حضرت اسماء بنتِ ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہا
ذَاتُ النِطَاقَیْن
جس رات کو سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مکہ معظمہ سے ہجرت کر کے غارِ ثور میں تشریف فرما ہوئے، مشرکین نافرجام ساری رات کاشانہ نبوّت کے گرد گھیرا ڈال کر اس بات کا انتظار کرتے رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کب باہر تشریف لائیں اور وہ اپنا ناپاک منصوبہ پورا کریں۔ لیکن ان بدبختوں کو معلوم نہیں تھا کہ اللہ نے رات کو انکی آنکھیں پٹم کر دی تھیں اور سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم سورہ یٰسین کی ابتدائی آیات پڑھتے ہوئے ان کے درمیان سے نکل کر مکہ معظمہ کو الوداع کہہ چکے تھے۔ سپیدہ سحر نمودار ہوا اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر اقدس پر حضرت علی بن طالب رضی اللہ عنہ کو استراحت فرما دیکھا تو سر پیٹ کر رہ گئے۔ساری بات ان کی سمجھ میں آگئی لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ ان کا سرخیل ابوجہل اپنے منصوبے کی ناکامی پر غم و غصہ سے دیوانہ ہو گیا اور سیدھا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچ کرزور زور سے دروازہ کھٹکھٹانے لگا۔
اندر سے ایک نوجوان خاتون باہر آئیں۔
ابوجہل نے کڑک کر پوچھا۔: ’’لڑکی تیرا باپ کدھر ہے؟‘‘
خاتون نے جواب دیا: ’’میں کیا بتا سکتی ہوں۔‘‘
یہ سن کر ابوجہل نے خاتون کے چہرے پر اس زور کا تھپڑ مارا کہ ان کے کان کی بالی ٹوٹ کر دور جا گری۔ مظلوم خاتون بڑے صبر اور خاموشی کے ساتھ گھر کے اندر چلی گئیں اور ابوجہل بکتا جھکتا وہاں سے دفع ہو گیا۔
یہ خاتون جنہوں نے فرعونِ قریش ابوجہل کے قہروغضب کی مطلق پرواہ نہ کی اور ہجرت کے پر خطر راز کو اپنے نہاں خانہ دل میں محفوظ رکھا سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے یار غار صدیقِ اکبر کی بڑی صاحبزادی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا تھیں۔
حضرت اسماء بنتِ ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہا (بن ابوقُحافہ بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرّہ بن کعب بن لَوَی القرشی) کا شمار نہایت بلند رتبہ صحابیات میں ہوتا ہے۔ والدہ کا نام قتیلہ بنتِ عبدالعزّیٰ تھا۔ نانا عبدالعزّیٰ قریش کے نامور رئیس تھے۔ امّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت اسماء کی سوتیلی بہن تھیں اور عمر میں ان سے چھوٹی تھیں، حضرت عبداللہ بن ابی بکر حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے حقیقی بھائی تھے۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا ہجرت نبوی سے ستائیس سال قبل مکہ معظمہ میں پیدا ہوئیں۔ والد ماجد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ روزِ اوّل ہی سے نہایت اعلیٰ اخلاق اور پاکیزہ اوصاف کے حامل تھے ظاہر ہے ایسے پاکباز اور فرشتہ سیرت باپ کے زیرِسایہ ان کی تربیت کیسی ہوئی ہوگی۔
قبول اسلام کے لحاظ سے بھی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو امتیازی خصوصیت حاصل ہے وہ اوائل بعثت میں اس وقت سعادت اندوز اسلام ہوئیں جب صرف سترہ نفوس قدسی مخفی طور پر ایمان لائے تھے۔ اس طرح سابقون الاوّلون کی صف میں ان کا نمبر اٹھارواں ہے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ سے ہوا جو اصحاب مبشّرہ میں سے ایک ہیں۔ وہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی اور امّ المؤمنین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے حقیقی بھتیجے تھے۔
چوتھے سال بعثت کے اوائل میں رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے علانیہ تبلیغ حق کا آغاز فرمایا تو مشرکین قریش کے قہروغضب کا آتش فشاں پوری قوت سے پھٹ پڑا اور انہوں نے پرستارانِ حق پر ایسے دلدوز مظالم ڈھانے شروع کر دیئے کہ انسانیت سر پیٹ کر رہ گئی۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے ایسے کئی مظالم اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ مسند ابو یعلیٰ میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کے ہاتھوں جو تکالیف پہنچیں آپ نے ان میں سے کون سی تکلیف زیادہ سخت محسوس دیکھی۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ:
’’ایک دن بہت سے مشرکین مسجد حرام میں بیٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ محمّد نے ہمارے معبودوں کو یہ اور یہ کہا۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لائے۔ تمام مشرکین حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جھپٹ پڑے۔ حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ تک ان کے شوروغوغا کی آواز پہنچی۔ اس وقت وہ گھر میں ہمارے پاس بیٹھے تھے کسی نے آ کر بتایا کہ قریش محمّد کے قتل پر آمادہ ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مسجد حرام کی طرف بھاگ کر گئے۔ اس وقت ان کے سر پر چار زلفیں تھیں اور وہ کفار سے کہہ رہے تھے، تمہارا ناس جائے کیا تم اس آدمی کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس اپنے رب کی جانب سے واضح دلائل لے کر آیا ہے، مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو چھوڑ دیا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑے، اتنا زدوکوب کیا کہ وہ بے ہوش ہو گئے جب انہیں اٹھا کر گھر لائے تو زخموں کی وجہ سے ان کی یہ حالت تھی کہ ہم سر کی جس مینڈھی کو ہاتھ لگاتے تھے بال جھڑ جاتے تھے اور حضرت ابوبکر کہہ رہے تھے
تَبَارَکْتَ یَا ذَالجَلاَلِ وَالاِْکْرَام۔‘‘
اپنے آقا مولا، شفیق والد گرامی اور دوسرے اہل حق پر ظلم وستم کے پہاڑ ٹوٹتے دیکھ کر حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے دل پر جو گزرتی ہوگی اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں تاہم وہ نہایت صبرواستقامت کے ساتھ یہ روحانی کلفت سہتی رہیں تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کی جازت دے دی۔
سفر ہجرت میں حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے پدرِ گرامی کو ’’رفاقتِ خیر البشر‘‘ کا مہتم بالشّان شرف حاصل تھا۔ شب ہجرت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بستر مبارک پر اپنے جاں نثار ابن عمّ حضرت علی ابن طالب رضی اللہ عنہ کو سلایا اور خود سورۃ یٰسین کی ابتدائی آیات پڑھتے ہوئے دشمنوں کے درمیان سے گزر کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے۔ مشرکین کو اللہ تعالیٰ نے ایسا غافل کیا کہ انہیں خبر ہی نہ ہوئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کب اپنے کاشانہ اقدس سے باہر تشریف لے گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ مل کر فوراً سامان سفر درست کیا، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے دو تین دن کا کھانا تیار کر رکھا تھا۔ اسے ایک تھیلے میں ڈالا اور ایک مشکیزے میں پانی ڈالا۔ اتفاق سے تھیلے اور مشکیزے کا منہ باندھنے کیلئے گھر میں کوئی رسّی موجود نہیں تھی اور وقت کا ایک ایک لمحہ قیمتی تھا، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے فوراً اپنا کمربند(نطاق) کھول کر اسکے دو ٹکڑے کئے۔ ایک سے کھانے کے تھیلے کا منہ باندھا اور دوسرے سے مشکیزے کا۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی اس خدمت سے بہت خوش ہوئے اور انہیں ’’ذات النطاقین‘‘ لا لقب عطا فرمایا۔
