YOUR INFO

Showing posts with label میں نے اسلام کیوں قبول کیا ؟. Show all posts
Showing posts with label میں نے اسلام کیوں قبول کیا ؟. Show all posts

Monday, 8 April 2013

میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟ پروفیسر ڈاکٹر صوفیہ( سویڈن)

0 comments

میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟
پروفیسر ڈاکٹر صوفیہ( سویڈن)

میں نے ایک کٹر عیسائی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ میری والدہ ہمیں ہر ہفتے چرچ میں لے جانے کی کوشش کرتی تھیں، جبکہ میرے والد ریاضی کے استاد تھے۔ وہ بہت مذہبی نہیں تھے۔ میں اپنی تعلیم کے دوران حیران و پریشان رہا کرتی تھی، کیونکہ محض رسم و رواج اور چرچ میں حاضری کے ساتھ ساتھ میرے ذہن میں ایمانیات اور توحید سے متعلق بعض ایسے سوالات آتے تھے، جن کا جواب چر چ کے پاس نہیں تھا۔ پھر میں نے ناروے کی اوسلویونی یونیورسٹی میں مذہبی علوم کے شعبے میں داخلہ لیا۔ وہاں تاریخ اور تقابل ادیان کے لیے گہری نظر سے مطالعے کے باوجود میں اسلام کے متعلق بدظنی کا شکار رہی۔ اسلام کو سمجھنے کے لیے میں نے جو کتابیں پڑھی تھیں، وہ صحیح نہیں تھیں، کیونکہ وہ مستشرقین کی لکھی ہوئی تھیں۔ آخر میں مجھے شیخ مودودیؒ کی کتاب ’’دینیات‘‘ پڑھنے کو ملی اور سید قطب مصری ؒ کی ’’معالم فی الطریق‘‘ کا انگریزی ترجمہ ملا، جن سے مجھے اپنے سوالات کا تسلی بخش جوا ب ملا۔ اس کے بعد میں نے ان کتابوں کو پڑھنا شروع کیا، جنھیں مسلمان علما نے لکھا ہے۔ قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ خریدا اور اس کی آیات پر غور و خوض شروع کر دیا۔ جب میں اسلام کے متعلق پوری طرح یک سو اور مطمئن ہوگئی تو اسلام مرکز گئی اور کلمۂ شہادت پڑھ کر اپنے اسلام کا اعلان کر دیا۔
میرے رشتے داروں نے اسے معمول کی بات سمجھ کر کوئی خاص توجہ نہیں دی، لیکن میری چند سہیلیوں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا، خصوصاً جب میں نے یونیورسٹی میں حجاب کرنا شروع کر دیا تو بعض دوستوں نے میرے ساتھ بحث و مباحثے کا سلسلہ شروع کر دیا۔
نئی چیز ہمیشہ دوسروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتی ہے اور شروع میں یقیناًبعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اب تو پردہ عام ہو چکا ہے۔ مجھے مشکلات کی کوئی پروا نہیں ہے۔ ہمیں چاہیے کہ لوگوں کی ہدایت کے لیے دعا کریں او راس راستے میں آنے والے مصائب کو صبر و تحمل سے برداشت کریں۔ الحمد للہ! حجاب کے سلسلے میں کوئی خاص مشکل نہیں ہے۔
میں نے اپنی تمام سہیلیوں کو اسلام کی دعوت دی ہے اور ان میں سے بعض نے اسلام قبول بھی کر لیا ہے، لیکن میری شادی کے بعد کافی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ میرے خاوند مجھ سے کہتے ہیں کہ جب تم نے خیر کو پا لیا ہے تو اسے دوسرے تک بھی پہنچاؤ۔ عربی سیکھنے میں انھوں نے میری بڑی مدد کی۔ الحمد للہ، میرے پاس روزانہ کی مصروفیات تدریس، لیکچرز، ٹیلی ویژن پروگرام او ردیگر پروگراموں میں شرکت پر مشتمل ہیں۔
