڑ کر ہانی بن عروہ مرادی کے مکان پر فردکش تھے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لکھ بھیجا کے لوگوں نے بارہ ہزار کی تعداد میں ہماری بیعت کر لی ہے آپ کوفہ تشریف لے آئیں۔۔۔

اور دوسری طرف جب عبیداللہ کو پتہ چل گیا کے حضرت مسلم رضی اللہ عنہ ہانی کے مکان پر ہیں تو اُس نے کوفہ کے سرکردہ لوگوں سے کہا کے کیا بات ہے ہانی میرے پاس نہیں آئے اس پر حاضرین سے ایک شخص محمد بن اشعب چند ہمراہیوں کے ساتھ ہانی کے ہاں گئے تو وہ اپنے دروازے پر موجود تھے ابن اشعب نے کہا کے گورنر صاحب آپ کو یاد فرماتے ہیں اور آپ کے اب تک نہ حاضر ہونے کو بہت محسوس کرتے ہیں لہذا آپ کو چلنا چاہئے چنانچہ ان کے زور دینے پر ہانی ان کے ساتھ ہولئے اور وہ عبیداللہ کے پاس پہنچے اتفاق سے اس وقت قاضی شریح بھی ابن زیاد کے پاس موجود ھے ان سے مخاطب ہوکر اس نے کہا دیکھو اس ہانی کو چال کھوٹ کی مظہر ہے پھر اتنے میں وہ اس کے پاس آگیا تو کہا ‘‘ مسلم بن عقیل کہاں ہے ‘‘ اس نے کہا مجھے علم نہیں اس پر عبیداللہ نے تین ہزار درہم دینے والے غلام کو اس کے سامنے کردیا ہانی بالکل لاجواب ہوگئے البتہ اتنا کہا کے میں نے انہیں اپنے گھر بلایا نہیں بلکہ وہ خود میرے گھر آکر ٹھہر گئے ہیں ابن زیاد نے کہا اچھا ان کو حاضر کرو اس نے اس پریس وپیش کیا تو ابن زیاد نے ان کو اپنے قریب بلوا کر اس زور سے چھڑی ماری جس سے اس کی بھویں پھٹ گئیں اس پر ہانی نے اس کے ایک محافظ سپاہی سے تلوار چھین کر عبیداللہ پروار کرنا چاہا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکا اس پر ابن زیاد نے یہ کہہ کر کہ اب تمہارا خون حلال ہے قصر امارت کے ایک حصے میں اس کو قید میں ڈال دیا۔۔۔

اس واقعہ کی اطلاع ہانی کے قبیلہ مذحج کو ہوئی تو اس نے قصر امارت پر یلغار بول دی عبیداللہ نے شور سُنا اور پوچھا تو کہا گیا کے ہانی کا قبیلہ ان کو چھڑانے کے لئے آیا ہے اس پر قاضی شریح کے ذریعہ ان کو کہلایا کہ ہانی کو مسلم بن عقیل کا پتہ کرنے اور بعض باتوں کی تحقیق کے لئے روک لیا گیا ہے۔۔۔ خطرے کی کوئی بات نہیں لیکن ساتھ ہی قاضی شریح پر بھی ایک غلام کو لگادیا یہ معلوم کرنے کے لئے کہ وہ لوگوں سے کیا کہتے ہیں قاضی شریح لوگوں کی طرف جاتے ہوئے ہانی کے پاس سے گزرے تو اس نے قاضی صاحب سے کہا کے میرے بارے میں اللہ سے ڈرنا ابن زیاد میرے قتل کے درپے ہے تاہم قاضی شریح نے ہجوم کو ابن زیاد والی بات کہہ کر مطمئن کردیا اور لوگ بھی یہ سمجھ کر مطمئن ہوگئے کے ہانی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔۔۔