بعض روایتوں میں اس واقعے کو ایک دوسری صورت میں بیان کیا گیا ہے وہ یہ کہ شب ہجرت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی معیّت میں مکے سے نکل کر غارِثور میں نزول اجلال فرمایا۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اس راز سے آگاہ تھیں وہ روزانہ رات کو اپنے بھائی حضرت عبداللہ بن ابی بکر کے ساتھ خفیہ طور پر غارِثور میں تشریف لے جاتیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تازہ کھانا کھلا کر واپس آتیں۔ تیسری رات کے آخری حصے میں عبداللہ بن اریقط (۱) جسے رہنمائی کے لئے مقرر کیا گیا تھا حسبِ ہدایت دو اونٹنیاں لے کر غارِثور پہنچ گیا، اسی وقت حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بھی ایک تھیلی میں کھانا ڈال کر آ پہنچیں۔ جلدی میں گھر سے چلتے وقت اس کو باندھنے کیلئے کوئی چیز ساتھ لانے کا خیال نہ رہا۔ چنانچہ انہوں نے اپنا نطاق (وہ رومال یا کپڑا جو عورتیں اس زمانے میں قمیص کے اوپر کمر پر لپیٹتی تھیں) کھول کر اسے پھاڑا۔ ایک حصے سے زادِراہ کے تھیلے کا منہ باندھ کر ایک اونٹنی کے کجاوے کے ساتھ لٹکا دیا اور دوسرا حصہ اپنی کمر کے ساتھ لپیٹ لیا۔ اسی لئے انہیں ذات النِطاقین کہا جاتا ہے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا اپنا بیان یہ ہے کہ جب توشہ دان کو باندھنے کیلئے اور کوئی چیز نہ ملی تو میرے والد نے مجھے اپنا نِطاق پھاڑنے کا حکم دیا۔ اسی وجہ سے میرا نام ذات النِطاقین رکھا گیا۔
بعض روایتوں میں ان کا لقب ذات النطاق بھی بیان کیا گیا ہے۔ (صحیح بخاری باب الحجرہ) میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اسماء رضی اللہ نے اپنے نطاق کا ایک ٹکڑا پھاڑا اور اسکو تھیلی کے منہ پر لپیٹا اسی لئے ان کا نام ’’ذات النطاق‘‘ پڑ گیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، ابنِ زبیر کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ ان کی ماں ذات النطاق ہیں۔ ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو ’’ذات النِطاقین‘‘ بھی کہتے تھے اور ’’ذات النِطاق‘‘ بھی۔
وقعہ کی صورت خواہ کچھ بھی ہو، اس خدمت کی بدولت حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو بارگاہِ رسالت سے جو لقب مرحمت ہوا وہ آج چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود زندہ ہے اور تاابد زندہ رہ کر ان کے عزّوشرف پر مہرِ تصدیق ثبت کرتا رہے گا۔
شبِ ہجرت کی صبح کو وہ واقعہ پیش آیا جس کا ذکر اوپر آیا ہے۔ جب ابوجہل بکتا جھکتا چلا گیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نابینا والد ابو قُحافہ(جو ابھی ایمان نہیں لائے تھے) حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مخاطب ہو کر بولے۔ ’’بیٹی ابوبکر نے تمہیں دوہری مصیبت میں ڈالا ہے خود بھی چلا گیا اور سارا مال بھی ساتھ لے گیا۔‘‘
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ واقعی گھر میں رکھا ہوا سارا روپیہ ساتھ لے گئے تھے، لیکن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے ضعیف العمر اور نابینا دادا کا دل توڑنا مناسب نہ سمجھا اور جواب دیا:
’’نہیں دادا جان انہوں نے خیرِ کثیر ہمارے لیے چھوڑی ہے۔‘‘
پھر انہوں نے ایک تھیلے میں کچھ پتھر ڈالے اور اور اس گڑھے یا طاق میں رکھ دیئے جہاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنا مال رکھا کرتے تھے۔ اس کے بعد وہ ابوقُحافہ کا ہاتھ پکڑ کر وہاں لے گئیں اور کہا: ’’ داداجان، آپ ہاتھ لگا کر دیکھ لیں یہ کیا رکھا ہے۔‘‘
ابوقُحافہ نے اس کپڑے کی پوٹلی پر ہاتھ رکھا تو مطمئن ہو گئے اور بولے:
’’ ابوبکر نے اچھا کیا تمہارے لیے کافی انتظام کر گیا۔‘‘
ہجرت کے بعد رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند دن قُبا میں قیام فرمایا اور پھر مدینہ منورہ کو اپنے قدومِ میمت لزوم سے مشرّف فرمایا۔ چند ماہ بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کو مکے بھیجا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ اور متعلّقین کو مدینہ لے آئیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کے ساتھ عبداللہ بن اریقط کو اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے نام خط دے کر بھیجا کہ وہ بھی اپنی والدہ(امّ رومان رضی اللہ عنہا ) اور بہنوں کومدینہ لے آئیں۔ چنانچہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ امّ المؤمنین حضرت سودہ، حضرت فاطمہ الزہراء، حضرت امّ کلثوم رضی اللہ عنہما اور حضرت امّ یمن (زوجہ حضرت زید رضی اللہ عنہ) اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو لے آئے اور حضرت عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ حضرت امّ رومان رضی اللہ عنہا، حضرت اسماء اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کو لے کر مدینہ منورہ پہنچے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے چند دن بعد اپنے شوہر حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہا اور خوشدامن حضرت صفیّہ بنتِ عبدالمّطلب کے ساتھ ہجرت کی اور قُبا میں قیام کیا لیکن جمہور اربابِ سیئر نے پہلی روایت کو ترجیح دی ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ عرصہ پہلے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ ایک تجارتی قافلے کے ہمراہ شام گئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر ہجرت کے دوران وہ شام سے پلٹ رہے تھے۔ راستے میں کسی جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ (اپنے خسر) کی خدمت میں کچھ سفید کپڑے تحفۃً پیش کئے اورآپ یہی کپڑے زیبِ تن فرما کر مدینہ منورہ میں داخل ہوئے۔ مکہ واپس پہنچ کر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت کی تیاری کی اور اپنی والدہ حضرت صفیّہ رضی اللہ عنہا کو ساتھ ے کر مدینہ منورہ آگئے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے قُباء میں مستقل اقامت اختیار کی اور وہیں حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو بھی (خاص مدینہ منورہ شہر سے) بلا لیا۔
ہجرت کے بعد اتفاق سے عرصہ تک کسی مہاجر کے ہاں اولاد نہ ہوئی۔ اس پر یہود مدینہ نے مشہور کر دیا کہ ہم نے مسلمانوں پر جادو کر دیا ہے اور ان کا سلسلہ نسل منقطع کردیا ہے۔ یہی دن تھے کہ سنہ ۱ ہجری میں حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے بطن سے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ گویا ہجرت کے بعد وہ مسلمانوں کے مولودِ اوّل تھے۔(؎۱) مسلمانوں کو حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی ولادت پر بیحد مسرت ہوئی اور انہوں نے فرط انبساط میں اس زور سے نعرہ ہائے تکبیر بلند کیے کہ دشت و جبل گونج اٹھے۔ یہودی سخت شرمندہ ہوئے کیونکہ ان کے چل ُ تلبیس کا پردہ چاک ہو گیا۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا (بچے) حضرت عبداللہ کو گود میں لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کو اپنی آغوش مبارک میں لے لیا۔ ایک کھجور اپنے دہن مبارک میں ڈال کر چبائی اور پھر اسے اپنے لعابِ دہن کے ساتھ ملا کر ننھے عبداللہ کے منہ میں ڈالا۔ اسکے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے لیے دعائے خیروبرکت مانگی۔ امّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے انہی بھانجے کے نام پر اپنی کنّیت ’’امّ عبداللہ‘‘ رکھی تھی۔
مدینہ منورہ (قباء) میں اقامت گزین ہونے کے بعد حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے پہلے چند سال بڑی تنگی ترشی سے بسر کیے۔ اس زمانے میں ان کے شوہر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ بہت مفلس اور تنگدست تھے اور ان کی ساری متاع لے دے کے ایک گھوڑے اور ایک اونٹ پر مشتمل تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نخلستان بنی نضیر میں کچھ زمین بطور جاگیر عطا فرمائی تھی چنانچہ شروع شروع میں وہ اسکی کاشت کرکے اپنی معاش کا سامن پیدا کرتے تھے۔ یہ زمین مدینہ منورہ سے تین فرسخ دور تھی۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا روزانہ وہاں سے کھجور کی گٹھلیاں جمع کرکے لاتیں، انہیں کوٹ کوٹ کر اونٹ کو کھلاتیں، گھوڑے کیلئے گھاس مہیا کرتیں، پانی بھرتیں، مشک پھٹ جاتی تو اس کو سیتیں۔ ان کاموں کے علاوہ گھر کا دوسرا سب کام بھی خود انجام دیتی تھیں۔ روٹی اچھی طرح پکا سکتی تھیں۔ پڑوس میں چند انصاری خواتین تھیں، وہ ازراہِ محبت و اخلاص ان کی روٹیاں پکا دیتیں تھیں۔ صحیح بخاری میں خود حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
