YOUR INFO

Sunday 14 April 2013

غزوہ حمراء الاسد

0 comments
غزوہ حمراء الاسد
سیرت النبی (ص) : الرحیق المختوم 
New New غزوہ ذات حمراء الا سد۔۔۔صفحہ نمبر 386

ادھر رسول اللہ ﷺ نے پوری رات جنگ سے پیدا شدہ صورت حال پر غور کرتےہوئے گذاری ۔آپ ﷺ کا اندیشہ تھا کہ مشرکین نے سوچا کہ میدان جنگ میں اپنا پلہ بھاری رہتے ہوئے بھی ہم نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تو انہیں یقیناً ندامت ہو گی اور وہ راستے سے پلت کر مدینے پر دوبارہ حملہ کریں گے۔ اس لئے آپ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ بہرحال ان کے لشکر کا تعاقب کیا جانا چاہیے۔۔چنانچہ اہل سیر کا بیان ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے معرکہ احد کے دوسرے دن یعنی یک شنبہ 8 شوال سن 3 ھ کو علی الصباح اعلان فرمایا کہ دشمن کے مقابلے کے لئے چلنا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان فرمایا کہ ہمارے ساتھ صرف وہی آدمی چل سکتا ہے جو معرکہ احدمیں موجود تھا ۔تاہم عبد اللہ بن ابی نے اجازت چاہی کہ آپ ﷺ کا ہمرکاب ہو مگر آپ ﷺ نے اجازت نہ دی ۔ ادھر جتنے مسلمانان تھےاگر چہ زخموں سے چور غم سے نڈھال اور اندیشہ و خوف سے دو چار تھے لیکن سب نے بلا تردد سر اطاعت خم کردیا ۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی اجازت چاہی جو جنگ احد میں شریک نہ تھے ۔ حاضر خدمت ہوکر عرض پرداز ہوئے ۔۔۔ یار سول اللہ ﷺ میں چاہتا ہوں کہ آپ ﷺ جس کسی جنگ میں تشریف لے جائیں میں بھی حاضر خدمت رہوں اور چونکہ (اس جنگ میں) میرےوالد نے مجھے اپنی بچیوں کی دیکھ بھال کے لئے گھر پر روک دیا تھا لہذا آپﷺ مجھے اجازت دے دیں کہ میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ چلوں اس پر آپ ﷺ نے انہیں اجازت دے دی پروگرام کے مطابق رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کو ہمراہ لےکر روانہ ہوئے اور مدینے سے آٹھ میل دور حمراء الا سد پہنچ کر خیمہ زن ہو ئے۔۔اثناء قیام میں معبد بن ابی معبد خزاعی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوا ۔۔ اور کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے شرک ہی پر قائم تھا لیکن رسو ل اللہ ﷺ کا خیر خواہ تھا۔کیونکہ خزاعہ اور بنو ہاشم کے در میان حلف( یعنی دوستی و تعاون کا عہد ) تھا بہر کیف اس نے کہا اے محمدﷺ۔۔۔! آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کے رفقاء کو جوزک پہنچی ہے وہ واللہ ہم پر سخت گراں گزری ہے ہماری آرزو تھی کہ اللہ آپ ﷺ کو بعافیت رکھتا ۔۔ اس اظہار ہمدردی پر رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ ابو سفیان کے پاس جائے اور اس کی حوصلہ شکنی کرے۔ادھر رسو ل اللہ ﷺ نے جو اندیشہ محسوس کیا تھا کہ مشرکین مدینے کی طرف پلٹنے کی بات سوچیں گے وہ بالکل برحق تھا ۔ چنانچہ مشرکین نے مدینے سے 36 میل دور مقام روحا پر پہنچ کر جب پڑاؤ ڈالا تو آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کی کہنے لگے تم لو گوں نے کچھ نہیں کیا ۔ان کی شوکت و قوت توڑ کر ان کو یوں ہی چھوڑ دیا حالا نکہ ابھی ان کے اتنے سر باقی ہیں کہ وہ تمہارے لئے پھر درد سر بن سکتے ہیں لہذا واپس چلو اور انہیں جڑ سے صاف کردو۔۔لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سطحی راۓ تھی جو ان لوگون کی طرف سے پیش کی گئی تھی جنہیں فریقین کی قوت اور ان کے حوصلوں کا صحیح اندازہ نہ تھا اسی لئے ایک ذمہ دار افسر صفوان بن امیہ نے اس رائے کی مخالفت کی اور کہا لوگو۔۔! ایسانہ کرو ۔مجھے خطرہ ہے کہ جو ( مسلمان غزوہ احد ) نہیں آئے تھے وہ بھی اب تمہارے خلاف جمع ہو جائیں گے لہذا اس حالت میں واپس چلے چلو کہ فتح تمہاری ہے ورنہ مجھے خطرہ ہے کہ مدینے پر پھر چڑھائی کر وگے تو گردش میں پڑ جاؤ گے لیکن بھاری اکثریت نے یہ رائے قبول نہ کی اور فیصلہ کیا کہ مدینے واپس چلیں ۔لیکن ابھی پڑاؤ چھوڑ کر ابو سفیان اور اس کے فوجی ہلے بھی نہ تھے کہ معبد بن ابی معبد خزاعی پہنچ گیا ۔ابو سفیان کو معلوم نہ تھا کہ یہ مسلمان ہو گیا ہے اس نے پوچھا معبد پیچھے کی کیا خبر ہے؟ معبد نے ۔۔۔پروپیگنڈے کی سخت اعصابی حملے کرتے ہوئے کہا محمد ﷺ۔۔۔اپنے ساتھیوں کو لے کر تمہارے تعاقب میں نکل چکے ہیں ۔ان کی جمعیۃ اتنی بڑی ہے کہ میں نے ویسی جمعیۃ کبھی دیکھی ہی نہیں ۔۔سارے لوگ تمہارے خلاف غصے سے کباب ہوئے جارہے ہیں احد میں پیچھے رہ جانے والے بھی آگئے ہیں وہ جو کچھ ضائع کر چکے اس پر سخت نادم ہیں اور تمہارے خلاف اس قدر بھڑکے ہوئے ہیں کہ میں نے اس کی مثال دیکھی ہی نہیں ۔۔ابو سفیان نے کہا: ارے بھائی یہ کہا کہہ رہے ہو ۔۔؟ معبد نے کہا: واللہ میرا خیال ہے کہ تم کوچ کرنے سے پہلے پہلے گھوڑوں کی پیشانیاں دیکھ لو گےیا لشکر کا ہر اول دستہ اس ٹیلے کے پیچھے سے نمودار ہو جائے گا۔ ابو سفیان نے کہا اللہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ان پر پلٹ کر پھر حملہ کریں اور ان کی جڑ کاٹ دیں معبد نے کہا: ایسا نہ کرنا میں تمہاری خیر خواہی کی بات کر رہا ہوں یہ باتیں سن کر مکی لشکر کے حوصلے ٹو ٹ گئے ان پر گھبراہٹ اور رعب طاری ہو گیا اور انہیں اسی میں عافیت نظر آئی کہ مکے کی جانب سے اپنی واپسی جاری رکھیں البتہ ابو سفیان نے اسلامی لشکر کے تعاقب سے باز رکھنے اور اس طرح سے بچنے کے لئے پرو پیگنڈے کا ایک جوابی اعصابی حملہ کیا جس کی صورت یہ ہوئی کہ ابو سفیان کے پاس سے قبیلہ عبد القیس کا ایک قافلہ گذرا ۔ابو سفیان نے کہا : کیا آپ لو گ میرا یہ پیغام محمد ﷺ کو پہنچا دیں گے۔؟ میرا وعدہ ہے کہ اس کے بدلے جب آپ لوگ مکہ آئیں گے تو عکاظ کے بازار میں آپ لوگوں کو اتنی کشمش دوں گا جتنی آپ کی یہ اونٹنی اٹھا سکے گی۔ان لوگوں نے کہا: جی ہاں ۔ابو سفیان نے کہا: محمد ﷺ کو یہ خبر پہنچا دیں کہ ہم نے ان کی اوران کے رفقاء کی جڑ کاٹ دینے کے لئے دوبارہ پلٹ کر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس کے بعد جب یہ قافلہ حمراء الاسد میں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے ابو سفیان کا پیغام کہہ سنایا اور کہا کہ لوگ تمہارے خلا ف جمع ہیں ان سے ڈرو مگر ان کی باتیں سن کر مسلمانوں کے ایمان میں اور اضافہ ہو گیا ۔ اور انہوں نے کہا حسبنا اللہ و نعم الوکیل ۔اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین کا رساز ہے ( اس ایمانی قوت کی بادولت( وہ لوگ اللہ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹے ۔انہیں کسی برائی نے نہ چھوا اور انہوں نے اللہ کی رضا مندی کی پیروی کی اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
رسول اللہ ﷺ اتوار کے روز حمراء الا سد میں تشریف لے گئے تھے ۔ دو شنبہ ،منگل اور بدھ یعنی 9۔10،11۔شوال سن 3 ھجری تک مقیم رہے اس کے بعد مدینہ واپس آئے ۔ مدینہ واپسی سے پہلے ابوعزہ جمحی آپ ﷺ کی گرفت میں آ گیا۔ یہ وہی شخص ہے جسے بدر میں گرفتار کئے جانے کے بعد اس کے فقر اور لڑکیوں کی کثرت کے سبب اس شر ط پر بلا عوض چھوڑ دیا 
دیا گیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے خلاف کسی سے تعاون نہیں کرے گا ۔لیکن اس شخص نے وعدہ خلافی اور عہد شکنی کی اور اپنے اشعار کے ذریعہ نبی ﷺ اور صحابہ کرام کے خلاف لوگو ں کے جذبات کو برانگیختہ کیا۔۔ جس کا ذکر پچھلے صفحات میں آ چکا ہے پھر مسلمان سے لڑنے کے لئے خود بھی جنگ احد میں آیا ۔جب یہ گرفتار کر کے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لایا گیا تو کہنے لگا : محمد ﷺ میری لغزش کو در گزر کر و۔مجھ پر احسان کر دو اور میری بچیوں کی خاطر مجھے چھوڑ دو ۔ میں عہد کرتاہو ں کہ اب دوبارہ ایسی حرکت نہیں کروں گا۔نبی ﷺ نے فرمایا : اب یہ نہیں ہو سکتا کہ تم مکے جاکر اپنے رخسار پر ہاتھ پھیرو اور کہو کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دو مرتبہ دھوکہ دیا ہے ۔مومن ایک سوراخ سے دومرتبہ ڈسا نہیں جاتا۔اس کے بعد حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ یا حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا اور انہوں نے اس کی گردن مار دی۔اسی طرح مکے کا ایک جاسوس بھی مارا گیا اس کا نام معاویہ بن مغیرہ بن ابی العاص تھا اور یہ عبد الملک بن مروان کا نانا تھا ۔یہ شخص اس طرح زد میں آیا کہ جب احد کے روز مشرکین واپس چلے گئے تو یہ اپنے چچیرے بھائی عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے ملنے آیا۔عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی ﷺ سے اس کے لئے امان طلب کی اور آپﷺ نے اس شرط پر امان دے دی کہ اگر وہ تین روز کے بعد پایا گیا تو قتل کر دیا جائے گا۔لیکن جب مدینہ اسلامی لشکر سے خالی ہو گیا تو یہ شخص قریش کی جاسوسی کےلئے تین دن سے زیادہ ٹھر گیا اور جب لشکر واپس آیا تو بھاگنے کی کوشش کی رسول اللہﷺ نے حضرت زیدبن حارثہ اور حضرت عماربن یاسر رضی اللہ تعالی عنہی اللہ تعالی عنہما کو حکم دیا اور انہوں نے اس شخص کا تعاقب کر کے اسے تہ و تیغ کر دیا۔۔( غزوہ احد اور غزوہ حمراء الاسد کی تفصیلات اب ہشام 2۔60 زاد المعاد2۔91تا 108 فتح الباری مع صحیح بخاری 7۔345تا 377 مختصر السیرۃ للشیخ عبد اللہ ص 242 تا 257 جمع کی گئی ہیں اور دوسرے مصادر کے حوالے متعلقہ مقامات ہی پر دے دیئے گئےہیں)
غزوہ حمراء الاسد کا ذکر اگرچہ ایک مستقل نام سے کیا جاتا ہے مگر یہ درحقیقت کوئی مستقل غزوہ نہ تھا بلکہ غزوہ احد ہی کا جزو و تتمہ اور اسی کے صفحات میں سے ایک صفحہ تھا۔