اولا کی تربیت سب سے اہم کام ہے اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دیگر طلبہ کی طرح ہمارے بچے بھی سویڈش اسکول میں جاتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ آموختہ کرتی ہوں اور ان کے ساتھ گفتگو کرتی ہوں۔ اس کے علاوہ عربی سیکھنے کے لیے ویڈیو کیسٹ دیکھتے ہیں۔ نمازوں اور ذکر کے اہتمام کے ساتھ سونے سے پہلے ہم انھیں کوئی ایک آدھ اسلامی قصہ سناتے ہیں اور بعض نصیحتیں کرتے ہیں۔ ہر ہفتے کے آخر میں عربی پڑھنے اور سیکھنے کی مشق کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ بچوں کے اخلاقی اور تعلیمی امور بہت اچھے ہیں او روہ عربی، سویڈش اور نارویجین، تینوں زبانوں میں گفتگو کر سکتے ہیں۔
عورت مرد کی طرح اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عورت اور مرد یکساں طور پر گھر، اولاد اور دعوت دین کے لیے کام کریں۔ موجودہ زمانے میں ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ گھر عورت کے لیے بنیادی او راہم ذمہ داری ہے، لیکن جاہل عورت کوئی کام بھی صحیح طرح نہیں کر سکتی۔ بچوں کی تربیت کے لیے زندگی اور معاشرے کے تجربات اور مشاہدے کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں بچوں کی تعلیم و تربیت اور والدین کی خدمت کرنا ممکن ہوتا ہے۔ ہمارا موجودہ تربیتی نظام خواتین کو مربی اور داعی بنانے کے بجائے انھیں ناکارہ اور پس ماندہ بناتا ہے۔ حالانکہ وہ آنے والی نسلوں کی تربیت کی ذمہ دار ہیں۔
میں نے قرآن کا اسکنڈی نیوین زبان میں ترجمہ شروع کیا ہے۔ اس کے علاوہ فریضۂ حج ادا کرنے کی میری نیت ہے اور میں صحابیات کی تقلید کرتے ہوئے مسلمان عورت کی مدد کرنا چاہتی ہوں، تاکہ وہ اپنا فریضۂ منصبی فعال طور پر ادا کرے۔ اللہ میری مدد فرمائے او رہماری تمام کوششوں کو اپنی رضا کے لیے خالص کر دے۔ آمین!
سویڈن میں مختلف قوموں کی مسلمان خواتین رہتی ہیں، جن کا تعلق یورپ، ایشیا، افریقہ، امریکہ اور عرب ممالک سے ہے۔ ہم نے خواتین کی خدمت اور دعوت اسلامی کے کام میں تمام مسلمان خواتین کو شریک کرنے کے لیے ایک متحدہ پلیٹ فارم کی ضرورت محسوس کی، تاکہ اس تنظیم کے ذریعے خواتین آسانی سے ہمارے ساتھ رابطہ کر سکیں۔
خواتین لڑکیوں اور بچوں کے لیے ہفتہ وار عربی اور سویڈش زبان میں درس ہوتے ہیں۔ عورت کے مسائل اور ضروریات سے متعلق سیمینار اور ورک شاپس منعقد ہوتی ہیں۔ تربیتی کیمپ اور سالانہ کانفرنس کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ عورت کے مسائل، مشکلات اور اس کے حقوق کے دفاع کے لیے کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ضرورت مند اور پناہ گزینوں کے لیے ہم فنڈز جمع کرتے ہیں۔
ہماری سرگرمیوں کے نتیجے میں پروگراموں کی نوعیت او رخواتین کی ضرورت کے مطابق اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بوسنیا اور یورپ کی خواتین قرآن و حدیث کی تعلیمات سیکھنے میں دلچسپی لیتی ہیں، عرب خواتین بچوں کی تربیت او رکھانے پکانے سے متعلق لیکچرز میں زیادہ دلچسپی لیتی ہیں، جبکہ صومالی خواتین کی کوشش عربی سیکھنے کے لیے ہوتی ہے۔ میرے خیال میں میاں بیوی کی تعلیمی قابلیت اور مقام ان کے رجحان کی سمت متعین کرتا ہے، لیکن ہماری مسلسل کوشش ہوتی ہے کہ ہم عورت کی مکمل مدد کریں، تاکہ وہ دین کے مطلوبہ مقام تک پہنچ جائے۔ اس میں شک نہیں کہ اس کام کے لیے بڑے صبر و ضبط کی ضرورت ہے۔