’’زبیر نے مجھ سے نکاح کیا، اس وقت ان کے پاس نہ تو زمین تھی نہ غلام، نہ کچھ اور سوائے ایک اونٹ اور ایک گھوڑے کے۔ میں ان کے گھوڑے کو دانہ کھلاتی تھی، پانی بھرتی تھی، ڈول سیتی تھی، آٹا گوندھتی تھی۔ انصار کی کچھ عورتیں جو میری ہمسایہ تھیں، روٹی پکا دیتی تھیں، وہ عورتیں مخلص تھیں، میں زبیر کی زمین سے جو انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمائی تھی، سر پر گٹھلیاں رکھ کر لاتی تھی۔ یہ زمین میرے گھر سے تین فرسخ کی مسافت پر تھی۔‘‘
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اور طبرانی نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی تنگدستی کے زمانے کا ایک دلچسپ واقعہ بھی بیان کیا ہے جو خود حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی زبانی مذکور ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’ایک مرتبہ میں اس زمین میں تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو عطا فرمائی تھی، یہ بنو نضیر کی زمین کہلاتی تھی۔ ایک دن حضرت زبیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کہیں باہر گئے۔ ہمارا ایک یہودی پڑوسی تھا، اس نے ایک بکری ذبح کی اور بھونی۔ اسکی خوشبو میری ناک تک پہنچی تو مجھے ایسی سخت اشتہا پیدا ہوئی کہ اس سے پہلے کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ ان دنوں میری بیٹی خدیجہ پیدا ہونے والی تھی، مجھ سے صبر نہ ہو سکا، میں یہودی عورت کے پاس آگ لینے گئی اس ارادہ سے کہ شاید وہ مجھ سے کھانے کی بات پوچھے ورنہ مجھے آگ کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ وہاں پہنچ کر خوشبو سے میری اشتہا میں اور اضافہ ہو گیا لیکن یہودیہ نے مجھ سے کھانے کی بات ہی نہ کی۔ میں آگ لے کر اپنے گھر آگئی اور کچھ دیر بعد پھر یہودیہ کے گھر گئی پھر بھی اس نے کھانے کی بات نہ کی۔ تیسری مرتبہ پھر میں نے اس کے گھر پھیرا ڈالا لیکن کسی نے بات نہ پوچھی۔ اب میں اپنے گھر میں بیٹھ کر رونے لگی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ الٰہی میری اشتہا کا سامان مہیا کردے۔ اتنے میں یہودیہ کا شوہر اپنے گھر آیا اور آتے ہی پوچھا، کیا تمہارے پاس کوئی آیا تھا؟ یہودیہ نے کہا، ہاں پڑوس کی عرب عورت آئی تھی۔ یہودی نے کہا: جب تک اس گوشت میں سے تو اس کے پاس کچھ نہ بھیجے گی میں ہرگز اسکو نہ کھاؤں گا۔(کیونکہ اس کو ڈر تھا کہیں کھانے کو نظر نہ لگ گئی ہو) چنانچہ اس نے میرے پاس گوشت کا ایک پیالہ بھیج دیا۔( اس زمانے میں) میرے لیے اس جگہ اس سے زیادہ پسندیدہ اور عجیب کوئی کھانا نہ تھا۔‘‘
یہ روایت حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی صاف گوئی پر دلالت کرتی ہے۔ اس میں انہوں نے اپنی عسرت اور ایک بشری کمزوری کا حال صاف صاف بیان کردیا ہے۔
اسی زمانے میں ایک دن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کھجور کی گھٹلیوں کا گٹھا سر پر لادے چلی آ رہی تھیں کہ راستے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اصحاب کے ہمراہ مل گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اونٹ کو بٹھایا اور چاہا کہ اسماء رضی اللہ عنہا اس پر سوار ہو جائیں لیکن حضرت اسماء شرم کی وجہ سے اونٹ پر نہ بیٹھیں اور گھر پہنچ کر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے سارا واقعہ بیان کیا۔ انہوں نے کہا: ’’سبحان اللہ سر پر بوجھ لادنے سے شرم نہیں آئی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ پر بیٹھنے میں شرم مانع ہوئی۔‘‘
کچھ عرصہ بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت اسماء اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو ایک غلام عطا کیا جس نے گھوڑے اور اونٹ کی نگہداشت سنبھال لی اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی مصیبت کچھ کم ہوئی۔
شروع شروع میں حضرت اسماء رضی اللہ عنہا افلاس کی وجہ سے ہر چیز ناپ تول کر خرچ کرتی تھیں۔ سرکارِ دوعالم کو معلوم ہوا تو آپ نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
’’اسماء ناپ تول کرمت خرچ کیا کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی نپی تلی روزی دے گا۔‘‘
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو جرزِ جان بنا لیا اور کھلے دل سے خرچ کرنے لگیں۔ خدا کی قدرت اسی وقت سے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی آمدنی بڑھنے لگی اور تھوڑی سی مدت میں ان کے گھر میں دولت کی ریل پیل ہو گئی۔
آسودہ حالی کے بعد بھی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنی سادہ وضع نہ ترک کی ہمیشہ روکھی سوکھی روٹی سے شکم پری کرتیں اورموٹا جھوٹا کپڑا پہنتیں، البتہ اپنی دولت کو خٰر خیرات کے کاموں میں بے دریغ خرچ کرتیں تھیں۔ جب کبھی بیمار ہوتیں تمام غلاموں کو آزاد کردیتیں۔ اپنے بچوں کو ہمیشہ ہدایت کرتی تھیں کہ مال جمع کرنے کیلئے نہیں ہوتا بلکہ حاجت مندوں کی امداد کیلئے ہہوتا ہے۔ اگر تم بخل کروگے تو اللہ بھی تمہیں اپنے فضل و کرم سے محروم رکھے گا ہاں جو صدقہ کروگے اور راہِ خدا میں خرچ کروگے وہ تمہارے کام آئیگا اس ذخیرہ کے ضائع ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنی سادہ اور درویشانہ وضع آخری دم تک برقرار رکھی۔ علامہ ابن سعد نے طبقات میں لکھا ہے کہ کہ ان کی زندگی کے آخری دور میں ان کے صاحبزادے منذر بن زبیر رضی اللہ عنہ عراق کی فتح کے بعد لڑائی کے میدان سے واپس آئے تو ان کے مال غنیمت کے حصے میں کچھ قیمتی زنانہ کپڑے بھی تھے۔ انہیں لے کر اپنی والدہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے یہ کپڑے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا: ’’ بیٹا مجھے تو موٹا کپڑا پسند ہے۔‘‘ چناچہ منذر رضی اللہ عنہ ان کے لئے موٹے کپڑے لائے جو انہوں نے خوشی سے قبول کر لئے۔ اور فرمایا: ’’ بیٹا مجھے ایسے ہی کپڑے پہنایا کرو۔‘‘
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے اپنی ماں سے بڑھ کر کسی کو فیاض نہیں دیکھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک اور روایت میں فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ عائشہ اور والدہ اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے زیادہ سخی اور کریم النفس کسی کو نہیں دیکھا۔ فرق یہ تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ذرا جوڑ جوڑ کر جمع کرتی تھیں اور جب کچھ رقم جمع ہو جاتی تو سب کی سب راہِ خدا میں لٹا دیتی تھیں اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا جو کچھ پاتی تھیں اسی وقت تقسیم کر دیتی تھیں۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ترکے میں ایک جائداد پائی تھی۔ اس کو انہوں نے ایک لاکھ درہم پر فروخت کر دیا اور ساری رقم قاسم بن محمّد اور ابنِ ابی عتیق کو (جو ان کے قرابت دار تھے) دے دی کیونکہ وہ حاجت مند تھے۔ (یہ واقعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد کا ہے)۔
