YOUR INFO

Saturday, 9 March 2013

حضرت علامہ احسان الٰہي ظہير شہيدؒ

0 comments

حضرت علامہ احسان الٰہي ظہير شہيدؒ
مارچ کا مہينہ ميري نحيف سي جان پر بہت گراں گزرتا ہے۔ دل غمگين ہو جاتا ہے۔ احساسات جگمگا اُٹھتے ہيں۔ دل کے آنگن ميں عجيب سے خيالات رقص کرنے لگتے ہيں۔ اشک بار آنکھيں ساون کا سماں پيدا کر ديتي ہيں۔ ذوق والے ہي جانتے ہيں کہ آنسؤوں کے قطروں کا دل کے تاروں پہ ناچ کتنا دلربا اور دلفريب ہوتا ہے۔ 
آج سے 23 برس قبل 23 مارچ 1987ء کو فرزندان توحيد کا قافلہ لٹا، پاسبانانِ قرآن و سنت کا کارواں تاراج ہوا۔ اور دنيائے اسلام کے مايہ ناز خطيب، بے مثال اديب، لاکھوں دِلوں کي دھڑکن، شہيد راہِ حق، علامہ احسان الٰہي ظہير رحمۃ اللہ عليہ ہم سے جدا ہو گئے۔ 
يہ وہ شخصيت ہے جس نے تيس برس تک مسلمانوں کي خدمت کي، وہ عالم بھي تھا اور مقرر تھي، سپاہي بھي تھا اور قائد بھي۔ پُراميد بھي تھا اور پُر دل بھي۔ اس کي تقرير کے چند فقرے لوگوں ميں نئي روح پھونک ديتے تھے۔ وہ ساکن سطح کو طوفاني موجوں ميں بدل ديتا تھا۔ وہ اپنے ساتھيوں کو کبھي مايوس نہيں ہونے ديتا تھا، يہ اسي کا کام تھا کہ 1970ء سے مرتے دم تک عرب و عجم چھان مارا تھا۔ تقريباً تيس برس کي محنت شاقہ کے بعد موت نے سپاہي کي کمر کھول دي اور وہ ابدي نيند سو گيا۔ 
ياد ماضي بن گئيں ساغر وہ ساري محفليں۔۔۔۔۔۔رہ گيا آرزؤں کا کفن ميرے لئے 
افسوس کہ وہ پُر درد آواز جو 1960ء سے 1987ء تک پاکستان اور دنيائے اسلام کے ہر قيامت آفرين سانحہ ميں صدائے صور بن کر بلند ہوتي رہي ہميشہ کے لئے خاموش ہو گئي، وہ بے قرار دل جو اسلام اور مسلمانوں کي ہر مصيبت کے وقت بے تاب ہو جاتا تھا اور اوروں کو بے تاب کرتا تھا۔ صد افسوس کہ قيامت تک کے لئے ساکن ہو گيا۔ 
وہ اشک آلود آنکھيں جو دين و ملت کے ہر غم ميں آنسوؤں کا دريا بن جاتي تھيں، حسرت کہ ان کي رواني ہميشہ کے لئے بند ہو گئي، وہ مترنم لب جو ہر بزم ميں خوش نوا بلبل بن کر چہکتے تھے، ان کے ترانے اب ہمارے کان نہ سنيں گے، وہ آتش زبان جو ہر رزم ميں تيغ براں بن کر چمکتي تھي، اس کي تابش اب کسي معرکہ ميں ہماري آنکھوں کو نظر نہ آئے گي۔ 
يہ پر جوش سينہ جو ہمارے مصائب کے پہاڑوں کو سيلاب بن کر بہا لے جاتا تھا، اس کا تلاطم ہميشہ کے لئے تھم گيا۔ وہ پر زور دست و بازو جو شب و روز کي خدمت گزاري اور نبرد آزمائي ميں مصروف تھے اب ايسے تھکے کہ پھر نہ اُٹھيں گے، افسوس کہ قافلہ حريت کا وہ آخري سپاہي جو دشمن کے نرغے ميں تنہا لڑ رہا تھا آخر زخموں سے چور ہو کر ايسا گرا کہ پھر قيامت تک کھڑا نہ ہو گا۔ 
کليوں کو ميں سينے کا لہو دے کے چلا ہوں۔۔۔۔۔۔صديوں مجھے گلشن کي فضا ياد کريگي 
پاکستان کا ماتم دار، طرابلس کا سوگوار، عراق کے لئے غمزدہ، بلقان کے لئے اشک بار، شام پر گرياں، کشمير و افغان پر مرثيہ خواں، حجاز کا سوختہ غم اور بيت المقدس کے لئے وقف الم۔ اے وطن پاک کے مسافر۔۔۔! تيرا حق سر زمين اسلام کے چپہ، چپہ پر تھا، مناسب يہي تھا کہ تو جنت البقيع کے دامن ميں سما جائے۔ 
