YOUR INFO

Friday, 8 March 2013

شہادت حسین کا نتیجہ

1 comments

شہادت حسین کا نتیجہ
صحابہ سے بدگمانی اور بدعات محرم کا ظہور: شہادت حسین کی وجہ سے شیطان کو بدعتوں اور ضلالتوں کے پھیلانے کا موقعہ مل گیا۔ چنانچہ کچھ لوگ یوم عاشوراء میں نوحہ وماتم کرتے ہیں، منہ پیٹتے ہیں، روتے چلاتے ہیں، بھوکے پیاسے رہتے ہیں، مرثیے ہیں، یہی نہیں بلکہ سلف و صحابہ کو گالیاں دیتے ہیں، لعنت کرتے ہیں، اور ان بے گناہ لوگوں کو لپیٹ لیتے ہیں جنہیں واقعات شہادت سے دورونزدیک کا کوئی تعلق نہ تھا بلکہ ((وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ )) کو بھی گالیاں دیتے ہیں پھر واقعۂ شہادت کی جو کتابیں پڑھتے ہیں وہ زیادہ تر اکاذیب واباطیل کا مجموعہ ہیں اور ان کی تصنیف واشاعت سے ان کےمصنفوں کا مقصد صرف یہ تھا کہ فتنہ کے نئے نئے دروازے کھلیں۔ اور امت میں پھوٹ بڑھتی جائے۔ یہ چیز باتفاق جملہ اہل اسلام نہ واجب ہے نہ مستحب، بلکہ اس طرح رونا پیٹنا اور پرانی مصیبتوں پر گریہ و زاری کرنا اعظم ترین محرمات دینیہ میں سے ہے۔
پھر ان کے مقابلے میں دوسرا فرقہ ہے جو یوم عاشوراء میں مسرت اور خوشی کی بدعت کرتا ہے۔ کوفہ میں یہ دونوں گروہ موجود تھے۔ شیعوں کا سردار مختار بن عبید تھا اور ناصبیوں کا سرگروہ حجاج بن یوسف الثقفی تھا۔
واقعاتِ شہادت میں مبالغہ: جن لوگوں نے واقعاتِ شہادت قلم بند کیے ہیں ان میں اکثر نے بہت کچھ جھوٹ ملا دیا ہے۔ جس طرح شہادت ِ عثمان بیان کرنے والوں نے کیا اور جیسے مغازی وفتوحات کے راویوں کا حال ہے حتی کہ واقعاتِ شہادت کے مؤرخین میں سے بعض اہل علم مثلاً بغوی اور ابن ابی الدنیا وغیرہ بھی بے بنیاد روائتوں کا شکار ہوگئے ہیں۔ رہے وہ مصنف جو بلا اسناد واقعات روایت کرتے ہیں توان کے ہاں جھوٹ بہت زیادہ ہے۔
دندان مبارک پر چھڑی مارنے کا واقعہ: صحیح طور پر صرف اس قدر ثابت ہے کہ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ شہید کیے گئے تو آپ کا سر مبارک عبیداللہ بن زیاد کے سامنے لایا گیا۔ اس نے اپ کے دانتوں پر چھڑی ماری اور آپ کے حسن کی مذمت کی۔ مجلس میں حضرت انس رضی اللہ عنہ اور ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ دوصحابی موجود تھے انس رضی اللہ عنہ نے اس کی تردید کی اور کہا۔ "آپ رسول ا للہ ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔" صرف حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی نہیں بلکہ اور صحابہ کو بھی آپ کی شہادت سے از حد ملال تھا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک عراقی نے پوچھا کہ حالت احرام میں مکھی کا جائز ہے؟ انہوں نے خفا ہوکر جواب دیا:
"اے اہل عراق تمہیں مکھی کی جان کا اتنا خیال ہے حالانکہ تم رسول اللہ ﷺ کے نواسے کو قتل کرچکے ہو۔"
بعض روائتوں میں دانتوں پر چھڑی مارنے کا واقعہ یزید کی طرف منسوب کیا گیا ہے جو بالکل غلط ہے کیونکہ جو صحابی اس واقعے میں موجود تھے وہ دمشق میں نہیں تھے عراق میں تھے۔
یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم نہیں دیا: متعدد مؤرخین نے جو نقل کیا ہے وہ یہی ہے کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم نہیں دیا اور نہ یہ بات ہی اس کے پیش نظر تھی بلکہ وہ تو اپنے باپ معاویہ رضی اللہ عنہ کی وصیت کے مطابق ان کی تعظیم وتکریم کرنا چاہتا تھا۔ البتہ اس کی یہ خواہش تھی کہ آپ خلافت کے مدعی ہوکر اس پر خروج نہ کریں۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ جب کربلا پہنچے اور آپ کو اہل کوفہ کی بے وفائی کا یقین ہوگیا تو ہر طرح کے مطالبے سے دست بردار ہوگئے تھے۔ مگرمخالفوں کی بے وفائی کا یقین ہوگیا تو ہر طرح کے مطالبے سے دست بردار ہوگئے تھے۔ مگر مخالفوں نے نہ انہیں وطن واپس ہونے دیا، نہ جہاد پر جانے دیا اور نہ یزید کے پاس بھیجنے پر رضامند ہوئے بلکہ قید کرنا چاہا جسے آپ نے نامنظور کیا اور شہید ہوگئے۔ یزید اور اس کے خاندان کو جب یہ خبر پہنچی تو بہت رنجیدہ ہوئے اور روئے بلکہ یزید نے تو یہاں تک کہا۔
((قبح اللہ ابن مرجانۃ لو کانت بینہ وبینکم رحم أو قرابۃ ما فعل ھٰذا بکم)) (تاریخ الطبری: ۳۵۳/۴ والبدایۃ: ۱۹۳/۸)
"(عبیداللہ بن زیاد ) پر اللہ کی پھٹکار! واللہ! اگر وہ خود حسین رضی اللہ عنہ کا رشتہ دار ہوتا تو ہرگز قتل نہ کرتا۔"
اور کہا:
((قد کنت أرضیٰ من طاعۃ أہل العراق بدون قتل الحسین))
"بغیر قتل حسین رضی اللہ عنہ کے بھی میں اہل عراق کی اطاعت منظور کرسکتا تھا۔"
پھراس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پسماندگان کی بڑی خاطر تواضع کی اور عزت کے ساتھ انہیں مدینہ واپس پہنچا دیا۔
یزید نے اہل بیت کی بے حرمتی نہیں کی: بلاشبہ یہ بھی درست ہے کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی طرفداری بھی نہیں کی، نہ ان کے قاتلوں کو قتل کیا نہ ان سے انتقام لیا۔ لیکن یہ کہنا بالکل سفید جھوٹ ہے کہ اس نے اہل بیت کی خواتین کو کنیز بنایا۔ ملک ملک پھرایا اور بغیر کجاوہ کے انہیں اونٹوں پر سوار کیا۔ الحمد للہ مسلمانوں نے آج تک کسی ہاشمی عورت سے یہ سلوک نہیں کیا اور نہ اسے امت محمد (ﷺ) نے کسی حال میں جائز رکھا ہے۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کا گناہ عظیم: یہ بالکل درست ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت عظیم ترین گناہوں میں سے ایک گناہ تھی۔ جنہوں نے یہ فعل کیا، جنہوں نے اس میں مدد کی، جو اس سے خوش ہوئے وہ سب کے سب اس عتاب الہٰی کے سزاوار ہیں جو ایسے لوگوں کےلیے شریعت میں وارد ہے لیکن حسین رضی اللہ عنہ کا قتل ان لوگوں کےقتل سے بڑھ کر نہیں جو ان سے افضل تھے۔ مثلاً انبیاء ، مؤمنین اولین، شہداء یمامہ، شہداء اُحد، شہداء بئر معونہ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یا خود حضرت علی رضی اللہ عنہ بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قاتل تو آپ کو کافر و مرتد سمجھتے اور یقین کرتے تھے کہ آپ کا قتل عظیم ترین عبادت ہے۔برخلاف حسین رضی اللہ عنہ کے کہ ان کے قاتل انہیں ایسا نہیں سمجھتے تھے۔ ان میں اکثر تو آپ کے قتل کو ناپسند کرتے اور ایک بڑا گناہ تصور کرتے تھے لیکن اپنی اغراض کی خاطر اس فعل شنیع کے مرتکب ہوئے جیسا کہ لوگ سلطنت کے لیے باہمی خونریزی کرتے ہیں۔
یزید پر لعنت بھیجنے کا مسئلہ: رہا سوال یزید پر لعنت کرنے کا تو واقعہ یہ ہے یہ ہے کہ یزید بھی بہت سے دوسرے بادشاہوں اور خلفاء جیسا ہی ہے بلکہ کئی حکمرانوں سے وہ اچھا تھا۔ وہ عراق کے امیر "مختار بن ابی عبید الثقفی" سے کہیں اچھا تھا۔ جس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی حمایت کا علم بلند کیا۔ ان کے قاتلوں سے انتقام لیا مگر ساتھ ساتھ یہ دعوی کیا کہ جبرائیل اس کے پاس آتے ہیں، اسی طرح یزید حجاج بن یوسف سے اچھا تھا جو بلانزاع یزید سے کہیں زیادہ ظالم تھا۔ یزید اور اس جیسے دوسرے سلاطین و خلفاء کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ فاسق تھے۔
