YOUR INFO

Saturday, 23 February 2013

شیخ الإسلام محمد بن عبد الوہاب نجدی رحمہ اللہ

0 comments
شیخ الإسلام محمد بن عبد الوہاب نجدی رحمہ اللہ
بارہویں صدی ہجری میں عالم اسلام کا زوال وانحطاط اپنی حدکو پہونچ چکا تھا، مسلمان ہراعتبارسے پستی اور تخلف کا شکارتھے، اورافسوسناک بات یہ ہے کہ سیاسی،ثقافتی،اخلاقی اور علمی انحطاط کے ساتھ ساتھ دینی اعتبارسے بھی یہ سخت زبوں حالی کاشکارتھے، دین کی گرفت نہ صرف یہ کہ مسلمانوں پرڈھیلی پڑچکی تھی بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ دین ان کی زندگی سے پورے طور پر نکل چکا تھا، اورایک غیر مسلم امریکی اہل قلم اسٹارڈ کے مطابق صورت حال یہ ہوگئی تھی کہ:
’’تصوف کے طفلانہ توہمات کی کثرت نے خالص اسلامی توحید کو ڈھک لیاتھا،مسجدیں ویران اورسنسان پڑی تھیں، جاہل عوام ان سے بھاگتے تھے اورتعویذ، گنڈے اورمالامیں پھنس کر گندے فقیروں اور دیوانے درویشوں پراعتقاد رکھتے اور بزرگوں کے مزاروں پرجاتے جن کی پرستش بارگاہ ایزدی کے شفیع اورولی کے طورپرکی جاتی تھی، کیوں کہ ان جاہلوں کا خیال تھا کہ خداکی برتری کے باعث وہ اس کی اطاعت بلاواسطہ نہیں کرسکتے، قرآن کریم کی تعلیمات نہ صرف پس پشت ڈال دی گئی تھی بلکہ اس کی خلاف ورزی بھی کی جاتی تھی...........یہاں تک کہ مقامات مقدسہ (مکہ ومدینہ) بداعمالیوں کا مرکز بن گئے تھے اورحج جوفرائض میں داخل تھا بدعات کی وجہ سے حقیرہوگیا تھا، فی الجملہ اسلام کی جان نکل چکی تھی.........اگر محمد(ﷺ) پھردنیا میں آتے تووہ اپنے پیرؤں کے ارتداد اوربت پرستی پربیزاری کااظہار فرماتے‘‘۔
(The New World Of Islam P.25-36 بحوالہ ’’ایک مظلوم اوربدنام مصلح ‘‘،از:مولانا مسعود عالم ندوی)
پوری دنیاکے مسلمانوں کی بات توجانے دیجئے خودجزیرۃ العرب جہاں نبی کریم ﷺ کی بعثت ہوئی، جہاں وحی کانزول ہوا، جسے صحابہ کرام کی مقدس جماعت کا مسکن ہونے کاشرف حاصل ہے ، جہاں ایمان کی ایسی قندیلیں روشن ہوئیں کہ ان کی شعاؤں سے پوری دنیا بقعۂ نوربن گئی اورکفروشرک کی تاریکیاں چھنٹ گئی، جہاں سے وہ صالح انقلاب بر پا ہوا جس نے عرب کے بدّؤں کو تہذیب و تمدن سے آشنا کیا، اسی خطۂ ارض سے پوری دنیا میں توحید کا غلغلہ بلندہوا، یہیں شرک اور اس کے مظاہر سے قولی وعملی برأت کاظہور ہوااورپھردیکھتے دیکھتے اسلام کا بول بالا مشرق سے مغرب تک اورشمال سے جنوب تک ہرخطۂ ارض پرہوگیا،اسی جزیرۃ العرب میں خالص،صحیح اورسچا اسلام اجنبی اور نامانوس ہوگیا ،اب وہاں توحید کی جگہ شرک اورقبرپرستی کازورتھا، اللہ واحد کے بجائے دردر پرمسلمانوں کی پیشانیاں خم ہورہی تھیں، اصحاب القبور،ولیوں بزرگوں سے استغاثہ واستعانت کا سلسلہ تو جاری ہی تھا درختوں اورپتھروں تک کو مقدس مان کران سے مرادیں طلب کی جاتی تھیں، عقیدہ کے فساد و بگاڑ کے ساتھ عملی طور پر بھی مسلمان گمراہی کا شکار تھے، ان میں اخلاقی گراوٹ بھی عام ہوچکی تھی اورقتل وغارت گری ،جاہلانہ عصبیت، لوٹ کھسوٹ اوربدکاری و بے راہ روی جیسی معاشرتی برائیوں سے پورا جزیرۂ عرب بدبو دارہوچکاتھا، ان پرآشوب حالات میں عالم اسلام خصوصاً جزیرۃ العرب پراللہ کافیضان ہوا، اورشیخ الاسلام محمدبن عبدالوہاب تیمی نجدیؔ رحمہ اللہ نے نجدکے’ عیُیَیْنَہ‘‘نامی بستی میں ایک علمی خانوادہ کے اندر ۱۱۱۵ھ مطابق ۱۷۰۳ء میں آنکھیں کھولیں،اورسن شعورکو پہونچنے کے بعدتحصیل علم میں لگ گئے، اپنے والد شیخ عبدالوہاب سے جونجدکے علماء میں ممتاز تھے کسب فیض کیا اورمزید علم کی تلاش میں حجاز کا رخ کیا اورمدینۃ الرسول پہونچ کر وہاں کے علماء ومشائخ سے حدیث کا درس لیا اورپھر مزید علمی تشنگی بجھانے کے لئے بصرہ کاقصدکیا اور وہاں پہونچ کر حدیث وادب میں مزید مہارت پیداکی، اور اس کے بعدآپ اپنے علاقہ نجدمیں واپس آکر دعوت وتبلیغ میں مصروف ہوئے۔
شیخ الاسلام محمدبن عبدالوہاب نجدی رحمہ اللہ بچپن ہی سے امربالمعروف اورنہی عن المنکر کے جذبات سے سرشارتھے اورجہاں بھی وہ خلاف شرع کوئی بات دیکھتے برملا ٹوکتے اورنکیرکرتے، مدینہ منورہ اوربصرہ کے زمانۂ طالب علمی ہی سے آپ نے شرک وبدعات کے خلاف محاذ کھول رکھاتھا جس کے نتیجہ میں انھیں تکلیفیں جھیلنا پڑیں بلکہ بصرہ سے نکلنے کا سبب بھی ان کا یہی جذبۂ دعوت وارشاد ہی بنا۔
نجدواپس آنے کے بعد آپ نے شرک وبدعات کے استیصال کا عزم مصمم کیا، توحید کی دعوت عام کی ،شرک اوراس کے مفاسد کا برملا بیان کیا، غیراللہ کی عبادت اورقبرپرسجدہ کرنے سے منع کیا، اسلامی اخلاق کوعام کرنے کی کوشش کی، پھرکیاتھا مخالفتوں کاسیلاب ا مڈ پڑا، پرائے تو تھے ہی خود اپنے بھی در پئے آزارہوگئے، باپ نے بھی سرد مہری دکھائی، ایذارسانیوں کا سلسلہ شروع ہوا، مگرشیخ نے ان ناموافق حالات کی قطعا پروا نہ کی اورصبروعزیمت کا پہاڑ بن کر توحید خالص کی اشاعت میں مصروف رہے،دروس کا سلسلہ چلتا رہا، وعظ کی مجلسیں منعقد ہوتی رہیں اورپھرآہستہ آہستہ آپ کی دعوت کے ثمرات ظاہر ہوناشروع ہوئے،کچھ لوگ آپ کی دعوت سے متاثرہوکر آپ کے پُرجوش معاون بنے،پھراصلاح و دعوت کی اس تحریک کووسعت دینے کے مقصد سے شیخ ’عینیہ‘ تشریف لے گئے اور وہاں کے امیرکو اپنی دعوت سے متعارف کرایا، امیر نے اولاشیخ کی تکریم کی اور آپ کو اپنے تعاون کی یقین دہانی کرائی،مگر کچھ دنوں بعد علاقہ کی بعض بڑی طاقتوں کے دباؤ کے نتیجہ میں دست تعاون کھینچ لیا،شیخ ’عیینہ‘ سے’ درعیہ‘ پہونچے اوربالآخر درعیہ کے امیرمحمد بن سعود اوران کے اہل خاندان کی قسمت نے یاوری کی اورانھوں نے شیخ کا پر تپاک خیر مقدم کیا اور آپ کی بھر پور تکریم اور حوصلہ افزائی کی نیز مکمل حمایت وتائید کا اعلان کیا ،اس کے بعدشیخ محمدبن عبدالوہاب نجدی رحمہ اللہ نے امیر محمد بن سعود اور ان کی وفات کے بعد ان کے جانشین امیر عبدالعزیز بن محمد بن سعود کے تعاون سے دعوت اوراصلاح کے مشن کو پوری کامیابی کے ساتھ آگے بڑھایا اورآپ کی پچاس سالہ جدوجہد سے نہ صرف جزیرۃ العرب بلکہ پورا عالم اسلام دوبارہ صحیح اورخالص اسلام سے روشناس ہوگیا۔فجزاہ اللہ خیراً عن الاسلام والمسلمین أحسن الجزاء۔
