YOUR INFO

Showing posts with label مسئلہ تراویح. Show all posts
Showing posts with label مسئلہ تراویح. Show all posts

Saturday, 13 July 2013

بیس رکعات تراویح میں مکہ کو دلیل بنانے

0 comments
بیس رکعات تراویح میں مکہ کو دلیل بنانے والے کیا مکہ کو حجت سمجھتے ہیں؟؟؟

۱۔ مکہ میں رکوع سے پہلے اور بعد میں رفع الیدین کیا جاتا ہے۔

۲۔ مکہ میں اذان سے قبل و بعد مروجّہ درود نہیں پڑھا جاتا۔

۳۔ مکہ میں تکبیرا کہری کہی جاتی ہے ۔

۴۔ مکہ میں ہر نماز کے بعد اجتماعی دعا نہیں کی جاتی۔

۵۔مکہ میں نمازیں اوّل وقت میں ادا کی جاتی ہیں لیکن احناف اس کی مخالفت کرتے ہیں۔

۶۔ مکہ میں خانہ کعبہ میں نمازِ جنازہ پڑھے جاتے ہیں جبکہ ۲۰ پڑھنے والے اس کے منکر ہیں۔

۷۔ مکہ میں نمازِ جنازہ میں ثناء نہیں پڑھی جاتی لیکن احناف نمازِ جنازہ میں ثناء پڑھتے ہیں۔

۸۔ مکہ میں نمازِ جنازہ میں ایک طرف سلام پھیرا جاتا ہے لیکن احناف ا س کے منکر ہیں۔

۹ ۔ مکہ میں جو نمازِ جنازہ پڑھی جاتی اس میں سورۃ فاتحہ پڑھی جاتی ہے لیکن احناف نمازِ جنازہ میں اس کی مخالفت کرتے ہوئے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتے۔

۱۰۔ مکہ میں نمازِ فجر سے قبل بھی ایک اذان کہی جاتی ہے بیس پڑھنے والے یہ اذان کیوں نہیں دیتے؟

۱۱۔مکہ میں نمازِ فجر اندھیرے میں ادا کی جاتی ہے جبکہ احناف اجالے میں فجر پڑھتے ہیں۔

۱۲۔ مکہ والے ایک رکعت وتر کے قائل ہیں جبکہ احناف اس کے منکر ہیں۔

۱۳ ۔مکہ میں عورتوں کو مساجد میں آنے کی اجازت ہے جبکہ احناف اپنی عورتوں کو اس سے منع کرتے ہیں۔

۱۴۔ مکہ میں نمازِ عید کےخطبہ سے قبل کوئی وعظ و نصیحت نہیں کی جاتی لیکن احناف اس کی مخالفت کرتے ہوئے خطبہ عید سے قبل وعظ و نصیحت کرتے ہیں۔

۱۵۔ مکہ میں نماز عید میں کل بارہ تکبیرات کہی جاتی ہیں لیکن مکہ کی بیس رکعت کو دلیل بنانے والے نماز عید میں صرف چھ تکبیرات پڑھتے ہیں۔

۱۶۔ مکہ میں عیدین میں مرد و عورت جماعت کے ساتھ عیدین پڑھتے ہیں لیکن احناف عورتوں کو جماعت میں حاضر آنے کی جازت نہیں دیتے۔

۱۷۔ مکہ میں روزہ کی نیّت زبان سے نہیں کی جاتی جبکہ احناف جو مکہ کو بیس رکعت میں دلیل بناتے ہیں وہ وبصوم غد نويت من شهر رمضان کی خود ساختہ نیّت کرتے ہیں۔

۱۸۔ کہ میں افطار صحیح وقت پر کیا جاتا ہے لیکن احناف اس کی مخالفت کرتے ہوئے احتیاطً کچھ منٹ دیر سے افطار کرتے ہیں۔



تراویح میں مخالفت:

۱۹۔ مکہ مین تراویح کے ساتھ تہجد الگ سے نہیں پڑھی جاتی جبکہ احناف کے نزدیک تراویح اور تہجد الگ الگ پڑھنی چاہیئے۔

۲۰۔ مکہ کی بیس تراویح میں پاوؤں سے پاؤں اور کندھے سے جندھا ملا کر ممقتدی کھڑے ہوتے ہیں۔

۲۱۔ مکہ کی بیس تراویح میں امام ہاتھ سینے پر یا کم از کم ناف سے اوپر بانھتے ہیں ناف کے نیچھ نہیں۔

۲۲۔ مکہ کی بیس تراویح میں امام کے پیھے فاتحہ پڑھی جاتی ہے احناف اس کے منکر ہیں۔

۲۳۔کہ کی بیس رکعت تراویح میں امام اور مقتدی دونوں بلند آواز سے آمین کہتے ہیں۔

۲۴۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں رفع الیدین کیا جاتا ہے۔

۲۵۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں وتر فصل کر کے پڑھا جاتا ہے یعنی دو رکعت پڑھ کر امام سلام پھیر دیتا ہے اس کے بعد ایک وتر الگ سے پڑھا جاتا ہے احناف اس کے منکر ہیں۔

۲۶۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں وترمیں قنوت سے قبل رفع الیدین نہیں کیا جاتا جبکہ احناف کا اس پر عمل ہے۔

۲۷۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں قنوت رکوع کے بعد پڑھی جاتی ہے جبکہ احناف رکوع سے پہلے پڑھتے ہیں۔

۲۸۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں قنوت میں ہاتھ اٹھا کر دعا کی جاتی ہے جبکہ احناف کا اس پر عمل نہیں۔

۲۸۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں قنوتِ نازلہ پڑھی جاتی ہے جبکہ احناف کا اس پر عمل نہیں۔

۳۰۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں ایک رات میں قرآن ختم نہیں کیا جاتا جبکہ احناف شبینہ میں ایک رات میں قرآن ختم کرتے ہیں۔

مکہ کی بیس رکعت تراویح کو حجت سمجھنے والے ان ۳۰ مسائل میں بھی مکہ کی پیروی کیوں نہیں کرتے ؟؟

یاد رہے ہم نے یہاں صرف ۳ہ مسائل نماز سے متعلق نقل کیئے ہیں جن میں احناف اہل مکہ کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ سینکڑوں مسائل موجود ہیں جن میں احناف کا اہل مکہ سے اختلاف ہے ،ہم نے اختصار کے پیشِ نظر ان کا تذکرہ نہیں کیا۔

Wednesday, 10 July 2013

عورت کے لیے با جماعت نماز ادا کرنے کا حکم

0 comments


عورت کے لیے با جماعت نماز ادا کرنے کا حکم
جمع و تدوین ذیشان اکرم رانا
ہمارے ہاں عورت کا مسجد میں جاکر نماز باجماعت اداکرنے کے بارے میں مختلف لوگوں میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں لہذا ان تمام آراء کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ان کے دلائل کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئے غیرجانبدرانہ موقف کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے لہذا درخواست یہ ہے کہ اس کوشش کو تقلیدی ذہن یا تعصب کی وجہ سے رد کرنے کی بجائے سوچ وبچار کی اگر زحمت کی جائے گی تو ان شاء اللہ فائدہ ہو گا۔