Tuesday 9 April 2013

ہر نماز کے بعد سورۃ الإخلاص پڑھنے کی کیا دلیل ہے ؟

0 comments

ہر نماز کے بعد سورۃ الإخلاص پڑھنے کی کیا دلیل ہے ؟

السلام علیکم
شیخنا الکریم
کیا ہر نماز کے بعد سورۃ اخلاص پڑھی جاسکتی ہے۔
یہاں‌سعودی عرب میں‌ ایک شیخ نے کہا کہ طبرانی میں ہے لیکن صحیح‌نہیں۔
اس کے علاوہ جیسے شیخ کفایت اللہ نے فرمایا معوذات سے مراد سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ہیں۔
اس کے علاوہ سورۃ اخلاص والی روایت بھی رات کو سونے کے وقت کی ہیں۔
لیکن اس کے باوجود علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے اس کو نماز کے بعد پڑھنے کا ذکر کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں پوسٹرز میں اس کا ذکر موجود ہے۔


ایسی صورت حال میں‌ کیا کیا جائے ؟

الجواب بعون الوهاب ومنه الصدق والصواب وإليه المرجع والمآب 


وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته  
معوذات سے مراد ہے 
سورۃ الاخلاص 
سورۃ الفلق 
سورۃ الناس

اور معوذات کا یہ معنى صحیح بخاری میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہی موجود ہے ۔
5016 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اشْتَكَى يَقْرَأُ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ وَيَنْفُثُ، فَلَمَّا اشْتَدَّ وَجَعُهُ كُنْتُ أَقْرَأُ عَلَيْهِ وَأَمْسَحُ بِيَدِهِ رَجَاءَ بَرَكَتِهَا»رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوتے تو معوذات پڑھنے اور پھونک مارتے , اور جب بیماری سخت ہو جاتی تو میں پڑھتی اور آپکا ہاتھ ہی پھیرتی برکت کی خاطر۔
اور پھر خود ہی ان معوذات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں :
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأُوَيْسِيُّ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ نَفَثَ فِي كَفَّيْهِ بِقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَبِالْمُعَوِّذَتَيْنِ جَمِيعًا ثُمَّ يَمْسَحُ بِهِمَا وَجْهَهُ وَمَا بَلَغَتْ يَدَاهُ مِنْ جَسَدِهِ قَالَتْ عَائِشَةُ فَلَمَّا اشْتَكَى كَانَ يَأْمُرُنِي أَنْ أَفْعَلَ ذَلِكَ بِهِ جب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بستر پر لیٹتے تو اپنی ہتھیلیوں میں پھونک ماترتے اور سورۃ اخلاص اور معوذتین پڑھتے اور چہرے اور جہاں تک ہاتھ پہنچتا وہاں تک ہاتھ پھیرتے اور جب آپ بیمار ہوتے تو آپ مجھے حکم دیتے تو یہ کام میں کرتی ۔
پھر اسی طرح فرماتی ہیں :
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهُ نَفَثَ فِي يَدَيْهِ وَقَرَأَ بِالْمُعَوِّذَاتِ وَمَسَحَ بِهِمَا جَسَدَهُجب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم بستر پر لیٹتے تو اپنے ہاتھوں میں پھونکتے اور معوذات پڑھتے اور دونوں ہاتھوں کو جسم پر پھیرتے ۔

ان احادیث سے یہ معلوم ہوا کہ معوذات کا معنى ہے آخری تین سورتیں ۔
اور نماز کے بعد معوذات پڑھنے کا حکم رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے :
1260 - أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنِ اللَّيْثِ، عَنْ حُنَيْنِ بْنِ أَبِي حَكِيمٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: «أَمَرَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقْرَأَ الْمُعَوِّذَاتِ دُبُرَ كُلِّ صَلَاةٍ»سنن نسائی

Monday 8 April 2013

چائےکی تاریخ فوائد و نقصانات

1 comments
چائےکی تاریخ فوائد و نقصانات

ميں نے چائے کے متعلق مطالعہ 2004 عيسوی میں شروع کيا اور ڈيڑھ سال کے مطالعہ کہ بعد جو کچھ حاصل ہوا اُس کا خُلاصہ پيش کر رہا ہوں کہ شائد اس کے مطالعہ سے کسی کا بھلا ہو اور وہ ميرے لئے دعائے خير کرے ۔
افتخار اجمل بھوپال
04 دسمبر 2005ء

پيش لفظ

آجکل ہمارا حال یہ ہے ۔ ۔ ۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان مگر پھر بھی کم نکلے

کالی چائے اور سگريٹ کی طلب بعض حضرات کے اعصاب پر اس قدر سوار ہو جاتی ہے کہ اُنہيں کُچھ سوجھتا ہی نہيں گويا کہ اُن کا دماغ ماؤف ہو جاتا ہے ۔ اس کی وجہ وہ نشہ آور اجزاء ہيں جو ان ميں موجود ہيں اور نشہ کی سب سے بڑی خوبی يہ ہے کہ اسس کا جو عادی ہو جائے اسے ان سے پيچھا چھڑانے کيلئے مضبوط قوتِ ارادی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ انگریز ہمیں افسر شاہی کے ساتھ ساتھ يہ دو علّتيں دے گئے لوگوں کو عادت ڈالنے کيلئے چائے تیار کر کے اور سگریٹ سلگا کر شرو‏ع میں ہندوستان کے لوگوں کو چوراہوں میں کھڑے ہو کر مفت پلائے گئے اور گھروں کے لئے بھی مفت دیئے گئے ۔ جب لوگ عادی ہو گئے تو معمولی قیمت لگا دی گئی۔ پھر آہستہ آہستہ قیمت بڑھتی چلی گئی۔ آج ہماری قوم ان فضول اور نقصان دہ چیزوں پر اربوں روپیہ کا ضائع کرتی ہے ۔

یہ کالی یا انگریزی چائے جو آجکل عام پی جاتی ہے ہندوستانيوں يا مشرقی لوگوں کی دريافت يا ايجاد نہیں ۔ کالی چائے یا انگریزی چائے بیسویں صدی کے شروع میں ہندوستان میں انگريزوں نے متعارف کرائی ۔ بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہندوستانی فوجیوں کو پہلی جنگ عظیم کے دوران سستی خوراک دی جائے۔ ایک برطانوی کمپنی نے ہندوستانی فوج کی خوراک کا خرچہ کم کرنے کے لئے بالخصوص تحقیق کر کے یہ کالی چائے دریافت کی ۔ یہ چائے بھوک کو مارتی ہے اس لئے اس کا انتخاب کیا گیا۔ ہندوستانی فوجیوں کو چائے ۔ بھنے ہوئے چنے اور کرخت بسکٹ بطور ناشتہ اور دوپہر اور رات کا کھانا دیا جاتا تھا۔

ہندوستان کی مقامی چائے

کالی چائے سے پہلے ہندوستان بلکہ ایشیا میں چار قسم کی چائے رائج تھیں اور نمعلوم کب سے زیر استعمال تھیں ۔
ایک ۔ جس کو آج ہم قہوہ یا سبز چائے يا چائنيز ٹی کہتے ہیں ۔ [لیمن گراس نہیں] ۔
دو ۔ قہوہ ہلکے براؤن رنگ کا لیکن کالی چائے کی پتی کا نہیں ۔
تین ۔ قہوہ گہرے براؤن رنگ کا جو کڑوا ہوتا ہے اور پاکستان کے شمالی علاقوں اور عرب ممالک میں اب بھی پیا جاتا ہے
چار ۔ نمکین چائے جسے کشمیری چائے بھی کہتے ہیں ۔جو آج کل بڑے ہوٹلوں میں بغیر نمک کے صرف چينی ڈال کر پلائی جا رہی ہے ۔
ہم نےگوری چمڑی کی تقلید میں چائے کی فائدہ مند قسمیں چھوڑ کر مضر کالی چائے اپنا لی ۔

تاريخی حقائق پر ايک نظر [انگريزوں کی مکّاری]

چائے کیسے اور کب بنی اس کے متعلق کچھ کہنے سے پہلے میں یہ گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ تہذیب و تمدن میں یورپ اور امریکہ سے بہت پہلے ایشیا اور افریقہ بہت ترقّی کر چکے تھے ۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں دولت کے نشہ میں اپنی لاپرواہیوں عیاشیوں اور اہل مغرب بالخصوص انگریزوں کی عیاریوں کے باعث ایشیا اور افریقہ کے لوگ رو بتنزّل ہو کر پیچھے رہتے چلے گئے ۔ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے کردار سے تو سب واقف ہی ہوں گے ۔ چین کے بارے بھی سنیئے ۔ انگریزوں کو پہلی بار سبز چائے کا علم ستارھویں صدی کے شروع میں اس وقت ہوا جب 1615 عیسوی میں ایک شخص رچرڈ وکہم نے چائے کا ایک ڈبّہ شہر مکاؤ سے منگوایا ۔ اس کے بعد لگ بھگ تین صدیوں تک یورپ کے لوگ چائے پیتے رہے لیکن انہیں معلوم نہ تھا کہ چائے ہے کیا چیز ۔ اٹھارہویں صدی میں سبز چائے نے انگریزوں کے بنیادی مشروب ایل یا آلے کی جگہ لے لی ۔ انیسویں صدی کے شروع تک سالانہ 15000 میٹرک ٹن چائے چین سے انگلستان درآمد ہونا شروع ہو چکی تھی ۔ انگریز حکمرانوں کو خیال آیا کہ چین تو ہم سے بہت کم چیزیں خریدتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں نقصان ہو رہا ہے ۔ انہوں نے افیون دریافت کی اور چینیوں کو افیون کی عادت ڈالی جو کہ چائے کے مقابلہ میں بہت مہنگی بھی تھی ۔ پوست کی کاشت چونکہ ہندوستان میں ہوتی تھی اس لئے ہندوستان ہی میں افیون کی تیاری شروع کی گئی ۔ یہ سازش کامیاب ہو گئی ۔ اس طرح انگریزوں نے اپنے نقصان کو فائدہ میں بدل دیا ۔ انگریزوں کی اس چال کے باعث چینی قوم افیمچی بن گئی اور تباہی کے قریب پہنچ گئی ۔ پھر چینیوں میں سے ایک آدمی اٹھا اور ہردل عزیز لیڈر بن گیا ۔ وہ موزے تنگ تھا جس نے قوم کو ٹھیک کیا اور افیمچیوں کو راہ راست پر لایا جو ٹھیک نہ ہوئے انہیں جیلوں میں بند کر دیا جہاں وہ افیون نہ ملنے کے باعث تڑپ تڑپ کر مر گئے ۔ جس کے نتیجہ میں آج پھر چین سب سے آگے نکلنے کو ہے ۔ یہ موذی افیون ہندوستانیوں کو بھی لگ گئی مگر ہندوستان بشمول پاکستان میں ابھی تک کوئی موزے تنگ پیدا نہیں ہوا ۔

تسميہ

جسے آج ہم بھی مغربی دنیا کی پیروی کرتے ہوئے ٹی کہنے لگے ہیں اس کا قدیم نام چاء ہمیں 350 عیسوی کی چینی لغات یعنی ڈکشنری میں ملتا ہے ۔ شروع میں یورپ میں بھی اسے چاء ہی کہا جاتا تھا ۔ چھٹی یا ساتویں صدی میں بُدھ چین سے چاء کوریا میں لے کر آئے ۔ کوریا میں کسی طرح سی ایچ کی جگہ ٹی لکھا گیا ۔ ہو سکتا ہے اس زمانہ کی کورین زبان میں چ کی آواز والا حرف ٹ يا انگريزی کی ٹی کی طرح لکھا جاتا ہو ۔ دوسری تبدیلی یہ ہوئی کہ چاء کو ” ٹے” لکھا گیا ۔ اسطرح یورپ میں چاء ۔ ٹی اور ٹے ۔ بن گئی ۔ جرمنی میں اب بھی چاء کو ” ٹے” کہتے ہیں ۔ آج سے پچاس سال قبل ہند و پاکستان ميں بھی زيادہ تر لوگ چاء ہی کہتے اور لکھتے تھے ۔

