ناصر الدین الألبانی کی خدمات حدیث
1999ء
کا سال عالم اسلام کے لیے بالعموم، اور سلفی حضرات کے لیے بالخصوص عام الحزن ہے ۔ جس میں یکے بعد دیگرے نامور اسلامی شخصیات اس جہان فانی سے رخصت ہو کر اپنے خالق حقیقی کے پاس پہنچ گئیں ، اور عالم اسلام ان کے علم وفضل سے محروم ہو گیا ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ اسی سال داغ مفارقت دینے والے افراد میں حضرت شیخ مصطفی زرقا ، شیخ مناع قطان ، شیخ عطیہ سالم ، شیخ علی طنطاوی ، مولانا محمد عبدہ الفلاح ، شیخ محمد عمر فلاتہ ، شیخ عبدالقادر حبیب اللہ سندھی ، شيخ علامہ عبدالعزيز بن باز اور آخر ميں محدث العصر حضرت علامہ شيخ الباني رحمہم اللہ سر فہرست ہیں. ان حضرات نے دين حنيف كى جس قدرخدمات انجام ديں ، كتاب وسنت كى تعليمات كو پھیلانے اور مردہ د لوں کو نورایمان سے منور کرنے کی جو سعی بلیغ کی ، اس کی داستان نہایت طویل ہے۔ ان میں بالخصوص شیخ ابن باز اور شیخ البانی کی خدمات کا دائرہ تو اتنا وسیع ہے کہ سفینہ چاہئیے اس بحرِ بے کراں کے لیے زیر نظر تحرير ميں ہم مؤخر الذكر حضرت شيخ البانى ( رح) كے منہج اور حديث نبوي كے حوالے سے ان كے ايك موقف كى وضاحت كريں گے ۔ انہوں نے گو ایک سو سے زائد کتابيں تصنيف كى ہیں اور ہر كتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے نادر تحقيقات پر مشتمل ہے، مگر ان ميں زيادہ مشہور كتب سلسلة الاحاديث الصحيحة ، سلسلة الاحاديث الضعيفة ، ارواء الغليل ، صفة صلٰوة النبي صلى اللہ عليہ وسلم ، صحيح الجامع الصغير، ضعيف الجامع الصغير، تمام المنة، غایة المرام، احكام الجنائز ، تحذير الساجد، صحيح سنن ابي داود ،اور ضعيف سنن أبي داود وغيرہ ہیں. حديث وسنت كے باب ميں ان كى سب سے بڑی كاوش يہ ہے كہ انہوں نے اس رجحان كى آبيارى كى كہ احكام ومسائل ميں صحيح اور حسن حديث كا ہی اہتمام كيا جائے ۔اسى طرح فضائل ومستحبات ميں بھی ضعيف پر اعتماد نہ كيا جائے ۔ اسى بنا پر انہوں نے ذخيرہ احاديث ميں سے صحيح اور ضعيف روايات كو چھانٹ كر ركھ ديا ۔ سلسلة الأحاديث الصحيحة ، سلسلة الأجاديث الضعيفة ، صحيح الجامع الصغير ، ضعيف الجامع الصغير كے علاوه صحيح سنن أبي داود، ضعيف سنن أبي داود، صحيح الترمذي، ضعيف الترمذي، صحيح سنن النسائي، ضعيف سنن النسائي، صحيح سنن ابن ماجة ، صحيح الترغيب والترهيب، صحيح الادب المفرد، ضعيف الأدب المفرد، اور صحيح الكلم الطيب وغيرہ اسى سلسلة الذھب كى كڑياں ہیں ۔ ان كے صحت وضعف پر نقدو تبصرہ اہل علم كا حق ہے ، كيوں كہ شيخ البانى بھی انسان ہیں اور سہو وخطا سے كون انسان ہے جو محفوظ رہا ہو ؟ خود راقم الحروف نا چیز بھی كئى مقامات پر شیخ مرحوم سے متفق نہیں، ليكن اس كا يہ مطلب قطعا نہیں كہ چند ايسى خطاؤں كى بنا پر ان كى خدمات جليلہ كو ہدف تنقید بنا لیا جائے اور محض معاصرانہ چشمک ميں بات كا بتنگڑ بنا ديا جائے ۔ مثلا : یہی ديكھیے كہ شیخ ابو غدة ، شيخ ابو عوامہ وغيرہ كو الصحيحة اور الضعيفة كى تقسيم وتفريق ہی نہیں بھائی ، جس كى تفصيل " أثر الحديث الشريف في اختلاف الأئمة الفقهاء" لاأبي عوامة اور " حواشي ظفر الأمانى " لأبي غدة ميں ديكھی جا سكتى ہے۔ ہم یہاں اس مسئلے ميں شيخ البانى ( رح) كے موقف كى وضاحت كرنا چاہتے ہیں ، اور بتانا چاہتے ہیں كہ ان كا يہ موقف نيا نہیں ۔ امام بخاري (رح) ، اور امام مسلم (رح) وغيرہ كا بھی یہی موقف تھا ۔چناں چہ موصوف فرماتے ہیں : " ضعيف حديث پر مطلقا عمل نہ كيا جائے، نہ تو فضائل ومستحبات ميں اور نہ ان كے علاوہ كسى اور موقع پر ، كيوں كہ ضعيف حديث كے بارے ميں علماء كا اتفاق ہے كہ يہ ظن مرجوح كا فائدہ ديتى ہے ، لہذا جب اس كى يہ حيثيت ہے تو اس پر عمل كيوں كر جائز قرارد يا جاسكتا ہے ؟ كيوں كہ اللہ تعالى نے اپنی كتاب كى بہت سى آيات ميں ظن كى مذمت بيان كى، چناں چہ فرمايا ہے : " بے شك جہاں یقین چاہئیے وہاں کوئی ظن كام نہیں آتا " ۔ نيز فرمايا :" وہ تو محض ظن كى پیروی کرتے ہیں " ۔ اور رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے كہ " ظن سے بچو، كيوں کہ ظن بہت جھوٹی بات ہے ۔ " ( بخاري ومسلم، مقدمة ضعيف الجامع: 45) ضعيف حديث پر عمل نہ كرنے كى جو دليل اصولى طور پر علامہ البانى نے پيش كى ہے ، صحيح خبر واحد كو ظنى كہہ كر درخور اعتناء نہ سمجھنے والوں كے ليے باعث تامل ہے۔ ضعيف كى حيثيت تو ظن مرجوح كى ہے اور اس پر عمل بھى بقول حافظ ابن حجر اس شرط پر ممكن ہے كہ اس كے ثبوت كا اعتقاد نہ ہو، تا كہ نبي كريم صلی اللہ علیہ وسلم كى طرف ايسى چیز منسوب نہ ہو جائے جو آپ نے نہیں کی ، چناں چہ ضعيف حديث پر عمل کے لیے شروط ثلاثہ كا ذ كر كرتے ہوئے آپ تيسرى شرط يہی بيان كرتے ہیں : "ان لايعتقد عند العمل به ثبوته لئلا ينسب إلى النبي صلى الله عليه وسلم ما لم يقله ". "اس پر عمل كرتے وقت اس كے ثابت ہونے كا يقين نہ رکھا جائے ، تا كہ نبي اكرم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف كوئى ايسى بات منسوب نہ ہو جائے جو آپ نے نہیں فرمائى." (القول البديع: 258) بلكہ خود حافظ ابن حجر كے الفاظ اس بارے ميں انتہائی غور طلب ہیں، لكھتے ہیں : "يعنى شہر رجب كے بارے ميں اس كے كسى مخصوص دن روزہ ركھنے يا كسى رات قيام كى فضيلت ميں كوئى قابل استدلال روايت ثابت نہیں، ليكن مشہور ہے کہ اہل علم احاديث فضائل ميں تساہل سے کام لیتے ہیں ، اگر چہ وہ ضعیف ہی كيوں نہ ہوں ، الا يہ كہ وہ موضوع ہو ، ليكن اس كے ساتھ يہ شرط بھى ضرورى ہے كہ اس پر عمل كرنے والا اسے ضعيف سمجھے اور اسے شہرت نہ دے ۔ تا كہ كوئى شخص ضعيف پر عمل نہ كرے اور ايسے عمل كو مشروع نہ بنا لے جو شريعت نہیں ہے ، يا بعض بے خبر لوگ اسے سنت صحیحہ نہ سمجھنے لگیں ۔ اسى قسم كى تصريح استاد ابو محمد بن عبدالسلام وغيرہ نے بھی کی ہے اور انسان كو آں حضرت صلى اللہ عليہ وسلم كے اس فرمان کے تحت آ جانے سے بچنا چاہئیے کہ : " جو ميرى طرف سے حديث بيان كرتا ہے جسے وہ جھوٹی سمجھتا ہے تو وہ دو میں سے ایک جھوٹا ہے ۔" جب جھوٹی روایت بیان کرنے پر ايسى وعيد ہے تو جو اس پر عمل كرے گا اس كا كيا حال ہو گا ؟ اور احكام يا فضائل ميں حديث پر عمل كرنے ميں كوئى فرق نہیں جب كہ ان سب كا تعلق شريعت سے ہے ۔" (تبيين العجب: 8_9) حافظ ابن حجر كے ان الفاظ سے دو باتيں نكھر كر سامنے آتى ہیں : 1 _ دينى احكام كا تعلق احكام سے ہو یا فضائل سے وہ بہرنوع دين ہیں ۔ 2 _ ضعيف روايت پر عمل کو شہرت نہ دی جائے، تا كہ دين سے بے خبر لوگ اس پر عمل کو سنت نہ سمجھنے لگیں یا اس پر عمل كو شريعت نہ بنا ليں ۔ ۔۔۔سوال یہ ہے کہ ضعیف حدیث پر فضائل میں عمل کر لینے کے موقف کو اپنانے کے بعد علمائے امت نے ان شرائط کو ملحوظ رکھا ؟ قطعا نہیں ۔ بلکہ اس کے دائرے کو اس قدر وسیع کر دیا کہ فضائل اعمال میں موضوع ( بناوٹی ( احادیث تک کو قبول کر لیا گیا ۔ چناں چہ ایک حدیث یوم عرفہ کی فضیلت میں ان الفاظ سے مروی ہے : أفضل الأيام يوم عرفة إذا وافق يوم الجمعة فهو أفضل من سبعين حجة ۔ " يوم عرفہ جمعہ كے روز ہو تو وہ سب دنوں سے افضل ہے ۔( اسے رزين نے روايت كيا ہے) . اسى روايت كے بارے ميں ملا على قارئ (رح) فرماتے ہیں : " اور يہ جو محدثين نے اس كى سند كے بارے ميں ذكر كيا ہے كہ وہ ضعيف ہے تو اسے صحيح تسليم كر لينے سے بھی مقصود پر کوئی حرف نہیں آتا ، کیوں کہ ضعيف حديث فضائل اعمال ميں معتبر ہے ۔" ( الاجوبہ الفاضلہ : 37) باعث تعجب ہے کہ علامہ لكھنوی نے بھی ملا على قارى كى خاموش تائيد ہی کی ہے ، حالاں كہ امر واقع یہ ہے کہ یہ روايت صرف ضعيف ہی نہیں، بلكہ باطل محض ہے ۔علامہ ابن قيم (رح) رقم طراز ہیں : وأما ما استفاض على ألسنة العوام بأنها تعدل سبعين حجة فباطل لا أصل له عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا عن أحد من الصحابة والتابعين ۔ " لوگوں كى زبان پر یہ جو مشہور ہے کہ جمعہ كا روز كا حج بہتَّر (72) حج كرنے كے برابر ہے تو یہ باطل ہے ، اس كى كوئى سند رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلكہ كسى صحابى سے ، نہ ہی كسى تابعي سے اس كى كوئى بنياد ثابت ہے ۔" ( زاد المعاد: 65/1، مطبوعہ مؤسسہ الرسالہ) ملاحظہ فرمايا آپ نے، كہ اس بے اصل روايت كو بھی فضائل اعمال كے معروف اصول كى بنا پر قبول كر ليا گیا ۔ اس نوعيت کی روايات كو يہاں جمع كيا جائے تو يہ مختصر مضمون طويل ہو جائے گا ۔ بلا شبہ علامہ ابن ھمام (رح) اور انہی كى پیروى ميں بہت سے علماء نے كہا ہے كہ ضعيف حديث سے استحباب ثابت ہوتا ہے ، مگر قابل غور بات يہ ہے کہ کیا استحباب احكام شرعيہ ميں سے ہے یا نہیں ؟ علم اصول فقہ ميں احكام خمسہ يوں ہیں : فرض، مستحب، جائز، مكروہ اور حرام ۔۔۔ علامہ عبد الحي لكھنوی نے علامہ ابن ھمام كى رائے كے ساتھ ساتھ محقق جلال الدين الدوانى سے اس كے برعكس يہ بھی نقل کیا ہے : اتفقوا على أن الحديث الضعيف لا يثبت به الأحكام الخمسة الشرعية ۔ ( الأجوبة الفاضلة : 56) "سب كا اتفاق ہے كہ حديث ضعيف سے شريعت كے احكام خمسہ ثابت نہیں ہوتے ۔" اور ان ہی احكام خمسہ میں ايك مستحب بھی ہے ، لہذا جب استحباب كا درجہ بھی شريعت كے احكام ميں شامل ہے تو كيا اس كو ضعيف حديث سے ثابت كر لينا شرعوا لهم من الدين ما لم يأذن به الله...... (سورة الشورى : الآية 21) ( ترجمہ: وہ ان كے لیے ایسی چیزیں شریعت بنا دیتےہیں جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی) كے زمرے ميں نہیں آتا ؟ اسی کے بارے میں حافظ ابن حجر نے فيشرع ما ليس بشرع کے الفاظ سے اشارہ كيا ہے ۔ ضعيف حديث پر عمل تو محض ظن مرجوح پر مبنى ہے ۔ ظن غالب يا ظن صحيح اس كى بنياد نہیں ۔ ايسى صورت ميں جب کہ كسی چیز كے ثبوت ميں اشتباہ ہو تو وہاں بھی اس عمل كو چھوڑ دينا راجح قرار ديتے ہیں ۔ اسى طرح جہاں ظن مرجوح اور شريعت كى تشريح كا پہلو ہو تو احتیاط كا تقاضا ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے ۔ بالخصوص جب كہ اس اصول كى آڑ ميں بہت سی بے اصل روايات كو بھی قابل اعتناء سمجھا گیا ہو اور بہت سی بدعات کو اس سے سہارا دے دیا گیا ہو ۔ شيخ الاسلام حافظ ابن تيميہ (رح) اسى مسئلے كى وضاحت كرتے ہوئے لکھتے ہیں : " يہ جائز نہیں كہ شريعت ميں ضعيف احاديث پر اعتماد كيا جائے جو نہ صحيح ہیں اور نہ ہی حسن ہیں ۔ ليكن امام احمد (رح) وغيرہ نے کہا ہے کہ جب کسی حدیث کا جھوٹا ہونا ثابت نہ ہو اور اس كا صحيح ہونا بھی معلوم نہ ہو تو فضائل اعمال ميں اسے بيان كرنا جائز ہے ۔ يہ اس ليے كہ جب دليل شرعى سے كسى عمل كا مشروع ہونا ثابت ہو اور اس كى فضيلت ميں ايسى حديث ہو جو جھوٹی نہ ہو تو اس كا حق ہونا جائز ہے اور يہ تو کسی امام نے نہیں کہا کہ ضعيف حديث سے كسى چیز کو واجب اور مستحب قرار ديا جا سكتا ہے جس نے بھی یہ کہا ہے اس نے اجماع كى مخالفت كى ہے ۔" ( القاعده الجليلہ: 84) شيخ الاسلام ابن تيميہ نے ايك دوسرے مقام پر بڑی تفصيل سے اس مسئلے پر بحث كى ہے جو ان كے مجموع فتاوی كى (جلد 18، صفحہ 65_ 68) پر دیکھی جا سكتى ہے جس ميں انہوں نے فرمايا ہے كہ استحباب حكم شرعى ہے جو دليل شرعى سے ہی ثابت ہو سكتا ہے اور جو بغير دليل شرعى كے خبر ديتا ہے كہ اللہ تعالى كو فلاں عمل محبوب ہے تو وہ دين میں ايسا طريقہ مشروع قرارديتا ہے جس كى اجازت اللہ سبحانہ وتعالى نے نہیں دی ۔ شيخ البانى نے مقدمہ صحيح الترغيب والترھیب ( ص 28_ 31) ميں شيخ الاسلام كى يہ مكمل عبارت نقل كى ہے اور اس كے بعد علامہ ابو اسحاق شاطبى كى معروف كتاب الاعتصام ( ج1، ص 249) سے اس كى مزيد تائيد تفصيلا نقل كى ہے ، جس كا خلاصہ یہی ہے کہ بدعات كے رسیا ، ضعيف اور واہی احاديث سے اپنی بدعات کو سہارا دیتے ہیں کہ " فضائل اعمال ميں ضعيف احاديث قابل قبول ہیں " ۔ نيز حديث ضعيف سے استحباب ثابت نہیں ہوتا ، کیوں کہ استحباب احكام شرعيہ ميں سے ايك حكم ہے اور وہ صحيح حديث سے ہی ثابت ہوتے ہیں ضعيف سے نہیں ۔ شريعت ميں كوئى حكم ثابت ہو تو اس كى فضيلت ميں ترغيب وترہیب كے طور پر ضعيف روايات ميں تساہل قابل برداشت ہے ۔ يوں نہیں كہ شرعی حكم كى بنياد ہی ترغيب وترہیب پر رکھی جائے ۔ شيخ الاسلام ابن تيميہ اور علامہ شاطبى كے علاوہ امام يحيى ابن معين ، امام بخاري، امام مسلم ، علامہ ابن العربي، علامہ ابن حزم كا بھی يہی موقف ہے جيسا كہ جمال الدين القاسمى نے قواعد التحديث ( ص94) ميں نقل كيا ہے اور يہی موقف علامہ الباني كا ہے ۔ الباعث الحثيث (ص 101) كے حواشى ميں علامہ احمد شاكر نے بھی یہی موقف اختيار كيا ہے ، علامہ البانى نے اسى سلسلے ميں امام ابن حبان(رح) كا كلام ان كى كتاب المجروحين كے مقدمے سے تمام المنہ ( ص 33، 34) ميں اور امام مسلم كا كلام مقدمہ صحيح الترغيب والترہیب (ص 26) ميں درج كيا ہے ۔ امام ابو شامہ تو يہاں تك لكھتے ہیں : " اب كسى مسلمان عالم كے ليے درست نہیں كہ صحیح كے علاوہ ضعيف اور نا قابل اعتبار روايت ذكر كرے تا كہ كہیں وہ دونوں جہان میں اس رسوائی اور بد بختى كا مصداق نہ ہو جائے جو سيد الثقلين صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان فرمائى ہے كہ جس نے بھی ميرى طرف سے ايسى حديث بيان كى جسے وہ جھوٹی خيال كرتا ہے تو وہ دو ميں سے ايك جھوٹا ہے "۔