YOUR INFO

Showing posts with label اہل حدیث کون ہیں؟. Show all posts
Showing posts with label اہل حدیث کون ہیں؟. Show all posts

Friday, 23 August 2013

شاہ عبدالعزیز کا اصلاحی کردار

0 comments

شاہ عبدالعزیز کا اصلاحی کردار
محمد سعد شویعر



سقوط خلافت اِسلامیہ عثمانیہ کے بعد 1343ھ؍بمطابق1926ء میں شاہ عبدالعزیز مکہ میں داخل ہوئے۔ جب مدینہ اورجدہ کے علاقے ان کی قیادت میں نئی حکومت کے حدود میں آگئے تو[b] ان کے خلاف کئی غیرملکی آوازیں اٹھیں اور اُنہوں نے ان پر کئی باتوں کی تہمت لگائی جن سے وہ بری ہیں۔ کسی نے کہاکہ وہ وہابی مذہب کے ماننے والے ہیں جوپانچواں مذہب ہے۔ اُنہوں نے حرمین شریفین کا تقدس پامال کیا، مسجد نبوی پر بم برسائے اور عزتیں لوٹیں۔ وہ نبی ﷺ سے محبت نہیں رکھتے اور آپ ﷺ پر درود نہیں بھیجتے۔ اس کے علاوہ دیگر کذب بیانیاں بھی کیں جو پہلے دہرائی جاچکی ہیں۔ اسی دوران علماے اہل حدیث کاایک گروپ آیا جس نے حج کیا، مسجد ِنبویؐ کی زیارت کی اور ان الزامات کو یکسر غلط پایا جو اُن پر لگائے جارہے تھے اور ان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کیاجارہا تھا۔ یہ لوگ اپنے اطمینان کے بعد ہندوستان واپس آگئے تاکہ اتہامات کی تردید کریں اورآنکھوں دیکھی حقیقت حال بیان کریں۔ اُنہوں نے لکھنؤ اور دلّی کانفرنس کی تردید کے لئے دو کانفرنسیں منعقد کیں۔ اخباروں نے جن میں اخبار اہل حدیث، اخبار ِمحمدی اورروزنامہ زمیندار پیش پیش تھے، شاہ عبدالعزیز کی حقیقی کارگزاری بیان کی۔ اُنہوں نے حرمین شریفین میں جواصلاحات کیں اورحجاج کے آرام و راحت اور امن و سکون کے لیے جو اَقدامات کیے، ان کی تفصیلات شائع کیں۔ مزید برآں اُن کے عقیدے کی سلامتی اور اللہ کے دین کے لیے ان کی غیرت و حمیت کے جذبات کا حال لکھا۔ شاہ عبد العزیزرحمہ اللہ جس عقیدے پر مضبوطی سے قائم تھے۔ اس کی وضاحت کے لیے اُنہوں نے خطوط بھی لکھے اورہر سال حجاج کے وفود کے روبرو اپنےفکر و عمل کے اَحوال بھی بیان کرتے رہے. 
اس دوران شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ نے یکم ذی الحجہ 1347ھ بمطابق 11 مئی 1929ء کومکہ میں شاہی محل میں'یہ ہمارا عقیدہ ہے!' کے زیر عنوان ایک جامع تقریر کی۔ اس میں اُنہوں نے وضاحت سے کہا: لوگ ہمارا نام'وہابی' رکھتے ہیں اورہمارے مذہب کو پانچواں مذہب ٹھہرا کر'وہابی' کہتے ہیں، حالانکہ یہ ایک فاش غلطی ہے جو جھوٹے پروپیگنڈے سے پیدا ہوئی ہے۔ اس کی اِشاعت خود غرض لوگ کیا کرتے تھے۔ ہم کسی نئے مذہب یا نئے عقیدے کے ماننے والے نہیں۔ اورمحمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کوئی نیا مذہب لے کر نہیں آئے، بلکہ ہمارا عقیدہ سلف صالحین ہی کا عقیدہ ہے ، ٹھیک وہی عقیدہ ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ میں آیا ہے اورجس پر سلف صالحین کاربند تھے۔ہم اَئمہ اربعہ کا احترام کرتے ہیں ،امام مالک، شافعی، احمد اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مابین ہم کوئی تفریق نہیں کرتے، یہ سب ہماری نظر میں محترم و معظم ہیں۔ ہم فقہ میں مذہب حنبلی کو ترجیح دیتےہیں۔
یہ وہ عقیدہ ہے جس کی دعوت دینے کے لیے شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اُٹھے اور یہی ہمارا بھی عقیدہ ہے۔ یہ عقیدہ اللہ عزوجل کی توحید پر مبنی ہے۔ ہر قسم کی آمیزش سے پاک ہے۔ ہر بدعت سے منزہ ہے۔ یہی وہ عقیدہ توحید ہے جس کی ہم دعوت دیتے ہیں اوریہی عقیدہ ہمیں آزمائش و مصائب سے نجات دے گا۔
رہا وہ تجدد جس کا بعض لوگ ہم پر الزام لگاتے ہیں اورمسلمانوں کو فریب دیتے ہیں کہ اس تجدد میں ہمارے دکھوں کا علاج موجود ہے تو میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ اس سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ یہ تجدّد دنیاوی اوراُخروی دونوں لحاظ سے ہر سعادت سے خالی ہے۔
یقیناً مسلمان جب تک کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی پابندی کرتے رہیں گے بھلائی میں رہیں گے۔ خالص کلمہ توحید کے بغیر ہم سعادتِ دارین حاصل نہیں کرسکتے۔ہمیں وہ تجدد ہرگز نہیں چاہیے جو ہمارا عقیدہ اوردین ضائع کردے۔ ہمیں اللہ عزوجل کی رضا چاہیے اور جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے عمل کرے گا، اللہ اس کے لیےکافی ہے۔ وہ اس کا مددگار ہوگا۔ مسلمانوں کو ماڈرن بننے کی ضرورت نہیں، اُنہیں صرف سلف صالحین کے منہج کی طرف واپسی کی ضرورت ہے۔ جو چیز کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ میں آئی، اس پر مسلمانوں نے عمل نہیں کیا تو وہ گناہوں کی کیچڑ میں لت پت ہوگئے۔ اللہ جل شانہ نے اُنہیں ذلیل و خوار کیا۔ وہ ذلت و رسوائی کی اس حد کو پہنچ گئے جس پر آج آپ انہیں دیکھ رہے ہیں، اگر وہ کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ ﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھتے تو جن آزمائشوں اور گناہوں میں آج مبتلا ہیں، وہ اُنہیں لاحق نہ ہوتے ، نہ وہ اپنی عزت و سربلندی کو ضائع کرپاتے۔میرے پاس بے سروسامانی کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں اسی حالت میں نکلا، میرے پاس افرادی قوت بھی نہیں تھی۔ دشمن میرے خلاف اکٹھے ہوگئے تھے لیکن اللہ کے فضل اور اس کی قوت سے مجھے غلبہ حاصل ہوا اور یہ سارا ملک فتح ہوگیا۔
کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آج مسلمان مختلف مذاہب میں بٹ گئے ہیں۔ یہ خیال غلط ہے کہ غیر مسلم پردیسی ہماری مصیبت کا سبب ہیں۔ سب کچھ ہمارا کیا دھرا ہے۔ اپنی مصیبتوں کا سبب ہم خود ہیں، غور فرمائیے ! ایک غیر مسلم پردیسی کسی ایسے ملک میں جاتاہے جہاں کروڑوں مسلمان ہوتے ہیں اوروہ تنہا اپنے کام میں لگا رہتا ہے تو کیا ایسا تن تنہا شخص لاکھوں کروڑوں اَفراد پر اَثرا انداز ہوسکتا ہے جب تک کہ مقامی لوگوں میں سے کچھ لوگ اپنے افکار و کردار سےاس سے تعاون نہ کریں؟
نہیں، ہرگز نہیں، غیروں کے یہی معاونین ہماری مصیبتوں اور آزمائشوں کا سبب ہیں۔ ایسے مددگار ہی دراصل اللہ کے اور خود اپنے نفس کے دشمن ہیں، لہٰذا قابل ملامت وہ کروڑوں مسلمان ہیں ، نہ کہ غیر مسلم پردیسی۔ کوئی تخریب کار ایک مضبوط محکم عمارت میں تخریب کاری کی جتنی چاہے کوشش کرلے جب تک عمارت میں شگاف نہ پڑے اور کدال گھسنے کی راہ ہموار نہ ہو، وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یہی حال مسلمانوں کا ہے۔ اگر وہ متفق و متحد اوریک جان رہیں تو کسی کی مجال نہیں کہ ان کی صفوں میں سوراخ کردے اوران کا کلمہ منتشر کردے۔
اس ملک میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو اسلامی جزیرہ نمائے عرب کو نقصان پہنچانے، اَندر ہی اَندر اس پر ضرب لگانے اور ہمیں تکلیف دینے کے لیے غیر مسلم تارکین وطن کی مدد کرتے ہیں، لیکن ان شاء اللہ جب تک ہماری نبض چل رہی ہے، ان کی یہ مذموم خواہش پوری نہیں ہوگی۔
مسلمان متفق ہوجائیں، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ پر عمل کریں، اس طرح وہ یقیناً کامیاب اور بہ عافیت رہیں گے۔ پس مسلمانوں کو چاہیے کہ آگے بڑھیں، اللہ کی کتاب اور اس کے نبی محمدﷺ کی سنت میں جو کچھ آیاہے، اس پر عمل کرنے اور توحید خالص کی دعوت دینے کے لیے آپس میں متحد ہوجائیں تو میں بھی اُن کی طرف قدم بڑھاؤں گا اور جو کام وہ کریں گے اور جو تحریک لے کر وہ اُٹھیں گے، میں ان کےدوش و بدوش رہ کر ان کا ساتھ دوں گا۔
اللہ کی قسم! مجھے حکومت پسند نہیں۔ یہ اَچانک میرے ہاتھ آگئی ہے۔ میں صرف رضائے اِلٰہی کا آرزو مند ہوں اور توحید کی دعوت دینا چاہتا ہوں۔ مسلمان اسے مضبوطی سے پکڑنے کا عہد کریں اور متحد ہوجائیں۔ یوں میں ایک بادشاہ، لیڈریا ایک امیر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک خادم کی حیثیت سے ان کے شانہ بہ شانہ چلوں گا۔5
23 محرم 1348ھ بمطابق یکم جولائی 1929ء کو ایک تقریر میں اُنہوں نے فرمایا:
آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ بعض لوگ راہِ ہدایت سے الگ ہوگئے ہیں، صراطِ مستقیم سے ہٹ گئے ہیں اوران چالوں کی وجہ سے جو بعض مدعیانِ اسلام چلتےہیں اوراسلامی غیرت کا اعلان اور اظہار کرتے ہیں، شیطان کے پھندے میں پڑگئے ہیں۔ اللہ گواہ ہے کہ دین ان سے اور اُن کی کارستانیوں سے بَری ہے۔
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور برابر کہتا رہوں گا کہ جتنا خطرہ مجھے بعض مسلمانوں سے لاحق ہے، اتنا غیر مسلم تارکین وطن سے نہیں، کیونکہ ان کا معاملہ عیاں ہے، ان سے بچنا ممکن ہے، ان کےحملوں کو روکنے، ان کی چال بازیوں کا ناکام بنانے کے لیے تیاری ممکن ہے، یہ لوگ اسلام کے نام پر ہم سے جنگ کرنےکی طاقت نہیں رکھتے۔ رہے بعض مسلمان تو یہ لوگ اب تک نجد اور اہل نجد کے خلاف اسلام اور مسلمانوں کے نام پر چالیں چلتے ہیں اور اسلام کا نام لے کر اپنے مسلمان بھائیوں سے جنگ کرتے ہیں۔
حکومتِ عثمانیہ اسلامی حکومت کے دعویدار ہونے کی بنا پر لوگوں سے زیادہ قریب تھی۔ اس نے ہم سے اسلام اور مسلمانوں کے نام پر کئی شدید جنگیں کیں۔ ہر طرف سے ہمارا محاصرہ کرلیا۔ مدحت پاشانے قطیف اوراحساء کی جانب سے ہم سے جنگ کی، حجاز اوریمن کی طرف سے لشکرِ جرار کی چڑھائی کرادی، شمالی جانب سے عثمانی لشکر چڑھ آیا، ہمیں نیست و نابود کرنےاور اندر خانہ مارنے کے لیے ہر جانب سے محاصرہ کرلیا گیا۔ کیسی کیسی جھوٹی باتیں گھڑی گئیں، غلط باتوں کی کیسی دھول اُڑائی گئی۔ دعوت جس کو تحریک وہابیت کانام دیا گیا، اسے نیا مذہب بتایا گیا۔ امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ پر تہمت لگائی گئی کہ وہ تحریک وہابیت کی ایک نئی بدعت لے کر آئے ہیں اور وہابیوں سے جنگ کرنا فرض ہے، پھر خوبصورت الفاظ سے کانوں کو دھوکے دیئے گئے۔ ہم سے جنگ کی گئی۔ بھولے بھالے اورکم عقل عوام کو ہمارے خلاف بہکایا گیا۔ وہ دھوکا کھاگئے اور حکومت کی باتوں میں آکر ہم سے دشمنی کرنےلگے۔ لیکن ان تمام باتوں کی باوجود اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح و نصرت عطا فرمائی۔ اس دور میں اوروں نے بھی ہمارے ساتھ یہی سلوک کیا، ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا اوردین ہی کے نام پر ہمیں ختم کرنا چاہا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان پر کامیابی عطا فرمائی اور اپنے کلمے کو بلند و بالا رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے قوت توحید سے جو دلوں میں ہے اور طاقت ایمان سے جو سینوں میں ہے، ہماری مدد فرمائی۔
دانائے قلوب اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ توحید نے صرف ہماری ہڈیوں اور جسموں ہی پر قبضہ نہیں کیا بلکہ ہمارے دلوں اور اعضاء و جوارح پر بھی اس کا قبضہ اور غلبہ ہوگیا ہے۔ ہم نے توحید کو شخصی مقاصد پورا کرنے اورمال غنیمت کے حصول کا آلہ کار نہیں بنایا بلکہ ہم اسے مضبوط عقیدے اور قوی ایمان کےساتھ تھامے ہوئے ہیں تاکہ اللہ ہی کا کلمہ بلند رکھا جائے۔6