عورتوں کے لیے با جماعت نمازکی ادائیگی کے حوالے سے دو مسئلے سامنے آتے ہیں :
1- عورتوں کا مسجد میں با جماعت نماز کی ادائیگی کا حکم
2- عورتوں کا گھرمیں نمازکی ادائیگی کے لیے جماعت کا حکم
عورتوں کا مسجد میں با جماعت نماز کی ادائیگی کا حکم
عورتوں کاجامع مسجد میں با جماعت نماز کی ادائیگی کے لیے گھروں سے نکلنے کےبارے میں جائز ناجائزکاحکم لگانے سے پہلےفقہائے کرام کی رائے اور ان کے نقطۂِ نظر کا اجمالی خاکہ پیش خدمت ہے:
فقہائے کرام کی ایک جماعت عورت کی عمر کو مد نظر رکھتے ہوے یہ تفریق کرتی ہے کہ عورت بوڑھی عمر رسیدہ ہے یا جواں سال اور اگر بوڑھی ہےتوفقہاء کی ایک جماعت اسے با جماعت نمازکی ادائیگی کے لیے مسجد جانے کی اجازت دیتی ہے۔ اور اگر جوان ہے تو اسے جانے کی اجازت نہیں۔ بلکہ بعض فقہاء نے تو بوڑھی عورت کو بھی مسجد جانے کی اجازت نہیں دیتے۔اور فقہائے کرام کی ایک جماعت عورتوں کو مسجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کی حجاب اور آداب شریعت کو مد نظر رکھ کر نکلنے سے مشروط اجازت دیتے ہیں ۔
در اصل اس اختلاف کے پیچھے عورت کے گھر سے نکلنے سے پیدا ہونے والے مفاسد کا انسداداور کسی فتنہ کے جنم لینے سے پہلے حفظ ماتقدم کا جذبہ کارفرماہے۔
فقہائے کرام کے نقطۂِ نظرکے اجمال کی تفصیل درج ذیل ہے:
پہلاقول: فقہائے احناف جوان عورت کوکلی طور پرمسجد جانے سےبالاتفاق منع کرتے ہیں ۔لیکن اگرعورت بوڑھی ہے تو صاحبین کے نزدیک تمام نمازیں اور امام ابو حنیفہ ﷫کے نزدیک صرف نماز ظہر ،عصر اور جمعہ مسجدمیں ادا کرسکتی ہے ۔( )
دوسرا قول: فقہائے مالکیہ کہتے ہیں کہ بڑی عمرکی عورت جس میں مردوں کے لیےدلچسپی اور آرزو نہیں رہی وہ مسجد جا سکتی ہے، اگر مردوں کے لیے اس میں کوئی آرزو اور دلچسپی باقی ہے تو وہ وقتا فوقتا جاسکتی معمول نہیں بنا سکتی اور جوان عورت اگر زیب و زینت کا اظہارنہیں کرتی تو مسجد جاسکتی ہے لیکن اس کے لیے اولی یہ ہے کہ وہ گھر میں نماز پڑھے اور اگروہ زیب و زینت کا اظہار کرتی تو اس کے لیےمسجد جانا جائزنہیں۔( )
تيسرا قول: فقہائے شوافع کہتے ہیں کہ عورتوں پر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا فرض ہے نہ فرض کفایہ لیکن بوڑھی عورتوں کے لیے مردوں کی جماعت کے ساتھ مسجدمیں نماز ادا کرنا مستحب ہے اور نوجوان عورتوں کے لیے مکروہ ہے اور مزید اس کی تفصیل یوں بیان کرتے ہیں کہ عمررسیدہ اور ایسی عورتوں کے لیےمسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے جن کی شخصیت پر کشش نہ ہو کہ وہ مردوں کےلیےکسی میلان کا باعث بنیں ،لیکن اگر وہ کسی توجہ کا مرکز بنتی ہیں تو پھر ان کانماز کر لیے گھروں سے نکلنااور اس کو معمول بنا لینا مکروہ ہے ۔ ( )
بعض فقہاء عیدین کی نمازوں کے علاوہ بقیہ تمام نمازوں کے لیے نوجوان عورت کامسجد جانا مکروہ جانتے ہیں۔ ( )
چوتھا قول: اور فقہائے حنابلہ کے مشہور مذہب کے مطابق نوجوان عورت کے لیے مسجد میں با جماعت نماز پڑھنا مکروہ اور بوڑھی عورت کے لیے جائز ہے، ایک روایت کے مطابق بغیر کسی امتیاز اور تقسیم کے تمام عورتوں کے لیےمساجد میں با جماعت نماز پڑھنا مباح ہے ۔( )
عورتوں کا مسجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کے بارے میں فقہاء کا درجہ بالا نقظۂِ نظرسے ایک چیز قدرے مشترک ہے کہ اگر عورت بوڑھی ہے تو اس کے لیے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد جانا جائز ہے اور اگر وہ جوان ہے تو اس کے لیے مسجد جانا مکروہ ہے۔فقہاء نے جن اپنے مذکورہ موقف کو جن دلائل سے استدلال کیا ہے،درج ذیل ہیں:

