کیا عورت جماعت کروا سکتی ہے اور اس کے متعلق کوئی صحیح حدیث موجود ہے؟
عورت جماعت کروا سکتی ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ ام ورقہ بنت عبداللہ بن الحارث رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے:
(( وَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَزُوْرُہَا فِیْ بَیْتِہَا وَ جَعَلَ لَہَا مُؤَذِّنًا یُؤَذِّنُ لَہَا وَاَمَرَہَا أَنْ تَؤُمَّ اَہْلَ دَارِہَا قَالَ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ فَأَنَا رَأَیْتُ مُؤَذِّنَہَا شَیْخًا کَبِیْرًا ))
[أبوداوٗد، باب إمامۃ النساء (۵۹۲)، قال الألبانی حسن]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر میں زیارت کے لیے جاتے تھے اور آپ نے اس کے لیے ایک مؤذن مقرر کر دیا جو اس کے لیے اذان کہتا اور آپ نے ام ورقہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کی امامت کرائے۔ عبدالرحمن بن خلاد انصاری کہتے ہیں میں نے اس کے مؤذن کو دیکھا وہ بوڑھا آدمی تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (۳/۸۹، ح : ۱۶۷۶) اور امام ابن الجارود (۳۳۳) نے صحیح قرار دیا ہے اور علامہ نیموی حنفی نے آثار السنن (۵۱۳) میں اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے۔
بعض لوگوں نے اس کی سند پر اعتراض کرتے ہوئے عبدالرحمن بن خلاد کو مجہول قرار دیا ہے، لیکن ابن خزیمہ اور ابن الجارود نے اس کی حدیث کی تصحیح کر کے توثیق کردی ہے، اسی طرح ابن حبان نے بھی اس کی توثیق کی ہے، لہٰذا اس کی جہالت ختم ہو جاتی ہے اور لیلیٰ بنت مالک نے اس کی متابعت بھی کر رکھی ہے۔
عورت کی امامت کے حوالے سے یہ بھی یاد رہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا گھر کی خواتین کو ان کے درمیان کھڑے ہو کر فرض نماز کی امامت کرواتی تھیں۔
[عبد الرزاق (۵۰۸۶)، بیھقی (۳/۱۳۱، ح : ۵۳۵۵)، آثار السنن (۵۱۴)، ابن أبی شیبۃ (۲/۸۹)]
ظفر احمد تھانوی نے اعلاء السنن (۴/۲۴۳) میں اس کی سند کو صحیح اور حسن قرار دیا ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے صف کے درمیان میں کھڑے ہو کر عصر کی نماز عورتوں کو پڑھائی تھی۔ [عبدالرزاق (۵۰۸۲)، الأوسط لابن المنذر (۴/۲۲۷) ابن أبی شیبۃ (۲/۸۸)، بیھقی (۳/۱۳۱، ح : ۵۳۵۷)]
بعض لوگ عورتوں کی امامت کے قائل نہیں ہیں اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی یہ روایت پیش کرتے ہیں:
(( لَا خَیْرَ فیْ جَمَاعَۃِ النِّسَائِ اِلَّا فِیْ مَسْجِدٍ اَوْ فِیْ جَنَازَۃِ قَتِیْلٍ )) [طبرانی أوسط (۹۳۰۵)، مسند أحمد (۶/۶۶، ح : ۲۴۸۸۰)]
’’مسجد اور کسی شہید کے جنازہ کے علاوہ عورتوں کی جماعت میں خیر نہیں ہے۔‘‘
اس کی سند میں عبداللہ بن لہیعہ مختلط و مدلس ہے اور اس کے قدیم شاگردوں نے اس سے یہ روایت بیان نہیں کی۔ یہ روایت الوازع بن نافع کی سند سے طبرانی اوسط (۸/۶۴،ح : ۷۱۲۶) اور طبرانی کبیر (۱۲/۳۱۷) میںبھی موجود ہے لیکن الوازع بن نافع متروک راوی ہے۔ لہٰذا عورت کی جماعت کی ممانعت پر کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے۔
عورت اگر عورتوں کی جماعت کروانا چاہے تو درمیان میں کھڑی ہو کر نماز پڑھا سکتی ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