حوالہ جات 
5. دیکھیے المصحف والسیف ...جمع وترتیب: مجد الدین القابسی، ص :55، 56

6. دیکھیے المصحف والسیف، ص : 58، 59

بشکریہ ، محدث ۔ لاہور
(ماخوذ از کتاب: 'تاریخ وہابیت؛ حقائق کے آئینے میں' ، طبع دارالسلام، لاہور)

Saturday, 23 February 2013

تاریخ اہل حدیث

0 comments
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تاریخ اہل حدیث

مولاناسید بدیع الدین شاہ راشدی رحمة اللہ علیہ

جماعت اہل حدیث ایک قدیم جماعت ہے جس کے امام ‘مرشد اور قائد صرف رسو ل اللہ ﷺ ہیں ۔صحابہ کرام ؓ کے دور سے آج تک یہ جماعت موجود ہے ۔
مولانا محمد ادریس کاندھلوی اپنے رسالہ ”اجتہاد وتقلید “میں لکھتے ہیں کہ اہلحدیث تو تمام صحابہ کرام ؓ تھے ۔امام عامر بن شرجیل جو کبار تابعین میں سے ہیں ‘ان کی پانچ سو صحابہ کرام ؓ سے ملاقات ہوئی ۔(تہذیب )اور وہ 48صحابہ کرام ؓ کے شاگرد تھے اور ان سے احادیث روایت کرتے تھے ۔(تاریخ بغدادی ‘تہذیب )وہ تقریباً 31ھ میں پیدا ہوئے اور تقیباً 110ھ میں انتقال ہوا ۔وہ پہلی اور دوسری صدی کی ابتداءکی شخصیت تھے ‘وہ فرماتے ہیں :
لَوِاستَقبَلتُ مِن اَمرِی مَااستَدبَرتُ مَا حَدَّثتُ اِلَّا بِمَا اَجمَعُ عَلَیہِ اَھلُ الحَدِیثِ(تذکرة الحفاظ)
یعنی جو کچھ میرے ذہن میں ہے اور میں نے سمجھا ہے اگر پہلے خیال میں آتا تو صرف وہ احادیث پڑھاتا جن پر اہلحدیث کا اجماع اور اتفاق ہے ۔اس سے واضح ہوا کہ صحابہ کرام ؓ اور تابعین کے زمانے میں جماعت اہلحدیث موجود تھی ۔امام محمد بن مسلم بن شہاب الزہری المتوفی124ھ ایک دن باہر نکلے تو پکار کر کہا اے اہلحدیث تم کہاں ہو؟۔ پھر انہیں چار سو احادیث پڑھائیں ۔(تذکرہ )حنفی مذہب کے رکن عظیم امام محمد بن حسن شیبانی المتوفی اپنی مشہور کتا ب الموطا 363 باب الیمین مع الشاہد میں فرماتے ہیں :۔
فَکَانَ ابنُ الشِّھَابِ اَعلَمَ عِندَاَہلِ الحَدِیثِ بِالمَدِینَةِ مِن غَیرِہ فِیھَای
عنی امام ابن شہاب زہری مدینہ منورہ کے اہلحدیث کے نزدیک سب سے زیادہ عالم تھے ۔واضح ہو کہ اس وقت یعنی دوسری صدی میں مدینہ طیبہ میں جماعت اہلحدیث کامرکزی تھا ۔کیوں نہ ہو ان کے امام اعظم محمد ﷺ نے نبوت کے آخری دس سال وہاں گزارے اور اسلامی سلطنت قائم کی ۔حنفیت کے دوسرے رکن قاضی ابو یوسف المتوفی 182ھ ایک دن باہر نکلے اور انہوں نے اہلحدیث کو دیکھ کر فرمایا :۔
(ترجمہ )زمین پر تم سے بہتر کوئی نہیں کیوں کہ تم صرف رسول اللہ ﷺ کی احادیث سنتے اور سیکھتے ہو ۔امام حفص بن غیاث المتوفی 194ھ(تقریباً) فرماتے ہیں ”خیر اہل الدنیا“یعنی پوری دنیا میں بہترین جماعت اہلحدیث ہے ۔
اِمَامُ اللُّغَةِ وَالنَّحوِ خَلِیلُ بنُ اَحمَدَالفَرَاھِیدِیُّ المُتَوَفّٰی 164ھ(تقریباً ) فرماتے ہیں ۔اہلحدیث ولی اللہ ہیں ۔اگریہ ولی اللہ نہیں تو پھر اللہ کا کوئی ولی نہیں ہے ۔فقیہ الوقت امام سفیان ثوری ؒ المتوفی 162ھ( تقریباً ) فرماتے ہیں فرشتے آسما ن کے اور اہلحدیث زمین کے محافظ ہیں ۔یعنی یہی دین کے د عوت دینے والے اور تحریر و تقریر سے اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔نیز فرماتے ہیںان کے یہ نیک کافی ہے کہ وہ دیکھنے پڑھنے کے وقت درود شریف لکھتے اور پڑھتے رہتے ہیں ۔مشہور زاہد امام فضیل بن عیاض المتوفی 187ھ اہل حدیث کو دیکھ کر فرمانے لگے ۔ ”یَا وَرَثَةَ الاَنبِیَائِ“ یعنی اے انبیاءکے وارثو ! خلیفہ ہارون الرشید المتوفی 193ھ کہتے ہیں کہ چار صفات
مجھے چار جماعتوں میں ملیں ۔کفر بہیمہ میں ‘بحث اور جھگڑا ‘معتزلہ میں ‘جھوٹ ‘ رافضیوں میں اور حق ،اہلحدیث میں ۔امام محدث عبد اللہ بن مبارک ؒ المتوفی 180 ھ فرماتے ہیں کہ قیامت میں پل صراط پر سب سے زیادہ ثابت قدم اہل حدیث ہوں گے جب اپنے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں احادیث لکھنے کی سیاہی دیکھتے تو فرماتے کہ یہ دین کے درخت کے پودے ہیں ۔آج اگر چھوٹے ہیں تو آخر بڑے ہوں گے ۔امام حماد بن زید المتوفی179 ھ فرماتے ہیں کہ اہلحدیث کا ذکر قرآن کریم میں ہے اور یہ آیت تلاوت کی فَلَو لَا نَفَرَ مِن کُلِّ فِرقَةِ مِّنھُم طَائِفَة لِّیَتَفَقَّھُوا فِی الدِّینِ وَ لِیُنذِرُ وا قَومَھُم اِذَا رَجَعُوا اِلَیھِم لَعَلَّھُم یَحذَرُوا یعنی ہر قوم سے ایک جماعت نکلے تاکہ دین کو سیکھیں ‘سمجھیں اور واپس آکر دوسروں کو سکھائیں او ڈرائیں تاکہ ان میں خوف پیدا ہو ۔مشہور زاہد ابراہیم بن ادھم المتوفی 168ھ فرماتے ہیں کہ اہلحدیث کے دوروں کے سبب اللہ تعالیٰ اس امت سے مصیبتوں کو ٹال دیتا ہے ۔
امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن سعید القطان المتوفی ھ198تو ہمیشہ اہل حدیث کی صحبت سے مسرور اور لطف اندوز ہوتے تھے ۔
یہ اقوال شرف اصحاب الحدیث اہلحدیث سے لئے گئے ہیں ۔یہ تمام محدثین پہلی اور دوسری صدی کے ہیں ۔ان میں صحابہ کرام ؓ بھی ہیں تابعین ؒ اور کچھ تبع تابعین ؒ بھی ہیں ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی دونوں صدیوں یعنی خیر القرون کے زمانے میں جماعت اہلحدیث بڑی کثرت سے موجود اور معروف تھی ۔
تیسر ی صدی میں بھی یہ جماعت کثرت سے موجود تھی ۔امام شافعی ؒ المتوفی204 ھ فرماتے ہیں کسی اہلحدیث کو دیکھتا ہوں تو سمجھتا ہوں کہ نبی ﷺ کو زندہ دیکھ رہا ہوں ۔(شرف)
امام عبد الرزاق صاحب المصنف المتوفی 213ھ امام ابوداﺅد الطیاسی المتوفی 204ھ اور امام احمد بن حنبل المتوفی 241ھ فرقوں والی حدیث جس میں ہے کہ یہ امت فرقے ہو گی ۔ان میں ایک جنت میں جائے گا کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ یہ جماعت اہلحدیث ہے ار فرماتے ہیں
لَیسَ قَوم عِندِی خَیر مِّن اَھلِ الحَدِیثِ لَیسَ یَعرِفُونَ اِلَّا الحَدِیثَ یعنی میرے نزدیک اہلحدیث سے زیادہ بہتر اور کوئی قوم نہیں کیوں کہ یہ حدیث کے سوا اور کوئی بات نہیں جانتے ۔جب ان سے کہا گیا کہ فلاں کہتے ہیں کہ اہلحدیث بری قوم ہے تو جواب میں کہا کہ یہ کہنے والے زندیق اور ملحد ہیں ۔
اسحق بن موسی الخطمی المتوفی224 ھ فرمتے ہیں کہ آیت یعنی وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُم دِینَھُمُ الَّذِی ارتَضٰی لَھُم(النور) اللہ تعالیٰ انہیں اپنے پسند کئے ہوئے دین میں قوت عطاءفرمائے گا ۔اس کامصداق اہلحدیث ہیں کیوں کہ ان کی پیش کی ہوئی ایک ایک حدیث دنیا قبول کرتی ہے لیکن اہل الرائے کی حدیث مقبول نہیں ہوتی ۔