عجیب بات یہ ہے کہ مارکوپولو نے اپنی چین کے متعلق تحریر میں چاء یا چائے کا کوئی ذکر نہیں کیا ۔ اس سے شُبہ پيدا ہوتا ہے کہ کیا مارکو پولو واقعی چین گیا تھا ؟

چائے کی دريافت اور ابتدائی استعمال

چاۓ کی دریافت تقريباً پونے پانچ ہزار سال قبل ہوئی ۔ کہا جاتا ہے کہ چین ۔ شین یا سین میں شہنشاہ دوم شین نونگ [جس کا دور 2737 قبل مسيح سے 2697 قبل مسيح تک تھا] نے علاج کے لئے دیگر جڑی بوٹیوں کے ساتھ چاء بھی دریافت کی ۔ شین نونگ کا مطلب ہے چین کا مسیحا ۔ چاء ایک سدا بہار جھاڑی کے پتّوں سے بنتی ہے ۔ شروع میں سبز پتوں کو دبا کر ٹکیاں بنا لی جاتیں جن کو بھون لیا جاتا تھا ۔ استعمال کے وقت ٹکیہ کا چورہ کر کے پیاز ۔ ادرک اور مالٹے یا سنگترے کے ساتھ ابال کر یخنی جس کو انگریزی میں سُوپ کہتے ہیں بنا لی جاتی اور معدے ۔ بینائی اور دیگر بیماریوں کے علاج کے لئے پیا جاتا ۔

چائے بطور مشروب

ساتویں صدی عيسوی میں چاء کی ٹکیہ کا چورا کر کے اسے پانی میں ابال کر تھوڑا سا نمک ملا کر پیا جانے لگا ۔ یہ استعمال دسویں صدی کے شروع تک جاری رہا ۔ اسی دوران یہ چاء تبت اور پھر شاہراہِ ریشم کے راستے ہندوستان ۔ ترکی اور روس تک پہنچ گئی ۔

چائے بطور پتّی

سال 850 عیسوی تک چاء کی ٹکیاں بنانے کی بجائے سوکھے پتوں کے طور پر اس کا استعمال شروع ہو گیا ۔ دسویں یا گیارہویں صدی میں چاء پیالہ میں ڈال کر اس پر گرم پانی ڈالنے کا طریقہ رائج ہو گیا ۔ جب تیرہویں صدی میں منگولوں یعنی چنگیز خان اور اس کے پوتے کبلائی خان نے چین پر قبضہ کیا تو انہوں نے چاء میں دودھ ملا کر پینا شروع کیا ۔

چو یوآن چانگ جس کا دور 1368 سے 1399 عیسوی تھا نے 1391 عیسوی میں حکم نافذ کروایا کہ آئیندہ چاء کو پتی کی صورت میں رہنے دیا جائے گا اور ٹکیاں نہیں بنائی جائیں گی ۔ اس کی بڑی وجہ ٹکیاں بنانے اور پھر چورہ کرنے کی فضول خرچی کو روکنا تھا ۔

چاء دانی کی ايجاد

سولہویں صدی عيسوی کے شروع میں چائے دانی نے جنم لیا ۔ اس وقت چائے دانیاں لال مٹی سے بنائی گیئں جو کہ آگ میں پکائی جاتی تھیں پھر اسی طرح پیالیاں بنائی گیئں ۔ ایسی چائے دانیاں اور پیالیاں اب بھی چین میں استعمال کی جاتی ہیں ۔

چاء کا يورپ کو سفر

سولہویں صدی کے دوسرے نصف میں پرتغالی لوگ چین کے مشرق میں پہنچے اور انہیں مکاؤ میں تجارتی اڈا بنانے کی اجازت اس شرط پر دے دی گئی کہ وہ علاقے کو قزّاقوں سے پاک رکھیں گے ۔ خیال رہے کہ انگریزوں کو چینیوں نے اپنی سرزمین پر قدم رکھنے کی اجازت بالکل نہیں دی اور تجارت کی اجازت بھی ستارہویں صدی کے آخر تک نہ دی ۔ گو شاہراہ ریشم سے ہوتے ہوئے ترکوں کے ذریعہ چاء پہلے ہی یورپ پہنچ چکی ہوئی تھی مگر پرتغالی تاجر چینی چاء کو براہ راست یورپ پہنچانے کا سبب بنے ۔

يورپ ميں چائے خانوں کی ابتداء

یورپ میں ولندیزی یعنی ڈچ تاجروں نے چاء کو عام کیا ۔ انہوں نے ستارہویں صدی میں اپنے گھروں کے ساتھ چائے خانے بنائے ۔ سال 1650 عیسوی میں آکسفورڈ میں پہلا چائے خانہ ۔ کافی ہاؤس کے نام سے بنا ۔ اور 1660 عیسوی کے بعد لندن کافی خانوں سے بھرنے لگا جن کی تعداد 1682 عیسوی تک 2000 تک پہنچ گئی ۔

کالی چائے کی دريافت اور سفيد چينی برتنوں کی ايجاد

ستارہویں صدی کے آخر میں کسی نے پتے سوکھانے کے عمل کے دوران تخمیر یعنی فرمنٹیشن کا طریقہ نکالا جو بعد میں کالی چائے کی صورت میں نمودار ہوا یعنی وہ چائے جو آجکل دودھ ملا کر یا دودھ کے بغیر پی جا رہی ہے ۔ یہ کالی چائے ایک قسم کا نشہ بھی ہے جو لگ جائے تو چھوڑنا بہت مُشکل ہوتا ہے ۔ اسے عام کرنے کے لئے اس کا رنگ خوبصورت ہونے کا پراپیگنڈا کیا گیا چنانچہ رنگ دیکھنے کے لئے سفید مٹی کی چائے دانی اور پیالیاں بننی شروع ہوئیں ۔

انگريزوں کی کالی چائے کی دريافت

چین کا مقابلہ کرنے کے لئے انیسویں صدی میں انگریزوں نے چاء کے پودے اور بیج حاصل کئے اور ہندوستان میں چاء کی کاشت کا تجربہ شروع کر دیا ۔ اس کوشش کے دوران بیسویں صدی کے شروع میں يعنی 1905 عیسوی میں انگریزوں کو فلپین لوگوں کے ذریعہ پتا چلا کہ چاء کے پودے کی جنگلی قسم آسام کی پہاڑیوں میں موجود ہے ۔اور چاء کے پودے کا نباتاتی نام کامیلیا سائنیسس ہے ۔ چنانجہ اس کی باقاعدہ کاشت ہندوستان میں شروع کر کے کالی چائے تیار گئی جس کی پیداوار اب 200000 مٹرک ٹن سے تجاوز کر چکی ہے ۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران انگريزوں نے کالی چائے کو ہندوستان میں عام کيا ۔ ہندوستان اور سری لنکا میں صرف کالی چائے پیدا ہوتی ہے ۔

سبز چائے اور کالی چائے ميں فرق

سبز چائے اور کالی چائے پینے کے لئے ان کے تیار کرنے میں فرق ہے ۔ کالی چائے تيار کرنے کيلئے پتے سوکھانے سے پہلے تخمیر یعنی فرمنٹیشن کے عمل سے گذارے جاتے ہيں ۔ مزيد اِسے پينے کيلئے کھولتے ہوئے پانی ميں پتّی ڈال کر تيار کيا جاتا ہے جبکہ سبز چائے پتے احتياط سے سُوکھا کر بيائی جاتی ہے اور پينے کيلئے اس کی پتّی میں 70 درجے سیلسیئس کے لگ بھگ گرم پانی ڈالنا ہوتا ہے ۔

سبز چائے کے فوائد

چائے کا استعمال ہزاروں سال سے ہو رہا ہے ۔ چائے کی ايک قسم سبز جائے يا قہوا جسے چائينيز ٹی بھی کہتے ہيں اور اس کا نباتاتی نام کاميلا سينينسِز ہے صحت و تندرُستی کے بہت سے فوائد رکھتی ہے ۔ سالہا سال سے سبز چائے کے لاتعدار تجربات انسانوں اورجانوروں پر اور تجربہ گاہوں ميں کئے گئ جن سے ثابت ہوا کہ سبز چائے بہت سی بيماريوں کو روکنے يا اُن کا سدِّباب کرنے ميں مدد ديتی ہے ۔

کوليسٹرال

چینی سائنسدانوں نے تحقیق کے بعد ثابت کیا ہے کہ سبز چائے میں ایک ایسا کیمیکل ہوتا ہے جو ایل ڈی ایل یعنی برے کولیسٹرال کو کم کرتا ہے اور ایچ ڈی ایل یعنی اچھے کولیسٹرال کو بڑھاتا ہے ۔ پنگ ٹم چان اور ان کے ساتھی سائنسدانوں نے ہیمسٹرز لے کر ان کو زیادہ چکنائی والی خوراک کھلائی جب ان میں ٹرائی گلسرائڈ اور کولیسٹرال کی سطح بہت اونچی ہوگئی تو ان کو تین کپ سبز چائے چار پانچ ہفتے پلائی جس
سے ان کی ٹرائی گلسرائڈ اور کولیسٹرال کی سطح نیچے آگئی ۔ جن ہیمسٹرز کو 15 کپ روزانہ پلائے گئے ان کی کولیسٹرال کی سطح ۔ کل کا تیسرا حصہ کم ہو گئی اس کے علاوہ ایپوبی پروٹین جو کہ انتہائی ضرر رساں ہے کوئی آدھی کے لگ بھگ کم ہو گئی ۔ میں نے صرف چائینیز کی تحقیق کا حوالہ دیا ہے ۔ مغربی ممالک بشمول امریکہ کے محقق بھی سبز چائے کی مندرجہ بالا اور مندرجہ ذیل خوبیاں بیان کرتے ہیں ۔

سرطان يا کينسر کا علاج

سبز چائے میں پولی فینالز کی کافی مقدار ہوتی ہے جو نہائت طاقتور اینٹی آکسیڈنٹ ہوتے ہیں ۔ یہ ان آزاد ریڈیکلز کو نیوٹریلائز کرتے ہیں جو الٹراوائلٹ لائٹ ۔ ریڈی ایشن ۔ سگریٹ کے دھوئیں یا ہوا کی پولیوشن کی وجہ سے خطرناک بن جاتے ہیں اور کینسر یا امراض قلب کا باعث بنتے ہیں ۔ سبز چائے انسانی جسم کے مندرجہ ذيل حصّوں کے سرطان يا کينسر کو جو کہ بہت خطرناک بيماری ہے روکتی ہے

مثانہ ۔ چھاتی يا پستان ۔ بڑی آنت ۔ رگ يا شريان ۔ پھيپھڑے ۔ لبلہ ۔ غدود مثانہ يا پروسٹيٹ ۔ جِلد ۔ معدہ ۔

ديگر فوائد

سبز چائے ہاضمہ ٹھیک کرنے کا بھی عمدہ نسخہ ہے ۔ سبز چائے اتھيروسکليروسيس ۔ انفليميٹری باويل ۔ السريٹڈ کولائيٹس ۔ ذيابيطس ۔ جگر کی بيماريوں ميں بھی مفيد ہے ۔ ريح يا ابھراؤ کو کم کرتی ہے اور بطور ڈائی يورَيٹِک استعمال ہوتی ہے ۔ بلیڈنگ کنٹرول کرنے اور زخموں کے علاج میں بھی استعمال ہوتی ہے ۔ دارچینی ڈال کر بنائی جائے تو ذیابیطس کو کنٹرول کرتی ہے ۔ سبز چائے اتھروسلروسس بالخصوص کورونری آرٹری کے مرض کو روکتی ہے ۔

