YOUR INFO

Thursday 7 March 2013

محرم الحرام کی اہمیت اور واقعۂ کربلا کی حقیقت

0 comments

عطیہ انعام الٰہی

محرم الحرام کی اہمیت اور واقعۂ کربلا کی حقیقت

شریعتِ اسلامیہ میں محرم الحرام کی اہمیت کئی پہلوؤں سے ہے:
(1)قرآنِ مجید میں سورۃ التوبہ کی آیت نمبر ۳۶ کے مطابق یہ چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک مہینہ ہے۔ حرمت والا مہینہ ہونے سے مرادیہ ہے کہ اس مہینے کا احترام کیا جائے۔ قتل و غارت، جنگ و جدل اور لوٹ مار نہ کی جائے بلکہ امن و سکون قائم کیا جائے۔ خود بھی امن سے رہیں اور دوسروں کوبھی امن سے رہنے کا موقع دیں۔ انسانی تاریخ جتنی پرانی ہے، اسی قدر جنگ و جدل کی تاریخ بھی قدیمہے۔ رب العزّت کا مسلمانوں کو حکم ہے کہ اِن چار مہینوں میں امن وامان کو اختیار کیا جائے۔ تمدن و تہذیب کی بقا اور ترقی کے لیے اور نسل انسان کے وقار اور تحفظ کے لیے اللہ نے یہ حرمت والے مہینوں کا ضابطہ روزازل سے ہی مقرر فرما دیا۔
(2)اس مقدس مہینے کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ اسلامی کیلنڈر کا یہ پہلا مہینہ ہے۔ نئے سال کی ابتدا کرتے ہوئے اس مہینے کے آغاز میں خوشی اور مبارک سلامت کے جذبات کا اظہار ایک فطری امر ہے۔ چنانچہ اس مہینے کا یہ حق ہے کہ اسے نئی اُمنگوں، بھرپور اُمیدوں، تازہ ولولوں اور پُرخلوص دعاؤں کے ساتھ شروع کیا جائے۔ مگر مسلمانوں کی اکثریت چونکہ مغرب زدگی اور اسلامی اقدار سے بیزاری کا شکار ہوچکی ہے۔ اس لیے مسلم معاشروں میں ایسا اہتمام کم ہی نظر آتا ہے۔
(3)خلیفہ ثانی حضرت عمرؓکی شہادت بھی یکم محرم کی ہوئی۔آپؓ کو ايك پارسي غلام فيروز ابولؤلؤ نے شہادت سے تین دن پہلے خنجر کے وار کر کے شدید زخمی کر دیا تھا۔آپؓ کی شہادت کے بعد آپ کویکم محرم کو دفن کیاگیا۔محرم الحرام کا آغاز ہی اسلامی تاریخ کے اس اندوہ ناک واقعہ سے ہوتا ہے۔ آپ کی شہادت اسلام کے لئے بہت بڑا سانحہ تھی۔
(4)اس مہینے کی چوتھی اہمیت یہ ہے کہ حدیث ِمبارکہ میں اسے 'شھر اللہ' کہا گیا ہے اور رمضان کے بعد سب سے افضل محرم الحرام کو قرار دیا گیا ہے۔ اس مہینے کی دس تاریخ کو 'عاشورہ محرم' کو کہا جاتا ہے۔ عاشورۂ محرم کے دن روزہ رکھنا نبی ﷺ کی ایک مسلسل سنتِ مبارکہ ہے یعنی یہ روزہ آپ مکہ میں بھی رکھتے تھے۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو اس روزے کے رکھنے یا نہ رکھنے کے بارے میں آپﷺ نے صحابہ کرامؓ کو اختیار دے دیا۔ پھر جب آپﷺ مدینہ گئے تو وہاں یہودیوں کو عاشورہ محرم کا روزہ رکھتے پایا۔ استفسار پر اُنہوں نے بتایا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کی قید سے نجا ت دلائی تھی۔ یہ ہمارے لیے خوشی کا دن ہے اور بطورِ شکرانہ ہم اس دن روزہ رکھتے ہیں تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام کے (شریکِ مسّرت ہونے میں) ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپﷺ نے اس دن کا روزہ رکھا اور صحابہ کرامؓ کو بھی اس کا حکم دیا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آنحضورﷺ کو اہل کتاب کی مشابہت سے بچنے کا حکم دیا تو آپﷺ نے دس محرم کے ساتھ مزید ایک روزہ رکھنے کا ارادہ ظاہر فرمایا اور مختلف روایات کو جمع کرتے ہوئے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ روزہ ۹ محرم کا ہے۔ چنانچہ اب مسلمانوں کے ہاں ۹ اور۱۰ محرم کو روزہ رکھا جاتا ہے۔