عورت کی آزادی کا نعرہ خرافات اور جہالت پر مبنی ہے۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ ہم خواتین کو یہ باور کروائیں کہ اسلامی اصولوں کے اندر رہتے ہوئے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں عورت کا کیا کردار ہے، لیکن عورت کو اس اخلاقی دائرے سے باہر لا کر آزادی کی بات کرنا کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں کے لیے بیچے یا اپنی اولاد کو مامتا کی محبت سے محروم کر کے انھیں خادموں کے حوالے کرے اور خود دوسروں کی خدمت کرے یہ ہمیں ہر گز منظور نہیں ہے۔ عورت کے لیے ضروری ہے کہ اپنی عصمت کی حفاظت کرتی رہے۔ اس طرح فطری امنگوں کی تکمیل ہوتی ہے اور خاندان کے افراد میں محبت اور الفت پنپتی ہے اور پورے معاشرے کی اصلاح ہوتی ہے۔
تسلیمہ نسرین کی سویڈن آمد پر میں نے سویڈن ٹی وی پر تبصرہ کیا تھا۔ تسلیمہ نسرین کا کوئی علمی مقام نہیں ہے۔ ا س نے سیاسی پناہ اور سستی شہرت کے حصول کے لیے مغرب کو استعمال کیا ہے، حالانکہ وہ اپنے مخالفین اور حامیوں دونوں کی طرف سے اس قسم کے اہتمام کی ہر گز مستحق نہیں تھی۔ قرآن پاک اس زمانے کا معجزہ ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کرے گا، چنانچہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ا س طرح کے لوگوں کو اہمیت نہ دیں اور انھیں آزادی اظہار کے ہیرو نہ بنائیں۔ قرآن تو اس لیے آیا ہے کہ وہ غلاموں کو آزادی کی نعمت سے سرفراز کرے، لیکن مسلمانوں کی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے کہ قرآن پاک کو آزادی رائے کے نظریے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ دلیل کا جواب دلیل سے دیا جانا چاہیے نہ کہ جذبات اور اشتعال کا اظہار کیا جائے۔
مجھے پہلے پاکستان، سوڈان اور الجزائر میں خواتین کانفرس میں شرکت کی دعوت ملی، اس کے علاوہ میں نے تین بین الاقوامی کانفرنسوں عمان، لاہور اور استنبول میں شرکت کی ہے۔ الجزائر میں منعقد ہونے والی خواتین کانفرنس مجھے پسند آئی، جس میں معروف داعیہ زینب الغزالی اور اردن سے سمیرہ نے شرکت کی۔ یہ میری تمنا ہے کہ کارکنان کی فعالیت اور ان کی سرگرمیوں کو مربوط اور فعال بنانے کے لیے خواتین کانفرنسوں کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جائے، کیونکہ ان کی سرگرمیوں کی موجودہ صورت حال بہت ناتواں ہے اور میرے خیال میں یہ داعی حضرات کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی خواتین اور بیٹیوں کو اس میدان میں جلد کام کرنے کی ترغیب دیں، تاکہ وہ اسلامی دعوت و تبلیغ کا کام اس طرح انجام دیں، جس طرح وہ اپنی دیگر ضروریات اور مسائل کے لیے کرتی ہیں۔
مجھے عمرہ ادا کرنے سے بہت سکون حاصل ہوا۔ میں مکہ اور مدینہ بار بار جانا چاہتی ہوں۔ جدہ شہر کی ترقی اور جدت بہت پسند آئی، جبکہ اردن میں معاشرتی زندگی اور بالخصوص خواتین کی صورت حال دیگر اسلامی ممالک کی نسبت قابل اطمینان ہے۔ جہاں عورت معاشرے میں اپنا حقیقی کردار ادا کر رہی ہے۔ عمان ایک خوب صورت شہر ہے، خصوصاً موسم بہار اور گرمیوں کے شروع میں ہر شہر کی اپنی خصوصیات ہیں، جبکہ مصر کے لوگ مشکل زندگی او رغربت کے باوجود بڑے صابر اور قانع ہیں۔ مراکش کی صورت حال بھی دیگر شہروں سے ملتی جلتی ہے۔ اس کے قدرتی مناظر قابل ذکر ہیں۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر ممالک میں دین بس روایات اور رسم و رواج کا نام ہے، ماسوا اس کے کہ نوجوانوں میں اسلامی احیا اور معمول کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں۔ میں نے یہ دورہ اسلام قبول کرنے کے بعد ہی کیا تھا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں نے یہ کام پہلے نہیں کیا تھا، کیونکہ اگر میں عرب اور اسلامی ممالک کا دورہ اس سے قبل کر لیتی تو شاید پھر میں دین پر اتنی سختی سے کاربند رہنے والی نہ بن سکتی، کیونکہ مطالعے کے دوران کتابوں میں میں نے اسلامی افکار، عقیدے اور ثقافت و تمدن کی جو حسین صورت دیکھی تھی، وہ ان ممالک کے لوگوں کی زندگیوں میں مفقود نظر آئی، بلکہ بعض ایسے مناظر بھی دیکھنے میں آئے، جو بالکل اسلامی روح کے خلاف تھے۔