جو لوگ روزانہ سبز چائے کے دس یا زیادہ کپ پیتے ہیں انہیں جگر کی بیماریوں بشمول یرقان کا کم خطرہ ہوتا ہے ۔ سبز چائے کا ایکسٹریکٹ چربی کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے جس سے آدمی موٹا نہیں ہوتا ۔ ۔ سبز چائے بطور سٹیمولینٹ بھی استعمال ہوتی ہے

کالی چائے مُضرِ صحت ہے

کالی چائے پتوں کو فرمنٹ کر کے بنائی جاتی ہے ۔ فرمنٹیشن کو اردو میں گلنا سڑنا کہا جائے گا ۔ اس عمل سے چائے کئی اچھی خصوصیات سے محروم ہو جاتی ہے ۔ اس میں اینٹی آکسی ڈینٹس ہوتے تو ہیں مگر فرمنٹیشن کی وجہ سے بہت کم رہ جاتے ہیں ۔ کالی چائے پینے سے ایڈکشن ہو جاتی ہے اور پھر اسے چھوڑنا مشکل ہوتا ہے ۔ ہر نشہ آور چیز میں یہی خاصیت ہوتی ہے ۔ کالی چائے بھوک اور پیاس کو مارتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھوک اور پیاس کے قدرتی نظام میں خلل ڈالتی ہے جو صحت کے لئے مضر عمل ہے ۔ کالی چائے پیٹ کے سفرا کا باعث بنتی ہے جس سے ہاضمہ کا نظام خراب ہوتا ہے ۔ مندرجہ بالا مضر خصوصیات کے اثرات کئی سالوں بعد ظاہر ہوتے ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی لوگ پیٹ خراب ہونے کی صورت میں یا زکام کو ٹھیک کرنے کے لئے کالی چائے بطور علاج کے پیتے ہیں حالانکہ کالی چائے دونوں کے لئے نہ صرف موزوں نہیں بلکہ مضر ہے ۔ جو ذیابیطس کے مریض بغیر چینی کے کالی چائے پیتے ہیں وہ اپنے مرض کو کم کرنے کی کوشش میں دراصل بڑھا رہے ہوتے ہیں کیونکہ کالی چائے گُردوں کے عمل میں خلّل ڈالتی ہے جِس سے ذیابیطس بڑھ سکتی ہے ۔

Supporting Research

Alic M. Green tea for remission maintenance in Crohn’s disease? Am J Gastroenterol. 1999;94(6):1710.
Blumenthal M, ed. The Complete German Commission E Monographs. Therapeutic Guide to Herbal Medicines. Boston, Mass: Integrative Medicine Communications; 1998:47, 132.
Brinker F. Herb Contraindications and Drug Interactions. 2nd ed. Sandy, OR: Eclectic Medical Publications; 1998:126-129.
Brown MD. Green tea (Camellia sinensis) extract and its possible role in the prevention of cancer. Alt Med Rev. 1999;4(5):360-370.
Bushman JL. Green tea and cancer in humans: a review of the literature. Nutr Cancer. 1998;31(3):151-159.
Craig WJ. Health-promoting properties of common herbs. Am J Clin Nutr. 1999;70(suppl):491S-499S.
Dulloo AG, Duret C, Rohrer D, et al. Efficacy of a green tea extract rich in catechin polyphenols and caffeine in increasing 24-h energy expenditure and fat oxidation in humans. Am J Clin Nutr. 1999;70:1040-1045.
Ernst E, ed. The Desktop Guide to Complementary and Alternative Medicine: An Evidence-Based Approach. Mosby, Edinburgh; 2001:119-121.
Ernst E, Cassileth BR. How useful are unconventional cancer treatments? Eur J Cancer. 1999;35(11):1608-1613.
Fujiki H, Suganuma M, Okabe S, et al. Cancer inhibition by green tea. Mutation Research. 1998;307-310.
Fujiki H, Suganuma M, Okabe S, et al. Mechanistic findings of green tea as cancer preventive for humans. Proc Soc Exp Biol Med. 1999;220(4):225–228.
Gao Yt, McLaughlin JK, Blot WJReduced risk of esophageal cancer associated with green tea consumption. J Natl Cancer Inst. 1994 Jun 1;86(11):855-8.
Geleijnse JM, Launer LJ, Hofman A, Pols HA, Witteman JCM. Tea flavonoids may protect against atherosclerosis: the Rotterdam study. Arch Intern Med. 1999;159:2170-2174.
Gomes A, Vedasiromoni JR, Das M, Sharma RM, Ganguly DK. Anti-hyperglycemic effect of black tea (Camellia sinensis) in rat. J Ethnopharmocolgy. 1995;45:223-226.
Gruenwalkd J, Brendler T, Jaenicke C, scientific eds; Fleming T, chief ed. PDR for Herbal Medicines. 2nd ed. Montvale, NJ:Medical Economics Company; 2000:369-372.
Heck AM, DeWitt BA, Lukes AL. Potential interactions between alternative therapies and warfarin. [review]. Am J Health Syst Pharm. 2000 Jul 1;57(13):1221-1227.
Hu J, Nyren O, Wolk A, Bergstrom R, et al. Risk factors for oesophageal cancer in northeast China. Int J Cancer. 1994;57(1):38-46.
Imai K, Suga K, Nagachi K. Cancer-preventive effects of drinking green tea among a Japanese population. Prev Med. 1997;26(6):769-775.
Inoue M, Tajima K, Mizutani M, et al. Regular consumption of green tea and the risk of breast cancer recurrence: follow-up study from the Hospital-based Epidemiologic Research Program at Aichi Cancer Center (HERPACC), Japan. Cancer Lett. 2001;167(2):175-182.
Ji B-T, Chow W-H, Hsing AW, et al. Green tea consumption and the risk of pancreatic and colorectal cancers. Int J Cancer. 1997;70:255-258.
Kaegi E. Unconventional therapies for cancer: 2. Green tea. [Review]. The Task Force on Alternative Therapies of the Canadian Breast Cancer Research Initiative. CMAJ. 1998;158(8):1033-1035.
Katiyar SK, Ahmad N, Mukhtar H. Green tea and skin. Arch Dermatol. 2000;136(8):989-94.
Katiyar SK, Mukhtar H. Tea antioxidants in cancer chemoprevention. [Review]. J Cell Biochem Suppl. 1997;27:59-67.
Kono S, Shinchi K, Ikeda N, Yanai F, Imanishi K. Green tea consumption and serum lipid profiles: a cross-sectional study in northern Kyushu, Japan. Prev Med. 1992 Jul;21(4):526-531.
Kuroda Y, Hara Y. Antimutagenic and anticarcinogenic activity of tea polyphenols. [Review]. Mutat Res. 1999;436(1):69-97.
Low Dog T, Riley D, Carter T. Traditional and alternative therapies for breast cancer. Alt Ther. 2001;7(3):36-47.
Luo M, Kannar K, Wahlqvist ML, O’Brien RC. Inhibition of LDL oxidation by green tea extract. Lancet. 1997 Feb 1;349(9048):360-361.
Luper S. A review of plants used in the treatment of liver disease: part two. Alt Med Rev. 1999;4(3):178-188.
Lyn-Cook BD, Rogers T, Yan Y, Blann EB, Kadlubar FF, Hammons GJ. Chemopreventive effects of tea extracts and various components on human pancreatic and prostate tumor cells in vitro. Nutr Cancer. 1999;35(1):80-86.
McKenna DJ, Hughes K, Jones K. Green tea monograph. Alt Ther. 2000;6(3):61-84.
Miura Y, Chiba T, Tomita I, et al. Tea catechins prevent the development of atherosclerosis in apoprotein E-deficient mice. J Nutr. 2001;131(1):27-32.
Mukhtar H, Ahmad N. Green tea in chemoprevention of cancer. [Review]. Toxicol Sci. 1999;52(2 Suppl):111-117.
Nakachi K, Suemasu K, Suga K, Takeo T, Imai K, Higashi Y. Influence of drinking green tea on breast cancer malignancy among Japanese patients. Jpn J Cancer Res. 1998;89(3):254-261.
Nagata C, Kabuto M, Shimizu H. Association of coffee, green tea, and caffeine intakes with serum concentrations of estradiol and sex hormone–binding globulin in premenopausal Japanese women. Nutr Cancer. 1998;30(1):21–24.
Ohno Y, Aoki K, Obata K, Morrison AS. Case-control study of urinary bladder cancer in metropolitan Nagoya. Natl Cancer Inst Monogr. 1985;69:229-234.
Ohno Y, Wakai K, Genka K, et al. Tea consumption and lung cancer risk: a case-control study in Okinawa, Japan. Jpn J Cancer Res. 1995;86(11):1027-1034.
Pianetti S, Guo S, Kavanagh KT, Sonenshein GE. Green tea polyphenol epigallocatechin-3 gallate inhibits Her-2/neu signaling, proliferation, and transformed phenotype of breast cancer cells. Cancer Res. 2002;62(3):652-655.
Picard D. The biochemistry of green tea polyphenols and their potential application in human skin cancer. Altern Med Rev. 1996;1(1):31-42.
Robbers JE, Tyler VE. Tyler’s Herbs of Choice. New York: The Haworth Herbal Press; 1999: 249-250.
Sadzuka Y, Sugiyama T, Hirota. Modulation of cancer chemotherapy by green tea. Clin Cancer Res. 1998;4(1):153–156.
Sano T, Sasako M. Green tea and gastric cancer. N Engl J Med. 2001;344(9):675-676.
Sasazuki S, Kodama H, Yoshimasu K et al. Relation between green tea consumption and the severity of coronary atherosclerosis among Japanese men and women. Ann Epidemiol. 2000;10:401-408.
Setiawan VW, Zhang ZF, Yu GP, et al. Protective effect of green tea on the risks of chronic gastritis and stomach cancer. Int J Cancer. 2001;92(4):600-604.
Shim JH, Kang MG, Kim YH, Roberts C, Lee IP. Chemopreventive effect of green tea (Camellia sinensis) among cigarette smoke. Cancer-Epidemio-Biomarkers-Prev. 1995;Jun; 4(4): 387-91.
Shiota S, Shimizu M, Mizushima T, Ito H, et al. Marked reduction in the minimum inhibitory concentration (MIC) of ß-lactams in methicillin-resistant Staphylococcus aureus produced by epicatechin gallate, an ingredient of green tea (Camellia sinensis). Biol. Pharm. Bull. 1999;22(12):1388-1390.
Suganuma M, Okabe S, Kai Y, Sueoka N, et al. Synergistic effects of (-)-epigallocatechin gallate with (-)-epicatechin, sulindac, or tamoxifen on cancer-preventive activity in the human lung cancer cell line PC-9. Cancer Res. 1999;59:44-47.
Suganuma M, Okabe S, Sueoka N, et al. Green tea and cancer chemoprevention. Mutat Res. 1999 Jul 16;428(1-2):339-344.
Sugiyama T, Sadzuka Y. Combination of theanine with doxorubicin inhibits hepatic metastasis of M5076 ovarian sarcoma. Clin Cancer Res. 1999;5:413-416.
Sugiyama T, Sadzuka Y. Enhancing effects of green tea components on the antitumor activity of adriamycin against M5076 ovarian sarcoma. Cancer Lett. 1998;133(1):19–26.
Taylor JR, Wilt VM. Probable antagonism of warfarin by green tea. Ann Pharmacother. 1999;33(4):426–428.
Tewes FJ, Koo LC, Meisgen TJ, Rylander R. Lung cancer risk and mutagenicity of tea. Environ Res. 1990;52(1):23-33.
Thatte U, Bagadey S, Dahanukar S. Modulation of programmed cell death by medicinal plants. [Review]. Cell Mol Biol. 2000;46(1):199-214.
Tsubono Y, Nishino Y, Komatsu S, et al. Green tea and the risk of gastric cancer in Japan. N Engl J Med. 2001;344(9):632-636.
van het Hof KH, de Boer HS, Wiseman SA, Lien N, Westrate JA, Tijburg LB. Consumption of green or black tea does not increase resistance of low-density lipoprotein to oxidation in humans. Am J Clin Nutr. 1997 Nov;66(5):1125-1132.
Wakai K, Ohno Y, Obata K, Aoki K. Prognostic significance of selected lifestyle factors in urinary bladder cancer. Jpn J Cancer Res. 1993 Dec;84(12):1223-1229.
Wang Z, et al. Antimutagenic activity of green tea polyphenols. Mutation Research. 1989;223:273–285.
Wargovich MJ, Woods C, Hollis DM, Zander ME. Herbals, cancer prevention and health. [Review]. J Nutr. 2001;131(11 Suppl):3034S-3036S
Wei H, Zhang X, Zhao JF, Wang ZY, Bickers D, Lebwohl M. Scavenging of hydrogen peroxide and inhibition of ultraviolet light-induced oxidative DNA damage by aqueous extracts from green and black teas. Free Radic Biol Med. 1999;26(11-12):1427-1435.
Weisburger JH. Tea and health: a historic perspective. Cancer Letters. 1997;114:315-317.
Windridge C. The Fountain of Health. An A-Z of Traditional Chinese Medicine. London, England: Mainstream Publishing; 1994:259.
Yamane T, Nakatani H, Kikuoka N, et al. Inhibitory effects and toxicity of green tea polyphenols for gastrointestinal carcinogenesis. Cancer. 1996;77(8 Suppl):1662-1667.
Yang TT, Koo MW. Hypocholesterolemic effects of Chinese tea. Pharmacol Res. 1997;35(6):505-512.
Yang TTC, Koo MWI. Chinese green tea lowers cholesterol level through an increase in fecal lipid excreiton. Life Sciences. 1999:66:5:411-423.
Yu GP, Hsieh CC, Wang LY, Yu SZ, Li XL, Jin TH. Green-tea consumption and risk of stomach cancer: a population-based case-control study in Shanghai, China. Cancer Causes Control. 1995;6(6):532-538..

میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟ پروفیسر ڈاکٹر صوفیہ( سویڈن)

0 comments

میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟
پروفیسر ڈاکٹر صوفیہ( سویڈن)

میں نے ایک کٹر عیسائی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ میری والدہ ہمیں ہر ہفتے چرچ میں لے جانے کی کوشش کرتی تھیں، جبکہ میرے والد ریاضی کے استاد تھے۔ وہ بہت مذہبی نہیں تھے۔ میں اپنی تعلیم کے دوران حیران و پریشان رہا کرتی تھی، کیونکہ محض رسم و رواج اور چرچ میں حاضری کے ساتھ ساتھ میرے ذہن میں ایمانیات اور توحید سے متعلق بعض ایسے سوالات آتے تھے، جن کا جواب چر چ کے پاس نہیں تھا۔ پھر میں نے ناروے کی اوسلویونی یونیورسٹی میں مذہبی علوم کے شعبے میں داخلہ لیا۔ وہاں تاریخ اور تقابل ادیان کے لیے گہری نظر سے مطالعے کے باوجود میں اسلام کے متعلق بدظنی کا شکار رہی۔ اسلام کو سمجھنے کے لیے میں نے جو کتابیں پڑھی تھیں، وہ صحیح نہیں تھیں، کیونکہ وہ مستشرقین کی لکھی ہوئی تھیں۔ آخر میں مجھے شیخ مودودیؒ کی کتاب ’’دینیات‘‘ پڑھنے کو ملی اور سید قطب مصری ؒ کی ’’معالم فی الطریق‘‘ کا انگریزی ترجمہ ملا، جن سے مجھے اپنے سوالات کا تسلی بخش جوا ب ملا۔ اس کے بعد میں نے ان کتابوں کو پڑھنا شروع کیا، جنھیں مسلمان علما نے لکھا ہے۔ قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ خریدا اور اس کی آیات پر غور و خوض شروع کر دیا۔ جب میں اسلام کے متعلق پوری طرح یک سو اور مطمئن ہوگئی تو اسلام مرکز گئی اور کلمۂ شہادت پڑھ کر اپنے اسلام کا اعلان کر دیا۔
میرے رشتے داروں نے اسے معمول کی بات سمجھ کر کوئی خاص توجہ نہیں دی، لیکن میری چند سہیلیوں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا، خصوصاً جب میں نے یونیورسٹی میں حجاب کرنا شروع کر دیا تو بعض دوستوں نے میرے ساتھ بحث و مباحثے کا سلسلہ شروع کر دیا۔
نئی چیز ہمیشہ دوسروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتی ہے اور شروع میں یقیناًبعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اب تو پردہ عام ہو چکا ہے۔ مجھے مشکلات کی کوئی پروا نہیں ہے۔ ہمیں چاہیے کہ لوگوں کی ہدایت کے لیے دعا کریں او راس راستے میں آنے والے مصائب کو صبر و تحمل سے برداشت کریں۔ الحمد للہ! حجاب کے سلسلے میں کوئی خاص مشکل نہیں ہے۔
میں نے اپنی تمام سہیلیوں کو اسلام کی دعوت دی ہے اور ان میں سے بعض نے اسلام قبول بھی کر لیا ہے، لیکن میری شادی کے بعد کافی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ میرے خاوند مجھ سے کہتے ہیں کہ جب تم نے خیر کو پا لیا ہے تو اسے دوسرے تک بھی پہنچاؤ۔ عربی سیکھنے میں انھوں نے میری بڑی مدد کی۔ الحمد للہ، میرے پاس روزانہ کی مصروفیات تدریس، لیکچرز، ٹیلی ویژن پروگرام او ردیگر پروگراموں میں شرکت پر مشتمل ہیں۔
اولا کی تربیت سب سے اہم کام ہے اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دیگر طلبہ کی طرح ہمارے بچے بھی سویڈش اسکول میں جاتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ آموختہ کرتی ہوں اور ان کے ساتھ گفتگو کرتی ہوں۔ اس کے علاوہ عربی سیکھنے کے لیے ویڈیو کیسٹ دیکھتے ہیں۔ نمازوں اور ذکر کے اہتمام کے ساتھ سونے سے پہلے ہم انھیں کوئی ایک آدھ اسلامی قصہ سناتے ہیں اور بعض نصیحتیں کرتے ہیں۔ ہر ہفتے کے آخر میں عربی پڑھنے اور سیکھنے کی مشق کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ بچوں کے اخلاقی اور تعلیمی امور بہت اچھے ہیں او روہ عربی، سویڈش اور نارویجین، تینوں زبانوں میں گفتگو کر سکتے ہیں۔
عورت مرد کی طرح اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عورت اور مرد یکساں طور پر گھر، اولاد اور دعوت دین کے لیے کام کریں۔ موجودہ زمانے میں ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ گھر عورت کے لیے بنیادی او راہم ذمہ داری ہے، لیکن جاہل عورت کوئی کام بھی صحیح طرح نہیں کر سکتی۔ بچوں کی تربیت کے لیے زندگی اور معاشرے کے تجربات اور مشاہدے کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں بچوں کی تعلیم و تربیت اور والدین کی خدمت کرنا ممکن ہوتا ہے۔ ہمارا موجودہ تربیتی نظام خواتین کو مربی اور داعی بنانے کے بجائے انھیں ناکارہ اور پس ماندہ بناتا ہے۔ حالانکہ وہ آنے والی نسلوں کی تربیت کی ذمہ دار ہیں۔
میں نے قرآن کا اسکنڈی نیوین زبان میں ترجمہ شروع کیا ہے۔ اس کے علاوہ فریضۂ حج ادا کرنے کی میری نیت ہے اور میں صحابیات کی تقلید کرتے ہوئے مسلمان عورت کی مدد کرنا چاہتی ہوں، تاکہ وہ اپنا فریضۂ منصبی فعال طور پر ادا کرے۔ اللہ میری مدد فرمائے او رہماری تمام کوششوں کو اپنی رضا کے لیے خالص کر دے۔ آمین!
سویڈن میں مختلف قوموں کی مسلمان خواتین رہتی ہیں، جن کا تعلق یورپ، ایشیا، افریقہ، امریکہ اور عرب ممالک سے ہے۔ ہم نے خواتین کی خدمت اور دعوت اسلامی کے کام میں تمام مسلمان خواتین کو شریک کرنے کے لیے ایک متحدہ پلیٹ فارم کی ضرورت محسوس کی، تاکہ اس تنظیم کے ذریعے خواتین آسانی سے ہمارے ساتھ رابطہ کر سکیں۔
خواتین لڑکیوں اور بچوں کے لیے ہفتہ وار عربی اور سویڈش زبان میں درس ہوتے ہیں۔ عورت کے مسائل اور ضروریات سے متعلق سیمینار اور ورک شاپس منعقد ہوتی ہیں۔ تربیتی کیمپ اور سالانہ کانفرنس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ عورت کے مسائل، مشکلات اور اس کے حقوق کے دفاع کے لیے کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ضرورت مند اور پناہ گزینوں کے لیے ہم فنڈز جمع کرتے ہیں۔
ہماری سرگرمیوں کے نتیجے میں پروگراموں کی نوعیت او رخواتین کی ضرورت کے مطابق اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بوسنیا اور یورپ کی خواتین قرآن و حدیث کی تعلیمات سیکھنے میں دلچسپی لیتی ہیں، عرب خواتین بچوں کی تربیت او رکھانے پکانے سے متعلق لیکچرز میں زیادہ دلچسپی لیتی ہیں، جبکہ صومالی خواتین کی کوشش عربی سیکھنے کے لیے ہوتی ہے۔ میرے خیال میں میاں بیوی کی تعلیمی قابلیت اور مقام ان کے رجحان کی سمت متعین کرتا ہے، لیکن ہماری مسلسل کوشش ہوتی ہے کہ ہم عورت کی مکمل مدد کریں، تاکہ وہ دین کے مطلوبہ مقام تک پہنچ جائے۔ اس میں شک نہیں کہ اس کام کے لیے بڑے صبر و ضبط کی ضرورت ہے۔
عورت کی آزادی کا نعرہ خرافات اور جہالت پر مبنی ہے۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ ہم خواتین کو یہ باور کروائیں کہ اسلامی اصولوں کے اندر رہتے ہوئے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں عورت کا کیا کردار ہے، لیکن عورت کو اس اخلاقی دائرے سے باہر لا کر آزادی کی بات کرنا کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں کے لیے بیچے یا اپنی اولاد کو مامتا کی محبت سے محروم کر کے انھیں خادموں کے حوالے کرے اور خود دوسروں کی خدمت کرے یہ ہمیں ہر گز منظور نہیں ہے۔ عورت کے لیے ضروری ہے کہ اپنی عصمت کی حفاظت کرتی رہے۔ اس طرح فطری امنگوں کی تکمیل ہوتی ہے اور خاندان کے افراد میں محبت اور الفت پنپتی ہے اور پورے معاشرے کی اصلاح ہوتی ہے۔
تسلیمہ نسرین کی سویڈن آمد پر میں نے سویڈن ٹی وی پر تبصرہ کیا تھا۔ تسلیمہ نسرین کا کوئی علمی مقام نہیں ہے۔ ا س نے سیاسی پناہ اور سستی شہرت کے حصول کے لیے مغرب کو استعمال کیا ہے، حالانکہ وہ اپنے مخالفین اور حامیوں دونوں کی طرف سے اس قسم کے اہتمام کی ہر گز مستحق نہیں تھی۔ قرآن پاک اس زمانے کا معجزہ ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کرے گا، چنانچہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ا س طرح کے لوگوں کو اہمیت نہ دیں اور انھیں آزادی اظہار کے ہیرو نہ بنائیں۔ قرآن تو اس لیے آیا ہے کہ وہ غلاموں کو آزادی کی نعمت سے سرفراز کرے، لیکن مسلمانوں کی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے کہ قرآن پاک کو آزادی رائے کے نظریے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ دلیل کا جواب دلیل سے دیا جانا چاہیے نہ کہ جذبات اور اشتعال کا اظہار کیا جائے۔
مجھے پہلے پاکستان، سوڈان اور الجزائر میں خواتین کانفرس میں شرکت کی دعوت ملی، اس کے علاوہ میں نے تین بین الاقوامی کانفرنسوں عمان، لاہور اور استنبول میں شرکت کی ہے۔ الجزائر میں منعقد ہونے والی خواتین کانفرنس مجھے پسند آئی، جس میں معروف داعیہ زینب الغزالی اور اردن سے سمیرہ نے شرکت کی۔ یہ میری تمنا ہے کہ کارکنان کی فعالیت اور ان کی سرگرمیوں کو مربوط اور فعال بنانے کے لیے خواتین کانفرنسوں کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جائے، کیونکہ ان کی سرگرمیوں کی موجودہ صورت حال بہت ناتواں ہے اور میرے خیال میں یہ داعی حضرات کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی خواتین اور بیٹیوں کو اس میدان میں جلد کام کرنے کی ترغیب دیں، تاکہ وہ اسلامی دعوت و تبلیغ کا کام اس طرح انجام دیں، جس طرح وہ اپنی دیگر ضروریات اور مسائل کے لیے کرتی ہیں۔
مجھے عمرہ ادا کرنے سے بہت سکون حاصل ہوا۔ میں مکہ اور مدینہ بار بار جانا چاہتی ہوں۔ جدہ شہر کی ترقی اور جدت بہت پسند آئی، جبکہ اردن میں معاشرتی زندگی اور بالخصوص خواتین کی صورت حال دیگر اسلامی ممالک کی نسبت قابل اطمینان ہے۔ جہاں عورت معاشرے میں اپنا حقیقی کردار ادا کر رہی ہے۔ عمان ایک خوب صورت شہر ہے، خصوصاً موسم بہار اور گرمیوں کے شروع میں ہر شہر کی اپنی خصوصیات ہیں، جبکہ مصر کے لوگ مشکل زندگی او رغربت کے باوجود بڑے صابر اور قانع ہیں۔ مراکش کی صورت حال بھی دیگر شہروں سے ملتی جلتی ہے۔ اس کے قدرتی مناظر قابل ذکر ہیں۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر ممالک میں دین بس روایات اور رسم و رواج کا نام ہے، ماسوا اس کے کہ نوجوانوں میں اسلامی احیا اور معمول کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں۔ میں نے یہ دورہ اسلام قبول کرنے کے بعد ہی کیا تھا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں نے یہ کام پہلے نہیں کیا تھا، کیونکہ اگر میں عرب اور اسلامی ممالک کا دورہ اس سے قبل کر لیتی تو شاید پھر میں دین پر اتنی سختی سے کاربند رہنے والی نہ بن سکتی، کیونکہ مطالعے کے دوران کتابوں میں میں نے اسلامی افکار، عقیدے اور ثقافت و تمدن کی جو حسین صورت دیکھی تھی، وہ ان ممالک کے لوگوں کی زندگیوں میں مفقود نظر آئی، بلکہ بعض ایسے مناظر بھی دیکھنے میں آئے، جو بالکل اسلامی روح کے خلاف تھے۔
٭٭٭