1- عن ابن عُمَرَ رضي الله عنهما عن النبي صلي الله عليه وسلم قال إذا اسْتَأْذَنَكُمْ نِسَاؤُكُمْ بِاللَّيْلِ إلى الْمَسْجِدِ فَأْذَنُوا لَهُنَّ. ( )
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رسو ل اللہ ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا : جب تم سے تمہاری عورتیں رات کے وقت مسجد جانے کی اجازت مانگیں تو انھیں اجازت دے دو۔‘‘
2- عن أبي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ الله صلي الله عليه وسلم قال لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ الله مَسَاجِدَ الله وَلَكِنْ لِيَخْرُجْنَ وَهُنَّ تَفِلَاتٌ( )
’’حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺے فرمایا: اللہ کی لونڈیوں کو مسجدوں سے نہ روکو لیکن انہیں چاہیے کہ وہ خوشبو کے بغیر نکلیں۔‘‘
3- عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَتْ قَالَ لَنَا رَسُولُ الله -صلى الله عليه وسلم- « إِذَا شَهِدَتْ إِحْدَاكُنَّ الْمَسْجِدَ فَلاَ تَمَسَّ طِيبًا ( )
’’حضرت زینب زوجہ عبداللہ روایت کرتی ہیں کہ رسو ل اللہﷺنے ہم سےفرمایا: جب تم میں سے کوئی مسجدآنے کا ارادہ کرے تو وہ خوشبو نہ لگائے ۔‘‘
4- عن أبي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَصَابَتْ بَخُورًا فلا تَشْهَدْ مَعَنَا الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ ( )
’’حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺنے فرمایا کہ جو عورت خوشبو لگائے وہ ہمارے ساتھ عشاء کی نماز میں حاضر نہ ہو۔‘‘
5- عن بن عُمَرَ رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لَا تَمْنَعُوا نِسَاءَكُمْ الْمَسَاجِدَ وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ. ( )
’’حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺنے فرمایا : اپنی عورتوں کو مسجدوں میں سے نہ روکو اور ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں۔‘‘
6- عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ رضي الله عنها زَوْجَ النَّبِىِّ تَقُولُ لَوْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم رَأَى مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ الْمَسْجِدَ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِى إِسْرَائِيلَ.قَالَ فَقُلْتُ لِعَمْرَةَ أَنِسَاءُ بَنِى إِسْرَائِيلَ مُنِعْنَ الْمَسْجِدَ قَالَتْ نَعَمْ. ( )
’’عمرہ بنت عبد الرحمن سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت عائشہ سے سنا آپ فرماتی تھیں اگر رسو ل اللہ ﷺدیکھ لیتے جو عورتوں نے (زیب وزینت خوشبو اور زرق برق کپڑے )ایجاد کر لیے ہیں تو وہ ضرور ان کو مسجدوں سے منع کر دیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ راوی کہتے ہیں ۔میں نے عمرہ سے کہا کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو مسجدوں سے روک دیا گیا تھاتو انھوں کہا: ہاں۔‘‘
7- عن عَائِشَةَ رضي الله عنها عَنِ النبي صلي الله عليه وسلم قال لا تَمْنَعُوا إِمَاءَ الله مَسَاجِدَ الله وَلْيَخْرُجْنَ تَفِلاَتٍ قالت عَائِشَةُ : وَلَوْ رَأَى حَالَهُنَّ الْيَوْمَ مَنَعَهُنَّ( )
’’ام المومنین عائشہ نبی کریم ﷺسے بیان کرتی ہیں کہ آپؐ نے فرمایا : اللہ تعالی کی بندیوں کو مسجدوں میں جانے سے نہ روکو، اور انہیں بھی چاہیے کہ وہ بغیر خوشبو کے (گھروں سے) نکلیں، حضرت عائشہ فرماتی ہیں: اگر رسول اللہ ﷺآج ان کا حال دیکھتے تو انہیں (مسجدوں میں جانے سے) منع فرماتے۔‘‘
8- عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنه قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صلي الله عليه وسلم « لاَ تَمْنَعُوا النِّسَاءَ مِنَ الْخُرُوجِ إِلَى الْمَسَاجِدِ بِاللَّيْلِ ». فَقَالَ ابْنٌ لِعَبْدِ الله بْنِ عُمَرَ لاَ نَدَعُهُنَّ يَخْرُجْنَ فَيَتَّخِذْنَهُ دَغَلاً. قَالَ فَزَبَرَهُ ابْنُ عُمَرَ وَقَالَ أَقُولُ قَالَ رَسُولُ الله صلي الله عليه وسلم وَتَقُولُ لاَ نَدَعُهُنَّ. ( )
’’حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا : عورتوں کو رات کے وقت مسجدمیں جانے سے نہ روکو ۔ عبداللہ بن عمر کے بیٹے نے کہا کہ ہم ان کو نہیں چھوڑیں گے کہ وہ نکلیں اور کو فتنہ فساد پیدا کریں۔راوی کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمر نے ان کو ڈانٹ پلائی اور کہا کہ میں کہتا ہوں کہ رسو ل اللہ ﷺنے کہا اور تو کہتا ہے کہ ہم انھیں ضرور روکیں گے۔ ‘‘
درجہ بالا احاديث كو جمع اور تطبیق دی جائے تو مندرجہ ذیل نکات سامنے آتی ہیں
1- عورتوں کے اولیاء اور ذمہ دران کو حکما کہا گیاہے کہ جب خواتین سےکسی قسم کی خوشبو کی مہک محسوس نہ ہورہی تم انہیں مسجد جانے سے نہ روکویہاں تک کہ اگر وہ نمازعشاء کی ادائیگی کے لیے بھی جانا چاہیں تو تم انہیں منع نہ کرو۔
2- جہاں رسول اللہ ﷺنے خواتین کے ذمہ دران کو انہیں مسجد جانے سے منع کرنے سے روکا ہے وہاں خواتین کو بھی یہ ارشادکر دیا ہے (وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ)کہ ان کا گھروں میں نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے ۔
اسی طرح اگر ایک طرف خواتین کے ذمہ دران کو انہیں مسجد جانے سے منع کرنے سے روکا ہے تو دوسری طرف خواتین کو بھی مسجد جانے کے آداب کی ہدایت اورتعلیمات دےدی ہیں کہ اگروہ مسجد جانا چاہیں تو خوشبواستعمال نہ کریں،اور اگر وہ خوشبو سےمعطر ہیں تو مسجد جانے سے گریزکریں ،لیکن اگر خوشبو استعمال کر چکی ہوں اور مسجد بھی جانا چاہتی ہوں تو ان پر واجب ہے کہ وہ غسل جنابت کی طرح کا غسل کرکے مسجد جائیں ۔
رسول اللہ ﷺکی رحلت کے کچھ عرصہ بعد جب مختلف فتنوں نے جنم لیا تو ام المؤمنین عائشہ فرماتی ہیں کہ اگر آج رسول اللہﷺ ہوتے تو جن اسباب(زیب وزینت ، خوشبو کا استعمال اور کپڑوں کی نمائش وغیرہ) کی وجہ سے بنی اسرائیل کی عورتوں کو مساجد جانے سے منع کیا گیا تھا ان کی بنا پر ہماری عورتوں کو بھی مسجد جانے سےمنع فرما دیتے ۔اور شاید اسی وجہ سے حضرت بلال کا اپنے باپ حضرت عبد اللہ بن عمر سے تکرار ہو گیا، حضرت عبد اللہ بن عمر نے چونکہ رسول اللہﷺ سے براہ راست کسب فیض کیا تھا ، رسول اللہ ﷺنے اگر کوئی عورت مسجد جاناچاہے تو اسے روکنے سےمنع فرمایا لیکن کچھ عرصہ بعدجب مختلف فتنوں نے سر اٹھایا تو حضرت بلال بن عبد اللہ نے حلفا کہا کہ ہم انہیں ضرور روکیں گے۔
اور جہاں تک فتنہ و فساد کی علت کو بنیاد بناکر عورتوں کو مسجد جانے سے روکا جاتا ہے ، لیکن اس اصول کو حضرت علقمہ بن وائل کندی کی روایت (کہ جس میں ایک عورت نماز فجر ادا کرنے لیے مسجد نبوی جا رہی تھی کہ راستے میں ایک نے اس کے ساتھ زنا بالجبر کا ارتکاب کیا ) ( )یا اس کے علاوہ ذخیرہ حدیث میں سے کوئی ایسی روایت نہیں ملتی کہ آپؐ نے زنا بالجبر ہونے والی عورت یا اس کے علاوہ کسی دوسری عورت کو مسجدمیں نماز پڑھنے سے منع کیا ہو۔ جہاں آپؐ سے عورتوں کے گھر میں نماز پڑھنے کی فضلیت ثابت ہے وہاں صحابیات کا رسول اللہﷺ کے پیچھے نماز پڑھنا بھی ثابت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آپؐ نے عورتوں کو مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے آنے جانے کے آداب کی تعلیم بھی ثابت ہے اور صحابہ کو ان کے مسجد آنے سے منع کرنے سے بھی روکا ہے۔
فقہائے کرام کا نقطۂِ نظر جاننے کے بعد جو چیز بطور خاص عیاں ہوتی ہے وہ فقہ اسلامی کا اصولی اور بنیادی قاعدہ ہے :
درء المفاسد أولی من جلب المصالح .مفاسد کا دفع کرنا مصلحت کے حصول سے اولی ہے۔
لہذا اگر کسی قسم کے فتنے کا ڈر ہو تو ان کا گھروں میں نماز پڑھنا افضل ہے ۔ بصورت دیگر اگر وہ عام حالات میں مسجدجانا چاہیں تو انہیں روکا نہ جائے او ر انہیں بھی چاہیے کہ وہ زرق برق کپڑوں کی نمائش ، زیب و زینت کے اظہارخوشبواورزیورات یا اس کے علاوہ کوئی ایسی آواز جس کی وجہ سے ان کا راہ چلتے لوگوں کی توجہ کامرکز بننے کا اندیشہ ہو تو ان کا گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے ۔ اور اگر وہ مکمل شرعی آداب کا لحاظ رکھتے ہوے مسجد جاتی ہیں تو اجازت ہے۔
نوٹ:جہاں تک حضرت عائشہ کے بارے میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اس حکم کو منسوخ کر دیا تھا تو اس کا سادہ سے جواب یہ ہے کہ شریعت میں نسخ کا اختیار نبی کے پاس بھی نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالی کی طرف سےآتا ہے تو جب نبی اپنی طرف سےنسخ یا تبدیلی احکام نہیں کر سکتا تو نعوذ باللہ بعد میں کس کے پاس اختیار ہے کہ وہ شرعی احکام میں تبدیلی یا نسخ کا حکم جاری کر سکے۔اس لیے یہ سراسر حضرت عائشہ پر بہتان ہے کہ انہوں نے منسوخ کر دیا تھا اور جس نے بھی اس قول کا اظہار کیا ہے وہ بالکل شرعی علوم سے ناواقف معلوم ہوتا ہے ورنہ ایسی بات نہ کی جاتی۔
اللہ تعالی حق کو قبول کرنے توفیق دے اور پھر اس پر عمل کی بھی توفیق عنایت فرمائیں۔آمین

ِِِِ۔


( ) مختصر اختلاف العلماء ، الطحاوي 1/231، البحر الرائق 1/380، حاشية ابن العابدين 1/566
( ) شرح مختصر خليل 2/35، التمهيد 23/402، الاستذكار 2/469
( ) المجموع4 / 170،171، روضة 1 / 340.
( ) المجموع 4 /405 ،روضة 1لطالبین 1/ 340 ،مغنی المحتاج 1 / 230 ،الوسیط2 / 226.
( ) الإنصاف 2/212،
( ) صحيح بخاري كتاب الصلاة ‘ باب خُرُوجِ النِّسَاءِ إلى الْمَسَاجِدِ بِاللَّيْلِ وَالْغَلَسِ، حديث: (865)، صحيح مسلم، كتاب الصلاة، بَاب خُرُوجِ النِّسَاءِ إلى الْمَسَاجِدِ إذا لم يَتَرَتَّبْ عليه فِتْنَةٌ وَأَنَّهَا لَا تَخْرُجْ مُطَيَّبَةً، حديث (442)
( ) سنن ابی داؤد کتاب الصلاة بَاب ما جاء في خُرُوجِ النِّسَاءِ إلى الْمَسْجِدِ (565)، مسند احمد 2 / 438 (9643)
( ) صحيح مسلم‘كتاب الصلاة ‘بَاب خُرُوجِ النِّسَاءِ إلى الْمَسَاجِدِ إذا لم يَتَرَتَّبْ عليه فِتْنَةٌ وَأَنَّهَا لَا تَخْرُجْ مُطَيَّبَةً (444)،سنن النسائي : (5129) ، صحيح ابن حبان : (2215)
( ) صحيح مسلم‘كتاب الصلاة ‘بَاب خُرُوجِ النِّسَاءِ إلى الْمَسَاجِدِ إذا لم يَتَرَتَّبْ عليه فِتْنَةٌ وَأَنَّهَا لَا تَخْرُجْ مُطَيَّبَةً (444)،سنن ابي داؤد (4175).
( ) سنن ابو داؤد ، كتاب الصلاة ، باب ما جاء فى خروج النساء إلى المسجد ، (567)،مسند احمد 2 / 76 ، 77 (5471) ، المستدرك على الصحيحين ، 1 / 327 (755)
( ) متفق عليه صحيح بخاري كتاب الأذان ، باب انتظار الناس قيام الإمام العالم ، (869)،مسلم كتاب باب خروج النساء إلى المساجد إذا لم يترتب عليه فتنة وأنها لا تخرج مطيبة .(445)
( ) مسند احمد 6 / 69،70 (24910)
( ) متفق عليه صحيح بخاری کتاب الأذان ،باب خروج النساء إلی المساجد بالليل و الغلس ، (865)،مسلم کتاب الصلاة باب خروج النساء إلى المساجد إذا لم يترتب عليه فتنة وأنها لا تخرج مطيبة(442)
( ) جامع الترمذي، كتاب الحدود، بَاب ما جاء في الْمَرْأَةِ إذا اسْتُكْرِهَتْ على الزنى، حديث: (1454).سنن أبي داود، كتاب الحدود، بَاب في صَاحِبِ الْحَدِّ يَجِيءُ فَيُقِرُّ، حديث:(4379).