( الباعث على انكار البدع والحواد ث : 237) مولانا عبد الحي لكھنوی ( رح) نے الاجوبہ الفاضلہ اور ظفرالامانى ميں اس موضوع پر تفصيلا بحث كى ہے ، اور محقق جلال الدين الدوانى كا كلام ان كے رسالہ " انموذج العلوم " سے نقل كيا ہے جس سے ضعيف حديث سے استحباب كے ثبوت كى حيثيت واضح ہوجاتى ہے ، جس ميں خلاصہ كلام كے طور پر آخر ميں لكھتے ہیں : " فلم يثبت شيئ من الأحكام بالحديث الضعيف شبهة الاستحباب فصار الاحتياط أن يعمل بہ واستحباب الاحتياط معلوم عن قواعد الشرع" ۔انتھی ( الأجوبة: 59، ظفرالأماني: ص 193) " ضعيف حديث سے كوئى حكم ثابت نہیں ہوتا ، البتہ ضعيف حديث نے استحباب كا شبہ پیدا کیا ہے ، لہذا احتياط اسى ميں ہے كہ اس پر عمل كيا جائے ، كيوں كہ احتياطا استحباب پر عمل شريعت كے قواعد ميں معلوم ومعروف ہے ۔" گویا ضعيف حديث سے استحباب كا محض شبہ ہوتا ہے اور احتياطا اس پر عمل كو اختيار كيا گیا ہے ، مگر اس شبہے كا ازالہ علامہ البانى کے كلام ميں پہلے گزر چکا كہ ضعيف حديث پر عمل ظن مرجوح كى بنياد پر ہے ، جس كى پیروی كا ہمیں اللہ تعالی نے حكم ہی نہیں ديا اور يہاں شبہ استحباب پر احتياطا عمل كى بجائے دوسرا پہلو بھی برابر کا ہے كہ في الحقيقت يہ فضيلت نہ ہو تو ايسى صورت ميں يہ اپنی طرف سے ايك عمل شريعت بنا دينے كے مترادف ہے ، ان دونوں صورتوں ميں احتياط تو ترك ميں ہے نہ کہ اس پر عمل كرنے ميں جيسا كہ اس كى وضاحت ہم پہلے کر چکے ہیں ۔ سخت حيرت كى بات ہے کہ یہ اصول بنانے والوں نے تو اس سلسلے ميں ايك روايت ہی بنا ڈالی ، چناں چہ علامہ ابن حجر الہيثمى (رح) اس دعوى كہ" فضائل ميں ضعيف حديث پر عمل بالاتفاق جائز ہے " كے بعد فرماتے ہیں كہ ايك ضعيف حديث ميں ہے : "من بلغه عنى ثواب عمل فعمله حصل له أجر وإن لم أكن قلته أو كما قال" ۔( الأجوبة : ص 42) " جسے ميرى طرف سے كسى عمل پر ثواب ہونے كا علم ہو پھر وہ اس پر عمل کرے ، اسے اس عمل كا اجرو ثواب ملے گا ، اگر چہ ميں نے وہ بات کہی نہ ہو ۔" ليجيے اس موقف پر بلكہ كہئیے كہ فضيلت عمل میں ضعيف حديث پر عمل كے ليے ضعيف حديث بھی موجود ہے، لہذا اب اس كا انكار كيسے ؟ ۔۔۔۔۔حالانکہ ان الفاظ كے ساتھ ذخيرہ احاديث ميں كوئى حديث منقول نہیں ! حتى كہ كتب ضعفاء وموضوعات ميں بھی نہیں ! جيسا كہ اس كے حاشيے میں شيخ ابو غدہ (رح) نے وضاحت كر دى ہے ۔ مگر دیکھا آپ نے ؟ اسے ضعيف كہہ کر فضائل اعمال ميں اسے بھی قبول كر ليا گیا اور بہت سی بدعات اور مخصوص نمازيں اسى قسم كى ضعيف احاديث سے ہی رائج ہیں اور رائج رہی ہیں ۔ جيسا كہ علامہ شاطبى وغيرہ نے كہا ہے ، بلا شبہ اكثر اہل علم کی رائے یہی ہے ، مگر جس احتياط كى بنياد پر استحبابا عمل جائز قرار ديا گیا اس میں احتياط كا تقاضا تو اس پر عمل نہ كرنے کا ہے ۔ عمل كرنے کا نہیں ۔ اسى بنا پر علامہ البانى نے اس موقف كو اختيار كيا اور الصحيحہ اور الضعيفہ كى بنياد پر احاديث كى حيثيت بيان كرنے اور اس كى صحت وضعف كو واضح كرنے ميں عمرِ عزيز صرف كردى ۔ اللہ تعالى ان كى كوشش كو قبول فرمائے اور جوئندگان راہِ حق كے ليے مشعلِ راہ بنائے ۔ خود ان كا اپنا بیان ہے : إننا ننصح إخواننا المسلمين في مشارق الأرض ومغاربها أن يدَعوا العمل بالأحاديث الضعيفة مطلقا وأن يوجهوا همتهم إلى العمل بما ثبت منها عن النبي صلى الله عليه وسلم ففيها ما يغني عن الضعيفة ۔ الخ ( ضعيف الجامع:ج1، ص 51) يعنى : " ہم مشرق ومغرب میں بسنے والے اپنے مسلمان بھائیوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ مطلقا ضعيف احاديث پر عمل كرنا چھوڑ دیں اور اپنی ہمت ان احاديث پر عمل كرنے کے ليے مرتكز ركھیں جو نبی کریم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہیں ۔ وہ صحيح احاديث ہمیں ضعيف احادیث سے بے نیاز کر دیتی ہیں ۔" اسى جذبہ صادقہ نے امام بخاري (رح) كو الجامع الصحيح لکھنے پر مجبور کیا ۔ بعض ديگر محدثين نے بھی انہی کی پیروی کی اور انہی كے نقش قدم پر چلتے ہوئے علامہ محمد ناصر الدين البانى نے الصحيحہ اور الضعيفہ كو الگ الگ جمع كرنے کی کوشش کی ۔ الصحيحہ ميں صحيح، صحيح لغيرہ اور حسن ، حسن لغيرہ كا ، اور الضعيفہ ميں ضعيف ، ضعيف جدا ، شاذ ، منكر ، باطل ، موضوع ، لا أصل لہ ، لا يصح ، لا أصل لہ مرفوعا وغيرہ كا درجہ و مرتبہ با دليل بيان كيا ۔ ان كى اس تحقيق سے اختلاف ممكن ہے ، ليكن ان كى اس صائب فكر اور اس قابل قدر كوشش كو تنقيص كى نظر سے ديکھنا كوئى خدمت اور مستحسن رويہ نہیں ۔ بدعت كے اس دور میں سلامتى كى راہ وہی ہے جو علامہ البانى (رح) اور ان كے پیش رو حضرات نے اختيار كى ہے ۔ سنت كى پیروی بدعت ميں اجتہاد سے بہر نوع بہتر ہے ۔ اللہ تعالى ہمیں صحيح احاديث پر عمل كرنے كى توفيق بخشے اور بدعات وخرافات سے محفوظ رکھے ۔ آمين ۔
ارشاد الحق اثری ( حفظہ اللہ ) الاعتصام 18 فرورى 2000ء
بیٹا میں نے اسے پورہ نہیں پڑھا جب پورہ پڑھوں گا تو اس پر تبصرہ کروں گا۔
مجھے البانی ٌ کے حالات زندگی کا حوالہ دینا تھا اس بلاک کے حوالے سے اب دے دوں گا۔
خدا آپ کو اس کا اجر عطا فرمائے آمین