حضرت مسلم کو جب ہنگامے کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے اپنے ذرائع ابلاغ سے کوفہ میں اعلان کرادیا جس کے نتیجہ میں چالیس ہزار لوگ ان کے پاس جمع ہوگئے ان کو باقاعدہ انہوں نے ایک فوجی دستے کی شکل دے دی جس کا مقدمہ الجیش، میمنہ اور میسرہ وغیرہ سب ہی کچھ تھا خود حضرت مسلم بن عقیل اس کے قلب میں ہوگئے اس طرح چالیس ہزار کا یہ لشکر جرار قصر امارت کی طرف روانہ ہوگیا عبیداللہ کو اس کی اطلاع ہوئی تو اس نے اہلیان کوفہ کو اپنے قصر میں بلایا جب یہ لشکر امارت تک پہنچ گیا تو سرداران کوفہ نے اپنے قبیلے کو دیواروں کے اوپر سے گفتگو کرکے سمجھانا شروع کیا اب تو حضرت مسلم کی فوج کے آدمی کھسکنے شروع ہوئے اور ہوتے ہوتے شام تک صرف پانچ سو رہ گئے حتی کہ رات کے اندھیرے تک وہ بھی چل دیئے جب حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ وہ تنہا رہ گئے ہیں تو وہاں سے چل پڑے راستے میں ایک مکان کے دروازے پر پہنچے تو ایک خاتون اندر سے آپ کی طرف نکلی آپ نے اس کو پانی پلانے کے لئے کہا تو اس نے پانی تو پلادیا لیکن اندر واپس چلی گئی تھوڑی دیر بعد پھر باہر آئی تو آپ کو دروازے پر دیکھ کر اُس نے کہا اے اللہ کے بندے آپ کا اس طرح بیٹھنا مشکوک ہے یہاں سے چلے جائیں آپ نے کہا میں مسلم بن عقیل ہوں کیا تم مجھے پناہ دو گی؟؟؟۔۔۔ اس نے کہا ہاں آجائیے آپ اندر تشریف لے گئے لیکن اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ اس عورت کے لڑکے نے محمد بن اشعت مذکور کو اطلاع دے دی جس نے فورا عبیداللہ تک خبر پہنچادی اس نے اس کے ہمراہ کچھ لوگوں کو روانہ کردیا اور ان کو حضرت مسلم کی گرفتاری کا حکم دے دیا ان افراد نے جاکر مکان کا محاصرہ کر لیا جب کے حضرت مسلم کو خبر تک نہ ہوسکی تھی اب خود انہوں نے محصور پایا تو تلوار سونت کر نکل آئے اور اُن افراد کے مقابلے کی ٹھان لی لیکن اشعت نے ان کو روک کر کہا کے میں ذمہ دار ہوں آپ محفوظ رہیں گے پس وہ حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو ابن زیاد کے پاس پکڑ کر لے گئے چنانچہ ابن زیاد کے حکم پر انہیں قصر امارت کی جھت پر لے جاکر قتل کردیا۔۔۔ (اناللہ وانا الیہ راجعون)۔۔۔۔

اور اُن کی لاش بازار میں لوگوں کے سامنے پھینک دی گئی نیز اس کے حکم سے ہانی کو کوڑے کرکٹ کی جگہ تک گھسٹتے ہوئے لے جاکر سولی دی دی گئی ۔۔۔۔۔۔ ادھر کوفہ میں یہ تک ہوگیا تھا اور۔۔۔۔۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی کوفہ روانگی۔۔۔
اُدھر حضرت مسلم چونکہ خظ لکھ چکے تھے کہ بارہ ہزار اہل کوفہ نے بیعت کر لی ہے حضرت حسین رضی اللہ عنہ جلداز جلد تشریف لے آئیں اس لئے حضرت حسین رضی اللہ عنہ مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوگئے تاکہ آنکہ آپ قادسیہ سے تین مل کے فاصلے پر تھے کہ حُر بن یزید تمیمی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قافلہ کو ملا اس نے کہا، کہا تشریف لے جارہے ہیں تو آپ نے فرمایا کوفہ اس نے کہا کہ وہاں تو کسی خٰر کی توقع نہیں آ پکو یہاں سے ہی واپس ہوجانا چاہئے پھر کوفیوں کی بےوفائی اور حضرت مسلم کے قتل کی پوری روداد آپ کو سنائی۔۔۔

