YOUR INFO

Saturday 9 March 2013

شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی

0 comments
شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی رحمہ اللہ
مقالہ نگار: عبد الرشید
شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی رحمہ اللہ کی ذات محتاج تعارف نہیںَ آپ کا شمار ان جلیل القدر علمائے کرام میں ہوتا ہے۔ جو اپنے شجر علمی کے اعتبار سے جامع الکمالات تھے۔ آپ بیک وقت مفسر قرآن بھی تھے۔ اور محدث بھی، مجتہد بھی تھے۔ اور فقیہہ بھی، محقق بھی تھے اور مورخ بھی، معلم بھی تھے، اور متکلم بھی، نقاد بھی تھے اور مبصر بھی، ادیب بھی تھے، اور دانشور بھی، خطیب بھی تھے، اور مقرر بھی! مصنف بھی تھے، اور واعظ بھی، اور اس کے علاوہ آپ پاکیزہ ذہن کے سیاستدان بھی، تمام علوم اسلامیہ یعنی تفسیر قرآن، حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، اصول تفسیر و حدیث، فقہ و اصول فقہ، تاریخ و سیر، ادب، لغت، معانی، فلسفہ، منطق، غرضیکہ تمام علوم پر ان کو یکساں قدرت حاصل تھی۔ حدیث اور تاریخ پر ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ تاریخ پر تنقیدی نظر رکھتے تھے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کو والہانہ محبت اور عشق تھا۔ حدیث کے معاملہ میں معمولی سی مدانیت بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ اس کا ثبوت ان کی تصانیف سے ملتا ہے۔ ان کی تمام تصانیف حدیث کی حمایت و تائید اور نصرت و مدافعت میں ہیں۔ خطابت میں بھی ان کا مقام بہت بلند تھا۔ عوامی تقریر کرنے میں ان کو خاصملکہ حاصل تھا۔ اور علمی و تحقیقی تقریر کرنے کے بھی شہسوار تھے۔ حالات حاضرہ پر ان کا مطالعہ بھی وسیع تھا۔ برصغیر کی تمام قومی و ملی اور علمی و دینی تحریکات کے بارے میں ان کو مکمل آگاہی حاصل تھی۔ اور ہر تحریک کے بارے میں اپنی ایک ناقدانہ رائے رکھتے تھے۔ ملکی تحریکات کی ساتھ ساتھ عالم اسلام کے تحریکات کے بارے میں بھی وسیع معلومات رکھتے تھے۔ 