Sunday 7 April 2013

میں نے اسلام کیوں قبول کیا ؟

0 comments
میں نے اسلام کیوں قبول کیا ؟
 صفات عالم محمدزبیرتیمی
”اسلام کتنا عمدہ دین ہے کاش کہ اس کے افراد بھی ویسے ہوتے ۔“
 ایک نومسلم خاندان کے پاکیزہ جذبات پر مشتمل یہ تحریر ہے جسےپڑھ کرجذبات میں ہلچل مچ جاے گى، آنکھیں اشک بار ہوجائیں گی اورسوچنے پرمجبور ہوں گے کہ کیا ہم واقعی مسلمان ہیں ….؟
 ”میں نے اسلام کی صداقت کو اسی وقت جان لیا تھا جبکہ میرے شوہر نے اسلام قبول کیاتها کہمیں ان کے اندر بہت بڑی تبدیلی دیکھ رہی تھی، پہلے بہت غصہ كرتے تھے اسلام قبول کرنے کے بعد نہایت متحمل اوربردبار بن گئے،معاملات بڑے اچھے ہوگئے، اورہمارے بیچ نمونہ کی زندگی گذارنے لگے لیکن اس کے باوجود اب تک میں اسلام سے محض اس وجہ سے دور تھی کہ میرے والد کی زمین میرے ایک مسلم پڑوسی نے غصب کرلی تھى اوراپنے نام سرکاری کاغذات بهى تيار كرالى تھى، میں نادانی سے سمجھتی تھی کہ سارے مسلمان دھوکے باز اور فراڈ ہوتے ہیں،کبھی کبھی تو میں اپنے شوہر پر بھی ترس کھاتی تھی۔“
گذشتہ دنوں سفر ہندوستان کے دوران اپنے علاقہ کے مختلف قصبات اور شہروں میں دعوتی پروگرامز رکھنے کی سعادت نصیب ہوئی ، بہار کی راجدھانی پٹنہ میں السلام ایجوکیشنل اینڈویلفیر فاونڈیشن کے زیراہتمام یہاں کی متعدد مساجد میں خطاب کرنے کا موقع ملا ، ایک روز نماز فجر کے بعد درس قرآن سے فارغ ہوئے تو ایک چالیس سالہ باریش شخص سے ملاقات ہوئی،درس سورہ عصر کی تشریح پر مشتمل تھا جس میں دعوت پر زور دیا گیا تھا اس سے وہ کافی مثاثر تھے ،کہنے لگے کیا وجہ ہے کہ باطل آج اپنی فکر کو پھیلانے میں نہایت چست دکھائی دے رہا ہے لیکن دین حق کے ماننے والے بالکل سست ہوچکے ہیں ۔ ہم نے ان کی بات پر حامی بھرى اوران کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے ان سے عرض کیا کہ اسلام کوآپ جیسے لوگوں کی ہی ضرورت ہے جو سونے والوں کو بیدار کریں ،کہنے لگے : مولانا: میرے بارے میں اللہ رب العالمین سے خاص دعا کریں کہ گھر میں ایمان آجائے ؟میں نے کہا : کیا مطلب ! گھر کے افراد دین سے دور ہیں ؟ کہنے لگے : ابھی دین میں تو آئے ہی نہیں ہیں ، اللہ کا شکر ہے کہ میں نے چند سالوں قبل اسلام قبول کیا ،اس اثناء اہل خانہ اور بچوں کے سامنے اسلام پیش کر نے کی پورى کوشش کی لیکن کچھ اسباب تھے جس کے باعث وہ اسلام کے قریب نہ آسکے ،لیکن ابھی وہ قبول اسلام کے لیے تیار ہیں اور ایک مولانا نے اگلے ہفتہ ہمارے گھر آکر اہلیہ کو کلمہ تلقین کرانے کا وعدہ کیا ہے ۔میں نے انہیں مبارکباد دی ،اور پوچھا کہ کیا آپ کی اہلیہ اسلام سے بالکل مطمئن ہیں ،کہنے لگے : ہاں ! وہ قبول اسلام کے لیے تیار ہیں ،میں نے کہا: تو پھر ایک ہفتہ کی مہلت کیوں؟ اگر مناسب سمجھیں تو آج ہی ان کو کلمہ پڑھادیاجائے ۔ چنانچہ اتفاق ہواکہ رات میں بعدنماز عشاء ان کے گھر جاکر اہلیہ کو کلمہ لا الہ الا اللہ کی تلقین کردی جائے۔ حسب وعدہ نماز عشاء کے بعد مل گئے ،اس طرح ہم محترم محمدافتخارصدیقی اور مولانا حبيب الرحمن عالياوى کی معیت میں ان کے گھر گئے ،اہلیہ عیسائی مذہب پر تھیں،ہم نے سب سے پہلے ان کی باتیں سنیں جن سے اندازہ ہوا کہ وہ اسلام کو پسند کرتی ہیں اورشوہر کے قبول اسلام کے بعد اسلام کا مطالعہ بھی کیا لیکن ایک مسلمان کے غلط رویہ سے اسلام سے متنفر تھیں،انہوں نے کہا کہ :
“میں نے اسلام کی صداقت کو اسی وقت جان لیا تھا جبکہ میرے شوہر نے اسلام قبول کیا تهاکہمیںان کے اندر بہت بڑی تبدیلی دیکھ رہی تھی، پہلے بہت غصہ كرتے تھے اسلام قبول کرنے کے بعد نہایت متحمل اوربردبار بن گئے،معاملات بڑے اچھے ہوگئے ،اورہمارے بیچ نمونہ کی زندگی گذارنے لگے لیکن اس کے باوجود اب تک میں اسلام سے دور محض اس وجہ سے تھی کہ میرے والد کی زمین میرے ایک مسلم پڑوسی نے غصب کرلی تھی اور اپنے نام سرکاری کاغذات بنا لیے تھے، میں نادانی سے سمجھتی تھی کہ سارے مسلمان دھوکے باز اور فراڈ ہوتے ہیں،کبھی کبھی تو میں اپنے شوہر پر بھی ترس کھاتی تھی ، لیکن اللہ کی شان کہ گذشتہ رمضان میں اس کے دل میں غلطی کا احساس ہوا بالآخر میرے والد کے پاس آکر معافی مانگا اور گذارش کی کہ چلیں ہم وہ زمین آپ کے نام کردیتے ہیں،اس طرح وہ زمین میرے والد کی تحویل میں آگئی،اب مسلمانوں کے تئیں میرے والد کے ذهن میں جو بدظنی تھی جها ں اس میں کمی آئی وهيں میں بھی اسلام کی طرف راغب ہونے لگی،اور شوہر کے ساتھ کچھ روزے بھی رکھے،لیکن اب تك اسلام کی توفیق نہ مل سکی تھی….“
میں ان کی باتیں بغور سن رہا تھا ،جذبات میں ہلچل مچ رہى تھى، اور اس بات پر رونا آرہا تھا کہ آج ہمارے بعض مسلم بھائی کس طرح اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ میں نے متعدد مثالوں کے ذریعہ انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ اسلام کی آفاقیت اورمسلمانوں کے طرزعمل کے بیچ فرق کو سمجھیں، اس کے بعد اسلام کا تعارف کراتے ہوئے عیسائی عقیدے کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جائزہ پیش کیا، پھر ان کے چند سوالات تھے جن کے تشفی بخش جوابات دیئے گئے تو وہ قبول اسلام کے لیے مطمئن ہوگئیں،بالآخر اسی وقت ان کو کلمہ شہادت پڑھا دیاگیا ۔
قبول اسلام کے بعد ہم نے انہیں مبارکباد دی ، اور کچھ احکام بتاتے ہوئے عرض کیا کہ اب آپ کو پنجوقتہ  نماز یں پڑھنی ہے ،کہنے لگیں کہ ہاں بالکل اس کے لیے تیار ہوں ،البتہ فجر کی نماز کے لیے بیدار ہونا مشکل ہے ، ہم نے پوچھا کہ آپ کتنے بجے بیدار ہوتی ہیں ، کہنے لگیں: چھ بجے ،ہم نے کہا : اسی وقت فجر کی نماز ادا کرلیں، (کیونکہ نومسلموں کے سامنے احکام پیش کرنے میں تدریج کو ملحوظ رکھنا بیحد ضروری ہے)۔
اس مجلس میں ہم نے اب تک نومسلمہ کی زبانی اپنے شوہر کی بہت ساری خوبیاں سنیں،اس سے پہلے ہم نے خود اسماعیل بھائی کے دینی جذبات سن رکھے تھے ،اس لیے مناسب سمجھا کہ ان سے بھی گفتگو کرلی جائے،چنانچہ ہم نے موصوف کے قبول اسلام کا قصہ سنا اوراس سے متعلقہ باتیں کیں ، ذیل کے سطورمیں ہم ان سے ہوئی طویل گفتگو کا خلاصہ پیش کررہے ہیں :
سوال :سب سے پہلے اپنا تعارف کرائیں ؟
جواب :میرا پیدائشی نام جولین فرانسس داس ہے ، البتہ قبول اسلام کے بعد میں نے ’اسماعیل‘ نام اختیار کیا ہے  ، جنوب ہند بنگلور کے ایک رومن کیتھولک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوا، اسی مذہب پر رہا ، یہاں تک کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد برسرروزگار ہوا تو بنگلور چرچ آف کرائسٹ جو بنگلور میں عیسائیوں کی نہایت سرگرم تنظیم ہے ، انہوں نے مجھے دعوت دی ،میں ان کے پاس جانے لگا ، پادری اپنی نگرانی میں میری تربیت کرنے لگا یہاں تک کہ ایک روز میں ان کے ہم مذہب ہوگیا اور ان کی دعوت کو فروغ دینے میں پورى تندہى سے لگ گيا۔
سوال :آپ کس پیشے سے منسلک ہیں ؟
جواب: میں پیشے کے اعتبار سے درزی ہوں،فی الحال ایک انٹرنیشنل کمپنی میں سلائی کی نگرانی پر مامور ہوں۔ کمپنی کی طرف سے مختلف ممالک اور شہروں کا دورہ کرنے کا موقع ملا ،ان دنوں پٹنہ میں رہنا ہو رہا ہے ۔
 سوال : آپ کے قبول اسلام کا سفر کیسے شروع ہوا ؟
جواب :یہ کوئی 1992ء کی با ت ہے ، جس دکان میں کام کرتا تھا وہ ایک مسلمان کی دکان تھی ، اس نے ایک روز مجھے احمد دیدات صاحب کی کتاب لاکر دی، جس میں عیسائیت اوراسلام کا موازنہ کرکے اسلام کی حقانیت ثابت کی گئی تھی ،میں نے جب کتاب پڑھى تو یہ پہلا موقع تھا جب اسلام سے متاثر ہوا اوراپنے مذہب کی بابت شک میں پڑگیا، کتاب کى پشت پر مطبوعات کی فہرست دیکھی جس میں ساوتھ افریقہ کے دعوتی مرکز کا پتہ دیا گیا تھا ، میں نے ان کو خط لکھاکہ مجھے فلاں فلاں کتابیں چاہئیں ،اللہ پاک ان کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ فوراً انہوں نے مجھے مطلوبہ کتابیں ارسال کردیں ، میں نے اسلام کا مطالعہ شروع کردیا،اب میں چرچ جاتا تو پاسٹر سے مختلف طرح کے سوالات کرتا،شاید وہ مجھے بھانپ گیا تھا کہ میں اس کے عقیدے پر کاری ضرب لگا رہا ہوں،وہ مجھے تجسس کی نگاہ سے دیکھنے لگا،بالآخر چرچ سے مجھے برخواست کردیا گیا۔