Wednesday, 3 July 2013

امام کعبہ محمد بن عبد اللہ السبیل کا فتویٰ 11 رکعات تراویح کے بارے میں

0 comments
امام کعبہ محمد بن عبد اللہ السبیل کا فتویٰ 11 رکعات تراویح کے بارے میں

Friday, 28 June 2013

نماز تراویح کی رکعات

0 comments

نماز تراویح کی رکعات
یں نے اس سے قبل بھی یہ سوال کیا تھا اب پھرمیری گزارش ہے کہ ایسا جواب دیں جس سے مجھے کوئي فائدہ ہو پہلا جواب کچھ اچھا نہیں تھا ۔ 
سوال یہ ہے کہ آیا تروایح گیارہ رکعات ہیں یا بیس ؟ کیونکہ سنت تو گیارہ رکعت ہی ہیں ، اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی بھی اپنی کتاب " القیام والتراویح " میں اسے گیارہ رکعت ہی قرار دیتے ہیں ۔
کچھ لوگ تو ان مساجد میں نماز تراویح ادا کرنے جاتے ہیں جہاں گیارہ رکعت ادا کی جاتی ہیں ، اورکچھ ان مساجد میں جاتے ہیں جہاں بیس رکعت ادا کی جاتی ہیں ، یہاں امریکہ میں یہ مسئلہ حساس بن چکا ہے کیونکہ گیارہ رکعت ادا کرنے والے بیس رکعت والوں کو ملامت کرتے ہیں ، اوراس کےبرعکس بیس رکعت پڑھنےوالے دوسروں کو ملامت کرتے ہیں اورفتنہ کی صورت بن چکی ہے ، اورپھر یہ بھی ہے کہ مسجد حرام میں بھی بیس رکعت ادا کی جاتی ہیں ۔
مسجد حرام اورمسجد نبوی میں نماز سنت کے خلاف کیوں ادا کی جاتی ہے ؟ مسجد حرام اورمسجدنبوی میں بیس رکعت کیوں ادا کی جاتی ہیں ؟
الحمد للہ
ہمارے خیال میں مسلمان کو اجتھادی مسائل میں اس طرح کا معاملہ نہيں کرنا چاہیے کہ وہ اہل علم کے مابین اجتھادی مسائل کو ایک حساس مسئلہ بنا کراسے آپس میں تفرقہ اورمسلمانوں کے مابین فتنہ کا باعث بناتا پھرے ۔
شیخ ابن ‏عثیمین رحمہ اللہ تعالی دس رکعت ادا کرنے کےبعد بیٹھ کروترکا انتظار کرنے اورامام کے ساتھ نماز تراویح مکمل نہ والے شخص کے بارہ میں کہتے ہیں کہ :
ہمیں بہت ہی افسوس ہوتا ہے کہ امت مسلمہ میں لوگ ایسے مسائل میں اختلاف کرنے لگے ہیں جن میں اختلاف جائز ہے ، بلکہ اس اختلاف کو وہ دلوں میں نفرت اوراختلاف کا سبب بنانے لگے ہیں ، حالانکہ امت میں اختلاف تو صحابہ کرام کے دور سے موجود ہے لیکن اس کے باوجود ان کے دلوں میں اختلاف پیدا نہیں ہوا بلکہ ان سب کے دل متفق تھے ۔
اس لیے خاص کرنوجوانوں اورہرملتزم شخص پر واجب ہے کہ وہ یکمشت ہوں اورسب ایک دوسرے کی مدد کریں کیونکہ ان کے دشمن بہت زيادہ ہیں جوان کے خلاف تدبیروں میں مصروف ہیں ۔
دیکھیں : الشرح الممتع ( 4 / 225 ) ۔
اس مسئلہ میں دونوں گروہ ہی غلو کا شکار ہیں ، پہلے گروہ نے گیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے کومنکر اوربدعت قرار دیا ہے اوردوسرا گروہ صرف گیارہ رکعت ادا کرنے والوں کو اجماع کا مخالف قرار دیتے ہیں ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ شيخ الافاضل ابن ‏عثيمین رحمہ اللہ تعالی اس کی کیا توجیہ کرتے ہیں :
ان کا کہنا ہے کہ :
ہم کہیں گے گہ : ہمیں افراط وتفریط اورغلو زيب نہيں دیتا ، کیونکہ بعض لوگ تراویح کی تعداد میں سنت پر التزام کرنے میں غلو سے کام لیتے اورکہتےہیں : سنت میں موجود عدد سے زيادہ پڑھنی جائز نہيں ، اوروہ گیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے والوں کوگنہگار اورنافرمان قرار دیتے اور ان کی سخت مخالفت کرتے ہیں ۔
بلاشک وشبہ یہ غلط ہے ، اسے گنہگار اورنافرمان کیسے قرار دیا جاسکتا ہے حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز کے بارہ میں سوال کيا گيا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( دو دو ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں پر تعداد کی تحدید نہیں کی ، اوریہ معلوم ہونا چاہیے کہ جس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھااسے تعداد کا علم نہیں تھا ، کیونکہ جسے نماز کی کیفیت کا ہی علم نہ ہواس کاعدد سے جاہل ہونا زيادہ اولی ہے ، اورپھر وہ شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں میں سے بھی نہیں تھا کہ ہم یہ کہیں کہ اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ہونے والے ہرکام کا علم ہو ۔
لھذا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تعداد کی تحدید کیے بغیر نماز کی کیفیت بیان کی ہے تو اس سے یہ معلوم ہوا کہ اس معاملہ میں وسعت ہے ، اورانسان کے لیے جائزہے کہ وہ سو رکعت پڑھنے کے بعد وتر ادا کرے ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ :
( نمازاس طرح ادا کرو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے ) ۔
یہ حدیث عموم پر محمول نہيں حتی کہ ان کے ہاں بھی یہ عموم پر نہیں ہے ، اسی لیے وہ بھی انسان پر یہ واجب قرار نہیں دیتے کہ وہ کبھی پانچ اورکبھی سات اورکبھی نو وتر ادا کریں ، اگر ہم اس حدیث کے عموم کو لیں تو ہم یہ کہيں گے کہ :
کبھی پانچ کبھی سات اور کبھی نو وتر ادا کرنے واجب ہیں ، لیکن ایسا نہیں بلکہ اس حدیث " نماز اس طرح ادا کرو جس طرح مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے" کا معنی اورمراد یہ ہے کہ نماز کی کیفیت وہی رکھو لیکن تعداد کے بارہ میں نہیں لیکن جہاں پر تعداد کی تحدید بالنص موجود ہو ۔
بہر حال انسان کو چاہیے کہ وہ کسی وسعت والے معاملے میں لوگوں پر تشدد سے کام نہ لے ، حتی کہ ہم نے اس مسئلہ میں تشدد کرنے والے بھائیوں کو دیکھا ہے کہ وہ گیارہ رکعت سے زيادہ آئمہ کو بدعتی قرار دیتے اورمسجد نے نکل جاتے ہیں جس کے باعث وہ اس اجر سے محروم ہوجاتے ہیں جس کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ :
( جو بھی امام کے ساتھ اس کے جانے تک قیام کرے اسے رات بھر قیام کا اجروثواب حاصل ہوتا ہے ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 806 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ترمذی ( 646 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
کچھ لوگ دس رکعت ادا کرنے کے بعد بیٹھ جاتے ہیں جس کی بنا پر صفوں میں خلا پیدا ہوتا اورصفیں ٹوٹ جاتی ہیں ، اوربعض اوقات تو یہ لوگ باتیں بھی کرتے ہیں جس کی بنا پر نمازی تنگ ہوتے ہیں ۔
ہمیں اس میں شک نہيں کہ ہمارے یہ بھائي خیر اوربھلائي ہی چاہتے ہيں اوروہ مجتھد ہیں لیکن ہر مجتھد کا اجتھاد صحیح ہی نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات وہ اجتھاد میں غلطی بھی کربیٹھتا ہے ۔
اوردوسرا گروہ : سنت کا التزام کرنے والوں کے برعکس یہ گروہ گیارہ رکعت ادا کرنے والوں کوغلط قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اجماع کی مخالفت کررہے ہیں ، اوردلیل میں یہ آیت پیش کرتے ہيں :
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ جوشخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے اورتمام مومنوں کی راہ چھوڑکر چلے ، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہوا اوردوزخ میں ڈال دیں گے ، وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے } النساء ( 115 )