٭٭٭

Sunday, 7 April 2013

میں نے اسلام کیوں قبول کیا ؟

0 comments
میں نے اسلام کیوں قبول کیا ؟
 صفات عالم محمدزبیرتیمی
”اسلام کتنا عمدہ دین ہے کاش کہ اس کے افراد بھی ویسے ہوتے ۔“
 ایک نومسلم خاندان کے پاکیزہ جذبات پر مشتمل یہ تحریر ہے جسےپڑھ کرجذبات میں ہلچل مچ جاے گى، آنکھیں اشک بار ہوجائیں گی اورسوچنے پرمجبور ہوں گے کہ کیا ہم واقعی مسلمان ہیں ….؟
 ”میں نے اسلام کی صداقت کو اسی وقت جان لیا تھا جبکہ میرے شوہر نے اسلام قبول کیاتها کہمیں ان کے اندر بہت بڑی تبدیلی دیکھ رہی تھی، پہلے بہت غصہ كرتے تھے اسلام قبول کرنے کے بعد نہایت متحمل اوربردبار بن گئے،معاملات بڑے اچھے ہوگئے، اورہمارے بیچ نمونہ کی زندگی گذارنے لگے لیکن اس کے باوجود اب تک میں اسلام سے محض اس وجہ سے دور تھی کہ میرے والد کی زمین میرے ایک مسلم پڑوسی نے غصب کرلی تھى اوراپنے نام سرکاری کاغذات بهى تيار كرالى تھى، میں نادانی سے سمجھتی تھی کہ سارے مسلمان دھوکے باز اور فراڈ ہوتے ہیں،کبھی کبھی تو میں اپنے شوہر پر بھی ترس کھاتی تھی۔“
گذشتہ دنوں سفر ہندوستان کے دوران اپنے علاقہ کے مختلف قصبات اور شہروں میں دعوتی پروگرامز رکھنے کی سعادت نصیب ہوئی ، بہار کی راجدھانی پٹنہ میں السلام ایجوکیشنل اینڈویلفیر فاونڈیشن کے زیراہتمام یہاں کی متعدد مساجد میں خطاب کرنے کا موقع ملا ، ایک روز نماز فجر کے بعد درس قرآن سے فارغ ہوئے تو ایک چالیس سالہ باریش شخص سے ملاقات ہوئی،درس سورہ عصر کی تشریح پر مشتمل تھا جس میں دعوت پر زور دیا گیا تھا اس سے وہ کافی مثاثر تھے ،کہنے لگے کیا وجہ ہے کہ باطل آج اپنی فکر کو پھیلانے میں نہایت چست دکھائی دے رہا ہے لیکن دین حق کے ماننے والے بالکل سست ہوچکے ہیں ۔ ہم نے ان کی بات پر حامی بھرى اوران کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے ان سے عرض کیا کہ اسلام کوآپ جیسے لوگوں کی ہی ضرورت ہے جو سونے والوں کو بیدار کریں ،کہنے لگے : مولانا: میرے بارے میں اللہ رب العالمین سے خاص دعا کریں کہ گھر میں ایمان آجائے ؟میں نے کہا : کیا مطلب ! گھر کے افراد دین سے دور ہیں ؟ کہنے لگے : ابھی دین میں تو آئے ہی نہیں ہیں ، اللہ کا شکر ہے کہ میں نے چند سالوں قبل اسلام قبول کیا ،اس اثناء اہل خانہ اور بچوں کے سامنے اسلام پیش کر نے کی پورى کوشش کی لیکن کچھ اسباب تھے جس کے باعث وہ اسلام کے قریب نہ آسکے ،لیکن ابھی وہ قبول اسلام کے لیے تیار ہیں اور ایک مولانا نے اگلے ہفتہ ہمارے گھر آکر اہلیہ کو کلمہ تلقین کرانے کا وعدہ کیا ہے ۔میں نے انہیں مبارکباد دی ،اور پوچھا کہ کیا آپ کی اہلیہ اسلام سے بالکل مطمئن ہیں ،کہنے لگے : ہاں ! وہ قبول اسلام کے لیے تیار ہیں ،میں نے کہا: تو پھر ایک ہفتہ کی مہلت کیوں؟ اگر مناسب سمجھیں تو آج ہی ان کو کلمہ پڑھادیاجائے ۔ چنانچہ اتفاق ہواکہ رات میں بعدنماز عشاء ان کے گھر جاکر اہلیہ کو کلمہ لا الہ الا اللہ کی تلقین کردی جائے۔ حسب وعدہ نماز عشاء کے بعد مل گئے ،اس طرح ہم محترم محمدافتخارصدیقی اور مولانا حبيب الرحمن عالياوى کی معیت میں ان کے گھر گئے ،اہلیہ عیسائی مذہب پر تھیں،ہم نے سب سے پہلے ان کی باتیں سنیں جن سے اندازہ ہوا کہ وہ اسلام کو پسند کرتی ہیں اورشوہر کے قبول اسلام کے بعد اسلام کا مطالعہ بھی کیا لیکن ایک مسلمان کے غلط رویہ سے اسلام سے متنفر تھیں،انہوں نے کہا کہ :