عبد اللہ بن داﺅد الخریبی المتوفی213 ھ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے اساتذہ سے سنا کہ اہلحدیث اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے دین کے امین ہیں یعنی علم وعمل میں رسول اللہ ﷺ کے دین کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔
ولید الکرابیسی المتوفی214 ھ نے انتقال کے وقت اپنی اولاد سے پوچھا کیا تم مجھے سچا سمجھتے ہو ؟۔انہوں نے کہا ہان ۔فرمایا جماعت
اہلحدیث کی صحبت میں رہنا کیوں کہ میں نے حق ان کے پاس دیکھا ہے ۔امام ابو رجاءقتیبہ بن سعید المتوفی
240ھ فرماتے ہیں جس شخص کو دیکھو کہ وہ اہلحدیث مثلاً یحییٰ بن سعید القطان ‘عبد الرحمن بن مہدی ‘احد بن حنبل ‘اسحق بن راہویہ رحمھم اللہ وغیرہ سے محبت کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ اہل سنت ہے اور جسے ان کی مخالفت کرتے دیکھو تو ان کو بدعتی سمجھو ۔
امام یزید بن ہارون المتوفی 206ھ اس حدیث کو کہ ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ وہ جماعت اہلحدیث ہے ۔امام ابو عبد اللہ الحمیدی المتوفی 213ھ‘امام ابوعبید القاسم بن سلام البغدادی المتوفی224 ھ‘امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین المتوفی233 ھ‘محمد بن سعد الواقدی المتوفی 230ھ‘امام ابوبکر بن ابی شیبہ المتوفی235 ھ‘امام مسلم المتوفی اپنی صحیح کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ میں یہاں اہلحدیث کا مذہب بیان کرتا ہوں ۔امام نسائی المتوفی230 ھ‘امام ابوداﺅد المتوفی 275ھ‘امام محمد بن نصر المروزی المتوفی294 ھ‘امام ابو اسحاق ابراہیم الحربی المتوفی285 ھ‘امام عبد اللہ بن احمد بن حنبل المتوفی 290ھ‘امام بقی بن مخلد القرطبی الاندلسی المتوفی 276ھ‘جب مذہب اہلحدیث کی اشاعت کرنے لگے ‘تب اندلس کے بدعتیوں نے ان سے تعصب کرنا شروع کیا لیکن اندلس کے امیر عبد الرحمن نے ان کی حمایت کی اور علم کی اشاعت کرنے کے لئے کہا ۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے یہاں مذہب اہلحدیث کا درخت لگا دیا ہے جسے دجال کے سوا کوئی نہیں نکال سکتا ۔(تذکرہ )
بحمد اللہ عیسائیوں کی حکومت کے باوفود اسپین میں آج تک اہلحدیث جماعت موجود ہے ۔
امام ابن قتیبہ المتوفی276 ھ جنہوں نے مشہور کتاب (تاویل مختلف الحدیث فی الرد علی اعداءاہل الحدیث)تصنیف کی ہے جس میں اہلحدیث کی شان زور وشور سے بیان کی گئی ہے اور اہل الرائے کی زبردست تردید کی گئی ہے ۔
امام ابوبکر بن ابی عاصم المتوفی280 ھ‘امام علی بن المدینی المتوفی234 ھ اس حدیث کہامت میں ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی کے سلسلے میں فرماتے ہیں کہ وہ جماعت اہل حدیث ہے ۔
مکی تصنیفات کی فہرست میں ایک کتاب مزہب المحدثین بھی ہے (علوم الحدیث )
عبد اللہ بن عثمان لقب عبدان المتوفی 222ھ جنہیں امام الحدیث کہا جاتا ہے (تہذیب)
حدیث ”طوبی للغرباء“کے بارے میں فرماتے ہیں اس سے متقدمین اہلحدیث مراد ہیں ۔احمد بن سنان القطان المتوفی258 ھ فرماتے ہیں کہ دنیا میں جو بدعتی ہے وہ اہلحدیث سے بغض رکھتا ہے ۔امام عثمان بن سعید الدارمی المتوفی 280ھ وغیر ہم مختلف علاقوں کے ہیں اور اپنے اپنے علاقے کے متعلق یہ خبر دیتے ہیں کہاس صدی میں ملک کے ہر حصے میں جماعت اہل حدیث بکثرت موجود تھی ۔
چوتھی صدی میں بھی جماعت اہلحدیث کا دور دورہ تھا ۔امام ابو احمد الحاکم المتوفی 278ھ جنہوں نے کتاب شعار اصحاب الحدیث تصنیف کر کے جماعت اہلحدیث کا تعارف کروایا اور ان کے عقائد اور مسائل ذکر کیے۔
امام ابو القاسم الطبرانی ‘امام ابن حبان البتی المتوی ھ ‘امام ابو الحسن الدار قطنی المتوفی385 ھ جن سے امام ابو الحسن اشعری المتوفی 320ھ نے مذہب اہلحدیث کی تعلیم حاصل کی ۔ان کی کتاب الابانة مشہور ہے ۔دوسری کتاب مقالات الاسلامیین بھی ہے ۔جس میں اہلحدیث کاتعارف ‘ان کے مسائل اور عقائد دلائل کے ساتھ ثابت کیے ہیں ۔
امام ابو الولید بن محمد المتوفی 340ھ سارے خراسان میں مذہب اہلحدیث کے امام سمجھے جاتے تھے(مختصر نیشا پور ) امام حافظ ابن عدی الجرجانی المتوفی375 ھ‘امام ابوبکر الاسماعیلی جو اہلحدیث کے عقائد بیان کرتے ہیں (تذکرہ )
امام ابو جعفر عقیلی المتوفی332 ھ‘ امام ابن مندہ المتوفی301 ھ‘ابو مزاحم الخاقانی المتوفی 325ھ‘نے اہلحدیث کی شان میں ایک قصیدہ کہا ہے ۔ایک شعر یہ ہے :۔
اَہلُ الحَدِیثِ ھُمُ النَّاجُنَ اِن عَمِلُوا
بِہ اِذَا مَا اَتیٰ عَن کُلِّ مُؤتَمِن
یعنی اہلحدیث ہی نجا ت یافتہ جماعت ہے ۔اگر وہ حدیث پر عامل رہے کیوں کہ یہ حدیث بذریعہ امانت داروں کے ہمارے پاس پہنچی ہے ۔ان کے علاوہ اور بھی بہت لوگ ہیں ۔ظاہر ہے کہ یہ صدی بھی جماعت کی رونق ‘تبلیغ ‘دعوت اور تحریک سے معروف ومعمور رہی۔۔۔۔۔
پانچویں صدی میں بے شمار اہلحدیث گزرے ہیں ۔امام ابو عثمان الصابونی المتوفی 449ھ جن کی کتاب عقیدہ السلف اصحاب الحدیث مشہور ہے ۔جس میں اہلحدیث کا تعارف اور اس جماعت کی تحریک کا زور و شور بیان کیا ہے ۔
امام ابو عبد اللہ محمد بن علی الصوری المتوفی 441ھ جن کا اہلحدیث کی شان میں اور ان کی طرف سے مدافعت میں مشہور قصیدہ ہے ۔امام حافظ ابو نعیم الاصفہانی المتوفی 430 ھ‘ امام ابو القاسم اللالکائی المتوفی 418ھ جن کی کتاب ”کتاب السنة “اہلحدیث کے عقائد کے سلسلے میں مشہور ہے ۔امام الحرمین ابو المعالی الجوینی المتوفی 486ھ جن کی تصنیف کی ہوئی کتاب الانتظار لاہل الحدیث ہے جس میں اہلحدیث پر اہل الرائے کے اعتراضات کی تردید ہے ۔آپ فرماتے ہیں کہ اہلحدیث ایک دوسرے سے عقائد اور دین سیکھتے ہیں اور یہ سلسلہ رسول اللہ ﷺ تک پہنچتا ہے ۔یہی طریقہ دین کے سمجھنے کا ہے اور اہلحدیث نے یہی طریقہ اختیار کیا ہے ۔(تاریخ اہلحدیث )
چھٹی صدی میں ہر طر ف جماعت کے وجود کا ثبوت ملتا ہے۔امام امیر ابن ماکولا المتوفی516 ھ ‘قاضی ابوبکر ابن العزلی المتوفی 453ھ‘امام الحفاظ ابوطاہر سلفی المتوفی576 ھ امام محدث قاضی عیاض الیحصبی المتوفی 544ھ ‘امام حافظ بن عساکر الدمشقی المتوفی 571ھ‘سید شیخ عبد القادر جیلانی المتوفی 561ھ جنہوں نے اپنی کتاب غنیة الطالبین میں تصریح کی ہے ۔فرقوں میں نجات یافتہ فرقہ صرف اہلحدیث ہے ۔