احسانِ الٰہي ظہيرؒ عجم ميں پيدا ہوا ليکن عرب کي آب و ہوا ميں نشوونما پائي۔ پاکستان کي مٹي سے جنم ليا ليکن حجاز کے ہتھياروں سے اس نے اپنا جسم سجايا۔ اس کا دماغ پاکستاني مگر دل عربي تھا۔ وہ مشرق کي حمايت ميں مغرب سے لڑا۔ بيت المقدس کي محبت ميں يہود کو آنکھيں دکھائيں۔ اے مشرق و مغرب کے مالک۔۔۔۔! تو اپني رضا منديوں کے پھولوں سے اس کا دامن بھر دے کہ وہ انہي کا طلبگار تھا۔ خداوند۔۔۔! اس دل شکستہ کو جو دين و ملت کے غم سے رنجور تھا اپني خصوصي نوازشوں سے مسرور فرما کہ ہم اس کي روح سے شرمندہ ہيں۔ اس کي عمر فاني گو ختم ہو گئي۔ ليکن اس ي زندگي کا ہر کارنامہ جاويد نامہ بن کر باقي رہے گا۔ ان شاء اللہ تعاليٰ۔ 
تو کيا گيا کہ رونق بزم چمن گئي۔۔۔۔۔۔رنگِ بہار ديد کے قابل نہيں رہا 
احسانِ الٰہي ظہير يگانہ روز اور عبقري زماں تھے، اللہ تعاليٰ کي بے پاياں رحمت ان کا مقدر بني کہ بچپن ہي ميں قرآن مقدس کو حفظ کر ليا تھا۔ ان ميں حافظہ اور ذہانت بلا کي تھي۔ نو سال کے تھے کہ احسانِ الٰہي سے حافظ احسان الٰہي بن گئے۔ جامعہ اسلاميہ گوجرانوالہ اور پھر جامعہ سلفيہ فيصل آباد سے ہوتے ہوئے جامعۃ اسلاميہ مدينہ منورہ (مدينہ يونيورسٹي) جا پہنچے،موہاں سے لوٹے تو حافظ احسان الٰہي ظہير ہو گئے اور پھر مسلکي و مذہبي رسالوں کي ادارت، مختلف زبانوں ميں لاجواب تصانيف و نگارش، اور شاہين نگاہ خطابت نے علامہ احسان الٰہي ظہير بنا ديا۔ 
وہ واقعي علامہ کہلانے کے سزاوار تھے، مسجد چينياں والي لاہور سے خطابت کا آغاز کيا۔ اور ديکھتے ہي ديکھتے پورے ملک پر چھا گئے، سالہا سال ’’اہلحديث‘‘ اور ’’ترجمان اہل حديث‘‘ کے ايڈيٹر رہے، عرب، عالم اسلام، يورپ اور امريکہ ميں براہِ راست پہنچ کر اہل حديث کا مشن پہنچايا۔ جنوبي ايشياء کے متعدد ممالک ميں تبليغ اسلام کا مشن لے کر پہنچے۔ 
وہ بيک وقت اديب، خطيب، مترجم، مؤلف مصنف، مبلغ سياستدان اور تاجر انسان تھے، ديانت و امانت، خلوص و للّٰہيت ان کے ماتھے کا جھومر تھے۔ 
فاضل عربي، فاضل فارسي، فاضل اردو، يعني السنہ شرقيہ کے عظيم سکالر تھے۔ چھے مضامين ميں ايم اے کر چکے تھے۔ لفظ ’’علامہ‘‘ ان کے نام کے ساتھ بہت خوبصورت لگتا تھا اور وہ واقعي علامہ تھے۔ 
علامہ صاحب سياست ميں قدم زن ہوئے تو خدادا صلاحيتوں، جرأت و بے باکي کي وجہ سے ملک کے مرکزي سياست دانوں ميں شمار ہونے لگے۔ 
سياست ميں نوابزادہ نصر اللہ خاں مرحوم کو اپنا مربي قرار ديتے تھے۔ اور نواب زادہ صاحب کي لاہور ميں سياسي شام غريباں ميں پوري باقاعدگي سے شموليت فرمايا کرتے تھے۔ تحريک استقلال ميں رہنے کے باوجود نواب زادہ نصر اللہ خان کا پورا احترام ملحوظ رکھتے تھے۔ ائر مارشل اصغر خان اور ان کے بلند مرتبت رفقاء کار علامہ صاحب کو اپني آنکھوں کا تارا سمجھتے تھے۔ کچھ عرصہ تک تحريک استقلال کے جنرل سيکرٹري رہے پھر خود ہي اسے ترک کر ديا۔ 