“میں نے اسلام کی صداقت کو اسی وقت جان لیا تھا جبکہ میرے شوہر نے اسلام قبول کیا تهاکہمیںان کے اندر بہت بڑی تبدیلی دیکھ رہی تھی، پہلے بہت غصہ كرتے تھے اسلام قبول کرنے کے بعد نہایت متحمل اوربردبار بن گئے،معاملات بڑے اچھے ہوگئے ،اورہمارے بیچ نمونہ کی زندگی گذارنے لگے لیکن اس کے باوجود اب تک میں اسلام سے دور محض اس وجہ سے تھی کہ میرے والد کی زمین میرے ایک مسلم پڑوسی نے غصب کرلی تھی اور اپنے نام سرکاری کاغذات بنا لیے تھے، میں نادانی سے سمجھتی تھی کہ سارے مسلمان دھوکے باز اور فراڈ ہوتے ہیں،کبھی کبھی تو میں اپنے شوہر پر بھی ترس کھاتی تھی ، لیکن اللہ کی شان کہ گذشتہ رمضان میں اس کے دل میں غلطی کا احساس ہوا بالآخر میرے والد کے پاس آکر معافی مانگا اور گذارش کی کہ چلیں ہم وہ زمین آپ کے نام کردیتے ہیں،اس طرح وہ زمین میرے والد کی تحویل میں آگئی،اب مسلمانوں کے تئیں میرے والد کے ذهن میں جو بدظنی تھی جها ں اس میں کمی آئی وهيں میں بھی اسلام کی طرف راغب ہونے لگی،اور شوہر کے ساتھ کچھ روزے بھی رکھے،لیکن اب تك اسلام کی توفیق نہ مل سکی تھی….“
میں ان کی باتیں بغور سن رہا تھا ،جذبات میں ہلچل مچ رہى تھى، اور اس بات پر رونا آرہا تھا کہ آج ہمارے بعض مسلم بھائی کس طرح اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ میں نے متعدد مثالوں کے ذریعہ انہیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ اسلام کی آفاقیت اورمسلمانوں کے طرزعمل کے بیچ فرق کو سمجھیں، اس کے بعد اسلام کا تعارف کراتے ہوئے عیسائی عقیدے کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جائزہ پیش کیا، پھر ان کے چند سوالات تھے جن کے تشفی بخش جوابات دیئے گئے تو وہ قبول اسلام کے لیے مطمئن ہوگئیں،بالآخر اسی وقت ان کو کلمہ شہادت پڑھا دیاگیا ۔
قبول اسلام کے بعد ہم نے انہیں مبارکباد دی ، اور کچھ احکام بتاتے ہوئے عرض کیا کہ اب آپ کو پنجوقتہ  نماز یں پڑھنی ہے ،کہنے لگیں کہ ہاں بالکل اس کے لیے تیار ہوں ،البتہ فجر کی نماز کے لیے بیدار ہونا مشکل ہے ، ہم نے پوچھا کہ آپ کتنے بجے بیدار ہوتی ہیں ، کہنے لگیں: چھ بجے ،ہم نے کہا : اسی وقت فجر کی نماز ادا کرلیں، (کیونکہ نومسلموں کے سامنے احکام پیش کرنے میں تدریج کو ملحوظ رکھنا بیحد ضروری ہے)۔
اس مجلس میں ہم نے اب تک نومسلمہ کی زبانی اپنے شوہر کی بہت ساری خوبیاں سنیں،اس سے پہلے ہم نے خود اسماعیل بھائی کے دینی جذبات سن رکھے تھے ،اس لیے مناسب سمجھا کہ ان سے بھی گفتگو کرلی جائے،چنانچہ ہم نے موصوف کے قبول اسلام کا قصہ سنا اوراس سے متعلقہ باتیں کیں ، ذیل کے سطورمیں ہم ان سے ہوئی طویل گفتگو کا خلاصہ پیش کررہے ہیں :
سوال :سب سے پہلے اپنا تعارف کرائیں ؟