آپ سے پہلے جتنے بھی تھے انہيں تئيس رکعت کے علاوہ کسی کا علم نہیں تھا ، اوروہ انہیں بہت زیادہ منکر قرار دیتے ہیں ، لھذا یہ گروہ بھی خطاء اورغلطی پر ہے ۔
دیکھیں الشرح الممتع ( 4 / 73 - 75 ) ۔
نماز تراویح میں آٹھ رکعت سے زيادہ کے عدم جواز کے قائلین کے پاس مندرجہ ذيل حدیث دلیل ہے :
ابوسلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں میں نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ کی رمضان میں نماز کیسی تھی ؟
توعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کہنے لگيں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اورغیررمضان میں گیارہ رکعت سے زيادہ ادا نہيں کرتے تھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاررکعت ادا کرتے تھے آپ ان کی طول اورحسن کےبارہ میں کچھ نہ پوچھیں ، پھر چار رکعت ادا کرتے آپ ان کے حسن اورطول کے متعلق نہ پوچھیں ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت ادا کرتے ، تومیں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ وترادا کرنے سے قبل سوتے ہیں ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن دل نہيں سوتا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1909 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 738 )
ان کا کہنا ہے کہ یہ حدیث رمضان اورغیررمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کی ہمیشگی پر دلالت کرتی ہے ۔
علماء کرام نے اس حدیث کے استدلال کورد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے اور فعل وجوب پر دلالت نہیں کرتا ۔
رات کی نماز کی رکعات کی تعداد مقیدنہ ہونے کے دلائل میں سب سے واضح دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :
ابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نماز کے بارہ میں سوال کیا تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( رات کی نماز دو دو رکعت ہے اورجب تم میں سےکوئي ایک صبح ہونے خدشہ محسوس کرے تو اپنی نماز کے لیے ایک رکعت وتر ادا کرلے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 946 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 749 ) ۔
اس مسئلہ میں علماء کرام کے اقوال پر نظر دوڑانے سے آپ کو یہ علم ہوگا کہ اس میں وسعت ہے اورگیارہ رکعت سے زيادہ ادا کرنے میں کوئي حرج نہيں ، ذیل میں ہم معتبرعلماء کرام کے اقوال پیش کرتے ہیں :
آئمہ احناف میں سے امام سرخسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ہمارے ہاں وتر کے علاوہ بیس رکعات ہیں ۔
دیکھیں : المبسوط ( 2 / 145 ) ۔
اورابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ابوعبداللہ ( یعنی امام احمد ) رحمہ اللہ تعالی کے ہاں بیس رکعت ہی مختار ہيں ، امام ثوری ، ابوحنیفہ ، امام شافعی ، کا بھی یہی کہنا ہے ، اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں کہ چھتیس رکعت ہیں ۔
دیکھیں : المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 1 / 457 ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
علماء کرام کے اجماع میں نماز تراویح سنت ہیں ، اورہمارے مذہب میں یہ دس سلام م کے ساتھ دو دو رکعت کرکے بیس رکعات ہیں ، ان کی ادائيگي باجماعت اورانفرادی دونوں صورتوں میں ہی جائز ہیں ۔
دیکھیں : المجموع للنووی ( 4 / 31 ) ۔
نماز تراویح کی رکعات میں مذاہب اربعہ یہی ہے اورسب کا یہی کہنا ہے کہ نماز تراویح گیارہ رکعت سے زيادہ ہے ،اورگيارہ رکعت سے زيادہ کے مندرجہ ذیل اسباب ہوسکتے ہیں :
1 - ان کے خیال میں حدیث عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا اس تعداد کی تحدید کی متقاضی نہيں ہے ۔
2 - بہت سے سلف رحمہ اللہ تعالی سے گیارہ رکعات سے زيادہ ثابت ہیں
دیکھیں : المغنی لابن قدامہ ( 2 / 604 ) اورالمجموع ( 4 / 32 )
3 - نبی صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات ادا کرتے تھے اوریہ رکعات بہت لمبی لمبی ہوتی جو کہ رات کے اکثر حصہ میں پڑھی جاتی تھیں ، بلکہ جن راتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو نماز تراویح کی جماعت کروائي تھی اتنی لمبی کردیں کہ صحابہ کرام طلوع فجر سے صرف اتنا پہلے فارغ ہوئے کہ انہيں خدشہ پیدا ہوگيا کہ ان کی سحری ہی نہ رہ جائے ۔
صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کرنا پسند کرتے تھے اوراسے لمبا نہيں کرتے تھے ، توعلماء کرام نے کا خیال کیا کہ جب امام مقتدیوں کو اس حدتک نماز لمبی پڑھائے تو انہيں مشقت ہوگی ، اورہوسکتا ہے کہ وہ اس سے نفرت ہی کرنے لگیں ، لھذا علماء کرام نے یہ کہا کہ امام کو رکعات زيادہ کرلینی چاہیے اور قرآت کم کرے ۔
حاصل یہ ہوا کہ :
جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی ہی گیارہ رکعت ادا کی اورسنت پر عمل کیا تو یہ بہتر اوراچھا اورسنت پر عمل ہے ، اورجس نے قرآت ہلکی کرکے رکعات زيادہ کرلیں اس نے بھی اچھا کیا لیکن سنت پر عمل نہيں ہوا ، اس لیے ایک دوسرے پر اعتراض نہيں کرنا چاہیے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اگرکوئي نماز تراویح امام ابوحنیفہ ، امام شافعی ، اورامام احمد رحمہم اللہ کے مسلک کے مطابق بیس رکعت یا امام مالک رحمہ اللہ تعالی کے مسلک کے مطابق چھتیس رکعات ادا کرے یا گیارہ رکعت ادا کرے تو اس نے اچھا کیا ، جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے عدم توقیف کی بنا پر تصریح کی ہے ، تورکعات کی کمی اورزيادتی قیام لمبا یا چھوٹا ہونے کے اعتبار سے ہوگي ۔
دیکھیں : الاختیارات ( 64 ) ۔
امام سیوطی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ان صحیح اورحسن احادیث جن میں رمضان المبارک کے قیام کی ترغیب وارد ہے ان میں تعداد کی تخصیص نہیں ، اورنہ ہی یہ ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح بیس رکعت ادا کی تھیں ، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی راتیں بھی نماز تروایح کی جماعت کروائی ان میں رکعات کی تعداد بیان نہیں کی گئي ، اورچوتھی رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز تراویح سے اس لیے پیچھے رہے کہ کہيں یہ فرض نہ ہوجائيں اورلوگ اس کی ادائيگي سے عاجز ہوجائيں ۔
ابن حجر ھیثمی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
یہ صحیح نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےنماز تراویح بیس رکعات ادا کی تھیں ، اورجویہ حدیث بیان کی جاتی ہے کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیس رکعت ادا کیا کرتے تھے "
یہ حدیث شدید قسم کی ضعیف ہے ۔
دیکھیں : الموسوعۃ الفقھیۃ ( 27 / 142 - 145 ) ۔
اس کے بعد ہم سائل سے یہ کہيں گے کہ آپ نماز تراویح کی بیس رکعات سے تعجب نہ کریں ، کیونکہ کئي نسلوں سے آئمہ کرام بھی گزرے وہ بھی ایسا ہی کرتے رہے اور ہر ایک میں خیر وبھلائي ہے ۔سنت وہی ہے جواوپر بیان کیا چکا ہے ۔
واللہ اعلم .