لعنت کے بارے میں مسئلہ شرعیہ: لیکن فاسق کو معین کرکے لعنت کرنا سنت نبوی ﷺ میں موجود نہیں البتہ عام لعنت وارد ہے۔ مثلاً نبی ﷺ نے فرمایا:
((لَعَنَ اللَّهُ السَّارِقَ يَسْرِقُ الْبَيْضَةَ فَتُقْطَعُ يَدُهُ )) (صحیح البخاری، الحدود، باب لعن السارق إذا لم یسم، ح:۶۷۸۳ وصحیح مسلم، الحدود، باب حد السرقۃ ونصابہا، ح:۱۶۸۷)
"چور پر اللہ کی لعنت کہ ایک انڈے پر اپنا ہاتھ کٹوا دیتا ہے۔"
فرمایا:
((فَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ )) (صحیح البخاری، الجزیۃ والموادعۃ ، باب إثم من عاھد ثم غدر، ح:۳۱۷۹)
"جو بدعت نکالے یا بدعتی کو پناہ دے اس پر اللہ کی لعنت۔"
یامثلاً صحیح بخاری میں ہے کہ ایک شخص شراب پیتا تھا اور باربار نبی ﷺ کے پاس پکڑا آتا تھا یہاں تک کہ کئی پھیرے ہوچکے تو ایک شخص نے کہا:
((اللَّهُمَّ الْعَنْهُ مَا أَكْثَرَ مَا يُؤْتَى بِهِ )) 
"اس پر اللہ کی لعنت کہ باربار پکڑ کر دربار رسالت میں پیش کیا جاتا ہے۔"
آنحضرت ﷺ نے سنا تو فرمایا:
((لَا تَلْعَنُوهُ فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ إِنَّهُ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ)) (صحیح البخاری، الحدود، باب ما یکرہ من لعن شارب الخمر۔۔۔، ح: ۶۷۸۰)
حالانکہ آپ نے عام طور پر شرابیوں پر لعنت بھیجی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ عام طور پر کسی خاص گروہ پر لعنت بھیجنا جائز ہے مگر اللہ اور رسول ﷺ سے محبت رکھنے والے کسی معین شخص پر لعنت کرنا جائز نہیں اور معلوم ہے کہ ہر مومن اللہ اور رسول سے ضرور محبت رکھتا ہے۔
یزید پر لعنت سے پہلے دو چیزوں کا اثبات ضروری ہے: صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا وہ بالآخر دوزخ سے نجات پائے گا۔
بنابریں جو لوگ یزید کی لعنت پر زور دیتے ہیں انہیں دو باتین ثابت کرنی چاہئیں۔ اول یہ کہ یزید ایسے فاسقوں اور ظالموں میں سے تھا جن پر لعنت کرنا مباح ہے۔ اور اپنی اس حالت پر موت تک رہا۔ دوسرے یہ کہ ایسے ظالموں اور فاسقوں میں سے کسی ایک کو معین کرکے لعنت کرنا روا ہے۔ رہی آیت أَلاَ لَعْنَةُ اللّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ (ہود: ۱۸/۱۱) تو یہ عام ہے جیسا کہ باقی تمام آیات وعید عام ہیں۔ اور پھر ان آیتوں سے کیا ثابت ہوتا ہے یہی کہ یہ گناہ لعنت اور عذاب کا مستوجب ہے؟ لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوسرے اسباب آکر لعنت وعذاب کے اسباب کو دور کردیتے ہیں مثلاً گناہ گار نے سچے دل سے توبہ کرلی یا اس سے ایسی حسنات بن آئیں جو سیئات کو مٹا دیتی ہیں۔ یا ایسے مصائب پیش آئے جو گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ بنابریں کون شخص دعویٰ کرسکتا ہے کہ یزید اور اس جیسے بادشاہوں نے توبہ نہیں کی، یا سیئات کو دور کرنے والی حسنات انجام نہیں دیں یا گناہوں کاکفارہ ادا نہیں کیا، یا یہ کہ اللہ کسی حال میں بھی انہیں نہیں بخشے گا۔ حالانکہ وہ خود فرماتا ہے:
إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاءُ (النساء: ۴۸/۴)
پھر صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"سب سے پہلے قسطنطنیہ پر جو فوج لڑے گی وہ مغفور ہے۔" (صحیح البخاری، الجہاد والسیر، باب ماقیل فی قتال الروم، ح:۲۹۲۴)
اور معلوم ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے جس فوج نے قسطنطنیہ پر لڑائی کی اس کا سپہ سالار یزید ہی تھا۔ کہا جاسکتا ہے کہ یزید نے یہ حدیث سن کر ہی فوج کشی کی ہوگی، بہت ممکن ہے کہ یہ بھی صحیح ہو لیکن اس سے اس فعل پر کوئی نکتہ چینی نہیں کی جاسکتی۔
لعنت کا دروازہ کھولنے کے نتائج: پھر ہم خوب جانتے ہیں کہ اکثر مسلمان کسی نہ کسی طرح کے ظلم سے ضرور آلودہ ہوتے ہیں اگر لعنت کا دروازہ اس طرح کھول دیا جائے تو مسلمانوں کے اکثر مردے لعنت کا شکار ہوجائیں گےحالانکہ اللہ تعالیٰ نے مردہ کے حق میں صلاۃ ودعا کا حکم دیا ہے نہ کہ لعنت کرنے کا ۔
نبی ﷺ نے فرمایا ہے:
((لَا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ فَإِنَّهُمْ قَدْ أَفْضَوْا إِلَى مَا قَدَّمُوا )) (صحیح البخاری، الجنائز، باب ما ینہی من سب الأموات، ح:۱۳۹۳)
"مردوں کو گالی مت دو کیونکہ وہ اپنے کیے کو پہنچ گئے۔"
بلکہ جب لوگوں نے ابو جہل جیسے کفار کو گالیاں دینی شروع کیں تو انہیں منع کیا اور فرمایا:
((لَا تَسُبُّوا مَوْتَانَا فَتُؤْذُوا أَحْيَاءَنَا )) (سنن النسائی، القسامۃ، القود من اللطمۃ، ح:۴۷۷۹)
"ہمارے مرے ہوؤں کو گالیاں مت دو کیونکہ اس سے ہمارے زندوں کو تکلیف ہوتی ہے۔"
یہ اس لیے کہ قدرتی طور پر ان کے مسلمان رشتہ دار برا مانتے تھے۔ امام احمد بن حنبل سے ان کے بیٹے صالح نے کہا ألا تلعن یزید؟ آپ یزید کو لعنت کیوں نہیں کرتے؟ حضرت امام نے جواب دیا: متیٰ رأیت أباک یلعن أحداً "تو نے اپنے باپ کو کسی پر بھی لعنت کرتے کب دیکھا تھا۔"
قرآن کریم کی آیت:
فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ *أُوْلَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ * (محمد ۲۲/۴۸۔۲۳)
"کیا تم سے بعید ہے کہ اگر جہاد سے پیٹھ پھیرلو تو لگو ملک میں فساد کرنے اور اپنے رشتے توڑنے یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان کو بہرا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا ہے۔"
سے خاص یزید کی لعنت پر اصرار کرنا خلاف انصاف ہے۔ کیونکہ یہ آیت عام ہے اور اس کی وعید ان تمام لوگوں کو شامل ہے جو ایسے افعال کے مرتکب ہوں جن کا اس آیت میں ذکر ہے یہ افعال صرف یزید ہی نے نہیں کیے بلکہ بہت سے ہاشمی، عباسی ، علوی بھی ان کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اگر اس آیت کی رو سے ان سب پر لعنت کرنا ضروری ہو تو اکثر مسلمانوں پر لعنت ضروری ہوجائے گی۔ کیوں کہ یہ افعال بہت عام ہیں مگر یہ فتویٰ کوئی بھی نہیں دےسکتا۔
قاتلین حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات: رہی وہ روایت جو بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل آگ کے تابوت میں ہوگا۔ اس اکیلے پر آدھی دوزخ کا عذاب ہوگا اس کے ہاتھ پاؤں آتشی زنجیروں سے جکڑے ہوں گے وہ دوزخ میں الٹا اتارا جائے گایہاں تک کہ اس کی تہ تک پہنچ جائے گا اور اس میں اتنی سخت بدبو ہوگی کہ دوزخی تک اللہ سے پناہ مانگیں گے وہ ہمیشہ دوزخ میں پڑا جلتا رہے گا۔"