باوجود کشادہ دستی اور فیاضی کے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اپنے شوہر کے گھر بار کی حفاظت انتہائی دیانتداری سے کرتی تھیں۔ ایک دفعہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی غیر حاضری میں ایک سوداگر آیا اور ان کے دروازے پر کھڑے ہوکر التجا کی کہ اپنے گھر کی دیوار کے سائے میں مجھے سودا بیچنے کی اجازت دیجئے۔ بولیں:
’’اگر میں اجازت دے دوں اور زبیر انکار کریں تو بڑی مشکل بن جائیگی۔ تم زبیر کی موجودگی میں آ کر اجازت طلب کرنا۔‘‘
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ گھر تشریف لائے تو سوداگر پھر آیا اور دروازے پر کھڑے ہو کر درخواست کی:
’’امّ عبداللہ! میں مسکین آدمی ہوں، آپ کی دیوار کے سائے میں کچھ سودا بیچنا چاہتا ہوں، اجازت مرحمت فرمائیں۔‘‘
بولیں: ’’میرے گھر کے سوا تمہیں مدینہ میں کوئی اور گھر نہ ملا؟‘‘
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’تمہارا کیا بگڑتا ہے جو ایک مسکین کو بیع اور شراء سے روکتی ہو۔‘‘
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے فوراً اجازت دے دی کیونکہ ان کا دلی منشاء بھی یہی تھا۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا دستِ سخاوت بیحد کشادہ تھا لیکن حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے مزاج میں ذرا سختی تھی۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے ایک دن سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
’’یا رسول اللہ! کیا میں شوہر کے مال سے ان کی اجازت کے بغیر یتیموں اور مسکینوں کو کچھ دے سکتی ہوں؟‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ہاں دے سکتی ہو۔‘‘
ایک مرتبہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ مال صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ تمام صحابہ کرام نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ارشادِ نبوی کی تعمیل کی۔ صحابیات نے اپنے زیور تک اتار کر دے دیے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس ایک لونڈی تھی، انہوں نے اسے فروخت کردیا اور پیسہ لے کر بیٹھ گئیں۔ جب حضرت زبیر رضی اللہ عنہ گھر تشریف لائے تو انہوں نے حضرت اسماء سے روپیہ مانگا۔ انہوں نے فرمایا ’’میں نے صدقہ کردیا ہے۔‘‘
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ خاموش ہوگئے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کے وہ بھی طالب تھے۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نہایت راسخ العقیدہ مسلمان تھیں لیکن ان کی والدہ قُتیلہ بنتِ عبدالعزیٰ شرف اسلام سے بہرہ یاب نہ ہوئیں۔ اسی لئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو ہجرت سے پہلے طلاق دے دی تھی۔(ایک روایت کے مطابق طلاق کے بعد انہوں نے کسی دوسرے شخص سے شادی کر لی تھی) صحیح بخاری میں ہے کہ ایک دفعہ قُتیلہ مدینہ منورہ آئیں اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کچھ روپے مانگے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا ان کی مدد کرنا چاہتی تھیں لیکن ان کے شرک کی وجہ سے روپے دینے میں متامّل ہوئیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ’’یا رسول اللہ! میری والدہ مشرک ہیں اور وہ مجھ سے روپے مانگتی ہیں، کیا میں ان کی مدد کر سکتی ہوں اور ان کے سوال کو پورا کر سکتی ہوں؟‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’ہاں‘‘ (یعنی اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو)
ایک اور روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ صلہ رحمی سے نہیں روکتا۔‘‘
طبقات ابن سعد اور مسندِ احمد بن حنبل میں ایک روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی والدہ قتیلہ ان کے لئے کچھ تحائف لے کر ملنے آئیں، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی غیرت دینی نے گوارا نہ کیا کہ اپنی مشرک ماں کے تحائف قبول کریں یا انہیں اپنے مکان میں ٹہرائیں۔ چنانچہ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی معرفت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اس موقع پر میرے لئے کیا حکم ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کے تحائف قبول کرلو اور ان کو اپنے گھر میں مہمان رکھو۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت ملنے پر انہوں نے اپنی والدہ کو اپنے مکان میں ٹہرنے کی اجازت دے دی اور ان کے تحفے قبول لر لیے۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کمال درجے کی عابدہ اور زاہدہ تھیں۔ کثرت عبادت کی وجہ سے ان کے تقدّس کا عام شہرہ ہو گیا تھا اور طرح طرح کے مریض ان کے پاس دعائے خیر کرانے آتے تھے۔ اگر کوئی بخار کا مریض آتا تو اسکے لیے دعا کرتیں اور پھر اس کے سینے پر پانی چھڑکتیں، اللہ تعالیٰ اسے شفا دے دیتا۔ فرمایا کرتی تھیں:
’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ بخار نار جہنّم کی گرمی ہے۔ اسے پانی سے ٹھنڈا کرو۔‘‘
سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک جبّہ امّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی تحویل میں تھا۔ جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے یہ جبّہ مبارک حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے سپرد کردیا۔ انہوں نے اسے سر آنکھوں پر رکھا اور جب تک زندہ رہیں اسے اپنی جان کے ساتھ رکھا۔ اگر کبھی گھر میں کوئی علیل ہو جاتا تو اس جبّہ مبارک کو دھو کر اس کا پانی مریض کو پلا دیتی تھیں۔ اسکی برکت سے مریض کو شفا ہو جاتی تھی۔ خود حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو کبھی درد سر ہوتا تو اپنے سر کو ہاتھ میں پکڑ کر کہتیں۔ ’’الٰہی اگرچہ میں بہت خطاکار ہوں لیکن تیری رحمت اور فضل بے پایاں ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ انہیں آرام دے دیتا۔
ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسوف کی نماز پڑھا رہے تھے۔ متعدد صحابیات جن میں حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بھی شامل تھیں، آپ کی اقتدا میں نماز ادا کر رہی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو کئی گھنٹے طول دیا۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی طبیعت کچھ کمزور تھی، تھک کر چور چور ہو گئیں لیکن بڑے استقلال سے کھڑی رہیں۔ جب نماز ختم ہوئی تو غش کھا کر گر پڑیں۔ چہرے اور سر پر پانی چھڑکا گیا تو ہوش میں آئیں۔
صحیح بخاری میں خود حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
’’ایک دفعہ سورج کو گرہن لگا تو میں عائشہ رضی اللہ عنہا زوج الّنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں گئی۔ وہاں دیکھا کہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں اور عائشہ بھی نماز میں مشغول تھیں۔ میں نے ان سے پوچھا لوگوں کو کیا ہوا؟ انہوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور کہا، سبحان اللہ۔ میں نے پوچھا، کیا یہ خدائی نشانی ہے؟ انہوں نے اشارے سے اثبات میں جواب دیا چنانچہ میں بھی نماز کیلئے کھڑی ہو گئی۔ (نماز اتنی طویک ہوئی کہ تھکاوٹ کے مارے) مجھے غش آگیا اور بعد میں میں نے اپنے سر پر پانی ڈالا۔ نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کے بعد فرمایا: ’’میں نے ابھی جو کچھ بھی دیکھا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھاتھا۔ یہاں تک کہ دوزخ اور جنّت بھی میرے مشاہدے میں آئے۔ مجھے بتایا گیا کہ تم لوگ قبروں میں آزمائش میں ڈالے جاؤگے جیسا کہ فتنہ دجّال کے موقعے پر تمہاری آزمائش ہوگی۔ فرشتے تم میں سے ہر ایک کی طرف آئینگے اور(میری صورت دکھا کر) پوچھیں گے، کیا تم ان کو جانتے ہو؟ مومن جواب دے گا۔ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو ہماری طرف واضح حق اور ہدایت کے ساتھ آئے۔ ہم ان پر ایمان لائے اور ان کی متابعت کی۔ پس فرشتے ان سے کہیں گے تم اب چین کی نیند سو جاؤ کیونکہ ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ تم مومن ہو۔ اس کے برعکس ایک منافق یا شک رکھنے والا آدمی جواب دے گا کہ مجھے نہیں معلوم لیکن میں نے لوگوں کو کچھ کہتے سنا اور میں نے بھی (ان کے دیکھا دیکھی) اسی طرح کہہ دیا(پس وہ فرشتوں کے عتاب کی زد میں آجائیگا۔)‘‘
