امامِ حرم فضلیة الشیخ سعود الشریم حفظہ
اللہ
بشکریہ : مبصرالرحمن القاسمی (مصباح : کویت) .
شیخ سعود بن ابراہیم بن محمد
الشریم مسجد حرام میں امام وخطیب اور مکہ مکرمہ کی عدالت کے سابق جج ہیں، آپ کا
تعلق نجد کے شہر شقراءکے مشہور قبیلے بنی زید سے ہے۔
شیخ سعود کے دادا محمد
بن ابراہیم الشریم 1322 ھ سے 1325 ھ تک شقراءمیں امیر کے منصب پر فائز رہے ، عربی
کے مشہور شاعر سلیمان بن شریم بھی آپ ہی کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔
شیخ
سعود سن 1386ھجری میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم
عرین اسکول میں حاصل کی، اس کے بعد نموذجیہ سے مڈل اسکول پاس کیا۔ اور سن 1404 ھ
میں سیکنڈری کی تعلیم سے فارغ ہوئے۔
آپ نے 1409ھ میں سعودی عرب کے
دارالحکومت ریاض میں واقع امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی سے عقیدہ اور
معاصرمذاہب میں بیچلرس کی ڈگری حاصل کی۔
سن 1410ھ میں ہائیرانسٹی ٹیوٹ آف
جسٹس میں داخلہ لیا اور وہاں سے 1413ھ میں امتیازی درجات سے ماسٹرس کی ڈگری حاصل
کی۔
اس کے بعد آپ نے سن 1416ھ میں ام القری یونیورسٹی سے اسلامیات میں پی
ایچ ڈی کی۔
پی ایچ ڈی میں آپ کے مقالے کا عنوان (المسالک فی المناسک ) تھا۔
آپ نے پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ مملکت سعودی عرب کے مفتی عام شیخ عبدالعزیز آل
الشیخ کے زیر نگرانی لکھا جو بعد میں کتابی شکل میں منظر عام پر آیا۔
امام
شیخ سعود بن ابراہیم الشریم کو اپنے زمانے کے ماہرینِ فن اساتذہ سے براہ راست
استفادے کا شرف حاصل ہے، ان کے اساتذہ میں شیخ عبداللہ بن جبرین رحمه الله ، شیخ
عبدالعزیز بن باز رحمه الله،شیخ عبداللہ الغدیان رحمه الله، شیخ فہدالحمین، شیخ
عبدالعزیز الراجحی، شیخ عبدالرحمن البراک ، شیخ عبدالعزیز بن عقیل اور شیخ صالح ابن
فوزان الفوزان شامل ہیں۔
شیخ سعود نے تدریسی میدان سے اپنی عملی زندگی کا
آغاز کیا، سن 1410ھ میں آپ نے ہائیرانسٹی ٹیوٹ آف جسٹس میں اپنی تعلیمی لیاقت میں
اضافے کے ساتھ ساتھ تدریسی خدمات بھی انجام دیں۔ آپ کو اس انسٹی ٹیوٹ میں مدرس مقرر
کیا گیا۔
سن 1412ھ میں حرم مکی میں امامت وخطابت کے لیے آپ کے تقرر کے سلسلے
میں خادم حرمین شریفین مرحوم شاہ عبدالملک فہد بن عبدالعزیز آل سعود نے فرمان جاری
کیا۔ اور اس کے بعد سے اب تک آپ اس مقدس منصب پر فائز ہیں۔ حرم مکی میں منصب امامت
پر فائز ہونے سے قبل شیخ سعود دارالحکومت ریاض کی ایک مسجد میں امامت کے فرائض
انجام دیتے تھے۔ تاہم ریاض بھر کے ائمہ کرام میں شیخ سعود اپنی مسحور کن اور رقت
آمیز تلاوت کے سبب انفرادی پہچان رکھتے تھے۔
حرم مکی میں منصب امامت پر فائز
ہونے کے ایک برس بعد سن 1413ہجری میں ایک اورشاہی فرمان جاری ہوا جس کی رو سے شیخ
سعود نے مسجد حرام میں مسند درس وتدریس کو زینت بخشی۔
حال میں شیخ سعود بن
ابراہیم حرم مکی میں امامت وخطابت کے فرائض کے ساتھ ام القری یونیورسٹی کے شریعہ
فیکلٹی میں استاد فقہ کی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
قرآن کریم سے آپ کا
لگاو
شیخ سعود کا عالم اسلام کے مایہ ناز قراءمیں شمار ہوتا ہے، آپ کی
آواز میں درد وسوز ہے ، آپ قرآن کریم کو حفص کی روایت کے مطابق پڑھتے
ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ تمام اکابرین امت اسلام کی تعلیمات پرنہایت مضبوطی
سے عمل پیرا ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ وقت کے ضیاع سے بچنے کی ہمیشہ تلقین
کرتے ہیں تاکہ امت اسلامیہ کی نسلیں اپنے وقت کو صحیح اور اسلامی خطوط پر گزارکر
دنیا میں اسلام کے پرچم کو بلندکرسکیں۔ شیخ شریم بھی ہمارے ان ہی اکابرین امت میں
سے ہیں جنہوں نے وقت کی قدر کی ویسے ہی جیسے اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔
شیخ
اپنے بارے میں خود کہتے ہیں کہ آپ نے نوجوانی کی عمر میں وقت ضائع نہیں کیا۔ آپ کے
بقول ‘آپ نے راستے میں ٹریفک سگنل کے وقفوں پر گزرنے والے ان مختصر اوقات کو بھی آپ
نے قرآن پاک کے حفظ میں استعمال کیا، آپ کے مطابق آپ نے ٹریفک سگنل کے ان اوقات میں
سورہ نساءحفظ کی ہے۔
تصنیفی وتالیفی خدمات
آپ کے قلم سے دینی
موضوعات پر 13 سے زائد قابل قدر کتابیں نکلی ہیں، حرم مکی میں دیئے گئے دروس
پرمشتمل 5 مجموعوں کے علاوہ حرم مکی کے منبرومحراب سے پیش کئے گئے آپ کے خطبات کے
متعدد مجموعے منظرعام پر آئے جو قرآن وحدیث کی نورانی ہدایتوں پر مشتمل
ہیں۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