Thursday, 7 March 2013

مسئلہ تراویح اور سعودی علماء

0 comments


مسئلہ تراویح اور سعودی علماء

مکہ مکرمہ کی مسجد ِ حرام میں ۲۰ تراویح کے بارے میں اکثر وبیشتر سوال کیا جاتا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت آٹھ سے زیادہ تراویح نہیں ہیں ، تو پھر بیت اللہ میں اس پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا۔ ایک طرف سعودی عرب کی تمام مساجد میں جواکثر وبیشتر حکومت کے ہی زیر نگرانی ہیں ، آٹھ تراویح پڑھی جاتی ہیں ، پھر بیت اللہ میں کیوں ۲۰ تراویح پڑھائی جاتی ہیں ؟ تراویح کے بارے میں سعودی عرب کے جید علما کا موقف کیا ہے؟زیر نظر مضمون میں اسی مسئلہ کو زیر بحث بنایا گیا ہے۔ ح م

صحیح بخاری میں مروی ہے کہ ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے حضرت عائشہ ؓسے پوچھا :
رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیسے تھی ؟تو اُنہوں نے جواباًکہا :
''ما کان یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدٰی عشرة رکعة''1
''رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں اوردیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ ''

حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات اور وتر پڑھائے، اگلی رات آئی تو ہم جمع ہوگئے، اور ہمیں امید تھی کہ آپؐ گھر سے باہر نکلیں گے لیکن ہم صبح تک انتظار کرتے رہ گئے۔ پھر ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں بات کی تو آپؐ نے فرمایا: مجھے خطرہ تھا کہ کہیں تم پر فرض نہ کردیا جائے۔ '' 2
اس حدیث کی سند کو شیخ البانی رحمة اللہ علیہ نے تخریج صحیح ابن خزیمہ میں حسن قرار دیا ہے، اس کے راوی عیسیٰ بن جاریہ پر کچھ محدثین نے جرح کی ہے جو مبہم ہے، اور اس کے مقابلے میں ابوزرعہ رحمة اللہ علیہ اورابن حبان رحمة اللہ علیہ نے اس کی تو ثیق کی ہے ،لہٰذا اسے جرحِ مبہم پر مقدم کیا جائے گا۔

امام مالک نے سائب بن یزید سے روایت کیا ہے کہ ''حضرت عمر ؓ نے اُبی بن کعبؓ اور تمیم داری ؓ کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا۔''3

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان اوردیگر مہینوں میں رات کی نمازگیارہ رکعات تھی ۔
  • یہی گیارہ رکعات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں صحابہ کرامؓ کو بھی باجماعت پڑھائیں ۔
  • پھر جب حضرت عمرؓ نے نمازِ تراویح کے لئے لوگوں کو جمع کیا، تو اُنہوں نے بھی دوصحابہ کرام اُبی بن کعب ؓ اور تمیم داری ؓکو گیارہ رکعات ہی پڑھانے کا حکم دیا ۔

تراویح ہی ماہِ رمضان میں تہجد ہے
حضرت ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، آپؐ نے اس دوران ہمیں قیام نہیں کرایا،یہاں تک کہ صرف سات روزے باقی رہ گئے، چنانچہ آپؐ نے ۲۳ کی را ت کو ہمارے ساتھ قیام کیا، اور اتنی لمبی قراء ت کی کہ ایک تہائی رات گزرگئی، پھر چوبیسویں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام نہیں پڑھایا، پھر پچیسویں رات کو آپؐ نے قیام پڑھایا،یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی، پھر چھبیسویں رات گذر گئی اور آپ ؐنے قیام نہیں پڑھایا، پھر ستائیسویں رات کو آپؐ نے اتنا لمبا قیام پڑھایا کہ ہمیں سحری فوت ہوجانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔''4

تواس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں نمازِ تراویح پر ہی اکتفا کیا اور اس کے بعد نمازِ تہجد نہںپ پڑھی، کیونکہ سحری تک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ تراویح ہی پڑھاتے رہے، اور اگر اس میں اور نمازِ تہجد میں کوئی فرق ہوتا یا دونوں الگ الگ نمازیں ہوتیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم تراویح کے بعد تہجد پڑھتے۔لہٰذا رمضان میں تراویح ہی نمازِ تہجد ہے،اورعام دنوں میں جسے نمازِ تہجد کہتے ہیں وہی نماز رمضان میں نمازِ تراویح کہلاتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ محدثین نے حضرت عائشہ ؓ کی (پہلی) حدیث کو کتاب التراویح میں روایت کیا ہے ،اس لئے اس سے نمازِ تہجد مراد لینا ،اور پھر اس میں اورنمازِ تراویح میں فرق کرنا قطعاً درست نہیں ۔

کیا حضرت عمرؓنے بیس تراویح پڑھانے کا حکم دیا تھا؟
ہم نے موطأ اور مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے سائب بن یزید کا یہ اثر نقل کیا ہے کہ حضرت عمرؓ نے اُبی بن کعب ؓ اور تمیم داری ؓ کوگیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا۔ امام مالک رحمة اللہ علیہ نے جہاں یہ اثر روایت کیا ہے، ا س کے فوراً بعد ایک دوسرا اثر بھی لائے ہیں جس کے الفاظ یہ ہیں کہ یزید بن رومان کا کہنا ہے کہ لوگ عہد ِعمرؓ میں ۲۳ رکعات رمضان میں پڑھا کرتے تھے۔ (موطا:۱؍۷۳) لیکن یہ دوسرا اثر منقطع یعنی ضعیف ہے، کیونکہ اس کے راوی یزید بن رومان نے عہد ِعمرؓ کو پایا ہی نہیں ، اور اگر اسے صحیح مان بھی لیا جائے تو تب بھی پہلا اثر راجح ہوگا کیونکہ اس میں یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے دو صحابیوں کوگیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا، جبکہ دوسرے اثر میں یہ ہے کہ لوگ عہد ِعمرؓ میں ۲۳ رکعات پڑھا کرتے تھے۔ توجس کام کا عمرؓنے حکم دیا، وہی راجح ہوگا، کیونکہ وہ سنت کے مطابق ہے۔
نوٹ: حضرت عمرؓ کے متعلق بیس تراویح والے تمام آثار ضعیف ہیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی صحیح ثابت نہیں ۔(i)

خلاصۂ کلام
گزشتہ مختصر بحث سے معلوم ہوا کہ نمازِ تراویح کے سلسلے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح سنت گیارہ رکعات ہے، اور حضرت عمرؓ نے بھی اسی سنت کو زندہ کیا اور گیارہ رکعات کا التزام کیا۔ جہاں تک کچھ ائمہ کرام کا یہ موقف ہے کہ نمازِ تراویح گیارہ سے زیادہ رکعات بھی پڑھی جاسکتی ہے، تو یہ اس بنا پر نہیں کہ زیادہ رکعات سنت ِنبویؐ سے ثابت ہیں ، بلکہ محض اس بنا پر کہ چونکہ یہ نماز نفل ہے، اور نفل میں کمی بیشی ہوسکتی ہے،اس لئے گیارہ سے زیادہ بیس یا اس سے بھی زیادہ رکعات پڑھی جاسکتی ہیں ، اور ہمارا خیال ہے کہ کم از کم اتنی بات پر تو سب کا اتفاق ہے، اختلاف صرف اس چیز میں ہے کہ سنت اور افضل کیا ہے؟ تو جب یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات ہی پڑھا کرتے تھے اور رات کی جو نفل نماز عام دنوں میں آپؐ پڑھا کرتے تھے، وہی نماز رمضان میں تراویح کہلاتی ہے، تو یقینی طور پر نمازِ تراویح کے مسئلے میں سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعات ہی ہے، باقی نفل سمجھ کر کوئی شخص اگر گیارہ سے زیادہ پڑھتا ہے تو اس پر کوئی نکیر نہیں ہونی چاہئے،البتہ اسے سنت تصور نہیں کیا جاسکتا،اور اسی موقف کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے اور سعودی علما نے بھی اختیار کیا ہے۔

مسئلہ تراویح اور سعودی علما
سعودی علما کا مسئلہ تراویح میں بالکل وہی موقف ہے جسے ہم نے مندرجہ بالا سطور میں ذکر کیا ہے، جیسا کہ ان کی تصریحات حسب ِذیل ہیں :
شیخ ابن باز رحمة اللہ علیہ
''والأفضل ما کان النبيﷺ یفعلہ غالبًا وھو أن یقوم بثمان رکعات یسلم من کل رکعتین، ویوتر بثلاث مع الخشوع والطمأنینة وترتیل القراء ة، لما ثبت فی الصحیحین من عائشة رضی اﷲ عنھا قالت: کان رسول اﷲ ﷺ لا یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدٰی عشرة رکعة...''5
''اور افضل وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر و بیشتر کرتے تھے، اور وہ یہ کہ انسان آٹھ رکعات پڑھے، اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرے، پھر تین وتر ادا کرے اور پوری نماز میں خشوع، اطمینان اور ترتیل قرآن ضروری ہے۔ بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور دیگر مہینوں میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے...''