یہی حال ساتویں صدی کا ہے مثلاً مجدد الدین ابن تیمیہ المتوفی622 ھ‘شیخ الاسلام کے دادا حافظ عبد العظیم المنذری المتوفی656 ھ‘شیخ جمال الدین ابن الصابونی المتوفی661 ھ‘حافظ ابوبکر ابن نقطہ المتوفی629 ھ‘حافظ ابو عبد اللہ ابن الدیبشی المتوفی 639ھ‘مورخ شہاب الدین یا قوت الرومی الحمری المتوفی662 ھ‘امام ابو السعادت مبارک ابن الاثیر الجزری المتوفی606 ھ‘وغیرہم
آٹھویں صدی میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ المتوفی728 ھ‘حافظ ابو الحجاج ضری المتوفی 742ھ‘حافظ ابن دقیق العید المتوفی702 ھ‘ حافظ ابن صلاح الدین صنعدی المتوفی764 ھ‘علامہ تاج الدین سبکی المتوفی771 ھ‘علامہ فخرالدین الزراوی الہندی المتوفی778 ھ کا صاف کہنا ہے کہ آیت فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون (النحل )میں مطلق سوال کا ذکر ہے اسلئے کسی خاص شخص کا مذہب اختیار کرنا بدعت ہے اسی طرح تقلید حدیث کے آگے رکاوٹ بنتی ہے ۔(نزھة الخواطر )وغیرہم ۔
نویں صدی میں امام الفضل عدامتی المتوفی806 ھ‘حافظ نور الدین الھیثمی المتوفی807 ھ‘علامہ مجدد الدین الفیروز آبادی المتوفی827 ‘حافظ ابن حجر العسقلانی المتوفی852 ھ‘حافظ تقی الدین الفاسی المتوفی 832ھ‘حافظ بدر الدین العینی الحنفی المتوفی855 ھ‘وغیرہم ۔
دسویں صدی میں سلطان محمود بن محمد الگجراتی المتوفی945 ھ جن کے پاس اہل حدیث کا عام آنا جانا تھا ۔اس لئے اس علاقے میں حدیث کا رواج عام ہا حتی کہ اس علاقے کو یمن کے علاقے سے مشابہت دی جاتی تھی ۔(نزہة الخواطر )
گیارہویں صدی میں نجم الدین ابن غزی المتوفی 1061ھ‘تاج الدین ابن اسماعیل الگجراتی المتوفی 1007ھ جومکمل صحاح ستہ کے حافظ تھے (نزہة الخواطر )
قاضی نصیر الدین البرہانوی المتوفی 1031ھ جو قیاس قول اور رائے پر حدیث کو ترجیح دیتے تھے ۔(نزہة الخواطر )
بارہویں صدی میں شیخ محمد فاخر الہ آبادی المتوفی 1164ھ جنہوں نے رفع الیدین کی شان میں منظوم رسالہ لکھا اور شان اہلحدیث پر بھی ایک منظوم رسالہ لکھا (نزہة الخواطر )
دوم محمد معین ٹھٹوی المتوفی 1174ھ‘محدث امیر یمانی صنعانی المتوفی1182 ھ‘امام الہند شاہ ولی اللہ المتوفی1176 ھ‘علامہ ابو الحسن سندھی المتوفی 1136ھ جن کے صحاح سہ اور مسند احمد پر حاشے مشہور ہیں ۔علامہ محمد حیات سندھی المتوفی1136 ھ جن کا رسالہ تحفہ الانام فی العمل النبی ﷺ ہے ۔جس میں تقلید کا رد کیا گیا ہے اور مسلک اہلحدیث ثابت کیا ہے ۔(وغیر ہم )
تیرھویں صدی میں امام محدیث محمد بن علی الشوکانی الصنعانی المتوفی1250 ھ‘شاہ عبد العزیز محدث دہلوی المتوفی 1229ھ‘امام مجاہد شاہ اسمٰعیل شہید المتوفی 1246ھ‘علامہ خرم علی بلہوری المتوفی1271 ھ‘علامہ محمد حامدسندھی المتوفی1257 ھ‘امام الدعوة شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدی المتوفی 1206ھ جن کے نام سے آج تک انگرز ڈرتے رہے ہیں ۔ان کے پوتے علامہ عبد الرحمن بن حسن المتوفی 1285ھ‘علامہ احمد طحطاوی حنفی المتوفی1231 ھ‘قاضی ثناءاللہ پاتی المتوفی1225 ھ‘علامہ حیدر علی طوکی المتوفی 1273ھ جنہوں نے رفع الیدین کے ثبوت میں ایک مستقل رسالہ لکھا ۔(نزہة الخواطر )
علامہ عبد العزیز پڑھیاروی ملتانی جن کی کتاب کوثر النبی ﷺ مشہور ہے ۔اس میں لکھتے ہیں وہ علماءجو انبیائے کرام کے وارث ہیں ۔وہ صرف اہلحدیث ہیں اور امام احمد سے ثابت کرتے ہیں کہ جس جماعت کے ہمیشہ حق پر ہونے کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے جو پیشین گوئی فرمائی ‘وہ اہلحدیث ہیں وغیرہم ۔
چودھویں صدی میں لاتعداد اللہ کے بندے گزرے ہیں ۔شیخ الکل میاں سید نذیر حسین دہلوی المتوفی1320 ھ جنہوں نے پچاس برس سے زیادہ ایک جگہ پر بیٹھ کر حدیث کا درس دیا ۔دنیا میں علم حدیث والے زیادہ تر ان کے شاگرد یا ان کے شاگردوں کے شاگرد ہیں ۔آپ کی کتاب معیار الحق مسلک کو ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے ۔نواب صدیق حسن خان المتوفی 1307امجد ابو تراب رشد اللہ شاہ راشدی المتوفی 1340ھ جن کے رسالے اہلحدیث مذہب کے تعارف کے لئے مشہور ہیں ۔امام المفسرین الاستاذ ابو الوفا ثناءاللہ امرتسری المتوفی1377 ھ جن کی خدمات کو دنیا کے اہلحدیث ہمیشہ یاد کرتے رہتے ہیں ۔آپ کا ہفت روزہ اخبار اہلحدیث برسہا برس دنیا میں اپنے نام کے ساتھ چمکتا رہا ۔نواب وحید الزمان المتوفی1328 ھ محدث وقت علامہ حافظ عبد اللہ روپڑی المتوفی1384 ھ جن کا اخبار تنظیم اہلحدیث دعوت دین دیتا رہا ۔علامہ السیف القاطع محمد جونا گڑھی المتوفی1360 ھ جن کے محمدی نام سے بے شمار رسالے مشہور ہیں اور کئی برس تک آپ کا اخبار محمدی کام کرتا رہا ۔شیخ المشائخ محدث علامہ محمد بشیر سہسوانی المتوفی1306 ھ علامہ الزمان مولانا ابو القاسم سیف بنارسی المتوفی1361 ھ فخر المحدثین علامہ ابو العلی عبد الرحمن مبارکپوری المتوفی1353 ھ مناظر لاجواب شیخ عبد الرحیم رحیم آبادی المتوفی1320 ھ ‘علامہ اہل اللہ شیخ سراج الدین مدھو پوری المتوفی1380 ھ شیخ علامہ خلیل ہراس المتوفی 1392ھ علامہ سید رشید رضا مصری المتوفی 1353ھ مناظر اسلام احمد دین گکھڑوی ‘علامہ ابو المعالی محمود شکری آلوسی علامہ ابو سعید شرف الدین الدھلوی المتوفی 1381ھ علامہ شیخ عبد الستار دہلوی المتوفی1386 ھ امام الہند ابو الکلام آزاد المتوفی1377 ھ علامہ بدیع الزمان لکھنﺅی المتوفی1304 ھ مولانا انور شاہ کشمیری المتوفی1352 ھ علامہ عبد الحی بن فخر الدین اور دوسرے بھی بہت سے عالم اسی صدی میں گزرے ۔مثلاً علامہ عبدالتواب ملتانی ‘علامہ عبد الحق ملتانی ‘علامہ عبد الحق بہاولپوری ‘علامہ محمد اسمٰعیل سلفی ‘علامہ محمد داﺅد غزنوی ‘علامہ خان مہدی زماں ‘علامہ رشید احمد گنگوہی ‘محدث علامہ محمد حسین بٹالوی ‘قاضی محمد سلیمان منصوری ‘علامہ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی وغیر ہم جن احصاءاور شمار ممکن نہیں ۔
اسی طرح موجودہ پندرھویں صدی ہمارے سامنے ہے جن میں بعض تو وفات پاچکے ہیں ۔مثلاً حافظ فتح محمد جہلمی مہاجر مکی ‘حافظ محمد محدث گوندلوی ‘مولانا محمد عمر ڈیپلائی شارح مشکوٰ ة سندھی‘ شیخ عبد اللہ بن حمید نجدی ‘مولانا محمد صادق سیالکوٹی ‘علامہ احسان الہٰی ظہیر شہیدؒ‘مولانا عبالخالق قدوسی شہید ؒ‘مولانا حبیب الرحمن یزدانی شہید ؒوغیرہم ۔ان کے علاوہ جو زندہ ہیں اور کام کر رہے ہیں ۔وہ لاتعداد ہیں ۔دنیا کے ہر ملک میں جماعت اہلحدیث موجود ہیں۔الحمد للہ۔۔۔