بھٹو سے خوب ٹکر لي اور پوري بہادري سے ان کے مقابل ڈٹے رہے۔ جنرل ضياء الحق کے حامي بھي رہے اور مخالف بھي۔ امام الہند مولانا ابو الکلام آزادؒ کے بعد برصغير ميں بے باک، جرأت مند، عزم و استقلال کا شہسوار حضرت علامہ کے علاوہ کوئي نہيں نظر آتا۔ ضياء الحق کي حمايت اس لئے کي کہ شايد يہ شخص اسلام کا نفاذ کر دے۔ مخالفت اس لئے کي کہ ضياء الحق اپنے دس سالہ اقتدار ميں اسلام کا نفاذ کر سکا نہ ہي جمہوريت نافذ کر سکا اور نہ ہي فحاشي و عرياني کو بند کر سکا۔ علامہ صاحب کا موقف تھا کہ
اسلام پہ چلنا سيکھو يا اسلام کا نام نہ لو 
اور جنرل ضياء الحق کي مخالفت اس بے باکي اور جرأت سے کي کہ دنيا دنگ رہ گئي۔ حقيقت يہ ہے کہ اس دور کي کيسٹيں جب ہم سنتے ہيں تو سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہيں۔ 
اللہ تعاليٰ نے علامہ صاحب کو بے پناہ صلاحيتوں سے نوازا تھا۔ جب لکھتے تو بے مثال لکھتے، بولتے تو بولتے ہي چلے جاتے۔ بقول شخصے الفاظ ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو جاتے جس پر جي آتا منتخب کر ليتے۔ اُردو، عربي اور فارسي ميں رواني سے بولتے تھے۔ بقول مجيب الرحمٰن شامي وہ آغا شورش کاشميري کے بعد ايشياء کے سب سے بڑے خطيب تھے۔ 
علامہ صرف ايشياء ہي کے نہيں بلکہ عالم عرب کے بھي بہت عظيم خطيب تھے۔ وہ جب عربي ميں تقرير کرتے تو ان کا لب و لہجہ اور زبان و بيان ہر قدر ايک لمحے کے لئے بھي يہ احساس نہيں ہونے ديتے تھے کہ موصوف عربي ہيں يا عجمي۔۔۔۔
مدينہ يونيورسٹي ميں قيام کے دوران ايک مرتبہ مسجد نبوي کے باب السعود ميں نماز مغرب کے بعد عربي ميں ايک جاندار تقرير فرمائي۔ فلسطين، کشمير، اور اريٹريا کے پس منظر ميں آپ نے ماضي کو آواز دي۔ بھيڑ بڑھتي اور آنکھيں بھيگتي چلي گئيں۔ سسکياں آہوں اور کراہوں ميں بدل گئيں۔ پورا حرم اُمڈ آيا۔ اذان عشاء نے سلسلہ تقرير منقطع کرنے پر مجبور کر ديا۔ نماز کھڑي ہو گئي۔ ادھر سلام پھري ادھر لوگ پل پڑے۔ اظہارِ محبت ميں ماتھے کو چومنے لگے۔ کچھ بھيڑ چھٹي تو عرب دھرتي کے بہت بڑے خطيب، دمشق يونيورسٹي کے سابق وائس چانسلر، اور اسلام کے مايہ ناز فرزند ڈاکٹر مصطفيٰ سباعي کو سامنے کھڑا پايا۔ فرزند پاکستان کي نظريں ادباً جھک گئيں، ڈاکٹر صاحب آگے بڑھے اور کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔ کہاں سے ہو نوجوان؟ (احسانِ الٰہي ظہير) بولا: پاکستان سے، پاکستان سے۔۔۔؟ انہوں نے حيرت و استعجاب سے سوال دہرايا! جي ہاں پاکستان سے، نوجوان (احسان الٰہي ظہير) کو سينے سے لگايا اور بولے ’’انا اخطب في العرب ولکن انا اقول انت اخطب مني‘‘ لوگ مجھے کہتے ہيں کہ ميں عالم عرب کا سب سے بڑا خطيب ہوں ليکن ميں تمہيں کہتا ہوں کہ تم مجھ سے بھي بڑے خطيب ہو (سفر حجاز صفحہ نمبر 53
