بسم اللہ الرحمن الرحیم
شيخ الاسلام امام احمد ابن تيميہ رحمہ اللہ
مختصر تعارف
تحریر : ڈاکٹر حافظ اكرام الحق يٰسين
شيخ الاسلام تقي الدين ابو العباس احمد بن عبد الحليم بن عبد السلام بن عبد اللہ بن الخضر بن محمد بن الخضر بن علي بن عبد اللہ ابن تيميہ نميرى ، حرانى، دمشقى ، حنبلى (ولادت 661 ہجری ـــ وفات 728 ہجری ) عہد مملوكى كے نابغہ روزگار علماء ميں سے تھے ۔ اللہ تعالى نے انہیں ايك مجدد كى صلاحيتوں سے نوازا تھا ۔
آپ نے عقائد ، فقہ، رد فرق باطلہ، تصوف اور سياست سميت تقريبا ہر موضوع پر قلم اٹھایا اور اہل علم ميں منفرد مقام پایا ۔ آپ بہت فصيح اللسان اور قادر الكلام تھے ۔ علم وحكمت، تعبير وتفسير اور علمِ اصول ميں انہیں خاص مہارت حاصل تھی ۔اپنے والد كى وفات كے بعد دمشق كے دارالحديث السكرية كى مسندِ حديث پر جب آپ نے پہلا درس ديا، اس وقت آپ كى عمر بيس سال كے قريب تھی، اس ميں قاضي القضاة اور ديگر مشايخ زمانہ موجود تھے ۔آپ نے صرف بسم اللہ الرحمن الرحيم كے بارے ميں اتنے نكات بيان كيے کہ سامعين دنگ رہ گئے ۔ شيخ الاسلام تاج الدين فزارى شافعى ( م 690 ہجرى) نے ان كا پورا درس حرف بحرف قلم بند كر كے دارالحديث السكرية كے كتب خانہ ميں محفوظ كروا ديا ۔
ذہانت اور بے پناہ علمى قابليت كے ساتھ ساتھ آپ کی زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت تھی ۔ آپ نے اپنے دور كے كئى علماء كے ساتھ علمى مناظرے بھی کیے اور حكومتِ وقت كے ساتھ مل كر تاتاريوں اور باغيوں کے خلاف عملى جہاد ميں بھی حصہ ليا ۔
نفاذِ شريعت كى كوششوں كے سلسلہ ميں آپ كو كئى تجاويز وشكايات لے كر وفود كے ساتھ حكام كے پاس جانے كا موقع بھی ملا۔ آپ كا انداز محققانہ اور محتاط تھا ۔ايك مرتبہ آپ كو قاضى كا عہدہ بھی پیش كيا گیا مگر آپ نے حكومتى شرائط سے متفق نہ ہونے كى وجہ سے اسے قبول نہیں کیا۔
موصوف كى انسانيت دوستى كا يہ عالم تھا کہ شام كے جنگی قيديوں كى رہائی كے ليے تاتارى مسلمان بادشاہ غازان كے پاس جا پہنچے ۔ اس نے آپ کے احترام ميں صرف مسلمان قيديوں كى رہائی كا اشارہ ديا تو آپ اس پر راضى نہ ہوئے اور يہ کہہ كر سب قيديوں كى رہائی پر اصرار كيا كہ یہودی اور نصرانى بھی ہماری رعايا ہیں اور ان كے جان ومال كى حفاظت ہم پر ضرورى ہے چنانچہ سبھی كو رہا كر ديا گیا ۔
آپ بےباك اس قدر تھے كہ 27 ربيع الاول 699 ہجرى كو جب شام كے شہر حمص اور سلميہ کے درميان وادى خازندار ميں تاتارى سلطان غازان اور سلطانِ مصر ملك ناصر محمدبن قلاؤن كے درميان سخت لڑائی كے نتیجے میں بہت تباہی ہوئی ، مصرى اور شامى فوجوں كا بہت نقصان ہوا اور ملك ناصر بھی فرار ہو كر قاہرہ پہنچ گئے تو امام ابن تيميہ رحمہ اللہ مشائخ دمشق كو لے كر 3 ربيع الثاني 699 ہجری كو بعلبك كے قريب تاتارى بادشاہ غازان سے ملاقات كرنے پہنچ گئے ۔ انہوں نے بادشاہ کے سامنے بہت پُرجوش انداز ميں عدل وانصاف كى خوبياں بيان كيں اور اس كے آباؤ اجداد كے مظالم كے ساتھ ساتھ ان كے بعض اصولوں اور وفائے عہد كا تذكرہ كيا ۔ غازان اگرچہ اس سے قبل ہی مسلمان ہو چکا تھا مگر تاتارى اور غيرتاتارى كى لڑائی تسلسل سے جارى تھی ۔ آپ كى تقريريں اس قدر سخت اور جملے اس قدر تندوتيز تھے كہ پورے وفد كو آپ کے قتل ہو جانے كا يقين ہو چلا تھا ۔ غازان نے انہیں قتل كرنے كى بجائے اپنے امراء كے سامنے ان كى بےباكى اور شجاعت كى تعريف كى اور ان سے دعاؤں كى درخواست كى ۔امام ابن تيميہ رحمه اللہ نے اس كے ليے يہ دعا كى :
" اے اللہ اگر تو جانتا ہے كہ غازان تيرا كلمہ بلند كرنے كے ليے لڑ رہا ہے اور وہ تيرى راہ ميں جہاد کے ليے نكلا ہے تو تو اس كى مدد كر ۔اور اگر تيرے علم ميں ہے کہ وہ مال ودولت حاصل كرنے كے ليے نكلا ہے تو اس كو اس كى پوری جزا عطا كر ۔"
غازان اس پوری دعا پر آمين كہتا رہا !
آپ كى حق گوئی اور بے نفسى كا يہ عالم تھا كہ غازان نے آپ كے وفد كے ليے دسترخوان لگوايا مگر آپ نے وہاں كھانے سے انكار كرديا اور كہا: "ميں یہ کھانا كيسے کھا سکتا ہوں جب كہ اس كو لوٹ کھسوٹ كے مال سے تيار كيا گیا ہے ؟"
امام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے كسى کے خوف اور دباؤ كی پرواہ كيے بغير اپنی منفرد علمى تحقيقات كى اشاعت كى ۔ اپنے بعض علمى مباحثوں اور فتووں كى وجہ سے آپ كو ايك مدت تك قيد وبند كى صعوبتيں بھی برداشت كرنا پڑیں، حتى كہ جب داعئ اجل كو لبيك كہنے كا وقت آيا تو آپ زندگی كى آخرى قيد برداشت كر رہے تھے اور آپ كا جنازہ جيل ہی سے نكلا ۔ آپ كى كل مدت قيد سوا چھ سال بنتى ہے ۔
خير الدين زركلى نے دُرر كے حوالہ سے لکھا ہے كہ آپ كى تصانيف چار ہزاراجزاء سے متجاوز ہیں ۔ فوات الوفيات ميں ان كى تعداد تين سو مجلد منقول ہے ۔ ان ميں سے آپ كا ايك مبسوط فتاوى ، الجوامع، السياسة الشرعية ، الجمع بين العقل والنقل، الصارم المسلول على شاتم الرسول، رفع الملام عن الأئمة الأعلام، مجموعة الرسائل والمسائل بھی ہیں ۔
آپ کے حالات زندگی پر ابن قدامہ نے العقود الدرية في مناقب شيخ الإسلام أحمد بن تيمية ، شيخ مرعى حنبلى نے الكوكب الدرية ، سراج الدين عمر البزار نے الأعلام العلية في مناقب ابن تيمية، عبدالسلام حافظ نے الإمام ابن تيمية ، شيخ محمد ابو زہرہ نے ابن تيمية ؛ حياته وعصره_ آراؤه وفقهه، اور اسى طرح شهاب الدين أحمد بن يحيى بن فضل الله العمري، ابو عبدالله محمد بن أحمد بن عبدالهادي الحنبلي، وغيره كئى اہل علم نے عليحدہ عليحدہ كتابيں لکھیں ۔اردو ميں آپ كى سوانح پرڈاکٹر غلام جيلانى برق كى كتاب امام ابن تيميہ، افضل العلماء محمد يوسف كوكن عمرى كى مبسوط كتاب امام ابن تيميہ، اور مولانا ابو الحسن على ندوى كى كتاب تاريخ دعوت وعزيمت جلد دوم بہت مفيد ہیں۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