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنی زندگی میں کئی حج کیے۔ صحیحین میں ہے کہ انہوں نے پہلا حج سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا اور اسکی ذرا ذرا تفصیل ان کو یاد تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد ایک دفعہ حج کیلئے گئیں اور مزدلفہ میں ٹہریں تو رات کو نماز پڑھی۔ چاند ڈوبنے کے بعد رمی کیلئے گئیں اور پھر صبح کی نماز پڑھی۔ غلام نے جو ساتھ تھا کہا آپ نے بڑی جلدی کی ہے، فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ نشینوں کو اسکی اجازت دی ہے، جب حجون سے گزرتیں تو فرماتیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہاں ٹہرے تھے۔ اس وقت ہمارے پاس بہت کم سامان تھا، ہم نے اور عائشہ اور زبیر نے عمرہ کیا تھا۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بہت نڈر اور شجاع تھیں۔ ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد وہ اپنے شوہر اور فرزند کے ساتھ شام کے میدانِ جہاد میں تشریف لے گئیں اور کئی دوسری خواتین کے طرح یرموک کی ہولناک لڑائی میں جنگی خدمات انجام دیں۔
حضرت سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کے دور امارت میں مدینہ منورہ میں بہت بدامنی پھیل گئی اور کثرت سے چوریاں ہونے لگیں۔ اس زمانے میں حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اپنے سرہانے خنجر رکھ کر سویا کرتی تھیں۔ لوگوں نے پوچھا، آپ ایسا کیوں کرتی ہیں تو جواب دیا، اگر کوئی چور یا ڈاکو میرے گھر آئیگا تو اس خنجر سے اسکا پیٹ چاک کردونگی۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو اللہ تعالیٰ نے بڑا قوی حافظہ عطا کیا تھا اور وہ کبھی بھی اپنے بچپن اور جوانی کے واقعات بڑی صحت کے ساتھ بیان کیا کرتی تھیں۔ ’’واقعہ فیل‘‘ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے اور اسکا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔ اس واقعہ میں یمن کے حبشی ابرہہہ نے ایک جزار لشکر کے ساتھ مکہ معظمہ پر فوج کشی کی تھی۔ اس کے لشکر میں ’’محمود‘‘ نامی ایک دیوپیکر ہاتھی اور چند دوسرے(ساتھ آٹھ یا بروایتے بارہ) ہاتھی بھی شامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس لشکر پر خاص قسم کے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے جو ’’اصحاب الفیل‘‘ پر کنکریاں برسانے لگے اور آن کی آن میں ان کو کھائے ہوئے بھوسے(عصف مأکول) کی مانند کرکے رکھ دیا۔ خدا کی قدرت سے اس لشکر میں سے دو فیل بان(ایک مہاوت اور ایک چرکٹا یعنی ہاتھی کیلئے چارہ لانے والا) کسی طرح بچ گئے لیکن ان کی زندگی موت سے بھی بدتر تھی کیونکہ وہ اندھے اور لُنجے ہو گئے تھے۔ قیاس یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں نشان عبرت بنانے کیلئے زندہ چھوڑدیا۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے ان دونوں لُنجے فیل بانوں کو اساف اور نائلہ (بتوں) کے پاس بیٹھے دیکھا ہے کہ بھیک مانگا کرتے تھے۔
سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے چچازاد بھائی زید بن عمرو بن نفیل العددی القرشی ان مستقیم الفطرت انسانوں میں تھے جو کفروشرک کے ظلمت کدہ(جاہلی عرب) میں توحید کے علمبردار تھے۔ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل کسی نے بلادِ لخم میں قتل کر ڈالا تھا۔ ایک مرتبہ ان کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات بھی ہوئی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے عقیدہ توحید اور محاسن اخلاق کے مدّاح تھے۔ حضرت سعید بن مُسیّب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، زید کے فرزند سعید رضی اللہ عنہ(جو عشرہ مبشّرہ میں سے ہیں) کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
یا رسول اللہ! زید کے خیالات کا آپ کو علم ہےکیا ہم انکے لیے دعائے مغفرت کریں۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ زید بن عمرو کی مغفرت فرمائے اور ان پر رحم کرے ان کی وفات دین ابراہیم پر ہوئی۔‘‘
ایک اور روایت میں زید کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ وہ قیامت کے دن تنہا ایک امّت کی حیثیت سے اٹھیں گے۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے لڑکپن میں زید کو دیکھا تھا اور ان کے محاسن اخلاق کا اچھی طرح مشاہدہ کیا تھا۔ صحیح بخاری میں حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے زید بن عمرو بن نفیل کو دیکھا، کعبہ کی دیوار کا سہارا لیے کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے اے گروہِ قریش واللہ میرے سوا تم میں سے کوئی دینِ ابراہیم پر نہیں ہے۔ وہ مَوؤدہ کو جِلا لیتے تھے(یعنی زندہ رکھتے تھے) جب کوئی شخص اپنی لڑکی کو مارنا چاہتا تھا تو وہ کہتے تھے اسے مت قتل کرو میں اس کا بار اٹھاؤنگا، یہ کہہ کر لے جاتے تھے جب جوان ہو جاتی تھی اس کے باپ سے کہتے تھے کہ اگر تم چاہو تو اس کو لے جا سکتے ہو ورنہ میرے پاس رہنے دو۔ میں اسکے اخراجات برداشت کروں گا۔
طویل عرصہ کی ازدواجی زندگی کے بعد حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی زندگی میں ایک افسوسناک واقعہ رونما ہوا یعنی حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ نے انہیں طلاق دے دی۔ مؤرّخین نے طلاق کی مختلف وجوہات بیان کی ہیں لیکن اصل سبب اللہ ہی کو معلوم ہے۔ قیاسِ غالب یہ ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے درمیان بعض خانگی معاملات میں اختلاف کی وجہ سے کشیدگی پیدا ہو گئی۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے مزاج میں کچھ درشتی تھی۔ ایک دن کسی بات پر غصہ میں آگئے اور حضرت اسماء کو زدوکوب کرنا چاہا۔ ان کے بڑے فرزند حجرت عبداللہ رضی اللہ عنہ اتفاق سے گھر میں موجود تھے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے ان سے مدد چاہی۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ کو دخل اندازی سے منع کیا اور کہا کہ اگر تم نے اپنی ماں کی حمایت کی تو اسے طلاق ہے۔ حضرت عبداللہ کو گوارا نہ ہوا کہ اپنی آنکھوں کے سامنے والدہ کو تشدّد کا شکار ہوتا دیکھیں، آگے بڑھے اور ان کا بازو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے چھڑا لیا۔ اس کے بعد حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے درمیان ہمیشہ کیلئے علٰیحدگی ہو گئی اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا مستقل طور پر فرزند اکبر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہنے لگیں۔ وہ اپنی والدہ کے بے حد خدمت گزار تھے اور زندگی کی آخری سانس تک ان کے کفیل رہے۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بڑی فراخ حوصلہ اور نیک دل خاتون تھیں۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے علیٰحدگی کے بعد بھی وہ ہمیشہ انہیں عزت و احترام سے یاد کرتی تھیں اور ان کی خوبیوں کی مدح و توصیف کیا کرتی تھیں۔ سنہ 36 ہجری میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان ’’جنگ جمل‘‘ کا افسوسناک واقعہ پیش آیا۔حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اس جنگ میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پرجوش حامیوں میں سے تھے لیکن جب لڑائی شروع ہونے سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد یاد دلایا تو وہ میدان جنگ سے کنارہ کش ہو کر پلٹ پڑے۔ واپسی کے سفر میں وادی سباع میں پہنچے اور بارگاہِ الٰہی میں سجدہ ریز ہوئے تو ایک شخص عمرو بن جرموز نے انہیں شہید کر دیا۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو ان کی شہادت کی خبر سن کر سخت صدمہ پہنچا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے اس موقع پر یہ اشعار کہے۔