تو یہ روایت بالکل جھوٹی ہے اورا ن لوگوں کی بنائی ہوئی ہے جو رسول اللہ ﷺ پر تہمت باندھنے سے نہیں شرماتے۔ کہاں آدھی دوزخ کا عذاب، اور کہاں ایک حقیر آدمی؟ فرعون اور دوسرے کفار ومنافقین، قاتلین انبیاء او ر قاتلین مومنین اولین کا عذاب قاتلین حسین سے کہیں زیادہ سخت ہوگا بلکہ عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا گناہ بھی حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے زیادہ ہے۔
اہل سنت کا مسلک معتدل: حسین رضی اللہ عنہ کی طرفداری میں اس غلو کا جواب ناصبیوں کا غُلُو ہےجو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کا مصداق قرار دے کر
((فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُفَرِّقَ أَمْرَ هَذِهِ الْأُمَّةِ وَهِيَ جَمِيعٌ فَاضْرِبُوهُ بِالسَّيْفِ كَائِنًا مَنْ كَانَ )) (صحیح مسلم، الإمارۃ، باب حکم من فرق أمر المسلمین وہو مجتمع، ح:۱۸۵۲)
انہیں باغی اور واجب القتل قرار دیتے ہیں۔ لیکن اہل سنت والجماعت نہ اس کا ساتھ دیتے ہیں نہ اس غلو کا۔ بلکہ یہ کہتےہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ مظلوم شہید ہوئے اور ان کے قاتل ظالم و سرکش تھے۔ اور ان احادیث کا اطلاق ان پر صحیح نہیں جن میں تفریق بین المسلمین کرنے والے کے قتل کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ کربلا میں آپ کا قصد امت میں پھوٹ ڈالنا نہ تھا، بلکہ آپ جماعت ہی میں رہنا چاہتے تھے مگر ظالموں نے آپ کا کوئی مطالبہ نہ مانا، نہ آپ کو وطن واپس ہونے دیا، نہ سرحد پر جانے دیا۔ نہ خود یزید کے پاس پہنچنے دیا بلکہ قید کرنے پر اصرار کیا۔ ایک معمولی مسلمان بھی اس برتاؤ کا مستحق نہیں ہوسکتا کجا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ۔
اسی طرح یہ روایت بھی رسول اللہ ﷺ پر سفید جھوٹ ہے۔
"جس نے میرے اہل بیت کا خون بہایا اور میرے خاندان کواذیت دے کر مجھے تکلیف پہنچائی اس پر اللہ کا اور میرا غصہ ہوگا۔"
اس طرح کی بات رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے کہیں بھی نہیں نکل سکتی تھی۔ کیونکہ رشتہ داری اور قرابت سے زیادہ ایمان اور تقوی کی حرمت ہے اگر اہل بیت میں سے کوئی ایسا شخص جرم کرے جس پر شرعاً اس کا قتل واجب ہو تو بالاتفاق اسے قتل کرڈالا جائے گا۔ مثلاً اگر کوئی ہاشمی چوری کرے تو یقیناً اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اگر زنا کا مرتکب ہوتو سنگسار کردیا جائے گا۔ اگر جان بوجھ کر کسی بے گناہ کو قتل کرڈالے تو قصاص میں اس کی بھی گردن ماری جائے گی۔اگرچہ مقتول حبشی، رومی ، ترکی دیلمی غرض کوئی بھی ہو۔ کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا:
((الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ)) (سنن أبی داؤد، الجہاد، باب فی السریۃ۔۔۔، ح:۲۷۵۱)
"یعنی تمام مسلمانوں کا خون یکساں حرمت رکھتا ہے۔"
پس ہاشمی وغیر ہاشمی کا خون برابر ہے۔
اسلامی مساوات: نیز فرمایا:
((إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا)) (صحیح البخاری،أحادیث الأنبیاء، باب:۵۴، ح:۳۴۷۵ وصحیح مسلم، الحدود، باب قطع السارق الشریف وغیرہ۔۔۔، ح:۱۶۸۸)