جواب :میرا پیدائشی نام جولین فرانسس داس ہے ، البتہ قبول اسلام کے بعد میں نے ’اسماعیل‘ نام اختیار کیا ہے  ، جنوب ہند بنگلور کے ایک رومن کیتھولک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوا، اسی مذہب پر رہا ، یہاں تک کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد برسرروزگار ہوا تو بنگلور چرچ آف کرائسٹ جو بنگلور میں عیسائیوں کی نہایت سرگرم تنظیم ہے ، انہوں نے مجھے دعوت دی ،میں ان کے پاس جانے لگا ، پادری اپنی نگرانی میں میری تربیت کرنے لگا یہاں تک کہ ایک روز میں ان کے ہم مذہب ہوگیا اور ان کی دعوت کو فروغ دینے میں پورى تندہى سے لگ گيا۔
سوال :آپ کس پیشے سے منسلک ہیں ؟
جواب: میں پیشے کے اعتبار سے درزی ہوں،فی الحال ایک انٹرنیشنل کمپنی میں سلائی کی نگرانی پر مامور ہوں۔ کمپنی کی طرف سے مختلف ممالک اور شہروں کا دورہ کرنے کا موقع ملا ،ان دنوں پٹنہ میں رہنا ہو رہا ہے ۔
 سوال : آپ کے قبول اسلام کا سفر کیسے شروع ہوا ؟
جواب :یہ کوئی 1992ء کی با ت ہے ، جس دکان میں کام کرتا تھا وہ ایک مسلمان کی دکان تھی ، اس نے ایک روز مجھے احمد دیدات صاحب کی کتاب لاکر دی، جس میں عیسائیت اوراسلام کا موازنہ کرکے اسلام کی حقانیت ثابت کی گئی تھی ،میں نے جب کتاب پڑھى تو یہ پہلا موقع تھا جب اسلام سے متاثر ہوا اوراپنے مذہب کی بابت شک میں پڑگیا، کتاب کى پشت پر مطبوعات کی فہرست دیکھی جس میں ساوتھ افریقہ کے دعوتی مرکز کا پتہ دیا گیا تھا ، میں نے ان کو خط لکھاکہ مجھے فلاں فلاں کتابیں چاہئیں ،اللہ پاک ان کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ فوراً انہوں نے مجھے مطلوبہ کتابیں ارسال کردیں ، میں نے اسلام کا مطالعہ شروع کردیا،اب میں چرچ جاتا تو پاسٹر سے مختلف طرح کے سوالات کرتا،شاید وہ مجھے بھانپ گیا تھا کہ میں اس کے عقیدے پر کاری ضرب لگا رہا ہوں،وہ مجھے تجسس کی نگاہ سے دیکھنے لگا،بالآخر چرچ سے مجھے برخواست کردیا گیا۔
1995ء میں میری کمپنی نے مجھے دہلی منتقل کیا ،ایک روز جامع مسجد جانے کا اتفاق ہوا تو میں نے وہاں سے نماز کی ایک کتاب خریدی اور نماز کی دعائیں وغیرہ سیکھنا شروع کردیا،اب تک میں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا ،لیکن نماز میں مجھے عجیب طرح کا سکون ملتا تھا اس لیے نماز شروع کردی ، ماہ رمضان آیا تو روزے بھی ركھے ۔
اسی اثناء کمپنی نے مجھے انڈونیشیا منتقل کردیا، میں احمد دیدات صاحب کا عقیدت مند بن گیا تھا،انٹرنیٹ پر ان کا پروگرام پابندی سے دیکھتا۔اسی طرح قرآن کی تلاوت بہت شوق سے سنتا تھا ، ایک دن قاری صداقت علی کی آواز میں قرآن کی تلاوت مع ترجمہ سن رہا تھا ، تلاوت سورہ رحمن کی تھی ،سورہ کا پیغام میرے دل کو چھو گیا،مجھے سورہ بہت پسند آئی ،اوراسے میں نے یاد کرنا شروع کردیا،روزانہ دو آیتیں یاد کرتا بالآخر چند ہفتوں میں پوری سورہ یاد کرلی ۔
سوال :قرآن سے آپ کی دلچسپی کی وجہ ؟
جواب:قرآن سے میری دلچسپی کی واقعی اہم وجہ ہے ، مجھے غصہ بہت آتا تھا ،یہاں تک کہ میں اپنی بیوی پر بھی بہت غصہ كرتا تھا،لیکن ایک روز قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہوئے جب اس آیت تک پہنچا کہ جنت کے حقدار وہ لوگ بنیں گے جو چند صفات سے متصف ہیں ان میں سے ایک صفت جو اپنے غصہ کو پی جاتے ہیں اورلوگوں کے ساتھ عفو ودرگذر سے کام لیتے ہیں، (سورہ آل عمران ۴۳۱) یہ آیت میرے لیے نیک فال ثابت ہوئی، میں اسکے بعد خود کو تربیت دینے لگا کہ غصہ نہیں کروں گا،یہاں تک کہ میں نے اپنے آپ پر کنٹرول کرلیا،(بیوی جو شریکِ گفتگو تھی تائید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کے اندر یہ بہت بڑی تبدیلی دیکھی کہ بالکل نرم مزاج بن گئے ، اب ان کو کچھ بھی بول دو غصہ نہیں آتا )۔