اس طرح رسول اللہ ﷺ کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت تک امیری امت میں ایک جماعت حق پر قائم رہے گی ۔کسی کی بھی مخالفت یا دشمنی اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔بحمد للہ !یہ جماعت تا ابد الاباد زندہ اور متحرک رہے گی (ان شاءاللہ تعالیٰ)
0 comments
طائفہ منصورہ اھل سنت والجماعت کی صفات

اس جماعت کی شروط کیا ہیں جس کی شرعی طور پر اتباع مسلمان پر واجب ہے ؟
الحمد للہ
مسلمان پر یہ واجب اور ضروری ہے کہ وہ طائفہ منصورہ اھل سنت والجماعت میں شامل ہوکر سلف صالحین کی اتباع کرتے ہوۓ حق پر چلے اور عمل کرے ، ان سے محبت کرے چاہے وہ اس کے ملک میں ہو ں یا کہ کسی اور جگہ اور ان سے نیکی اور بھلائ اور تقوں میں تعاون کرتا رہے اور ان کے ساتھ مل کر اللہ تعالی کے دین کی مدد و نصرت کرے ۔
ذیل میں ہم اس کامیاب اور طائفہ منصورہ کی صفات ذکر کرتے ہیں :
ان صفات کے متعلق بہت سی احادیث صحیحہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں جن میں چند ایک یہ ہیں :
امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوۓ سنا :
( میری امت میں سے ایک گروہ ایسا ہو گا جو کہ اللہ تعالی کے احکام پر عمل کرتا رہے گا جو بھی انہیں ذلیل کرنے یا انکی مخالفت کرے گا وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا حتی کہ اللہ تعالی کا حکم ( قیامت ) آ جاۓ کا اور وہ لوگ اس پر قائم ہوں گے )
اور عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( ہمیشہ ہی میری امت میں سے ایک گروہ حق پر قائم رہے گا حتی کہ قیامت قائم ہو جاۓ گی )
اور مغیرۃ بن شعبہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوۓ سنا :
( میری امت میں ایک قوم لوگوں پر غالب رہیں گے حتی کہ قیامت قائم ہو جاۓ گی )
اور عمران بن حصین رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتےہیں کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( میری امت میں سے ایک گروہ حق پر لڑتا رہے گا ، جو اپنے دشمن پر غالب رہے گا ، حتی ان میں سے آخری شخص مسیح الدجال سے لڑائ کرگا )
ان مندرجہ بالا احادیث سے چند ایک امور اخذ کیۓ جا سکتے ہیں :
پہلا :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ( میری امت میں سے ہمیشہ ہی ) میں اس بات کی دلیل ہے کہ امت میں سے ایک گروہ ہے نہ کہ ساری کی ساری امت ، اور اس میں اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ اس کے علاوہ بھی گروہ اور فرقے ہوں گے ۔
دوسرا :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ( جو ان کی مخالفت کرے گا وہ انہیں کوئ نقصان نہیں دے سکے گا ) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ طائفہ منصورہ کے علاوہ اور بھی فرقے ہوں گے جو کہ دینی معاملات میں اس کی مخالفت کريں گے ۔
اور اسی طرح یہ اس حدیث افتراق کے مدلول کے موافق ہے کہ بہترفرقے فرقہ ناجیہ کے حق پر ہونے کے باوجود اس کی مخالفت کریں گے ۔
تیسرا :
دونوں حدییثوں میں اھل حق کے لۓ خوشخبری ہے ، طائفہ منصورہ والی حديث انہیں دنیا میں مدد اور کامیابی کی خو‎شخبری دیتی ہے ۔
چوتھا :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ( حتی کہ اللہ تعالی کا امر آجاۓ ) سے مراد یہ ہے کہ وہ ہوا آجاۓ جو کہ ہر مومن مرد وعورت کی روح کو قبض کر لے ، تو اس سے اس حدیث ( میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ ہی حق پر قائم رہے گا حتی کا قیامت آجاۓ ) کی نفی نہی ہوتی کیونکہ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ہی حق پر قائم رہیں گے حتی کہ یہ ہوا قرب قیامت اور قیامت کی نشانیوں کے ظہور کے وقت ان کی روحیں قبض کرلے گی ۔
طائفہ منصورہ کی صفات :
اوپر بیان کی گئ احادیث اور دوسری روایات سے طائفہ منصورہ کی مندرجہ ذیل صفات اخذ کی جاسکتی ہیں :
1 – کہ یہ گروہ حق پر ہے ۔تو حديث میں یہ وارد ہے کہ وہ حق پر ہیں ۔
اور یہ گروہ اللہ تعالی کے امر پر ہے ۔
اور یہ گروہ اس امر پر ہے ۔
اور یہ گروہ اس دین پر ہے ۔
تو یہ سب الفاظ اس بات اور دلالت پر مجتمع ہیں کہ یہی لوگ دین صحیح اوراستقامت پر ہیں جس دین کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رسول بنا کر بھیجے گۓ ہیں ۔
2 – یہ گروہ اللہ تعالی کے امر کو قائم کۓ ہوۓ ہے ۔
اور ان کا اللہ تعالی کے امر کو قائم کرنے کا معنی یہ ہے کہ :
ا – وہ دعوت الی اللہ کے حامل ہونے کی بنا پر سب لوگوں میں متمیز ہیں ۔
ب – اور یہ کہ وہ اس اہم کام ( امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ) کو قائم رکھے ہوۓ ہیں ۔
3 - کہ یہ گروہ قیامت تک ظاہر رہیں گے :
احادیث میں اس گروہ کو اس وصف سے نوازا گیا ہے کہ ( وہ ہمیشہ ہی ظاہررہیں گے حتی کہ قیامت قائم ہو جاۓ گی اور وہ ظا ہر ہوں گے )
اور (ان کا حق پر ظاہر ہونا )
یا ( قیامت تک ظاہر ہوں گے )
یا ( جو ان سے دشمنی کرے گا اس پر ظاہر ہوں گۓ )
یہ ظہور اس پر مشتمل ہے کہ :
وضوح اور بیان کے معنی میں ہے تووہ جانے پہچانے اور ظاہر ہیں ۔
اس معنی میں کہ وہ حق پر ثابت اور دین میں استقامت اور اللہ تعالی کے امرکو قا‏ئم کيۓ ہو ۓ اور اللہ تعالی کے دشمنوں سے جھاد جاری رکھے ہوۓ ہيں۔
اور ظہور غلبہ کے معنی میں ہے ۔
3 - یہ گروہ صبر و تحمل کا مالک اور اس میں سب پر غالب ہے ۔
ابو ثعلبہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( تمہار پیچھے صبر والے ایام آرہے ہیں ، اس میں ایسا صبر ہو جس طرح کہ انگارہ پکڑ کر صبر کیا جاۓ )
طائفہ منصورہ والے کون لوگ ہیں ؟
امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے کہ : وہ اہل علم ہیں ۔
اور بہت سارے علماء نے یہ ذکر کیا ہے کہ طا‏ئفہ منصورہ سے مراد اھل حدیث ہیں ۔
اور امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ یہ گروہ مومن لوگوں کی انواع میں پیھلا ہوا ہے : ان میں سے کچھ تو بہادری کے ساتھ لڑنے والے ہیں ، اور ان میں سے فقھاء بھی ہیں ، اور اسی طرح ان میں محدثین بھی ہیں ، اور ان میں عابدوزاھد لوگ بھی ہیں ، اور ان میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے بھی ہیں ، اور اسی طرح ان میں اور بھی انواع ہیں ۔
اور ان کا یہ بھی قول ہے کہ : یہ جائز ہے کہ یہ طا‏ئفہ اور گروہ مومنوں کی متعدد انواع میں ہو ، ان میں قتال وحرب کے ماہر اور فقیہ اور محدث اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرنے والے ، اور زاھد اور عابد شامل ہيں۔
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ : ( انہوں نے اس مسئلہ میں تفصیل بیان کرتے ہوۓ کہا ہے ) یہ لازم نہیں کہ وہ کسی ایک ملک میں ہی جمع ہوں بلکہ یہ جائز ہے کہ وہ دنیا کے کسی ایک خطہ میں جمع ہوں جائيں ، اور دنیا کے مختلف خطوں میں بھی ہو سکتے ہیں ، اور یہ بھی ہے کہ وہ کسی ایک ملک میں بھی جمع ہوجائيں ، اور یا پھر مختلف ممالک میں ، اور یہ بھی ہے کہ ساری زمیں ہی ان سے خالی ہوجاۓ اور صرف ایک ہی گروہ ایک ہی ملک میں رہ جاۓ تو جب یہ بھی ختم ہوجاۓ تو اللہ تعالی کا حکم آجاۓ گا ۔
تو علماء کرام کی کلا م کا ماحاصل یہ ہے کہ یہ کسی ایک گروپ کے ساتھ معین نہیں اور نہ ہی کسی ایک ملک کے ساتھ محدد ہے ، اگرچہ ان کی آخری جگہ شام ہوگی جہاں پر دجال سے لڑيں گے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے ۔
اور اس میں کوئ شک و شبہ نہیں جو لوگ علم شریعت کے میں عقیدہ اور فقہ اور حدیث و تفسیر کی تعلیم و تعلم اور اس پر عمل کرنے اوراس کی دعوت دینے ميں مشغول ہیں یہ لوگ بدرجہ اولی طائفہ منصورہ کی صفات کے مستحق ہیں اور یہ ہی دعوت و جھاد اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور اہل بدعات کے رد میں اولی اور آگے ہیں ، تو ان سب میں یہ ضروری ہے کہ وہ علم صحیح جو کہ وحی سے ماخوذ ہے لیا جاۓ ۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گوہیں کہ وہ ہمیں بھی ان میں سے کرے ، اور اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں نازل فرماۓ آمین ۔
واللہ تعالی اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد

فرقہ ناجیہ

0 comments
فرقہ ناجیہ ( کامیاب) کےخصائص :