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب نجدی رحمہ اللہ نے عقیدہ وعمل کی اصلاح کی خاطر جس تحریک کا آغاز کیاتھا اس کوکامیابی سے ہم کنار کرنے کے لئے تمام ممکنہ وسائل اختیار کئے،زبانی وعظ وتبلیغ اوردروس کے ساتھ آپ نے قلم کابھی سہارالیا اورامیر محمدبن سعود کی معیت میں جہاد بالسیف کی سعادت بھی حاصل کی اورشرک اوراس کے مظاہر کے خاتمہ کے لئے قوت وطاقت کابرملا استعمال کیا۔
شیخ الاسلام محمدبن عبدالوہاب نجدی رحمہ اللہ کی تحریریں دیکھنے سے اندازہ ہوتاہے کہ ان کا رہوارقلم بڑاتیز تھا اورانھوں نے عقائد، حدیث،فقہ، تفسیراورسیرت ہرموضوع پر لکھا ہے اورخوب لکھا ہے، چنانچہ جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ ریاض نے چودہویں صدی ہجری کے اختتام پرشیخ الاسلام کی شخصیت اور تجدیدی کارناموں سے دنیا کو آگاہ کرنے کے مقصد سے ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیاتھا، اس موقعہ پر جامعۃ الامام نے شیخ کی تمام تصنیفات، رسالوں اورتحریروں کوفن وارایک ساتھ شائع کرنے کا اہتمام کیا تھا، چنانچہ شیخ کی چھوٹی بڑی تمام تحریریں ۱۱؍ضخیم جلدوں میں شائع ہوئی ہیں اوریہ ساری تحریریں تقریباً پانچ ہزار صفحات پر پھیلی ہیں۔
شیخ کی ان قابل قدر تحریروں اور قیمتی علمی سرمایہ اور ذخیرہ کودیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ دعوت واصلاح میں ہمہ وقت مصروف رہنے والے،ہمہ جہت مخالفتوں کا سامنا اورمختلف مصائب ومشکلات جھیلنے والے شخص کو ان کتابوں کی تحریرکا وقت اورموقعہ کب ملا ہوگا؟بلا شبہ یہ شیخ پر اللہ کابے پایاں فضل ہے کہ اس کی توفیق سے انھوں نے امت کے لئے یہ قیمتی علمی ودعوتی سرمایہ فراہم کیا اور سلف صالح اور محدثین کے منہج کے مطابق مختلف موضوعات پرخالص کتاب وسنت کی روشنی میں معلومات کا ایسا ذخیرہ اور بیش قیمت مواد اجمع کردیا کہ رہتی دنیا تک طالبان علوم شرعیہ اور داعیان توحید اس سے بے نیاز نہ ہوسکیں گے۔
یوں تو شیخ نے عقیدہ،حدیث، تفسیر،فقہ اور سیرت کے مختلف گوشوں کو اپنے قلم کی جولان گاہ بنایا ہے لیکن ان سب میں اصلاح عقیدہ کا عنصر ہر تحریر میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے، اس مختصر مضمون میں شیخ الاسلام رحمہ اللہ کی تمام تصانیف پرنظر ڈالنا ممکن نہیں تاہم آئندہ قسط میں صرف ان کتابوں کااجمالی تعارف پیش کرنے کا ارادہ ہے جنھیں آپ نے عقائد کی اصلاح کے سلسلہ میں خصوصیت کے ساتھ علیحدہ تحریر کی ہیں، اور اس سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مضمون کے اس قسط میں شیخ کے اسلوب نگارش کے تعلق سے چندباتیں بہ طور تمہیدذکرکردی جائیں۔
شیخ الاسلام محمدبن عبدالوہاب نجدی کا اسلوب نگارش:
شیخ الاسلام رحمہ اللہ محض روایتی عالم دین نہ تھے بلکہ آپ ایک مجدد اورمصلح تھے، اللہ تعالیٰ نے تجدید دین اوراصلاح امت جیسے عظیم مقصدکے لئے آپ کو پیدا کیاتھا، اس لئے ان میں بہت ساری خوبیاں بھی ودیعت کررکھی تھیں،امت کے لئے خیرخواہی کاجذبہ آپ کے اندرکوٹ کوٹ کر بھرا تھا،آٖپ ہر قیمت پر امت کو عقیدہ و عمل کی گمراہیوں سے نجات دلانے کے خواہاں اوراسے شرک و بدعات کی آلائشوں سے پاک و صاف کرکے خالص دین میں واپس لانے کے حریص تھے ، آپ کی ہربات ،ہرعمل وحرکت اورہرتقریر و تحریرمیں یہی ناصحانہ اورمخلصانہ جذبہ نمایاں طورپرنظر آتاہے، یہی وجہ ہے آپ کی تحریریں بڑی دلپذیر،سوز میں ڈوبی ہوئی اور نہایت موثر ہیں اورباوجودیکہ ان میں زبان وبیان کی رنگینی نہیں تاہم بمصداق ؂
از دل خیزد بر دل ریزد
وہ قاری کے دل پربراہ راست اثرانداز ہوتی ہیں اورجذبۂ صادق کے ساتھ پڑھنے والے کوہدایت کا سامان فراہم کرتی ہیں۔
شیخ کی اکثر اصلاحی تحریروں میں آپ دیکھیں گے کہ انشائیہ اسلوب کے بجائے خطابی اسلوب غالب ہے، چنانچہ جگہ جگہ’’ اعلم رحمک اللہ، فتأمل رحمک اللہ،أنظر رحمک اللہ، اعلم أرشدک اللہ، ماتقول ؟ جیسے صیغے استعمال کرکے براہ راست مخاطب کے دل میں اترنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے ،بعض تحریروں سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شیخ خود قاری سے ہم کلام اور محوگفتگو ہیں،ساتھ ہی اس اندازتخاطب میں جو اپنائیت،خلوص،سوز اور درد پنہاں ہے وہ بھی اہل نظر سے مخفی نہیں ۔
شیخ چونکہ ایک مصلح اورسچے متبع کتاب وسنت تھے اس لئے ان کی تحریروں میں رطب ویابس کی آمیزش بالکل نہیں، تصنع وتکلف اورعبارت آرائی کے بجائے آپ اپنی بات بہت واضح الفاظ میں صاف صاف لکھتے ہیں اوراس پرقرآن وحدیث سے دلیل پیش فرماتے ہیں،اکثر کتابوں میں محدثین اور علماء سلف کے منہج کے مطابق آپ نے ابواب قائم کرکے صرف نصوص کتاب و سنت کے ذکر و نقل پر اکتفا کیاہے ۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ کو اللہ کی طرف سے مجتہدانہ بصیرت کا حظ وافر ملا تھا، اپنی تحریروں میں شیخ رحمہ اللہ کتاب و سنت کے نصوص سے ایسے نکتے بیان کرتے ہیں کہ متبحر اہل نظر بھی عش عش کر اٹھتے ہیں اور طریق استدلال اتنا زور دار ہوتا ہے کہ مخالفین ومعاندین تک ان کی دور رس نگاہ اور علمی پختگی کا لوہا ماننے پر مجبور ہوجاتے ہیں، یہ شیخ کے رسوخ فی العلم اور غزارت علمی کا بین ثبوت ہے۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے اپنی کتابوں اورتحریروں میں قرآن کریم اورصحیح ثابت شدہ حدیثوں ہی کو اصل مرجع قراردیاہے اوربسااوقات صحابہ وتابعین، معتمد مفسرین اور شارحین حدیث کے اقوال بھی ذکر کئے ہیں نیز امام ابن تیمیہ اوران کے شاگرد رشید علامہ ابن القیم رحمہما اللہ اور ان کے جہود و مساعی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ان کے اقوال کوجابجا نقل کرنے کا اہتمام کیاہے۔
***

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