(5)اس مہینے کی پانچویں اہمیت یہ ہے کہ اسلامی تاریخ کا دردناک اور تکلیف دہ واقعہ'واقعۂ کربلا' اسی مہینے کی ۱۰ تاریخ کو پیش آیا۔ جس میں نواسۂ رسولؐ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور بیشتر اہل بیت عظام شہید ہوگئے۔ ستم یہ کہ اُن کو شہید کرنے والے بھی مسلمان ہی کہلاتے تھے۔ چونکہ محرم الحرام کی تمام اہمیتوں سے قطع نظر ، اب محرم کی ساری اہمیت اسی واقعہ فاجعہ کے حوالے سے اُمت میں باقی رہ گئی ہے، اس لیے اس پر ذرا تفصیل سے گفتگو کی ضرورت ہے۔
نبیﷺ کے بعد خلافتِ راشدہ مسلمانوں کی تاریخ کا بے مثال اور سنہرا دور ہے۔ اس دور میں مسلمانوں کو عظیم فتوحات حاصل ہوئیں۔مشرق و مغرب تک اسلامی سلطنت کا دائرہ وسیع ہوا۔ مسلمانوں نے صرف ملک ہی فتح نہیں کئے بلکہ اپنے اخلاقِ فاضلہ اور بے نظیر عدل و انصاف سے مفتوحہ عوام کے دل و دماغ بھی فتح کئے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان ہی مفتوحہ ممالک میں بہت سے حاسدین بھی پیدا ہوگئے جن کو مسلمانوں کا عروج، اتحاد و یگانگت ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ کے دور سے ہی مسلمانوں کے خلاف سازشیں شروع ہوگئیں۔ اسی لیے حضرت عمرؓ کی شہادت ایک ایرانی غلام ابولؤ لؤ فیروزکے ہاتھوںہوئی۔ حضرت عثمانؓ کے دور میں یہ سازشیں باقاعدہ تحریک بن گئیں۔ ان سازشوں کا سرغنہ ایک یمنی یہودی 'عبداللہ بن سبا' تھا۔ اسی لیے یہ سازشی تحریک'سبائی تحریک' کہلائی۔ حضرت عثمان ؓ کو اسی سازشی جماعت نے شہید کیا۔ حضرت علی ؓ کا پانچ سالہ دورِ خلافت مسلسل خانہ جنگیوں کی نذر ہوگیا۔ ان میں مشہور جنگ جمل (حضرت عائشہؓ اور حضرت علیؓ کے درمیان) ، جنگ صفین (حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان) اور جنگِ نہروان (حضرت علیؓ اور خارجیوں کے درمیان) ہیں۔ آخر کار ۴۰ ہجری میں حضرت علیؓ کو ہی ایک خارجی عبدالرحمن ابن ملجم نے شہید کردیا۔
خلافتِ راشدہ کے بعد پہلے حکمران امیرمعاویہؓ ہیں۔ ان کا دورِ حکومت ۲۰ سال پر محیط ہے۔ اندرونی شورشوں کے ساتھ ساتھ بیرونی فتوحات بھی ہوتی رہیں۔ امیرمعاویہ نے اپنی آخری عمر میں اپنے بیٹے یزید کو خلیفہ نامزد کردیا۔ مسلمانوں کی اکثریت نے اس غیر شرعی فیصلے کو قیصر وکسریٰ کا طریقہ قرار دیتے ہوئے ردّ کردیا۔ سب سے زیادہ مخالفت پانچ اصحابؓ عبداللہ بن عمرؓ، عبداللہ بن عباسؓ، عبدالرحمن بن ابی بکرؓ، سیدنا حسینؓ اور عبداللہ بن زبیرؓ نے کی۔ پہلے تین اصحابؓ کسی نہ کسی طرح خاموش ہوگئے مگر آخری دو اَصحاب آخر دم تک اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔
۶۰ ہجری میں امیرمعاویہ وفات پاگئے۔ نامزد خلیفہ یزید نے باپ کی وصیت کے مطابق عنانِ خلافت سنبھالتے ہوئے ہی والی مدینہ مروان بن حکم کو سیدنا حسینؓ اور سیدنا ابن زبیرؓ سے بیعت لینے کی تاکید کی۔ مگر دونوں اصحاب نے حکمت کے ساتھ انکار کرتے ہوئے مدینہ چھوڑ کر مکہ کی راہ لی تاکہ مروان کے دباؤ سے بچ سکیں۔ قیام مکہ کے دوران سیدناحسینؓ کو کوفیوں کی طرف سے پیغامات آنے شروع ہوگئے کہ خلافت اصل میں آپ کا حق ہے، آپ یہاں عراق یعنی کوفہ میں ہمارے پاس آجائیں۔ یہاں سب آپ کے حمایتی اور خیرخواہ ہیں، ہم آپ کے ہاتھ پربیعت کریں گے۔ حضرت حسینؓ نے اپنے چچا زاد بھائی مسلمؓ بن عقیل کو عراق بھیجا تاکہ وہ صحیح صورت حال معلوم کرکے سیدناحسینؓ کو بتائیں۔ مسلمؓ بن عقیل کوفہ پہنچے تو واقعی چندہی دنوں میں ۱۸۰۰۰ کوفی مسلمؓ بن عقیل کے ساتھ مل گئے۔ چنانچہ مسلم نے حضرت حسین ؓ کو فوراً کوفہ پہنچنے کا خط لکھ دیا۔ سیدنا حسین ؓ نے اپنے اہل بیت سمیت کوفہ جانے کا ارادہ کرلیا۔ حضرات ابن عباسؓ اور ابن زبیر کو پتہ چلا تو اُنہوں نے سیدنا حسینؓ کو بہ اصرار روکا کہ عراقی قابل بھروسہ نہیں، وہ غدار اور بے وفا ہیں۔ آپ کے والد اور بھائی کے ساتھ اُنہوں نے غداری کی۔ آپ کو بھی وہاں بلا کر آپ سے علیحدہ ہوجائیں گے، ہمیں آپ کی جان کا ڈر ہے۔ دوسرے اُموی حکام سے بھی خطرہ ہے کہ وہ آپ سے بیعت لیے بغیر آپ کو چھوڑیں گے نہیں۔ آپ عراقیوں سے کہیں کہ پہلے وہ اُموی حکام کو بے دخل کرکے فوج اپنے قبضے میں کریں، پھر آپ کو بلائیں۔ حاکم مدینہ اور حاکم مکہ دونوں نے آپ کو اپنے ہاں قیام کی دعوت دی کہ ہم آپ کا پورا تحفظ کریں گے۔ آپ عراق نہ جائیں مگر سیدنا حسینؓ نے سب کی خیرخواہی اور پیشکش مسترد کردیں اور عراق کا قصد کرلیا۔
دوسری طرف عراق میں حالات یوں پلٹے کہ مسلم بن عقیل کے بارے میں مخبری ہوگئی اور حاکم کوفہ ابن زیاد سے ان کا ٹکراؤ ہوگیا اور توقع کے عین مطابق خطرہ دیکھتے ہوئے سارے کوفی چھٹ گئے اور مسلم کے ساتھ صرف ۳۰ لوگ باقی رہ گئے۔ آخر یہ ۳۰ بھی گھیرے میں آگئے۔ مسلمؓ بن عقیل شدید زخمی ہوئے اور وفات سے پہلے کسی قریبی شخص سے وعدہ لیا کہ میری وصیت سیدناحسینؓ تک پہنچا دینا کہ عراق ہرگز ہرگز نہ آئیں اور جہاں تک پہنچے ہیں، وہیں سے واپس لوٹ جائیں اور میری موت کا بھی پیغام دے دینا۔
ادھر مکہ سے سیدنا حسین ؓ سب کے روکنے کے باوجود عراق کے لیے اپنے ساتھیوں سمیت روانہ ہوچکے تھے کہ راستے میں اُنہیں مسلم بن عقیل کی موت اور ان کی وصیت کے پیغامات ملے تو اُنہوں نے واپسی کا ارادہ کرلیا۔مگر مسلمؓ بن عقیل کے بھائی کہنے لگے کہ ہم تو اپنے بھائی کے خون کا بدلہ لینے ضرور جائیں گے، چاہے ہماری جانیں چلی جائیں۔ چنانچہ سیدنا حسین ؓ نے بھی واپسی کا ارادہ جو بڑی مشکل سے بنا تھا، پھر تبدیل کردیا اور آگے کو روانہ ہوگئے۔ کوفہ میں سیدنا حسین ؓ کے بارے میں پوری مخبری ہورہی تھی۔ ابن زیاد نے ایک ہزار لشکر حر بن یزید کی سرکردگی میں بھیجا کہ امام حسینؓ کو راستے میں مل کر اِن سے بیعت لو یا اُنہیں گھیر کر میرے پاس واپس لے آؤ۔ کچھ دنوں بعد ہی ایک دوسرا لشکر جو چار ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا۔ عمرو بن سعد کی سرکردگی میں پہنچ گیا۔ اُس نے بھی آکر یہی مطالبے دہرائے۔ سیدناحسین ؓ نے کہا میں بیعت نہیں کرسکتا، میں مکہ واپس چلا جاتا ہوں، آپ میرا راستہ چھوڑ دیں۔مگر اُنہوں نے انکار کیا کہ اب صرف دو ہی راستے ہیں یا بیعت کریں یا ابن زیاد کے پاس چلیں۔ آپؓ نے دونوں باتوں سے شدت سے انکار کیا۔ آخر ابن زیاد کے حکم پرقافلۂ حسینؓ پر پانی بند کردیا گیا۔ اس کے بعد شمر ذی الجوشن بھی ایک مزید دستہ لے کر آن پہنچا اور حالات میں مفاہمت اور مصالحت کا کوئی امکان باقی نہ رہا۔
اب تصادم ناگزیر ہوگیا۔ سیدنا حسین ؓ بھی اپنے ۷۲ ساتھیوں کے ساتھ مقابلے کونکلے۔ ۱۰ محرم۶۱ہجری کو کربلا کے میدان میں یہ معرکہ ہوا۔ سیدنا حسینؓ کے ساتھی بہادری سے لڑتے ہوئے ایک ایک کرکے سب شہید ہوگئے۔ ایک شقی القلب'سنان بن انس' نے آگے بڑھ کر سیدناحسین ؓکا سر مبارک تن سے جدا کردیا۔ اس معرکہ میں علی بن حسینؓ کے علاوہ تمام مرد کام آئے۔ یہی علی بن حسین ؓ بعد میں 'زین العابدین' کے نام سے مشہور ہوئے۔
سیدنا حسینؓ کی شہادت کے بعد اہل بیت کا قافلہ کوفہ بھیجا گیا۔ ابن زیاد نے اُسے آگے شام بھجوا دیا۔ یہ حادثہ عظمیٰ یزید کی لاعلمی اور غیر موجودگی میں پیش آیا۔ اس نے تو صرف بیعت لینے یا بحفاظت شام بھجوانے کا حکم دیا تھا، لڑنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ یزید کو جب اس حادثے کی اطلاع دی گئی تو اس کے آنسو نکل آئے اور کہا: ''ابن زیاد! تم پر اللہ کی لعنت ہو۔ اگر میں وہاں ہوتا تو چاہے میری اولاد ہی کیوں نہ کام آجاتی، میں حسینؓ کی جان بچا لیتا۔''
یزید کا پورا کنبہ اہل بیت نبوی کا عزیز تھا۔ جیسے ہی عصمت ماب خواتینِ اہل بیت زنان خانے میں داخل ہوئیں، یزید کے گھر میں کہرام مچ گیا اور تین دن تک سوگ برپا رہا۔ یزید علی بن حسین کو اپنے ساتھ دستر خوان پر کھانا کھلاتا تھا، اس نے مالی طور پر بھی اُنہیں خوب آسودہ کیا۔ جب اہل بیت کرام قدرے پرسکون ہوئے تو بڑے احترام و اہتمام اور حفاظت کے ساتھ مدینہ روانہ کیا۔ ان کے شریفانہ سلوک سے متاثر ہوکر فاطمہؓ اور زینبؓ نے اپنے زیور اتار کر اس کے پاس بطورِ ہدیہ بھیجے لیکن اس نے یہ کہہ کر واپس کردیئے کہ ہم نے تو صرف اپنا دینی فریضہ ادا کیا ہے۔
واقعہ کربلا کی یہ تاریخی حقیقت مختلف تاریخوں اور روایات سے اخذ کی گئی ہے اور شاہ معین الدین احمد ندوی اور ڈاکٹر حمید اللہ جیسے مسلم مؤرخین کی تحقیق کا نچوڑ ہے۔ عام مسلمانوں کے اندر اس حوالے سے شدید قسم کی افراط و تفریط پائی جاتی ہے اور تصور میں نہ آسکنے والے خود ساختہ جذباتیت پر مبنی قصے، کہانیاں تک مشہور کردی گئی ہیں جن کا تعلق چھوٹے معصوم بچوں اور اہل بیت کی عصمت ماب خواتین سے ہے۔ ان کی بھوک اور پیاس کو بڑے جذباتی انداز میں بیان کرکے جذبات کوبھڑکایا جاتا ہے۔
جبکہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ یہ راستہ سیدنا حسینؓ کا خود منتخب کردہ راستہ تھا اور ان سب کو اس راہ میں آنے والی تکالیف اور مصائب کا خوب اندازہ تھا۔ وہ حق کے علمبردار، راہِ شہادت کے مسافر تھے۔ شہادت ان سب کی آرزو اور تمنا تھی۔ وہ شہادت ، جس کو پاکر مسلمان اپنے آپ کو سب سے زیادہ خوش نصیب سمجھتا ہے اور بعد والوں کے لیے باعثِ رشک اور باعثِ مبارکباد ہوتا ہے اور پھر یہ سب مبارک ہستیاں جس مقدس ہستیﷺ کے اہل بیت تھے کیا خود اُنہوں نے راہِ حق میں کم تکالیف اٹھائی ہیں۔ اُنہوں نے اپنے اُسوۂ حسنہ سے اپنے اہل بیت اور اپنی تمام اُمت کو اسی پائے استقلال سے راہِ حق کے مصائب و مشکلات برداشت کرنے کا سبق دیا اور آپﷺ کے اہل بیت ہی بجا طور پر اس بات کے مستحق اور ذمہ دار تھے کہ باطل کے مقابلے میں ڈٹ جائیں اور اسوۂ محمدیﷺ کو اپنے عمل سے زندۂ جاوید کرجائیں۔ سو ہمیں فخر ہے کہ سیدناحسین ؓ اور ان کے اہل بیت کے اس عظیم کارنامے پر اور ان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اُن کے اُسوہ کو اپنائیں۔ حق و باطل میں تمیز کرکے باطل سے ٹکراتے ہوئے حق کے لیے ڈٹ جائیں حتیٰ کہ جان کی بازی بھی لگانے سے دریغ نہ کریں۔
فلسفۂ شہادتِ حسینؓ تو اصل میں یہ ہے کہ جس کی روح سے آج پوری اُمت یکسر طور پر محروم ہے۔ ہر سال محرم میں دکھاوے کے طور پر کچھ رسوم ادا کرلی جاتی ہیں جس میں سے کچھ کا تعلق رونے دھونے اور سوگ منانے سے ہے اور کچھ کا تعلق کھانے پینے اور کھلانے پلانے سے ۔ کیا شہیدوں کے لیے بھی رویا جاتا ہے جن کو حیاتِ ابدی نصیب ہوتی ہے؟ کیا شہیدوں کے لیے ماتم کیا جاتا ہے یا اُن کے نقشِ قدم پر چلنا مقصدِ زندگی بنایا جاتا ہے؟ اس طرزِعمل کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اُمتِ محمدیہؐ کو اسی بنیاد پر دو بڑے مذہبی گروہوں میں تقسیم کردیا گیا۔
یہ با ت بھی غور طلب ہے کہ واقعہ کربلا کے حوالے سے مسلمانوں کے اندر رواج پاجانے والے یہ سارے اعمال شریعت کی نظر میں کیا حیثیت رکھتے ہیں: کیا یہ سب کچھ سنت نبوی ؐہے یا سنتِ حسینی ؓہے؟ تاریخی طور پر دیکھیں تویہ پہلو بھی خوب اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے:
نبی کریمﷺ ۱۱ ہجری میں دنیاے فانی سے اس حال میں تشریف لے گئے کہ دین اسلام مکمل اور تمام تھا۔اس میں نہ اب کمی ہوسکتی تھی نہ اضافہ۔ جو کچھ آپﷺ نے اپنی زندگی میں عمل کئے یا احکام دیئے یا کچھ مسلمانوں کے کردہ اعمال کو دیکھ کر آپﷺ خاموش رہے (گویا آپ کی خاموشی رضا مندی تھی) وہ سب سنتِ نبویؐ بن گئے۔ یعنی سنت صرف وہ ہے جو آپﷺ کے اعمال، احکام اور آپ کی رضا مندیاں ہیں۔ اور آپﷺ نے مسلمانوں کو حکم دے دیا: «عليکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدين» (سنن ابن ماجہ: 42)