(ترجمہ)
ابن جرموز نے لڑائی کے دن ایک بلند ہمت شہسوار سے دغا کی جبکہ وہ نہتّا اور بےسروسامان تھا
اے عمرو اگر تو اپنے ارادے سے زبیر کو پہلے مطلع کر دیتا تو ان کو ایک نڈر اور بے خوف شخص پاتا
خدا تجھے غارت کرے تو نے ایک مسلمان کو (ناحق) قتل کیا۔ خدا کا عذاب تجھ پر ضرور نازل ہوگا۔
یہ اشعار در منثور میں حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے منسوب کیے گئے ہیں لیکن علامہ ان اثیر نے لکھا ہے کہ یہ اشعار حضرت زبیر رضی اللہ عنہا کی ایک دوسری بیوی حضرت عاتکہ بنت زید بن عمرو بن نفیل نے کہے تھے جو شعروشاعری میں کافی درک رکھتی تھیں۔ اس کے برعکس حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے شعروشاعری میں درک رکھنے کا کو ثبوت نہیں ملتا۔ بہرصورت اس بات پر سب اہل سیئر کا اتفاق ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت پر حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے سخت غم و اندوہ کا اظہار کیا۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہ کے فرزند حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ تاریخ اسلام میں بڑی اہم شخصیت کے مالک ہیں۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کی المناک شہادت کے بعد انہوں نے بنی امیّہ کی قاہر طاقت کا جس استقامت اور شجاعت کے ساتھ مقابلہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے رُفقاء جیسے چند ساتھی مل جاتے تو وہ بنی امیّہ کی سلطنت کا تختہ الٹ کر رکھ دیتے اور خلافتِ راشدہ کا نقشہ قائم کر دیتے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ تاریخ کا ایک دردناک باب ہے۔ اس موقع پر حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے جس حق پرستی، بے خوفی، صبرورضا اور جرأت ایمانی کا ثبوت دیا، وہ ان کی کتاب زندگی کا ایک تابناک ورق ہے۔ سنہ ۳۰ ہجری یا سنہ ۳۱ ہجری سے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا شوہر سے علٰیحدگی کے بعد مستقل طور پر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس رہتی تھیں۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ ان کی بے حد تعظیم اور خدمت کرتے تھے اور اپنی شہادت سنہ ۷۳ ہجری تک انہوں نے مسلسل اپنی ضعیف العمر ماں کی اطاعت اور رضا جوئی کو اپنی زندگی کا شعار بنائے رکھا۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہ بھی اپنے سعادت مند فرزند کے لیے ہر وقت دعا گو رہتی تھیں۔ یہ انہی کی تربیت کا اثر تھا کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ علمو فضل، زُہد اتّقا، حق گوئی، شجاعت اور بے خوفی کا ایک مثالی پیکر بنے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرح انہوں نے بھی مرتے دم تک یزید کی بیعت نہ کی اور پھر اسکی موت کے بعد بھی اس کے جانشینوں کے مقابلے میں ڈٹے رہے۔ سنہ 66 ہجری میں عراق اور حجاز وغیرہ کے لوگوں نے انہیں متفقہ طور پر اپنا خلیفہ منتخب کیا۔ سنہ 73 ہجری تک انہوں نے مکہ معظمہ میں اپنا عَلَم خلافت بلند رکھا۔ ان چھہ سالوں میں انہیں بیک وقت دو محاذوں پر لڑنا پڑا۔ ایک طرف مختار بن ابی عبید ثقفی کی زبردست جماعت تھی اور دوسری طرف بنو امیّہ کی قاہر قوت۔ وہ بڑے عزم اور حوصلے کے ساتھ ان دونوں محاذوں پر لڑتے رہے۔ جب عبدالملک بن مروان مُسند حکومت پر بیٹھا تو اس نے تہیّہ کر لیا کہ وہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی خلافت کو ختم کر کے رہیگا۔ اس مقصد کیلئے اس نے اپنے ایک آزمودہ جرنیل حجاج بن یوسف ثقفی کو مقرر کیا۔
حجاج بن یوسف نے ایک زبردست فوج کے ساتھ یکم ذی الحجہ سنہ 72 ہجری کو مکہ معظمہ کا محاصرہ کر لیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بے مثال استقامت دکھائی اور چھہ ماہ تک اموی فوج کو مکہ معظمہ پر قابض نہ ہونے دیا۔ حجاج نے محاصرے میں اتنی سختی برتی کہ مکہ میں اناج کا ایک دانہ بھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اس نے بیت اللہ کی عزت و حرمت کو بھی بالائے طاق رکھ دیا اور جبل بو قبیس پر منجنیقیں نصب کر کے ان سے کعبۃ اللہ پر لگاتار پتھر برسائے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پتھروں کی بارش میں بھی اس انہماک سے نماز پڑھتے تھے کہ کبوتر ان کے کندھوں اور سر پر آ کر بیٹھ جاتے تھے۔ محاصرے کی شدت اور خوراک کی قلّت سے تنگ آ کر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے اکثر ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ کر حجاج بن یوسف سے جا ملے حتّیٰ کے ان کے فرزندوں نے بھی ان سے بے وفائی کی اوت حجاج کے پاس جا کر امان کے طالب ہوئے۔ لیکن اس بہتر سال کے ضعیف شیر نے بنو امیّہ کے اقتدار کو تسلیم نہ کرنےکا حلف اٹھا رکھا تھا۔
اثنائے محاصرہ میں ایک دن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی مزاج پرسی کیلئے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ کچھ علیل تھیں۔ گفتگو کے دوران میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے منہ سے نکل گیا۔ ’’اماں جان موت میں بڑی راحت ہے۔‘‘ بولیں ’’شاید تم کو میرے مرنے کی آرزو ہے ( کہ ضعیف العمری کے دکھوں سے نجات پا جاؤں) لیکن بیٹے میں تمہارا انجام دیکھ کر مرنا چاہتی ہوں تاکہ اگر تمہیں شہادت نصیب ہو تو اپنے ہاتھوں سے تمہارا کفن دفن کروں اور اگر تم فتح پا جاؤ تو میرا دل ٹھنڈا ہو۔‘‘ اس واقعہ کے دس دن بعد جب گنتی کے صرف چند ساتھی رہ گئے تو وہ آخری بار حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
’’ اماں جان! میرے ساتھیوں نے بے وفائی کی ہے اور اب سوائے چند جانثاروں کے کوئی بھی میرا ساتھ دینے پر آمادہ نہیں۔ آپ کی کیا رائے ہے اگر میں ہتھیار ڈال دوں تو ہو سکتا ہے مجھے اور میرے ساتھیوں کو امان مل جائے۔‘‘
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے جواب دیا:
’’ اے میرے فرزند! اگر تم حق پر ہو تو مردوں کی طرح لڑ کر رتبہ شہادت پر فائز ہو جاؤ اور کسی قسم کی ذلت برداشت نہ کرو۔ اور اگر تمہارا یہ کھکیڑ دنیا طلبی کیلئے تھا تو تم سے برا کوئی شخص نہیں جس نے اپنی عاقبت بھی خراب کی اور دوسروں کو بھی ہلاکت میں ڈالا۔‘‘
ایک اور روایت میں حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے یہ الفاظ منسوب ہیں؛
’’ بیٹا! قتل کے خوف سے ہرگز کوئی ایسی شرط قبول نہ کرنا جس میں تم کو ذلّت برداشت کرنی پڑے۔ خدا کی قسم عزت کے ساتھ تلوار کھا کر مر جانا اس سے بہتر ہے کہ ذلت کے ساتھ کوڑے کی مار برداشت کی جائے۔‘‘
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔’’ اماں جان میں حق و صداقت کیلئے لڑا اور حق و صداقت کیلیےساتھیوں کو لڑایا۔ اب آپ سے رخصت ہونے آیا ہوں۔‘‘ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
’’ بیٹا! اگر تم حق پر ہو تو حالات کی ناموافقت اور ساتھیوں کی بے وفائی کے سبب دشمنوں سے دب جانا شریفوں اور دینداروں کا شیوہ نہیں۔‘‘
ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ’’ اماں جان! میں موت سے نہیں ڈرتا صرف خیال یہ ہے کہ میری موت کے بعد دشمن میری لاش کا مثلہ کریں گے اور صلیب پر لٹکائینگے جس سے آپ کو رنج ہوگا۔‘‘