1995ء میں میری کمپنی نے مجھے دہلی منتقل کیا ،ایک روز جامع مسجد جانے کا اتفاق ہوا تو میں نے وہاں سے نماز کی ایک کتاب خریدی اور نماز کی دعائیں وغیرہ سیکھنا شروع کردیا،اب تک میں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا ،لیکن نماز میں مجھے عجیب طرح کا سکون ملتا تھا اس لیے نماز شروع کردی ، ماہ رمضان آیا تو روزے بھی ركھے ۔
اسی اثناء کمپنی نے مجھے انڈونیشیا منتقل کردیا، میں احمد دیدات صاحب کا عقیدت مند بن گیا تھا،انٹرنیٹ پر ان کا پروگرام پابندی سے دیکھتا۔اسی طرح قرآن کی تلاوت بہت شوق سے سنتا تھا ، ایک دن قاری صداقت علی کی آواز میں قرآن کی تلاوت مع ترجمہ سن رہا تھا ، تلاوت سورہ رحمن کی تھی ،سورہ کا پیغام میرے دل کو چھو گیا،مجھے سورہ بہت پسند آئی ،اوراسے میں نے یاد کرنا شروع کردیا،روزانہ دو آیتیں یاد کرتا بالآخر چند ہفتوں میں پوری سورہ یاد کرلی ۔
سوال :قرآن سے آپ کی دلچسپی کی وجہ ؟
جواب:قرآن سے میری دلچسپی کی واقعی اہم وجہ ہے ، مجھے غصہ بہت آتا تھا ،یہاں تک کہ میں اپنی بیوی پر بھی بہت غصہ كرتا تھا،لیکن ایک روز قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہوئے جب اس آیت تک پہنچا کہ جنت کے حقدار وہ لوگ بنیں گے جو چند صفات سے متصف ہیں ان میں سے ایک صفت جو اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں اورلوگوں کے ساتھ عفو ودرگذر سے کام لیتے ہیں، (سورہ آل عمران ۴۳۱) یہ آیت میرے لیے نیک فال ثابت ہوئی، میں اسکے بعد خود کو تربیت دینے لگا کہ غصہ نہیں کروں گا،یہاں تک کہ میں نے اپنے آپ پر کنٹرول کرلیا،(بیوی جو شریکِ گفتگو تھی تائید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کے اندر یہ بہت بڑی تبدیلی دیکھی کہ بالکل نرم مزاج بن گئے ، اب ان کو کچھ بھی بول دو غصہ نہیں آتا )۔
 سوال :ہاں! تو ابھی آپ اپنے قبول اسلام سے پہلے کا قصہ سنا رہے تھے کہ آپ نے سورہ رحمن کو اسلام قبول کرنے سے پہلے ہی یادکرلیاتھا ۔ پھرقبول اسلام کی سعادت کیسے نصیب ہوئی ؟
جواب: جی ہاں! ایک روز کی بات ہے ،میرے ایک انڈونیشین دوست نے مجھ سے کہا کہ تم کو میں اسلام سے بہت قریب دیکھتا ہوں، تم اسلام قبول کیوں نہیں کر لیتے ، میں نے اس سے سارا ماجرا سنا دیا اورکہا کہ واقعی مجھے اسلام پسند ہے لیکن ایک بہت بڑی رکاوٹ میرے سامنے یہ ہے کہ میں مسلمانوں کو اسلام سے بہت دور دیکھتا ہوں ، میری پیدائش کلکتہ میں ہوئی ،جس علاقہ میں رہتا تھا وہاں کی اکثریت مسلمانوں کی تھی ،ان کا سارا عمل اسلام کے خلاف تھا ،میں قرآن میں کچھ پڑھتا ہوں اور مسلمان کچھ اور نظر آتے ہیں، آخر میں ویسا مسلمان کیوں بنوں ؟۔
انڈونیشا کا میرا دوست دیندار تھا ،وہ مجھ سے بہت قریب ہوگیا،اپنے گھر لے جاتا اور اسلام کی بہت ساری معلومات فراہم کرتا، اس نے مجھے ایک روز سمجھایاکہ تم مسلمانوں کے مذہب کو قبول نہیں نا کر رہے ہو ،اللہ کے دین کو اپنا رہے ہو….پھر سارے مسلمان ویسے نہیں ہوتے ، تمہیں چاہیے کہ اگر اسلام سمجھ میں آگیا ہے تو کلمہ شہادت کی گواہی دے کر مسلمان بن جاؤ ،بالآخر اس کی ترغیب پر میں نے اسلام قبول کرلیا۔ اللہ اسے جزائے خیر عطا فرمائے کہ اس نے میری آنکھیں کھول دیں۔
سوال: قبول اسلام کو کتنے سال ہوگئے ؟
جواب : مکمل چار سال ہوگئے ۔
سوال :اسلام میں آپ کو سب سے زیادہ کونسی چیز پسند ہے ؟
جواب: اسلام میں سب سے زیادہ مجھے قرآن پسند ہے ، میں نے قرآن کو ترجمہ کے ساتھ ایک مرتبہ ختم کیا ہے ،اور دوسری چیز جو مجھے بہت زیادہ پسند ہے وہ اسلام کا طریقہ عبادت یعنی نماز ہے ،ہر مسلمان کے لیے پنجوقتہ نمازوں کی پابندی ضروری ہے جس کی ادائیگی کا طریقہ بھی منطقی اور معقول ہے۔ جب کہ عیسائی مذہب میں ہفتہ میں ایک دن چرچ جانا ہوتا ہے اور وہ بھی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے لیے ۔
 سوال: آپ نے اپنے گھر والوں کو اسلام کی طرف دعو ت دینے میں کیا رول ادا کیا ؟
جواب : شروع سے میری پوری کوشش رہی کہ گھر والے اسلام قبول کرلیں ،تاہم حکمت کے پیش نظر میں نے شروع میں اہلیہ کو بتانا مناسب نہیں سمجھا ، جب بعد میں ان کو اطلاع مل گئی تو انہیں دعوت دینا شروع کردیا، چونکہ ان کے ذہن میں مسلمانوں کے تئیں تحفظات تھے جس کی وجہ سے لیت ولعل سے کام لیتی رہی، تاہم میں مایوس نہیں تھا، تہجد کی نماز میں اللہ پاک سے ان کی ہدایت کے لیے دعا کرتا تھا ۔ الحمدللہ آج ان کو ہدایت مل گئی ۔
سوال :کیا آپ تہجد کا اہتمام بھی کرتے ہیں ؟
جواب : اللہ کا شکر ہے کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا ہے مجھے نمازتہجد کی توفیق مل رہی ہے ۔اذان سے پہلے بیدار ہونا میرا معمول بن چکا ہے ۔ الحمدللہ
سوال : آپ کے کتنے بچے ہیں ؟
جواب : ایک بیٹا اورایک بیٹی ہے ،بیٹا گیارہ سال کا اور بیٹی نو سال کی ہے ۔ دونوں بنگلور میں پڑھتے ہیں ۔
سوال : آپ دعوت کے لیے بھی وقت نکالتے ہیں ؟
جواب: میں ہر روز نماز فجر کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہوں، روزانہ بذریعہ ای میل مجھے صحیح بخاری سے منتخب احادیث موصول ہوتی ہیں تلاوت قرآن کے معاً بعد انہیں پڑھتا ہوں، اس طرح اب تک میں نے چارسو احادیث یاد کرلی ہیں، اس کے بعد مستقل آدھا گھنٹہ عیسائی دوستوں کو تعارف اسلام پر مشتمل مواد ارسال کرنے اوران کے سوالات کے جوابات دینے میں لگاتا ہوں۔
سوال : آپ ایک عرصہ سے مسلمان ہیں جبکہ آپ کی اہلیہ نے آج اسلام قبول کیا ہے ،اوردونوں ایک ساتھ رہ رہے ہیں،اس مدت میں آپ کی اہلیہ کبھی آپ کی ادا اورآپ کے معمول سے ناراض نہیں ہوئیں ؟
جواب : جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ شروع میں اہلیہ کو اپنے اسلام کی اطلاع نہیں دی تھی ،جب ان کو میرے اسلام کا پتہ چلا تو کوئی خاص ناراضگی ظاہر نہیں ہوئی کہ میرے اندر غيرمعمولى نرمى آچکى تھى ،اوران کے ساتھ معاملہ میں پہلے سے بہتر بن گیا تھا ۔
سوال : (اسماعیل بھائی کی اہلیہ جو شریک گفتگو تھیں ان سے سوال ) آپ بتائیں کہ جب آپ کو اسماعیل بھائی کے قبول اسلام کی اطلاع ملی تو آپ کو کیسا لگا؟
جواب :مجھے رنج اس بات سے نہیں ہوا کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا ہے بلکہ رنج اس بات پر ہوا کہ انہوں نے مجھے بتائے بغیر یہ فیصلہ کرلیا۔ اس پرطرہ یہ کہ جب کبھی ان کے ہمراہ کہیں جانا ہوتا ،ہمارے بیچ سے نکل جاتے اورکچھ دیر کے بعد لوٹتے،جب تک ہم ان کے لیے پریشان ہو جاتے تھے ، پوچھنے پر تشفى بخش جواب نہیں مل پاتا، یہ طریقہ مجھے بہت خراب لگا، بعدمیں پتہ چلا کہ ان کا ہمارے بیچ سے نکلنا نمازکے لیے ہوتا تھا۔
اسی طرح اسلام قبول کرنے کے بعد سونے سے قبل قرآن سننے کی ان کی عاد ت سی بن گئی تھی ، کمپیوٹر میں ڈاون لوڈ تلاوت کھول دیتے اور سنتے رہتے ، یہاںتک کہ نیند کی آغوش میں چلے جاتے ، اس سے میں پریشان ہوجاتی تھی بلکہ بسا اوقات نیند نہ آنے کی وجہ سے باہر نکل جاتی  تھی ،اب تک ان کا یہی معمول ہے ،البتہ اب اس سے مانوس ہوچکی ہوں،اور مجھے بھی قرآن سننا اچھا لگنے لگا ہے ۔
 سوال :مسلمان بھائیوں کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے ؟
جواب: سب سے پہلے تو ہم یہ عرض کریں گے کہ صحیح اسلام کو اپنائیں ،اپنا عقیدہ ٹھیک کریں ،اس کے بعد پنجوقتہ نمازوں کی پابندی کریں ،مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ مسجد قریب ہونے کے باوجود لوگ نمازکے لیے حاضرنہیں ہوتے ،اور اپنے گھروں میں بیٹھے ٹیلیویژن کے اسکرین پر فلمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
 ہمیں چاہیے کہ مثالی مسلمان بنیں جیسے صحابہ کرام کی درخشاں اور مثالی زندگی کتابوں میں پڑھنے کو ملتی ہے ۔ جس طرح انہوں نے اسلام کی راہ میں قربانیاں پیش کی تھیں اسی طرح ہمیں بھی اسلام کے فروغ کے لیے قربانیاں پیش کرنی چاہئیں۔ عیسائیوں کو دیکھیں کہ دعوت کے میدان میں کس قدر چست ہیں ،ڈیوٹی سے فارغ ہونے کے بعد بائیبل ہاتھ میں دبائے عوامی مقامات پر پہنچ جاتے ہیں اور جب موقع ملا،بائبل پڑھ کر عیسائیت کی تبلیغ شروع کردیتے ہیں۔دعوت کے کام میں پلاننگ ہمیں ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے ۔
محترم قارئین!آپ نے اسماعیل بھائی اوران کی اہلیہ کے قبول اسلام کا قصہ پڑھا اوران کے جذبات سے واقف ہوئے ،اس میں ہم سب کے لیے درس ہے ،عبرت ہے، نصیحت ہے کہ ہم خودکو اسلام کا نمونہ بنائیں اورغیرمسلموں کے لیے نمونہ بنیں،کیاپتہ کہ شاید ہم کسی شخص کے قبول اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہوں۔


Saturday 6 April 2013

22 لاکھ مربع میل کا عادل حکمراں

0 comments

22 لاکھ مربع میل کا عادل حکمراں

حافظ حفیظ الرحمن (کویت)
مغرب کے نام نہاد مفکرین نے مقدونیہ کے الیگزینڈرکو سکندراعظم کا لقب دیا ہے جو تاریخ کے ساتھ ناانصافی ہے ، اگر تعصب کا عینک ہٹا کرتاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہم یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوںگے کہ دنیا کا سکندراعظم عمربن خطاب رضى الله عنه  ہے۔ الیگزینڈربادشاہ کا بیٹا تھا،دنیا کے بہترین لوگوں نے اس کوگھوڑسواری سکھائی ،جب وہ بیس سال کا ہوا تو اس کو تخت وتاج پیش کیا گیا ۔ 23سال کی عمر میں مقدونیہ سے نکلا ۔ ایران، شام، یونان، ترکی اورمصر کو فتح کرتے ہوئے ہندوستان پہنچا ۔323قبل مسیح 33سال کی عمرمیں انتقال کرگیا ۔ اس کی فتوحات کا عرصہ دس سال پر محیط ہے ،ان دس سالوںمیں اس نے 17لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا ،ان فتوحات میںاس کو آرگنائزڈآرمی کی خدمات میسرتھیں۔
جبکہ عمرفاروق رضى الله عنه نے دس سالوںمیں 22لاکھ مربع میل کا علاقہ بغیرآرگنائزڈآرمی کے فتح کیا ۔ آپ نے کسی تیرانداز سے تیراندازی نہیں سیکھی۔ آپ کی ان فتوحات میں اس وقت کی دو سپرپاورطاقتیںروم اورایران بھی ہیں ۔ آج سیٹلائٹ میزائل اورآبدوزوںکے دور میں دنیا کے کسی حکمراں کے پاس اتنی بڑی سلطنت نہیں ہے ۔
اس نے صرف فتوحات کیںاور مفتوح علاقوںکوکوئی نظام نہیں دیا بلکہ فتوحات کے دوران بے شمار جرنیل قتل کروائے ، بے شمارجرنیلوںاورنوجوانوںنے اس کا ساتھ چھوڑدیا ۔ جبکہ حضرت عمرفاروق رضى الله عنه کے کسی ساتھی نے ان کی حکم عدولی نہیں کی وہ ایسے عظیم مدبرومنتظم تھے کہ عین میدان جنگ میں اسلام کے مایہ ناز کمانڈرسیدناخالدبن ولیدص کومعزول کردیا اورکسی کو یہ حکم ٹالنے اور بغاوت کرنے کی جرأت نہ ہوئی ۔
 الیگزینڈرنے جو سلطنت بنائی وہ اس کے مرنے کے پانچ سال بعد اس کے نظریے سے نکل گئی اورآج اس کا تاریخ کی کتابوںمیں صرف نام ملتا ہے ۔ حضرت عمرفاروق رضى الله عنه نے جن علاقوں کوفتح کیا وہاں آج بھی سیدنا عمرفاروق کا نظریہ موجود ہے ،دن رات کے پانچ اوقات میںمسجد کے میناروں سے اس نظریے کا اعلان ہوتا ہے ۔ عمرفاروق رضى الله عنه نے دنیا کوایسے سسٹم دئیے جو آج تک دنیا میں موجود ہے ۔ آپ کے عہد میں باجماعت نماز تراویح کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا،آپ کے دورمیں شراب نوشی کی سزا 80 کوڑے مقررہوئی ، سن ہجری کا اجراءکیا، جیل کاتصور دیا، مؤذنوںکی تنخواہیں مقررکیں،مسجدوںمیں روشنی کابندوبست کروایا،باوردی پولس، فوج اورچھاؤ نیوں کاقیام عمل میں لایا، آپ نے دنیا میں پہلی بار دودھ پیتے بچوں، معذوروں، بیواو ں اور بے آسرا لوگوںکے وظائف مقررکئے ۔ آپ نے دنیامیں پہلی بار حکمرانوں، گورنروں، سرکاری عہدے داروںکے اثاثے ڈکلیر کرنے کا تصور دیا ۔ آپ جب کسی کو سرکاری عہدے پر فائز کرتے تھے تواس کے اثاثوںکا تخمینہ لگواکر اپنے پاس رکھ لیتے اوراگرعرصہ ¿ امارت کے دوران عہدہ دار کے اثاثوں میں اضافہ ہوتا تواس کی تحقیق کرتے ۔ جب آپ کسی کوگورنر بناتے تو اس کونصیحت کرتے کہ ترکی گھوڑے پرمت بیٹھنا ، باریک کپڑا مت پہننا،چھناہواآٹا مت کھانا، دروازے پر دربان مت رکھنا ۔
آپ کی مہر پر لکھا ہوا تھا : ”عمر !نصیحت کے لیے موت ہی کافی ہے “۔
یہ وہ سسٹم ہے جس کو دنیا میںکوئی دوسرا شخص متعارف نہ کروا سکا، دنیا کے 245ممالک میںیہ نظام کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے ۔ان حقائق کی روشنی میں زبان وقلم بے اختیار گواہی دیتا ہے کہ دنیا کا سکندر اعظم عمرفاروق رضى الله عنه ہیں۔
آپ کے عدل کی مثال دنیا کے کسی دوسرے حکمراں میں نہیں ملتی ، آپ کے عدل کی یہ حالت تھی کہ جب آپ کا انتقال ہوا تو آپ کی سلطنت کے دوردراز علاقہ کا ایک چرواہا بھاگتا ہوا آیا اورچینخ کربولا: لوگو!حضرت عمرفاروق کا انتقال ہوگیا ہے ۔ لوگوںنے پوچھا : تم مدینہ سے ہزاروں میل دور جنگل میں رہتے ہو‘تمہیں کس نے خبردی ؟ چرواہا بولا: جب تک عمر فاروق رضى الله عنه زندہ تھے میری بھیڑیں جنگل میں بے خوف چرتی پھرتی تھیں ،کوئی درندہ ان کی طرف آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھتا تھا لیکن آج پہلی بار ایک بھیڑیا میری بھیڑ کا بچہ اٹھاکر لے گیا ہے ۔ میں نے بھیڑئیے کی جرا ¿ت سے جان لیا کہ آج عمررضى الله عنه دنیا میں نہیں ہیں ۔
مدینہ کے بازارمیں گشت کے دوران ایک موٹے تازے اونٹ پر نظر پڑی ، پوچھا: یہ کس کا اونٹ ہے ؟ بتایا کہ یہ آپ کے صاحبزادے عبداللہ رضى الله عنه  کا ہے ۔ آپ نے گرجدار آواز میں کہا کہ عبداللہ کو فوراً میرے پاس بلاؤ،  جب سیدناعبداللہ رضى الله عنه آئے توپوچھا: عبداللہ! یہ اونٹ تمہارے ہاتھ کیسے لگا؟ عرض کیا : اباجان !یہ اونٹ بڑا کمزورتھا اورمیں نے اس کو سستے داموں خرید کرچراگاہ میںبھیج دیا تاکہ یہ موٹا تازہ ہوجائے اور میں اس کو بیچ کر نفع حاصل کروں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: تمہاراخیال ہوگا کہ لوگ اس کو چراگاہ میں دیکھ کر کہیں گے : یہ امیر المومنین کے بیٹے کا اونٹ ہے، اسے خوب چرنے دو، اس کو پانی پلاو ¿ ، اس کی خدمت کرو۔ سنو! اس کو بیچ کر اصل رقم لے لو اور منافع بیت المال میںجمع کرادو۔ سیدنا عبداللہ رضى الله عنه نے سرتسلیم خم کردیا ۔
امیرالمو منین سیدنا عمر فاروق رضى الله عنه  کے دربار میں ایک نوجوان روتے ہوئے داخل ہوا ۔ آپ نے رونے کی وجہ پوچھی :اس نے روتے روتے عرض کیا کہ میں مصر سے آیا ہوں، وہاں کے گورنر کے بیٹے سے دوڑ کے مقابلے میں جیت گیا تو محمد بن عمروبن عاص  رضى الله عنه نے میری کمر پر کوڑے برسائے جس سے میری کمر چھلنی ہوگئی ۔ وہ کوڑے مارتا رہا اور کہتا رہا کہ تمہاری یہ جرأت کہ سرداروںکی اولاد سے آگے بڑھو۔ آپ نے یہ داستان سننے کے بعد مصر کے گورنر اور ان کے بیٹے کو بلابھیجا، جب وہ آگئے توکہا: یہ ہیں سردار کے بیٹے ، پھرمصری کو کوڑا دیا اور کہا کہ اس کی پیٹھ پرزورسے کوڑے ماروتاکہ اس کو پتہ چلے کہ سرداروںکے بیٹوںکی بے اعتدالیوںپر ان کا کیا حشر ہوتا ہے ۔ اس نوجوان نے جی بھر کر بدلہ لیا ۔ پھر آپ نے فاتح مصرسیدناعمروبن عاصؓ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
” اے عمرو! تونے لوگوں کو کب سے غلام بنایا ہے جبکہ ان کی ماو ¿ںنے ان کو آزاد جنم دیا ہے ۔“
یہ ہے وہ بے لاگ عدل جس میں قوموں کی عزت اورترقی کا راز پنہاں ہے ۔
آج اسلام پر شبخون مارنے والے یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ بگڑتی ہوئی صورتحال کا ذمہ دار اسلام ہے ، جبکہ اسلام امن وامان کا داعی ہے، عدل ومساوات کاپیکر ہے اورعروج وترقی اس کی خمیر میں داخل ہے جس پر تاریخی حقائق گواہ ہیں۔ آج اسلام غریب الدیار ہے ،آج اسلام کو عمرکی ضرورت ہے ،اسلام کے غلبہ کے لیے کردار کی اعلی مثالیں درکار ہیں ،آج مسلمان اپنے نفس کے غلام بن کر رہ گئے ہیں اوراپنے رب کو بھول گئے ہیں ،نجات کا واحد راستہ نفس کی غلامی سے نکل کر رب العزت کی رضا مطلوب ومقصود ہے : وَلِلَّہِ العِزَّةُ وَلِرَسُولِہِ وَلِلمُومِنِینَ (المنافقون 8) ”سنو! عزت توصرف اللہ تعالی اوراس کے رسول اورایمان والوںکے لیے ہے “۔