مولانا محمد اسمعیل سلفی کا شمار اکابر علمائے اہلحدیث میں ہوتا تھا۔ قیام پاکستان سے قبل آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس سے وابستہ تھے۔ اور مجلس عاملہ کے رکن تھے۔ تقسیم ملک سے آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس سے تعلق منقطع ہو گیا، آپ نے مولانا سید محمد داؤد غزنوی، حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی، مولانا محمد حنیف ندوی، مولانا محمد عطاءاللہ حنیف بھوجیانی، مولانا عبدالمجید سوہدروی اور دوسرے علمائے کرام کے تعاون سے مغربی پاکستان میں جماعت اہلحدیث کو منظم اور فعال بنانے میں قابل قدر خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ 1955ءمیں الجامعہ السلفیہ لائل پور ( فیصل آباد ) کے قیام میں بھی آپ کی خدمات سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ملکی سیاست میں بھی آپ کی خدمات جلیلہ کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ کئی بار تحریک استخلاص وطن میں اسیر زنداں ہوئے۔
علم و فضل کے اعتبار سے مولانا سلفی مرحوم جامع الکمالات تھے۔ حکومت پاکستان نے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے سلسلہ میں 33 علماءکا ایک بورڈ تشکیل دیا۔ اور اس بورڈ کا صدر علامہ سید سلیمان ندوی کو بنایا گیا۔ مولانا سلفی رحمہ اللہ بھی اس بورڈ کے رکن تھے۔
مولانا محمد اسمعیل سلفی 1895 ءمیں وزیر آباد کے نواحی قصبہ ڈھونیکی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام مولانا حکیم محمد ابراھیم تھا۔ جو استاد پنجاب شیخ الحدیث حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی کے فیض یافتہ تھے۔ مولانا محمد اسمعیل سلفی نے علوم اسلامیہ کی تحصیل جن علمائے کرام سے کی۔ ان کے نام یہ ہیں۔
مولانا عمر الدین وزیر آبادی، استاد پنجاب شیخ الحدیث حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی، مولانا عبدالجبار عمرپوری، مولانا سید عبدالغفور غزنوی، مولانا مفتی محمد حسن امرتسری، مولوی حکیم محمد عالم امرتسری، مولانا محمد ابراھیم میر سیالکوٹی ۔ دہلی کے قیام میں مولانا حافظ عبداللہ محدث غازی پوری رحمہ اللہ کے درس قرآن میں شرکت کی سعادت بھی انہیں حاصل تھی۔ 1921ءمیں مولانا سلفی نے علوم اسلامیہ سے فراغت حاصل کی۔ اور مولانا محمد ابراھیم میر سیالکوٹی کی تحریک پر گوجرانوالہ میں حاجی پورہ کی مسجد مٰں ان کا تقرر بحیثیت خطیب ہوا، کچھ مدت بعد مولانا علاؤ الدین خطیب مسجد چوک نیائیں گوجرانوالہ کا انتقال ہوا۔ تو آپ کو ان کی جگہ خطیب مرکزی مسجد مقرر کیا گیا۔ جہاں آپ اپنے انتقال فروری 1968 تک توحید و سنت کی اشاعت میں مصروف رہے۔
آپ نے ایک دینی درسگاہ جامعہ محمدیہ کے نام سے قائم کی۔ یہ درسگاہ اب بھی آپ کی یہ یادگار قائم ہے۔ اور قرآن و حدیث کی اشاعت میں سرگرم عمل ہے۔ مولانا سلفی مرحوم ایک کامیاب مصنف بھی تھے۔ آپ کی تمام تصانیف تقریبا حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید و نصرت اور مدافعت میں ہیں۔ آپ کی تصانیف کی فہرست درج ذیل ہے۔
ترجمہ و شرح مشکوٰۃ المصابیح ( ربع اول ) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز۔ تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی۔ زیارۃ القبور۔ حدیث کی تشریعی اہمیت۔ مسئلہ حیات النبی۔ جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مسلک۔ حدیث کا مقام قرآن کی روشنی میں۔ اسلامی نظام حکومت کا مختصر خاکہ۔ حجیت حدیث۔ خطبات سلفیہ۔ مولانا محمد اسمٰعیل سلفی نے 20 فروری 1968 ءکو گوجرانوالہ میں انتقال کیا۔ مولانا حافظ محمد یوسف گکھڑوی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اور قبرستان کلاں میں دفن ہوئے۔ راقم آئم کو بھی جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل ہے۔ اللھم اغفرہ وارحمہ۔
مولانا محمد اسماعیل سلفی کی وفات کو قومی پریس اور اکابر علمائے کرام نے ایک عظیم دینی و علمی و قومی سانحہ قرار دیا۔
روزنامہ نوائے وقت لاہور نے اپنی اشاعت21فروری 1928 ءمیں لکھا۔ مرحوم صرف جید عالم دین، باکمال خطیب اور جادوبیان مقرر ہی نہ تھے۔ بلکہ وہ ایک خاموش سیاسی کارکن اور اتحاد اسلامی کے زبردست داعی تھے۔ ضبط وتحمل، رواداری ان کی طبیعت کا خاصہ تھا۔ وہ نہ صرف فرقہ وارانہ منافرت کے خلاف تھے۔ بلکہ انہوں نے مختلف فرقوں کے مابین فروعی اختلافات ختم کرنے کی کوشش کی۔ وہ دین کو سیاست سے الگ نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے زندگی بھر دینی خدمت کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست کو بھی اسلامی رنگ دینے کی مخلصانہ کوشش کی۔
جناب شورش کاشمیری نے اپنے رسالہ ہفت روزہ چٹان کی اشاعت 22 فروری 1968 ءمیں لکھا کہ
” 
مولانا بظاہر ایک دھان پان اور منکسر المزاج انسان تھے۔ لیکن حقیقتاً وہ علم کا سرچشمہ اور غیرت کا پہاڑ تھے۔ بادشاہوں کو خاطر میں لانے والے نہیں تھے۔ انہوں نے مسجدوں اور مدارس کے وقار کو دو چند کیا۔ وہ بادشاہوں کی ثنا خوانی کو اپنے سجاوے کی آبرو نہیں گردانتے تھے۔ “
مولانا قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی نے اپنے ایک مکتوب بنام ایڈیٹر الاعتصام لکھا:
” 
حضرت مولانا محمد اسمعیل کی وفات سے دل کو سخت رنج و غم ہوا۔ مرحوم برصغیر کے ممتاز عالم، وسیع النظر محقق، مفکر اور مصنف تھے۔ درس و تدریس اور خطابت کے ذریعہ آپ نے دین و ملت کی طویل عرصہ تک جو خدمات انجام دیں۔ وہ ہمیشہ یادگار رہیں گی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ وحدت امت کے سب سے بڑے داعی تھے۔ اور فرقہ وارانہ تنگ نظری کے شدید مخالف تھے۔ ان کے انتقال سے علماءکی صفوں میں شدید خلا محسوس کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے دامان رحمت میں جگہ دے۔ اور آپ کی جماعت کے صاحبان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
علامہ احسان الٰہی ظہیر نے ہفت روزہ الاعتصام کی اشاعت 8مارچ1967 ءمیں لکھا

” 
مولانا محمد اسمعیل سلفی کی پوری زندگی دین و علم کی خدمت میں گزری ان کا ایک ایک لمحہ عزیمت و جہاد کا علمبردار تھا۔ 

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