صدیق اکبر کی جلیل القدر بیٹی نے فرمایا: ’’ بیٹے جب بکری ذبح کر ڈالی جائے تو پھر اسکی کھال کھینچی جائے یا اس کے جسم کے ٹکڑے کیے جائیں اسے کیا پرواہ؟ تم اللہ پر بھروسہ کرکے اپنا کام کیے جاؤ، راہ حق میں تلواروں سے قیمہ ہونا گمراہوں کی غلامی سے ہزار درجہ بہتر ہے، موت کے خوف سے غلامی کی ذلت کبھی قبول نہ کرنا۔‘‘
اپنی عظیم ماں کے حوصلہ افزا کلمات سن کر ابن زبیر رضی اللہ عنہ پر رقّت طار ہو گئی اور فرط محبت و عقیدت سے انہوں نے اپنی والدہ کا سر چوم لیا۔ پھر عرض کیا:
’’ اماں جان! میرا بھی یہی ارادہ تھا کہ راہ حق میں مردانہ وار لڑ کر جان دے دوں لیکن آپ سے مشورہ کرنا ضروری سمجھا تاکہ میرے مرنے کے بعد آپ رنج و غم نہ کریں۔ الحمدللہ میں نے آپ کو اپنے سے بڑھ کر ثابت قدم اور راضی برضا پایا۔ آپ کی باتوں نے میرا ایمان تازہ کر دیا ہے۔ آج میں ضرور قتل ہو جاؤنگا مجھے یقین ہے کہ میرے قتل کے بعد بھی آپ صبروشکر سے کام لیں گی۔ خدا کی قسم میں سچ عرض کرتا ہوں کہ آج تک میں نے جو کچھ کیا وہ حق کو سربلند رکھنے کیلیے تھا۔ میں نے کبھی برائی کو پسند نہیں کیا، کسی مسلمان پر ظلم نہیں کیا، کبھی بد عہدی نہیں کی، کبھی امانت میں خیانت نہیں کی۔ اپنے اعمال کا کڑا محاسبہ کیا اور اپنی حدودِ خلافت میں جہاں تک بن پڑا، عدل جاری کیا۔ لوگوں نے خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی تعمیل کرائی اور اعمال بد سے انہیں روکا۔ بخدا میں دین کے آگے دنیا کو ہیچ سمجھتا ہوں۔ اللہ کہ رضا کے سوا مجھے کوئی شے مطلوب نہیں۔‘‘
پھر آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور کہا: ’’الٰہی میں نے یہ باتیں فخر کی راہ سے نہیں کہیں بلکہ صرف اپنی والدہ محترمہ کی تسکین و اطمینان کیلیے کہی ہیں۔‘‘
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے انہیں دعا دی اور فرمایا:
’’ بیٹے تم اللہ کی راہ میں جان دے دو، میں ان شاء اللہ صابروشاکر رہونگی۔ اب آگے آؤ تاکہ آخری بار تمہیں پیار کرلوں۔‘‘
عبداللہ آگے بڑھے، ضعیف العمر ماں نے اپنے لخت جگر کو گلے لگایا اور ان کا منہ اور سر چوما۔ اس وقت حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے زرہ پہن رکھی تھی، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا ہاتھ ان کی زرہ پر پڑا تو پوچھا۔’’ بیٹے یہ تمہارے جسم پر کیا ہے؟‘‘ عرض کیا: ’’ زرہ ہے تاکہ دشمن کے حربوں سے بچاؤ ہو۔‘‘
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے فرمایا؛ ’’ بیٹے اللہ کی راہ میں شہید ہونے کیلئے نکلتے ہو اور ان عارضی چیزوں کا سہارا لیتے ہو،‘‘
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اسی وقت زرہ اتار پھینکی، سر پر سفید رومال باندھا اور ماں سے کہا۔ ’’اماں جان اب میرے جسم پر معمولی لباس ہے۔‘‘ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’بیٹا اب میں خوش ہوں، جاؤ اللہ کے راستے میں لڑو اور اسکے ہاں اسی لباس میں جانا۔‘‘
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے تلوار سونت لی اور رجز پڑھتے ہوئے دشمن کی صفوں میں گھس کر کافی دیر تک دادِ شجاعت دیتے رہے، آخر زخموں سے چور چور ہو کر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا یہ اولوالعزم نواسہ اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا لخت جگر اپنے مولائے حقیقی سے جا ملا۔
ابن زبیر رضی اللہ عنہا کی شہادت کی ضبر سن کر حجاج بن یوسف کو بڑی مسرت ہوئی اور اس نے حکم دیا کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی لاش کو مقام حجون میں سولی پر الٹا لٹکا دیا جائے۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو حجاج کی اس حرکت کا علم ہوا تو انہوں نے پیغام بھیجا کہ خدا تجھے غارت کرے تونے میرے لخت جگر کی لاش کو دار پر کیوں لٹکایا۔
حجاج نے جواب میں کہلا بھیجا: ’’ میں لوگوں کو ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے انجام سے عبرت دلانا چاہتا ہوں۔‘‘
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اسے پھر پیغام بھیجا کہ میرے بچے کی لاش میرے حوالے کردو تاکہ میں اسکی تجہیز وتکفین کر سکوں۔
سنگ دل حجاج نے صاف انکار کر دیا۔
ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے ایک دو دن بعد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا مقام حجون سے گزر ہوا۔ ان کی لاش سولی پر لٹکتے دیکھ کر سخت رنجیدہ ہوئے اور اسکے نیچے کھڑے ہو کر فرمایا: اے ابو خبئیب! السلام علیک، میں نے تم کو اس(سیاست) میں پڑنے سے منع کیا تھا۔ تم نمازیں پڑھتے تھے، روزے رکھتے تھے اور صلہ رحمی کرتے تھے۔
شہادت کے تیسرے دن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا ایک کنیز کے سہارے مقام حجون تشریف لے گئیں۔ اتفاق سے اس وقت حجاج بھی وہاں گشت پر تھا۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو لوگوں نے حجاج کی موجودگی کی اطلاع دی تو انہوں نے فرمایا:
’’ کیا اس سوار کے اترنے کا وقت ابھی نہیں آیا۔‘‘
حجاج نے کہا: ’ وہ ملحد تھا اسکی یہی سزا تھی۔‘‘حضرت اسماء رضی اللہ عنہا تڑپ اٹھیں اور فرمایا؛ ’’ خدا کی قسم وہ ملحد نہ تھا بلکہ نماز گزار، روزہ دار اور متّقی تھا۔‘‘
حجاج نے جھلا کر کہا:’’ بڑھیا یہاں سے چلی جاؤ تمہاری عقل سٹھیا گئی ہے۔‘‘
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے بڑی بےباکی سے جواب دیا:
’’ میری عقل نہیں سٹھیا گئی خدا کی قسم میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ بنو ثقیف میں ایک کذّاب اور ایک ظالم (سفّاک) پیدا ہوگا۔ سو کذّاب (یعنی مختار بن ابوعبید ثقفی) کو تو ہم نے دیکھ لیا اور ظالم (سفّاک) تو ہے۔‘‘
ایک اور روایت میں ہے کہ جب حجاج نے سنا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی لاش کے نیچے کھڑے ہو کر ان کی تعریف کی ہے تو اس نے لاش کو اتروا کر یہودیوں کے قبرستان میں پھنکوا دیا اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو بلا بھیجا۔ انہوں نے اس کے پاس جانے سے انکار کر دیا۔ حجاج نے کہلا بھیجا کہ میرے حکم کی تعمیل کرو ورنہ چوٹی پکڑ کر گھسٹواؤنگا۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے جواب میں کہلا بھیجا: ’’ خدا کی قسم اس وقت تک نہیں آؤنگی جب تک تو چوٹی پکڑ کر نہ گھسٹوائے گا۔‘‘
حجاج اب مجبور ہو کر خود حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچا اور دل آزارانہ لہجے میں کہنے لگا: ’’ اے ذات النطاقین، سچ کہنا خدا کے دشمن کا انجام کیسا ہوا؟‘‘
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’ ہاں تو نے میرے فرزند کی دنیا خراب کی لیکن اس نے تیری آخرت برباد کردی ہے۔ میں نے سنا ہے کہ تو میرے بیٹے کو طنزاً ابن ذات النطاقین کہتا تھا تو خدا کی قسم میں ذات النطاقین ہوں۔ میں نے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا توشہ دان اپنے نطاق سے باندھا تھا لیکن میں نے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ بنو ثقیف میں ایک کذّاب اور ایک سفّاک پیدا ہوگا۔ کذّاب کو ہم نے دیکھ لیا۔ سفأاک کا دیکھنا باقی تھا، سو وہ تو ہے۔‘‘
حجاج حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی بےباکانہ گفتگو سن کر سکتے میں آ گیا اور کان دبا کر وہاں سے چل دیا۔
شبلی نعمانی نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا واقعہ شہادت اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی جرأت ایمانی اور صبر کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
مسند آرائے خلافت جو ہوئے زبیر
سب نے بیعت کیلیے ہاتھ بڑھائے یک بار
ابن مروان نے حجاج کو بھیجا پئے جنگ
جس کی تقدیر میں تھا مرغانِ حرم کا شکار
حرم کعبہ میں محصور ہوئے ابن زبیر