''تم پر میری سنت پرعمل کرنا لازم ہے یا پھر خلفاے راشدین کی سنت۔''

مزید برآں آنحضورﷺ نے فرمایا:«فمن رغب عن سنتی فليس مني»

''جس نے میری سنت سے ہٹ کرکوئی عمل کیا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔'' (اور نہ ہی اس کا عمل مقبول ہے) (صحیح بخاری: 5063)

واقعہ کربلا وفات النبیﷺ سے ۵۰ سال بعد محرم ۶۱ہجری میں پیش آیا جبکہ سنتِ نبویؐ اپے دائرے میں بند اور مکمل ہوچکی تھی۔ سو واقعہ کربلا کے حوالے سے جو اعمال و افعال ثواب اور نیکی سمجھ کر انجام دیئے جاتے ہیں، وہ کسی درجے میں بھی سنت نہیں کہلائے جاسکتے کہ بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوں بلکہ یہ واضح طور پر شریعتِ محمدی میں اضافہ اور ابتداع ہے۔ جس کا نتیجہ صرف اور صرف غضب ِخداوندی اور ناراضگی رسول ہے اور دنیا و آخرت دونوں کے لیے باعث خسران ہے۔ اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ عامۃ المسلمین اپنے علم و عمل میں اصلاح کریں اور دنیا وآخرت کے نقصان سے بچ جائیں۔ واللہ الموفق!

٭٭٭٭٭

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