کامیاب اورفرقہ ناجیہ کی اہم اورظاہر خصوصیات اورصفات کیا ہیں ؟ 

اورکیاان خصوصیات کےناقص ہونےسےانسان فرقہ ناجیہ سےنکل جا تا ہے ؟ 


الحمدللہ
فرقہ ناجیہ کی اہم اور ظاہر خصوصیات یہ ہیں کہ : عقیدہ وہ ہو جوکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا ، عبادات بھی اس طرح ہوں جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ادا کرتےتھےاوراسی طرح اخلاق اورمعاملات میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتےہوں ۔
توآپ یہ چارچیزیں اورخصوصیات فرقہ ناجیہ میں ظاہر اورواضح پائیں گے ۔
آپ فرقہ ناجیہ کوعقیدہ کےاعتبارسےدیکھیں گےکہ توحیدربوبیت اورتوحیدالوہیت اورتوحیداسماءوصفات میں ان کاعقیدہ وہی ہوگاجوکہ کتاب وسنت میں بیان کیاگیا ہے اوروہ اس عقیدے پرمضبوطی سےعمل کریں گے ۔
اورعبادات کے اندر بھی آپ فرقہ ناجیہ کودیکھیں گےوہ عبادات کی ساری کی اقسام پراسی طرح عمل پیراہیں جس طرح کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کرتےتھےوہ عبادات کی صفات اوراس کے اوقات اورزمانے اوراسباب اورمکان میں وہی طریقہ اختیارکرتےہیں جوکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کا رتھا ۔
آپ انہیں نہیں دیکھیں گےکہ وہ دین میں بدعات نکا لتےاوران پرعمل کرتے ہیں ، بلکہ وہ اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاانتہائی ادب واحترام کرتے ہیں اوراللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جوچیزمشروع نہیں کی اورنہ ہی اس کی اجازت دی ہے یہ لوگ اللہ تعالی اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم سےآ گےبڑھتے ہوئےاسے عبادات میں شامل نہیں کر تے ۔
اوراسی طرح آپ اخلاقیات میں بھی انہیں دوسروں سےممتازدیکھیں گےمسلمانوں سےمحبت اوران کے لئے خیرچاہتےہیں ملنےجلنےمیں ہشاش بشاش چہرہ اوربولنے میں کلام شیريں استعمال کرتے ہیں اوراپنے سینے اوردل کووسیع اورکھلا رکھتے ہیں شجاعت اوربہادری بھی ان میں پائی جاتی ہے کرم وسخاوت میں بھی دوسروں سےامتیازرکھتے ہیں اس کے علاوہ دوسرے اخلاق میں بھی ۔
اورجب معاملات کا معاملہ آئے توآپ اس میں بھی انہیں آ پ انہیں دیکھیں گےکہ وہ لوگوں سےمعاملات میں سچائی اورصدق کواستعمال کرتے ہیں اوراس چیزکوبیان بھی کرتے ہیں جسےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کرنے کا کہا ہے ۔
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
( خریداراورفروخت کرنےوالے کوجداہونےسے پہلے پہلے اختیارحاصل ہے اگرتووہ سچائی سےکام لیتےہیں اور( عیب وغیرہ کو ) بیان کرتے ہیں توان کے لئے بیع میں برکت ڈال دی جاتی ہے اوراگرجھوٹ سے کام لیتے اورعیب کوچھپاتے ہیں توان کی بیع اورسودے میں برکت ختم کردی جاتی ہے ) ۔
اوران خصوصیات میں سے نقص ہونےکی بنا پرانسان ہردرجے میں ان کے عمل کے اعتبارسے فرقہ ناجیہ میں سےنکل نہیں جاتا ، لیکن توحیداورعقیدہ میں نقص ہونے کی وجہ سے بعض اوقات فرقہ ناجیہ میں نکل جاتا ہے مثلااخلاص کانہ ہونااوراسی طرح بعض بدعات کی بنا پر بھی انسان فرقہ ناجیہ سےنکل جاتا ہے کہ وہ ایسی بدعت کا مرتکب ہوجواسےفرقہ ناجیہ سےخارج کردے ۔
لیکن اخلاق اورمعاملات کے مسئلہ میں نقص کی بناپر خارج نہیں ہوگا بلکہ اس سےاس کا مرتبہ ضرورکم ہوگا۔
اخلاق کامسئلہ تفصیل کا محتاج ہے ، بیشک اس میں سب سےاہم چیزحق پراتفاق اوراجتماع ہے جس کے بارہ میں اللہ تعالی نے بھی ہمیں وصیت فرمائی ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
{ اللہ تعالی نےتمہارے لئےوہی دین مقررکیا ہے جس کےقائم کرنے کااس نےنوح ( علیہ السلام ) کوحکم دیاتھااورجسےہم وحی کے ذریعہ تیری طرف بھیج دیااورجس کاتا کیدی حکم ہم ابراہیم اورموسی اورعیسی ( علیہم السلام ) کودیاتھا کہ اس دین کوقائم رکھنا اوراس کے متعلق اختلاف نہ کرنا } ۔الشوری ۔(13)
اوراللہ تعالی نےیہ خبر بھی دی کہ جنہو ں نےاپنے دین میں اختلاف کیا تووہ گروہوں میں بٹ گئےان سےنبی صلی اللہ علیہ وسلم بری ہیں ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کاارشاد ہے :
{ بیشک جن لوگوں نے اپنے دین کوجداجدا کردیا اورگرو ہوں میں بٹ گئےآپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں } ۔الانعام ۔(159)
توکلمہ میں اتفاق اوردلوں کاایک ہونافرقہ ناجیہ ۔ اہل سنت والجماعت ۔کی سب سے اہم اورظاہر خصوصیت ہے ، تواگران میں کوئی کسی جتہادی معاملات میں اجتہادکی بنااختلاف پیداہوجاتا ہے اس کی بنا پران میں بغض وعناداورکینہ ودشمنی پیدانہیں ہوتی بلکہ وہ اس بات کااعتقادرکھتے ہیں کہ اگرچہ ان میں یہ اختلاف پید اہوا ہے اس کےباوجودوہ آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔
حتی کہ ان میں وہ شخص اس کے پیچھے جس کے متعلق اس کاخیال ہے کہ وہ بے وضوء ہے نماز پڑ ھ لیتا ہے لیکن نماز پڑ ھا نے والےامام کے خیال میں یہ ہے کہ وہ بے وضوء نہیں ۔
اس کی مثال اس طرح لے ليں کہ ایک شخص اس امام کے پیچھے نماز پڑ ھتاجس نےاونٹ کا گوشت کھایا اوراس امام کے ہاں اونٹ کا گوشت کھا نے سے وضوء نہیں ٹوٹتا اورمقتدی کاخیال ہے کہ وضوء ٹوٹ جاتا ہے لیکن اس امام کے پیچھے نمازپڑھنی صحیح ہے اگروہ ا کیلانماز پڑ ھے تو اس کی نماز صحیح نہیں ، یہ سب اس لئے ہے وہ اسے اس اختلاف کو ان مسائل میں اجتہادی اختلاف سمجھتے ہیں جن میں اجتہاد ہوسکتا ہے جو کہ حقیقی اختلاف نہیں ۔
کیونکہ دونوں فریقوں میں سے ہرایک اس دلیل پرچل رہا ہے جسےچھوڑ ناجائز نہیں ان کی رائے یہ ہے کہ ان کے بھائی نے اگرکسی عمل میں دلیل پر چلتے ہو ئے ان کی مخالفت کی ہے تو حقیقت میں اس نے ان کی موافقت کی ہے کیونکہ وہ وہ دعوت دیتے ہیں کہ دلیل کے پیچھے چلووہ دلیل جہاں بھی ہو، تواگر وہ کسی ایسی دلیل کی موافقت میں ان کی مخا لفت کرتا ہے جوکہ اس کے پاس ہے توحقیقت میں اس نے ان کی موافقت کی ہے ۔
کیونکہ وہ اس پر چل رہا ہے جس کی وہ دعوت دیتے اوراس کی طرف راہمنائی کرتے ہیں کہ کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرعمل کیا جائے ۔
بہت سےاہل علم پریہ بات کوئی پوشیدہ نہیں اس جیسےمعاملات میں صحابہ ا کرام کے درمیان جواختلاف ہواحتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمیں بھی اوران میں سے کسی نے بھی کوئی سختی نہیں کی ۔
اس کی مثال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ احزاب سے واپس لوٹےتوآپ کے پاس جبریل علیہ السلام آئے اورانہیں یہ اشارہ دیا کہ وہ بنوقریظہ کی طرف نکلیں جنہوں نے عہد کوتوڑا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ان کے خلاف نکلنےکا کہا اورفرمایا :
( تم میں سے ہرایک عصر کی نماز بنوقریظہ میں جا کرپڑ ھے )
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدینہ سے بنوقریظہ کی طرف نکلے توعصرکی نماز کا وقت ہوگیا،لھذا بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے نماز میں تاخیر کرلی حتی کہ وہ بنوقریظہ نماز کا وقت نکل جانے کے بعد پہنچے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔
( تم میں سے ہرایک عصر کی نماز بنوقریظہ میں جا کرپڑ ھے )
اوربعض نےنماز کو وقت پر پڑ ھاان کا قول یہ تھا کہ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاارادہ ہمیں جلدی نکلنے کا ہے نہ کہ نماز کووقت سےموخرکر نے کا ۔تویہ سب کے سب صواب پر ہیں ۔لیکن اس کے باوجودنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں فریقوں میں سے کسی ایک پر بھی کوئی کسی قسم کی سختی نہیں کی ، اورنہ ہی اس نص کے سمجھنے میں اختلاف کی بنا پران میں سے کسی ایک نے دوسرے پربغض وعنادنہیں رکھا ۔
اس لئے میرایہ خیال ہے کہ وہ مسلمان جوکہ اپنے آپ کواہل سنت والجماعت کہتے ہیں ان پرواجب ہے کہ وہ ایک امت اورجماعت بنیں اوران کے درمیان یہ فرقہ اورگروہ بندی اورحزبیت صحیح نہیں یہ ایک گروہ کی طرف اوردوسراشخص دوسرے گروہ کی طرف اورتیسراتیسرے گروہ کی طرف نسبت کررہا ہے ۔
اوراسی طرح وہ ایک دوسرے سے اپنی تیزطرار زبا نوں کے ساتھ جھگڑا کرر ہے ہیں اور آپس میں دشمنی اوربغض وعداوت صرف اس اختلا ف کی وجہ سے کرر ہے ہیں جس میں اجتہادجائز ہے مجھے کسی خاص گروہ اور جماعت کانام لینے کی ضرورت نہیں لیکن عقل مند کے لئے اشارہ ہی کافی ہے وہ اس سے سمجھ جاتا اوراس کے لئے اس سے معاملہ واضح ہو جاتا ہے ۔
میری خیال اور رائے یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت پرواجب اورضروری ہے کہ وہ متحد ہوجائیں حتی کہ اگر وہ ان چیز وں میں تھو ڑا بہت اختلاف کرتے ہیں جن کا تقاضا ان کی فہم اورسمجھ کے اعتبار سےنصوص کرتی ہیں کیونکہ یہ ایسامعاملہ ہے جس میں الحمدللہ اللہ رب العزت کے فضل وکرم وسعت ہے ۔
اوراہم چیز یہ ہے کہ دلوں کوملناچا ہۓ اورکلمہ اوربات میں اتفاق ہوناچاہۓ اوراس میں کوئی کسی قسم کا شک وشبہ نہیں کہ مسلمانوں کے دشمن یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں اختلاف کا بیج بویا جائے اوروہ آپس میں ایک دوسرے سے دست وگریبان ہوں اگرچہ مسلمانوں کے ان دشمنوں کی دشمنی واضح ہو یا پھر وہ ظاہری طور پر تواسلام اورمسلمانوں سے دوستی اور محبت کے دعوے کرتے ہوں لیکن اندرونی طور پر وہ اسلام اورمسلمانوں کے دشمن اوراس کی جڑ یں کاٹنے میں لگے ہوئے ہیں ان کا باطن ظاہر کی طرح نہیں ۔
توہم پر یہ واجب ہے کہ ہم اس امتیاز کوجوکہ فرقہ ناجیہ کا امتیاز ہے اسے اپنائیں اوروہ اتفاق واتحاد ہے اورسب ایک بات پرجمع ہوجائیں ۔ .
دیکھیں: مجوع فتاوی ورسائل ۔فضیلتہ الشیخ محمدبن صالح عثیمین رحمہ اللہ تعالی جلد نمبر۔(1) ۔صفحہ نمبر۔(38 ۔ 41)

Friday, 22 February 2013

اہل حدیث کون ہیں ؟

0 comments

اہل حدیث کون ہیں اوران کے امتیازات وصفات کیا ہیں ؟
جمع و تدوین ذیشان اکرم رانا
اہل حدیث کون ہیں ؟ 