 سوال :ہاں! تو ابھی آپ اپنے قبول اسلام سے پہلے کا قصہ سنا رہے تھے کہ آپ نے سورہ رحمن کو اسلام قبول کرنے سے پہلے ہی یادکرلیاتھا ۔ پھرقبول اسلام کی سعادت کیسے نصیب ہوئی ؟
جواب: جی ہاں! ایک روز کی بات ہے ،میرے ایک انڈونیشین دوست نے مجھ سے کہا کہ تم کو میں اسلام سے بہت قریب دیکھتا ہوں، تم اسلام قبول کیوں نہیں کر لیتے ، میں نے اس سے سارا ماجرا سنا دیا اورکہا کہ واقعی مجھے اسلام پسند ہے لیکن ایک بہت بڑی رکاوٹ میرے سامنے یہ ہے کہ میں مسلمانوں کو اسلام سے بہت دور دیکھتا ہوں ، میری پیدائش کلکتہ میں ہوئی ،جس علاقہ میں رہتا تھا وہاں کی اکثریت مسلمانوں کی تھی ،ان کا سارا عمل اسلام کے خلاف تھا ،میں قرآن میں کچھ پڑھتا ہوں اور مسلمان کچھ اور نظر آتے ہیں، آخر میں ویسا مسلمان کیوں بنوں ؟۔
انڈونیشا کا میرا دوست دیندار تھا ،وہ مجھ سے بہت قریب ہوگیا،اپنے گھر لے جاتا اور اسلام کی بہت ساری معلومات فراہم کرتا، اس نے مجھے ایک روز سمجھایاکہ تم مسلمانوں کے مذہب کو قبول نہیں نا کر رہے ہو ،اللہ کے دین کو اپنا رہے ہو….پھر سارے مسلمان ویسے نہیں ہوتے ، تمہیں چاہیے کہ اگر اسلام سمجھ میں آگیا ہے تو کلمہ شہادت کی گواہی دے کر مسلمان بن جاؤ ،بالآخر اس کی ترغیب پر میں نے اسلام قبول کرلیا۔ اللہ اسے جزائے خیر عطا فرمائے کہ اس نے میری آنکھیں کھول دیں۔
سوال: قبول اسلام کو کتنے سال ہوگئے ؟
جواب : مکمل چار سال ہوگئے ۔
سوال :اسلام میں آپ کو سب سے زیادہ کونسی چیز پسند ہے ؟
جواب: اسلام میں سب سے زیادہ مجھے قرآن پسند ہے ، میں نے قرآن کو ترجمہ کے ساتھ ایک مرتبہ ختم کیا ہے ،اور دوسری چیز جو مجھے بہت زیادہ پسند ہے وہ اسلام کا طریقہ عبادت یعنی نماز ہے ،ہر مسلمان کے لیے پنجوقتہ نمازوں کی پابندی ضروری ہے جس کی ادائیگی کا طریقہ بھی منطقی اور معقول ہے۔ جب کہ عیسائی مذہب میں ہفتہ میں ایک دن چرچ جانا ہوتا ہے اور وہ بھی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے لیے ۔
 سوال: آپ نے اپنے گھر والوں کو اسلام کی طرف دعو ت دینے میں کیا رول ادا کیا ؟
جواب : شروع سے میری پوری کوشش رہی کہ گھر والے اسلام قبول کرلیں ،تاہم حکمت کے پیش نظر میں نے شروع میں اہلیہ کو بتانا مناسب نہیں سمجھا ، جب بعد میں ان کو اطلاع مل گئی تو انہیں دعوت دینا شروع کردیا، چونکہ ان کے ذہن میں مسلمانوں کے تئیں تحفظات تھے جس کی وجہ سے لیت ولعل سے کام لیتی رہی، تاہم میں مایوس نہیں تھا، تہجد کی نماز میں اللہ پاک سے ان کی ہدایت کے لیے دعا کرتا تھا ۔ الحمدللہ آج ان کو ہدایت مل گئی ۔
سوال :کیا آپ تہجد کا اہتمام بھی کرتے ہیں ؟
جواب : اللہ کا شکر ہے کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا ہے مجھے نمازتہجد کی توفیق مل رہی ہے ۔اذان سے پہلے بیدار ہونا میرا معمول بن چکا ہے ۔ الحمدللہ
سوال : آپ کے کتنے بچے ہیں ؟
جواب : ایک بیٹا اورایک بیٹی ہے ،بیٹا گیارہ سال کا اور بیٹی نو سال کی ہے ۔ دونوں بنگلور میں پڑھتے ہیں ۔
سوال : آپ دعوت کے لیے بھی وقت نکالتے ہیں ؟
جواب: میں ہر روز نماز فجر کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہوں، روزانہ بذریعہ ای میل مجھے صحیح بخاری سے منتخب احادیث موصول ہوتی ہیں تلاوت قرآن کے معاً بعد انہیں پڑھتا ہوں، اس طرح اب تک میں نے چارسو احادیث یاد کرلی ہیں، اس کے بعد مستقل آدھا گھنٹہ عیسائی دوستوں کو تعارف اسلام پر مشتمل مواد ارسال کرنے اوران کے سوالات کے جوابات دینے میں لگاتا ہوں۔
سوال : آپ ایک عرصہ سے مسلمان ہیں جبکہ آپ کی اہلیہ نے آج اسلام قبول کیا ہے ،اوردونوں ایک ساتھ رہ رہے ہیں،اس مدت میں آپ کی اہلیہ کبھی آپ کی ادا اورآپ کے معمول سے ناراض نہیں ہوئیں ؟
جواب : جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ شروع میں اہلیہ کو اپنے اسلام کی اطلاع نہیں دی تھی ،جب ان کو میرے اسلام کا پتہ چلا تو کوئی خاص ناراضگی ظاہر نہیں ہوئی کہ میرے اندر غيرمعمولى نرمى آچکى تھى ،اوران کے ساتھ معاملہ میں پہلے سے بہتر بن گیا تھا ۔
سوال : (اسماعیل بھائی کی اہلیہ جو شریک گفتگو تھیں ان سے سوال ) آپ بتائیں کہ جب آپ کو اسماعیل بھائی کے قبول اسلام کی اطلاع ملی تو آپ کو کیسا لگا؟
جواب :مجھے رنج اس بات سے نہیں ہوا کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا ہے بلکہ رنج اس بات پر ہوا کہ انہوں نے مجھے بتائے بغیر یہ فیصلہ کرلیا۔ اس پرطرہ یہ کہ جب کبھی ان کے ہمراہ کہیں جانا ہوتا ،ہمارے بیچ سے نکل جاتے اورکچھ دیر کے بعد لوٹتے،جب تک ہم ان کے لیے پریشان ہو جاتے تھے ، پوچھنے پر تشفى بخش جواب نہیں مل پاتا، یہ طریقہ مجھے بہت خراب لگا، بعدمیں پتہ چلا کہ ان کا ہمارے بیچ سے نکلنا نمازکے لیے ہوتا تھا۔
اسی طرح اسلام قبول کرنے کے بعد سونے سے قبل قرآن سننے کی ان کی عاد ت سی بن گئی تھی ، کمپیوٹر میں ڈاون لوڈ تلاوت کھول دیتے اور سنتے رہتے ، یہاںتک کہ نیند کی آغوش میں چلے جاتے ، اس سے میں پریشان ہوجاتی تھی بلکہ بسا اوقات نیند نہ آنے کی وجہ سے باہر نکل جاتی  تھی ،اب تک ان کا یہی معمول ہے ،البتہ اب اس سے مانوس ہوچکی ہوں،اور مجھے بھی قرآن سننا اچھا لگنے لگا ہے ۔
 سوال :مسلمان بھائیوں کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے ؟
جواب: سب سے پہلے تو ہم یہ عرض کریں گے کہ صحیح اسلام کو اپنائیں ،اپنا عقیدہ ٹھیک کریں ،اس کے بعد پنجوقتہ نمازوں کی پابندی کریں ،مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ مسجد قریب ہونے کے باوجود لوگ نمازکے لیے حاضرنہیں ہوتے ،اور اپنے گھروں میں بیٹھے ٹیلیویژن کے اسکرین پر فلمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
 ہمیں چاہیے کہ مثالی مسلمان بنیں جیسے صحابہ کرام کی درخشاں اور مثالی زندگی کتابوں میں پڑھنے کو ملتی ہے ۔ جس طرح انہوں نے اسلام کی راہ میں قربانیاں پیش کی تھیں اسی طرح ہمیں بھی اسلام کے فروغ کے لیے قربانیاں پیش کرنی چاہئیں۔ عیسائیوں کو دیکھیں کہ دعوت کے میدان میں کس قدر چست ہیں ،ڈیوٹی سے فارغ ہونے کے بعد بائیبل ہاتھ میں دبائے عوامی مقامات پر پہنچ جاتے ہیں اور جب موقع ملا،بائبل پڑھ کر عیسائیت کی تبلیغ شروع کردیتے ہیں۔دعوت کے کام میں پلاننگ ہمیں ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے ۔
محترم قارئین!آپ نے اسماعیل بھائی اوران کی اہلیہ کے قبول اسلام کا قصہ پڑھا اوران کے جذبات سے واقف ہوئے ،اس میں ہم سب کے لیے درس ہے ،عبرت ہے، نصیحت ہے کہ ہم خودکو اسلام کا نمونہ بنائیں اورغیرمسلموں کے لیے نمونہ بنیں،کیاپتہ کہ شاید ہم کسی شخص کے قبول اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہوں۔