"اگلی قومیں اس طرح ہلاک ہوئیں کہ جب ان میں کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو چھوڑ دیا جاتا تھا۔ لیکن جب معمولی آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی تھی۔ واللہ! اگر فاطمہ بنت محمدﷺ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔"
اس میں نبیﷺ نے تشریح کردی ہے کہ اگر آپ کا قریب سے قریب عزیز بھی جرم سے آلودہ ہوگا تو اسے شرعی سزا ضرور ملے گی۔
کسی خاندان کی خصوصیت ثابت نہیں: پھر یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ نبی ﷺ یہ کہہ کر اپنے خاندان کو خصوصیت دیں کہ جو ان کا خون بہائے گا۔ اس پر اللہ کا غصہ بھڑکے گا۔ کیونکہ یہ بات پہلے ہی مسلم ہے کہ ناحق قتل شریعت میں حرام ہے، عام اس سے کہ ہاشمی کا ہو یاغیر ہاشمی کا:
وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَاباً عَظِيماً (النساء ۹۳/۴)
پس قتل کی اباحت و حرمت میں ہاشمی و غیر ہاشمی، سب مسلمان یکساں درجہ رکھتے ہیں۔
اسی طرح رسول اللہ ﷺ کو تکلیف دینا حرام ہے عام اس سے کہ آپ کے خاندان کو تکلیف دے کر ہو یا امت کو ستا کر، یا سنت کو توڑ کر۔ اب واضح ہوگیا کہ اس طرح کی بے بنیاد حدیثیں جاہلوں اور منافقوں کے سوا کوئی اور نہیں بیان کرسکتا۔
اسی طرح یہ کہنا کہ رسول اللہ ﷺ حضرت حسن اور حسین سے نیک سلوک کی مسلمانوں کو ہمیشہ وصیت کرتے اور فرماتے تھے۔ "یہ تمہارے پاس میری امانت ہیں۔" بالکل غلط ہے۔
بلا شبہ حضرت حسن و حسین اہل بیت میں بڑا درجہ رکھتے ہیں لیکن نبی ﷺ نے یہ کبھی نہین فرمایا کہ "حسنین تمہارے پاس میری امانت ہیں۔" رسول اللہ ﷺ کامقام اس سے کہیں ارفع واعلیٰ ہے کہ اپنی اولاد مخلوق کو سونپیں۔
ایسا کہنے کے دو ہی مطلب ہوسکتے ہیں۔
۱۔ یہ کہ جس طرح مال امانت رکھا جاتاہے اور اس کی حفاظت مقصود ہوتی ہے تو یہ صورت تو ہو نہیں سکتی کیونکہ مال کی طرح آدمی امانت رکھے نہیں جاسکتے۔
۲۔ یا یہ مطلب ہوگا کہ جس طرح بچوں کو مربیوں کے سپرد کیا جاتا ہے ۔ تو یہ صورت بھی یہان درست نہیں ہوسکتی کیونکہ بچپن میں حسنین اپنے والدین کی گود میں تھے۔ اور جب بالغ ہوئے تو اور سب آدمیوں کی طرح خودمختار اور اپنےذمہ دار ہوگئے۔
اگر یہ مطلب بیان کیاجائے کہ نبی ﷺ نے امت کو ان کی حفاظت و حراست کا حکم دیا تھا تو یہ بھی درست نہیں کیونکہ امت کسی کو مصیبت سے بچا نہیں سکتی۔ وہ صرف اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔
اگر کہا جائے کہ اس سے آپ کی غرض ان کی حمایت ونصرت تھی۔ تو اس میں ان کی خصوصیت نہیں۔ ہر مسلمان کو دوسرے مظلوم مسلمان کی حمایت ونصر ت کرنی چاہیے اور ظاہرہے حسنین اس کے زیادہ مستحق ہیں۔
اسی طرح یہ کہنا کہ آیت:
قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى (الشوری ۲۳/۴۲)"میں تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتاہوں صرف رشتہ داری کی محبت چاہتا ہوں۔"
حسنین کے بارے میں نازل ہوئی ہے، بالکل جھوٹ ہے کیونکہ یہ آیت سورۃ شوری کی ہے اور سورۂ شوری مکی ہے اور حسنین کیا معنی ؟ حضرت فاطمہ کی شادی سے بھی پہلے اتری ہے۔ آپ کا عقد ہجرت کے دوسرے سال مدینہ میں ہوا اور حسن و حسین ہجرت کے تیسرے اور چوتھے سال پیدا ہوئے۔ پھر یہ کہنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔؟ (منہاج السنہ از صفحہ: ۲۳۷ تا ۲۵۶، ج: ۲، طبع قدیم)

1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