سارا قصہ سُن کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے تو واپسی کا ارادہ کر لیا لیکن حضرت مسلم کے بھائیوں نے یہ کہہ کر واپس جانے سے انکار کردیا کے ہم خون مسلم کا بدلہ لیں گے یا خود مارے جائیں گے اس پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا "" تمہارے بغیر میں جی کر کیا کروں گا"" اب وہ سب کوفہ کی طرف روانہ ہوئے جب آپ کو ابن زیاد کی فوج کا ہراول دستہ نظر آیا تو آپ نے "" کربلا"" کا رُخ کر لیا اور وہاں جاکر ایسی جگہ پڑاو ڈالا جہاں ایک ہی طرف سے جنگ کی جاسکتی تھی چنانچہ خیمے نصب کر لئے اس وقت آپ کے ساتھ پینتالیس سوار اور سو کے قریب پیدل تھے۔۔۔ 

دریں اثناء عبیداللہ نے عمرو بن سعد کو جو کوفہ کا گورنر تھا بلایا اور اس سے کہا کہ اس شخص کے معاملے میں میری مدد کریں اس نے کہا مجھے تو معاف ہی رکھئے ابن زیاد نہ مانا اس پر عمربن سعد نے کہا "" پھر ایک شب مجھے سوچنے کی مہلت تو دے دیجئے"" اس نے کہا ٹھیک ہے سوچ لو ابن سعد نے رات بھر سوچنے کے بعد آمادگی کی اطلاع دے دی۔۔۔ 

اب عمروبن سعد حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا حضرت نے اس کے سامنے یہ تجویز رکھی کے دیکھو تین باتوں میں یہ ایک بات منظور کر لو۔۔۔

١۔ یا مجھے کسی اسلامی سرحد پر چلے جانے دو۔۔۔
٢۔ یا مجھے موقع دو کہ میں براہ راست یزید کے پاس پہنچ جاوں۔۔۔
٣۔ اور یا پھر یہ کے جہاں سے آیا ہوں وہیں واپس چلاجاؤں۔۔۔

ابن سعد نے یہ تجویز خود منظور کر کے ابن زیاد کو بھیجدی اس نے لکھا ہمیں یہ منظور نہیں ہے (بس ایک ہی بات ہے کہ) حسین رضی اللہ عنہ (یزید کے لئے) میری بیعت کریں ابن سعد نے یہی بات حضرت حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچادی انہوں نے فرمایا ایسا نہیں ہوسکتا اس پر آپس میں لڑائی چھڑ گئی اور حضرت کے سب ساتھی (مظلومانہ) شہید ہوگئے جن میں دس سے کچھ اوپر نوجوان ان کے گھر کے تھے اسی اثناء میں ایک تیر آیا جو حضرت چھوٹے بچے کو لگا جو گود میں تھا۔۔۔ آپ اس سے خون پونچھ رہے تھے اور فرمارہے تھے "" اے اللہ ہمارے اور ایسے لوگوں کے بارے میں فیصلہ فرما جنہوں نے پہلے یہ لکھ کر ہمیں بلایا ہے کہ ہم آپ کی مدد کریں گے پھر اب وہی ہمیں قتل کررہے ہیں"" اس کے بعد تلوار ہاتھ میں لی، مردانہ وار مقابلہ کیا اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے رضی اللہ عنہ۔۔۔

اور یہ شخص جس کے ہاتھ سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوئے قبیلہ مذحج کا آدمی تھا اگرچہ اس بارے میں دوسرے اقوال بھی تاریخ میں مذکور ہیں۔۔۔ مذحج ہانی کا وہی قبیلہ تھا جس نے قصر امارت پر چڑھائی کردی تھی یہ شخص حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر سے جدا کر کے ابن زیاد کے پاس لے گیا اس نے ایک شخص کو آپ کا سرمبارک دے کر یزید کےپاس بھیجدیا جہاں جاکر یزید کے سامنے رکھ دیا گیا ادھر ابن سعد بھی حضرت کے گھردار کو لے کر ابن زیاد کے پاس پہنچے۔۔۔ ان کا صرف ایک لڑکا بچارہ گیا تھا اور وہ بچہ علی بن الحسین رضی اللہ عنہ زین العابدین تھے جو روایت کے راوی ابوجعفر الباقر کے والد تھے یہ عورتوں کے ساتھ اور بیمار تھے ابن زیاد نے حکم دیا اس بچے کو بھی قتل کردیا جائے اس پر ان کی پھوپھی حضرت زینب رضی اللہ عنہ بنت علی رضی اللہ عنہ اس کے اوپر گر پڑیں اور فرمایا کے جب تک میں قتل نہ ہوجاؤں گی اس بچے کو قتل نہ ہونے دوں گی اس صورت حال کے نتیجے میں ابن زیاد نے اپنا یہ حکم واپس لے لیا اور بعد میں اسیران جنگ کو یزید کے پاس بھیج دیا۔۔۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے یہ بچے کچے افراد خانہ یزید کے دربار میں پہنچے تو چند درباریوں نے حسب دستور یزید کو تہنیت فتح پیش کی ان میں سے ایک شخص نے یہاں تک جسارت کر ڈالی کے ایک لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہاامیر المومنین یہ مجھے دے دیجئے یہ سُن کر حضرت زینب رضی اللہ عنہ بنت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا بخدا یہ نہیں ہوسکتا بجز اس صورت کے کے یزید دین الہٰٰی سے نکل جائے پھر اس شخص نے دوبارہ کہا تو یزید نے اُسے ڈانٹ دیا۔۔۔

اس کے بعد یزید نے ان سب کو محل سرا میں بھیج دیا پھر ان کو تیار کرا کے مدینہ روانہ کروادیا۔۔۔

(اس روایت کو حافظ ابن حجر العسقلانی نے ‘‘ تہذیب التہذیب‘‘ میں نقل کیا ہے)۔۔۔۔

واللہ اعلم 
وما علینا الالبلاغ۔۔۔
والسلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ۔۔۔

نوٹ:
اس پوری تحریر کے یونیکوڈ حقوق اردو مجلس کی ملکیت ہیں لہذا ہر وہ ممبر یا مہمان اس بات کا پابند ہے کے وہ اس تحریر کو کسی دوسرے فورم پر یا اپنے بلاگ پر لگانے کی صورت میں اردو مجلس فورم کا لنک مہیا کرے۔۔۔
شکریہ۔۔۔

اللہ وحدہ لاشریک سےدعا ہے۔۔۔ آپ ایمان اور صحت کی بہترین حالت میں زندگی بسر کر رہے ہوں!۔۔
قارئین کرام!۔۔۔ ہر تحریر کی ایک زبان ہوتی ہے۔۔۔ جو لکھنے والے کے نظریات اور رجحانات کی عکاسی کرتی ہے۔۔۔ پھر تحریر کے حسن و قبح اور ردّ و قبول کی بنیاد پر اس کے قارئین یا تو اس سے بیزاری اور لا تعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔۔۔ یا پھر پسندیدگی، اپنائیت اور والہانا لگاؤ کا۔۔۔

اوّل الذکر طبقہ عموماً تنقید کی بجائے تنقیص کا رویہ اپناتے ہیں یا پھر لا تعلقی کا۔۔ جبکہ آخر الذکر اصلاح احوال کیلئے مثبت تنقید اور حوصلہ افزائی کا۔۔۔ جو نہ صرف قابل قدر ہوتا ہے۔۔۔ بلکہ کسی بھی نظریے اور فکر کی سمت درست رکھنے کیلئے لازمی عنصر بھی۔۔۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