سعودی عرب کی فتویٰ کونسل کا فتویٰ
''صلاة التراویح سنة سَنَّھا رسول اﷲ ﷺ، وقد دلَّت الأدلة علی أنہ ﷺ ما کان یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدی عشرة رکعة''6
''نماز تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے،اور دلائل یہ بتاتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور اس کے علاوہ پورے سال میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔''

اس فتوے پر چار سعودی علما کے دستخط ہیں :

  1. شیخ عبداللہ بن قعود،
  2. شیخ عبداللہ بن غدیان
  3. شیخ عبدالرزاق عفیفی
  4. شیخ ابن باز

شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمة اللہ علیہ
''واختلف السلف الصالح في عدد الرکعات في صلاة التراویح والوتر معہا، فقیل: إحدی وأربعون رکعة، وقیل: تسع وثلاثون، وقیل: تسع وعشرون، وقیل ثلاث وعشرون، وقیل: تسع عشرة، وقیل: ثلاث عشـرة، وقیل: إحدٰی عشرة، وقیل: غیر ذلک، وأرجح ھذہ الأقوال أنہا إحدی عشرة أوثلاث عشرة لما في الصحیحین عن عائشة رضی اﷲ عنہا... وعن ابن عباس رضی اﷲ عنہما قال: کانت صلاة النبي ﷺ ثلاث عشرة رکعة، یعنی من اللیل (رواہ البخاري) وفي الموطأ عن السائب بن یزید رضی اﷲ عنہ قال: أمر عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ أبي بن کعب وتمیم الداري أن یقوما للناس بـإحدی عشرة رکعة''7
''سلف صالحین نے نمازِ تراویح مع نمازِ وتر کی رکعات میں اختلاف کیا ہے، بعض نے اکتالیس، بعض نے اُنتالیس، بعض نے اُنتیس، بعض نے تیئس، بعض نے اُنیس، بعض نے تیرہ اور بعض نے گیارہ رکعات بیان کی ہیں اور بعض نے ان اقوال کے علاوہ دوسری تعداد بھی نقل کی ہے، لیکن ان سب اقوال میں سے سب سے زیادہ راجح گیارہ یا تیرہ رکعات والا قول ہے، کیونکہ صحیحین (بخاری و مسلم) میں حضرت عائشہؓ نے گیارہ رکعات بیان کی ہیں ، اور بخاری کی ایک اور روایت میں ابن عباس ؓنے تیرہ رکعات ذکر کی ہیں ، اور موطأ امام مالک میں سائب بن یزید کا بیان ہے کہ حضرت عمرؓ نے اُبی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما دونوں کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا۔''

سعودی علماء کے مندرجہ بالا اقتباسات سے معلوم ہوا کہ

  • یہ علما نمازِ تراویح کی رکعات کے مسئلے میں حضرت عائشہؓ والی حدیث پر اعتماد کرتے ہیں ، اور اس میں مذکور گیارہ رکعات سے وہ نمازِ تراویح کی گیارہ رکعات ہی مراد لیتے ہیں ۔
  • مسئلہ تراویح میں افضل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ تعداد رکعات پر عمل کیا جائے، اور وہ ہے: گیارہ رکعات مع وتر
  • سعودی علما اسی بات کے قائل ہیں کہ حضرت عمرؓ نے بھی گیارہ رکعات ہی پڑھانے کا حکم دیا تھا۔

نوٹ:شیخ ابن عثیمین رحمة اللہ علیہ نے جو تیرہ رکعات کا ذکر کیا ہے، دراصل ان میں دو رکعات وہ ہیں جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دو مرتبہ وتر کے بعد پڑھا تھا، اور علما کا کہنا ہے کہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے آخری حصے میں وتر پڑھتے تھے اور اس کے بعد فجر کی اذان ہوجاتی تھی، تو شاید آپؐ نے فجر کی دو سنتیں پڑھی تھیں ، جنہیں ابن عباس ؓ نے رات کی نماز میں شامل سمجھا، یا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کے بعد یہ دو رکعات اس لئے پڑھی تھیں کہ وتر کے بعد بھی نفل نماز پڑھنے کا جواز باقی رہے۔ واللہ اعلم!

سعودی عرب کے ائمہ حرمین شریفین کے متعلق بھی یہ بات ہر ایک کو معلوم ہے کہ خانۂ کعبہ میں دو امام تراویح پڑھاتے ہیں ، ایک دس رکعات پڑھا کر چلاجاتاہے ، پھر دوسرا آتاہے اور وہ بھی دس رکعات تراویح پڑھاتاہے ، علاوہ ازیں سعودی عرب کی دیگر جمیع مساجد میں آٹھ رکعات ہی پڑھائی جاتی ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ سعودی علمابھی اسی موقف کو مستند سمجھتے ہیں کہ آٹھ تراویح ہی سنت اور افضل ہیں ۔


  • محدث کے شمارئہ جولائی ۲۰۰۷ء میں بعض اغلاط کی تصحیح
  • صفحہ نمبر۱۹ کی سطر نمبر ۵ کا آخری لفظ رحمہم اﷲ پڑھا جائے۔
  • صفحہ نمبر۴۴ کی سطر نمبر۱۷ میں ولکم التوفیق والسداد پڑھا جائے۔
  • صفحہ نمبر ۳ کے حاشیے میں مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمة اللہ علیہ کا نام غلطی سے شائع ہوگیاہے، روزنامہ نوائے وقت کے ایک مضمون سے یہ واقعہ اخذ کیا گیا تھا جو درست نہیں کیونکہ مولانا علی میاں تو۳۱؍دسمبر ۱۹۹۹ء کو وفات پاچکے ہیں ۔
  • صفحہ نمبر ۲۱ پر اشتہار 'ضرورتِ کتب برائے لائبریری' میں رابطہ کے لئے میاں بشیر احمد شاکر موبائل 0300-4461165 کا اضافہ کرلیں۔
محدث کے شمارئہ اگست ۲۰۰۷ء کے صفحہ نمبر ۱۹ پر قابل اصلاح الفاظ
  • مُجْرٰگھَا ایک متواتر قراء ت کے مطابق
  • مُجْرَیْ ھَا دوسری متواتر قراء ت (تقلیل) کے مطابق
  • مُجْرَیْ ھَا تیسری متواتر قراء ت (امالہ) کے مطابق
  • مَجْرَیْ ھَا چوتھی متواتر قراء ت (امالہ، روایت ِحفص) کے مطابق

نماز ِوتر اور دعائے قنوت
نمازِ وتر
نمازِ تراویح (یا نمازِ تہجد) کے بعد سب سے آخری نفل نماز 'وتر' کہلاتی ہے۔ نمازِ وتر کے بارے میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(أوتروا قبل أن تصبحوا8
''صبح (فجر طلوع) ہونے سے پہلے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔''
ایک روایت میں ہے کہ ''وتر (کا وقت) نماز عشاء کے بعد سے طلوعِ فجر تک ہے۔'' 9

نمازِ وتر کی رکعات
نمازِ وتر طاق عدد کی نماز ہے اور یہ ایک یا تین یا پانچ یا سات یا نو تک پڑھی جاسکتی ہے کیونکہ احادیث میں ایک وتر سے لے کر نو تک کا ثبوت ملتا ہے۔مثلاً
''حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے (ایک مرتبہ وتر کی) نو رکعتیں پڑھیں ۔ ان میں سے صرف آٹھویں رکعت پر تشہد کے لئے بیٹھے ... پھر نویں رکعت پڑھ کر سلام پھیرا۔'' 10

حضرت ابوایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(الوتر حق علیٰ کل مسلم فمن أحب أن یوتر بخمس فلیفعل ومن أحب أن یوتر بثلاث فلیفعل ومن أحب أن یوتر بواحدة فلیفعل)11
''وتر پڑھنا ہرمسلمان پر حق ہے لہٰذا جو پانچ وترپڑھنا چاہے وہ پانچ پڑھ لے، جو تین پڑھنا چاہے وہ تین پڑھ لے اور جو ایک پڑھنا چاہے وہ ایک پڑھ لے۔''

حضرت اُمّ سلمہؓ سے مروی ہے کہ
''اللہ کے رسولؐ جب پانچ یا سات وتر پڑھتے تو ان کے درمیان سلام یا کلام کے ساتھ فاصلہ نہیں کرتے تھے۔'' 12

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ
''اللہ کے رسولؐ جب پانچ وتر پڑھتے تو ان میں صرف آخری رکعت پربیٹھتے۔''13