الحمد للہ
اہل حدیث کی اصطلاح ابتداہی سے اس گروہ کی پہچان رہی جو سنت نبویہ کی تعظیم اوراس کی نشراشاعت کا کام کرتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےصحابہ کے عقیدہ جیسا اعتقاد رکھتا اورکتاب وسنت کوسمجھنے کے لیے فہم صحابہ رضي اللہ تعالی عنہم پرعمل کرتے جو کہ خیرالقرون سے تعلق رکھتے ہیں ، اس سے وہ لوگ مراد نہیں جن کا عقیدہ سلف کے عقیدہ کے خلاف اوروہ صرف عقل اوررائ اوراپنے ذوق اورخوابوں پراعمال کی بنیادرکھتے اوررجوع کرتے ہيں۔
اوریہی وہ گروہ اورفرقہ ہے جوفرقہ ناجيہ اورطائفہ منصورہ جس کا ذکر احادیث میں ملتا ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان :
( ہروقت میری امت سے ایک گروہ حق پررہے گا جو بھی انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرے گا وہ انہيں نقصان نہیں دے سکے گا ، حتی کہ اللہ تعالی کا حکم آجاۓ تووہ گروہ اسی حالت میں ہوگا ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1920 ) ۔
بہت سارے آئمہ کرام نے اس حدیث میں مذکور گروہ سے بھی اہل حدیث ہی مقصودو مراد لیا ہے ۔
اہل حدیث کے اوصاف میں آئمہ کرام نے بہت کچھ بیان کیا ہے جس میں کچھ کا بیان کیا جاتا ہے :
1 - امام حاکم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کی بہت اچھی تفسیر اورشرح کی ہے جس میں یہ بیان کیا گيا کہ طائفہ منصورہ جوقیامت تک قائم رہے گا اوراسے کوئ بھی ذلیل نہیں کرسکے گا ، وہ اہل حدیث ہی ہيں ۔
تواس تاویل کا ان لوگوں سے زیادہ کون حق دار ہے جو صالیحین کے طریقے پرچلیں اورسلف کے آثارکی اتباع کریں اوربدعتیوں اورسنت کے مخالفوں کوسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دبا کررکھیں اورانہیں ختم کردیں ۔ دیکھیں کتاب : معرفۃ علوم الحديث للحاکم نیسابوری ص ( 2 - 3 ) ۔
2 - خطیب بغدادی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
اللہ تعالی نے انہیں ( اہل حدیث ) کوارکان شریعت بنایا اور ان کے ذریعہ سے ہرشنیع بدعت کی سرکوبی فرمائ‏ تویہ لوگ اللہ تعالی کی مخلوق میں اللہ تعالی کے امین ہیں اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی امت کے درمیان واسطہ و رابطہ اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت کی حفاظت میں کوئ‏ دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے ۔
ان کی روشنی واضح اور ان کے فضائل پھیلے ہوۓ اوران کے اوصاف روز روشن کی طرح عیاں ہيں ، ان کا مسلک ومذھب واضح و ظاہر اور ان کے دلائل قاطع ہیں اہل حدیث کے علاوہ ہر ایک گروہ اپنی خواہشات کی پیچھے چلتا اور اپنی راۓ ہی بہترقرار دیتا ہے جس پراس کا انحصار ہوتا ہے ۔
لیکن اہل حدیث یہ کام نہیں کرتے اس لیے کہ کتاب اللہ ان کا اسلحہ اورسنت نبویہ ان کی دلیل و حجت ہے اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کا گروہ ہیں اوران کی طرف ہی ان کی نسبت ہے ۔
وہ اھواء وخواہشا ت پرانحصار نہیں کرتے اورنہ ہی آراء کی طرف ان کا التفات ہے جوبھی انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایات بیان کی ان سے وہ قبول کی جاتی ہیں ، وہ حدیث کے امین اور اس پرعدل کرنے والے ہیں ۔
اہل حدیث دین کے محافظ اوراسے کے دربان ہيں ، علم کے خزانے اورحامل ہیں ،جب کسی حدیث میں اختلاف پیدا ہوجاۓ تواہل حدیث کی طرف ہی رجوع ہوتا ہے اورجو وہ اس پرحکم لگا دیں وہ قبول ہوتااورقابل سماعت ہوتا ہے ۔
ان میں فقیہ عالم بھی اوراپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعت کے امام بھی ، اورزھد میں یدطولی رکھنے والے بھی ، اورخصوصی فضیلت رکھنے والے بھی ، اورمتقن قاری بھی بہت اچھے خطیب بھی ، اوروہ جمہورعظیم بھی ہیں ان کا راستہ صراط مستقیم ہے ، اورہربدعتی ان کے اعتقاد سے مخالفت کرتا ہے اوران کے مذھب کے بغیر کامیابی اورسراٹھانا ممکن نہیں ۔
جس نے ان کے خلاف سازش کی اللہ تعالی نے اسے نیست نابود کردیا ، جس نے ان سے دشمنی کی اللہ تعالی نے اسے ذلیل ورسوا کردیا ، جوانہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرے وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہيں دے سکتا ، جوانہیں چھوڑ کرعلیحدہ ہوا کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا ۔
اپنی دین کی احتیاط اورحفاظت کرنے والا ان کی راہنمائ کا فقیر ومحتاج ہے ، اوران کی طرف بری نظر سے دیکھنے والے کی آنکھیں تھک کرختم ہوجائيں گی ، اوراللہ تعالی ان کی مدد و نصرت کرنے پرقادر ہے ۔ دیکھیں کتاب : شرف اصحاب الحدیث ص ( 15 ) ۔
3 – شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
تواس سے یہ ظاہرہوا کہ فرقہ ناجیہ کے حقدارصرف اورصرف اہل حدیث و سنت ہی ہیں ، جن کے متبعین صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہیں اورکسی اورکے لیے تعصب نہیں کرتے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال واحوال کوبھی اہل حدیث ہی سب سے زيادہ جانتے اوراس کا علم رکھتے ہيں ، اوراحادیث صحیحہ اورضعیفہ کے درمیان بھی سب سے زيادو وہی تیمیز کرتے ہيں ، ان کے آئمہ میں فقہاء بھی ہیں تواحادیث کے معانی کی معرفت رکھنے والے بھی اوران احادیث کی تصدیق ،اورعمل کے ساتھ اتباع و پیروی کرنے والے بھی ، وہ محبت ان سے کرتے ہیں جواحادیث سے محبت کرتا ہے اورجواحادیث سے دشمنی کرے وہ اس کے دشمن ہيں ۔
وہ کسی قول کو نہ تومنسوب ہی کرتے اورنہ ہی اس وقت تک اسے اصول دین بناتے ہیں جب تک کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو ، بلکہ وہ اپنے اعتقاد اور اعتماد کا اصل اسے ہی قرار دیتے ہیں جوکتاب وسنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم لاۓ ۔
اور جن مسا‏ئل میں لوگوں نے اختلاف کیا مثلا اسماءو صفات ، قدر ، وعید ، امربالمعروف والنھی عن المنکر ،وغیرہ کواللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹاتے ہیں ، اورمجمل الفاظ جن میں لوگوں کا اختلاف ہے کی تفسیر کرتے ہیں ، جس کا معنی قران وسنت کےموافق ہو اسے ثابت کرتے اورجوکتاب وسنت کے مخالف ہواسے باطل قرار دیتے ہیں ، اورنہ ہی وہ ظن خواہشات کی پیروی کرتے ہيں ، اس لیے کہ ظن کی اتباع جھالت اوراللہ کی ھدایت کے بغیر خواہشات کی پیروی ظلم ہے ۔ مجموع الفتاوی ( 3/347 ) ۔
اورجس بات کا ذکر ضروری ہے وہ یہ کہ ہر وہ شخص اہل حدیث ہے جونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پرعمل پیرا ہوتا اورحدیث کوہرقسم کے لوگوں پرمقدم رکھتا ہے چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم و حافظ اورفقیہ یا عام مسلمان ہی کیوں نہ ہووہ حدیث کومقدم رکھتا ہوتو اسے اہل حدیث کہا جاۓ گا ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
ہم اہل حدیث سے صرف حدیث لکھنے اور سننے اور روایت کرنے والا ہی مراد نہیں لیتے ، بلکہ ہر وہ شخص جس نے حدیث کی حفاظت کی اوراس پرعمل کیا اوراس کی ظاہری وباطنی معرفت حاصل کی ، اور اسی طرح اس کی ظاہری اورباطنی طور پر اتباع وپیروی کی تو وہ اہل حديث کہلا نے کا زيادہ حقدار ہے ۔اوراسی طرح قرآن بھی عمل کرنے والا ہی ہے ۔
اوران کی سب سے کم خصلت یہ ہے کہ وہ قرآن مجید اورحدیث نبویہ سے محبت کرتے اوراس کی اور اس کے معانی کی تلاش میں رہتے اوراس کے موجبات پرعمل کرتے ہیں ۔ مجموع الفتاوی ( 4/ 95 ) ۔
اوراس مسئلہ میں آئمہ کرام کی بحث و کلام توبہت زيادہ ہے ، آپ مزید تفصیل کے لیے اوپربیان کیے گۓ مراجع سے استفادہ کرسکتے ہیں ، اوراسی طرح مجموع الفتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی چوتھی جلد بھی فائد مند ہے ،
واللہ اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد