غزوہ حمراء الاسد
سیرت النبی (ص) : الرحیق المختوم
غزوہ ذات حمراء الا سد۔۔۔صفحہ نمبر 386
ادھر رسول اللہ ﷺ نے پوری رات جنگ سے پیدا شدہ صورت حال پر غور کرتےہوئے گذاری ۔آپ ﷺ کا اندیشہ تھا کہ مشرکین نے سوچا کہ میدان جنگ میں اپنا پلہ بھاری رہتے ہوئے بھی ہم نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تو انہیں یقیناً ندامت ہو گی اور وہ راستے سے پلت کر مدینے پر دوبارہ حملہ کریں گے۔ اس لئے آپ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ بہرحال ان کے لشکر کا تعاقب کیا جانا چاہیے۔۔چنانچہ اہل سیر کا بیان ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے معرکہ احد کے دوسرے دن یعنی یک شنبہ 8 شوال سن 3 ھ کو علی الصباح اعلان فرمایا کہ دشمن کے مقابلے کے لئے چلنا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی اعلان فرمایا کہ ہمارے ساتھ صرف وہی آدمی چل سکتا ہے جو معرکہ احدمیں موجود تھا ۔تاہم عبد اللہ بن ابی نے اجازت چاہی کہ آپ ﷺ کا ہمرکاب ہو مگر آپ ﷺ نے اجازت نہ دی ۔ ادھر جتنے مسلمانان تھےاگر چہ زخموں سے چور غم سے نڈھال اور اندیشہ و خوف سے دو چار تھے لیکن سب نے بلا تردد سر اطاعت خم کردیا ۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی اجازت چاہی جو جنگ احد میں شریک نہ تھے ۔ حاضر خدمت ہوکر عرض پرداز ہوئے ۔۔۔ یار سول اللہ ﷺ میں چاہتا ہوں کہ آپ ﷺ جس کسی جنگ میں تشریف لے جائیں میں بھی حاضر خدمت رہوں اور چونکہ (اس جنگ میں) میرےوالد نے مجھے اپنی بچیوں کی دیکھ بھال کے لئے گھر پر روک دیا تھا لہذا آپﷺ مجھے اجازت دے دیں کہ میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ چلوں اس پر آپ ﷺ نے انہیں اجازت دے دی پروگرام کے مطابق رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کو ہمراہ لےکر روانہ ہوئے اور مدینے سے آٹھ میل دور حمراء الا سد پہنچ کر خیمہ زن ہو ئے۔۔اثناء قیام میں معبد بن ابی معبد خزاعی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوا ۔۔ اور کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے شرک ہی پر قائم تھا لیکن رسو ل اللہ ﷺ کا خیر خواہ تھا۔کیونکہ خزاعہ اور بنو ہاشم کے در میان حلف( یعنی دوستی و تعاون کا عہد ) تھا بہر کیف اس نے کہا اے محمدﷺ۔۔۔! آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کے رفقاء کو جوزک پہنچی ہے وہ واللہ ہم پر سخت گراں گزری ہے ہماری آرزو تھی کہ اللہ آپ ﷺ کو بعافیت رکھتا ۔۔ اس اظہار ہمدردی پر رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ ابو سفیان کے پاس جائے اور اس کی حوصلہ شکنی کرے۔ادھر رسو ل اللہ ﷺ نے جو اندیشہ محسوس کیا تھا کہ مشرکین مدینے کی طرف پلٹنے کی بات سوچیں گے وہ بالکل برحق تھا ۔ چنانچہ مشرکین نے مدینے سے 36 میل دور مقام روحا پر پہنچ کر جب پڑاؤ ڈالا تو آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کی کہنے لگے تم لو گوں نے کچھ نہیں کیا ۔ان کی شوکت و قوت توڑ کر ان کو یوں ہی چھوڑ دیا حالا نکہ ابھی ان کے اتنے سر باقی ہیں کہ وہ تمہارے لئے پھر درد سر بن سکتے ہیں لہذا واپس چلو اور انہیں جڑ سے صاف کردو۔۔لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سطحی راۓ تھی جو ان لوگون کی طرف سے پیش کی گئی تھی جنہیں فریقین کی قوت اور ان کے حوصلوں کا صحیح اندازہ نہ تھا اسی لئے ایک ذمہ دار افسر صفوان بن امیہ نے اس رائے کی مخالفت کی اور کہا لوگو۔۔! ایسانہ کرو ۔مجھے خطرہ ہے کہ جو ( مسلمان غزوہ احد ) نہیں آئے تھے وہ بھی اب تمہارے خلاف جمع ہو جائیں گے لہذا اس حالت میں واپس چلے چلو کہ فتح تمہاری ہے ورنہ مجھے خطرہ ہے کہ مدینے پر پھر چڑھائی کر وگے تو گردش میں پڑ جاؤ گے لیکن بھاری اکثریت نے یہ رائے قبول نہ کی اور فیصلہ کیا کہ مدینے واپس چلیں ۔لیکن ابھی پڑاؤ چھوڑ کر ابو سفیان اور اس کے فوجی ہلے بھی نہ تھے کہ معبد بن ابی معبد خزاعی پہنچ گیا ۔ابو سفیان کو معلوم نہ تھا کہ یہ مسلمان ہو گیا ہے اس نے پوچھا معبد پیچھے کی کیا خبر ہے؟ معبد نے ۔۔۔پروپیگنڈے کی سخت اعصابی حملے کرتے ہوئے کہا محمد ﷺ۔۔۔اپنے ساتھیوں کو لے کر تمہارے تعاقب میں نکل چکے ہیں ۔ان کی جمعیۃ اتنی بڑی ہے کہ میں نے ویسی جمعیۃ کبھی دیکھی ہی نہیں ۔۔سارے لوگ تمہارے خلاف غصے سے کباب ہوئے جارہے ہیں احد میں پیچھے رہ جانے والے بھی آگئے ہیں وہ جو کچھ ضائع کر چکے اس پر سخت نادم ہیں اور تمہارے خلاف اس قدر بھڑکے ہوئے ہیں کہ میں نے اس کی مثال دیکھی ہی نہیں ۔۔ابو سفیان نے کہا: ارے بھائی یہ کہا کہہ رہے ہو ۔۔؟ معبد نے کہا: واللہ میرا خیال ہے کہ تم کوچ کرنے سے پہلے پہلے گھوڑوں کی پیشانیاں دیکھ لو گےیا لشکر کا ہر اول دستہ اس ٹیلے کے پیچھے سے نمودار ہو جائے گا۔ ابو سفیان نے کہا اللہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ان پر پلٹ کر پھر حملہ کریں اور ان کی جڑ کاٹ دیں معبد نے کہا: ایسا نہ کرنا میں تمہاری خیر خواہی کی بات کر رہا ہوں یہ باتیں سن کر مکی لشکر کے حوصلے ٹو ٹ گئے ان پر گھبراہٹ اور رعب طاری ہو گیا اور انہیں اسی میں عافیت نظر آئی کہ مکے کی جانب سے اپنی واپسی جاری رکھیں البتہ ابو سفیان نے اسلامی لشکر کے تعاقب سے باز رکھنے اور اس طرح سے بچنے کے لئے پرو پیگنڈے کا ایک جوابی اعصابی حملہ کیا جس کی صورت یہ ہوئی کہ ابو سفیان کے پاس سے قبیلہ عبد القیس کا ایک قافلہ گذرا ۔ابو سفیان نے کہا : کیا آپ لو گ میرا یہ پیغام محمد ﷺ کو پہنچا دیں گے۔؟ میرا وعدہ ہے کہ اس کے بدلے جب آپ لوگ مکہ آئیں گے تو عکاظ کے بازار میں آپ لوگوں کو اتنی کشمش دوں گا جتنی آپ کی یہ اونٹنی اٹھا سکے گی۔ان لوگوں نے کہا: جی ہاں ۔ابو سفیان نے کہا: محمد ﷺ کو یہ خبر پہنچا دیں کہ ہم نے ان کی اوران کے رفقاء کی جڑ کاٹ دینے کے لئے دوبارہ پلٹ کر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس کے بعد جب یہ قافلہ حمراء الاسد میں رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے ابو سفیان کا پیغام کہہ سنایا اور کہا کہ لوگ تمہارے خلا ف جمع ہیں ان سے ڈرو مگر ان کی باتیں سن کر مسلمانوں کے ایمان میں اور اضافہ ہو گیا ۔ اور انہوں نے کہا حسبنا اللہ و نعم الوکیل ۔اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین کا رساز ہے ( اس ایمانی قوت کی بادولت( وہ لوگ اللہ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹے ۔انہیں کسی برائی نے نہ چھوا اور انہوں نے اللہ کی رضا مندی کی پیروی کی اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔
رسول اللہ ﷺ اتوار کے روز حمراء الا سد میں تشریف لے گئے تھے ۔ دو شنبہ ،منگل اور بدھ یعنی 9۔10،11۔شوال سن 3 ھجری تک مقیم رہے اس کے بعد مدینہ واپس آئے ۔ مدینہ واپسی سے پہلے ابوعزہ جمحی آپ ﷺ کی گرفت میں آ گیا۔ یہ وہی شخص ہے جسے بدر میں گرفتار کئے جانے کے بعد اس کے فقر اور لڑکیوں کی کثرت کے سبب اس شر ط پر بلا عوض چھوڑ دیا
دیا گیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے خلاف کسی سے تعاون نہیں کرے گا ۔لیکن اس شخص نے وعدہ خلافی اور عہد شکنی کی اور اپنے اشعار کے ذریعہ نبی ﷺ اور صحابہ کرام کے خلاف لوگو ں کے جذبات کو برانگیختہ کیا۔۔ جس کا ذکر پچھلے صفحات میں آ چکا ہے پھر مسلمان سے لڑنے کے لئے خود بھی جنگ احد میں آیا ۔جب یہ گرفتار کر کے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لایا گیا تو کہنے لگا : محمد ﷺ میری لغزش کو در گزر کر و۔مجھ پر احسان کر دو اور میری بچیوں کی خاطر مجھے چھوڑ دو ۔ میں عہد کرتاہو ں کہ اب دوبارہ ایسی حرکت نہیں کروں گا۔نبی ﷺ نے فرمایا : اب یہ نہیں ہو سکتا کہ تم مکے جاکر اپنے رخسار پر ہاتھ پھیرو اور کہو کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دو مرتبہ دھوکہ دیا ہے ۔مومن ایک سوراخ سے دومرتبہ ڈسا نہیں جاتا۔اس کے بعد حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ یا حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا اور انہوں نے اس کی گردن مار دی۔اسی طرح مکے کا ایک جاسوس بھی مارا گیا اس کا نام معاویہ بن مغیرہ بن ابی العاص تھا اور یہ عبد الملک بن مروان کا نانا تھا ۔یہ شخص اس طرح زد میں آیا کہ جب احد کے روز مشرکین واپس چلے گئے تو یہ اپنے چچیرے بھائی عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے ملنے آیا۔عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی ﷺ سے اس کے لئے امان طلب کی اور آپﷺ نے اس شرط پر امان دے دی کہ اگر وہ تین روز کے بعد پایا گیا تو قتل کر دیا جائے گا۔لیکن جب مدینہ اسلامی لشکر سے خالی ہو گیا تو یہ شخص قریش کی جاسوسی کےلئے تین دن سے زیادہ ٹھر گیا اور جب لشکر واپس آیا تو بھاگنے کی کوشش کی رسول اللہﷺ نے حضرت زیدبن حارثہ اور حضرت عماربن یاسر رضی اللہ تعالی عنہی اللہ تعالی عنہما کو حکم دیا اور انہوں نے اس شخص کا تعاقب کر کے اسے تہ و تیغ کر دیا۔۔( غزوہ احد اور غزوہ حمراء الاسد کی تفصیلات اب ہشام 2۔60 زاد المعاد2۔91تا 108 فتح الباری مع صحیح بخاری 7۔345تا 377 مختصر السیرۃ للشیخ عبد اللہ ص 242 تا 257 جمع کی گئی ہیں اور دوسرے مصادر کے حوالے متعلقہ مقامات ہی پر دے دیئے گئےہیں)
غزوہ حمراء الاسد کا ذکر اگرچہ ایک مستقل نام سے کیا جاتا ہے مگر یہ درحقیقت کوئی مستقل غزوہ نہ تھا بلکہ غزوہ احد ہی کا جزو و تتمہ اور اسی کے صفحات میں سے ایک صفحہ تھا۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