فوجِ بے دین نے کیا کعبہ ملّت کا حصار
دامن عرش ہوا جاتا تھا آلودہ گرد
بارش سنگ سے اٹھتا تھا جو اڑاڑ کے غبار
تھا جو سامان رسد چار طرف سے مسدود
ہر گلی کوچہ بنا جاتا تھا ایک کُنجِ مزار
جب یہ دیکھا کہ کوئی ناصر دیا ورنہ رہا
ماں کی خدمت میں گئے ابن زبیر آخرکار
جا کے عرض کی کہ اے اختِ حریمِ نبوی
نظر آتے نہیں اب حرمتِ دیں کے آثار
آپ فرمائیے اب آپ کا ارشاد ہے کیا
کہ میں ہوں آپ کا ایک بندہ فرمانبردار
صلح کرلوں؟ کہ چلا جاؤں حرم سے باہر
یا یہیں رہ کہ اسی خاک پہ ہو جاؤں نثار
بولیں وہ پردہ نشین حرم سرّ عفاف
حق پہ اگر تو ہے تو پھر صلح ہے مستوجب عار
یہ زمیں ہے وہی قرباں گہِ اسمٰعیلی
فدیہ نفس ہے خود دینِ خلیلی کا شعار
ماں سے رخصت ہوئے یہ کہہ کے بآٓداب ونیاز
آپ کے دودھ سے شرمندہ نہ ہونگا گازِ نہار
پہلے ہی حملے میں دشمن کی الٹ دیں فوجیں
جس طرف جاتے تھے یہ ٹوٹتی جاتی تھی قطار
منجنیقوں سے برستے تھے جو پتھر پیہم
ایک پتھر نے کیا آکے سرورُخ کو فگار
خون ٹپکا جو قدم پر تو کہا ازرہِ فخر
یہ ادا وہ ہے کہ ہم ہاشمیوں کا ہے شعار
اس گھرانے نے کبھی پشت پہ کھایا نہ زخم
خون ٹپکے گا تو ٹپکے گا قدم پہ ہر بار
زخم کھا کھا کے لڑے جاتے تھے لیکن کب تک
آخر الامر گرے خاک پر مجروح و نزار
لاش منگوا کے جو حجاج نے دیکھی تو کہا
اس کو سولی پہ چڑھاؤ کہ یہ تھا قابلِ دار
لاش لٹکی رہی سولی پہ کئی دن لیکن
ان کی ماں نے نہ کیا رنج و الم کا اظہار
اتفاقات سے ایک دن جو ادھر جا نکلیں
دیکھ کر لاش کو بے ساختہ بولیں ایک بار
ہوچکی دیر کے منبر پہ کھڑا ہے خطیب
اپنے مرکب سے اترتا نہیں اب بھی یہ سوار
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا جب حجاج بن یوسف کی طرف سے مایوس ہو گئیں اور انہیں یقین ہو گیا کہ وہ ان کے لخت جگر کی لاش ان کے حوالے نہیں کرے گا تو انہوں نے کسی ذریعہ سے عبدالملک کو دمشق پیغام بھجوایا۔ ایک روایت میں ہے کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہکے بھائی عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ محاصرہ مکہ کے دوران آخر وقت تک ان کے ساتھ تھے۔جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے اور حجاج نے ان کی لاش سولی پر لٹکوا دی تو وہ مکہ سے پوشیدہ طور پر عبدالملک کے پاس دمشق پہنچے۔ وہ عروہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بڑی تکریم سے پیش آیا اور تخت پر اپنے پاس جگہ دی۔ عروہ رضی اللہ عنہ نے اسے مکہ کے سارے حالات بتائے اور اس سے درخواست کی کہ حجاج کو ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی لاش حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے حوالے کرنے کا حکم بھیجے۔ عبدالملک نے اسی وقت حجاج کو ایک غضب آلود خط لکھا جس میں اس کی اس حرکت پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی لاش فوراً حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔ عبدالملک کا خط پہنچنے پر حجاج نے ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی لاش حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے حوالے کردی۔
ابن ابی ملیکہ ایک عینی شاہد کا بیان ہے کہ میں سب سے پہلا شخص تھا جس نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی لاش ان کے حوالے کیے جانے کی بشارت دی۔ انہوں نے مجھے حکم دیا کہ اسے غسل دو۔ لاش کا جوڑ جوڑ الگ ہو چکا تھا۔ ہم ایک ایک حصہ بدن کو غسل دے کر کفن میں لپیٹتے جاتے تھے۔ جب سارے اعضاء کا غسل ہو چکا تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنے لخت جگر کے لیے دعائے مغفرت کی پھر ہم نے جنازہ پڑھ کر ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو حجون میں سپردِ خاک کر دیا۔ اس سے پہلے حضرت اسماء رضٰ اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ الٰہی مجھے اس وقت تک زندہ رکھنا جب تک میں اپنے فرزند کا جُثّہ کفنا دفنا کے مطمئن نہ ہو جاؤں۔
اس واقعہ کے سات دن ( یا بعض روایتوں کے مطابق بیس د یا سو دن) کے بعد حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے بھی پیکِ اجل کو لبیّک کہا۔ وفات کے وقت ان کی عمر سو برس کے لگ بھگ تھی لیکن سارے دانت سلامت تھے اور ہوش وحواس بالکل درست تھے۔ قد دراز اور جسم فربہ تھا۔
بعض روایتوں میں ہے کہ اخیر عمر میں بصارت جاتی رہی تھی اس لیے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا واقعہ شہادت بچشم خود نہیں دیکھا بلکہ کچھ ٹٹول ٹٹول کر یا پوچھ پوچھ کر ہر کیفیت سے آگاہ ہوتی تھیں۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو اللہ تعالیٰ نے پانچ صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں عطا کی تھیں۔ ان کے نام یہ ہیں۔ عبداللہ، عروہ، منذر، مہاجر اور عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ خدیجۃ الکبریٰ، امّ الحسن اور عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔ ان میں سے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ اور عروہ رضی اللہ عنہ نے تاریخ میں لازوال شہرت حاصل کی۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا علم و فضل کے اعتبار سے بھی بڑا اونچا درجہ رکھتی تھیں۔ ان سے چھپّن احادیث مروی ہیں۔ راویوں میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، ابوبکر عباد و عامر پسران عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عروہ رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن کیسان رضی اللہ عنہ، فاطمہ بنتِ منذر بن زبیر رضی اللہ عنہا، محمد بن منکدر، ابن ابی ملیکہ، وہب بن کیسان،مطلب بن خطب،ابو نوفل ابن ابو عقرب، مسلم معری’‘، صفیہ بنت شیبہ اور عبادہ بن حمزہ بن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شامل ہیں۔
حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے اپنی طویل زندگی میں بے شمار نشیب و فراز دیکھے۔ وہ تاریخ اسلام کی ان معدودسے چند ہستیوں میں سے ہیں جنہوں نے جاہلیت کا زمانہ بھی دیکھا اور پورا دورِ رسالت اور خلفائے راشدین کا عہدِ با سعادت بھی دیکھا۔ اپنے عظیم المرتبت فرزند کا دورِ عروج بھی دیکھا اور ان کی المناک شہادت کا منظر بھی دیکھا۔ ان پر بارہا مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے لیکن انہوں نے ہر موقع پر بے پناۃ عزم و استقلال اور جرأت ایمانی کا مظٓہرہ کیا۔ بلا شبہ وہ تاریخ اسلام کی ایک مہتمم بالشّان شخصیت ہیں اور ان کا درخشندہ و تابندہ کردار مسلمانوں کیلیے تأابد مشعلِ راہ رہے گا۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہا
(۱) عبداللہ بن اُریقط کا تعلق بنی الدّیل سے تھا۔ وہ اگرچہ غیر مسلم تھا لیکن نہایت قابل اعتماد شخص تھا جب کسی سے کوئی معاملہ طے کر لیتا تھا تو اس کو جان پر کھیل کر نبھاتا تھا۔ عرب کے مختلف راستوں سے اس کو کمال درجے کی واقفیت تھی اسی لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کو اجرت پر رہنمائی کیلئے مقرر کیا تھا اور دو اونٹنیاں اس ہدایت کے ساتھ اسکے سپرد کی تھیں کہ جس وقت اور جس جگہ تمہیں ہم بلائیں نہایت رازداری کے ساتھ اونٹنیاں لے کر پہنچ جانا۔
(۲) بعض روایات میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا سال ولادت سنہ ۲ ہجری بیان کیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی ولادت سے چھہ ماہ پہلے حضرت بشیر بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ کے ہاں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تھے، اگر یہ روایت درست ہے تو پھر بھی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ مہاجرین کے نومولود اوّل ٹہرتے ہیں۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