علامہ صاحب کي يہ خاصيت تھي کہ جس زبان ميں گفتگو کرتے، مدلل گفتگو کرتے۔ ايک آن ميں مجمع کو شعلہ بنا ديتے تھے۔ جس عنوان کو چھيڑتے اس کو پورا کرتے تھے۔ سيرت النبي ﷺ اور فضائل صحابہ ان کے پسنديدہ موضوعات ہوتے تھے۔ جب صحابہ کے ابتدائي حالات اور رسول اللہ ﷺ پر آنے والي مشکلات کا تذکرہ کرتے تو اشک بار ہو جاتے تھے۔ لوگوں کي دھاڑيں نکل جاتي تھيں۔ اور جب حسن مصطفيٰ ﷺ کا تذکرہ کرتے تو محسوس ہوتا کہ بلبل چہک رہا ہے۔ رياض رسول ﷺ ميں غالب جيسے قادر الکلام شاعر نے کہا تھا
ديکھنا تقرير کي لذت کہ جو اس نے کہا ميں نے يہ جانا کہ گويا يہ بھي ميرے دل ميں ہے 
علامہ صاحب قدرت سے جري دل، روشن دماغ، اور جانثارانہ جذبہ لے کر پيدا ہوئے تھے۔ بظاہر حالات کي تنگي سے کبھي مرعوب نہ ہوتے۔ ہميشہ اللہ تعاليٰ پر کامل بھروسہ رکھتے تھے۔ جب فرق ضالہ کا تعارف کراتے تو برجستہ گوئي اور بے باکي و جرأت سے اظہار حق فرماتے تھے۔ 
وہ جہاں جاتے اہل حديثيت ان کے ہمراہ جاتي تھي۔ جلسہ ہو يا نجي محفل، عام گفتگو ہو يا سياسي مجلس، ہر مقام پر اپنا مسلکي تشخص برقرار رکھتے تھے۔ لفظ اہلحديث پر جرح و نقد برداشت نہ کرتے تھے۔ اگر کہيں کوئي اہل حديث کے خلاف کوئي بات کر ديتا، تو اُٹھ کر کھڑے ہو جاتے اور دلائل و براہين سے اہل حديث کي عظمت و رفعت کو ثابت کرتے اور منواتے تھے۔ 
علامہ صاحب سيد داؤد غزنويؒ، ابراہيم مير سيالکوٹيؒ اور مولانا اسماعيل سلفيؒ کے مشن کو لے کر آگے بڑھے۔ ليکن ہر عظيم شخصيت کي طرح انہوں نے اپنا ايک عليحدہ تعارف بھي قائم کيا۔ جو يقيناً ان کا حق بھي تھا۔ جس طور پر اہل حديث کے لئے انہوں نے خدمات سر انجام ديں، برصغير کي پاکستاني تاريخ ميں اس کي مثال پيش کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے لفظ اہل حديث کو گالي سمجھ کر قبول کيا اور تيس برس کي جاں بلب محنت کے بعد اسے (لفظ اہلحديث) سعادت کے طور پر دنيا والوں سے منوايا۔ 
خود فرمايا کرتے تھے: ۔
گو اپنے دوستوں کے برابر نہيں ہوں ميں۔۔۔۔۔۔ليکن کسي حريف سے کم تر نہيں ہوں ميں 
اللہ تعاليٰ نے بے شمار خصوصيات کے ساتھ ساتھ تاليف و تصنيف کا شاندار ذوق بھي وافر مقدار ميں عطا فرمايا تھا۔ مختلف مذاہب و مسالک پر بے شمار کتابيں لکھيں۔ جو لاکھوں کي تعداد ميں شائع ہو کر نہ صرف عالم اسلام، عالم عرب، بلکہ دنيا بھر ميں پھيل چکي ہيں۔ علامہ صاحب کا سب سے بڑا کمال يہ ہے کہ انہوں نے براہِ راست عربي ميں لکھا ہے اگر عمر وفا کرتي تو وہ عيسائيت، يہوديت، بدھ مت اور ديگر اديان باطلہ پر سير حاصل لکھتے۔ اسي طرحح ديو بنديت پر بھي مدلل لکھنا ان کے پروگرام ميں شامل تھا۔ علامہ صاحب کي بہت سي کتابوں کے اردو، فارسي، انگريزي اور ديگر متعارف عالمي زبانوں ميں تراجم ہو چکے ہيں۔ 