وتر کی ادائیگی کا طریقہ
نمازِ وترکی اَدائیگی کے مختلف طریقے احادیث سے ثابت ہیں ۔ ان میں سے دو طریقے زیادہ واضح ہیں :
ایک تو یہ کہ ایک وتر سے لے نو تک جتنے وتر پڑھنے ہوں ، اُنہیں اکٹھا پڑھ لیا جائے اور اس صورت میں تین وتروں کے علاوہ باقی صورتوں میں دو تشہد کئے جائیں ، ایک آخری رکعت پر اور ایک آخری سے پہلی پر۔
اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دو دو رکعات پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے اور آخر میں صرف ایک ہی رکعت پڑھ لی جائے۔ اس کے علاوہ بھی نمازِ وتر کی کئی صورتیں احادیث سے ملتی ہیں جن کی تفصیل امام ابن حزم رحمة اللہ علیہ کی کتاب المُحلّٰی میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔(صفحہ نمبرز ؟؟؟؟)

تین وتروں کی ادائیگی کا طریقہ
تین وتروں کی ادائیگی دیگر وتروں کے مقابلہ میں ذرا مختلف ہے اور وہ اس لئے کہ ان کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ (ولا تشبھوا بصلاة المغرب)14
''وتروں کو نماز مغرب کے مشابہ نہ بناؤ۔''

نمازِ مغرب کی مشابہت سے بچنے کے لئے وتروں کی ادائیگی کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ نمازِ وتر کی دوسری رکعت میں تشہد نہ کیا جائے بلکہ تیسری اور آخری رکعت میں ایک ہی تشہد کرکے سلام پھیر دیا جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ دو رکعت کے بعد تشہد میں بیٹھ کر سلام پھیر دیا جائے پھرتیسری رکعت علیحدہ پڑھ لی جائے۔

فقہاے احناف نے اس کی تیسری صورت بھی ذکر کی ہے اور وہ یہ کہ دوسری اور تیسری رکعت پرتشہد کیاجائے اور یہ نمازِ مغرب کے ساتھ اس لئے مشابہت نہیں کریں گے کہ آخری رکعت میں مغرب کے برخلاف امام اونچی آواز میں تلاوت کرتا ہے۔ واللہ اعلم

وتروں میں قراء ت
وتروں میں کوئی بھی سورت پڑھی جاسکتی ہے، البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول یہ تھا کہ نمازِ وتر کی پہلی رکعت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سبح اسم ربک الأعلیٰ اور دوسری میں قل یٰأیھا الکٰفرون اور تیسری میں قل ھو اﷲ أحد پڑھا کرتے تھے۔ 15

وتروں میں قنوت
یہاں قنوت سے مراد وہ دعا ہے جو دورانِ نماز آخری رکعت میں رکوع سے پہلے یا بعد میں کی جاتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دو طرح کی دعاے قنوت ثابت ہے۔ ایک تو نمازِ وتر کی آخری رکعت میں اور دوسری فرض نمازوں کی آخری رکعت میں ۔ فرض نمازوں میں کی جانے والی دُعا کو قنوتِ نازلہ کہا جاتاہے اور یہ دُعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی حادثہ، مصیبت یا جہاد کے موقع پر یا مجاہدین کی مدد کے لئے کیا کرتے تھے اور یہ دعا آپؐ سے رکوع کے بعد مروی ہے۔ 16

جبکہ قنوتِ وتر آپ نے بالعموم رکوع سے پہلے ہی کی ہے۔17

فقہاے احناف قنوتِ وتر کے لئے رکوع سے پہلے اور حنابلہ اسے قنوتِ نازلہ پر قیاس کرتے ہوئے رکوع کے بعد کا تعین کرتے ہیں اور رکوع سے پہلے بھی جائز کہتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک قنوتِ وتر رکوع سے پہلے کی جائے یا فرض نمازوں میں ہونے والی قنوتِ نازلہ پر قیاس کرتے ہوئے رکوع کے بعد کی جائے، دونوں طرح درست ہے اور اس میں بے جا سختی کرنا غیر مناسب ہے، بالخصوص اس لئے بھی کہ خود کئی ایک صحابہؓ سے قنوتِ وتر رکوع کے بعد بھی منقول ہے۔18

قنوتِ وتر کی دعائیں
حضرت حسن بن علیؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے مجھے قنوتِ وتر کے لئے یہ کلمات سکھائے تھے :

(اَللّٰھُمَّ اھْدِنِيْ فِیْمَنْ ہَدَیْتَ وَعَافِنِيْ فِیْمَنْ عَافَیْتَ وَتَوَلَّنِيْ فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ وَبَارِکْ لِيْ فِیْمَا أَعْطَیْتَ وَقِنِيْ شَرَّ مَا قَضَیْتَ فَإِنَّکَ تَقْضِيْ وَلاَ یُقْضٰی عَلَیْکَ إِنَّہٗ لاَ یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ وَلاَ یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ)19
''اے اللہ! مجھے ہدایت دے کر ان لوگوں کی صف میں شامل فرما جنہیں تو نے رُشدو ہدایت سے نوازا ہے اور مجھے عافیت دے کر ان لوگوں میں شامل فرما جنہیں تو نے عافیت بخشی ہے۔ اور جن لوگوں کو تو نے اپنا دوست بنایا ہے، ان میں مجھے بھی شامل کرکے اپنا دوست بنا لے۔ جو کچھ تو نے مجھے عطا فرمایاہے، اس میں میرے لئے برکت ڈال اور جس شر اور برائی کا تو نے فیصلہ فرمایا ہے اس سے مجھے محفوظ رکھ۔ یقینا تو ہی فیصلہ صادر فرماتا ہے اور تیرے خلاف فیصلہ صادر نہیں کیا جاسکتا اور جس کا تو والی بنا، وہ کبھی ذلیل و خوار اور رسوا نہیں ہوسکتا اور وہ شخص عزت نہیں پاسکتا جسے تو دشمن کہے۔ ہمارے پروردگار آقا! تو (بڑا) ہی برکت والا اور بلند و بالا ہے۔''

حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ اپنی نمازِ وتر کے آخر میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے:

(اَللّٰھُمَّ إِنِيْ أَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ أَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ لاَ أُحْصِيْ ثَنَائً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلیٰ نَفْسِکَ)20
''یا اللہ! میں تیری رضا کے ساتھ تیری ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں ۔ اور تیری عافیت کے ساتھ تیری سزا سے پناہ مانگتا ہوں ۔ میں تجھ سے تیری ہی پناہ طلب کرتا ہوں ۔ میں تیری وہ حمدوثنا شمار نہیں کرسکتا جو تو نے خود اپنے لئے کی ہے۔''


وتروں سے سلام کے بعد
حضرت اُبی بن کعبؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ وتروں سے سلام پھیر کر تین بار یہ پڑھتے:

(سُبْحَانَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسِ)21
''پاک ہے بادشاہ ، نہایت پاک ہے۔''


حوالہ جات
1. صحیح بخاری: ۲۰۱۳
2. صحیح ابن خزیمہ :۱۰۷۰،ابن حبان۲۴۰۱، ابویعلی ۳؍۳۳۶، صحیح بخاری ۲۰۱۲
3. موطأ: ۱؍۷۳،مصنف ابن ابی شیبہ ۲؍۳۹۱
4. سنن ترمذی:۸۰۶حسن صحیح،سنن ابی داود:۱۳۷۵،ابن خزیمہ: ۲۲۰۶
5. فتاوٰی اللجنة الدائمة ۷؍۲۱۲
6. فتاوٰی اللجنة الدائمة : ۷؍۱۹۴
7. مجالس شہر رمضان: ص۱۹
8. صحیح مسلم:۷۵۴
9. صحیح ابن ما جہ:۵۹۸
10. مسلم:۷۴۶
11. صحیح ابوداود للالبانی رحمة اللہ علیہ :۱۲۶۰
12. صحیح ابن ماجہ:۹۸۰
13. صحیح مسلم:۲۳۷
14. دارقطنی:۲؍۲۴، بیہقی :۳؍۳۱، حاکم:۱؍۳۰۴
15. ابن ماجہ:۱۱۷۱، ترمذی
16. بخاری:۱۰۰۲
17. صحیح ابوداود:۱۲۶۶، ابن ما جہ:۱۱۸۲
18. مصنف ابن ابی شیبہ:حوالہ مکمل ؟؟؟
19. ابوداود :۱۴۲۵، ترمذی :۴۶۴، بیہقی:۲؍۲۰۹
20. ابوداود:۱۴۲۷، ترمذی:۳۵۶۶
21. ابوداود: 1430