بقول مولانا محمد اسحاق بھٹي حفظہ اللہ تعاليٰ مذاہب و مسالک پر ان کے عقائد و نظريات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان سے بڑھ کر کوئي نہيں لکھ سکا۔ اس ميدان ميں وہ يکتا و تنہا تھے۔ (ہفت اقليم
کتابوں کي تصنيف و تاليف، ذاتي کاروبار، غير ملکي دورے، ملکي سياسيات، قاديانيوں، شيعوں اور بريلويوں سے آنکھ مچولياں، جمہوريت کي بحالي ميں بھرپور انداز سے شرکت، سب ان کي عزيميت و حميت کا برملا ثبوت ہيں۔ 
يوں معلوم ہوتا ہے۔ جو کام پچاس ساٹھ برس ميں ہونا تھا اللہ تعاليٰ نے ان سے چند سالوں ميں لے ليا۔ ہائے وہ شعلہ مستعجل ثابت ہوئے۔ حاسدوں کا حسد، شيطانوں کي شيطنت، خبيثوں کي خباثت، سازشيوں کي سازش اپنے منصوبے ميں کامياب ہو گئي۔ 22 اور 23 مارچ 1987ء کي درمياني شب قلعہ لچھمن سنگھ لاہور کي اہلحديث کانفرنس ميں تقرير کرتے ہوئے جب موصوف کے منہ سے نکلا۔۔۔۔ 
کافر ہے تو شمشير پہ کرتا ہے بھروسہ مومن ہے تو بے تيغ بھي لڑتا ہے سپاہي 
يہ الفاظ ابھي ادا نہ ہو پائے تھے کہ تباہي پھيل گئي۔ اہلحديثوں کي بساط الٹ گئي۔ مولانا قدوسيؒ، مولانا محمد خان نجيبؒ يکے بعد ديگرے اور مولانا حبيب الرحمٰن يزدانيؒ دوسرے روز شہيد ہو گئے۔ 
اور علامہ صاحب شديد زخمي ہو گئے، ميو ہسپتال ميں علاج معالجہ کے بعد شاہ فہد کي فرمائش پر علامہ صاحب کو رياض ملٹري ہسپتال (سعودي عرب) پہنچا ديا گيا۔ ليکن قضا و قدر کو کچھ اور ہي منظور تھا۔ جنت الفردوس کا راہي اب زيادہ دير عالم دنيا ميں نہيں ٹھہرنا چاہتا تھا۔ آخر موت و حيات کي کشمکش کي چند ساعتوں کے بعد علامہ صاحب نے دنيائے فاني کو الوداع کہہ ديا۔ بالآخر تھکے ماندے مسافر کو قرار ہو گيا۔ 
اللہ تعاليٰ نے اپنے دين کے متوالے، توحيد کے رکھوالے، اور سنت کے ديوانے کو ديارِ حبيب ميں بلوا کر شہادت کے خلعت سے سرفراز فرمايا۔ 30 مارچ 1987ء کو ان کے جسد خاکي سے روح پرواز کر گئي۔ رياض کي شاہي مسجد ميں ان کے مشفق استاذ سماحۃ الشيخ عبد العزيز بن باز (رحمۃ اللہ عليہ) نے رو رو کر ان کي نماز جنازہ پڑھائي۔ رياض ميں تاريخي جنازوں ميں سے يہ ايک تاريخي جنازہ تھا۔ جس ميں ہزاروں اہل علم لوگوں نے شرکت کي تھي۔ 
دوسرا جنازہ مسجد نبوي کے امام نے لاکھوں کے مجمع ميں بڑي آہ و زاري اور رقت قلبي سے پڑھايا۔ اور پھر حضرت علامہ شہيدؒ کو صحابہؓ، تابعين، تبع تابعين، محدثين، مفسرين، مجاہدين اور اولياء کرام کے قبرستان جنت البقيع ميں دفن کيا گيا۔ 
بے تاب آرزو ہے کہ اللہ تعاليٰ يہ مقام رفيع ہر سچے، صادق اور درد دل رکھنے والے مسلمان کو عطاء فرمائے (آمين) پاکستان کا افتخار، احسان الٰہي ظہيرؒ اسلامي دنيا کا ہيرو، احسان الٰہي ظہيرؒ، فضل و کمال کا پيکر احسان الٰہي ظہيرؒ، حکمت و معرفت کا دانا احسان الٰہي ظہيرؒ، کاروان اہلحديث کا رہنما احسان الٰہي ظہيرؒ، رخصت، ہوا۔۔۔۔ 
چھيڑ خوبان سے چلي جائے اسد۔۔۔۔۔۔گر نہيں وصل تو حسرت ہي سہي

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